• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

(قسط:50)امام الھدی ﷺ کی عادات و خصائل((سائل ویتیم سے حسن سلوک ، نبوی اسوہ اور جدید تہذیب والحاد )) (حصہ:3،یتیم اور سائل دور جاہلیت میں )

شمولیت
نومبر 14، 2018
پیغامات
305
ری ایکشن اسکور
48
پوائنٹ
79
(( رسول اللہ ﷺ کی عادات و خصائل ))

(( حافظ محمد فیاض الیاس الأثری ، ریسرچ فیلو: دارالمعارف لاہور ، رفیق کار:دائرہ معارف سیرت ))

سائل ویتیم سے حسن سلوک ، نبوی اسوہ اور جدید تہذیب والحاد (حصہ:3،یتیم اور سائل دور جاہلیت میں )

♻ اسلام سے قبل ''جس کی لاٹھی اس کی بھینس'' والا قانون رائج تھا۔ معاشرے کے کمزور افراد کسی طرح بھی رحم و کرم کے حقدار نہ تھے۔ آزاد بچوں اور عورتوں کو غلام بناکر منڈیوں میں فروخت کر دیا جاتا تھا۔ یتیم کا بھی کوئی پرسان حال نہ تھا۔

♻ دور جاہلیت میں یتیم پر ہوشربا ظلم و ستم ڈھائے جاتے تھے اور مختلف اندازسے ان کے حقوق پر ڈاکا ڈالا جاتا تھا۔ جس کا جی چاہتا یتیم کے مویشیوں میں سے موٹا تازہ جانور اپنے قبضے میں کرکے اس کے عوض کمزور اور لاغر جانور زبردستی اسے دے دیا کرتا اور بولتا: جانور کے بدلے جانور لیا ہے۔ اسی طرح یتیم کے مال میں سے عمدہ قسم کے درہم اپنے قبضے میں لے کر اس کے بدلے میں اسے بیکار قسم کے درہم دے دیے جاتے اور کہا جاتا: درہم کے بدلے میں درہم لیے ہیں۔

♻ یتیمی کی حالت میں جوان ہونے والی لڑکی سے زبردستی شادی کرلی جاتی، جس کا مقصد اس کے مال پر قبضہ کرنا ہوتا۔ وہ لوگ یتیم کا مال کھانے میں کوئی عار محسوس نہ کرتے تھے۔(القرطبی والبغوی:التفسیر،النساء:٢ وجواد علی، المفصل:495/5)

♻ طفیلی شخص کو دور جاہلیت میں ایک لالچی اور حریص آدمی کی طرف نسبت کی وجہ سے'' فَلْحَسْ'' کہا جاتا تھا۔ فلحس کے معنی ہیں: چمٹ کر مانگنے والا۔ کتے کے لیے بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے۔ فلحس اصل میں قبیلہ بنو شیبان کا ایک فرد تھا ، جو سوال کرنے میں بالکل نہ شرماتا تھا۔ اپنی اسی حرکت کی وجہ سے وہ بد نام تھا۔ جب یہ کسی مہم میں شامل ہوتا تو اس دوران میں ہاتھ لگنے والے مال میں سے پہلے تو اپنا حصہ مانگتا، پھر اپنی بیوی کا حصہ مانگتا اور پھر وہ اپنے گھوڑے کا حصہ مانگنے لگتا۔

♻ یہ آدمی اپنی لالچی طبیعت کی وجہ سے اس قدر مشہور تھا کہ ضرب المثل بن گیا، کسی کی بھی گداگری کی مذمت کرنا ہوتی تو کہا جاتا:'' أَسْأَلُ مِنْ فَلْحَسَ''(ابن منظور، لسان العرب:166/6 و الزبیدی، تاج العروس:402/8) وہ تو فلحس سے بھی بڑھ کر منگتا ہے۔

