• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

(قسط:44)امام الھدی ﷺ کی عادات و خصائل ((شجاعت و بہادری ، نبوی اسوہ اور جدید تہذیب والحاد)) (حصہ:5جنگ وحرب اور نبوی شجاعت و بہادری)

شمولیت
نومبر 14، 2018
پیغامات
309
ری ایکشن اسکور
48
پوائنٹ
79
(( رسول اللہ ﷺ کی عادات و خصائل ))

(( حافظ محمد فیاض الیاس الأثری ، ریسرچ فیلو: دارالمعارف لاہور ، رفیق کار:دائرہ معارف سیرت ))

حصہ:5جنگ وحرب اور نبوی شجاعت و بہادری:

♻ شجاعت ودلیری کے اظہار کا اصل مقام میدان جنگ ہوتا ہے ،۔اس حوالے سے بھی آپ کی جرات ودلیری مثالی ہے، تمام غزوات آنحضرت ﷺ کی جرأت و جواں ہمتی اور دلیری و بہادری کا بین ثبوت ہیں۔ کسی غزوے میں بھی آپ مخالفین کی افرادی قوت اور اسلحے کی کثرت سے بالکل نہیں گھبرائے۔

♻ غزوہ حنین میں مجاہدین کی تعداد سابقہ تمام غزوات سے زیادہ تھی، اس وجہ سے انھیں کامیابی بھی یقینی دکھائی دے رہی تھی۔ لیکن ایک پہاڑی درّے سے گزرتے ہوئے دشمن نے ان پر اچانک حملہ کر دیا۔ مجاہدینِ اسلام افراتفری میں منتشر ہوگئے۔ اس حال میں بھی رسول اللہ ﷺ کوہ استقامت بن کر کھڑے رہے۔

♻ آپ کے ہمراہ چند صحابہ کرام رضی اللّٰہ عنہم ہی تھے۔ آپ چھپنے کے بجائے دشمن کے تیروں کی بوچھاڑ کے نیچے بھی بآواز بلند پکارے جا رہے تھے:((أَنَا النَّبِیُّ لَا کَذِبْ، أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ ))(صحیح البخاری:٢٨٧٤) ''میں بلا شک و شبہ حقیقی نبی ہوں اور میں عبد المطلب کا فرزند ہوں۔''

♻ آپ یہ الفاظ دہراتے ہوئے چند جاں نثاروں کے ہمراہ بے خوف و خطر دشمن کی طرف بڑھتے جا رہے تھے۔ بعد میں دیگر مجاہدین بھی ساتھ آ ملے اور دشمن پسپائی پر مجبور ہو گیا۔ اس غزوے میں فتح کی بنادی وجہ آپ کی جرات واستقامت تھی،

♻ حضرت براء بن عازب رضی اللّٰہ عنہ آپ کی یہ دلیری اور بہادری بیان کرتے ہوئے کہا کرتے تھے: اس روز آپ سے بڑھ کر کوئی اور بہادر دکھائی نہ دیا۔ (صحیح البخاری:٣٠٤٢)

♻ غزوہ بدر میں نبی کریم ﷺ بنفس نفیس میدان جنگ میں موجود تھے۔ اپنا دست مبارک زمین پر رکھ کر بتا رہے تھے کہ یہاں فلاں مشرک قتل ہو گا اور یہ فلاں کی قتل گاہ ہو گی۔ پھر ویسے ہی ہوا جیسے آپ نے فرمایا تھا۔ (صحیح مسلم:١٧٧٩)

♻ حق و باطل کے اس عظیم معرکے میں آپ کی شجاعت قابل دید تھی۔ اس کی شہادت حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ یوں دیتے ہیں کہ جنگ بدر میں ہم رسول اللہ ﷺ کے ذریعے اپنا بچاؤ کرتے تھے۔ آپ ہم سب سے زیادہ دشمن کے قریب تھے۔ اس روز آپ نے سب سے زیادہ جنگی مہارت کا مظاہرہ کیا۔ مشرکین کی گیدڑ بھبکیاں سن کر آپ صرف اتنا فرماتے:((حَسْبُنَا اللّٰہُ وَنِعْمَ الوَکِیْلُ))(أحمد بن حنبل،المسند:٦٥٤ و ابن أبی شیبہ، المصنف:٣٦٦٦٦) ''ہمارے لیے ﷲ ہی کافی ہے، وہی بہترین کارساز ہے۔''

♻ دشمنانِ دین اہل ایمان کو صفحہ ہستی سے مٹانا چاہتے تھے۔ اس کے لیے ان کی آخری کوشش جنگ خندق تھی۔ اس میں عرب قبائل ہی شامل نہ تھے ، بلکہ اندرونِ مدینہ کے یہود بھی ان کے حامی تھے۔ علاوہ ازیں سب سے خطرناک دشمن منافقین تھے۔ وہ زبانوں سے زہر اگل رہے تھے۔ باتیں کر رہے تھے کہ قیصر و کسریٰ کو فتح کرنے کے خواب دیکھنے والوں کی حالت تو دیکھو، ڈر کی وجہ سے بول و براز کے لیے باہر جانا بھی مشکل ہوگیا ہے۔

