• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

(قسط:45)امام الھدی ﷺ کی عادات و خصائل ((شجاعت و بہادری ، نبوی اسوہ اور جدید تہذیب والحاد)) (حصہ:6، شجاع پیغمبر ﷺ کا امت کو درسِ شجاعت وجانثاری)

شمولیت
نومبر 14، 2018
پیغامات
309
ری ایکشن اسکور
48
پوائنٹ
79
(( رسول اللہ ﷺ کی عادات و خصائل ))

(( حافظ محمد فیاض الیاس الأثری ، ریسرچ فیلو: دارالمعارف لاہور ، رفیق کار:دائرہ معارف سیرت ))

شجاعت و بہادری ، نبوی اسوہ اور جدید تہذیب والحاد(حصہ:6، شجاع پیغمبر ﷺ کا امت کو درسِ شجاعت وجانثاری)

♻ آنحضرت ﷺ نے اپنی امت کو صبر و تحمل کی تلقین فرمائی۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمت و جرأت سے حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کی بھی تعلیم دی ۔ چند ایک فرامین درج ذیل ہیں:
١۔ نبی اکرم ﷺ نے کمزور مسلمان کے مقابلے مضبوط، طاقتور اور شجاع مسلمان کو بہتر قرار دیا اور اسے اللہ تعالیٰ کا محبوب بتایاہے۔(صحیح مسلم:٣٤، ٢٦٦٤وأحمد بن حنبل،المسند:٨٧٩١)

♻ ٢۔ رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں میں شجاعت و بہادری کی روح پھونکتے ہوئے فرمایا:(( مَنْ مَاتَ وَلَمْ یَغْزُ وَلَمْ یُحَدِّ ْث بِہٖ نَفْسَہ، مَاتَ عَلٰی شُعْبَۃٍ مِنَ النِّفَاقِ ))(صحیح مسلم:١٩١٠ و سنن أبی داود:٢٥٠٢)''جس شخص نے اپنی زندگی میں نہ کبھی جنگ میں حصہ لیا اور نہ دل میں اس کا جذبہ رکھا ،اس کی موت نفاق کی صورت میں آئی۔''

♻ ٣۔ حضرت براء بن عازب رضی اللّٰہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک زرہ پوش رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا: اے اللہ کے رسول! میں پہلے جنگ میں شریک ہوں یا اسلام قبول کروں؟ آپ نے فرمایاـ: ''پہلے اسلام قبول کرو، پھر جہاد میں شریک ہونا۔ وہ اسی وقت مسلمان ہو کر فوراً میدان میں کود پڑا اور دادِ شجاعت دیتا ہوا شہید ہو گیا۔ رسول اللہ ﷺ کو اس کی شجاعت اور شہادت کے بارے میں علم ہوا تو آپ نے فرمایا:(( عَمِلَ قَلِیـلًا وَأُجِرَ کَثِیرًا))(صحیح البخاری:٢٨٠٨)''تھوڑا سا عمل کر کے بہت زیادہ اجر لے گیا ہے۔''

♻ ٤۔ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللّٰہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ غزوہ اُحد میں ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کی: اگر میں شہید کر دیا گیا تو میں کہاں جاؤں گا؟ آپ نے فرمایا: ''جنت میں۔'' آپ کی زبان مبارک سے جنت کی بشارت سن کر انھوں نے ہاتھ میں پکڑی کھجوریں کھانا بھی گوارا نہ کیں۔ وہ کھجوریں وہیں چھوڑیں، سوئے مقتل بڑھے اور دادِ شجاعت دیتے ہوئے شہید ہو گئے۔(صحیح البخاری:٤٠٤٦ وصحیح مسلم:١٤٣، ١٨٩٩)

