• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قصہ بحیرا راہب کی صحت پر اعتراضات کے جوابات

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
"اکمل البیان فی اثبات قصۃ خروج النبی ﷺ الی الشام"

(قصہ بحیرا راہب کی صحت پر اعتراضات کے جوابات)
نوٹ: اس تحریر کا مقصد مستشرقین و نصارٰی کے اعتراضات سے مرعوب ہو کر اس قصہ کا انکار کرنے والوں کا رد ہے۔

کتبِ سیرت میں آنحضرت ﷺ کےبچپن مبارکہ کا ایک قصہ مذکور جس میں رسول اللہ ﷺ کا اپنے چچا ابو طالب کے ہمراہ شام جانے، راستے میں بحیرا راہب کے ملنے، بحیرا کا آنحضرت ﷺ کے اندر علاماتِ نبوت دیکھنے اور آنحضرت ﷺ کی نبوت کی بشارت سنانے کا ذکر موجود ہے۔
اس قصہ کی صحت و عدمِ صحت پر کلام ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے۔

یہ قصہ درج ذیل کتب میں کمی بیشی کے ساتھ مذکور ہے:
1۔ مصنف ابن ابی شیبہ 2۔ جامع ترمذی 3۔ مسند البزار 4۔ مستدرک الحاکم 5۔ اسد الغابہ 6۔ حلیۃ الاولیاء 5۔ دلائل النبوۃ 7۔زاد المعاد 8۔ مجوعۃ الفتاوٰی 9۔ البدایہ والنہایہ 10۔ تاریخ طبری 11۔ مواھب لدنیہ 12۔ الاصابہ فی تمیز الصحابہ 13۔ مدار ج النبوۃ 14۔ خصائص الکبریٰ 15۔ عیون الاثر 16۔ سیرت ابن ہشام 17۔ طبقات ابن سعد 18۔فیۃ السیر 19۔فقہ السیرہ 20۔ سیرت مغلطائی 20۔سیرت حلبیہ 21۔روض الانف 22۔تاریخ ابن عساکر 23۔ مرقاۃ شرح مشکوۃ وغیرہ

مذکورہ قصہ کے روات کے مختصر احوال:
1۔ امام ابو عیسیٰ ترمذی- حدیث کے مشہور امام
2۔ ابو العباس فضل بن سہل الاعرج الخراسانی البغدادی- صدوق۔ زکیاََ یحفظ
3۔ ابو نوح عبدالرحمٰن بن غزوان البغدادی المعروف بقراد- (ان کی تعدیل آگے آرہی ہے)
4۔ ابو اسرائیل یونس بن ابی اسحاق السبیعی الھمدانی- صدوق ثقہ
5۔ ابو بکر عمرو او عامر بن ابی موسیٰ اشعری- ثقہ
7۔ ابو موسیٰ اشعری- صحابی رسول ﷺ
(یہاں ہم نے صرف ترمذی کی پیش کردہ سند پر گفتگو کی ہے اور مختصراََ تعدیل نقل کی ہے)۔

اعتراض 1 : عبدالرحمن بن غزوان پر امام ذہبی نے 'لہ مناکیر' کہہ کر جرح کی ہے (میزان اعتدال)۔
جواب: 1۔ امام ابن دقیق العید فرماتے ہیں "(روی مناکیر) مجرد راوی سے ترکِ روایت کا تقاضا نہیں کرتا یہاں تک کہ راوی کثرت سے مناکیر روایت کرے"۔ (فتح المغیث) اور مذکورہ راوی میں یہ وصف نہیں پایا جاتا۔ کما اشار الیہ البانی۔ 2۔ علامہ البانی فرماتے ہیں "یہ راوی جمہور کے نزدیک ثقہ ہے"۔ (دفاع عن الحدیث النبوی) 3۔ اس راوی کی توثیق کرتے ہوئے امام ابن کثیر فرماتے ہیں " یہ ان ثقہ لوگوں میں سے ہیں جن سے امام بخاری نے روایت کی اور ان کی دیگر آئم حفاظ نے بھی توثیق کی ہے"۔ (البدایہ والنہایہ)۔ امام ابن حجر فرماتے ہیں "ثقۃ"۔(تقریب) ابن مدینی فرماتے ہیں "ثقہ"۔ ابن نمیر فرماتے ہیں "ثقہ"۔ ابن حنبل فرماتے ہیں "کان عاقلا من الرجال"۔ بخاری نے اس سے احتجاج کیا ہے۔ ابن معین فرماتے ہیں "لیس بہ بائس"۔ (دیکھیئے سیر اعلام البلاء از ذہبی) امام یعقوب بن شیبہ اور امام دارقطنی بھی ابن غزوان کی توثیق کرتے ہیں ۔(بحوالہ دفاع عن الدیث النبوی) ابن سید الناس فرماتے ہیں "ثقہ"۔ (عیون الاثر) 4۔ابن کثیر تو یہاں تک فرماتے ہیں کہ "میرے علم میں کسی نے عبدالرحمٰن بن غزوان پہ جرح نہیں کی"۔ (البدایہ والنہایہ)۔ اور یہ بات امام سخاوی بھی فرماتے ہیں (بحوالہ سیرۃالمصطفی ﷺ)۔ 5۔ علامہ البانی فرماتے ہیں " (ابن غزوان پر) ذہبی کی جرح ایس جرح نہیں ہے جو حدیث کو درجہ ثبوت سے ساقط کر دے"۔ (دفاع عن الدیث النبوی)
نوٹ: امام ابن معین کے ہاں "لیس بہ بائس" کلمہ تعدیل ہے۔ (دیکھیئے فتح المغیث از سخاوی)
الخلاصہ۔ مذکورہ قصہ کے تمام روات صحیح ہیں اور بخاری کے راوی ہیں۔ اور معترضین نے آج تک اس قصے کے صرف ایک راوی پر جرح کی ہے۔ جس کا جواب اوپر دے دیا گیا ہے۔

