• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قضا نمازوں کے بارے میں سوال

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
محدث فتوی سائٹ پر قضا نمازوں کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں میں نے پڑھا ہے جس کا مفہوم ہے کہ جس طرح نماز قبل از وقت پڑھنا درست نہیں تو اس نماز کے وقت ختم ہو جانے کے بعد اسے قضا یا بہت دنوں کے بعد قضا ادا کرنا درست نہیں ۔اور لکھا ہے کہ امام ابن تیمیہ اسی موقف کے قائل ہیں۔
تو کیا یہ بات درست ہے؟
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
پہلا موقف جمہور اہل علم ائمہ اربعہ امام مالک، امام شافعی، امام احمد اور امام ابو حنیفہ رحمہم اللہ اجمعین کا ہے کہ نمازوں کی قضا واجب ہے اور ان کی دلیل متفق علیہ روایت ہے کہ جس میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
فدينُ الله أحقُ أن يقضى.
اللہ کا قرض اس بات کا زیادہ حقدار ہے کہ اسے ادا کیا جائے۔
ان اہل علم نے عمدا قضا کی ادائیگی کو نماز سے سوئے رہنے والے اور بھول جانے والے کے لیے وارد ہونے والی حدیث سے بھی استدلال کیا ہے۔ یعنی جب نماز سے بھول جانے والے اور سوئے رہنے والے کے لیے شریعت میں یہ حکم ہے کہ وہ یاد آنے پر یا بیدار ہونے پر نماز پڑھ لے یعنی معذوری کے باوجود اسے وقت کے بعد نماز دہرانے کا حکم دیا گیا ہے تو جب عمدا وہ نماز ترک کر دے گا تو اس صورت میں شریعت کا اس سے زیادہ مطالبہ ہو گا کہ وہ اس نماز کو ادا کرے۔

دوسری رائے امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی ہے جسے امام ابن قیم رحمہ اللہ نے بھی اختیار کیا ہے اور ہمارے بعض معاصر اہل علم اس پر فتوی دیتے ہیں۔ یہ رائے اہل الظاہر کی بھی ہے کہ ایسی نمازوں کی کوئی قضا نہیں ہے جو ماضی میں عمدا انسان نے ترک کر دی ہوں بلکہ اس گناہ پر توبہ و استغفار کثرت سے کرے کیونکہ جس طرح وقت سے پہلے نماز نہیں ہے اسی طرح وقت کے بعد بھی نماز نہیں ہے اور نماز صرف اپنے وقت میں فرض کی گئی ہے۔ امام ابن قیم رحمہ اللہ نے اس مسلک کے دلائل اپنی کتاب کتاب الصلاۃ میں تفصیل سے بیان کیے ہیں۔

راقم کے نزدیک دونوں طرف کے اقوال اور دلائل کافی قوت رکھتے ہیں لہذا اپنے طور ان کو یوں جمع کیا ہے کہ ایسے تارک صلاۃ کو ماضی کی قضا نمازیں ادا کرنے کی بجائے کثرت نوافل کی تلقین کی جائے تا کہ اس کے فرائض کی کمی قیامت والے دن نوافل سے پوری ہو جائے اور نوافل کے لیے کوئی وقت مقرر نہیں ہے۔ یعنی اگر وہ اللہ کا قرض بھی ہو گا یعنی اگر پہلا قول درست ہو جائے تو اس صورت میں اس کے نوافل اس کی کمی پوری کر دیں گے اور اگر دوسرا قول درست ہو تو اس صورت میں اس نے قضا نمازیں ادا نہیں کی ہیں بلکہ نوافل پڑھیں ہیں جو کہ پڑھنا اس کے لیے مشروع ہے۔
جزاکم اللہ
 
Top