♻ اس جنگ کی صورت حال بڑی گھمبیر تھی ، جس کا نقشہ قرآن کریم نے یوں کھینچا ہے:(اِذْ جَآءُ وْکُمْ مِّنْ فَوْقِکُمْ وَ مِنْ اَسْفَلَ مِنْکُمْ وَ اِذْ زَاغَتِ الْاَبْصَارُ وَ بَلَغَتِ الْقُلُوْبُ الْحَنَاجِرَ وَ تَظُنُّوْنَ بِاللّٰہِ الظُّنُوْنَاo)(الاحزاب:33/10)
''جب دشمن اُوپر سے اور نیچے سے تم پر چڑھ آئے، جب خوف کے مارے آنکھیں پتھرا گئیں، کلیجے منہ کو آ گئے اور تم لوگ اللہ کے بارے میں طرح طرح کے گمان کرنے لگے۔''

♻ ایسے پرخطر حالات میں بھی رسول اللہ ﷺ انتہائی مطمئن اور بے خوف و خطر تھے۔ آپ اپنے اصحاب میں گھوم پھر کر حالات کا جائزہ لیتے رہے۔ دشمن کی نقل و حرکت دیکھنے کے لیے آپ نے خندق کے قریب ہی خیمہ لگایا ہوا تھا۔ آپ کے خیمے کو خندق پار سے دشمن نے ہدف بناکر تیروں کی بارش کی لیکن فدائیان اسلام کی بروقت جوابی کارروائی سے وہ اپنے مذموم ارادے میں ناکام رہے۔

♻ دیگر تمام غزوات میں بھی آپ کی جرأت ، بہادری اور استقامت نمایاں دکھائی دیتی ہیں۔ آپ نے بار بار اپنے پروردگار سے راہِ جہاد میں شہادت سے سرفراز کیے جانے کی خواہش فرمائی۔(صحیح البخاری:٣٦وأحمد بن حنبل المسند:٩٤٨١) آپ کی شجاعت و دلیری کا اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت ہو سکتا ہے، حالانکہ سب سے مشکل کام جان کی قربانی دینا ہے۔

♻ نبی کریم ﷺ کے زیر استعمال سامان جنگ سے بھی آپ کی بہادری اور سپہ گری کا خوب اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ آپ کی تلواریں، زرہیں، َخود، نیزے، خچر اور گھوڑوں کی تفصیل کتب میں مذکور و محفوظ ہے۔ آپ کے ترکے میں بھی سامان حرب ہی تھا۔ دنیوی مال و منال نہ تھا۔

♻ آپ کی بہادری اور ثابت قدمی کے بارے میں معروف روسی فلاسفر کاؤنٹ ٹالسٹائی لکھتا ہے: ''یہی وہ مذہب ہے جس نے روح اور مادہ (جسم) دونوں کے احترام کی تعلیم دی ہے اور اس کے نبی نے خود اپنی نبوت کے ساتھ موسیٰ و عیسیٰ کی تصدیق کی ہے ۔ اپنی دعوت کے ابتدائی دور میں قدیم مذاہب کے ماننے والوں سے اس نے جو مصائب و مشکلات برداشت کی ہیں اور جس ثابت قدمی ، یقین کامل اور اعتماد کا مظاہرہ کیا ہے، اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔'' (الأسلام والرسول،ص:٤٣٧ بحوالہ مقالات سیرت طیبہ بنارس،ص:٢٩٢)

♻ شجاعت و بہادری کے برعکس بزدلی اور کم ہمتی ہے۔ رسول ﷲ ﷺ جن پانچ چیزوں سے اکثر پناہ مانگا کرتے تھے ، ان میں بزدلی بھی تھی۔ آپ بارگاہ صمدی میں یوں دعا گو ہوتے:(( اللّٰھُمَّ إِنِّی أَعُوذُبِکَ مِنَ الْجُبْنِ ))(صحیح البخاری:٢٨٢٢،٦٣٧٤ و سنن الترمذی:٣٥٦٧) ''اے اللہ! مجھے بزدلی سے محفوظ رکھنا۔''

♻ عصر حاضر میں بیشتر اہل اسلام کفار کے خلاف صف آراء ہونے کے بجائے اعدائے دین کی صف میں کھڑا ہونے کو ترجیح دینے لگے ہیں ، افغانستان کے خلاف تمام اسلامی ممالک نے جس طرح عالمی استعماری طاقتوں کی حمایت کی ، تاریخ انسانی میں اس کی مثال نہیں ملتی ، ایک طرف ایک نہتا اسلامی مملک اور دوسری طرف تمام دنیا ، لیکن پھر بھی فتح کسے ہوئی ، شجاعت و بہادری کے پیکر اہل افغان کو ، المیہ تو یہ ہے کہ مسلکی عصبیت کی بنا پر اکثر مسلمان اس فتح کی صحیح طرح خوشی بھی نہیں منا پائے ،

