• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قلم گویدشہنشاہ جہانم: شیخ عبدالمعید مدنی حفظہ اللہ (علی گڑھ)

شمولیت
ستمبر 11، 2013
پیغامات
26
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
52
قلم گویدشہنشاہ جہانم

شیخ عبدالمعید مدنی(علی گڑھ)
(انتساب: عزیزم ڈاکٹر وسیم محمدی، سرفراز فیضی، راشد حسن سلفی، عبدالرشید و عبدالقدیر سلفی کے نام)
قلم کی عظمت کا کون نہیں قائل ۔ انسان کی تاریخ سے پرانی قلم کی تاریخ ہے ۔ قلم کو وجود کا پیکر اس وقت ملا جب انسان ابھی عدم ہی میں تھا۔ قلم کو وجود ملا، رب کائنات نے اسے حکم دیا وہ حرکت میں آیا اس کا نقش اول ہے تقدیر۔ ساری کائنات کے ذرے ذرے کے خلق وتدبیر، رزق وعمل، بقا وفنا کا فیصلہ۔ اللہ تعالیٰ نے قلم کو روز ازل ہی میں وہ عظمت دی کہ اس کی پہلی تحریرازاول تا آخرساری کائنات کی تحریروں کی اصل بن گئی۔ تخلیق آدم سے انتہا ئے بنی آدم تک ساری تحریریں اسی کی نقل ہیں۔ کائنات بشری سے ماوراء خلق نوری کی ساری تحریریں جوانسان کے اعمال ناموں کی شکل میں ہیں یا دوسری شکلوں میں ہیں کل کو لکھنے کا شرف رب کریم نے قلم ہی کوعطا کیا ہے۔ قلم کوتقدس اورذمہ داری ملی جب رب کریم نے یہ فرمایا: [
[اِقْرَاْ وَرَبُّکَ الْاَکْرَمُ *الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ] اورقلم کے نصیب کو ابدی جِلا مل گئی جب اللہ تعالیٰ نے اس کی قسم کھائی: (نٓ وَالْقَلَمِ وَمَا یَسْطُرُوْنَ) اللہ کی مادی مخلوق میں یہ عظمت وشرف قلم کو ملا۔
یہ عظمت مادی مخلوق کی ساری عظمتوں کا محورہے۔ مادی تخلیق کو عظمت کا محور بننا مشکل نہیں اگر رب کائنات کی عنایت ہو۔ دنیا میں بشری ومادی عظمتوں کے مراحل قلم کے سہارے ہی توطے ہوتے ہیں۔ قلم کی شان دیکھئے احساسات، جذبات، مسرت ومودت ،غم وشادمانی ، فکروخیال ، دین وتہدیب، تاریخ وافسانے سائنس وفکشن سب کو خارج میں عیاں ونمایاں ہونے کے لئے یہی مادی پیکر قلم کام آتا ہے۔
ہرمیدان حیات میں قلم کی فرماں روائی ہے ۔ حکومتیں اس کے بغیر نہیں چلتیں ۔وزارتیں اس کے نام سے منسوب ہیں۔ قلم کی حکمرانی اچھے برے ،امیر غریب، عالم جاہل سب پر قائم ہے۔ قلم انسان کی سب سے بڑی طاعت اور سب سے بڑا ہتھیارہے ۔ قلم کے ذریعے ہی توعلم وسائنس اورٹکنالوجی کے فتوحات حاصل ہوئے۔ زرومال کے حصول کی راہیں کھلیں۔ قلم نے سمندر کے اندر اترکر انسان کے لئے راز ہائے پنہاں کوہویدا کیا، قلم نے فضاؤں میں اڑنے کے لئے انسان کو پرواز دیا۔ قلم نے انسان کی بڑھتی ہوئی ضرورتوں اور عالمی تہذیبی رویوں کے لئے ترقی اورپیش رفت کے لئے امکانات کی نئی دنیا دریافت کی۔ ساری دنیا کو عالمی گاؤں بنادیا۔ انٹرنیٹ کی دریافت نے گھرگھر، فرد فرد کوباہم جوڑدیا۔ نقل وحمل کے وسائل کی اس نے دریافت کی اورملکوں کے درمیان قائم سرحدوں کو آسانی سے پارکردیا۔
