قندیل بلوچ ، ہم سب اور دلیل کی راہ
تحریر :حافظ یوسف سراج
اچھی بات یہ ہے کہ ہم جو سوچتے ہیں اس پر بات بھی کرنے لگے ہیں لیکن بری بات یہ ہے کہ ہماری انتہا پسندی نے ہماری بات کو پوری قوت سے بے فائدہ، بےاثر اور مخصوص لوگوں کی واہ واہ کمانے کی رائیگاں مشقت کے گنبد میں قید کر رکھا ہے. امید کی جانی چاہیے کہ جلد ہی ہم معروضیت بھی سیکھ کر عصبیت اور دھڑے کی لڑائی کے بجائے انسان کے حقوق کی لڑائی لڑنے کے قابل ہو جائیں گے. یہ وہ وقت ہوگا کہ جب ہم میں سے جو بھی ہارے گا، جیت معاشرے اور انسان کی ہوا کرے گی. قندیل بلوچ کا افسوسناک قتل ایک سوگوار کر دینے والا واقعہ تھا. کسی بھی انسان کاماورائے عدالت قتل کسی بھی صحیح الدماغ انسان یا معاشرے کو کبھی گوارا نہیں ہو سکتا. یہ قتل اس لیے بھی دردناک تھا کہ یہ ایک عورت کا قتل تھا. کسی کمزور کا قتل اور پھر رائیگاں قتل، حساس انسان کے لیے دہری اذیت لے کر طلوع ہوتاہے. عورت مرد کی نسبت کمزور ہے، اس لیے کہ وہ صنف نازک ہے، کسی آبگینے کی طرح نازُک، جاذب اور جمیل
ایسے قتل لیکن ہم ایسوں کے لیے ایک تیسری اذیت کا بھی دروازہ کھول دیتے ہیں. بڑی ہنرکاری کے ساتھ ایسی تمام تر جہالتوں کی کالک اسی دین انسانیت یعنی دین اسلام اور اسی انسان نواز تہذیب کے حسیں چہرے پر مل دی جاتی ہے کہ جس نے سب سے پہلے اور سب سے توانا آواز میں ان انسا ن کش جہنمی فرسودگیوں کی جڑ پر وار کیا تھا. یقین کیجیے کہ اگر ہم معروضیت اور حقیقت پسندی کے ساتھ انسانی معاشرے کاجائزہ لینے کی گنجائش اپنے اندر پیدا کر سکیں اور اگر ہم کیس ٹو کیس واقعات کا ان کے اصلی تناظر میں جائزہ لینے کی جرات کر گزریں اور اگر کسی انسان کے تن کو جلاتی آگ سے اپنے مفاد کے سگریٹ سلگانے سے خود کو باز رکھ سکیں تو بخدا یہ عین ممکن ہے کہ کسی بھی معاشرتی مرض اور مسئلے کی ہم واقعی تشخیص کر لینے کے بھی اہل ہو سکیں اور تبھی یہ امکان بھی ہوگا کہ ہم آہستہ آہستہ سلگتے انسانوں کا علاج ڈھونڈ لینے کے قابل بھی ہو جائیں. یوں مگر نہیں ہوتا. افسوس یہی نہیں ہوتا. اپنے ہمنواؤں کے ساتھ قوالوں کی دو ٹولیاں اٹھتی ہیں اور اپنے طے شدہ اور پسندیدہ نظریات کے جعلی خون سے لتھڑے پیرہن ِ یوسف پر ویسا ہی واویلا آغاز کر دیتی ہیں، کہ جیسا ہمارے کچھ دوست سال کے کسی خاص مہینے میں سال بھر کی کمائی کے لیے پوری جانفشنانی سے کیا کرتے ہیں. ظاہر ہے اس کا مقصد سوائے اس کے کچھ نہیں ہوتا کہ اپنے دھڑے کے لیے حالات کی بہتی گنگا میں حسب توفیق ہاتھ دھو لیے جائیں اور موقع سے ناجائز فائدہ کشید کرنے کاحسب استطاعت گھناؤنا دھندہ کر لیا جائے. قندیل بلوچ کے قتل پر ہمارے رویے نے پھر ایک بار ہماری اجتماعی غلطی آشکار کر دی ہے، اگر ہم سمجھنا اور ماننا چاہیں تو.
