• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قصہ ایک استاد شاگرد کا

فلک شیر

رکن
شمولیت
ستمبر 24، 2013
پیغامات
186
ری ایکشن اسکور
100
پوائنٹ
81
(قسط اول)



کوئی دس ایک برس ہوتے ہیں ۔ شیخوپورہ میں میرے ایک محترم بزرگ سکول چلاتے تھے۔ میں تازہ تازہ ایف ایس سی کے امتحانات سے فارغ ہوا تھااور ویہلا مصروف تھا۔ ایک دن انہوں نے مجھے سکول حاضر ہونے کا حکم دیا، جو میں نے آنکھیں بند کر کے قبول فرما لیا۔ چند ایک کلاسز انہوں نے میرے ذمہ لگا دیں، جن میں چند ایک ہی بچے پڑھنے والے تھے ۔ عموماً اس نواح میں بچے پڑھائی وغیرہ کو شغل میلے کے طور پر ہی ٹریٹ کرتے ہیں اور زیادہ تر اپنی "سرداری"اور "ڈوگریت "کوہی مونچھوں کی طرح تیل وغیرہ لگا کر چمکاتے رہتے ہیں ۔ اس لیے کلاس میں زیادہ کام کاج ہوتا نہیں تھا۔

خیر،اسی اثناء میں ایک دن دفتر بیٹھے بیٹھے پتا چلا، کہ سکول کا لاہور بورڈ سے الحاق ہونا ہے اور اسی سلسلہ میں ایک آدھ روز میں کوئی چیکنگ ٹیم وارد ہونے والی ہے۔ میری جانے بلا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ اس طرح کی ٹیموں سے کس طرح نپٹا جاتا ہے اور ان کے کیا کیا ناز نخرے اٹھانا ضروری ہوتا ہے ۔ مجھے یہ خبر بھی نہ تھی ،کہ اس سلسلہ میں کوئی "پری پول"قسم کی ملاقات میرے رشتے کے نانا جان لاہور تعلیمی بورڈ کے سیکرٹری صاحب سے فرما چکے ہیں ۔ اتنا البتہ مجھے پتا چل گیا ،کہ لاہور بورڈ کے چئیرمین خواجہ ذکریا صاحب ہیں اور سیکرٹری صاحب کوئی حاجی محمد ڈوگر ہیں ۔ مجھے سمجھ آ گئی ، کہ برخوردار، یہ یقیناً وہی معاملہ ہے ، جس کا اشارہ مجھے ایک دن قبل نانا جان کا معتمد شیخ انور دے چکا ہے ، یعنی

ڈوگر کو ملے ڈوگر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کر کر لمبے ہاتھ

اگلا دن آیا، سکول پہنچنے پہ خبر ہوئی کہ ایک مفصل ضیافت کا انتظام فرمایا گیا ہے اور اسی سلسلہ میں شیخ انور صاحب بھر پور مصروف بھی پھر رہے ہیں ۔ میں نے حسب معمول اپنی کلاسز لیں ۔ سکول کے کلرک جناب بھٹی صاحب اپنے رجسٹر وغیرہ سیدھے پدھرے کر رہے تھے اور تما م عملہ گویا ایڑیو کے بل کھڑا مہمانوں کا انتظار کر رہا تھا۔میں دس ایک بجے کے قریب جب دفتر آیا، تو فون کی گھنٹی بجی ۔ دوسری طرف کوئی صاحب تھے ، جو اپنا تعارف اسی چیکنگ ٹیم کے نمائندے کے طور پہ کروا رہے تھے۔ان سے میرا مندرجہ ذیل مکالمہ ہوا ۔

نمائندہ : ہم مارکیٹ تک پہنچ گئے ہیں ۔ ہمیں رستہ نہیں مل رہا۔

فلک شیر: آپ مین گیٹ سے آگے آئیں، طوبیٰ مسجد سے دائیں ہو جائیں اور پھر بائیں ہو جائیں ، آگے ہمارا سکول ہے۔

نمائندہ:یار ہمیں سکول نہیں مل رہا، آپ لوگوں نے چیکنگ کروانی ہے یا نہیں ؟ جلدی سے کسی کو کمبوہ مارکیٹ بھیج دیں اور ہمیں ریسیو کریں ۔

فلک شیر: جناب میرے پاس کوئی اضافی بندہ نہیں ، کس کو بھیج دوں ، آپ کسی سے پوچھ لیں اور آ جائیں۔

(اس پر نمائندہ صاحب نے غصہ میں فون سیکرٹری لاہور بورڈ جناب حاجی محمد ڈوگر صاحب کو دیا، وہ غالباً کچھ غصہ میں گویا ہوئے)

حاجی صاحب: یار تمہیں پتہ ہے کچھ، تم لوگوں نے الحاق کروانا ہے یا نہیں؟

(اس پر میرا "جاٹ پن "جاگ اٹھا اور میں نے انہیں قومی و اخلاقی ذمہ داری کا احساس دلاتے ہوئے کہا )

فلک شیر: سر! آپ جس کام کے لیے نکلے ہیں ، یہ آپ کی ڈیوٹی ہے۔ آپ مجھ پہ احسان نہیں کر رہے۔ آپ کو پہنچنا ہے، رستہ پتا کریں اور آ جائیں ۔

اس کے ساتھ ہی فون بند ۔

تھوڑی ہی دیر میں کیا دیکھتا ہوں ، کہ مذکورہ ٹیم سرکاری گاڑی میں سکول کے مرکزی دروازے کے باہر کھڑی ہے اور زرخیز خاں خالص فوجی سلیوٹ مار کر انہیں ریسیو کر رہا ہے ۔ میرے رشتے کے محترم نانا جان نے باہر نکل کر ٹیم کا استقبال کیا اور انہیں دفتر میں لے آئے ۔ حاجی صاحب نے چھوٹتے ہی سوال کیا، کہ ان کا فون کس نے سنا تھا۔ یہ سنتے ہی میں باہر برآمدے کی طر ف کھسک لیا، کہ بعض اوقات پسپائی ھی بہترین حکمت عملی ہوتی ہے