قلم نے جابروں کے خلاف فیصلے سنائے، مظلوموں کی آنکھوں سے آنسوپونچھے، بھٹکے ہوئے لوگوں کی رہنمائی کی، بگڑے ہوؤں کی اصلاح کی، ٹوٹے ہوؤں کو جوڑا، بکھراؤ کو سمیٹا، حق وانصاف کی راہ دکھلائی، جب بھی قلوب واذہان زہرآلود ہوئے قلم نے انھیں تریاق دیا۔ بگڑے سماج، بگڑے انسانوں، بگڑی سیاست، بگڑی معیشت، بگڑی سوچ کا علاج قلم کے پاس ہے۔
دراصل قلم کی عظمت اورحرمت ہے اوراس کی عظمت اورحرمت طبعاًبرقرار رہنی چاہیے۔ یہی اس کی فطرت ہے، جس طرح انسان کی عظمت اور عزت ہے اور اس کی شرافت وکرامت اس کی فطری پہچان ہے۔ فطرت کے خلاف انسان جاتاہے توارذل ترین مخلوق بن جاتاہے۔ فطری طورپر قلم کی عظمت یہی ہے کہ وہ حق کا پاسبان، حق کا طرف دار اور حق پرستوں کا ساتھی ہے۔ جب حق کے خلاف اسے استعمال کیا جاتاہے تواس کی توہین ہوتی ہے،اس کی عظمت کی پامالی ہوتی ہے۔
قلم محض ایک مادی پیکر کا نام نہیں ہے۔ قلم کے ساتھ عظمت وابستہ ہے، قلم کو تقدس سے نسبت ہے، قلم حق کا نگہبان ہے ، قلم مسؤلیت ہے، ابلاغ حق ہے ، قلم کی آبروہے، قلم عظیم انسانوں کی پہچان ہے۔ قلم سے انسان قلم کاربن جاتاہے۔ اچھے اورسچے انسانوں کے ساتھ قلم کی دوستی ہوتی ہے سچا اوراچھا انسان، بابصیرت اوراصلی انسان قلم سے رفاقت قائم کرتا ہے اور تادم واپسیں اس کی رفاقت پرناز کرتا ہے۔
قلم کی دوستی صرف اچھے اور سچے انسانوں سے ہوسکتی ہے ۔ بقیہ دوسروں سے اس کا تعلق فرض منصبی نبھانے کی بات ہوتی ہے یاغایت اوروسیلہ کا رشتہ نبھانے کی رسمی بات ہوتی ہے۔ قلم جب کسی اچھے انسان کی انگلیوں کے درمیان آتا ہے توقلم اس کے دل کی دھڑکن اس کے احساسات کا ترجمان اس کے افکار کا امین اوراس کے غم وشادمانی کا ساتھی اورزندگی کا ہم سفر بن جاتاہے۔ قلم صاف دل، صاف ذہن انسان کا پکا ساتھی بن جاتاہے اوردونوں کے درمیان والہانہ تعلقات قائم ہوجاتے ہیں۔ قلم کے اندر ایسے انسان کی حرارت ، دانشمندی ،سچائی غیرت اوراحساسات اتر آتے ہیں۔ قلم ایسے انسان کے وجود میں خوشبو بن کرآباد ہوجاتاہے۔ قلم کی روانی اس کے لیے دریا کی روانی، ہوا کا جھونکا بن جاتاہے۔ صریر خامہ اس کے لئے خریر آب بن جاتاہے ۔قلم سے نکلے الفاظ وحروف اورعبارتیں اس کی کشت حیات اور سمن زار زندگی بن جاتی ہیں۔ اس سے نکلا ایک ایک حرف ایک ایک فکر اسے محبوب ہوتی ہے۔ سچے قلم اور سچے قلم کار کے تعلقات اسی طرح کے ہوتے ہیں۔
سچے قلمکار کا ضمیر زندہ ہوتاہے اوریہی زندگی اس کے قلم کے اند رآجاتی ہے ۔سچا قلمکار قوموں کی امانت، عباد وبلاد کا سرمایہ، حق کا پاسبان اور سچائی کا رکھوالا ہوتاہے اور اس کا قلم بھی اس کا ہم نوا ہوتا ہے ، قلم ایک مادی پیکر ہی نہیں ہے، سچے قلمکار کا قلم اس کا اسلوب اس کی علمی کیفیت اس کی سیرت وکردار اوراس کی فکر وخیال اوراس کی شناخت بن جاتاہے۔ وہ اپنی نواسنجیوں حق آگاہیوں شعور وادراک اور احساسات سے اسے ایک زندہ وجود بخشتا ہے۔ اس لئے جب حساس قلمکار درد محسوس کرتا ہے تو قلم سے آنسو پٹکنے لگتاہے اور جب اس کے احساس زخمی ہوتے ہیں ان کوٹھیس لگتی ہے تواس سے خون ابلنے لگتاہے اور جب سچائی کے لئے اس کے دل میں انگڑائی پیدا ہوتی ہے توقلم کے اندر احتراز وحرکت آجاتی ہے۔ جب وہ آواز حق بلند کرتا ہے توقلم کے اندر بھی سطوت وجلال آجاتاہے۔ جب غلط کاروں، ٹھگوں عیاروں، چاپلوسوں منافقوں اورکذابوں کی ظلمتوں کا پردہ چاک کرتا ہے توقلم سے نو ر ابلنے اور اجالا پھیلنے لگتاہے۔ جب ان کا احتساب ہوتا ہے تو قلم ان کے چہروں کے نقاب کو نوچ ڈالتا ہے۔ سچے قلمکار کا قلم بہت توانا بڑا آبرو مند اور خوددار ہوتا ہے۔ اس کی نوک زبان سے امن کا امرت دھارا بہتا ہے، اس کی سچائی سے بیماروں کا علاج ہوتا ہے، فردوسماج کے لیے ناسوربنے پھوڑوں کے لئے سچا قلم نشتر بن جاتاہے، منافقوں کے لئے اَنی اور ظالموں کے لئے تلوار، مفاد پرستوں کے لئے کلوخ اور اجڑے بگڑے قابل ترس انسانوں کے لئے مکمل سکوت، بونوں اورچھوٹ بھیوں کے لئے روش اعراض۔ آبرومند قلم کو اپنی راہ منزل کا پتہ ہوتا ہے اور مقصد ومراحل سے بھی آگاہی ہوتی ہے۔ زندہ قلم رہنما بھی ہوتا ہے اور رہبر بھی، اجالا بھی ہوتا ہے اور روشنی بھی، محتسب بھی ہوتا ہے اورناقدبھی، جج بھی ہوتاہے او رپولیس بھی، خادم بھی ہوتاہے اور مخدوم بھی، زندہ قلم کادل بھی دھڑکتا ہے او ر دماغ بھی، وہ وار بھی کرتا ہے اوروار سہتا بھی ہے۔ فی الواقع قلم نہ بہرا ہوتا ے نہ گونگاہوتاہے، نہ پٹھو ہوتا ہے نہ نکھٹو۔ قلم ایک ریلٹی کا نام ہے ایک سچائی اورحقیقت کانام ہے۔ زندگی اورتوانائی کا نام ہے، امانت اوردیانت کا نام ہے۔ قلم جب سچے قلمکارکے ہاتھ میں آتا ہے تواس کی باریک آنکھیں دین ادب تاریخ رجال سماج ملک اورمعیشت کی سچائیوں اورحقیقتوں کو دیکھ لیتی ہیں اور اپنے سچے شعوروادراک کے کیمرے میں ان کو بند کرلیتی ہیں پھر حق اور سچائی کا اجالا پھیلتا ہے۔ سچا قلم اورسچا قلمکار دولت دنیا ودین ہیں۔ روشنی کا مینار ہیں۔ سچا قلم اورسچا قلم کار نہ بھیڑچال سے گھبراتے ہیں نہ عنوان وٹائٹل سے دھونس کھاتے ہیں، نہ جبروطاغوت سے ڈرتے ہیں، نہ ڈگریوں سے دبتے ہیں، نہ حوالجات کے حوالات میں پڑے ناسمجھ اور بے بصیرت لفظ پرستوں معانی سے محروموں کی نقل کرتے ہیں۔ قلم کو قلمکار سے محبت ہوتی ہے اورقلمکار کو قلم سے۔ دونوں کا یہ مضبوط رشتہ ان کے بقا وفلاح کی اساس ہے۔ اس فطری محبت کے درمیان نفاق چاپلوسی ، دوہرے پن، بکنے اور خریدنے کا گذرنہیں ہوتاہے۔ قلم اورقلمکار کے درمیان محبت، شیفتگی اور گل عذاری ہی توحاصل حیات، روح زندگی، لمحہ فکر، تابش نظر، بہارانجمن، نورشبستاں، نازگلستاں، فخرکائنات ہے۔