""""""""''''''"""""""""""'''''''''''''''"""""""""""""
عصر حاضر میں سیرت طیبہ سے ہمہ گیر رہنمائی اور سیرت النبی سے فکری وعملی مضبوط وابستگی بہت اہمیت وافادیت کی حامل ہے
 
شمولیت
نومبر 14، 2018
پیغامات
309
ری ایکشن اسکور
48
پوائنٹ
79
(( رسول اللہ ﷺ کی عادات و خصائل ))

(( حافظ محمد فیاض الیاس الأثری ، ریسرچ فیلو: دارالمعارف لاہور ، رفیق کار:دائرہ معارف سیرت ))

حصہ:5جنگ وحرب اور نبوی شجاعت و بہادری:

♻ شجاعت ودلیری کے اظہار کا اصل مقام میدان جنگ ہوتا ہے ،۔اس حوالے سے بھی آپ کی جرات ودلیری مثالی ہے، تمام غزوات آنحضرت ﷺ کی جرأت و جواں ہمتی اور دلیری و بہادری کا بین ثبوت ہیں۔ کسی غزوے میں بھی آپ مخالفین کی افرادی قوت اور اسلحے کی کثرت سے بالکل نہیں گھبرائے۔

♻ غزوہ حنین میں مجاہدین کی تعداد سابقہ تمام غزوات سے زیادہ تھی، اس وجہ سے انھیں کامیابی بھی یقینی دکھائی دے رہی تھی۔ لیکن ایک پہاڑی درّے سے گزرتے ہوئے دشمن نے ان پر اچانک حملہ کر دیا۔ مجاہدینِ اسلام افراتفری میں منتشر ہوگئے۔ اس حال میں بھی رسول اللہ ﷺ کوہ استقامت بن کر کھڑے رہے۔

♻ آپ کے ہمراہ چند صحابہ کرام رضی اللّٰہ عنہم ہی تھے۔ آپ چھپنے کے بجائے دشمن کے تیروں کی بوچھاڑ کے نیچے بھی بآواز بلند پکارے جا رہے تھے:((أَنَا النَّبِیُّ لَا کَذِبْ، أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ ))(صحیح البخاری:٢٨٧٤) ''میں بلا شک و شبہ حقیقی نبی ہوں اور میں عبد المطلب کا فرزند ہوں۔''

♻ آپ یہ الفاظ دہراتے ہوئے چند جاں نثاروں کے ہمراہ بے خوف و خطر دشمن کی طرف بڑھتے جا رہے تھے۔ بعد میں دیگر مجاہدین بھی ساتھ آ ملے اور دشمن پسپائی پر مجبور ہو گیا۔ اس غزوے میں فتح کی بنادی وجہ آپ کی جرات واستقامت تھی،

♻ حضرت براء بن عازب رضی اللّٰہ عنہ آپ کی یہ دلیری اور بہادری بیان کرتے ہوئے کہا کرتے تھے: اس روز آپ سے بڑھ کر کوئی اور بہادر دکھائی نہ دیا۔ (صحیح البخاری:٣٠٤٢)

♻ غزوہ بدر میں نبی کریم ﷺ بنفس نفیس میدان جنگ میں موجود تھے۔ اپنا دست مبارک زمین پر رکھ کر بتا رہے تھے کہ یہاں فلاں مشرک قتل ہو گا اور یہ فلاں کی قتل گاہ ہو گی۔ پھر ویسے ہی ہوا جیسے آپ نے فرمایا تھا۔ (صحیح مسلم:١٧٧٩)

♻ حق و باطل کے اس عظیم معرکے میں آپ کی شجاعت قابل دید تھی۔ اس کی شہادت حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ یوں دیتے ہیں کہ جنگ بدر میں ہم رسول اللہ ﷺ کے ذریعے اپنا بچاؤ کرتے تھے۔ آپ ہم سب سے زیادہ دشمن کے قریب تھے۔ اس روز آپ نے سب سے زیادہ جنگی مہارت کا مظاہرہ کیا۔ مشرکین کی گیدڑ بھبکیاں سن کر آپ صرف اتنا فرماتے:((حَسْبُنَا اللّٰہُ وَنِعْمَ الوَکِیْلُ))(أحمد بن حنبل،المسند:٦٥٤ و ابن أبی شیبہ، المصنف:٣٦٦٦٦) ''ہمارے لیے ﷲ ہی کافی ہے، وہی بہترین کارساز ہے۔''

♻ دشمنانِ دین اہل ایمان کو صفحہ ہستی سے مٹانا چاہتے تھے۔ اس کے لیے ان کی آخری کوشش جنگ خندق تھی۔ اس میں عرب قبائل ہی شامل نہ تھے ، بلکہ اندرونِ مدینہ کے یہود بھی ان کے حامی تھے۔ علاوہ ازیں سب سے خطرناک دشمن منافقین تھے۔ وہ زبانوں سے زہر اگل رہے تھے۔ باتیں کر رہے تھے کہ قیصر و کسریٰ کو فتح کرنے کے خواب دیکھنے والوں کی حالت تو دیکھو، ڈر کی وجہ سے بول و براز کے لیے باہر جانا بھی مشکل ہوگیا ہے۔