بہرحال تھوڑی دیر میں ٹیم نے سکول کا دورہ کیا، کاغذی کارروائی کی اور اس کے بعد پر تکلف کھانے سے دو دوہاتھ کیے، جس سے ہم اپنی روایتی جھجک کی وجہ سے محروم رہے۔اب حاجی ڈوگر صاحب نے ظہر کی نماز ادا کرنا تھی، مجھے حکم ہوا کہ انتظام کروں ۔ میں حاجی صاحب کو لے کر پرنسپل آفس میں آ گیا، جہاں انہوں نے صبح کے فون والے واقعہ پہ کچھ خوشگوار جملے ارشاد فرمائے اور بات آئی گئی ہو گئی۔ نماز پڑھنے کے بعد انہوں نے ایک قصہ سنایا، جو مجھے آپ کو پیش کرنا تھا۔ لیکن تمہید کچھ طولانی ہو گئی اور قصہ رہ گیا۔ خیر اسے اگلی قسط تک اٹھا رکھتے ہیں ۔ اتنا ضرور بتا دوں، کہ قصہ تب سے اب تک میرے دل پہ لکھا ہے اور شاید آپ کے بھی لکھا رہ جائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کہ بات ہی ایسی ہے
(قسط دوم)

چوپالوں، بیٹھکوں، ڈیروں اور اوطاقوں کے رزق میں ازل سے "قصہ"لکھ دیا گیا تھا۔قصہ، جس میں بات سے بات نکلتی ہے اور انسانی زندگیوں کے ایسے ایسے گوشے سامنے آتے ہیں ،کہ کسی کتاب میں کہاں لکھے ہوں گے۔فی زمانہ بدلتے حالات،مقامات اور وسائل نے قصہ خوانی کے رنگ ڈھنگ اور انداز بدل کر رکھ دیے ہیں ۔ یہ قصہ جو میں بطور راوی آپ کی خدمت میں پیش کرنے جا رہا ہوں، یہ ایک استاد اور شاگرد کی کہانی ہے ، واقعہ پہلی قسط "قصہ حاجی محمد ڈوگر ۔۔۔۔۔ قسط اول"میں مذکور سیکرٹری بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن لاہور،حاجی محمد ڈوگر سے متعلق ہے، آئیے اُنہی کی زبانی سنتے ہیں :

"یہ آج سے کتنے ہی برس پہلے کی بات ہے، میں بھر پور زندگی گزار رہا تھا اور کسی قسم کی پریشانی مجھے لاحق نہ تھی۔ میٹھے پھلوں کے طباق کی طرح زندگی نے اپنی تمام مٹھاس میرے سامنے لا ڈھیر کی تھی۔ ایک سرکاری تعلیمی ادارے میں پڑھانے کے ساتھ ساتھ میں سوشل سرکلز میں ایک باہمت، توانا اور مستعد آدمی کے طور پر بھی جانا جاتا تھا۔

ایک دن میں سو کر اٹھا، تو مجھے محسوس ہوا ، کہ میری آواز ٹھیک سے نہیں نکل رہی اور گلے میں کوئی مسئلہ ہے ۔ معمولی دوا دارُو کے بعد جب فرق نہ پڑا، تو مجھے پریشانی لاحق ہوئی ۔ویسے ہی بیماری سے بندہ پریشان ہوتا ہےاور استاذ کے لیے تو اُس کا گلا خاص طور پر اہم ترین چیزوں میں سے ایک ہوتا ہے۔بہرحال میں ایک اچھے ہسپتال میں چلا گیا اور اپنا چیک اپ کروایا۔ڈاکٹروں نے تفصیلی معائنے کے بعد کچھ ٹیسٹ تجویز کیے، جو میں نے اچھی لیبارٹری سے کروا لیے۔ آواز تھی، کہ بیٹھتی ہی چلی جارہی تھی۔ اگلے دن جب ان ٹیسٹوں کی رپورٹ آئی، تو میری تو دنیا ایک دم اندھیر ہو گئی ۔ مجھےبتایا گیا، کہ مجھے گلے کا کینسر ہو گیا ہے۔ اس موذی مرض کا تو نام ہی مریض کو ختم کرنے کے لیے کافی ہوتا ہے ۔ مجھے لگا، اب میرا کچھ نہیں ہونے والا اور میرا معاملہ ختم ہونے والا ہے۔

ڈاکٹروں نے مجھے ہسپتال میں داخل کر لیا اور یوں میں اپنی بھری پری دنیا سے اٹھ کر اسپتال کے بستر پہ ہمہ دم کم ہوتی آواز اور گلے کے کینسر کے ساتھ آن پڑا تھا۔ جیسے کوئی فوجی اباؤٹ ٹرن ہو لے اچانک، ایسے ہی ایک ایک سو اسی درجے کا موڑ آ گیا تھا میری زندگی میں ۔ چند دن ایسے ہی اسپتال میں پڑا رہا ، میرے اعصاب آہستہ آہستہ جواب دیتے جا رہے تھے۔دوسری یا تیسری رات میں بستر میں پڑا سوچ رہا تھا، کہ یہ کیا ہو گیا میرے ساتھ۔ آخرکس گناہ کی سزا مل رہی ہے مجھے!

