• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قصیدہ ء بردہ شریف ؟؟؟

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
قصیدہ ء بردہ شریف (عربی:قصيدة البردة) ایک شاعرانہ کلام ہے جو کہ مصر کے معروف صوفی شاعر ابو عبد اللہ محمد ابن سعد البوصیری (1211ء-1294ء) نے تحریر فرمایا۔ آپ کی تحریر کردہ یہ شاعری پوری اسلامی دنیا میں نہایت معروف ہے۔

امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ (1211ء-1294ء) پورا نام ابو عبد اللہ محمد ابن سعد البوصیری ایک مصری شاعر تھے جو کہ مصر میں ہی رہے، جہاں اُنہوں نے ابنِ حناء کی سرپرستی میں شاعرانہ کلام لکھے۔ اُن کی تمام تر شاعری کا مرکز و محور مذہب اور تصوف رہا۔

اُن کا سب سے مشہور شاعرانہ کلام قصیدہ بردہ شریف ہے جو کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نعت، مدحت و ثناء خوانی پر مبنی ہے اور اسلامی دنیا میں نہایت مشہور و مقبولِ عام ہے۔

قصیدہء بردہ شریف لکھنے سے پہلے، امام بوصیری کوڑھ کے مرض میں مبتلا تھے۔ اسی عالم میں آپ نے حالات سے پریشان ہو کر داد رسی کے لئے یہ قصیدہ تحریر فرمایا، اُسی شب امام بوصیری کو خواب میں حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زیارت ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے امام بوصیری کو اپنی کملی (چادر) عنایت فرمائی۔ دوسرے دن جب امام بوصیری پیدار ہوئے تو وہ کملی آپ کے جسم پر موجود تھی اور آپ مکمل طور پر صحتیاب ہو چکے تھے۔

یہ بھی ماننا جاتا ہے کہ اگر قصیدہ بردہ شریف سچی محبت اور عقیدت کے ساتھ پڑھا جائے تو یہ بیماریوں سے بچاتا ہے اور دلوں کو پاک کرتا ہے۔ اب تک اس کلام کی نوے (90) سے زائد تشریحات تحریر کی جا چکی ہیں اور اس کے تراجم فارسی، اردو، ترکی، بربر، پنجابی، انگریزی، فرینچ، جرمنی، سندھی و دیگر بہت سے زبانوں میں کئے جا چکے ہیں۔

مولاي صلــــي وسلــــم دائمـــاً أبــــدا
علـــى حبيبــــك خيــر الخلق كلهـم
أمن تذكــــــر جيــــــرانٍ بذى ســــــلم
مزجت دمعا جَرَى من مقلةٍ بـــــدم
َمْ هبَّــــت الريـــــحُ مِنْ تلقاءِ كاظمــةٍ
وأَومض البرق في الظَّلْماءِ من إِضم
فما لعينيك إن قلت اكْفُفاهمتـــــــــــــــا
وما لقلبك إن قلت استفق يهـــــــــم
أيحسب الصب أن الحب منكتـــــــــــم
ما بين منسجم منه ومضطــــــــرم
لولا الهوى لم ترق دمعاً على طـــــللٍ
ولا أرقت لذكر البانِ والعلــــــــــمِ
فكيف تنكر حباً بعد ما شـــــــــــــهدت
به عليك عدول الدمع والســـــــــقمِ
وأثبت الوجد خطَّيْ عبرةٍ وضــــــــنى
مثل البهار على خديك والعنــــــــم
نعم سرى طيف من أهوى فأرقنـــــــي
والحب يعترض اللذات بالألــــــــمِ
يا لائمي في الهوى العذري معـــــذرة
مني إليك ولو أنصفت لم تلــــــــــمِ
عدتك حالي لا سري بمســــــــــــــتتر
عن الوشاة ولا دائي بمنحســـــــــم
محضتني النصح لكن لست أســـــمعهُ
إن المحب عن العذال في صــــــممِ
إنى اتهمت نصيح الشيب في عـــــذلي
والشيب أبعد في نصح عن التهـــتـمِ