♻ اس جنگ کی صورت حال بڑی گھمبیر تھی ، جس کا نقشہ قرآن کریم نے یوں کھینچا ہے:(اِذْ جَآءُ وْکُمْ مِّنْ فَوْقِکُمْ وَ مِنْ اَسْفَلَ مِنْکُمْ وَ اِذْ زَاغَتِ الْاَبْصَارُ وَ بَلَغَتِ الْقُلُوْبُ الْحَنَاجِرَ وَ تَظُنُّوْنَ بِاللّٰہِ الظُّنُوْنَاo)(الاحزاب:33/10)
''جب دشمن اُوپر سے اور نیچے سے تم پر چڑھ آئے، جب خوف کے مارے آنکھیں پتھرا گئیں، کلیجے منہ کو آ گئے اور تم لوگ اللہ کے بارے میں طرح طرح کے گمان کرنے لگے۔''

♻ ایسے پرخطر حالات میں بھی رسول اللہ ﷺ انتہائی مطمئن اور بے خوف و خطر تھے۔ آپ اپنے اصحاب میں گھوم پھر کر حالات کا جائزہ لیتے رہے۔ دشمن کی نقل و حرکت دیکھنے کے لیے آپ نے خندق کے قریب ہی خیمہ لگایا ہوا تھا۔ آپ کے خیمے کو خندق پار سے دشمن نے ہدف بناکر تیروں کی بارش کی لیکن فدائیان اسلام کی بروقت جوابی کارروائی سے وہ اپنے مذموم ارادے میں ناکام رہے۔

♻ دیگر تمام غزوات میں بھی آپ کی جرأت ، بہادری اور استقامت نمایاں دکھائی دیتی ہیں۔ آپ نے بار بار اپنے پروردگار سے راہِ جہاد میں شہادت سے سرفراز کیے جانے کی خواہش فرمائی۔(صحیح البخاری:٣٦وأحمد بن حنبل المسند:٩٤٨١) آپ کی شجاعت و دلیری کا اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت ہو سکتا ہے، حالانکہ سب سے مشکل کام جان کی قربانی دینا ہے۔

♻ نبی کریم ﷺ کے زیر استعمال سامان جنگ سے بھی آپ کی بہادری اور سپہ گری کا خوب اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ آپ کی تلواریں، زرہیں، َخود، نیزے، خچر اور گھوڑوں کی تفصیل کتب میں مذکور و محفوظ ہے۔ آپ کے ترکے میں بھی سامان حرب ہی تھا۔ دنیوی مال و منال نہ تھا۔

♻ آپ کی بہادری اور ثابت قدمی کے بارے میں معروف روسی فلاسفر کاؤنٹ ٹالسٹائی لکھتا ہے: ''یہی وہ مذہب ہے جس نے روح اور مادہ (جسم) دونوں کے احترام کی تعلیم دی ہے اور اس کے نبی نے خود اپنی نبوت کے ساتھ موسیٰ و عیسیٰ کی تصدیق کی ہے ۔ اپنی دعوت کے ابتدائی دور میں قدیم مذاہب کے ماننے والوں سے اس نے جو مصائب و مشکلات برداشت کی ہیں اور جس ثابت قدمی ، یقین کامل اور اعتماد کا مظاہرہ کیا ہے، اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔'' (الأسلام والرسول،ص:٤٣٧ بحوالہ مقالات سیرت طیبہ بنارس،ص:٢٩٢)

♻ شجاعت و بہادری کے برعکس بزدلی اور کم ہمتی ہے۔ رسول ﷲ ﷺ جن پانچ چیزوں سے اکثر پناہ مانگا کرتے تھے ، ان میں بزدلی بھی تھی۔ آپ بارگاہ صمدی میں یوں دعا گو ہوتے:(( اللّٰھُمَّ إِنِّی أَعُوذُبِکَ مِنَ الْجُبْنِ ))(صحیح البخاری:٢٨٢٢،٦٣٧٤ و سنن الترمذی:٣٥٦٧) ''اے اللہ! مجھے بزدلی سے محفوظ رکھنا۔''

♻ عصر حاضر میں بیشتر اہل اسلام کفار کے خلاف صف آراء ہونے کے بجائے اعدائے دین کی صف میں کھڑا ہونے کو ترجیح دینے لگے ہیں ، افغانستان کے خلاف تمام اسلامی ممالک نے جس طرح عالمی استعماری طاقتوں کی حمایت کی ، تاریخ انسانی میں اس کی مثال نہیں ملتی ، ایک طرف ایک نہتا اسلامی مملک اور دوسری طرف تمام دنیا ، لیکن پھر بھی فتح کسے ہوئی ، شجاعت و بہادری کے پیکر اہل افغان کو ، المیہ تو یہ ہے کہ مسلکی عصبیت کی بنا پر اکثر مسلمان اس فتح کی صحیح طرح خوشی بھی نہیں منا پائے ،

""""""""''''''"""""""""""'''''''''''''''"""""""""""""
عصر حاضر میں سیرت طیبہ سے ہمہ گیر رہنمائی اور سیرت النبی سے فکری وعملی مضبوط وابستگی بہت اہمیت وافادیت کی حامل ہے