جونہی یہ سوچ میرے ذہن میں آئی، میں سنجیدگی سے اس طرف سوچنے لگا، کہ زندگی میں مجھ سے آخر کون سی ایسی بڑی غلطی سرزد ہو ئی ہے، جس کا بدلہ مجھے اس ناگہانی آفت کی صورت میں دیکھنا پڑ رہا ہے۔سوچتے سوچتے میرے ذہن میں ایک بجلی سی کوندی اور میں نے خود کو لگی ڈرپس وغیرہ اتار کر ایک طرف کر دیں اور باہر کی سمت لپکا۔ تھوڑی ہی دیر میں ، میں اپنی گاڑی میں بیٹھا تھا اور میری گاڑی شہر کے ایک معروف رہائشی علاقے کی سمت رواں دواں تھی۔

آپ سوچ رہے ہوں گے، کہ اسپتال سے فرار کا یہ واقعہ کسی فلم میں تو ہو سکتا ہے، حقیقت میں نہیں ۔ لیکن یہ حقیقت تھی، کہ بستر پہ لیٹے لیٹے مجھے اپنے دورِ طالبعلمی کے ایام یاد آ گئے تھے ، جب میں پاکستان کی مشہور ترین جامعہ میں زیرِ تعلیم اور ایک طلباء تنظیم سے منسلک تھا۔ جوانی دیوانی کا دور دورہ تھا اور رستے میں آنےوالی ہر چیز کوروند کر رکھ دینے کا جذبہ عروج پہ۔ ایسے میں طرہ یہ کہ جس طلباء تنظیم سے میں نے تعلق جوڑا تھا، اس کے متعلقین اپنے جوش و جذبے اور ولولہ انگیز مہما ت کے لیے معرف و مقبول تھے اور کسی حد تک اب بھی ہیں ۔

انہی ایام کے دوران ایک دن میں یونیورسٹی آیا، تو مجھے پتہ چلا، کہ میری تنظیم کے لوگوں کی کچھ اساتذہ سے تلخ کلامی ہوئی ہے اور ایک استاذ ،قریشی صاحب(فرضی نام) نے ہماری تنظیم کے مقامی ذمہ دار کو برا بھلا بھی کہا ہے اور شاید ایک آدھ گالی وغیرہ بھی دی ہے۔ یہ سُن کر میرا خون کھولنے لگا اور میں نے دیوانگی میں آؤ دیکھا نہ تاؤ اور قریشی صاحب کو ڈھونڈنے لگا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ انہوں نے میری تنظیم کے ذمہ دار کو برا بھلا کیسے کہہ ڈالا ۔ میرے ساتھیوں نے مجھے روکنے اور ٹھنڈا کرنے کی بھر پور کوشش کی ، لیکن مجھ پہ تو تنظیمی بھوت سوار تھا، میں کہاں رکنے والا تھا ۔ آخر جب قریشی صاحب مجھے مل گئے، تو میں نے کچھ سوچے سمجھے بغیر انہیں ایک تھپڑ رسید کر دیا۔ قریشی صاحب تو جیسے زمین میں گڑ گئے ، کہ ایک طالب علم نے ان پہ ہاتھ ہی اٹھا دیا تھا، وہ بھی سب کے سامنے ۔اُن کا سارا مان، وقار اور عزت خاک ہی میں تو مل گئی تھی۔ قریشی صاحب کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے ، اور مجھے انہوں نے صرف ایک جملہ ہی کہنے پہ اکتفا کیا:

میرا کوئی بیٹا نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر ہوتا، تو تم سے بدلہ لیتا

یاد رہے، کہ پروفیسر موصوف کی کوئی نرینہ اولاد نہٰن تھی، صرف بیٹیا ں ہی بیٹیاں تھیں۔ یہ واقعہ ہوا، وقت گزرا اور میرے سمیت دیگر لوگ بھی بھول بھال گئے ۔ لیکن آج بستر پہ لیٹے جب میں نے اپنی زندگی کی پچھلی فلم چلائی، تاکہ اپنی غلطیاں ڈھونڈ سکوں، تو مجھے قریشی صاحب اور ان کے ساتھ کی گئی اپنی زیادتی یاد آ گئی۔ اور یہ تو اب آپ کو بتانے کی ضرورت نہیں، کہ میری گاڑی کا رُخ انہی کی رہائش کی طرف تھا، کہ اُن سے تہِ دل سے معافی مانگ سکوں، شاید اسی سے میں کینسر جیسے موذی مرض کے چنگل سے چھوٹ پاؤں۔ کیونکہ مسلمان یونے کی حیثیت سے ہمارا ایمان ہے، کہ کبھی کبھی اللہ تعالیٰ اسی دنیا میں ہماری پکڑ کر لیتا ہے اور مقصد ہمارے لیے آخرت میں آسانی کرنا ہوتا ہے اور حقوق العباد تو اس سلسلہ میں خاص اہمیت کے حامل ہیں۔


خیر ، میں پروفیسر صاحب کی اس رہائش پہ پہنچا، جس کا مجھے آج سے کئی برس قبل تک پتہ تھا۔ سامنے وہ گھر آ یا، میں نے دروازے کی گھنٹی بجائی اور ایک صاحب باہر نکلے ۔ میں نے اُن سے قریشی صاحب سے متعلق پوچھا، انہوں نے مجھے جو جواب دیا، وہ جواب ایسا تھا، کہ میں بس گرنے ہی والا تھا ۔ آپ سمجھ گئے ہوں گے ، کہ اس نے مجھے کئی برس قبل قریشی صاحب کے اس دنیا سے چلے جانے کا بتایا تھا۔ میرا دل میرے بس میں نہ تھا۔ میں سوچ رہا تھا، کہ یہی سہارا تھا، اب قریشی صاحب کو کہاں سے ڈھونڈوں ، کہاں جاؤں، کیا کروں۔

تب مجھے ایک خیال آیا اور میں نے ان صاحب سے پوچھا، کہ ان کی بیٹیا ں بھی تو تھیں ، وہ کیا ہوئیں؟

انہوں نے کہا، کہ وہ شادی شدہ ہیں اور ان میں سے ایک اسی گھر میں مقیم ہیں اور وہ اس خاتون کے خاوند ہیں۔ اس پر میری کچھ ڈھارس بندھی اور میں نے اُن صاحب سے درخواست کی، مجھے اُس محتر م خاتون سے ملوا دیں، کہ کچھ ضروری بات کرنا ہے ۔ وہ تھوڑے ہچکچائے، لیکن پھر تیار ہو گئے ۔ کچھ ہی لمحوں بعد ہم اندرونی نشست گاہ میں تھے ۔ وہ خاتون تشریف لائیں ، ان کے خاوند بھی وہیں بیٹھ گئے ۔ میں نے انہیں ساری کہانی سنائی ، اس واقعے سے لے کر آج رات تک کی ساری کہانی۔ اور پھر اُن سے کہا،کہ قریشی صاحب تو اس دنیا سے چلے گئے ، اب آپ ہی ان کی وارث ہیں۔ میں آپ سے معافی کا خواستگار ہوں ۔وہ خاتون اس عظیم آدمی کی بیٹی تھی، اُس نے کہا:

جو ہونا تھا، وہ تو ہو گیا، ابو بھی چلے گئے ، آپ اب بیمار ہیں ، میں آپ کو اُن کی طرف سے معاف کرتی ہوں

یہ سُن کر مجھے لگا، کہ میرے سینے کا بوجھ اتر گیا ہے، کچھ دیر میں وہاں رہا اور پھر اپنی گاڑی میں واپس اسپتال چلا آیا۔ ڈاکٹر اور نرسیں حیران تھیں ، کہ میں کہاں چلا گیا تھا ور خود ہی واپس بھی آ گیا ہوں ۔ میں نے انہیں کسی طرح مطمئن کر دیا۔میں خود کو روحانی طور پر بہتر محسوس کر رہا تھا۔

اگلا دن چڑھا، ڈاکٹروں نے دوپہر کو میرے کچھ اور ٹیسٹ لیے ۔ دوست احباب آئے اور دن یونہی گزر گیا ۔ رات گزری اور اگلا دن آن پہنچا۔ اس دوپہر کو ان ٹیسٹوں کی رپورٹ آئی، ڈاکٹر تقریباً دوڑتا ہوا میرے پاس آیا اور کہنے لگا، کہ آپ کی تو رپورٹس بالکل کلئیر آئی ہیں ۔ میری آواز بھی اس دن پہلے سے کچھ بہتر تھی۔ یہ سُن کر مجھے لگا، میں دنیا میں واپس آ گیا ہوں ۔ بہر حال اگلے چند دنوں میں مزید ٹیسٹ ہوئے ، جو بالکل کلئیر تھے ۔ میری آواز معجزانہ طور پہ بالکل ٹھیک ہو گئی، پہلے کی طرح کڑک دار۔

اس واقعے نے میرا ایمان اُستاد اور شاگرد کے رشتے پہ ایسا قائم کیا ہے، کہ میں جہاں بھی جاتا ہوں، یہ بات سُنا کر بچوں اور بچیوں کو بتاتا ہوں کہ ماں باپ اور اساتذہ کے سامنے ہاتھ تو بہت دور کی بات ہے ، آنکھ اور خیال بھی بلند نہیں کرنا۔ ان کی اطاعت و عزت اور مان کر چلنے میں دنیا آخرت کی کامیابیاں تمہارے پاؤں چومیں گی۔اُن کے دامن سے چمٹے رہنے میں خیر ہی خیر ہے ۔اُن کے جوتے سیدھے کرنے والے بادشاہی کرتے ہیں ۔ہماری اسلامی روایات ہمیں یہی درس دیتی ہیں "

قصے کی روایت میری ہے ۔ دس ایک برس پہلے سنا تھا، شاید حافظہ کی کمزوری کے سبب کہیں کہیں واقعات تھوڑے بہت آگے پیچھے ہو گئے ہوں،لیکن سپرٹ اور کردار وہی ہیں ، بعینہ ۔

حاجی صاحب کا قصہ آپ نے پڑھ لیا ، امید ہے آپ اسے آگے شئیر بھی کریں گے اور بچوں بچیوں کو خاص طور پہ پڑھوائیں گے ، شاید کسی دل میں یہ بھولا ہوا قصہ تازہ ہو جائے ۔



نوٹ: تحریر چونکہ میرے بلاگ نوائے نے پہ ایسے ہی دو قسطوں میں شامل تھی، اس لیے اس کا فارمیٹ تبدیل کیے بغیر ویسے ہی یہاں پیش کر دیا ہے۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
محدث میگزین (مئی 2011ء (347)
)

اُستاد اور شاگرد کے باہمی حقوق
قرآنِ کریم اور احادیثِ طیبہ کی روشنی میں
عبدالولی خان

