- شمولیت
- نومبر 14، 2018
- پیغامات
- 309
- ری ایکشن اسکور
- 48
- پوائنٹ
- 79
(( رسول اللہ ﷺ کی عادات و خصائل ))
(( حافظ محمد فیاض الیاس الأثری ، ریسرچ فیلو: دارالمعارف لاہور ، رفیق کار:دائرہ معارف سیرت ))
حصہ:1، شجاعت و بہادری کا مفہوم ومطلب :
شجاعت و بہادری ایسی باکمال اور عظیم خوبی ہے جس کے بغیر کوئی بھی قائدو رہبر کامیاب نہیں ہو سکتا۔ جرأت و بہادری کے بغیر نہ تو کوئی اپنے مد مقابل کو پچھاڑ سکتا ہے اور نہ اپنے ہدف کو پا سکتا ہے۔ مقصد جس قدر عظیم اور اہم ہوتا ہے، قدم قدم پر اسی قدر شجاعت و جوانمردی کی ضرورت پیش آتی ہے۔
نوع انسانی میں سب سے بلند اور عظیم الشان ہدف انبیاء و رسل علیہم السلام کا تھا، اس لیے وہ تمام انسانوں سے بڑھ کر شجاع اور دلیر تھے۔ اس عظیم وصف کی بدولت وہ بے سرو سامانی کے عالم میں وقت کی طاقتوں سے ٹکرا گئے۔نہ کسی کی ملامت کو خاطر میں لائے اور نہ کسی سے مرعوب ہوئے۔ انھوں نے بلا خوف و خطر وہی کیا جو انھیں حکم ملا۔
رسول اللہ ﷺ چونکہ سب سے عظیم مشن پر گامزن تھے، اس لیے آپ تمام انسانیت سے بڑھ کر شجاعت و بہادری اور جرأت و دلیری سے متصف تھے۔ ذیل میں آپ کی اسی خوبی کے بارے میں رقم کیا جا رہا ہے۔
شجاعت کا مفہوم :
شجاعت کا لفظ دلیری، بہادری،جرأ ت اور جوانمردی کے ہم معنی ہے، جبکہ اصطلاحاً شجاعت کا مطلب ہے: ایسے امور اختیار کرنے پر صبرو ثبات سے قائم رہنا جن کا حاصل ہونا یا جن سے بچنا نفع بخش ہو۔شجاعت اقوال وافعال دونوں طرح کے امور میں ہوتی ہے۔(سعید القحطانی ، فقہ الدعو فی صحیح البخاری:249/1)*
دوسری تعریف یہ کی گئی ہے:بوقت ِ ضرورت باعثِ ہلاکت اور ناخوشگوار امور میں بھی کود پڑنا شجاعت ہے۔ اسی طرح موت کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے بھیانک اور خوفناک مواقع پر ثابت قدم رہنا اور موت سے بالکل نہ گھبرانا بھی شجاعت ہے۔ (نضرۃ النعیم:2322/6))
شجاعت کی جامع اور مختصر تعریف یہ ہے:''الشُّجَاعَۃُ صَبْرُ سَاعَۃٍ'' (ابن الجوزی، ذم الہوی، ص:١٤٣) موقع پر ڈٹ جانا شجاعت ہے۔
ہر طرح کے مواقع پر بے خوف و خطر ثابت قدمی اختیار کرنا شجاعت و بہادری کہلاتا ہے۔ اس کے بغیر آدمی ڈرپوک تصور کیا جاتا ہے۔ انبیاء ورسل علیہم السلام جیسی پاکباز ہستیاں اس عیب سے پاک ہوتی ہیں۔
عصر حاضر میں امت مسلمہ شجاعت و بہادری کے اسلامی تصور میں کئی طرح کی کتاہیوں کا شکار ہے ، مسلمانوں میں ایمان وعقیدہ ، اتحاد و اتفاق اور ایمانی غیرت و حمیت کے فقدان ہے ، اسی کے باعث اہل اسلام انفرادی واجتماعی اور ریاستی وعالمی سطح پر جرات ودلیری اور شجاعت وجانثاری کا اس طرح مظاہرہ نہیں کر پا رہے ، جو اب مطلوب اور ناگزیر ہے ، اسی لیے استعمار واغیار اپنے ناپاک منصوبوں میں کامیاب ہوتا جا رہا ہے ،
جدید فکر وتہذیب مذہب بیزاری اور دنیا پرستی کی فکر وعمل پر گامزن ہے ، اس لیے ان کے ہاں حقیقی شجاعت و بہادری اور اصل جرات ودلیری کا تصور بھی مفقود ہے ، دنیا سے محبت اور شجاعت و جانثاری دو متضاد چیزیں ہیں ، اسی لیے عالمی استعماری قوتیں تمام طرح کے اسباب و ٹیکنالوجی ہونے کے باوجود عسکری میدان میں وہ کامیابی حاصل نہیں کر سکی جو ان کا خواب تھا ،
""""""""''''''"""""""""""'''''''''''''''"""""""""""""