♻ سائل کے لیے ''طفیلی'' لفظ بھی مستعمل ہے۔ یہ لفظ اصل میں کوفہ کے طفیل نامی ایک شخص کی طرف منسوب ہے۔ یہ بنو عبداللہ بن غطفان کا طفیل بن زَلاّل نامی ایک آدمی تھا ، جو بن بلائے مہمان کا نمونہ تھا۔ کوئی اسے بلائے نہ بلائے، وہ بن بلائے ہی دعوتوں میں گھس جایا کرتا اور کہا کرتا: کوفہ ایک تالاب کے مانند ہے جس کا کوئی فرد بھی مجھ سے مخفی نہیں۔ (الزبیدی،تاج العروس:436/15 و ابن منظور،لسان العرب:404/11) اُس کا مطلب ہوتا کہ کوفہ میں جہاں بھی کھانے پینے کا اہتمام ہو، میں وہاں پہنچ جاتا ہوں، کیونکہ یہ لوگ مجھ سے چھپ کر کچھ نہیں کر سکتے، مجھے ہر وقت خبر رہتی ہے۔

♻دور جاہلیت میں بھی گداگری اور طفیلی پن اگرچہ ناپسندیدہ عمل تھا ، لیکن دور جاہلیت میں بھی عزت دار لوگ طفیلی اور گداگر کو خالی ہاتھ لوٹانے کو باعث عار خیال کرتے تھے۔ دور جاہلیت میں گداگری کی واضح مثال ایام حج کی ہے۔ ان دنوں رب تعالیٰ کے گھر کی زیارت کے لیے آنے والے لوگ اپنا دست سوال دراز کرتے، جس کی اللہ عزوجل نے یوں تردید کی ہے:( وَ تَزَوَّدُوْا فَاِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوٰی)( البقرہ:197/2)''زاد راہ لے لیا کرو، یقینا بہترین زاد راہ تقویٰ ہے۔''

♻ اس آیت مبارکہ کے شان نزول میں مروی ہے کہ اہل یمن حج کے لیے جاتے ہوئے اپنے ساتھ زاد راہ لے کر نہ جاتے۔ کہا کرتے کہ ہم توکل کرنے والے ہیں، لیکن مکہ آکر کھانے کے لیے لوگوں سے مانگنے لگ جاتے۔(صحیح البخاری:١٥٢٣ و سنن أبی داود:١٧٣٠)

♻ بعض روایات میں یمن کی تخصیص کے بغیر عمومی تذکرہ ہے کہ لوگ حج کے لیے آتے ہوئے ساتھ زادِ راہ نہ لاتے اور بعد میں مانگنے لگتے۔ اس پر یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی۔(ابن أبی شیبہ، المصنف:١٣٨٥١ و النسائی، السنن الکبریٰ:٨٧٣٩)

♻ دور جاہلیت کی طرح عصر حاضر میں بھی یتیموں پر کئی طرح کے مظالم ڈھائے جاتے ہیں ، یتیموں کو ان کے حق وراثت سے محروم کرنا ، موجود دور میں ناسور کی صورت اختیار کرتا جارہا ہے ، باپ کی محرومی کے ساتھ ہی عام طور پر قریبی اور تعلق دار رخ موڑ لیتے ہیں ، بچوں کی جائیداد ہتھیانے کے لیے اخلاقی اقدار وروایات اور دینی ھدایات کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے ، دوسری طرف طفیلی پن اور گداگری بھی عروج پر ہے ، معلوم کرنا مشکل ہوتا ہے کہ حقدار کون ہے ؟


♻ عصر حاضر میں یتیموں پر مظالم اور گداگری کا سیلاب ، اس کی بنیادی وجہ کمزور ایمان وعقیدہ ، مسلمانوں کی فکری و عملی پسماندگی اور دینی اقدار وروایات سے کمزور تعلق ہے ، ان تمام سے بڑھ کر مذہب بیزار جدید تہذیب والحاد کے مسموم اثرات ہیں ، ہمدردی و خیرخواہی ، تقوی وللہیت ،فکر آخرت اور حقوق العباد کی پاسداری جیسے اعلیٰ افعال و عادات سے دامن خالی ہوتا جا رہا ہے ، عصر حاضر کا تہذیب یافتہ مغربی انسانی معاشرہ ، حرص و ہوس اور خود غرضی میں دور جاہلیت کو بھی پیچھے چھوڑ گیا ہے ،
 
Top