تعلیم ایک ذریعہ ہے،اس کا مقصد اچھی سیرت سازی اور تربیت ہے۔علم ایک روشن چراغ ہے جو انسان کو عمل کی منزل تک پہنچاتا ہے۔اس لحاظ سے تعلیم وتربیت شیوۂ پیغمبری ہے۔ اُستاد اورشاگرد تعلیمی نظام کے دو نہایت اہم عنصر ہیں۔ معلّم کی ذمہ داری صرف سکھانا ہی نہیں، سکھانے کے ساتھ ساتھ تربیت دینا بھی ہے۔اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیﷺ کے بارے میں فرمایا: ﴿يُعَلِّمُهُمُ الكِتـٰبَ وَالحِكمَةَ وَيُزَكّيهِم ۚ.... ١٢٩ ﴾.... سورة البقرة
''اور نبیﷺان(لوگوں) کو کتاب وحکمت (سنت) کی تعلیم دیتے ہیں اور ان کا تزکیہ وتربیت کرتے ہیں۔''
اس بنا پر یہ نہایت اہم اور مقدس فریضہ ہے ،اسی اہمیت او ر تقدس کے پیش نظر اُستاد اور شاگرد دونوں کی اپنی اپنی جگہ جدا گانہ ذمہ داریاں ہیں۔ اُنہیں پورا کرنا ہر دو جانب کے فرائض میں شامل ہے۔ اگر ان ذمہ داریوں کو بطریق احسن پورا کیا جائے تو پھر تعلیم بلاشبہ ضامنِ ترقی ہوتی اور فوزوفلاح کے برگ و بار لاتی ہے۔
اس سلسلے میں کچھ حقوق استاد پر عائد ہوتے ہیں جبکہ بعض شاگرد پر ؛ جن کی تفصیل پیش کی جاتی ہے:
شاگرد پر اُستاد کے حقوق
1. سب سے پہلی اور اہم بات یہ ہے کہ طالب علم نبیٔ کریمﷺ کے اس ارشاد مبارک کو مدنظر رکھے کہ آپﷺ نے فرمایا:
«لَیْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ یَرْحَمْ صَغِیرَنَا وَلَمْ یُوَقِّرْ کَبِیرَنَا» جامع ترمذى:1919
''وہ ہم میں سے نہیں جو ہمارے چھوٹوں پر شفقت نہ کرے اور ہمارے بڑوں کی توقیر واحترام نہ کرے۔''
اس لیے شاگرد پر لازم ہے کہ وہ اُستاد کا احترام کرے اور اس کی ادنیٰ سی بے ادبی سے بھی اپنے آپ کو بچائے۔استاد معلّم و مربی ہونے کے لحاظ سے باپ کے درجے میں ہوتا ہے، آپﷺ نے فرمایا:
«إنَّمَا أَنَا لَکُمْ بِمَنْزِلَةِ الْوَالِدِ،أُعَلِّمُکُمْ»سنن ابوداؤد:8
''میں تمہارے لیے بمنزلۂ والد ہوں، تمہیں تعلیم دیتا ہوں۔''
چنانچہ روحانی ماں باپ کی تکریم و تعظیم کیجیے۔ اُستاد سے آمرانہ اسلوبِ گفتار سے پرہیز کریں، اس کے سامنے اَدب اور شائستگی سے بیٹھیں، اس کے سامنے اپنی آواز بلند نہ کریں۔
2. طالب علم کو تکبر و بڑائی سے دوررہنا چاہیے، اپنے اندر عجز واِنکسارپیدا کرنا چاہیے۔اَمیر المؤمنین عمر بن خطاب فرماتے ہیں:
«تَعَلَّمُوا الْعِلْمَ، وَتَعَلَّمُوا لَهُ السَّکِینَةَ وَالْوَقَارَ، وَتَوَاضَعُوا لِمَنْ تَتَعَلَّمُونَ مِنْهُ وَلِمَنْ تُعَلِّمُونَه، وَلاَ تَکُونُوا جَبَابِرَة َالْعُلَمَاءِ» جامع بيان العلم وفضله:1/512
''علم حاصل کرو۔ اس کے لئے سکینت ووقار بھی سیکھو۔ جن سے علم حاصل کرتے ہو اور جنھیں سکھاتے ہو اُن کے لیے تواضع اورعاجزی اختیار کرو۔جبر کرنیوالے علما مت بنو۔''
اَساتذہ کے ساتھ اَدب واحترام کاایک سبق آموز واقعہ سیدنا عبداللہ بن عباس کا ہے، جسے امام ابن عبد البر نے اپنی کتاب جامع بیان العلم وفضلہ میں ذکر کیا ہے۔ نقل کرتے ہیں: ایک دفعہ سیدنا زید بن ثابت جو قرآن کے حافظ اور کتاب و سنت کے بہت بڑے عالم تھے، نے ایک جنازہ پڑھایا۔ واپسی کے لیے سواری لائی گئی تاکہ آپ اس پر سوار ہو جائیں، عبداللہ بن عباس آگے بڑھے اور سواری کی رکاب تھام لی،زید بن ثابت نے کہا: رسول اللہﷺ کے چچا زاد بھائی! آپ ایسا نہ کریں۔ ابن عباس نے فرمایا:
«هٰكَذَا یُفْعَلُ بِالْعُلَمَاء وَالْکُبَرَاء» جامع بيان العلم وفضله:1/ 514
''جی نہیں، میں یہ رکاب ضرور پکڑوں گا، کیونکہ علما اور بڑوں کا یہ حق ہے کہ ان سے ایساہی برتاؤ کیا جائے۔''
اُستاد کا کیا مقام ومرتبہ ہے؟ یہ امام شعبہ سے پوچھئے، فرماتے ہیں:
«کُلُّ مَنْ سَمِعْتُ مِنْهُ حَدِیثًا، فَأَنَا لَه عَبْد»جامع بيان العلم و فضله1/ 512
''جس سے میں نے ایک حدیث پڑھی ہے، وہ میرا آقا اور میں اس کا غلام ہوں۔''
پس جب طالب علم اپنے اُستاد کا حد درجہ احترام کرے گا، تب ہی اسے علم کی بیش قیمت دولت حاصل ہوگی۔ اگر طالب ِعلم بدخواہ اور بے ادب ہے تو علم سے محروم ہی رہے گا۔ ایک شاعر نے خوب کہا ہے:
إِنَّ الْمعَلِّمَ وَالطَّبِیبَ کِلَاهُمَا
لَا یَنْصَحَانِ إِذَا هُمَا لَمْ یُکْرَمَا
فَاصْبِرْ لِدَائِكَ إنْ أهَنْتَ طَبِیْبَه
وَاصْبِرْلِجَهْلِك إنْ جَفَوْتَ مُعَلِّمَا

