• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قصاص و دیت کے مسائل

شمولیت
جنوری 14، 2016
پیغامات
2
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
18
ترتیب و تحقیق: حافظ محمد بہرام (03008400914)
باب القصاص
بسم اللہ الرحمن الرحیم
یا ایھا الذین امنوا کتب علیکم القصاص فی القتلیo الحر با لحر والعبد بالعبد والانثی بالانثی فمن عفی لہ من اخیہ شیء فاتباع بالمعروف واداء الیہ باحسان ذلک تخفیف من ربکم ورحمۃ فمن اعتدی بعد ذلک فلہ عذاب الےم o ولکم فی القصاص حیوۃ یا اولی الا باب لعلکم تتقونo
(البقرہ)
ترجمہ:۔
اے ایمان والو ! تم پر مقتولین کے خون (ناحق)کا بدلہ لینا فرض کیا گیا ہے۔آزاد کے بدلے آزاد، غلام کے بدلے غلام ، عورت کے بدلے عورت ، سو جس (قاتل)کے لیے اس کے بھائی کی طرف سے کچھ معاف کر دیا گےا تو (اس کا)دستورکے مطابق فیصلہ کیا جائے گا۔ اور نیکی کے ساتھ اس کی ادائیگی کی جائے ، یہ (حکم)تمہارے رب کی طرف سے تخفیف اور رحمت ہے، پھر اس کے بعد جو حد سے تجاوز کرے اس کے لیے درد ناک عذاب ہے۔اور اے عقلمندو !تمھارے لیے خون کا بدلہ (مشروع کرنے )میںزندگی ہے، تا کہ تم (ناحق کرے سے ) بچو۔
آےت مذکورہ کا شان نزول:۔
امام جعفر محمد بن طبری روایت کرتے ہیں کہ زمانہ جاہلیت میں دو قبیلے آپس میں لڑتے ، ایک معزز ہوتا (ےعنی اس کا تعلق قبیلہ بنو نضیر سے ہوتا )اور دوسرا پسماندہ ہوتا (یعنی اس کا تعلق بنو قریظ سے ہوتا)اور پسماندہ قبیلہ کا غلام معزز قبیلے کے غلام کو قتل کر دیتا تو معزز قبیلہ کہتا کہ ہم اپنے غلام کے بدلے میں پسماندہ قبیلے کے آزادشخص کو قتل کرےں گے، اسی طرح اگر پسماندہ قبیلے کی کوئی عورت معزز قبیلے کی کسی عورت کو قتل کرتی تو معزز قبیلہ کہتا کے ہم اپنی عورت کے بدلے میں پسماندہ قبیلے کے مرد کو قتل کرےں گے ۔ تو ان کے رد میں یہ آ یت نازل ہوئی۔
(تفسیر تبےان القرآن جلد اص ٦٥٦، تفسیر ات احمد یہ ص ٥٠)
مذکورہ آیت پر تبصرہ:۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا غلام کے بدلے آزاد کو ، عورت کے بدلے مرد کو قتل کیا جائے گا؟تو اس کا جواب یہ ہے کہ قصاص کی صورت میں قاتل کو ہی قتل کیا جائے گا، آزاد ہو یا غلام ہو ،مرد ہو یا عورت ہو، لہذا اگر عورت نے مرد کو قتل کیا تو قاتلہ عورت کو ہی قاتل کیا جائے گا، یہ بھی خیال رہے کے اگر مومن ذمی کافر (ےعنی وہ کافر جو مسلمان کے ملک میں رہتا ہے اور ٹیکس بھی ادا کرتا ہے)کو قتل کر دے تو مومن قاتل کو قصاص میں قتل کیا جائے گا۔ حضوراکرم ؐ ذمیو ں کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ''فدماؤھم کدماؤنا''کہ ان کے خون ہمارے خون کی طرح ہیں۔ اوہ جو حدیث میں ہے کہ مومن کو کافر کے بدلے میں قتل نہ کرو تو اس حدیث میں کافر سے مراد حربی کافر(ےعنی وہ کافر جو میدان جنگ میں ہو) ہے۔ لہذا آیت و حدیث صاف ہیں۔
