- شمولیت
- نومبر 14، 2018
- پیغامات
- 309
- ری ایکشن اسکور
- 48
- پوائنٹ
- 79
(( رسول اللہ ﷺ کی عادات و خصائل ))
(( حافظ محمد فیاض الیاس الأثری ، ریسرچ فیلو: دارالمعارف لاہور ، رفیق کار:دائرہ معارف سیرت ))
حصہ:2، نبوت ورسالت اور شجاعت و بہادری:
تمام انبیائے کرام علیہم السلام اوصاف وخصائل میں بلند ترین مقام و مرتبہ پر فائز ہوتے ہیں ، جرات ودلیری بھی عمدہ عادات و اطوار میں شامل ہے ، تمام پیغمبر شجاعت وجانثاری میں بھی بے مثل عمل وکردار کے حامل ہوتے ہیں ، شجاعت و بہادری شیوہ پیغمبری اور حکم ربانی ہے ،
بہ تقاضائے بشریت کسی چیز سے وقتی طور پر خائف ہونا ایک طبعی امر ہے ، جو کسی صورت بھی قابل ملامت نہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر طاری ہونے والی کیفیت اسی قبیل سے تھی جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:( فَاَوْجَسَ فِیْ نَفْسِہٖ خِیْفَۃً مُّوْسٰی)(طہٰ:67/20) ''موسیٰ نے اپنے دل میں خوف محسوس کیا۔''
معلوم ہوا کہ انبیاء و رسل علیہم السلام بھی بشریت کے طبعی تقاضوں سے بالاتر نہیں ہوتے ، لہٰذا دہشت ناک منظر دیکھ کر طبعی طو رپر خوف محسوس کرنا نہ تو عصمت انبیاء کے منافی ہے، نہ کمال نبوت کے لیے ضرر رساں ہے اور نہ اس سے شجاعت و بہادری کے معاملے میں ان پر حرف آتا ہے۔
تمام انبیاء ورسل علیہم السلام نے اپنے اپنے وقت کے جابر و غاصب حکمرانوں اور مقتدر طاقتوں کو دعوتِ دین دی، انھیں اپنے ماتحت لوگوں پر ظلم و زیادتی سے باز رہنے کی تلقین کی اور ربانی اوامر و نواہی کی پابندی کا درس دیا۔ یہ سب ان عظیم ہستیوں کی بے مثل شجاعت و بہادری کی بدولت ہی تھا۔ خاص طور پر حضرت نوح، حضرت موسیٰ، حضرت ابراہیم خلیل اللہ اور حضرت محمد مصطفی ﷺ ،
یہ عظیم ہستیاں زندگی بھر جرأت و شجاعت کے جذبے سے بہرہ ور رہیں۔ ان کی مبارک زندگیوں میں شجاعت کے عدیم ا لنظیر واقعات دیکھنے میں آتے ہیں۔ قرآن کریم میں متعدد مقامات پر مختلف انبیائے کرام علیہم السلام کی شجاعت و بہادری کا تذکرہ ملتا ہے۔
عصر حاضر شجاع وبہادر کی امت ہر میدان میں ناکامی سے دوچار ہے ، اس کی بنیادی وجہ ہے : کمزور ایمان وعقیدہ ، کم ہمتی اور بزدلی ، عدم اتحاد اور ایمانی غیرت و حمیت کا فقدان ، اس کا اندازہ قرآن کریم کی توہین پر اسلامی ممالک کے ردعمل سے لگایا جا سکتا ہے ، انفرادی واجتماعی اور ملکی و عالمی سطح پر اہل اسلام نے دشمنان دین کو کیا پیغام دیا ہے ،
اخلاقی و قانونی اور سیاسی طور پر کوئی مؤثر اقدام کیا گیا ہوا ، کتنے مسلمان حکمران نے الفاظ کی حد تک کی اہل اسلام کے جذبات واحساسات کی حقیقی ترجمانی کی ہے ، سوائے افسوس وندامت کے کچھ بھی نہیں ،
جدید تہذیب والحاد کے حاملین اس قدر بذل اور بد اخلاق و کردار ہیں کہ توہین قرآن کرنے والے کو مکمل تحفظ فراہم کیا جاتا ہے ، ریاستی سطح پر اس کی حمایت و تائید کی جاتی ہے ، دوسری طرف جرم شنیع کے مرتکب پر صرف پتھر پھینکنے والے کو گرفتار کرلیا جاتا ہے ، یہ ہے انسانیت کے امن وامان کا راگ الاپنے والی استعماری طاقتوں کی حقیقت اور ان کا مکروہ چہرہ ،
کتنے غیر اسلامی ممالک نے اس بھیانک عمل کی زبانی ہی مذمت کی ہے ، ان ناقابت اندیشوں کا جواب ایمانی غیرت و حمیت اور دینی جرات ودلیری کے بغیر ناممکن ہے ،
""""""""''''''"""""""""""'''''''''''''''"""""""""""""
