• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

(قسط:7)((سیدنا عمر بن خطاب رضی اللّٰہ عنہ کے حالات زندگی اور فضائل و مناقب)) ( بہن کی استقامت اور حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ کا قبول اسلام )

شمولیت
نومبر 14، 2018
پیغامات
305
ری ایکشن اسکور
48
پوائنٹ
79
سیدنا عمر فاروق رضی اللّٰہ عنہ کے حالات زندگی اور فضائل و مناقب

حافظ محمد فیاض الیاس الاثری دارالمعارف لاہور:0306:4436662


(حصہ:7)سیدنا عمر بن خطاب رضی اللّٰہ عنہ کے حالات زندگی اور فضائل و مناقب ؛بہن کی استقامت اور حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ کا قبول اسلام

♻ حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ اپنے قبول اسلام کا واقعہ خود بیان کرتے ہیں کہ میں تمام قریشِ مکہ سے بڑھ کر رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا دشمن تھا اورآپ سے انتہائی سخت رویہ اختیار کرتا تھا۔ ایک دن بڑی سخت گرمی پڑ رہی تھی۔ میں دوپہر کے وقت مکہ کے بازار میں جارہا تھا۔ راستے میں ایک قریشی سے ملاقات ہوئی۔

♻ وہ پوچھنے لگا: ابن خطاب! کہاں کا قصد ہے؟ میں نے جوا ب دیا کہ میں اس (محمد صلی) کا کام تمام کرنے جارہا ہوں(نعوذ باللہ)۔ وہ آدمی بولا: تم پر بڑا تعجب ہے! یہ دین تو تمھارے گھر میں داخل ہو چکا ہے۔ میں نے حیرانی سے پوچھا کہ وہ کیسے؟ وہ آدمی بولا: تمھاری بہن بھی اپنا دین چھوڑ کر نیا دین اختیار کر چکی ہے۔ میں اس کی بات سنتے ہی شدید غصے میں واپس چل دیا۔

♻ رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا طریقہ کار یہ تھا کہ جو مسلمان صاحب ِحیثیت ہوتا اس کے پاس ایک یا دو مسلمانوں کو ٹھہرا دیا جاتا، تاکہ مل جل کر گزر بسر کرتے رہیں۔ اسی طرح میرے بہنوئی کے ہاں بھی دو آدمیوں کو ٹھہرایا گیا تھا۔ میں اپنی اسی بہن کے گھر گیا۔ دروازہ کھٹکھٹایا۔ اس نے پوچھا: کون؟ میں نے کہا: ابن خطاب۔ یہ سنتے ہی وہاں موجود سب لوگ چھپ گئے،

♻ لیکن جو صحیفہ وہ پڑھ رہے تھے اسے چھپانا بھول گئے۔ میری بہن نے دروازہ کھولا تو میں اسے دیکھتے ہی بولا: اے اپنی جان کی دشمن! مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم نے بھی اپنا دین تبدیل کر لیا ہے؟ یہ کہتے ہی میرے ہاتھ جو چیز آئی میں نے پکڑی اور اسے پیٹنا شروع کردیا، اتنا مارا کہ خون بہنے لگا۔ اس نے خون بہتے دیکھا تو رونا شرو ع کر دیا اور ساتھ ہی بولی: اے ابن خطاب! تمھیں جو کرنا ہے کرلو، میں تو اسلام لے آئی ہوں۔

♻ اس کی یہ بات سنتے ہی میں رُک گیا اور ساتھ ہی بچھی ہوئی چارپائی پر بیٹھ گیا۔ اس دوران میں گھر میں ایک طرف پڑے ہوئے اوراق پر میری نظر پڑی۔ میں نے پوچھا: یہ کیا ہے؟ یہ اوراق مجھے دکھاؤ! میری بہن نے کہا: تم اس قابل ہی نہیں، جب تک تم غسل نہ کر لو یہ اوراق تمھیں نہیں دیے جاسکتے۔ میں نے غسل کیا تو وہ کتاب مجھے دے دی گئی۔

♻ جب میں نے اسے پڑھنا شروع کیا تو اس میں لکھا تھا: (بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ) جب میں نے ''الرحمن الرحیم'' پڑھا تو میں کانپ گیا اور میں نے وہ اوراق رکھ دیے۔ تھوڑی دیر کے بعد پھر وہ اوراق تھامے اور انھیں پڑھنا شروع کر دیا تو سامنے یہ آیت آگئی:( سَبَّحَ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ o) ''اللہ کی تسبیح کرتی ہے ہر وہ چیز جو زمین اور آسمانوں میں ہے اور وہی ذات زبردست اور دانا ہے۔''

♻ اب میں مسلسل پڑھتا جا رہا تھا۔ اس دوران میں جب میری نظر اللہ عزوجل کےاسمائے گرامی میں سے کسی نام پر پڑتی تو میں کانپ جاتا اورمیرا سانس رُک جاتا تھا، پھر توقف کے بعد ڈھارس بندھتی تو پڑھنا شروع کر دیتا،