جو قصاص بندے کا حق ہے وہ بندے کے معاف کر دینے سے معاف ہو جاتا ہے ۔ خیال رہے کے اگر باپ بیٹے کو قتل کر دے توقصاص نہیں ہے۔اورحضور اکرم ؐ کا اپنے آپ کوقصاص کے لیے پیش فرمانا تعلیماًتھا ۔ قتل میں اللہ تعا لی نے ، مقتول کے اولیا کو معافی کا حق دےا ہے اور یاد رہے کہ غیر قاتل کو قتل نہ کر دیا جائے اور قاتل کو قصاص میں ناجائزایذاء نہ دی جائے جیسے ہاتھ پاؤں کاٹنا، شکل بگاڑنا وغیرہ اور قصاص کے بغیر قوم مردہ ہے۔
امام مالکؒ، امام شافعیؒ اور امام احمد ؒ کا موقف ہے کہ مسلمان کو کافر کے بدلے اور آزاد کو غلام کو بدلے قتل نہیں کیا جائے گا۔ یہ حضرات اس مؤقف میں دلیل کے طور پر بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے غلام قتل کیا تو رسول اللہ ؐ نے اسے کوڑے مارے اور ایک سال کے لیے جلاوطن کر دیا اور اس سے غلام کا قصاص نہ لیا اور دوسری دلیل یہ دیتے ہیں کہ رسول اکرم ؐنے ارشاد فرمایا کہ خبردار ! مسلمان کو کافر کے بدلے قتل نہ کیا جائے ۔ امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اس مسئلے میں ارشاد فرماتے ہیں کہ آزاد کو آزاد اور غلام بدلے قتل کیا جائے گا ،چھوٹے کو بڑے کے بدلے قتل کیا جائے گااور مسلمان کو ذمی کے بدلے قتل کیا جائے گا۔اگریہ اعتراض کیا جائے کے مذکورۃ آیت میں صراحتاذکر ہے کہ غلام کے بدلے غلام، عورت کے بدلے عورت، تو امام صاحب قران کے خلاف کےوں جا رہے ہیں؟تو اس کا جواب یہ ہے کہ قران کی مذکورہ آیت سورہ مائدہ کی اس آیت سے منسوخ ہے ''ان النفس بالنفس'' ےعنی نفس کے بدلے نفس تو ثابت ہوا کہ امام صاحبؒ کا موقف قرآن کے خلاف نہیں ہے۔
(تفسیرات احمدیہ ص: 50)
رہ گئی یہ بات کہ جو ائمہ ثلاثہ ؒنے بطور دلیل احادیث پیش کیں ان کا کیا ہوگا؟ تو اس کا جواب یہ کہ جو ائمہ ثلاثہؒ نے حضرت علی رضی اللہ تعا لی عنہ والی رواےت پیش کی ہے وہ مذہب حنفیہ کے خلاف نہیں بلکہ مذہب حنیفہ کی تائےد میں ہے۔ کیو نکہ اس حدیث میں جو سزا ہے وہ اپنے غلام کو قتل کرنے کی ہے اور احناف بھی یہی فرماتے ہے کہ اگر کوئی اپنے غلام کو قتل کرے تو اس پر قصاص نہیں ہے بلکہ قصاص اس صورت میں واجب ہے جب کوئی آزاد کسی کے غلام کو قتل کرے ۔
(تبیان القرآن ج:1)
باپ سے بیٹے کا قصاص
عن ابن عباس ؓقال قال رسول اللہ ؐ لا یقام الحدودفی المساجد ولا ےقاد بالو لد الوالدرواہ الترمذی
(مشکوۃالمصابیح ج : ٢ ص : ٣١٠ رقم الحدیث:٣٣١٦)
مفھوم حدیث :۔
حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ؐ نے ارشاد فرما ےا کہ رسول اللہ ؐ نے ارشاد فرماےا کہ مسجد میں حدود قائم نہ کی جائےں اور باپ سے بیٹے کا قصاص نہ لیا جائے، اسے امام ترمذی نے روایت کیا۔
مؤقف فقھاء :۔