ایک بکاؤ، چاپلوس، جھوٹا انسان جب قلم پکڑتا ہے توقلم اپنی بدنصیبی پرکانپ جاتاہے۔ جب ایسا انسان اپنی آلودہ فکر، آلودہ کردار اورآلودہ سوچ سے اس کے وجود پرستم ڈھاتا ہے تووہ گریاں کناں ہوتاہے، ماتم کرتا ہے ایسے لوگوں پر جن کا وجود اس کے لئے ننگ بن جاتاہے۔ اس وقت اس کی عزت پامال ہوجاتی ہے، اس کی عظمت کھوجاتی ہے، اسے اپنے وجودسے شرمساری ہونے لگتی ہے۔ قلم اس وقت اپنی بے آبروئی پر روتاہے جب اسے الھڑاورمصلحت پسند استعمال کرتے ہیں۔ قلم ایسے لوگوں پر نفریں کرتاہے جواسے اپنے شکم کی آگ بجھانے، اپنی ہوس کو پورا کرنے اپنی جہالت کو چھپانے اور اپنے تعنت کی نمائش کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔
جس دورمیں خیانت عام ہو، پستیاں لوگوں کی پناہ گاہ بن جائیں، چند سکوں کی خاطر لوگ دین ایمان بیچنے لگیں ، میڈکیاں بھی نعل ٹھکوانے کا شوق پال لیں، وفاداریاں ایسے بدلیں جیسے بے ایمان بنئے کے ترازو کی ڈنڈی، ادب وتہذیب معصیت بن جائیں، ٹھگی اورعیاری وجہ کمال بن جائیں، رذائل فخر ومباہات کا باعث بن جائیں، گھاگ پن اور احمقانہ تہورقابلیت میں شمار ہوں۔ اس وقت سچا قلم اور سچے قلمکار بلندی سے انھیں ایسے دیکھتے ہیں جیسے درندے آپس میں ایک دوسرے کو کاٹ کھانے میں لگے ہیں اوراس کے لئے پورا زور باندھتے ہیں جیسے کیڑے مکوڑے اورموذی جانوربلوں سے نکل آتے ہیں اور ایک دوسرے سے بری طرح الجھے ہوتے ہیں۔ سچے قلم اورسچے قلمکارکے لئے اس وقت فرد اورسماج کا حال بس اس قسم کا ہوتاہے۔
سچا قلم اورسچے قلمکار نہ اونچی ٹوپیوں کو خاطرمیں لاتے ہیں، نہ ممبرومحراب سے اٹھتے ہوئے نان سنس کی پرواہ کرتے ہیں، نہ چندہ خوروں اورچندہ بٹوروں کے مکوک فضائی سے متاثرہوتے ہیں، نہ خائنوں کے طول وعرض سے سہمتے ہیں، نہ جھوٹی کانفرنسوں اوران کے بغلولوں سے ان کی بھیڑاور ویرانی سے تاثر قبول کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ ساون کے سانولے بادل ہیں جو بن برسے اڑجاتے ہیں۔ وہ مانگے کے اجالوں کو معتبر نہیں جانتے ہیں، نہ دریوزہ گروں کے شکم بینک اور دعاوی کے حجم کو، نہ انھیں ان ستمگروں سے کوئی لینا دینا ہوتاہے۔
دنیا کے سارے پھیلتے بڑھتے عنوانات، نعرے، دعوے، شور، جبر سچے قلم اور قلمکارکے نزدیک عناوین صفرہیں۔ انھیں وہ نظر آتا ہے جو غیروں کوکبھی دکھلائی نہیں دیتا ہے۔ قلم کی سچائی، اور قلمکاروں کی سچائی ان کے لئے ڈھال ہے جوانھیں جھوٹ اورنفاق سے بچاتی ہے۔ اجالا ہے جو ظلم وجبر حرص ولالچ اور خیانت کی تاریکی میں حقائق کو روبرو کرتی ہے۔ اس کے برعکس جواسے مزدوری کاکدال بناتاہے یا کاسہ لیسی کا آلہ ایسے کو نہ کبھی حقیقت تک رسائی مل سکتی ہے نہ لذت علم وادب۔