♻ ٥۔ اسی طرح کا ایک واقعہ جنگ بدر میں بھی پیش آیا۔ رسول اللہ ﷺ نے مجاہدین کو جہاد کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا:(( قُوْمُوْا إِلٰی جَنَّۃٍ عَرْضُھَا السَّمٰوَاتُ وَالْأَرْضُ ))''اس جنت کے حصول کے لیے اُٹھ کھڑے ہو جس کی چوڑائی آسمانوں اور زمین کے برابر ہے۔'' زبانِ نبوت سے یہ بشارت سن کر حضرت عمیر بن حمام انصاری رضی اللّٰہ عنہ نے خوشی سے پوچھا: اے اللہ کے رسول! کیا واقعی جنت کی چوڑائی آسمانوں اور زمین کے برابر ہے؟ آپ نے فرمایا: ''ہاں۔''

♻ اس پر حضرت عمیر رضی اللّٰہ عنہ خوشی سے بولے: بہت خوب ! بہت خوب! رسول اللہ ﷺ نے ان سے اس خوشی کی وجہ پوچھی تو وہ بولے: اللہ کی قسم! مجھے امید ہے کہ میں بھی اس جنت کا حقدار ہوں گا۔ آپ نے فرمایا:(( فَإِنَّکَ مِنْ أَھْلِھَا ))''تم واقعی اس کے حق دار ہو۔''

♻ یہ بشارتِ نبوی سننے کے بعد ان کی فرحت قابل دید تھی۔ اس کے بعدوہ اپنے پاس موجود کھجوریں آرام سے کھانے لگے، پھر اچانک خیال آیا کہ اگر میں کھجوریں کھاتا یہاں بیٹھا رہا پھر تو یہ زندگی بہت طویل ہے۔ یہ کہہ کر کھجوریں وہیں چھوڑیں، دشمن پر جھپٹے اور دشمن پر کاری ضرب لگاتے ہوئے خود بھی شہید ہو گئے۔(صحیح مسلم:١٩٠١)

♻ زندگی کی طوالت سے ان کا مقصود یہ تھا کہ شہادت سے محروم ہو کر پھر طویل زندگی ہی گزارنی ہوگی۔ حقیقی اہل ایمان کے ہاں زندگی سے زیادہ آخرت کی اہمیت ہوتی ہے ، آخرت کی کامیابی کا اہم ترین ذریعہ دارہ خدا میں داد شجاعت دیتے ہوئے جام شہادت نوش کرنا ہے

♻ ٦۔ رسول ﷲ ﷺ نے مومن کی صفت ہی شجاعت اور شہادت کی طلب بتائی ہے۔ آپ نے فرمایا:(( یَبْتَغِی الْقَتْلَ وَالْمَوْتَ مَظَانَّہ، ))(صحیح مسلم:١٨٨٩)''مومن تو قتل گاہ میں حصول شہادت کے لیے کوشاں رہتا ہے۔''

♻ عصر حاضر میں امت مسلمہ نبوی تعلیمات کی تعمیل میں کئی طرح کی فکری وعملی کتاہیوں کا شکار ہے ، جہاد وقتال کے عظیم نبوی مشن میں بھی مختلف قسم کی کمزوریوں سے اہل اسلام دوچار ہیں ، شجاعت وجانثاری اور جرات ودلیری میں نبوی اسوہ کی اتباع ناگزیر ہے ، اس کے لیے رسول مقبول ﷺ کی سیرت طیبہ کا شعوری گہرا مطالعہ بہت اہمیت کا حامل ہے ، اسی سے آپ کی شجاعت وبہادری کے عظیم کارناموں سے آگہی ہو گی اور مسلمانوں میں جذبہ قربانی وجاں نثاری کی آبیاری ہو گی ،

♻ مغربی تہذیب والحاد کا تصور حیات ہی مذہب بیزاری پر مبنی ہے ، اس کے ان کے تمام طرح کے افکار و نظریات اور اعمال وافعال مسلمانوں سے یکسر مختلف ہیں ، مسلمان اخلاق و کردار میں چاہے جس قدر بھی کمزور ہو، لیکن پھر بھی شوق شہادت اور جذبہ جاں نثاری میں ملحدین سے کئی اعتبار سے نمایاں ہوتا ہے ، مذہب وآخرت کے منکرین دو بدو جنگ میں کبھی بھی اہل ایمان کا مقابلہ نہیں کر سکتے ،
 