تمام ائمہؒ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ باپ سے بیٹے کا قصاص نہیں لیا جائے گا دلیل مذکورہ حدیث ہے ۔ اس کے علاوہ ائمہ فرماتے ہے کہ باپ میں شفقت بہت ہوتی ہے تو کوئی بھی باپ اپنے بیٹے کو قتل کرنا نہےں چاہے گاہاں باپ نے بیٹے کو تادیبا ًمارا تو نتےجے میں وہ مر گےا تو اس کے قصاص میں باپ کو قتل نہیں کیا جائے گا۔امام مالک ؒاس مسئلے میں اختلاف کرتے ہوئے فرماتے ہیں کے اگر باپ نے بیٹے کو ذبح کیا تو اس کا قصاص اس سے لیا جائے گا لیکن اگر باپ نے ضرب لگائی تھی تا دےبا پر نتےجے میں بیٹامیں مر گیا تو اس کا قصاص نہیں ہو گا۔ اور یہ بات بھی ےاد رہے کہ بیٹے سے باپ کا قصاص لیا جائے گا ۔
(حا شیہ مشکورۃ المصابیح ص : ٣١٠ حاشیہ :٤)
کیفیت قصاص
امام شافعیؒ، امام مالکؒ اور امام احمد ؒفرماتے ہیں کہ قاتل نے جس طرح قتل کیا تو اس کق بھی اسی طرح قتل کیا جائے گا۔ اس موقف پر یہ حدیث بطور یہ دلیل پیش کی گئی ۔
''عن انسؓ ان یھود ےا رض راس جارےۃ بین حجرین فقل لھا من فعل بک ھذا افلان افلان حتی سمی الےھودی فاومت براسھا فجی ء بالیھودی فاعترف وامربہ رسول اللہ ؐ فرض راسہ بین الحجارۃ متفق علیہ''
(مشکوۃالمصابیح ج:٢ رقم الحدیث : ٣٣٠٧)
مفھوم :۔
حضرت انس ؓبےان کرتے ہیں کہ ایک یہودی نے ایک لڑکی کے سر کو دو پتھروں کے درمیان کچل دیا تو اس لڑکی سے پوچھا گیا کہ تیرے ساتھ یہ کس نے کیا ہے؟کیا فلاں نے ؟کیا فلاں نے؟حتی کے یہودی کا نام لیا گیا تو لڑکی نے سر سے ہاں کا اشارہ کیا پھر یہودی کو بلاےا تو اس نے اپنے جر م کا اعتراف کیا ،رسول اکرم ؐ نے حکم دیا اور اس یہودی کے سر کو پتھر سے کچل دیا گیا۔اما م اعظم ابو حنیفہ ؒفرماتے ہیں کہ یہ حدیث منسوخ ہے ،اس کی ناسخ وہ حدیث ہے جس میں مثلہ سے منع کیا گیا اور فرماتے ہیں کے قصاص صرف تلوار سے لیا جائے اور اس کی دلیل یہ دیتے ہیں کہ حضرت نعمان بن بشیر ؓبیان کرتے کہ رسول اکرم ؐ نے ارشاد فرمایا '' تلوار کے علاوہ کسی چیز سے قصاص لینا جائزہ نہیں ''(ابن ماجہ) اسی طرح بہت سی دیگر احا دیث اس بات پر دال ہیں کہ قصاص صرف تلوار سے ہی لیا جائے گا۔
(تبیان القرآ ن ج:١)
قتل کرنے کے متعلق احادیث
حدیث نمبر ١ :۔
عن عبداللہ ابن عمرو ان النبی ؐ قال لزوال الدنیا اھون علی اللہ من قتل رجل مسلم۔
(مشکوۃ المصابیح : ٢ رقم الحدیث :٣٣١٠)
مفھوم:۔
حضور عبداللہ بن عمر ؓسے روایت ہے کے رسول اکرم ؐنے ارشاد فرماےا کے دنےا کا مٹ جانا اللہ کی بارگاہ میں اتنا سخت نہیں ہے جتنا ایک مسلمان کاقتل ہے۔
حدیث نمبر٢:۔
عن ابی سعید و ابی ھریرۃ عن رسول اللہ ؐ قال لوان اھل السماء والارض اشترکوا فی دم مؤمن لا کبھم اللہ فی النار رواہ الترمذی وقال ھذا حدیث غریب۔
(مشکوۃ المصابیح : ٢ رقم الحدیث :٣٣١١)
مفھوم :۔
