اس روایت کی تحقیق و تخریج درکار ہے.
سوال تو آپ نے پڑھ لیا ،
اب جواب میں جو احادیث منقول ہیں ان کا ترجمہ پیش خدمت ہے :
پہلے مسند امام احمد میں مروی روایت : قال الامام احمد
حدثنا حسن، حدثنا حماد بن سلمة، عن ثابت، عن أنس، أن رجلا قال: يا رسول الله: إن لفلان نخلة، وأنا أقيم حائطي بها، فأمره أن يعطيني حتى أقيم حائطي بها، فقال له النبي صلى الله عليه وسلم: " أعطها إياه بنخلة في الجنة " فأبى، فأتاه أبو الدحداح فقال: بعني نخلتك بحائطي. ففعل، فأتى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله، إني قد ابتعت النخلة بحائطي. قال: " فاجعلها له، فقد أعطيتكها. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " كم من عذق رداح لأبي الدحداح في الجنة " قالها مرارا. قال: فأتى امرأته فقال: يا أم الدحداح اخرجي من الحائط، فإني قد بعته بنخلة في الجنة. فقالت: ربح البيع. أو كلمة تشبهها ‘‘
تخریج : إسناده صحيح على شرط مسلم.
وأخرجه عبد بن حميد (1334) عن الحسن بن موسى الأشيب، بهذا الإسناد.
وأخرجه ابن حبان (7159) ، والطبراني 22/ (763) ، والحاكم 2/20، وعنه البيهقي في "الشعب" (3451) من طريق أبي نصر عبد الملك بن عبد العزيز التمار، عن حماد بن سلمة، به.
ترجمہ :
سیدنا انس (رضی اللہ عنہ) سے مروی ہے کہ ایک آدمی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! فلاں آدمی کا ایک باغ ہے، میں وہاں اپنی دیوار قائم کرنا چاہتا ہوں، آپ اسے حکم دیجئے کہ وہ مجھے یہ جگہ دے دے تاکہ میں اپنی دیوار کھڑی کر لوں، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے متعلقہ آدمی سے کہہ دیا کہ جنت میں ایک درخت کے بدلے تم اسے یہ جگہ دے دو، لیکن اس نے انکار کردیا، حضرت ابوالدحداح (رض) کو پتہ چلا تو وہ اس کے پاس گئے اور کہنے لگے کہ اپنا باغ میرے باغ کے عوض فروخت کر دو، اس نے بیچ دیا، وہ اسے خریدنے کے بعد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ میں نے وہ باغ اپنے باغ کے بدلے خرید لیا ہے، آپ یہ اس شخص کو دے دیجئے، کہ میں نے یہ باغ آپ کو دے دیا، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ سن کر کئی مرتبہ فرمایا کہ ابوالدحداح کے لئے جنت میں کتنے بہترین گھچے ہیں، اس کے بعد وہ اپنی بیوی کے پاس پہنچے اور اس سے فرمایا کہ اے ام دحداح! اس باغ سے نکل چلو کہ میں نے اسے جنت کے باغ کے عوض فروخت کردیا ہے، ان کی بیوی نے کہا کہ کامیاب تجارت کی۔ ‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور مصنف عبدالرزاق میں ہے :
عن معمر قال: أخبرني الزهري قال: أخبرني كعب بن مالك قال: أول أمر عتب على أبي لبابة أنه كان بينه وبين يتيم عذق، فاختصما إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقضى به النبي صلى الله عليه وسلم لأبي لبابة فبكى اليتيم، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «دعه له» فأبى قال: فأعطه إياه ولك مثله في الجنة، فأبى فانطلق ابن الدحداحة فقال لأبي لبابة: بعني هذا العذق بحديقتين قال: نعم، ثم انطلق إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله أرأيت إن أعطيت هذا اليتيم هذا العذق ألي مثله في الجنة؟ قال: «نعم» فأعطاه إياه قال: فكان النبي صلى الله عليه وسلم يقول: «كم من عذق مدلك لابن الدحداحة في الجنة» قال: وأشار إلى بني قريظة حين نزلوا على حكم سعد فأشار إلى حلقه الذبح وتخلف عن النبي صلى الله عليه وسلم في غزوة تبوك ثم تاب الله عليه بعد ذلك
کعب بن مالک فرماتے ہیں :
ابو لبابہ اور ایک یتیم کے درمیان کھجور کے ایک درخت کا تنازعہ تھا ،
دونوں اپنا جھگڑا پیارے نبی ﷺ کے پاس لائے ،
آپ نے ( معاملہ سن کر )ابو لبابہ کے حق میں فیصلہ کردیا ،
اس پر یتیم رونے لگا ،تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : لبابہ یہ درخت تم اس کو دے دو ،
ابو لبابہ نے انکار کیا ، آپ نے پھر فرمایا : تم یہ درخت اسے دے تمہیں ایسا ہی درخت جنت میں مل جائے گا ،لیکن پھر بھی وہ نہ مانے ،
تو بعد میں ابو دحداح ابو لبابہ کے پاس گئے ، اور اسے کہا کہ تم یہ درخت دو باغوں کے عوض مجھے بیچ دو ، وہ مان گئے اور درخت ابو دحداح کے ہاتھ بیچ دیئے ،
پھر ابو دحداح نبی پاک ﷺ کے خدمت میں پہنچے ،اور عرض کی کہ اگر یہ درخت میں اس یتیم کو دے دوں تو کیا مجھے جنت میں ایسے ہی درخت ملیں گے ؟
آپ نے فرمایا : ہاں ،
تو انہوں نے یہ درخت اس یتیم کو دے دئیے ،اس پر نبی کریم ﷺ فرمایا کرتے تھے :
ابوالدحداح کے لئے جنت میں کتنے بہترین گھچے دار درخت ہیں،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محترم بھائی
@محمد نعیم یونس صاحب، دوسری حدیث کا ترجمہ بھی درج کردیا ہے ،