زادك الله علما وشرفاورزقا
 
شمولیت
نومبر 14، 2018
پیغامات
309
ری ایکشن اسکور
48
پوائنٹ
79
(( رسول اللہ ﷺ کی عادات و خصائل ))

(( حافظ محمد فیاض الیاس الأثری ، ریسرچ فیلو: دارالمعارف لاہور ، رفیق کار:دائرہ معارف سیرت ))

حصہ:5جنگ وحرب اور نبوی شجاعت و بہادری:

♻ شجاعت ودلیری کے اظہار کا اصل مقام میدان جنگ ہوتا ہے ،۔اس حوالے سے بھی آپ کی جرات ودلیری مثالی ہے، تمام غزوات آنحضرت ﷺ کی جرأت و جواں ہمتی اور دلیری و بہادری کا بین ثبوت ہیں۔ کسی غزوے میں بھی آپ مخالفین کی افرادی قوت اور اسلحے کی کثرت سے بالکل نہیں گھبرائے۔

♻ غزوہ حنین میں مجاہدین کی تعداد سابقہ تمام غزوات سے زیادہ تھی، اس وجہ سے انھیں کامیابی بھی یقینی دکھائی دے رہی تھی۔ لیکن ایک پہاڑی درّے سے گزرتے ہوئے دشمن نے ان پر اچانک حملہ کر دیا۔ مجاہدینِ اسلام افراتفری میں منتشر ہوگئے۔ اس حال میں بھی رسول اللہ ﷺ کوہ استقامت بن کر کھڑے رہے۔

♻ آپ کے ہمراہ چند صحابہ کرام رضی اللّٰہ عنہم ہی تھے۔ آپ چھپنے کے بجائے دشمن کے تیروں کی بوچھاڑ کے نیچے بھی بآواز بلند پکارے جا رہے تھے:((أَنَا النَّبِیُّ لَا کَذِبْ، أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ ))(صحیح البخاری:٢٨٧٤) ''میں بلا شک و شبہ حقیقی نبی ہوں اور میں عبد المطلب کا فرزند ہوں۔''

♻ آپ یہ الفاظ دہراتے ہوئے چند جاں نثاروں کے ہمراہ بے خوف و خطر دشمن کی طرف بڑھتے جا رہے تھے۔ بعد میں دیگر مجاہدین بھی ساتھ آ ملے اور دشمن پسپائی پر مجبور ہو گیا۔ اس غزوے میں فتح کی بنادی وجہ آپ کی جرات واستقامت تھی،

♻ حضرت براء بن عازب رضی اللّٰہ عنہ آپ کی یہ دلیری اور بہادری بیان کرتے ہوئے کہا کرتے تھے: اس روز آپ سے بڑھ کر کوئی اور بہادر دکھائی نہ دیا۔ (صحیح البخاری:٣٠٤٢)

♻ غزوہ بدر میں نبی کریم ﷺ بنفس نفیس میدان جنگ میں موجود تھے۔ اپنا دست مبارک زمین پر رکھ کر بتا رہے تھے کہ یہاں فلاں مشرک قتل ہو گا اور یہ فلاں کی قتل گاہ ہو گی۔ پھر ویسے ہی ہوا جیسے آپ نے فرمایا تھا۔ (صحیح مسلم:١٧٧٩)

♻ حق و باطل کے اس عظیم معرکے میں آپ کی شجاعت قابل دید تھی۔ اس کی شہادت حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ یوں دیتے ہیں کہ جنگ بدر میں ہم رسول اللہ ﷺ کے ذریعے اپنا بچاؤ کرتے تھے۔ آپ ہم سب سے زیادہ دشمن کے قریب تھے۔ اس روز آپ نے سب سے زیادہ جنگی مہارت کا مظاہرہ کیا۔ مشرکین کی گیدڑ بھبکیاں سن کر آپ صرف اتنا فرماتے:((حَسْبُنَا اللّٰہُ وَنِعْمَ الوَکِیْلُ))(أحمد بن حنبل،المسند:٦٥٤ و ابن أبی شیبہ، المصنف:٣٦٦٦٦) ''ہمارے لیے ﷲ ہی کافی ہے، وہی بہترین کارساز ہے۔''

♻ دشمنانِ دین اہل ایمان کو صفحہ ہستی سے مٹانا چاہتے تھے۔ اس کے لیے ان کی آخری کوشش جنگ خندق تھی۔ اس میں عرب قبائل ہی شامل نہ تھے ، بلکہ اندرونِ مدینہ کے یہود بھی ان کے حامی تھے۔ علاوہ ازیں سب سے خطرناک دشمن منافقین تھے۔ وہ زبانوں سے زہر اگل رہے تھے۔ باتیں کر رہے تھے کہ قیصر و کسریٰ کو فتح کرنے کے خواب دیکھنے والوں کی حالت تو دیکھو، ڈر کی وجہ سے بول و براز کے لیے باہر جانا بھی مشکل ہوگیا ہے۔