حضرت ابو ہریرہ ؓاور ابو سعید ؓ رسول اکرم ؐ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ؐ نے فرماےا کہ اگر زمین و آسمان والے سب ایک مومن کا خون کرنے میںجمع ہوں جائیں تو اللہ تعالی ان سب کو جہنم میں اوندھا گرادے گا ۔ اسے امام ترمذی یے روایت کیا اور فرمایا کہ یہ حدیث غریب ہے۔
حدیث نمبر٣:۔
عن ابن عباس عن النبی ؐ قال ےجی ء المقتول بالقاتل یوم القیامۃ ناصیتہ وراسہ بیدہ واوداجہ تشخب دما یقول یا رب قتلنی حتی ےدنےہ من العرش رواہ الترمذی والنسائی وابن ماجہ۔
(مشکو ۃ المصابیح ج : ٢ رقم الحدیث: ٣٣١٢)
مفھوم :۔
حضر ت ابن عباس ؓنبی پاک ؐ سے روایت کرتے ہیں : آپ ؐ نے ارشاد فرماےا کہ قیامت کے دن مقتول قاتل کو اس کے پیشانی سے پکڑ کر لائے گااور مقتول کی گردن کی رگوں سے خون بہہ رہا ہو گا اور ےہ کہ رہا ہو گا اے میرے رب !اس نے مجھے قتل کیا !!!!!اور وہ اسے عرش کے قریب لے جائے گا ۔ (اب سوچئے کہ اس وقت اللہ تعالی کہ عرش کی کیا کیفیت ہو گیایک حدیث میں اتا ہے کہ جب ےتیم روتا ہے تو عرش الہی لرزنے لگ جاتا ہے۔اور جب وہاں مقتول قاتل کو لائے کا اور اور چیخ رہا ہو گاکو اس نے مجھے قتل کیا اس وقت اللہ کے عرش و جلال کا کیا عالم ہوگا یہ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا)۔
باب الدیۃ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
وما کان لمؤن ان یقتل مؤمنا الا خطاء ومن قتل مؤمناخطاء فتحریر رقبہ مؤمنہ ودیہ مسلمۃ الی اھلہ الا ان یصدقوا فان کان من قوم عدو لکم وھو مومن فتحریر رقبۃ مؤمنۃ وان کان من قوم بینکم وبینھم میثاق فدیہ مسلمۃ الی اھلہ و تحریر رقبۃ مؤمنہ فمن لم یجد فصےام شھرین متتابعین توبۃ من اللہ وکان اللہ علیما حکیماومن یقتل مؤمنا متعمدا فجزائہ جھنم خالدا فیھا وغضب اللہ علیہ ولعنہ واعدلہ عذابا عظیم ۔
(النساء ٩٣ : ٩٢)
ترجمہ:۔
اور کسی مومن کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ کسی دوسرے مومن کو قتل کرے ما سواء خطا کے ( نا دانستہ طور پر ) اور جس نے کسی مسلمان کو خطاء (بلا قصد) قتل کیا تو اس پر ایک مسلمان گردن ( غلام یا باندی) کو آزاد کرنا لازم ہے اوراس کے وارثوں کو دیت اد اکی جائے ما سوا اس کے کہ وہ معاف کر دیں۔ پھر اگر وہ مقتول اس قوم سے ہو جو تمہاری دشمن ہے اور وہ (مقتول ) مسلمان ہو تو صرف ایک مسلمان گردن آزاد کرنا لازم ہے ۔ اگر وہ مقتول اس قوم سے ہے جس سے تمہارا معاہدہ ہے تواس کے وارثوں کو دیت دی ادا کی جائے اور ایک مسلمان گردن کو آزاد کیا جائے۔ سو جو شخص (غلام یا باندی کو ) نہ پائے تو وہ مسلسل دو ماہ کے روزے رکھے یہ اللہ تعالی کی طرف سے اس کی توبہ ہے ۔ اور اللہ بہت علم والا اور بڑی حکمت والا ہے ۔ اور جو شخص کسی مسلمان کو قصدا قتل کرے تو اس کی سزا دوزخ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا ۔ اور اس پر اللہ کا غضب ہو گا اور اللہ اس پر لعنت کرے گا اور اللہ نے اس کے لیے عذاب عظیم تیار کر رکھا ہے ۔
