قرآن مجید کتاب ہدایت ہے۔ ہدایت ہی اس کتاب کا ، اس کی ایک ایک آیت کا ،اس میں بیان کیے گئےتمام قصوں اور واقعات کا،اس میں بتائے گئے احکام کا مرکزی اور بنیادی موضوع ہے ۔ قرآن مجید تاریخ کی کتاب نہیں ، اس میں بیان کیے گئے قصے اس لیے نہیں کہ آپ کی تاریخ کے علم میں اضافہ کا سبب بنیں ، نہ قرآن مجید کوئی ناول ہے جو آپ کو entertain کرنے کے لیے اتاری گیا ہے۔ لہذا قرآن مجید میں بیان کیے گئے قصوں کا مطالعہ اس بنیادی سبب کو پیش نظر رکھ ہی کیاجانا چاہیے جس کےلیے اس کا نزول ہوا ہے ۔ اور وہ مقصد ہے ہدایت ۔
اصحاب کہف کی قصہ کے تفصیلی بیان سے پہلے اللہ رب العزت نے چار آیتوں میں اس قصہ کا اجمالی بیان کیا ۔ اور اس تمہید میں خاص طور پر اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ یہ ان چند نوجوانوں کا قصہ ہے جن کے دلوں نے ایمان کی حلاوت کوپالیا تھا۔اور ان کے خلوص نے ان ہدایت کی اس منزل پر پہنچا دیا تھا جہاں پہنچ کر بندہ کے سامنے دنیا کی ساری نعمتیں ، ساری آسائشیں ہیچ ہوجاتی ہے ۔بندے کا دل جب ایمان کی لذت کو چکھ لیتا ہے تو دنیا کی ساری لذتیں اس کے سامنے پھیکی پڑجاتی ہیں ۔ یہ اللہ کے وہ بندے تھے جنہوں اپنے ایمان کی حفاظت لے لیے اپنے پر تعش محلات کو تیاگ دیا اور ایک غار میں پناہ گزیں ہوگئے ۔ رب پر توکل تھا کہ وہ ان کی آسانی کے لیے راستہ نکال ہی دے گا۔ اور رب نے ان کی دعاوں کو سن لیا اور ان کو تین سو سال کی گہری نیند سلا دیا ۔ تاکہ وہ اپنی آنکھوں سے زمانہ کے انقلابات دیکھ سکیں۔ اور جان لیں کہ اللہ اپنے دین کو بلند کرنے اور اپنے اولیاء کی حفاظت کے لیے کیسے بندوبست کرتا ہے ۔
اللہ نے ان بندوں کے ایمان کا تذکرہ تمہید میں خاص طور پر اس لیے کیا کہ سامع اور قاری ابتداء ہی میں اپنا ذہن درست کرلیں ۔ یہ کوئی طلسماتی کہانی نہیں جس کو آدمی اپنی تفریح کا ذریعہ بنائے یہ چند نوجوانوں کے ایمانی ولولوں کی داستان ، ایمان کے راستوں میں ان کی قربانیوں کا بیان ہے ۔
یہی اس واقعہ کا اصل پہلو ہے جس کو قرآن مجید اجاگر کرتا ہے ۔ یہی وجہ کہ قرآن اس قصہ کی ان تفصیلات میں نہیں جاتا جن کا تعلق عبرت ، نصیحت اور ہدایت سے نہیں۔ جیسے کہ اصحاب کہف کہاں کے رہنے والے تھے ؟ کس غار میں انہوں نے پناہ لی تھی ، کون سا بادشاہ ہے جس کے دور میں وہ غار میں داخل ہوئے ؟ کس بادشاہ کے دورمیں وہ غار سے باہر آئے ؟ وغیرہ وغیرہ ۔
بلکہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خود اللہ رب العالمین نے اس قسم کی بحثوں میں بہت زیادہ الجھنے سے منع کردیا جن سے اس واقعہ ہدایتی پہلو کا کوئی تعلق نہیں ۔ اللہ کے نبی سے اللہ رب العزت نے فرمایا:
{سَيَقُولُونَ ثَلَاثَةٌ رَابِعُهُمْ كَلْبُهُمْ وَيَقُولُونَ خَمْسَةٌ سَادِسُهُمْ كَلْبُهُمْ رَجْمًا بِالْغَيْبِ وَيَقُولُونَ سَبْعَةٌ وَثَامِنُهُمْ كَلْبُهُمْ قُلْ رَبِّي أَعْلَمُ بِعِدَّتِهِمْ مَا يَعْلَمُهُمْ إِلَّا قَلِيلٌ فَلَا تُمَارِ فِيهِمْ إِلَّا مِرَاءً ظَاهِرًا وَلَا تَسْتَفْتِ فِيهِمْ مِنْهُمْ أَحَدًا }
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ نوجوان تین تھے، چوتھا ان کا کتا تھا، اور کچھ یہ کہتے ہیں کہ وہ پانچ تھے، چھٹا ان کا کتا تھا۔ یہ سب بے تکی ہانکتے ہیں۔ اور کچھ کہتے ہیں کہ وہ سات تھے اور آٹھواں ان کا کتا تھا۔ آپ ان سے کہئے کہ میرا پروردگار ہی ان کی ٹھیک تعداد جانتا ہے جسے چند لوگوں کے سوا دوسرے نہیں جانتے۔ لہذا آپ سرسری سی بات کے علاوہ ان سے بحث میں نہ پڑئیے اور ان کے بارے میں کسی سے کچھ پوچھئے نہیں۔
[الكهف: 22]