انسان سب کچھ سمجھتا جانتا ہے لیکن جب سچائی اس کے ساتھ نہیں ہوتی ہے تواس کی بصیرت چھن جاتی ہے۔ مسائل حیات میں اسے وہی نظر آتاہے جو اس کی ہوس پرستی چاہتی ہے اور ہوس تاریکی کے سواکیا ہے۔ ہوس ایک اندھا پن ہے اوریہ اندھا پن دین، عبادت ، لمبے کرتے، ممبرومحراب کسی بھی راہ سے آسکتا ہے، ہوس میں انسان ذات اوریافت کے گردگھومتا ہے اورذات اوریافت کاانسان کے اوپر اتنا زورہوتاہے کہ وہ اپنے علم سے ناآشنا، معرفت سے بے بہرہ ، دل سے بے خبر، دماغ سے محروم ہوجاتاہے ، ذات دریافت میں جیب وشکم کی حکمرانی ہوتی ہے جلوے ہی اسے راس آتے ہیں ، شہرت کی اس پر دیوانگی طاری ہوتی ہے، دکھاوے کا ناٹک اس کا فن بن جاتاہے، ہرگھڑی ہرلمحہ وہ اس ادھیڑبن میں رہتا ہے کہ کیا چال چلے ، کیا مکرکرے، کس کو فریب دے، کس بے وقوف بنائے۔ سچا قلم اور قلمکار ان چھوت کی بیماریوں سے دور بہت دورہوتے ہیں۔ وہ ان جھوٹے رویوں اور شیطانی حرکتوں سے دورکوسوں دورہوتے ہیں۔ بلکہ ان کی دھجیاں بکھیر نا وہ اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں۔
قلم کو سخت صدمہ ہوتاہے اس سے کہ بھوکے لالچی دین وملت کو شکم کی آگ بجھانے کے لئے اسے استعمال کریں اورشب وروز ان کا یہی مشغلہ بن جائے اوراپنی ان مذلوجی حرکتوں کو لمبی ٹوپیوں لمبی داڑھیوں اورلمبے جبہ ودستار سے چھپانے کی کوشش کریں۔ ان کی حرکتیں مرکب جرائم کے درجے میں ہیں۔ چوری اورخیانت اور اوپر سے انھیں معتبر بنانے کی ناکام جدوجہد ، اوربگڑے ہوئے مریض سماج وافراد کے درمیان ان کی مقبولیت وپذیرائی اوران قباحتوں کے عیاں ہونے پر داغداروں کی ڈھٹائی اوراپنے جرائم کو چھپانے کے لئے مزید مذلوجی حرکتوں کی کارفرمائی۔
جب قلم سچا نہیں ہوتا ہے اورقلم کارسچا نہیں ہوتا ہے توان سے فتنے جاگتے ہیں۔ چنیں وچناں کے شرارے پھوٹتے ہیں۔ شکوک وشبہات کے انگارے ابلتے ہیں، سچائی کوچھپانے کے لئے الفاظ کی جادوگری ہوتی ہے اتہامات کی بوچھاریں ہوتی ہیں۔ اعذار لنگ پیش ہوتے ہیں۔ حکومت کوشکایتیں بھیجی جاتی ہیں لوگ نفاق کی چادر اوڑھ لیتے ہیں، یافسق وفجور کا مظاہرہ کرنے لگتے ہیں۔ اسی طرح کی ذہنیت طبیعت اورمزاج کے لوگوں متعلق رب کریم کاارشادہے:

وَلَوْ اَنَّنَا نَزَّلْنَآ اِلَیْھِمُ الْمَلآءِکَۃَ وَکَلَّمَہُمُ الْمَوْتٰی وَحَشَرْنَا عَلَیْھِمْ کُلَّ شَیْْءٍ قُبُلاً مَّا کَانُوْا لِیُؤْمِنُوْٓا اِلَّآ اَنْ یَّشَآءَ اللّٰہُ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَھُمْ یَجْھَلُوْنَ*وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا شَیٰطِیْنَ الْاِنْسِ وَالْجِنِّ یُوْحِیْ بَعْضُھُمْ اِلٰی بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوْرًا وَلَوْ شَآءَ رَبُّکَ مَا فَعَلُوْہُ فَذَرْھُمْ وَمَا یَفْتَرُوْنَ
(الانعام:۱۱۱۔۱۱۲)