شان نزول ١:۔
یہ آیت عیاش ابن الربیع کے بارے میں نازل ہو ئی کہ انہوں نے قسم کھائی کہ وہ حارث ابن زید کو قتل کریں گے ۔ حارث ابن زید مسلمان ہو گئے ، عیاش کو خبر نہ ہوئی انہوں نے بے خبری میں حارث ابن زید کا قتل کر دیا پھر ان کو پتہ چلا کہ وہ مسلمان ہو گئے تھے تو وہ بہت شرمندہ ہو ئے اور انہوں نے یہ معاملہ آقائے دو جہاں ؐ کی بارگا ہ میں پیش کیا تو اللہ تعالی نے ان آیا ت کا نزول کر دیا۔
( تفسیرات احمدیہ ص 294)
شان نزول ٢:۔
حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ جنگ احد کے دن مشرکین شکست کھا گئے تھے اس وقت ابلیس لعین نے چلا کر کہا ، اے! اللہ کے بندو پیچھے والوں پر حملہ کرو پھر اگلی صفوں نے پچھلی صفوں پر حملہ کیا اور وہ آپس میں گھتم گھتا ہو گئے اچانک حضرت حذیفہ ؓ نے دیکھا کہ مسلمان حضرت یمامہ ؓ پر حملہ کر رہے ہیں انہوں نے چلا کر کہا کہ یہ میرے باپ ہیں ، حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا با خدا وہ اس وقت تک باز نہیں آئے جب تک کہ انہوں نے حضرت یمامہ ؓ کو قتل نہیں کردیا، حضرت حذیفہؓ نے کہا اللہ تمہاری مغفرت فرمائے ۔ پھر ان آیات کا نزول ہو ۔
(صحیح البخاری، رقم الحدیث : 3065)

قتل کی قسمیں
قتل کی پانچ قسمیں ہیں:۔
١۔ قتل عمد ٢۔ قتل شبہ عمد ٣۔ قتل خطائ ٤۔ جاری مجری ٥۔ قتل بالسبب
تفصیل:۔
قتل عمد کہتے ہیں قصد ایسے آلہ (ہتھیار )کے ساتھ قتل کرنا جو موضوع للقتل ہو (ےعنی بناہی قتل کے لئے ہو)جیسے تلواربندوق ، بم وغیرہ ۔ قتل شبہ عمد کہتے ہیں ایسے آلہ کے ساتھ قصدا قتل کرناجو موضوع للقتل نہ ہو جیسے لکڑی پتھر وغیرہ ۔ قتل خطاء کی دو صورتےں ہیں خطاء فی الفعل اور خطاء فی القصد ، خطاء فی الفعل سے مراد ہے کہ کسی نے دور سے دیکھا اور سمجھا کے وہ شکار ہے یا وہ حربی کافر ہے تو اسے قتل کر دیا پر معلوم کرنے پر پتہ لگا کہ یہ نہ تو کوئی شکار ہے اور نہ ہی حربی کافر یہ تو مسلمان ہے۔خطاء فی القصد
سے مراد ہے مثلا کسی نے ہدف پر نشانہ لگایا اور وہ چوکا تو مسلمان کو وہ نشانا لگ گےا اب وہ مسلمان قتل ہو گیا ۔قتل بالسبب سے مراد ہے کہ مثلا کسی نے اپنی زمین پر کنواں کھودا اورکوئی دوسرا اس کنوے میں گر کر مر گیا۔
(تفسیرات احمد یہ ص : ٢٩٤)
دیت
قتل خطاء :۔
ابن مسعود ؓبیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم ؐ نے قتل خطاء کی دیت یہ مقرر کی ہے : ایک سال کی 20اونٹنیاں، ایک سال کے 20اونٹ، ٢سال کی 20اونٹنیاں، ٣ سال کی 20اونٹنیاں، ٤ سال کی 20اونٹنیاں۔
(سنن ترمذی رقم : ١٩٣١ ، سنن ابی داؤدر قم : ٤٥٤٥ ، نسائی رقم : ٤٨١٢)
