- شمولیت
- نومبر 14، 2018
- پیغامات
- 309
- ری ایکشن اسکور
- 48
- پوائنٹ
- 79
(( رسول اللہ ﷺ کی عادات و خصائل ))
(( حافظ محمد فیاض الیاس الأثری ، ریسرچ فیلو: دارالمعارف لاہور ، رفیق کار:دائرہ معارف سیرت ))
(حصہ:4،بعد بعثت رسول اللہ ﷺ کی شجاعت وبہادری)
دیگر انبیاء ورسل علیہم السلام کی بعثت و نبوت مخصوص زمان و مکان کے لیے تھی، مخاطبین بھی وقتی اور مخصوص تھے ، جبکہ آنحضرت ﷺ کی نبوت و رسالت آفاقی، عالمگیر اور ہمہ وقتی ہے ، اس لیے آپ کو جملہ اوصاف میں برتری سے نوازا گیا۔ ایسے ہی اوصاف میں شجاعت و بہادری بھی ہے۔
رسول اللہ ﷺ کے اس وصف کی گواہی دیتے ہوئے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:''کَانَ النَّبِیُّ أَحْسَنَ النَّاسِ، وَأَشْجَعَ النَّاسِ، وَأَجْوَدَ النَّاسِ'' (صحیح البخاری:٢٨٢٠وصحیح مسلم:٢٣٠٧) نبی کریم ﷺ پوری انسانیت سے بڑھ کر حسین و جمیل، آپ سب سے بڑھ کر بہادر و جری اور جود و سخا میں بھی سب پر فائق تھے۔
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺ کی شجاعت و بہادری پر عقیدت کے پھول نچھاور کرتے ہوئے کہتے ہیں:''وَاللّٰہِ إِذَا احْمَرَّ الْبَأْسُ نَتَّقِی بِہٖ، وَإِنَّ الشُّجَاعَ مِنَّا لَلَّذِی یُحَاذِی بِہٖ''(صحیح مسلم:١٧٧٦) اللہ کی قسم ! جب جنگ کے شعلے بھڑک اٹھتے ہم آپ کے پیچھے چھپ جایا کرتے تھے اور آپ کے شانہ بہ شانہ وہی ہوتا جو ہم میں سب سے بڑھ کر بہادر مانا جاتا تھا۔
حیدر کرار سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللّٰہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ سخت جنگ کے وقت ہم رسول اللہ ﷺ کے پیچھے چھپ کر اپنا بچاؤ کیا کرتے، دشمن کے سب سے زیادہ قریب آپ ہی ہوا کرتے تھے،(النسائی، السنن الکبریٰ:٨٥٨٥ و الحاکم، المستدرک:٢٦٨٠)
رسول اللہ ﷺ کا تمام مشرکین مکہ کو اکٹھا کر کے ''لا الٰہ الا اللہ'' کی دعوت دینا انتہائی مشکل مرحلہ تھا، لیکن آپ نے نہایت جرأت مندی سے یہ سب کچھ کر دکھایا۔ کفار کے شدید ردعمل کے باوجود آپ بالکل دل برداشتہ نہیں ہوئے، بلکہ ہر طرح کی مخالفت و عداوت خاطر میں نہ لاتے ہوئے اپنے مقصد کی طرف بڑھتے ہی گئے۔
خفیہ دعوت سے علانیہ، علانیہ سے سرِ بازار، تجارتی منڈیوں میں، اجتماع گاہوں میں، حتیٰ کہ مکہ سے باہر طائف کی وادیوں میں بھی یہ سلسلہ جاری و ساری رہا۔ ہر موقع پر اپنی شجاعت و جوانمردی نمایاں دکھائی دیتی ہے ، کسی وقت بھی آپ خوف و دہشت سے دوچار نہیں ہوئے ،
