- شمولیت
- مارچ 08، 2011
- پیغامات
- 2,521
- ری ایکشن اسکور
- 11,555
- پوائنٹ
- 641
سلف صالحین کا کہنا ہے کہ اللہ عزوجل نے ہر انسان میں تین قوتیں رکھی ہیں: عقل کی قوت، غضب کی قوت اور شہوت کی قوت۔ ان تینوں قوتوں میں افراط وتفریط یعنی زیادتی اور کمی ظلم ہے جبکہ اعتدال یعنی میانہ روی مطلوب ہے۔
عقل کی قوت ایسی قوت ہے جس کے ذریعے انسان غور وفکر کرتا ہے۔ عقل کی قوت میں تفریط یہ ہے کہ جہاں اسے استعمال کرنا چاہیے وہاں ہم اسے استعمال نہ کرے، اس سے کند ذہنی اور حماقت جنم لیتی ہے۔ اور عقل کی قوت میں افراط یہ ہے کہ ہم اس کا وہاں بھی استعمال کریں جہاں اس کا استعمال کرنا بے معنی اور لایعنی ہے، وہاں بھی اس کا استعمال کیا جائے۔ اور اگر عقل کی قوت میں اعتدال ہو تو اسے حکمت کہتے ہیں جو کہ مطلوب ہے۔
غضب کی قوت میں اگر تفریط ہو تو اسے بزدلی کہتے ہیں اور اگر افراط ہو تو اسے رعونت کہتے ہیں اور اگر اعتدال ہو تو اسے شجاعت کہتے ہیں جو کہ مطلوب ہے۔ بس اگر کسی کو غصہ نہ آئے تو وہ بزدل ہے بلکہ میں تو کہتا ہوں، بے غیرت ہے اور غصہ کا نہ آنا کوئی شریعت کا مطالبہ نہیں ہے۔ اور جسے بلاوجہ غصہ آئے یا ایسی جگہ غصہ کھائے جہاں غصہ نہیں کھانا چاہیے تھا تو یہ رعونت ہے۔ اور جو اللہ کے دین کے لیے غصہ کرتا ہے اور اپنے نفس کے لیے غصہ پی جاتا ہے تو یہ اعتدال ہے اور اسی کا نام شجاعت ہے۔ یہ البتہ واضح رہے کہ بعض اوقات انسان غصہ اپنے نفس کے لیے کر رہا ہوتا ہے لیکن نام دین کا لیتا ہے، یہ بھی درست نہیں ہے بلکہ زیادہ خطرناک ہے۔ غضب کی قوت سے صرف غصہ نہیں پیدا ہوتا بلکہ بغض، نفرت، عداوت اور رعونت وغیرہ کئی قسم کے رذائل پیدا ہوتے ہیں۔
شہوت کی قوت میں اگر تفریط ہو تو یہ سستی ہے بلکہ میری رائے میں تو نامردی ہے۔ اور اگر شہوت کی قوت میں افراط ہو تو ہوس ہے اور اگر اس میں اعتدال ہو تو یہ عفت ہے اور یہی دین میں مطلوب ہے۔ یعنی ہمارا دین نہ تو ہم سے یہ چاہتا ہے کہ ہم اپنی شہوت کی قوت کو دبا دیں اور نہ یہ کہ اسے جڑ سے ہی ختم کر دیں۔ ان دونوں صورتوں کا نتیجہ اپنی نسل کا خاتمہ ہے جو کہ فطرت کے خلاف ہے۔ اسی طرح ہمارے دین کا یہ بھی تقاضا نہیں ہے کہ ہم اپنی شہوت کو بے لگام چھوڑ دیں کہ حلال وحرام کی پرواہ نہ رہے۔ اور اگر قوت شہوت کو حلال میں استعمال کیا جائے جیسا کہ نکاح وغیرہ میں اور حرام سے بچایا جائے تو اسے عفت کہتے ہیں۔ شہوت کی قوت سے بھی صرف شہوت ہی پیدا نہیں ہوتی بلکہ لالچ، حرص، طمع اور ہوس وغیرہ جیسے کئی رذائل پیدا ہوتے ہیں۔