شمولیت
نومبر 14، 2018
پیغامات
309
ری ایکشن اسکور
48
پوائنٹ
79
(( رسول اللہ ﷺ کی عادات و خصائل ))

(( حافظ محمد فیاض الیاس الأثری ، ریسرچ فیلو: دارالمعارف لاہور ، رفیق کار:دائرہ معارف سیرت ))

شجاعت و بہادری ، نبوی اسوہ اور جدید تہذیب والحاد(حصہ:6، شجاع پیغمبر ﷺ کا امت کو درسِ شجاعت وجانثاری)

♻ آنحضرت ﷺ نے اپنی امت کو صبر و تحمل کی تلقین فرمائی۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمت و جرأت سے حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کی بھی تعلیم دی ۔ چند ایک فرامین درج ذیل ہیں:
١۔ نبی اکرم ﷺ نے کمزور مسلمان کے مقابلے مضبوط، طاقتور اور شجاع مسلمان کو بہتر قرار دیا اور اسے اللہ تعالیٰ کا محبوب بتایاہے۔(صحیح مسلم:٣٤، ٢٦٦٤وأحمد بن حنبل،المسند:٨٧٩١)

♻ ٢۔ رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں میں شجاعت و بہادری کی روح پھونکتے ہوئے فرمایا:(( مَنْ مَاتَ وَلَمْ یَغْزُ وَلَمْ یُحَدِّ ْث بِہٖ نَفْسَہ، مَاتَ عَلٰی شُعْبَۃٍ مِنَ النِّفَاقِ ))(صحیح مسلم:١٩١٠ و سنن أبی داود:٢٥٠٢)''جس شخص نے اپنی زندگی میں نہ کبھی جنگ میں حصہ لیا اور نہ دل میں اس کا جذبہ رکھا ،اس کی موت نفاق کی صورت میں آئی۔''

♻ ٣۔ حضرت براء بن عازب رضی اللّٰہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک زرہ پوش رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا: اے اللہ کے رسول! میں پہلے جنگ میں شریک ہوں یا اسلام قبول کروں؟ آپ نے فرمایاـ: ''پہلے اسلام قبول کرو، پھر جہاد میں شریک ہونا۔ وہ اسی وقت مسلمان ہو کر فوراً میدان میں کود پڑا اور دادِ شجاعت دیتا ہوا شہید ہو گیا۔ رسول اللہ ﷺ کو اس کی شجاعت اور شہادت کے بارے میں علم ہوا تو آپ نے فرمایا:(( عَمِلَ قَلِیـلًا وَأُجِرَ کَثِیرًا))(صحیح البخاری:٢٨٠٨)''تھوڑا سا عمل کر کے بہت زیادہ اجر لے گیا ہے۔''

♻ ٤۔ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللّٰہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ غزوہ اُحد میں ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کی: اگر میں شہید کر دیا گیا تو میں کہاں جاؤں گا؟ آپ نے فرمایا: ''جنت میں۔'' آپ کی زبان مبارک سے جنت کی بشارت سن کر انھوں نے ہاتھ میں پکڑی کھجوریں کھانا بھی گوارا نہ کیں۔ وہ کھجوریں وہیں چھوڑیں، سوئے مقتل بڑھے اور دادِ شجاعت دیتے ہوئے شہید ہو گئے۔(صحیح البخاری:٤٠٤٦ وصحیح مسلم:١٤٣، ١٨٩٩)

♻ ٥۔ اسی طرح کا ایک واقعہ جنگ بدر میں بھی پیش آیا۔ رسول اللہ ﷺ نے مجاہدین کو جہاد کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا:(( قُوْمُوْا إِلٰی جَنَّۃٍ عَرْضُھَا السَّمٰوَاتُ وَالْأَرْضُ ))''اس جنت کے حصول کے لیے اُٹھ کھڑے ہو جس کی چوڑائی آسمانوں اور زمین کے برابر ہے۔'' زبانِ نبوت سے یہ بشارت سن کر حضرت عمیر بن حمام انصاری رضی اللّٰہ عنہ نے خوشی سے پوچھا: اے اللہ کے رسول! کیا واقعی جنت کی چوڑائی آسمانوں اور زمین کے برابر ہے؟ آپ نے فرمایا: ''ہاں۔''