ادب الدنيا والدين:1/ 75
''معلّم اور طبیب کی جب تک توقیر و تعظیم نہ کی جائے وہ خیر خواہی نہیں کرتے۔ بیمارنے اگر طبیب کی توہین کر دی تو وہ اپنی بیماری پر صبر کرے اور اگر شاگرد نے اپنے استاد کے ساتھ بدتمیزی کی ہے تو وہ ہمیشہ جاہل ہی رہے گا۔''
3. طالب ِعلم کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اسباق میں غیر حاضری سے اجتناب کرے، ناغہ کرنے سے اس کے علم واستعداد میں کمی آئے گی۔ نتیجتاًلوگ اس کے استاد ہی کو موردِ الزام ٹھہرائیں گے، چنانچہ اپنے اساتذہ کو الزام آنے سے بچانا بھی استاد کے حقوق میں سے ہے۔
4. پابندی سے حاضری کے علاوہ کلاس روم میں توجہ اور دھیان سے سبق سننا اور یاد کرنا طالب علم کی بڑی اہم ذمہ داری ہے۔ مزید برآں یہ اُس پر استاد کا حق ہے۔
5. اگر سبق سمجھ میں نہ آئے تو اُستاد سے پوچھ لینا طالبِ علم کی ذمہ داری ہے۔رسول اللہﷺنے فرمایا: «فَإِنَّمَا شِفَاءُ الْعِّيِ السُّؤَالُ»سنن ابو داؤد:336
''یقیناً (علم کی) محتاجی کا علاج سوال کرنے میں ہے۔ ''
6. یہ بھی طالب ِعلم کی ذمہ داری ہے کہ وہ محترم استاد کو عام انسانوں کی طرح انسان ہی سمجھے جس سے غلطی کا سرزد ہوناعین ممکن ہے۔ اسکی درشتی اور سختی کو برداشت کرے۔ اسکی برائی سے اجتناب کرے، اسکے عیبوں کی پردہ پوشی کرے اور خوبیوں کو اُجاگر کرے۔
7. فضول اور وقت ضائع کرنے والے سوالات سے پرہیز کرے۔
8. طالب ِعلم یہ بھی یاد رکھے کہ غلطی پر استاد کا خفا ہونا ایک فطری چیز ہے، لہٰذا طالب علم اُستاد کے غصے کو محسوس نہ کرے۔بلکہ یہ سمجھے کہ اُستادکا میری غلطی پر ناراض ہونا خود میرے ہی لیے مفید ہے۔
ایک دفعہ معلّم انسانیتﷺلوگوں کولمبی لمبی نماز یں پڑھانے کے باعث معاذ بن جبل پر شدید ناراض ہوئے۔ آپﷺنے اُنہیں تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا:
«أَفَتَّان یَا مُعَاذُ!»سنن نسائى:998
''اے معاذ! کیا تو لوگوں کو فتنے میں ڈالنے والا ہے؟''
اس حدیث پر امام بخارینے صحیح بخاری میں بَابُ الْغَضَبِ فِي الَمَوْعِظَةِ وَالتَّعْلِیم ِإذَا رَأَی مَا یَکْرَهُ ''وعظ و تعلیم میں ناپسندیدہ بات دیکھنے پر غصے ہونا'' کا باب قائم کیا ہے اورناپسندیدہ عمل پر تنبیہ کو صحیح عمل قرار دیا ہے۔ پس اگر معلّم شاگرد کی کسی غلطی پر غصے میں آجائے تو یہ کوئی انہونی بات نہیں۔ سعادت مند طالب علم کا فرض ہے کہ وہ اپنے مکرم اُستاد کی سخت باتیں بھی چپ چاپ ادب کے ساتھ سن لے اور اپنی اصلاح کی کوشش کرے۔
اُستاد پر شاگرد کے حقوق
1. نرمی و نوازش کا سلوک کیجیے: اُستاد کو چاہیے کہ وہ اپنے لیے نبیٔ کریمﷺکی سیرت کو اُسوہ بنا کر اپنے شاگردوں سے نرمی اور شفقت کا برتاؤ کرے۔ اللہ تعالیٰ نے نبیﷺکو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
﴿فَبِما رَ‌حمَةٍ مِنَ اللَّهِ لِنتَ لَهُم ۖ وَلَو كُنتَ فَظًّا غَليظَ القَلبِ لَانفَضّوا مِن حَولِكَ ۖ ....١٥٩﴾.... سورة آل عمران
''اللہ کی رحمت سے آپ ان کے لیے نرم ہوگئے اوراگر آپ درشت اور سخت دل ہوتے تو یہ لوگ آپ کے پاس سے بکھر جاتے۔''
لہٰذا اُستاد شاگردوں کے لیے نرمی کا پہلو اختیار کرے، اورنبیٔ کریمﷺ کے اس ارشاد مبارک کو بھی پیش نظر رکھے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
«لَیْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ یَرْحَمْ صَغِیرَنَا وَلَمْ یُوَقِّرْ کَبِیرَنَا»جامع ترمذى:1919
'' وہ شخص ہم میں سے نہیں جو ہمارے چھوٹوں پر شفقت نہ کرے اور ہمارے بڑوں کی توقیر و تعظیم نہ کرے۔''
اس بنا پر اُستاد کو چاہیے کہ اپنے شاگردوں کے سر پر شفقت کاہاتھ رکھے، اگر ان سے کوئی نامناسب حرکت ہوجائے تو درگزر کر ے، ان سے وقار اور بردباری کے ساتھ پیش آئے۔
2. زبان کی حفاظت کیجیے: اُستاد کی ذمہ دار یوں میں سے ایک اہم ذمہ داری زبان کی حفاظت ہے۔زبان کی حفاظت نہایت ضروری ہے۔ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ زبان کی حفاظت کرے اور اسے ناجائز اورنامناسب باتوں سے بچائے رکھے۔ نبیٔ کریمﷺ نے فرمایا:
«مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاﷲِ وَالْیَوْمِ الاْخِرِ فَلْیَقُلْ خَیْرًا أَوْ لِیَصْمُتْ»صحيح بخارى:6018
''جو شخص اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے تو وہ بھلائی اور خیر کی بات کہے، ورنہ خاموش رہے۔''
چونکہ اُستاد اپنے شاگردوں کے لیے نمونہ ہوتاہے، اس لیے اسے چاہیے کہ اپنی گفتگو کو محتاط اور متوازن بنائے، لچرپن اوربے ہودگی سے بوجھل الفاظ سے پرہیز کرے۔ ایک حدیث میں نبیٔ کریمﷺ نے زبان کی بے اِعتدالی کے نقصانات کو واضح کرتے ہوئے فرمایا:
«إن العبد لَیَتَکَلَّمُ بِالْکَلِمَةِ مَا یَتَبَیَّنُ فِیهَا یَزِلُّ بِهَا فِي النَّارِ أَبْعَدَ مَا بَیْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ»ايضاً:6777/صحيح مسلم:2988
''یقینا بندہ ایک بات کرتا ہے، اس پر غور و فکر نہیں کرتا۔ وہ اس بات کی وجہ سے مشرق و مغرب کی درمیانی مسافت سے بھی زیادہ جہنم کی آگ کی طرف گر جاتاہے۔''
بعض دفعہ انسان کی زبان سے ایسا کلمۂ شر اَدا ہو جاتا ہے کہ اسے اس کی تباہ کاری کا اندازہ ہی نہیں ہوتا۔ کبھی اس کی کوئی بات کسی کی دل آزاری یا گمراہی یا ظلم و معصیت کا سبب بن جاتی ہے، جس کی وجہ سے یہ انسان تباہی کے گڑھے میں گر جاتاہے۔ لہٰذااُستاد وشاگرددونوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ زبان کی حفاظت کریں اور زبان کے ذریعے سے جن گناہوں کا ارتکاب کیا جاتاہے، ان سے اپنے دامنِ تعلیم و تعلّم کو بچائیں۔
3. سچ کی تعلیم دیجیے اور جھوٹ سے نفرت سکھائیے: جھوٹ ایسا معاشرتی ناسور ہے جو بہت سے گناہوں کا پیش خیمہ ہے،لہٰذا معلّم و متعلّم اس سے بچیں۔ سچائی کی صفت ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے، لیکن معلم کے لیے بے حد ضر و ری ہے۔ جس طرح زندہ انسان کے لیے غذا کے بغیر گزارہ مشکل ہے، اسی طرح استاد سچائی کے بغیر ایک لمحہ بھی اپنی جگہ قائم نہیں رہ سکتا۔اگر اُستاد جھوٹ کا سہارا لے گا تو سب سے بڑا نقصان تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ناراض ہوجائے گا۔ دوسرا نقصان یہ ہے کہ شاگردوں کے دلوں میں استاد اور اس کے بیان کردہ یا تحریر کردہ مضمون کی وقعت ختم یا کم ہو جائے گی۔ اس سے پوری اُمت کو اجتماعی نقصان پہنچتا ہے۔ بعض اوقات شاگرد کا دل اس طرح ٹوٹ جاتا ہے کہ وہ دوسرے اساتذہ سے بھی بدظن ہوجاتاہے۔
استاد کو بدزبانی سے بھی محتاط رہنا چاہیے۔ درس گاہ میں اور درس گاہ سے باہر بھی طالبانِ علم سے گفتگو کرتے ہوئے شائستہ لہجہ اختیارکرنا چاہیے۔ بعض اساتذہ اپنے شاگردوں کو او موٹے! اے چشمے والے! اے زلفوں والے اور اوئے کالے وغیرہ جیسے الفاظ سے پکارتے ہیں۔اس طرح اُس کا مذاق اڑاتے ہیں، یہ نہایت مذموم طریقہ ہے۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ نے اس عمل سے منع فرمایا ہے۔
﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا يَسخَر‌ قَومٌ مِن قَومٍ عَسىٰ أَن يَكونوا خَيرً‌ا مِنهُم وَلا نِساءٌ مِن نِساءٍ عَسىٰ أَن يَكُنَّ خَيرً‌ا مِنهُنَّ ۖ وَلا تَلمِزوا أَنفُسَكُم وَلا تَنابَزوا بِالأَلقـٰبِ ۖ بِئسَ الِاسمُ الفُسوقُ بَعدَ الإيمـٰنِ ۚ وَمَن لَم يَتُب فَأُولـٰئِكَ هُمُ الظّـٰلِمونَ ﴿١١ ﴾.... سورة الحجرات
'' اے ایما ن والو! کوئی قوم کسی قوم کا تمسخر نہ اڑائے، ہوسکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں۔ اور نہ کوئی عورت دوسری عورت کا مذاق اُڑائے، ہوسکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں۔ اور اپنے آپ پر عیب نہ لگاؤ اور نہ ایک دوسرے کو برے ناموں سے پکارو۔ایمان کے بعد فسق کے نام سے ملقب کرنا برا ہے۔ اور جس نے توبہ نہ کی تو وہی لوگ ظالم ہیں۔''
اس سلسلے میں یہی طریقہ مفید ہے کہ پڑھائی کے دوران استاد اپنے شاگرد کو اس کے نام یا کنیت سے مخاطب کرے۔ طلبہ کو نام سے مخاطب کرنے سے ان میں سبق کی طرف توجہ بڑھ جاتی ہے۔ نبیٔ کریم ﷺ صحابۂ کرام کو جو آپ ﷺ کے اوّلین شاگرد تھے، نام لے کر مخاطب فرماتے تھے۔ ایک دفعہ نبیٔ کریمﷺ نے ابو سعید خدری کو مخاطب کرکے فرمایا:
«یَا أَبَا سَعِیدٍ! مَنْ رَضِيَ بِاللّٰهِ رَبًّا، وَبِالْإِسْلَامِ دِینًا، وَبِمُحَمَّدٍ نَبِیًّا، وَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّةُ»صحيح مسلم:1884
'' اے ابو سعید ! جو شخص اللہ کے ربّ ہونے پر اور اسلام کے دین ہونے پر اور محمد(ﷺ) کے نبی ہونے پر راضی ہو تو اس کے لیے جنت واجب ہے۔''
اسی طرح غیبت اور زبان کے دوسرے گناہوں سے بھی اجتناب کیا جائے۔
4. علم سے آراستہ کرنے کا جذبہ پیدا کیجیے: استاد پر لازم ہے کہ وہ طالبانِ علم کو علم سے آگاہ کرنے میں بخل سے کام نہ لے، علم و دانائی کے بارے میں کچھ پوچھا جائے تو ضرور بتائے ورنہ گناہ گار ہوگا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
«مَنْ سُئِلَ عَنْ عِلْمٍ عَلِمَه ثُمَّ کَتَمَه أُلْجِمَ یَوْمَ الْقِیَامَةِ بِلِجَامٍ مِّنْ نَّارٍ»جامع ترمذى:2649