عصر حاضر میں سیرت طیبہ سے ہمہ گیر رہنمائی اور سیرت النبی سے فکری وعملی مضبوط وابستگی بہت اہمیت وافادیت کی حامل ہے
(( حافظ محمد فیاض الیاس الأثری ، ریسرچ فیلو: دارالمعارف لاہور ، رفیق کار:دائرہ معارف سیرت ))
حصہ:1، شجاعت و بہادری کا مفہوم ومطلب :
شجاعت و بہادری ایسی باکمال اور عظیم خوبی ہے جس کے بغیر کوئی بھی قائدو رہبر کامیاب نہیں ہو سکتا۔ جرأت و بہادری کے بغیر نہ تو کوئی اپنے مد مقابل کو پچھاڑ سکتا ہے اور نہ اپنے ہدف کو پا سکتا ہے۔ مقصد جس قدر عظیم اور اہم ہوتا ہے، قدم قدم پر اسی قدر شجاعت و جوانمردی کی ضرورت پیش آتی ہے۔
نوع انسانی میں سب سے بلند اور عظیم الشان ہدف انبیاء و رسل علیہم السلام کا تھا، اس لیے وہ تمام انسانوں سے بڑھ کر شجاع اور دلیر تھے۔ اس عظیم وصف کی بدولت وہ بے سرو سامانی کے عالم میں وقت کی طاقتوں سے ٹکرا گئے۔نہ کسی کی ملامت کو خاطر میں لائے اور نہ کسی سے مرعوب ہوئے۔ انھوں نے بلا خوف و خطر وہی کیا جو انھیں حکم ملا۔
رسول اللہ ﷺ چونکہ سب سے عظیم مشن پر گامزن تھے، اس لیے آپ تمام انسانیت سے بڑھ کر شجاعت و بہادری اور جرأت و دلیری سے متصف تھے۔ ذیل میں آپ کی اسی خوبی کے بارے میں رقم کیا جا رہا ہے۔
شجاعت کا مفہوم :
شجاعت کا لفظ دلیری، بہادری،جرأ ت اور جوانمردی کے ہم معنی ہے، جبکہ اصطلاحاً شجاعت کا مطلب ہے: ایسے امور اختیار کرنے پر صبرو ثبات سے قائم رہنا جن کا حاصل ہونا یا جن سے بچنا نفع بخش ہو۔شجاعت اقوال وافعال دونوں طرح کے امور میں ہوتی ہے۔(سعید القحطانی ، فقہ الدعو فی صحیح البخاری:249/1)*
دوسری تعریف یہ کی گئی ہے:بوقت ِ ضرورت باعثِ ہلاکت اور ناخوشگوار امور میں بھی کود پڑنا شجاعت ہے۔ اسی طرح موت کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے بھیانک اور خوفناک مواقع پر ثابت قدم رہنا اور موت سے بالکل نہ گھبرانا بھی شجاعت ہے۔ (نضرۃ النعیم:2322/6))
شجاعت کی جامع اور مختصر تعریف یہ ہے:''الشُّجَاعَۃُ صَبْرُ سَاعَۃٍ'' (ابن الجوزی، ذم الہوی، ص:١٤٣) موقع پر ڈٹ جانا شجاعت ہے۔
ہر طرح کے مواقع پر بے خوف و خطر ثابت قدمی اختیار کرنا شجاعت و بہادری کہلاتا ہے۔ اس کے بغیر آدمی ڈرپوک تصور کیا جاتا ہے۔ انبیاء ورسل علیہم السلام جیسی پاکباز ہستیاں اس عیب سے پاک ہوتی ہیں۔
عصر حاضر میں امت مسلمہ شجاعت و بہادری کے اسلامی تصور میں کئی طرح کی کتاہیوں کا شکار ہے ، مسلمانوں میں ایمان وعقیدہ ، اتحاد و اتفاق اور ایمانی غیرت و حمیت کے فقدان ہے ، اسی کے باعث اہل اسلام انفرادی واجتماعی اور ریاستی وعالمی سطح پر جرات ودلیری اور شجاعت وجانثاری کا اس طرح مظاہرہ نہیں کر پا رہے ، جو اب مطلوب اور ناگزیر ہے ، اسی لیے استعمار واغیار اپنے ناپاک منصوبوں میں کامیاب ہوتا جا رہا ہے ،
جدید فکر وتہذیب مذہب بیزاری اور دنیا پرستی کی فکر وعمل پر گامزن ہے ، اس لیے ان کے ہاں حقیقی شجاعت و بہادری اور اصل جرات ودلیری کا تصور بھی مفقود ہے ، دنیا سے محبت اور شجاعت و جانثاری دو متضاد چیزیں ہیں ، اسی لیے عالمی استعماری قوتیں تمام طرح کے اسباب و ٹیکنالوجی ہونے کے باوجود عسکری میدان میں وہ کامیابی حاصل نہیں کر سکی جو ان کا خواب تھا ،
""""""""''''''"""""""""""'''''''''''''''"""""""""""""
عصر حاضر میں سیرت طیبہ سے ہمہ گیر رہنمائی اور سیرت النبی سے فکری وعملی مضبوط وابستگی بہت اہمیت وافادیت کی حامل ہے