♻ اس جنگ کی صورت حال بڑی گھمبیر تھی ، جس کا نقشہ قرآن کریم نے یوں کھینچا ہے:(اِذْ جَآءُ وْکُمْ مِّنْ فَوْقِکُمْ وَ مِنْ اَسْفَلَ مِنْکُمْ وَ اِذْ زَاغَتِ الْاَبْصَارُ وَ بَلَغَتِ الْقُلُوْبُ الْحَنَاجِرَ وَ تَظُنُّوْنَ بِاللّٰہِ الظُّنُوْنَاo)(الاحزاب:33/10)
''جب دشمن اُوپر سے اور نیچے سے تم پر چڑھ آئے، جب خوف کے مارے آنکھیں پتھرا گئیں، کلیجے منہ کو آ گئے اور تم لوگ اللہ کے بارے میں طرح طرح کے گمان کرنے لگے۔''

♻ ایسے پرخطر حالات میں بھی رسول اللہ ﷺ انتہائی مطمئن اور بے خوف و خطر تھے۔ آپ اپنے اصحاب میں گھوم پھر کر حالات کا جائزہ لیتے رہے۔ دشمن کی نقل و حرکت دیکھنے کے لیے آپ نے خندق کے قریب ہی خیمہ لگایا ہوا تھا۔ آپ کے خیمے کو خندق پار سے دشمن نے ہدف بناکر تیروں کی بارش کی لیکن فدائیان اسلام کی بروقت جوابی کارروائی سے وہ اپنے مذموم ارادے میں ناکام رہے۔

♻ دیگر تمام غزوات میں بھی آپ کی جرأت ، بہادری اور استقامت نمایاں دکھائی دیتی ہیں۔ آپ نے بار بار اپنے پروردگار سے راہِ جہاد میں شہادت سے سرفراز کیے جانے کی خواہش فرمائی۔(صحیح البخاری:٣٦وأحمد بن حنبل المسند:٩٤٨١) آپ کی شجاعت و دلیری کا اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت ہو سکتا ہے، حالانکہ سب سے مشکل کام جان کی قربانی دینا ہے۔

♻ نبی کریم ﷺ کے زیر استعمال سامان جنگ سے بھی آپ کی بہادری اور سپہ گری کا خوب اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ آپ کی تلواریں، زرہیں، َخود، نیزے، خچر اور گھوڑوں کی تفصیل کتب میں مذکور و محفوظ ہے۔ آپ کے ترکے میں بھی سامان حرب ہی تھا۔ دنیوی مال و منال نہ تھا۔

♻ آپ کی بہادری اور ثابت قدمی کے بارے میں معروف روسی فلاسفر کاؤنٹ ٹالسٹائی لکھتا ہے: ''یہی وہ مذہب ہے جس نے روح اور مادہ (جسم) دونوں کے احترام کی تعلیم دی ہے اور اس کے نبی نے خود اپنی نبوت کے ساتھ موسیٰ و عیسیٰ کی تصدیق کی ہے ۔ اپنی دعوت کے ابتدائی دور میں قدیم مذاہب کے ماننے والوں سے اس نے جو مصائب و مشکلات برداشت کی ہیں اور جس ثابت قدمی ، یقین کامل اور اعتماد کا مظاہرہ کیا ہے، اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔'' (الأسلام والرسول،ص:٤٣٧ بحوالہ مقالات سیرت طیبہ بنارس،ص:٢٩٢)

♻ شجاعت و بہادری کے برعکس بزدلی اور کم ہمتی ہے۔ رسول ﷲ ﷺ جن پانچ چیزوں سے اکثر پناہ مانگا کرتے تھے ، ان میں بزدلی بھی تھی۔ آپ بارگاہ صمدی میں یوں دعا گو ہوتے:(( اللّٰھُمَّ إِنِّی أَعُوذُبِکَ مِنَ الْجُبْنِ ))(صحیح البخاری:٢٨٢٢،٦٣٧٤ و سنن الترمذی:٣٥٦٧) ''اے اللہ! مجھے بزدلی سے محفوظ رکھنا۔''

♻ عصر حاضر میں بیشتر اہل اسلام کفار کے خلاف صف آراء ہونے کے بجائے اعدائے دین کی صف میں کھڑا ہونے کو ترجیح دینے لگے ہیں ، افغانستان کے خلاف تمام اسلامی ممالک نے جس طرح عالمی استعماری طاقتوں کی حمایت کی ، تاریخ انسانی میں اس کی مثال نہیں ملتی ، ایک طرف ایک نہتا اسلامی مملک اور دوسری طرف تمام دنیا ، لیکن پھر بھی فتح کسے ہوئی ، شجاعت و بہادری کے پیکر اہل افغان کو ، المیہ تو یہ ہے کہ مسلکی عصبیت کی بنا پر اکثر مسلمان اس فتح کی صحیح طرح خوشی بھی نہیں منا پائے ،

""""""""''''''"""""""""""'''''''''''''''"""""""""""""
عصر حاضر میں سیرت طیبہ سے ہمہ گیر رہنمائی اور سیرت النبی سے فکری وعملی مضبوط وابستگی بہت اہمیت وافادیت کی حامل ہے