مجھے نہیں معلوم کہ قندیل بلوچ کن تاریک راہوں میں ماری گئی، یہ مگر میں جانتاہوں کہ وہ غیرت کے قتل کا نشانہ یا شاخسانہ ہرگز نہیں بنی ہے. اگرچہ اس پر میڈیا ہی میں کچھ رپورٹس آئی بھی ہیں اور آئیں گی بھی لیکن میرا استدلال ا س سے بھی سادہ ہے. قندیل بلوچ منظرعام پر تھی. اس سادگی سے منظرعام پر رہ کے کچھ بھی کر گزرنے کو سب سے پہلے خاندان جان لیتا ہے اور پھر باقی دنیا. اس کے باوجود خاندان نے اسے اس کے پیسے سمیت قبول کیا تھا، اس سے رابطہ رکھا تھااور وہ بے خوف گھر آتی جاتی رہی تھی. جس طرح کسی بھی شخص کو پہلے اس کا خاندان جان لیتا ہے بالکل اسی طرح، بعض اور چیزوں کی طرح، غیرت کے رویوں کو ایک خاتون کی حساسیت کا سکینر بھی کبھی بائی پاس نہیں کر سکتا. تاہم حالات شاہد ہیں کہ قندیل بلوچ کا حساس نسوانی سینسر اور سکینر ایسی کوئی خفیف سی لہر بھی ریکارڈ نہیں کر سکا تھا. پھر پچھلے مجموعی واقعات کا مطالعہ کر لیا جائے تو آپ دیکھیں گے کہ غیرت کے قتل میں دھوکا اور چالبازی بروئے کار آتی ہے یا فوری اشتعال، یہاں ہمیں یہ دونوں ہی نظر نہیں آتے. پھر ہم اس کے باپ کا اولیں بیان بھی نظر انداز کر دیتے ہیں کہ جس میں ان کے بقول یہ قتل پیسے کے لیے کیا گیا ہے. یہ عین ممکن ہے کہ بھائی کو بہن سے ملتے راتب میں اضافہ کرانا مقصود ہو یا اس کی غیرت بہن کو بلیک میل کرکے اضافی قیمت وصول کرنے پر تل گئی ہو. رہا بھائی کا ’غیرت مندانہ‘ بیان تو یہ بیان صاحبِ غیرت کی اس سے بھی کوئی پست اور غیرت کش کردار چھپانے کی ایک کامیاب کوشش بھی ہو سکتی ہے، بالخصوص جب ایسا کہہ دینے سے معاشرے کے بعض بیٹوں کی جہالت اسے جوانمردی کا تمغہ اور شاباشی کا تحفہ دینے کو بھی تیار بیٹھی ہو. ضمنا عرض ہے کہ کسی بھی واردات، سانحے یا حادثے پر کسی بھی عدالتی تفتیش و تحقیق سے قطع نظر، یہ جو فی الفور میڈیا یا پولیس، ‘غیرت کے نام پر قتل’ کا فیصلہ اور اعلان فرما دیتے ہیں تو کیایہ انسان، معاشرے، عدالت اور آئین و قانون کے ساتھ بدترین اور گھناؤنا ترین سلوک نہیں؟ کیا یہ تحقیقات پر پردہ ڈالنے کی کھلی اعانتِ جرم نہیں؟ کیا یہ روش بالآخر معاشرے کا نرخرہ نہیں دبا دے گی؟
دوسری بات، اگر قتل غیرت کا بھی ہو، توکیا ہم اتنا بھی نہیں جانتے کہ اسلام کا اس میں کوئی قصور نہیں. غیرت یا بےغیرتی کے نام پر کسی بھی طرح کے انسانی قتل کی اسلام کسی شخص کو قطعاًاجازت نہیں دیتا. اشتعال کے قتل کو اگرچہ عام قانون رعایت دیتاہے مگر اسلام اسے بھی قابلِ سزا قتل ہی گردانتا ہے. انارکی اور ظلم کبھی اسلام کو مقصود نہیں رہے. اسلام شرم وحیا کا رکھوالا دین ہے مگر اس نے شرم و حیا کو کسی انسان کی جان کی قیمت نہیں بننے دیا. لعان کے باب کا مطالعہ اس نادانی کے ازالے کی مفید دوا ہو سکتی ہے. یہ واضح ہے کہ اسلام فرشتوں کا دین نہیں، یہ زمیں زاد انسانوں کا دین ہے، اور انسان اپنی خوبیوں اور خامیوں سمیت اسلام کے ہاں محترم ہے. انسان کو اللہ تعالیٰ نے کامل اور فول پروف نہیں،گناہ اور خطا کرسکنے والا پیدا کیا ہے اور ضابطہ ٔ حیات دیتے وقت اسلام انسان کی سرشت کے اس جینیاتی کوڈ یا جبلت کے اس ڈی این اے کو بھول نہیں گیا. سو خاطر جمع رکھنی چاہیے کہ اسلام ایسے قتل کو قطعا گوارا نہیں کرتا. بلکہ اس باب میں تو ایسی وضاحت و صراحت آئی ہے کہ آپ کے کانوں کی لویں سرخ ہو اٹھیں. یہ کس قدر اہم بات ہے کہ حیا کو دین کی اساس قرار دینے والے اسلام نے انصاف اور انسانی جان کے تحفظ اور تحقیق کی خاطر کیسی کیسی چیزوں کا واشگاف اظہار گوارا فرمایا ہے. یہ ایک مستقل، الگ اور دلچسپ موضوع ہے.