ہجرت کے بعد بھی آپ کی جرأت و بہادری کے بے شمار واقعات ہیں۔ ایک مرتبہ رات کو مدینہ کے گردو نواح میں شور سنائی دیا۔ مسلمان سمجھے کہیں دشمن حملہ نہ کرنے آیا ہو، اس لیے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اکٹھے ہو کر اس آواز کی طرف بڑھے۔ ابھی تھوڑا ہی باہر گئے تھے کہ رسول اللہ ﷺ سے ملاقات ہوئی۔ آپ اسی طرف سے واپس آ رہے تھے۔
دراصل آواز سنتے ہی آپ حضرت ابو طلحہ کا گھوڑا زین کے بغیر دوڑاتے ہوئے اس طرف نکل گئے تھے۔ آپ نے گلے میں تلوار لٹکائی ہوئی تھی۔ آپ حالات کا جائزہ لے کر واپس آ رہے تھے، چنانچہ اپنے اصحاب کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا:(( لَمْ تُرَاعُوا، لَمْ تُرَاعُوا))(صحیح البخاری:٢٩٠٨و صحیح مسلم:٢٣٠٧) ''مت گھبراؤ، پریشانی کی کوئی بات نہیں۔''
سبحان اللہ! آپ کس قدر بہادر تھے کہ شدید خوف و خطر کے عالم میں بھی بالکل نہ گھبرائے۔ رات کے وقت اکیلے ہی گھوڑا لیے حالات کا جائزہ لینے تشریف لے گئے۔ نہ کسی کو ساتھ لیا اور نہ َخود اور زرہ کا اہتمام کیا۔ اس سے بڑھ کر ہی شجاعت و بہادری کی مثال مل سکتی ہے ،
غزوہ ذات الرقاع سے واپسی پر نبی کریم ﷺ آ رام کرنے کے لیے ایک درخت کے نیچے لیٹ گے ، اسی دوران بے خبری میں ایک مشرک نے آپ پر تلوار سونت کر کہا: اب آپ کو مجھ سے کون بچائے گا؟ آپ نے بے خوف و خطر جواب دیا: ''ﷲ۔'' اتنا فرمانا تھاکہ دہشت سے اس کے ہاتھ سے تلوار گر گئی۔پھر آپ نے اسے معاف بھی فرما دیا ، (صحیح البخاری:٤١٣٦وصحیح مسلم:٨٤٣)
عصر حاضر میں اہل اسلام انفرادی واجتماعی اور ملکی و ریاستی سطح پر رسول مقبول ﷺ کی تعلیمات سے کافی دور جا چکے ہیں ، اس لیے زندگی کے تمام شعبوں میں مسائل در مسائل سے دوچار ہیں ، شجاعت وجانثاری اور جرات ودلیری مومن کا امتیازی وصف ہے ، اس میں بھی مسلمان کی حالت قابلِ رحم ہے ، دشمن اس قدر منہ زور ہو چکا ہے کہ اہل اسلام کے خلاف جو اس کا دل چاہتا ہے کرتا ہے
جدید تہذیب والحاد کے حاملین نے انسانیت کو فکر وعمل کی ایسی دلدل میں دھکیلا ہے کہ انسان دنیا کی اس عارضی زندگی ہی کو حقیقی حیات سمجھنے لگا ہے ، اسی کے لیے جینا اور اسی کے لیے مرنا اس کا مقصد حیات بن گیا ہے ، مذہب بیزار انسان آگر کسی میدان میں اپنی جان ومال بھی خرچ کرتا ہے ، تو وطن اور شہرت وناموری کے لیے ، نہ کہ حصول اجر اور رضائے الٰہی کی خاطر ، اسی لیے ان میں حقیقی اہل ایمان کی سی شجاعت وجانثاری اور جرات ودلیری کا تصور بھی نا ممکن ہے ،
""""""""''''''"""""""""""'''''''''''''''"""""""""""""