مذکورہ قصہ کی تصحیح آئم و علماء کی طرف سے:
1۔ امام ترمذی نے اسے حسن قرار دیا ہے۔ (ترمذی، ابواب المناقب)
2۔ امام حاکم فرماتے ہیں یہ بخاری و مسلم کی شرط پر ہے۔ (مستدرک)
3۔ امام بیھقی نے اس کی سند کو متصل قرار دیتے ہوئے کہا ہے یہ قصہ اہل مغازی کے ہاں مشہور ہے۔ (دلائل النبوۃ، باب 44)
4۔ اما جزری فرماتے ہیں اس کی سند صحیح ہے اور اس کے راوی صحیح بخاری کے راوی ہیں۔ (بحوالہ تحفۃ الاحوذی)
5۔ امام ابن حجر فرماتے ہیں اس روایت کے روات ثقہ ہیں۔ (الاصابہ) مزید فرماتے ہیں کہ اس کی سند قوی ہے۔ (فتح الباری، کتاب التفسیر)
6۔ ابن سید الناس نے بھی اس واقعہ کی تصحیح کی ہے۔ (عیون الاثر)
8۔ امام ابن کثیر نے بھی اس واقعہ کو صحیح مانا ہے۔ (البدایہ والنہایہ)
9۔ امام سیوطی فرماتے ہیں اس قصہ کے متعدد شواہد ہیں جو اس کی صحت کا تقاضا کرتے ہیں۔(الخصائص الکبریٰ)
10۔ امام زین الدین عراقی نے اس قصہ کو نظم میں منتقل کیا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ یہ واقعہ ان کے نزدیک بھی صحیح ہے۔ (الفیۃ السیر)
11۔ علامہ البانی بھی اس قصہ کو صحیح قرار دیتے ہیں۔ (صحیح سنن الترمذی)
12. مولینا ادریس کاندھلوی نے بھی اس قصہ کو صحیح قرار دیا ہے۔ (سیرۃ المصطفیﷺ)

اعتراض 2 : امام ترمذی نے سنن ترمذی میں اور ابو العباس نے دلائل النبوۃ وغیرہ میں اس کو غریب قرار دیا ہے۔
جواب: 1۔ غرابت کسی روایت کے ضعف کو مستلزم نہیں۔ 2 انہی دونوں کتاب میں اس قصہ کی صحت کو تسلیم کیا گیا ہے۔۔ 3۔ سیوطی، ابن کثیر، بیھقی وغیرہ نے اس قصہ کے متعدد شواہد بھی ذکر کیئے ہیں (دیکھیئے مذکورہ بالا حوالہ جات)

اعتراض 3 : اس قصہ کے راوی ابو موسی اشعری بوقتِ واقعہ موجود نہیں تھے۔
جواب: ابو موسی اشعری صحابی ہیں۔ اور صحابی کا ایسی روایت کو روایت کرنا جس میں وہ خود موجود نہ ہو مرسلِ صحابی کہلاتا ہے۔ اور مرسلِ صحابی بالاتفاق معتبر، مستند اور حجت ہے۔