امام اعظیم ابو حنیفہ ؒکے نزدیک قتل خطاء کی دیت یہی ہے جو اس حدیث میں بیان کی گئی ہے۔ امام صاحب ؒکے ہاں قتل خطاء کی صورت میں ایک ہزار دینار یعنی(4.374 کلو سونا) یا دس ہزار درہم یعنی (30.168 کلو چاندی ) دےئے جاسکتے ہیں ۔ امام شافعی کے نزدیک قتل خطاء کی صورت میں 100اونٹ ، ہزار دینار ، ہزار درہم ، دو سو گائے ، دو ہزار بکریاں، دو سو جوڑے کپڑے بھی دےئے جا سکتے ہیں۔
قتل شبہ عمد:۔
امام صاحب ؒکے نزدیک قتل شبہ عمد کی دیت اس طرح ہے : 1سال کی 25اونٹنیاں، 2سال کی 25اونٹنیاں، 3سال کی 25اونٹنیاں، 4سال کی 25اونٹنیاں۔
(بتےان القران ج: ٢ ص : ٧٥٦ بحوالہ فتاوی عالمگیر )
قتل عمدکی دیت :۔
قاتل کو مقتول کے ورثاء کے حوالے کیا جائے گا پھر اگر وہ چاہیں تو اسے قتل کر دیں یا پھر اس سے دیت لے لےں ۔ اس کی دیت اس طرح ہے:3سال کی 30، 4 سال کی 30اور 5سال کی 40اونٹنیاں۔اس کے علاوہ ورثاء کو اختیار ہے کہ وہ جس مقدار پربھی صلح کریں۔
(مشکوۃ المصابیح ج :٢ ح: ٣٣٢٠)
دیت کی ادئےگی کی مدت:۔
تمام ائمہ کا اس بات پر اجماع ہے کہ دیت تین سال میں ادا کرنا ضروری ہے قسط وار۔ ہر سال کی قسط ایک تہائی ہے۔ اور قتل خطاء کی دیت عاقلہ پر ہے ( باپ کو طرف سے جو رشتہ دار ہیں وہ عاقلہ ہیں )،یہ امام مالک ؒاور امام شافعی ؒکا قول ہے۔ بعض ائمہ نے کہا کہ دیت صرف ان مردوں پر ہے جو عصبات ہوں ،عورتوں اور بچوں پر دیت لازم نہیں ہے ۔ اور ہر شخص پر دینار کا چوتھا حصہ لازم ہے بعض ائمہ نے کہا کہ نصف دینار تک دینا لازم ہے۔ اگر ان رشتہ داروں سے دیت پوری ہو جائے تو فبھا ورنہ جو قبیلے کے لوگ ہیں ان پر دیت لازم کی جائے گی۔
امام اعظم ؒکے نزدیک عمد ،شبہ عمد اور خطاء تینوں صورتوں میں ادائیگی دیت کی مدت تین سال ہے اور جمہور فقہاء کے ہاں دیت العمد معجل ہے اور باقی تین سال میں ادا کو جائے ۔
(ہدایۃ المجتہدص :٣٠٧ ج :٢) امام شافعی ؒکے ہاں باپ، بیٹا ، دادا، پوتا عاقلہ میں داخل نہیں ہوں گے امام احمد ؒکا بھی یہی مؤقف ہے ۔ امام ابو حنیفہ ؒکے ہاں آباء اور ابنا عاقلہ میں داخل ہوں گے۔ کیونکہ دیت برداشت کرنے میں عصبات میراث مکی طرح ہیں ۔ جس طرح میراث میں عصبات کا اقرب فالاقرب اعتبار کیا جاتا ہے اس طرح دیت کو برداشت کرنے میں بھی ان پر اعتبار کیا جائے گا ۔
(التشریع الجنائی ج:٢ ص : ١٩٥)
عورت کی نصف دیت کی تحقیق :۔
عورت کی دیت مرد کی دیت کا نصف ہے۔ یہ حضرت علی سے مو قو فااور رسول اکرم ؐ سے مرفوعا مروی ہے ۔ کیونکہ عورت کا حال اور منعفت مرد سے کم ہے عورت کے اعضاء اور اطراف کی دیت بھی مرد کی دیت کا نصف ہوگی۔
(ہدایہ اخرین ص ٥٨٥)
حضرت معاذ بن جبل ؓسے روایت کہ عورت کی دیت مرد کی دیت کا نصف ہے۔
(سنن کبری ج : ٨ص ٩٥)
خلاصہ یہ ہے کہ احا دیث کثیرہ سے ثابت ہے کہ عورت کی دیت مرد کی دیت کا نصف ہے ،ائمہ اربعہ کا بھی یہی مذہب ہے اور اسی پر اجماع ہے ۔