(فیس بک سے منقول)

کیا اس قصیدہ کا اسلامی تعلیمات کے پس منظر میں کوئی علمی جائزہ اردو زبان میں موجود ہے۔ اگر کسی کے علم میں ایسی کوئی تحریر موجود ہو تو شیئر کرے۔ اہل علم اپنی رائے بھی دے سکتے ہیں
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
کیا اس قصیدہ کا اسلامی تعلیمات کے پس منظر میں کوئی علمی جائزہ اردو زبان میں موجود ہے۔ اگر کسی کے علم میں ایسی کوئی تحریر موجود ہو تو شیئر کرے۔ اہل علم اپنی رائے بھی دے سکتے ہیں
کسی تحریر کے ضمن میں چند باتیں قصیدہ ( بردہ ) اور صاحب قصیدہ کے بارے میں لکھی تھیں ، ملاحظہ ہوں :
ابوعبد اللہ محمد بن سعید البوصیری المصری(608 ۔ 696 ہجری )جو کہ قصیدہ بردہ کا مصنف ہے صوفیاء کے مشہور طریقہ شاذلیہ سے تعلق رکھنے والا غالی صوفی ہے ایک فصیح و بلیغ شاعر تو مانا جاتا ہے لیکن علمی اعتبار سے اس کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ملتیں کسی بھی معتبر شخصیت نے اس کو علماء میں شمار نہیں کیا شعرو سخن میں اس نے جو خدمات سرانجام دی ہیں ان سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ شخص قرآن وسنت کی تعلیمات اور شرعی احکام کی پابندی کرنے والا نہیں تھا بلکہ جو دل میں آیا کہہ دیا جس طرف میلان طبع ہوا منظوم کردیا اگر کسی سے اختلاف ہوا تو طعن و تشنیع کی صورت میں اس کی ہجو کردی اور اگر کہیں سے کوئی فائدہ نظر آیا تو تعریفوں کے پل باندھ دیے ۔ مذمت کرنے پر آتا ہے تو اپنی بیوی کو فاحشہ و زانیہ قرار دے دیتا ہے او راگر کوئی دنیاوی لالچ ہو تو یہود و نصاری کی مدح سرائی شروع کردیتا ہے ۔(اگر شعراء کے حالات زندگی دیکھے جائیں تو مذکورہ باتیں کوئی قابل تعجب نہیں ہیں کہ شعراء کا تو وظیفہ ہی یہ ہے إلا مارحم ربی کہ أشعرہم اکذبہم لیکن اس طرح کی بے اعتدالیاں اور غیر محتاط رویہ علمائے دین کو زیب نہیں دیتا۔)
زیادہ دور جانےکی ضرورت نہیں اپنی بیوی کے ساتھ اس کا جو رویہ تھا اسی سے اس کی شخصیت واضح ہوجاتی ہے چنانچہ اپنی بیوی کے بارے میں اس نے ایک قصیدہ (دیوان البوصیری للطباع ص 226 )لکھا ہے اس کے ایک دو اقتباسات پیش خدمت ہیں :
إن زرتها في العام يوماً أنتجت ... وأتت بستة أشهر بغلامِ
أوَ هذه الأولاد جاءت كلها ... من فعلِ شيخٍ ليس بالقوَّام؟!

اپنی بیوی کی کثرت أولاد کا سہرا اسی کے سر سجاتے ہوئے خود اپنی بزرگی و نا توانی کو دلیل بنا کر ان سے براءت کا اظہار کر رہا ہے ۔
مزید کہتا ہے :
أوْ ليتني من قبل تزويجي بها ... لو كنت بعت حلالها بحرام!
أوْ ليتني بعض الذين عرفتهم ... ممن يحصِّن دينه بغلام!