اعتراض 4 : اس روایت میں حضرت بلال کا بھی ذکر ہے۔ حالانکہ وہ تو اس واقعہ کے وقت پیدا ہی نہیں ہوئے تھے۔
جواب: یہ بات درست ہے۔ ابن کثیر فرماتے ہیں "اس قصہ میں عجوبہ پن ہے"۔ (البدایہ والنہایہ) وہ عجوبہ پن کیا ہے؟ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں "اس روایت میں حضرت بلال کا ذکر راوی کا مدرج و وھم ہو سکتا ہے"۔ (الاصابہ) اس بات سے امام سیوطی، امام جزری، مولینا کاندھلوی، علامہ البانی وغیرہ نے بھی اتفاق کیا ہے۔ اور اس کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ یہ روایت مسند البزار میں حضرت بلال کے ذکر کے بغیر موجود ہے۔(مسند البزار تحت ابو موسی اشعری) اور یہ بھی کہ اس کے علاوہ سفر شام کی ایک الگ مستقل ضعیف روایت بھی موجود ہے۔ ہو سکتا ہے راوی نے اشتباہ کے سبب دونوں کو متحد سمجھ لیا ہو۔
لیکن بہرحال کسی بھی راوی کا مدرج اس پوری حدیث کی صحت میں مانع نہیں ہوتا۔ جیسا کہ یہ بات کتب حدیث و اصولِ حدیث کا مطالعہ کرنے والوں پر مخفی نہیں۔ چنانچہ البانی فرماتے ہیں "حدیث میں کسی راوی کا منکر جملہ پوری حدیث منکر یا موضوع ہونے کو مستلزم نہیں"۔ (الدفاع عن الحدیث النبوی) لہذا اعتراض باطل ہوا۔

اعتراض 5 : اس روایت میں یہ بھی ہے کہ بحیرا راہب نے کہا کہ ایک مہینہ میں یہ نبی ظاہر ہونے والے ہیں، حالانکہ ایسا نہ ہوا، بلکہ بعثت کئی سالوں بعد ہوئی۔
جواب:یا تو یہ راوی کا وھم و مددرج ہے، کیونکہ طبقات ابن سعد میں یہ جملہ موجود نہیں، ایسی صورت میں اصل قصہ کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ یا بصورتِ دیگر یہ بحیرا کا قیاس محض تھا، جس کا پورا ہونا لازمی نہیں۔

اعتراض 6 : اس واقعہ میں ہے کہ بحیرا نے آپ ﷺ کو روم جانے سے منع کیا تھا، لیکن پھر بھی آپ ﷺ اس کے کئی سالوں بعد حضرت خدیجہ کا مالِ تجارت لے کر شام گئے؟
جواب: اس کے تین جوابات دیئے جا سکتے ہیں 1۔ بحیرا نے جب آپ ﷺ کو منع کیا تھا اس وقت آپ ﷺ کا بچپن تھا، جبکہ آپ ﷺ حضرت خدیجہ کا مال تجارت لے کر شام اس وقت گئے تھے جب آپ ﷺ کا بچپن مبارک گزر چکا تھا، لہذا تعارض نہ رہا 2۔ بحیرا راہب کا حکم کوئی حکم شرعی نہیں تھا کہ اسکا ہر حال میں اتباع کیا جائے، اور نہ ہی یہ لازم تھا کہ بحیرا نے جن خدشات کی بنیاد پہ منع کیا تھا ان خدشات کا وقوع بھی ہو 3۔ یہ راوی کا وہم و مددرج ہے، کیونکہ طبقات ابن سعد میں یہ جملہ موجود نہیں، ایسی صورت میں اصل قصہ کی صحت متاثر نہیں ہوتی۔

اعتراض 7 : مذکورہ واقعہ کی ابن تیمیہ، ابن قیم، ذہبی، شبلی نعمانی، شاہ معین الدین ندوی، سید سلمان ندوی، ابوالحسن علی ندوی، سعید البوطی وغیرہ نے تضعیف کی ہے۔
جواب: 1۔جن بنیادوں پر ان علماء نے اس قصہ کی تضعیف کی ہے ان کے مدلل جوابات ہم نے عرض کر دئے ہیں۔ لہذا اب ان علماء کے اقوال پیش کرنا بے سود رہا۔ 2۔ علماء کی اکثریت نے اس قصہ کی تائید و تصحیح کی ہے۔ 3۔ دورِ حاضر میں شبلی کا رد کرتے ہوئے مولیٰنا ادریس کاندھلوی نے 'سیرت المصطفی' میں اور سعید البوطی کا رد کرتے ہوئے علامہ البانی نے 'دفاع عن الحدیث النبوی' میں قصہ مذکورہ کا پھرپور دفاع کیا ہے۔