''جس سے اس علم کے بارے میں پوچھا جائے جو اسے حاصل ہے، پھر وہ اسے چھپائے (اور نہ بتائے) قیامت کے دن اسے آگ کی لگام پہنائی جائے گی۔''
علم رسانی کے سلسلے میں صرف جذبہ کافی نہیں بلکہ اس کے لیے چند مزید بنیادی باتیں ضروری ہیں۔ اُستاد کے لیے ضروری ہے کہ اسے جو سبق اور جو مضمون پڑھانا ہو، اس پر اسے کامل عبور حاصل ہو، اس کے بارے میں طالبِ علم کے ذہن میں جو بھی اشکال یا سوال آسکتا ہو، اس کا حل اس کے پاس موجود ہو۔ یہ تب ہی ہوسکتا ہے جب معلّم نے متعلقہ مضمون کا بھر پور مطالعہ اور تیاری کی ہو۔ طالب ِعلم استاد کے پاس امانت ہیں، لہٰذا مضمون کی بھر پور تیاری نہ کرنا امانت میں خیانت ہے۔ بخوبی مطالعہ کے بعد اُستاد کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ اسے اظہار مافی الضمیر اور مناسب اندازِ تعبیر پر قدرت حاصل ہو، یعنی جس مضمون کا اس نے مطالعہ کیا ہے، اُسے خوبصورت اسلوب اور دل نشین انداز میں طلبہ کے سامنے بیان کر سکے۔اظہار مافی الضمیر کی صلاحیت سے مراد خطیبانہ انداز قطعاً نہیں ہے جو وعظ کی محفلوں، جلسوں اور جمعہ کے خطبوں میں اختیار کیا جاتا ہے، نہ اس سے ادیبانہ اُسلوب مراد ہے جس میں مترادفات، تکرار اور تشبیہات کی بھر مار ہوتی ہے بلکہ اس سے مراد وہ عام فہم اُسلوب ہے جو علمی مضامین کی تفہیم میں بروئے کار آتا ہے۔ اسی طرح عمدہ تدریس کے لیے نظم و ترتیب بھی بہت ضروری ہے۔مطلب یہ کہ آپ اپنا حاصل مطالعہ کیسے مرتب اور متوازن انداز میں پیش کریں جس سے سامع اور شاگرد کو فائدہ پہنچے۔ علاوہ ازیں شاگردوں کے معیار اورذہنی سطح کی رعایت بھی بہت ضروری ہے۔
5. اُستاد کو چاہیے کہ سبق پڑھاتے وقت ایسی تقریر نہ کرے جو طالبِ علم کے فہم اور استعداد سے بالاتر ہو۔ سیدنا علی ؓفرماتے ہیں:
«حَدِّثُوا النَّاسَ بِمَا یَعْرِفُونَ، أَتُرِیدُونَ أَنْ یُّکَذَّبَ الله وَرَسُولُه؟»
''لوگوں سے ان کی سمجھ اوراستعداد کے مطابق حدیثیں بیان کرو، کیا تم چاہتے ہو کہ اللہ اور اس کے رسول(ﷺ) کی تکذیب کردی جائے؟'' صحيح بخارى تعليقاً:127
6. طالب علم کی حوصلہ افزائی فرمائیے: اُستاد کو چاہیے کہ اچھی تعلیمی کارگزاری اور درست جوابات دینے پر اپنے شاگردوں کی حوصلہ افزائی کرے اور ان کی ہمت بڑھائے۔
ایک دفعہ نبیﷺ نے اُبی بن کعب سے پوچھا: کیا تجھے معلوم ہے کہ کتاب اللہ کی سب سے عظیم آیت کونسی ہے؟ اُبی بن کعب نے جواب دیا: آیت الکرسی۔ نبیﷺ نے خوش ہو کراُن کے سینے پر ہاتھ رکھا اور فرمایا: «لِیَهْنِكَ الْعِلْمُ، أَبَا الْمنْذِرِ»صحيح مسلم:810
''ابومنذر! تجھے علم مبارک ہو۔''
7. اُستاد کو طالب علم کے حق میں دعا کرنی چاہیے:اُستاد کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اپنے شاگردوں کے حق میں خیروبرکت اور توفیق ودانائی کی دعا کرتا رہے۔
عبداللہ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ نبیﷺ قضائے حاجت کے لیے بیت الخلاگئے۔میں نے آپﷺ کے لئے وضو کا پانی لا کر رکھ دیا۔جب آپﷺ واپس تشریف لائے تو دریافت فرمایا: پانی کس نے رکھا ہے؟ جب آپ کو بتایا گیا توآپ نے دعا فرمائی:
«اَللّٰهُمَّ فَقِّههُ فِي الدِّینِ، اَللّٰهُمَّ عَلِّمْهُ الْکِتَابَ»صحيح بخارى:143
''اے اللہ اسے دین کی گہری سمجھ دے۔ اللہ! اسے کتاب (قرآن) کا علم عطا کردے۔''
8. طالب علم جواب نہ دے سکے تو استادکو بتادینا چاہیے: جب اُستاد کلاس روم میں شاگردوں سے سوالات پوچھے اور طالب علم درست جوابات دیں تو ان کی حوصلہ افزائی کر ے اور شاباش دے۔ اگر وہ جواب نہ دے سکیں تو پھر اُستاد خودصحیح جواب بتادے۔
عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہﷺ نے صحابہ سے پوچھا کہ درختوں میں ایک ایسا درخت ہے جس کے پتے نہیں گرتے اور اس کی مثال مسلمان کی طرح ہے، وہ درخت کو نسا ہے؟ اس سوال پر لوگ جنگل کے مختلف درختوں(کی بحث) میں پڑگئے، جب کوئی جواب بن نہ پڑا توانہوں نے نبیﷺسے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! آپ ہی ہمیں بتادیں۔ آپ نے فرمایا: ''وہ کھجورکا درخت ہے۔'' صحيح بخارى:131, 62
اس حدیث مبارکہ کی رو سے اساتذۂ کرام کو بھی طلبائے عزیز کے صحیح جواب نہ دینے کی صورت میں از خود صحیح بات بتا دینی چاہیے۔
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
سیدنا علی ؓفرماتے ہیں:
«حَدِّثُوا النَّاسَ بِمَا یَعْرِفُونَ، أَتُرِیدُونَ أَنْ یُّکَذَّبَ الله وَرَسُولُه؟»
''لوگوں سے ان کی سمجھ اوراستعداد کے مطابق حدیثیں بیان کرو، کیا تم چاہتے ہو کہ اللہ اور اس کے رسول(ﷺ) کی تکذیب کردی جائے؟''
(صحيح بخارى تعليقاً:127)
 
Top