پس اسلام کا مقصود ان قوتوں کا خاتمہ نہیں ہے جن کی افراط وتفریط سے نفس میں رذائل پیدا ہوتے ہیں بلکہ ان قوتوں کو کنٹرول کرنا مقصود ہے یعنی ان کا اعتدال کے ساتھ استعمال۔ شاید ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جسم انسانی میں ان تین قوتوں یا جبلتوں کی مثال تین جنریٹروں کی سی ہے۔ اگر تو تزکیہ نفس کے عمل میں ان تین جبلتوں کو کمزور کرنے کی کوشش کی جائے گی تو اس سے تفریط پیدا ہو گی جو اسلام میں مطلوب نہیں ہے۔ اور دوسری لاپرواہی اور غفلت سے ان جبلتوں کو قوی کرنے کا افراط ہے اور یہ بھی مطلوب نہیں ہے۔ پس اخلاق حسنہ ہوں یا رذائل دونوں انہی جبلتوں اور قوتوں سے پیدا ہوتے ہیں۔ اگر یہ جبلتیں یعنی عقل، غضب اور شہوت اعتدال میں ہوں تو اخلاق حسنہ پیدا ہوتے ہیں اور اگر یہ افراط وتفریط میں ہوں تو رذائل پیدا ہوتے ہیں۔ تو یہ جبلتیں اور قوتیں جنریٹر ہیں۔ واللہ اعلم
ایک اور بات یہ بھی ذہن میں آتی ہے کہ ہمیں وہ اسباب بھی اختیار نہیں کرنے چاہییں جو ان جبلتوں میں افراط وتفریط کا باعث بنیں۔ مثلا ضرورت سے کم کھانا انسان میں شہوت کی جبلت کو تفریط میں لے جانے کا سبب بنتا ہے اور ضرورت سے زائد کھانا انسان میں شہوت کی جبلت میں افراط کا باعث ہے لہذا نہ تو ضرورت سے کم کھانا نیکی ہے اور نہ ہی ضرورت سے زائد کھانا جہاد ہے بلکہ کھانے میں اعتدال ہونا چاہیے تا کہ شہوت کی قوت میں بھی اعتدال رہے۔ واللہ اعلم
سلف صالحین کا کہنا ہے کہ شہوت کی قوت اس لیے رکھی گئی کہ انسان اس کے ذریعے اپنے نفس کے لیے نفع بخش چیزوں کو حاصل کرے۔ اور غضب کی قوت کا مقصد یہ ہے کہ انسان اس کے ذریعے اپنے ذات سے ضرر رساں چیزوں کو دور کرے۔ اور عقل کی قوت مقصد یہ ہے کہ وہ نفس کے لیے نفع بخش اور ضرر رساں چیزوں میں فرق کرے۔ پس یہ تینوں قوتیں در اصل انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی گئی ہیں۔
اگر انسان میں کسی چیز کے حصول مثلا دنیا، مال یا جاہ وغیرہ کی طلب پیدا ہو تو یہ قوت شہوت کی وجہ سے ہے۔ اگر یہ طلب شدید ہو جائے تو اسے حرص، لالچ اور طمع کہتے ہیں۔ اگر انسان اس شدید طلب کے بعد وہ چیز حاصل کر لے تو اس سے بخل اور کنجوسی پیدا ہوتی ہے۔ اور اگر ایسا ہو کہ طلب تو شدید ہو لیکن انسان کو اسے حاصل کرنا مشکل ہو یہاں تک کہ اسے اس کے حصول کے لیے اپنی قوت غضب استعمال کرنی پڑے تو اس سے فخر، تکبر، ظلم اور عداوت پیدا ہوتی ہے۔
اور اگر انسان اپنے آپ سے کسی ضرر رساں چیز کو دور کرنا چاہے تو اس کے لیے قوت غضب کو استعمال کرتا ہے مثلا کسی نے اسے لعن طعن یا گالم گلوچ کی اور اب وہ اس لعن طعن یا گالم گلوچ کو اپنے سے دور کرنا چاہتا ہے تو اس کے لیے غضب کی قوت کو استعمال کرے گا۔ اگر وہ اس ضرر رساں چیز کو اپنے سے دور نہ کر سکے تو اس سے بغض پیدا ہوتا ہے اور اگر انسان کسی اور دیکھے کہ وہ فائدہ حاصل کرنے یا اپنے سے ضرر کو دور کرنے کی قدرت رکھتا ہے لیکن میں اس پر قادر نہیں ہو تو اس سے حسد پیدا ہوتا ہے۔
یہ بات بھی ذہن میں آتی ہے کہ جذبہ انتقام بھی قوت غضب کے افراط سے پیدا ہوتا ہے۔ لیکن اس پر مستقل لکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ بیماری بہت عام ہے۔