نوٹ : یہاں یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ قضائل اعمال کے علاوہ فضائل و مناقب سے متعلق حکایات و قصص کے ابواب میں محدثین قصہ بحیرا راہب جیسا صحیح واقعہ تو کجا، ضعیف واقعہ بھی قبول کر لینے کی اجازت دیتے ہیں (بشرطیکہ واقعہ موضوع نہ ہو)۔ چنانچہ امام شرف الدین ابو زکریا یحیی بن شرف النووی الشافعی فرماتے ہیں "محدثین صعیف راویوں سے ترغیب و ترہیب، فضائلِ اعمال، قصص، احادیث زہد و مکارم اخلاق اور ان جیسے موضوعات پر روایت کرتے ہیں۔ جن کا تعلق حلال و حرام اور احکام کے ساتھ نہ ہو۔ اور حدیث کی اس قسم سے محدثین کے نزدیک تساہل جائز ہے جبکہ موضوع نہ ہو"۔ (شرح مسلم، ج 1، ص 21)۔ اور امام سیوطی فرماتے ہیں "۔۔۔جیسے قصص، فضائل اعمال اور مواعظ وغیرہ"۔ (تدریب الراوی)۔

اعتراض 8 : اس قصہ کو بنیاد بنا کر مستشرقین و نصارٰی اسلام پر اعتراضات کرتے ہیں لہذا مناسب ہے کہ اس قصہ کا انکار کردیا جائے۔
جواب: یہ انتہائی معذرت خواہانہ رویہ ہے۔ جب ایک قصہ صحیح دلائل سے ثابت ہے تو اسے مستشرقین کے خوف سے رد کرنا کسی بھی طرح معقول نہیں۔ نکاحِ حضرت عائشہ سے لے کر واقعہ معراج تک وہ کونسا اسلامی امر ہے جس کی بنیاد پر ان ملاحدہ و مستشرقین نے اعتراضات نہیں کئے؟ اگر آپ اس قصے کا انکار کردیں تو کیا یہ ملاحدہ و مستشرقین اعتراضات کرنے سے بعض آجائیں گے؟ ہر گز نہیں۔ اللہ کا ارشاد ہے "یہود و نصارٰی تم سے ہر گز راضی نہ ہوں گے یہاں تک کہ تم ان کی ملت کے متبع نہ بن جاؤ"۔ (البقرۃ)

الخلاصہ: قصہ بحیرا راہب صحیح ہے (حضرت بلال کے ذکر کے بغیر)۔

مستفاد از:
1۔ سنن الترمذی از امام ابو عیسی
2۔ مصنف لابن ابی اشیبہ
3۔ البحر الذخار یعنی مسند البزار از امام بزار
4۔سیرت لابن ہشام
5۔ دلائل النبوۃ از امام بیھقی
6۔ البدایہ والنہایہ از امام ابن کثیر
7۔ تاریخ الامم والملوک از طبری
8۔ الخصائص الکبریٰ از امام سیوطی
9۔ زاد المعاد از ابن قیم
10۔ سیر اعلام النبلاء از ذہبی
11۔ میزان الاعتدال از ذہبی
12۔ تقریب التہذیب از امام ابن حجر
13۔ فتح الباری از امام ابن حجر
14۔ عیون الاثر از ابن سید الناس
15۔ تحفۃ الاحوذی از عبدالرحمان مبارکپوری
16- اسد الغابہ از ابن اثیر
17۔ الاصابہ از امام ابن حجر
18۔ مدارج النبوۃ از شیخ عبدالحق دہلوی
19۔ عمدۃ النظر از طفیل اٹکی
20۔ المصنفات فی الحدیث از زمان کلاچوی
21۔ صحیح و ضعیف ترمذی از البانی
22۔ دفاع عن حدیث النبوی از االبانی
23۔ سیرت النبی ﷺ از شبلی نعمانی
24۔ سیرۃ المصطفی ﷺ از مولینا ادریس کاندھلوی
25۔ نبی رحمت ﷺ از ابوالحسن علی ندوی
26۔ الرحیق المختوم از صفی الرحمن مبارکپوری
27۔ تحفۃ المعی از سعید احمد پالنپوری
28۔ انواراتِ صفدر از محمود عالم صفدر اوکاڑوی
شبرمہ حمیدی
 
Top