عصر حاضر میں سیرت طیبہ سے ہمہ گیر رہنمائی اور سیرت النبی سے فکری وعملی مضبوط وابستگی بہت اہمیت وافادیت کی حامل ہے
(( حافظ محمد فیاض الیاس الأثری ، ریسرچ فیلو: دارالمعارف لاہور ، رفیق کار:دائرہ معارف سیرت ))
(حصہ:4،بعد بعثت رسول اللہ ﷺ کی شجاعت وبہادری)
دیگر انبیاء ورسل علیہم السلام کی بعثت و نبوت مخصوص زمان و مکان کے لیے تھی، مخاطبین بھی وقتی اور مخصوص تھے ، جبکہ آنحضرت ﷺ کی نبوت و رسالت آفاقی، عالمگیر اور ہمہ وقتی ہے ، اس لیے آپ کو جملہ اوصاف میں برتری سے نوازا گیا۔ ایسے ہی اوصاف میں شجاعت و بہادری بھی ہے۔
رسول اللہ ﷺ کے اس وصف کی گواہی دیتے ہوئے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:''کَانَ النَّبِیُّ أَحْسَنَ النَّاسِ، وَأَشْجَعَ النَّاسِ، وَأَجْوَدَ النَّاسِ'' (صحیح البخاری:٢٨٢٠وصحیح مسلم:٢٣٠٧) نبی کریم ﷺ پوری انسانیت سے بڑھ کر حسین و جمیل، آپ سب سے بڑھ کر بہادر و جری اور جود و سخا میں بھی سب پر فائق تھے۔
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺ کی شجاعت و بہادری پر عقیدت کے پھول نچھاور کرتے ہوئے کہتے ہیں:''وَاللّٰہِ إِذَا احْمَرَّ الْبَأْسُ نَتَّقِی بِہٖ، وَإِنَّ الشُّجَاعَ مِنَّا لَلَّذِی یُحَاذِی بِہٖ''(صحیح مسلم:١٧٧٦) اللہ کی قسم ! جب جنگ کے شعلے بھڑک اٹھتے ہم آپ کے پیچھے چھپ جایا کرتے تھے اور آپ کے شانہ بہ شانہ وہی ہوتا جو ہم میں سب سے بڑھ کر بہادر مانا جاتا تھا۔
حیدر کرار سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللّٰہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ سخت جنگ کے وقت ہم رسول اللہ ﷺ کے پیچھے چھپ کر اپنا بچاؤ کیا کرتے، دشمن کے سب سے زیادہ قریب آپ ہی ہوا کرتے تھے،(النسائی، السنن الکبریٰ:٨٥٨٥ و الحاکم، المستدرک:٢٦٨٠)
رسول اللہ ﷺ کا تمام مشرکین مکہ کو اکٹھا کر کے ''لا الٰہ الا اللہ'' کی دعوت دینا انتہائی مشکل مرحلہ تھا، لیکن آپ نے نہایت جرأت مندی سے یہ سب کچھ کر دکھایا۔ کفار کے شدید ردعمل کے باوجود آپ بالکل دل برداشتہ نہیں ہوئے، بلکہ ہر طرح کی مخالفت و عداوت خاطر میں نہ لاتے ہوئے اپنے مقصد کی طرف بڑھتے ہی گئے۔
خفیہ دعوت سے علانیہ، علانیہ سے سرِ بازار، تجارتی منڈیوں میں، اجتماع گاہوں میں، حتیٰ کہ مکہ سے باہر طائف کی وادیوں میں بھی یہ سلسلہ جاری و ساری رہا۔ ہر موقع پر اپنی شجاعت و جوانمردی نمایاں دکھائی دیتی ہے ، کسی وقت بھی آپ خوف و دہشت سے دوچار نہیں ہوئے ،