زادك الله علما وشرفاورزقا
 
شمولیت
نومبر 14، 2018
پیغامات
309
ری ایکشن اسکور
48
پوائنٹ
79
(( رسول اللہ ﷺ کی عادات و خصائل ))

(( حافظ محمد فیاض الیاس الأثری ، ریسرچ فیلو: دارالمعارف لاہور ، رفیق کار:دائرہ معارف سیرت ))

حصہ:5جنگ وحرب اور نبوی شجاعت و بہادری:

♻ شجاعت ودلیری کے اظہار کا اصل مقام میدان جنگ ہوتا ہے ،۔اس حوالے سے بھی آپ کی جرات ودلیری مثالی ہے، تمام غزوات آنحضرت ﷺ کی جرأت و جواں ہمتی اور دلیری و بہادری کا بین ثبوت ہیں۔ کسی غزوے میں بھی آپ مخالفین کی افرادی قوت اور اسلحے کی کثرت سے بالکل نہیں گھبرائے۔

♻ غزوہ حنین میں مجاہدین کی تعداد سابقہ تمام غزوات سے زیادہ تھی، اس وجہ سے انھیں کامیابی بھی یقینی دکھائی دے رہی تھی۔ لیکن ایک پہاڑی درّے سے گزرتے ہوئے دشمن نے ان پر اچانک حملہ کر دیا۔ مجاہدینِ اسلام افراتفری میں منتشر ہوگئے۔ اس حال میں بھی رسول اللہ ﷺ کوہ استقامت بن کر کھڑے رہے۔

♻ آپ کے ہمراہ چند صحابہ کرام رضی اللّٰہ عنہم ہی تھے۔ آپ چھپنے کے بجائے دشمن کے تیروں کی بوچھاڑ کے نیچے بھی بآواز بلند پکارے جا رہے تھے:((أَنَا النَّبِیُّ لَا کَذِبْ، أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ ))(صحیح البخاری:٢٨٧٤) ''میں بلا شک و شبہ حقیقی نبی ہوں اور میں عبد المطلب کا فرزند ہوں۔''

♻ آپ یہ الفاظ دہراتے ہوئے چند جاں نثاروں کے ہمراہ بے خوف و خطر دشمن کی طرف بڑھتے جا رہے تھے۔ بعد میں دیگر مجاہدین بھی ساتھ آ ملے اور دشمن پسپائی پر مجبور ہو گیا۔ اس غزوے میں فتح کی بنادی وجہ آپ کی جرات واستقامت تھی،

♻ حضرت براء بن عازب رضی اللّٰہ عنہ آپ کی یہ دلیری اور بہادری بیان کرتے ہوئے کہا کرتے تھے: اس روز آپ سے بڑھ کر کوئی اور بہادر دکھائی نہ دیا۔ (صحیح البخاری:٣٠٤٢)

♻ غزوہ بدر میں نبی کریم ﷺ بنفس نفیس میدان جنگ میں موجود تھے۔ اپنا دست مبارک زمین پر رکھ کر بتا رہے تھے کہ یہاں فلاں مشرک قتل ہو گا اور یہ فلاں کی قتل گاہ ہو گی۔ پھر ویسے ہی ہوا جیسے آپ نے فرمایا تھا۔ (صحیح مسلم:١٧٧٩)

♻ حق و باطل کے اس عظیم معرکے میں آپ کی شجاعت قابل دید تھی۔ اس کی شہادت حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ یوں دیتے ہیں کہ جنگ بدر میں ہم رسول اللہ ﷺ کے ذریعے اپنا بچاؤ کرتے تھے۔ آپ ہم سب سے زیادہ دشمن کے قریب تھے۔ اس روز آپ نے سب سے زیادہ جنگی مہارت کا مظاہرہ کیا۔ مشرکین کی گیدڑ بھبکیاں سن کر آپ صرف اتنا فرماتے:((حَسْبُنَا اللّٰہُ وَنِعْمَ الوَکِیْلُ))(أحمد بن حنبل،المسند:٦٥٤ و ابن أبی شیبہ، المصنف:٣٦٦٦٦) ''ہمارے لیے ﷲ ہی کافی ہے، وہی بہترین کارساز ہے۔''

♻ دشمنانِ دین اہل ایمان کو صفحہ ہستی سے مٹانا چاہتے تھے۔ اس کے لیے ان کی آخری کوشش جنگ خندق تھی۔ اس میں عرب قبائل ہی شامل نہ تھے ، بلکہ اندرونِ مدینہ کے یہود بھی ان کے حامی تھے۔ علاوہ ازیں سب سے خطرناک دشمن منافقین تھے۔ وہ زبانوں سے زہر اگل رہے تھے۔ باتیں کر رہے تھے کہ قیصر و کسریٰ کو فتح کرنے کے خواب دیکھنے والوں کی حالت تو دیکھو، ڈر کی وجہ سے بول و براز کے لیے باہر جانا بھی مشکل ہوگیا ہے۔