ورثاء میں دیت تقسیم کرنے کا احکام :۔
جس طرح ورثاء میں مرنے والے کا ترکہ تقسیم کیا جاتا ہے اسی تناسب اور قاعدے سے دیت تقسیم کی جائے گی ، میت کی تجہیزوتکفین کے بعد اس میں پہلے میت کا قرض ادا کیا جائے گا ، پھر تہائی دیت سے اس کی وصیت پوری کی جائے گی ۔ اور اگر مقتول کا کوئی وارث نہ تو دیت بیت المال میں جمع کروادی جائے گی ۔ یہ تمام تفصیل اس وقت ہے جب مقتول کے ورثا ء معاف نہ کریں ۔ لیکن اگر انہو ں نے معاف کر دیا تو تب بھی کفار ہ بہر حال ادا کرنا ہوگا ۔ کیونکہ دیت حق العبد ہے اور یہ 100اونٹ ہیں اور کفارہ یہ حق اللہ ہے اور وہ غلام آزاد کرانا ہے یا دو ماہ کے مسلسل روزے رکھنا ہے۔
(بتےان القران ج : ٢ ص :٦٦٠)
دارلحرب میں کسی مسلمان کو خطاء قتل کرنے پر دیت نہ کرنے کی حکمت :۔
دیت بطور وراثت ہوتی ہے اور دارلحرب میں وراثت نہیں ہوتی جس کی وجہ سے اس صورت میں کفار ہے دیت نہیں ۔
(حوالہ سابق)
ذمی کافر کی دیت :۔
امام صاحب ؒکے ہاں مسلمان اور ذمی کی دیت میں کوئی فرق نہیں کیونکہ اللہ تعالی نے اس آیت میں دیت کو کسی خاص مقدار سے معین نہیں فرما یا، اس سے واضح ہوتا سے کہ اس کے ورثاء کو پوری دیت ادا کی جائے گی ۔ امام مالک ؒ، امام احمد ؒکے ہاں ذمی کی دیت نصف ہے ۔ امام شافعی ؒکے ہاں یہودی و نصرانی کی دیت تہائی ہے۔
(الجامع الاحکام القرآن ج : ٥ص :٣٢٧)
حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اکرم ؐ نے ارشاد فرماےا :یہودی ونصرانی کی دیت مسلم کی دیت کی طرح ہے۔
(بتےان القرآن ج:٢ ص :٧٦١)
تمت بحمد اللہ تعالی و تمت بالخیر
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
املاء کی کافی غلطیاں ہیں ۔
تفسیرات احمدیہ کس کی کتاب ہے ؟
طبری کا درست نام :
ابو جعفر محمد بن جریر الطبری ہے ۔
 
شمولیت
جنوری 14، 2016
پیغامات
2
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
18
املاء کی کافی غلطیاں ہیں ۔
تفسیرات احمدیہ کس کی کتاب ہے ؟
طبری کا درست نام :
ابو جعفر محمد بن جریر الطبری ہے ۔
تفسیراتَ احمدیہ کے مصنف کا نام ملا جیون ہے جن کی مشہور کتاب "نور الانوار" ہے۔ یہ مرزائیوں کی تصنیف نہیں ہے۔
اور املاء کی غلطیاں اس لیے ہیں کہ میری یہ فائل ان پیج میں تھی تو جب اس کو یونی کوڈ سے کنورٹ کیا تو کچھ خراب ہو گئی ۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
فسیرات احمدیہ (اردو ترجمہ)

قرآن کریم کی مخصوص آیتوں کی تفسیر جن میں فقہ حنیفہ کی تائید میں مضبوط دلائل دیے گئے ہیں۔

مفسر: حضرت ملّا احمد جیون

مترجم: مفتی محمد شرف الدین

ضیاء القرآن پبلیکیشنز، لاہور

https://archive.org/details/Tafsirat-e-ahmadiya-UrduTranslation
 
Last edited by a moderator:
Top