• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

(قسط:46)امام الھدی ﷺ کی عادات و خصائل ((شجاعت و بہادری ، نبوی اسوہ اور جدید تہذیب والحاد)) (حصہ:7، شجاعت و بہادری کے اسباب و محرکات)

شمولیت
نومبر 14، 2018
پیغامات
305
ری ایکشن اسکور
48
پوائنٹ
79
(( رسول اللہ ﷺ کی عادات و خصائل ))

(( حافظ محمد فیاض الیاس الأثری ، ریسرچ فیلو: دارالمعارف لاہور ، رفیق کار:دائرہ معارف سیرت ))

شجاعت و بہادری ، نبوی اسوہ اور جدید تہذیب والحاد(حصہ:7، شجاعت و بہادری کے اسباب و محرکات)


♻ شجاعت و بہادری کا مظاہرہ کرنے والے دو طرح کے لوگ ہیں: ایک رضائے الٰہی کی خاطر بہادری ظاہر کرنے والے اور دوسرے دنیوی اغراض و مقاصد کی خاطر۔ رہی یہ بات کہ اہل ایمان کی شجاعت و بہادری کے اسباب و عوامل کون کون سے ہیں تو ان میں سے زیادہ تر کا تعلق افعال قلوب سے ہے، کیونکہ حقیقی دلیری اور جرأت و بہادری کا مسکن یہی دل ہے۔ اہم ترین اسبابِ شجاعت درج ذیل ہیں:

♻ ١۔ایمان: مومن کی جوانمردی کی بنیادی وجہ اللہ تعالیٰ پر ایمان ہے۔ جس انسان کا جس قدر اللہ تعالیٰ کی ذات پر ایمان مستحکم ہو گا، وہ اسی قدر جرأت مند ہو گا۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو کفار کے خلاف قتال کا حکم دیتے ہوئے فرمایا:( یٰۤـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قَاتِلُوا الَّذِیْنَ یَلُوْنَکُمْ مِّنَ الْکُفَّارِ وَ لْیَجِدُوْا فِیْکُمْ غِلْظَۃً)(التوبہ:123/9) ''اے لوگو جو ایمان لائے ہو! جنگ کرو اُن منکرین حق سے جو تمھارے قریب ہیں ،اس طرح کہ تمھاری سخت کوشی کی ان پر دھاک بیٹھ جائے ۔''

♻٢۔توکل: اللہ تعالیٰ پر توکل اور بھروسا ایمان کے بعد شجاعت کا اہم ترین سبب ہے۔ یہ وصف بندہ مومن کی شجاعت و بہادری کو جلا بخشتا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کو جہاد کا حکم دیا تھا۔ اس موقع پر انھیں ایمان کے ساتھ توکل کا درس دیا گیا تھا، اس کا تذکرہ کرتے ہوئے ﷲ تعالیٰ نے فرمایا:( وَ عَلَی اللّٰہِ فَتَوَکَّلُوْۤا اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَo)(المائدہ:23/5)''اگر تم مومن ہو تو اللہ پر ہی توکل کرنا۔''

♻ رئیس المنافقین عبداللہ بن اُبی غزوہ اُحد میں اپنے ٣٠٠ ساتھی لے کر میدانِ جنگ سے پلٹ گیا۔ یہ بہت پریشان کن مرحلہ تھا۔ اس پر صبر و ہمت کی تلقین کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو توکل کا حکم دیا۔(اٰل عمران:122/3)

♻ ٣۔ تقدیر پر ایمان: تقدیر پر ایمان ارکانِ ایمان میں شامل ہے۔ اس سے مومن بندے کی شجاعت کو ایک تازہ ولولہ ملتا ہے اور وہ دشمنان دین پر بے خوف و خطر جھپٹ پڑتا ہے کیونکہ اسے یقین ہوتا ہے کہ تقدیر میں لکھے کے سوا مجھے کچھ نہیں ہو سکتا۔ تقدیر پر ایمان مصائب ومشکلات کو برداشت کرنے کا مؤثر ترین ذریعہ اور جرات و بہادری کا بےمثال عمل ہے ،

♻ غزوہ تبوک کے موقع پر اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منافقین کی بدکرداری سے آگاہ فرمایا۔ تب منافقین کے سامنے تقدیر پر ایمان کا اظہار کرنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا گیا:( قُلْ لَّنْ یُّصِیْبَنَآ اِلَّا مَا کَتَبَ اللّٰہُ لَنَا ھُوَ مَوْلٰـنَا وَ عَلٰی اللّٰہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ)(التوبہ:51/9) ''(اے نبی!) کہہ دیجیے کہ ہمیں تو وہی کچھ پہنچے گا جو اللہ نے ہمارے مقدر میں لکھ ڈالا ہے۔ وہی ہمارا کار ساز ہے، لہٰذا اہل ایمان کو ﷲ ہی پر توکل کرنا چاہیے۔''