ہجرت کے بعد بھی آپ کی جرأت و بہادری کے بے شمار واقعات ہیں۔ ایک مرتبہ رات کو مدینہ کے گردو نواح میں شور سنائی دیا۔ مسلمان سمجھے کہیں دشمن حملہ نہ کرنے آیا ہو، اس لیے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اکٹھے ہو کر اس آواز کی طرف بڑھے۔ ابھی تھوڑا ہی باہر گئے تھے کہ رسول اللہ ﷺ سے ملاقات ہوئی۔ آپ اسی طرف سے واپس آ رہے تھے۔
دراصل آواز سنتے ہی آپ حضرت ابو طلحہ کا گھوڑا زین کے بغیر دوڑاتے ہوئے اس طرف نکل گئے تھے۔ آپ نے گلے میں تلوار لٹکائی ہوئی تھی۔ آپ حالات کا جائزہ لے کر واپس آ رہے تھے، چنانچہ اپنے اصحاب کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا:(( لَمْ تُرَاعُوا، لَمْ تُرَاعُوا))(صحیح البخاری:٢٩٠٨و صحیح مسلم:٢٣٠٧) ''مت گھبراؤ، پریشانی کی کوئی بات نہیں۔''
سبحان اللہ! آپ کس قدر بہادر تھے کہ شدید خوف و خطر کے عالم میں بھی بالکل نہ گھبرائے۔ رات کے وقت اکیلے ہی گھوڑا لیے حالات کا جائزہ لینے تشریف لے گئے۔ نہ کسی کو ساتھ لیا اور نہ َخود اور زرہ کا اہتمام کیا۔ اس سے بڑھ کر ہی شجاعت و بہادری کی مثال مل سکتی ہے ،
غزوہ ذات الرقاع سے واپسی پر نبی کریم ﷺ آ رام کرنے کے لیے ایک درخت کے نیچے لیٹ گے ، اسی دوران بے خبری میں ایک مشرک نے آپ پر تلوار سونت کر کہا: اب آپ کو مجھ سے کون بچائے گا؟ آپ نے بے خوف و خطر جواب دیا: ''ﷲ۔'' اتنا فرمانا تھاکہ دہشت سے اس کے ہاتھ سے تلوار گر گئی۔پھر آپ نے اسے معاف بھی فرما دیا ، (صحیح البخاری:٤١٣٦وصحیح مسلم:٨٤٣)
عصر حاضر میں اہل اسلام انفرادی واجتماعی اور ملکی و ریاستی سطح پر رسول مقبول ﷺ کی تعلیمات سے کافی دور جا چکے ہیں ، اس لیے زندگی کے تمام شعبوں میں مسائل در مسائل سے دوچار ہیں ، شجاعت وجانثاری اور جرات ودلیری مومن کا امتیازی وصف ہے ، اس میں بھی مسلمان کی حالت قابلِ رحم ہے ، دشمن اس قدر منہ زور ہو چکا ہے کہ اہل اسلام کے خلاف جو اس کا دل چاہتا ہے کرتا ہے
جدید تہذیب والحاد کے حاملین نے انسانیت کو فکر وعمل کی ایسی دلدل میں دھکیلا ہے کہ انسان دنیا کی اس عارضی زندگی ہی کو حقیقی حیات سمجھنے لگا ہے ، اسی کے لیے جینا اور اسی کے لیے مرنا اس کا مقصد حیات بن گیا ہے ، مذہب بیزار انسان آگر کسی میدان میں اپنی جان ومال بھی خرچ کرتا ہے ، تو وطن اور شہرت وناموری کے لیے ، نہ کہ حصول اجر اور رضائے الٰہی کی خاطر ، اسی لیے ان میں حقیقی اہل ایمان کی سی شجاعت وجانثاری اور جرات ودلیری کا تصور بھی نا ممکن ہے ،
""""""""''''''"""""""""""'''''''''''''''"""""""""""""
عصر حاضر میں سیرت طیبہ سے ہمہ گیر رہنمائی اور سیرت النبی سے فکری وعملی مضبوط وابستگی بہت اہمیت وافادیت کی حامل ہے