سچا قلمکارسچے قلم کا حامل ہو، آسان کام نہیں ہے۔ ایسے فن کارذی علم انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ باکردار ہو، حق کا متلاشی ہو، کسی طرح کے تعصب سے اس کا دل ودماغ صاف ہو، قلم کی فنی طاقت اس کے پاس ہو، رعنائی فکر سے مزین ہو، انسانوں کے فلاح وبہبود کے لئے تڑپ رکھتا ہو، شجاع اوربہادر ہو، جھکنے گرنے اورتملق سے دورہو، دوہرے کردار سے نفور ہو، مصلحت کے نام پر حق کا قاتل بننے کو سخت ناپسند کرتا ہو۔ قلم کو بیچ کر قلم کو رسوا کرنے پر قطعا آمادہ نہ ہو ، سطحیت چھچھورپن تعنت رعونت اورگھٹیا پن کے قریب نہ پھٹکتا ہوکسی کا آلہ کار نہ ہو اس کی اپنی سوچ اور اپنے الفاظ واسلوب ہوں۔ اجتماعی وانفرادی حقوق کی لڑائی لڑسکتا ہو، بھیڑ چال سے پرے ہو۔ حسن نیت حسن نظرسے مالا مال ہو۔ جو قلمکاران صفات کا حامل نہ ہو وہ سچا قلمکار نہیں بن سکتا۔
سچا قلمکاربننے کے لئے کسی سے سند لینے کی ضرورت نہیں پڑتی ہے۔ جہانِ قلم میں تحریری صلاحیت رب کریم کی عطا ہے۔ پھرانسان کی اپنی محنت اور جدوجہد ہے اور اپنی سیرت وکردار کی تعمیر ہے، اپنی ذہن سازی ہے اوراس کی اپنی زندگی کا ہدف ہے۔ اس کی نیت ارادے اورعزائم ہیں۔ بسا اوقات بڑے بڑے ودوان ، علوم وفنون کے ماہر مل جائیں گے اوربہت سی کتابوں کے مصنف ومحقق، مگر وہ قلمکاروں کے زمرے میں شامل ہونے کے لائق نہیں ہوتے اس لئے کہ تحریروں میں ان کا اپناکچھ نہیں ہوتا ہے تحریروں میں نہ ان کی اپنی فکر ہوتی ہے، نہ ان کی اپنی شخصیت ہوتی ہے، نہ ان میں ان کا جذبہ بولتا ہے، نہ ان میں ان کی تڑپ دکھتی ہے۔ نہ کوئی پیغام ہوتا ہے خالی خولی الفاظ اور جملوں کا کھلیان ہوتاہے۔ الفاظ اورجملے بھی محرر کی شخصیت کی گرمی اور تاب وتوانائی سے محروم ہوتے ہیں، تحریریں زندہ اور توانا اس وقت ہوتی ہیں جب شخصیت زندہ اور توانا ہو مقصدیت ومعتبریت سے موجود ہو۔ قلمکار اگر کسی کا آلہ کار ہو یا اس کا قلم دوسرے کا اجیر ہو اجیر بایں معنی کہ اس کی تحریرمیں کلیتاً وہی شے ہو جس کا مالک طالب ہو، قلمکاراس میں کلیتاً غائب ہو تویہ قلمکاری نہیں طوائف گیری ہے کہ قلم کی آبروقلم کار کی آبروبکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اگرکسی کو الفاظ اور معانی دےئے ہیں تویہ بہت بڑا عطیہ ہے اس کی حفاظت ضروری ہے کسی کو اسے رسوا کرنے کی اجازت نہیں ملنی چاہیے اور جو قلم کار ہمیشہ یافت اور مفاد کے پیچھے بھاگتے ہیں ان کو قلم پکڑنے کے بجائے قلی گیری کرنی چاہیے۔ یافت اورمفاد میں دولت شہرت نیک نامی چاپلوسی مکر جھوٹ سب داخل ہیں۔
سچے قلم اور قلمکار کے لیے زندگی آسان نہیں ہوتی۔ وہ اپنے ماحول میں زندگی کا مشاہد ہوتا ہے۔ اس کا مقدس پیشہ برے کو برا وار اچھے کواچھا کہنا فرض مانتا ہے۔ جس کی زندگی کا مشن یہ ہوظاہرہے آج کے طاغوتی دورمیں اسے سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ ایک طرح سے حتمی مسئلہ ہے۔ اس کی زندگی جہادمسلسل کی زندگی ہوتی ہے مکرو فریب کے افراسیاب اسے کھاجانے کی کوشش کریں گے ہی۔ تاریکیوں کے پاسدار اس سے جینے کا حق چھین لینے کی کوشش کریں گے ہی۔ سطحیت کے شکار ان کو کہاں سمجھیں گے۔ جھوٹے منافق چندہ خورخائن، ظالم، سنگ دل، استحصالی اسے کیسے برداشت کرسکتے ہیں۔ منافق بکاؤ قلم اسے کیسے جھیل سکتے ہیں فکر ونظر سے عاری اسے کیسے گوارا کرسکتے ہیں۔ ہوس پرست، حرف پرست، زر پرست، اوہام کے شکار، جتھہ بند، ذات برادری اورعلاقائیت کے شکار اسے کیسے پسند کرسکتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو طفیلی قلمکار راس آسکتے ہیں جو پانی کے تنکے ہوتے ہیں ہواانھیں ادھر سے ادھر لےئے پھرتی ہے۔
آج کے طاغوتی دور اورسنوات خداعات میں کسے فکر کہ سچائی تلاش کرے۔ زندگی کے اثقال اتنے بڑھ گئے ہیں کہ ہرشخص انھیں ڈھونے میں تھکا ہارا ہوا ہے۔ ہوس زر وشہرت کی اس قدر طلب ہے کہ چند سکوں کے عوض انسان دین وایمان شخصیت وکردار بیچنے پر آمادہ ہے۔ چھینا جھپٹی کا یہ عالم ہے کہ دنیا چور بازار بنتی جارہی ہے۔ فریب کا اس طرح دوردورہ ہے کہ ہرشخص دوسرے کو دھوکے دینے پر ہی تلا نظر آتاہے۔ خود فریبی بہانا ہے زندگی کاٹ لینے کا۔ خیرکوشر اور شر کو خیر بننے میں اتنی بھی دیری نہیں لگتی جتنی سانس لینے میں دیری لگ سکتی ہے۔ اجالے اندھیرے سب برابر ہوتے جارہے ہیں۔ مانگے کے اجالوں کو لوگ سورج بنائے بیٹھے ہیں اور خیرات کوسرمایہ۔ ایسے میں سچے قلم اور سچے قلمکار کے لئے کتنی پیچیدگیاں پیدا ہوسکتی ہیں۔ اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ لیکن سچا قلم اور سچے قلمکار اتنے سخت جان ہوتے ہیں کہ ان حالات میں بھی وہ سچائی کا فریضہ نبھانے سے نہیں بازآتے۔
سچے قلم اور سچے قلمکارکے خلاف ایک دینا ہوتی ہے طعنہ ہوتے ہیں۔ اتہامات ہوتے ہیں پروسیکوشن ہوتاہے۔ دھمکیاں ہوتی ہیں، سازشیں ہوتی ہیں، قیدوبند اور دارورسن ہوتا ہے لیکن سچائی ان کی ایسی طاقت ہوتی ہے کہ انھیں جھکنے دبنے اور ٹوٹنے نہیں دیتی۔ سچے قلمکار کی ہمیشہ ضرورت رہی ہے اور رہے گی اورایسے لوگ ہمیشہ رہیں گے وہی زندگی کا اجالا رونق حیات اور انسانیت کا سرمایہ ہیں اگر وہ القط ہوجائیں تواندھیراہی اندھیرا۔ اور اندھیروں کے پاسدار خائن بدقماش نافہم ستم گرہمیشہ اس کے خواہش مند ہوتے ہیں۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
اگر ’ ریٹنگ ‘ والے دس گیارہ بٹن ، سب کے سب ’ زبردست ‘ ہوتے ، تو سب کو یکجا اس تحریر پر وار دیا جاتا ۔
عبد المعید مدنی صاحب کی یہ خاصیت ہے ، جو کہنا چاہتے ہیں ، بالکل وہی کہہ لیتے ہیں ، جو لکھنا چاہتے ہیں ، بالکل اسی انداز سے موتی پرو دیتے ہیں ۔
’ سلطان القلم ‘ کا لقب بالکل صحیح عطا ہوا ہے ، شیخ محترم کو ، اللہ تعالی ان احقاق حق اور ابطال باطل کے مزید کام لے ، اور مواضع فتنہ و فساد سے بچا کر رکھے ۔
کمال کا جملہ ارشاد فرمایا :
سچا قلمکاربننے کے لئے کسی سے سند لینے کی ضرورت نہیں پڑتی ہے۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
Last edited:
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
"قسم ہے قلم کی" ....!