♻ حضرت خالد بن ولید رضی اللّٰہ عنہ کی جنگیں تاریخ اسلام کی ایسی داستان عظمت و شجاعت ہیں کہ شاید دنیا میں اس کی مثال نہ ہو۔ رتبہ شہادت سے سرفراز ہونے کے لیے دشمن کی صفوں میں گھس جایا کرتے لیکن شہادت نصیب نہیں ہوئی، کیونکہ تقدیر میں لکھی نہ تھی۔

♻ انھوں نے وقت وفات امت مسلمہ کو جو درس دیا وہ بہت ہی شاندار تھا۔ تقدیر پر ایمان کی عملی تصویر پیش کرتے ہوئے کہا: میں سو کے قریب معرکوں میں شریک ہوا ہوں، میرے جسم کا کوئی حصہ ایسا نہیں جس پر تیر، تلوار یا نیزے کا زخم نہ ہو، لیکن میں اونٹ کی طرح اپنی جائے نیام سونے کی جگہ پر دنیا چھوڑے جا رہا ہوں۔ اب تو بزدلی کا مظاہرہ کرنے والوں کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں۔(ابن عبدالبر، الاستیعاب:14/2 و الذہبی، سیرأعلام النبلاء:382/1)

♻ ٤۔ ذکر ِالٰہی: اللہ کے ذکر سے بھی مسلمان کے جزبہ شجاعت کو جلا ملتی ہے، کیونکہ داد شجاعت دینے کے لیے دلی اطمینان اور ذہنی سکون ضروری ہے۔ یہ چیز صرف اور صرف ذکر الٰہی سے حاصل ہو سکتی ہے۔ میدانِ جہاد میں ذکر و اذکار کی خاص اہمیت اور فوائد ہیں۔ ﷲ تعالیٰ نے دشمن سے پنجہ آزمائی کے موقع پر کثرت سے ذکر ِالٰہی کا حکم فرمایا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:( یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰوْا اِذَا لَقِیْتُمْ فِئَۃً فَاثْبُتُوْا وَ اذْکُرُوا اللّٰہَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَo)(الانفال:45/8) '' اے لوگو جو ایمان لائے ہو! جب کسی گروہ سے تمھارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو اور اللہ کا کثرت سے ذکر کرتے رہا کرو۔امیدہے کہ تمھیں کامیابی نصیب ہوگی۔''

♻ مضبوط ایمان وعقیدہ ، تقدیر پر یقین و بھروسہ، ذات الہٰی پر کامل توکل واعتماد ، ذکر الہٰی کا بھرپور اہتمام اور فکر آخرت ، ان امور سے بندہ مومن کا اخلاق و کردار سنورتا ہے ، انسانی کےاعمال وافعال میں مثبت تبدیلی آتی ہے ، عبادت وریاضت میں دلی راحت اور جسمانی و ذہنی سکون حاصل ہوتا ہے ، مزید یہ کہ شجاعت و بہادری اور جرات و دلیری کے مثالی جذبات پروان چڑھتے ہیں ، کیونکہ کامل ایمان وتوکل کے حامل مسلماں کو ذات الہٰی کے علاوہ کسی کا بھی کوئی خوف اور ڈر نہیں ہوتا ، تاریخ اسلام جرات و بہادری کے پیکر اہل ایمان کی داستان شجاعت ودلیری سے لبریز ہے ،عصر حاضر میں اہل اسلام دشمن کے مقابلے میں کم ہمتی اور بزدلی سے دوچار ہیں ، جرات و شجاعت کے بنیادی اسباب و عوامل میں کمزور ہیں

♻ جدید تہذیب و الحاد کا دامن حقیقی شجاعت و بہادری سے بالکل ہی خالی ہے ، جنگ کے لیے تمام طرح کے ظاہری اسباب و ذرائع کی بھر مار، سامان ضرب وحرب کی بہتات اور جدید ترین اسلحہ کے انبار ، لیکن اس کے باوجود عسکری میدان میں ذلیل وخوار ، کیونکہ مذہب بیزار اور خالق وآخرت کا منکر جینے کے لیے لڑتا ہے ، جبکہ صاحب ایمان جام شہادت نوش کرنے کے لیے داد شجاعت دیتا ہے ، یہ دونوں شجاعت و بہادری اور جرات و دلیری میں کیوں کر برابر ہو سکتے ہیں ؟!
 
Top