ایک بات لیکن اور بھی ہمارے کرنے بلکہ نہ کرنے کی بھی ہے. ہمیں اس قتل کو عین اسلام ثابت کرنے سے باز رہنے اور اس کو اسلام کے خلاف دیرینہ عداوت کے اظہار کا وسیلہ بنالینے سے اجتناب کرنے کی شدید ضرورت ہے. اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ ہم قندیل بلوچ کے غیر قانونی قتل کی حمایت کی آڑ میں اس قوم کے ضابطوں کا تمسخر اڑانے سے بھی باز ہی رہیں کہ اس سے فساد ہی اگر مطلوب ہے تو خیر ، ورنہ انسانیت کا کوئی فائدہ آپ یقینا نہ کر سکیں گے. بہتر یہی ہے کہ ہم اسلام پر عمل کی کوشش کرنے والوں کو بھی کسی حد تک انسان مان ہی لیں. دوسرے انسانوں کی طرح، ہمیں انھیں بھی یہ حق دے دینا چاہیے کہ وہ اپنی مرضی اور آزادی سے اپنے قانونی اور اخلاقی ضابطوں میں جینے پر تمسخر کا نشانہ بننے سے بچ سکیں. ہمیں عمومی انسانی رویوں کو بھی مذہب کو دوش دیے بغیر انسانی سطح پر ہی دیکھنے اور قبول کر نے کی عادت بنا لینی چاہیے. ہمیں یہ بھی مان لینا چاہیے کہ انسان فطرتا گنہگار ہونے کے باوجودب ھی اپنی فطرت ہی کی بدولت کھلے عام گناہ کی تحسین نہیں کرتا. ہم پرائیویسی کی بہت بات کرتے ہیں، اسلام بھی اس کا بہت بڑا داعی ہے، اور اسی ضمن میں ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ایک پرائیویسی معاشرے کی بھی ہوتی ہے. جس فرد کی پرائیویسی معاشرے کی پرائیویسی سے ٹکرائے گی، اسے پھر اس سائنسی اصول سے بھاگنا نہیں چاہیے کہ ہر عمل کا ایک ردِ عمل بھی ہوتاہے. یہ ایک سائنسی اصول ہے اور مکرر اس میں مذہب کا کوئی قصور نہیں، چنانچہ اگر کچھ لوگوں نے اس قتل پر نامناسب رویے کا اظہار کیا تو یہ عین اسی انسانی فطرت کا عکس ہے. کیا یہ غلط ہے کہ ہمارا دین و مذہب کچھ بھی ہو، ہماری غیرموجودگی میں لوگ وہی کہتے ہیں جیسے کہ ہم ہوں؟ درست ہے کہ لوگوں کوہماری غیبت سے باز رہنا چاہیے مگر ظاہر ہے ہمیں بھی اپنی پرائیویسی کو کچھ احتیاط سکھا ہی دینی چاہیے. ایک بات کا مجھے بڑا یقین ہے کہ اپنی ذت میں کوئی کیسا ہی کیوں نہ ہو، اگر وہ اپنی پرائیویسی کی حدود پر نگران رہتا ہے تو آخرت کی خداجانے، دنیا میں وہ انسان کبھی ذلیل نہیں ہو سکتا.
آئیے ابتدائی بات کو ایک بار مکرر دہر ائیں. ہم چیزوں کو ان کے تناظر میں دیکھنا شروع کرلیں، اس سے معاشرہ مہک اٹھے گا. دیکھیے اگر آپ طنز اور تمسخر میں طاق اور صاحبِ تلوار ہیں تو مقابل کے پاس ممکن ہے یہ ہتھیار اتنا کارگرنہ ہو، لیکن دیکھیے، تنگ آکر وہ کوئی میسر فتویٰ اٹھا لائے گا اور یوں معاشرہ چین سے جی نہ پائے گا. یوں وہ اکیلا نہیں، اس کے فتویٰ لانے میں ہم نے بھی بغیر مفتی ہوتے ہوئے فتویٰ لانے میں اپنا بھرپور اور مرکزی کردار ادا کیا ہوگا، دوش اگرچہ ہم صرف اسے ہی دیتے رہیں. سو آئیے ہتھیار رکھ کے، کسی ایسے مشروب پہ، انسان کی فلاح کے لیے ہم مل بیٹھیں کہ جو ہم میں اور آپ میں برابر محترم ہو. آئیے طعن و تشنیع کے کسی وقفے میں ہم سب دلیل سے اک ایسی بات کہنا شروع کریں جو ہم سب کے فائدے کی ہو. آئیے ہم ایک دوسرے کو یہ سمجھنے دیں کہ ہم دونوں ہی اتنے برے نہیں.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ تحریر
دلیل ڈاٹ کام سے لی گئی ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محترم یوسف سراج صاحب کی بالا تحریر ، بہت ہی فکر انگیز ہے ، اور موضوع سے متعلق مزید نئے گوشوں کو سامنے لاتی ہے ... لیکن ایک بات نوٹ کی گئی ہے ، کہ کالم نگار صاحب خود اپنی شخصیت کو لپیٹ کر رکھتے ہیں ، اور کسی حتمی رائے دینے سے گریز کرتے ہیں ، اس لیے ایک عام آدمی درست ، یا غلط کا فیصلہ کرنے میں الجھن کا شکار ہوجاتا ہے ۔