♻ اس پر حضرت عمیر رضی اللّٰہ عنہ خوشی سے بولے: بہت خوب ! بہت خوب! رسول اللہ ﷺ نے ان سے اس خوشی کی وجہ پوچھی تو وہ بولے: اللہ کی قسم! مجھے امید ہے کہ میں بھی اس جنت کا حقدار ہوں گا۔ آپ نے فرمایا:(( فَإِنَّکَ مِنْ أَھْلِھَا ))''تم واقعی اس کے حق دار ہو۔''

♻ یہ بشارتِ نبوی سننے کے بعد ان کی فرحت قابل دید تھی۔ اس کے بعدوہ اپنے پاس موجود کھجوریں آرام سے کھانے لگے، پھر اچانک خیال آیا کہ اگر میں کھجوریں کھاتا یہاں بیٹھا رہا پھر تو یہ زندگی بہت طویل ہے۔ یہ کہہ کر کھجوریں وہیں چھوڑیں، دشمن پر جھپٹے اور دشمن پر کاری ضرب لگاتے ہوئے خود بھی شہید ہو گئے۔(صحیح مسلم:١٩٠١)

♻ زندگی کی طوالت سے ان کا مقصود یہ تھا کہ شہادت سے محروم ہو کر پھر طویل زندگی ہی گزارنی ہوگی۔ حقیقی اہل ایمان کے ہاں زندگی سے زیادہ آخرت کی اہمیت ہوتی ہے ، آخرت کی کامیابی کا اہم ترین ذریعہ دارہ خدا میں داد شجاعت دیتے ہوئے جام شہادت نوش کرنا ہے

♻ ٦۔ رسول ﷲ ﷺ نے مومن کی صفت ہی شجاعت اور شہادت کی طلب بتائی ہے۔ آپ نے فرمایا:(( یَبْتَغِی الْقَتْلَ وَالْمَوْتَ مَظَانَّہ، ))(صحیح مسلم:١٨٨٩)''مومن تو قتل گاہ میں حصول شہادت کے لیے کوشاں رہتا ہے۔''

♻ عصر حاضر میں امت مسلمہ نبوی تعلیمات کی تعمیل میں کئی طرح کی فکری وعملی کتاہیوں کا شکار ہے ، جہاد وقتال کے عظیم نبوی مشن میں بھی مختلف قسم کی کمزوریوں سے اہل اسلام دوچار ہیں ، شجاعت وجانثاری اور جرات ودلیری میں نبوی اسوہ کی اتباع ناگزیر ہے ، اس کے لیے رسول مقبول ﷺ کی سیرت طیبہ کا شعوری گہرا مطالعہ بہت اہمیت کا حامل ہے ، اسی سے آپ کی شجاعت وبہادری کے عظیم کارناموں سے آگہی ہو گی اور مسلمانوں میں جذبہ قربانی وجاں نثاری کی آبیاری ہو گی ،

♻ مغربی تہذیب والحاد کا تصور حیات ہی مذہب بیزاری پر مبنی ہے ، اس کے ان کے تمام طرح کے افکار و نظریات اور اعمال وافعال مسلمانوں سے یکسر مختلف ہیں ، مسلمان اخلاق و کردار میں چاہے جس قدر بھی کمزور ہو، لیکن پھر بھی شوق شہادت اور جذبہ جاں نثاری میں ملحدین سے کئی اعتبار سے نمایاں ہوتا ہے ، مذہب وآخرت کے منکرین دو بدو جنگ میں کبھی بھی اہل ایمان کا مقابلہ نہیں کر سکتے ،
زادک اللہ علما وشرفا ورزقا
 
Top