عصر حاضر میں سیرت طیبہ سے ہمہ گیر رہنمائی اور سیرت النبی سے فکری وعملی مضبوط وابستگی بہت اہمیت وافادیت کی حامل ہے
(( حافظ محمد فیاض الیاس الأثری ، ریسرچ فیلو: دارالمعارف لاہور ، رفیق کار:دائرہ معارف سیرت ))
حصہ:2، نبوت ورسالت اور شجاعت و بہادری:
تمام انبیائے کرام علیہم السلام اوصاف وخصائل میں بلند ترین مقام و مرتبہ پر فائز ہوتے ہیں ، جرات ودلیری بھی عمدہ عادات و اطوار میں شامل ہے ، تمام پیغمبر شجاعت وجانثاری میں بھی بے مثل عمل وکردار کے حامل ہوتے ہیں ، شجاعت و بہادری شیوہ پیغمبری اور حکم ربانی ہے ،
بہ تقاضائے بشریت کسی چیز سے وقتی طور پر خائف ہونا ایک طبعی امر ہے ، جو کسی صورت بھی قابل ملامت نہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر طاری ہونے والی کیفیت اسی قبیل سے تھی جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:( فَاَوْجَسَ فِیْ نَفْسِہٖ خِیْفَۃً مُّوْسٰی)(طہٰ:67/20) ''موسیٰ نے اپنے دل میں خوف محسوس کیا۔''
معلوم ہوا کہ انبیاء و رسل علیہم السلام بھی بشریت کے طبعی تقاضوں سے بالاتر نہیں ہوتے ، لہٰذا دہشت ناک منظر دیکھ کر طبعی طو رپر خوف محسوس کرنا نہ تو عصمت انبیاء کے منافی ہے، نہ کمال نبوت کے لیے ضرر رساں ہے اور نہ اس سے شجاعت و بہادری کے معاملے میں ان پر حرف آتا ہے۔
تمام انبیاء ورسل علیہم السلام نے اپنے اپنے وقت کے جابر و غاصب حکمرانوں اور مقتدر طاقتوں کو دعوتِ دین دی، انھیں اپنے ماتحت لوگوں پر ظلم و زیادتی سے باز رہنے کی تلقین کی اور ربانی اوامر و نواہی کی پابندی کا درس دیا۔ یہ سب ان عظیم ہستیوں کی بے مثل شجاعت و بہادری کی بدولت ہی تھا۔ خاص طور پر حضرت نوح، حضرت موسیٰ، حضرت ابراہیم خلیل اللہ اور حضرت محمد مصطفی ﷺ ،
یہ عظیم ہستیاں زندگی بھر جرأت و شجاعت کے جذبے سے بہرہ ور رہیں۔ ان کی مبارک زندگیوں میں شجاعت کے عدیم ا لنظیر واقعات دیکھنے میں آتے ہیں۔ قرآن کریم میں متعدد مقامات پر مختلف انبیائے کرام علیہم السلام کی شجاعت و بہادری کا تذکرہ ملتا ہے۔
عصر حاضر شجاع وبہادر کی امت ہر میدان میں ناکامی سے دوچار ہے ، اس کی بنیادی وجہ ہے : کمزور ایمان وعقیدہ ، کم ہمتی اور بزدلی ، عدم اتحاد اور ایمانی غیرت و حمیت کا فقدان ، اس کا اندازہ قرآن کریم کی توہین پر اسلامی ممالک کے ردعمل سے لگایا جا سکتا ہے ، انفرادی واجتماعی اور ملکی و عالمی سطح پر اہل اسلام نے دشمنان دین کو کیا پیغام دیا ہے ،
اخلاقی و قانونی اور سیاسی طور پر کوئی مؤثر اقدام کیا گیا ہوا ، کتنے مسلمان حکمران نے الفاظ کی حد تک کی اہل اسلام کے جذبات واحساسات کی حقیقی ترجمانی کی ہے ، سوائے افسوس وندامت کے کچھ بھی نہیں ،
جدید تہذیب والحاد کے حاملین اس قدر بذل اور بد اخلاق و کردار ہیں کہ توہین قرآن کرنے والے کو مکمل تحفظ فراہم کیا جاتا ہے ، ریاستی سطح پر اس کی حمایت و تائید کی جاتی ہے ، دوسری طرف جرم شنیع کے مرتکب پر صرف پتھر پھینکنے والے کو گرفتار کرلیا جاتا ہے ، یہ ہے انسانیت کے امن وامان کا راگ الاپنے والی استعماری طاقتوں کی حقیقت اور ان کا مکروہ چہرہ ،
کتنے غیر اسلامی ممالک نے اس بھیانک عمل کی زبانی ہی مذمت کی ہے ، ان ناقابت اندیشوں کا جواب ایمانی غیرت و حمیت اور دینی جرات ودلیری کے بغیر ناممکن ہے ،
""""""""''''''"""""""""""'''''''''''''''"""""""""""""
عصر حاضر میں سیرت طیبہ سے ہمہ گیر رہنمائی اور سیرت النبی سے فکری وعملی مضبوط وابستگی بہت اہمیت وافادیت کی حامل ہے