♻حتیٰ کہ پڑھتے پڑھتے میں ان آیات تک پہنچا:( اٰمِنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَاَنْفِقُوْا مِمَّا جَعَلَکُمْ مُّسْتَخْلَفِینَ فِیْہِ فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَاَنْفَقُوْا لَہُمْ اَجْرٌ کَبِیْرٌo وَمَا لَکُمْ لَا تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالرَّسُوْلُ یَدْعُوْکُمْ لِتُؤْمِنُوْا بِرَبِّکُمْ وَقَدْ اَخَذَ مِیثَاقَکُمْ اِِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِیْنَo )(الحدید: 1/57-8)''ایمان لاؤ اللہ اور اس کے رسول پر اور خر چ کرو اُن چیزوں میں سے جن پر اُس نے تمھیں نائب بنایا ہے۔ جو لوگ تم میں سے ایمان لائیں گے اور مال خرچ کریں گے ان کے لیے بڑا اجر ہے۔ تمھیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ پر ایمان نہیں لاتے؟ حالانکہ رسول تمھیں اپنے رب پر ایمان کی دعوت دے رہے ہیں اور وہ تم سے بھی عہد لے چکے ہیں، اگر تم واقعی ماننے والے ہو۔''

♻ یہ پڑھتے ہی میں نے فوراً کہا: '' أَشْھَدُ أَن لاَّ إِلٰـہَ إِلاَّ اللّٰہُ وَ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ '' یہ کلمہ سن کر گھر میں چھپے ہوئے افراد خوشی کے مارے باہر نکل آئے۔ وہ اللہ کی حمد بیان کرنے لگے، تکبیرات پکارنے لگے اور بولے: اے ابن خطاب، مبارک ہو! میں نے ان سے پوچھا: مجھے بتاؤ کہ رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کہاں ہیں؟ بتایا گیا کہ آپ صفا کے نشیب میں موجود ایک گھر میں تشریف فرما ہیں۔

♻ میں یہاں سے نکلا اور وہاں پہنچ گیا جہاں آپ تشریف فرما تھے۔ دروازہ کھٹکھٹایا تو آواز آئی: کون؟ میں نے جوا ب دیا: ابن خطاب۔ لوگ رسول ﷲ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے میری عداوت کا حال خوب جانتے تھے، لیکن میرے اسلام لانے کا ابھی انھیں علم نہیں تھا، اس لیے میری آواز سن کر ان میں سے کسی کو دروازہ کھولنے کی ہمت نہ ہوئی۔

♻ لیکن رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے دروازہ کھولنے کا حکم دیا اور فرمایا:(( اِفْتَحُوْا لَـہ، فَإِنَّہ، إِن یُّرِدِ اللّٰہُ بِہِ خَیْرًا یَھْدِہِ )) ''دروازہ کھول دو، اگر اللہ تعالیٰ اُس کی بھلائی چاہتے ہیں تو اُسے ہدایت نصیب فرمائیں گے۔''

♻ دروازہ کھولا تو دو آدمیوں نے مجھے میرے کندھوں سے پکڑ لیا، پھر انھوں نے مجھے رسول ﷲ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے قریب کھڑا کر دیا۔ آپ نے فرمایا: ''اسے چھوڑ دو۔'' میں آپ کے سامنے بیٹھ گیا۔ آپ نے میری قمیص سے پکڑ کرمجھے اپنے قریب کیا اور فرمایا: (( أَسْلِمْ یَا ابْنَ الْخَطَّابِ ، اَللّٰہُمَّ اھْدِہِ ))''اے خطاب کے بیٹے! اسلام قبول کر لے۔'' پھر آپ نے یہ دعا بھی فرمائی: ''اے اللہ! اسے ہدایت نصیب فرما۔''

♻ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی یہ بات سنتے ہی میں نےکہا: ''أَشْھَدُ أَن لاَّ إِلٰـہَ إِلاَّ اللّٰہُ وَأَنَّکَ رَسُولُ اللّٰہِ''میں گواہی دیتا ہوں کہ الٰہ صرف اللہ ہے اور آپ یقینا اللہ کے رسول ہیں۔ یہ سنتے ہی وہاں موجود اصحاب رسول نے اس زور سے نعرئہ تکبیر بلند کیا کہ مکہ کے درودیوار گونج اُٹھے اور ان کی آواز مکہ کے گلی کوچوں اور بازاروں میں سنی گئی۔(أحمد بن حنبل ،فضائل الصحابہ:285/1 و ابن الاثیر،أسد الغابہ: 320/3-321)

♻ رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی سیدنا عمر رضی اللّٰہ عنہ کے لیے دعا قبولِ اسلام کے بعد رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ان کے سینے پر تین مرتبہ اپنا دستِ مبارک پھیرا اور دعا کی:(( اَللّٰہُمَّ أَخْرِجْ مَا فِیْ صَدْرِہِ مِنْ غِلٍّ وَ أَبْدِلْہُ إِیْمَانًا ))(الحاکم،المستدرک:٤٥٤٨ و الہیثمی، مجمع الزوائد:١٤٤١٧)''اے اللہ! اس کے دل میں موجود اسلام دشمنی کو دور فرما اور اس کے دل کو ایمان سے معمور فرما۔''
 
Top