♻ اس جنگ کی صورت حال بڑی گھمبیر تھی ، جس کا نقشہ قرآن کریم نے یوں کھینچا ہے:(اِذْ جَآءُ وْکُمْ مِّنْ فَوْقِکُمْ وَ مِنْ اَسْفَلَ مِنْکُمْ وَ اِذْ زَاغَتِ الْاَبْصَارُ وَ بَلَغَتِ الْقُلُوْبُ الْحَنَاجِرَ وَ تَظُنُّوْنَ بِاللّٰہِ الظُّنُوْنَاo)(الاحزاب:33/10)
''جب دشمن اُوپر سے اور نیچے سے تم پر چڑھ آئے، جب خوف کے مارے آنکھیں پتھرا گئیں، کلیجے منہ کو آ گئے اور تم لوگ اللہ کے بارے میں طرح طرح کے گمان کرنے لگے۔''

♻ ایسے پرخطر حالات میں بھی رسول اللہ ﷺ انتہائی مطمئن اور بے خوف و خطر تھے۔ آپ اپنے اصحاب میں گھوم پھر کر حالات کا جائزہ لیتے رہے۔ دشمن کی نقل و حرکت دیکھنے کے لیے آپ نے خندق کے قریب ہی خیمہ لگایا ہوا تھا۔ آپ کے خیمے کو خندق پار سے دشمن نے ہدف بناکر تیروں کی بارش کی لیکن فدائیان اسلام کی بروقت جوابی کارروائی سے وہ اپنے مذموم ارادے میں ناکام رہے۔

♻ دیگر تمام غزوات میں بھی آپ کی جرأت ، بہادری اور استقامت نمایاں دکھائی دیتی ہیں۔ آپ نے بار بار اپنے پروردگار سے راہِ جہاد میں شہادت سے سرفراز کیے جانے کی خواہش فرمائی۔(صحیح البخاری:٣٦وأحمد بن حنبل المسند:٩٤٨١) آپ کی شجاعت و دلیری کا اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت ہو سکتا ہے، حالانکہ سب سے مشکل کام جان کی قربانی دینا ہے۔

♻ نبی کریم ﷺ کے زیر استعمال سامان جنگ سے بھی آپ کی بہادری اور سپہ گری کا خوب اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ آپ کی تلواریں، زرہیں، َخود، نیزے، خچر اور گھوڑوں کی تفصیل کتب میں مذکور و محفوظ ہے۔ آپ کے ترکے میں بھی سامان حرب ہی تھا۔ دنیوی مال و منال نہ تھا۔

♻ آپ کی بہادری اور ثابت قدمی کے بارے میں معروف روسی فلاسفر کاؤنٹ ٹالسٹائی لکھتا ہے: ''یہی وہ مذہب ہے جس نے روح اور مادہ (جسم) دونوں کے احترام کی تعلیم دی ہے اور اس کے نبی نے خود اپنی نبوت کے ساتھ موسیٰ و عیسیٰ کی تصدیق کی ہے ۔ اپنی دعوت کے ابتدائی دور میں قدیم مذاہب کے ماننے والوں سے اس نے جو مصائب و مشکلات برداشت کی ہیں اور جس ثابت قدمی ، یقین کامل اور اعتماد کا مظاہرہ کیا ہے، اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔'' (الأسلام والرسول،ص:٤٣٧ بحوالہ مقالات سیرت طیبہ بنارس،ص:٢٩٢)

♻ شجاعت و بہادری کے برعکس بزدلی اور کم ہمتی ہے۔ رسول ﷲ ﷺ جن پانچ چیزوں سے اکثر پناہ مانگا کرتے تھے ، ان میں بزدلی بھی تھی۔ آپ بارگاہ صمدی میں یوں دعا گو ہوتے:(( اللّٰھُمَّ إِنِّی أَعُوذُبِکَ مِنَ الْجُبْنِ ))(صحیح البخاری:٢٨٢٢،٦٣٧٤ و سنن الترمذی:٣٥٦٧) ''اے اللہ! مجھے بزدلی سے محفوظ رکھنا۔''

♻ عصر حاضر میں بیشتر اہل اسلام کفار کے خلاف صف آراء ہونے کے بجائے اعدائے دین کی صف میں کھڑا ہونے کو ترجیح دینے لگے ہیں ، افغانستان کے خلاف تمام اسلامی ممالک نے جس طرح عالمی استعماری طاقتوں کی حمایت کی ، تاریخ انسانی میں اس کی مثال نہیں ملتی ، ایک طرف ایک نہتا اسلامی مملک اور دوسری طرف تمام دنیا ، لیکن پھر بھی فتح کسے ہوئی ، شجاعت و بہادری کے پیکر اہل افغان کو ، المیہ تو یہ ہے کہ مسلکی عصبیت کی بنا پر اکثر مسلمان اس فتح کی صحیح طرح خوشی بھی نہیں منا پائے ،

""""""""''''''"""""""""""'''''''''''''''"""""""""""""
عصر حاضر میں سیرت طیبہ سے ہمہ گیر رہنمائی اور سیرت النبی سے فکری وعملی مضبوط وابستگی بہت اہمیت وافادیت کی حامل ہے
 
Top