کہتا ہے کاش کہ اس جیسی عورت سے شادی کرنے کی بجائے میں اپنی خواہشکسی ناجائز طریقے سے پوری کر لیتا تاکہ مجھے وبال ِکثرثِ عیال سے دو چار نہ ہونا پڑتا ۔ یا پھر کاش میں اپنے واقف کار ان لوگوں میں سے ہوتا جو اس کام کے لیے غلمان بازی کرتےہیں ۔
اس اقتباس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ موصوف کس ذہن کے مالک اور کس قماش کے آدمی تھے ؟ والعیاذ باللہ نسأل اللہ السلامۃ .
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
قصیدۃ بردہ کے حوالے سے کچھ :
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں اس نے جو کچھ لکھا ہے فنی اعتبار سے اس کو اگرچہ امتیاز حاصل ہے لیکن اس میں بھی اس نے احتیاط سے کام نہیں لیا بلکہ غلو میں بہت زیادہ آگے نکل گیا ہے اور کسی قسم کی شرعی حدود و قیود کو در خور اعتناء نہیں سمجھااس حوالے سے بھی چند اقتباسات پیش خدمت ہیں
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لوح محفوظ کا علم رکھتے تھے
فإنَّ من جودك الدنيا وضرتها ... ومن علومك علم اللوح والقلمِ
بیشک دنیا و آخرت تیری سخاوت کی ایک جھلک ہے اور لوح و قلم کا علم تیرے علم (غیب) کا ایک حصہ ہے ۔
اس شعر میں دو باتیں قابل اعتراض ہیں:
کائنات نبی صلی اللہ کی جود و سخا کا نتیجہ ہے
حضور صلی اللہ علیہ وسلم علم غیب جانتے تھے ۔
کائنات محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پیدا کی گئی ہے
وكيف تدعو إلى الدنيا ضرورةُ منْ ... لولاه لم تخرجِ الدنيا من العدمِ
تمام انبیاء کو عطا کردہ نشانیاں حضور کے نور کی رہین منت ہیں :
وكل آيٍ أتى الرُّسْلُ الكرامُ بها ... فإنما اتصلت من نوره بهم
صاحب بردہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے استغاثہ کرتے ہوئے :
يا أكرم الخلق مالي من ... ألوذ به سواك
اے اکرم الخلق میں کیا کروں تیرے سوا کس کی پنا ہ میں آؤں ؟
ایک اور جگہ ہے :
ما سامني الدهرُ ضيماً واستجرت به ... إلا ونلتُ جواراً منه لم يضمِ
ولا التمستُ غنى الدارين من يده ... إلا التمستُ الندى من خير مستلمِ

جبکہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دعا میں یوں فرماتے ہیں :
"لا ملجأ منك إلا إليك (متفق علیہ )
ایک جگہ غیر اللہ ( چاند ) کی قسم اٹھاتے ہوئے لکھتے ہیں :
أقسمتُ بالقمرِ المنشقِّ إنًّ له ... من قلبه نسبةً مبرورةَ القسمِ
 

HUMAIR YOUSUF

رکن
شمولیت
مارچ 22، 2014
پیغامات
191
ری ایکشن اسکور
56
پوائنٹ
57
مرض بڑھتا گیا، جوں جوں دوا کی!

یہ ایسے ہی "بردہ شریف" جیسے اشعاروں کی "برکت" کی وجہ سے قوم کو آج اسطرح کی اشعار بھی دیکھنا پڑے، کہ جیسے احمد رضا بریلوی کے یہ دو اشعار ، آنحضرت ﷺ کی شان میں کہے گئے

نہ ہوسکتے ہیں دو اول نہ ہوسکتے ہیں دو آخر
تم اول اور آخر ابتداء تم انتہاء تم ہو

خدا کہتے نہیں بنتی، جدا کہتے نہیں بنتی
اسی پر اس کو چھوڑا ہے، وہی جانے کہ تم کیا ہو ۔ (احمد رضا بریلوی، حدائق بخشش، ج2 ص 104)

اور


مظہر حق ہو تمہیں، مظہر حق ہو تمہیں
تم میں ہے ظاہر خدا، تم پر کڑوڑوں درود۔ (احمد رضا بریلوی، حدائق بخشش، ج 2 ص 16)

لاحول ولا قوۃ الا باللہ
 
Top