قلم کہ جس کی قسم رب تعالیٰ نے قرآن میں کھائی ، سوچنا چاہئے کہ یہ قلم کتنا عظیم ہے . یہ قلم جب کسی عالم ربانی کے ہاتھ میں آئے تو رشد و روشنی بن جاتا ہے ، کسی ادیب کے ہاتھ میں آئے تو کہیں رنگ و نور اور کہیں خوشبو بکھیرتا ہے ،کسی سنخنور کے ہاتھ میں ہو تو سخن کی رفعتوں اور کہکشاؤں پر کمندیں ڈال دیتا ہے ،کہیں وصال اورکہیں فراق کی کہانیاں کہتا ہے ، کہیں طلسم بن جاتا ہے تو کہیں جنون و دیوانگی کے روپ دھار لیتا ہے ،کہیں یہ محبوب کے خدو و خال تراشتا ہے تو کہیں زلف و رخسار بن جاتا ہے ،مگر کوچہ صحافت میں اس کے نرالے رنگ اور الگ ہی ڈهنگ ہوجاتے ہیں .یہ کسی صالح ظافر کے ہاتھ میں ہو تو میاں صاحب کے کوٹهے میں طوائف بن کر رقص کرتا ،کنیزوں کی طرح جہاں پناہ کے حضور آداب بجا لاتا اور عرفان صدیقی اور قاسمی کی طرح اپنا فن بیچتا نظر آتا ہے، یہ کسی جعلی ڈگری والے ڈاکٹر اور گالم نویس کے ہاتھ میں ہو تو تعفن بهرے دشنام تخلیق کرتا اس ڈاکٹر کی لیاقت پر سوالیہ نشان لگا دیتا ہے. ایسے میں یہ گفتار و اظہار پر سیاہ دھبہ بن کر دکھے گا ، ہاں یہ کسی جمعیتی کے پاس ہو تو حضرت مولانا کی "حمد و ثنا" اور" تسبیح و تقدیس" میں شام و سحر رطب اللسان رہے گا ، اگر بدقسمتی سے کسی انصافی کے ہتهے چڑھے تو پھر اس کی حرمت بیٹ بلے کی زد میں آئی بے چاری گیند سے بھی کم تر ہورہے گی اور تب یہ کسی ہمدرد حسینی کے ذریعے سے بس کپتان کی پاک دامنی کے جوتے پالش کرتا ملے گا .

خیر میری بات کا برا مت مانئے گا. مجھے ابھی ان کوچوں کی ہوا نہیں لگی اور اللہ کرے کبھی لگے بھی نہ. سو میں جو محسوس کرتا ہوں اگر وہ بعینہ تحریر ہو جائے ...!

جو دل محسوس کرتا ہے اگر تحریر ہو جائے
تو یہ نظمِ مرصّع زلف یا زنجیر ہو جائے
وفا زندہ دلان شہر کی تقصیر ہوجائے
پیالہ زہر کا سقراط کی تصویر ہوجائے
حقیقت کھل چکی ہے لیڈران دین و دنیا کی
اب ان کے بتکدوں میں نعره تکبیر ہوجائے
غضب کرتے ہو یاران طریقت اس زمانے میں
امیر شہر اہل مال کی تصویر ہوجائے
بہت سے دوغلے چہرے اسی خواہش میں جیتے ہیں
کہ ان کی کوچہ و بازار میں تشہیر ہوجائے
یہ لازم ہو گیا تو موت کو آواز دے لوں گا
قلم میرا وزیر و میر کی جاگیر ہو جائے


فردوس جمال .مدینہ منورہ
مدینہ یونیورسٹی
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
Top