عقل کی قوت ایسی قوت ہے جس کے ذریعے انسان غور وفکر کرتا ہے۔ عقل کی قوت میں تفریط یہ ہے کہ جہاں اسے استعمال کرنا چاہیے وہاں ہم اسے استعمال نہ کرے، اس سے کند ذہنی اور حماقت جنم لیتی ہے۔ اور عقل کی قوت میں افراط یہ ہے کہ ہم اس کا وہاں بھی استعمال کریں جہاں اس کا استعمال کرنا بے معنی اور لایعنی ہے، وہاں بھی اس کا استعمال کیا جائے۔ اور اگر عقل کی قوت میں اعتدال ہو تو اسے حکمت کہتے ہیں جو کہ مطلوب ہے۔
غضب کی قوت میں اگر تفریط ہو تو اسے بزدلی کہتے ہیں اور اگر افراط ہو تو اسے رعونت کہتے ہیں اور اگر اعتدال ہو تو اسے شجاعت کہتے ہیں جو کہ مطلوب ہے۔ بس اگر کسی کو غصہ نہ آئے تو وہ بزدل ہے بلکہ میں تو کہتا ہوں، بے غیرت ہے اور غصہ کا نہ آنا کوئی شریعت کا مطالبہ نہیں ہے۔ اور جسے بلاوجہ غصہ آئے یا ایسی جگہ غصہ کھائے جہاں غصہ نہیں کھانا چاہیے تھا تو یہ رعونت ہے۔ اور جو اللہ کے دین کے لیے غصہ کرتا ہے اور اپنے نفس کے لیے غصہ پی جاتا ہے تو یہ اعتدال ہے اور اسی کا نام شجاعت ہے۔ یہ البتہ واضح رہے کہ بعض اوقات انسان غصہ اپنے نفس کے لیے کر رہا ہوتا ہے لیکن نام دین کا لیتا ہے، یہ بھی درست نہیں ہے بلکہ زیادہ خطرناک ہے۔ غضب کی قوت سے صرف غصہ نہیں پیدا ہوتا بلکہ بغض، نفرت، عداوت اور رعونت وغیرہ کئی قسم کے رذائل پیدا ہوتے ہیں۔
شہوت کی قوت میں اگر تفریط ہو تو یہ سستی ہے بلکہ میری رائے میں تو نامردی ہے۔ اور اگر شہوت کی قوت میں افراط ہو تو ہوس ہے اور اگر اس میں اعتدال ہو تو یہ عفت ہے اور یہی دین میں مطلوب ہے۔ یعنی ہمارا دین نہ تو ہم سے یہ چاہتا ہے کہ ہم اپنی شہوت کی قوت کو دبا دیں اور نہ یہ کہ اسے جڑ سے ہی ختم کر دیں۔ ان دونوں صورتوں کا نتیجہ اپنی نسل کا خاتمہ ہے جو کہ فطرت کے خلاف ہے۔ اسی طرح ہمارے دین کا یہ بھی تقاضا نہیں ہے کہ ہم اپنی شہوت کو بے لگام چھوڑ دیں کہ حلال وحرام کی پرواہ نہ رہے۔ اور اگر قوت شہوت کو حلال میں استعمال کیا جائے جیسا کہ نکاح وغیرہ میں اور حرام سے بچایا جائے تو اسے عفت کہتے ہیں۔ شہوت کی قوت سے بھی صرف شہوت ہی پیدا نہیں ہوتی بلکہ لالچ، حرص، طمع اور ہوس وغیرہ جیسے کئی رذائل پیدا ہوتے ہیں۔
پس اسلام کا مقصود ان قوتوں کا خاتمہ نہیں ہے جن کی افراط وتفریط سے نفس میں رذائل پیدا ہوتے ہیں بلکہ ان قوتوں کو کنٹرول کرنا مقصود ہے یعنی ان کا اعتدال کے ساتھ استعمال۔ شاید ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جسم انسانی میں ان تین قوتوں یا جبلتوں کی مثال تین جنریٹروں کی سی ہے۔ اگر تو تزکیہ نفس کے عمل میں ان تین جبلتوں کو کمزور کرنے کی کوشش کی جائے گی تو اس سے تفریط پیدا ہو گی جو اسلام میں مطلوب نہیں ہے۔ اور دوسری لاپرواہی اور غفلت سے ان جبلتوں کو قوی کرنے کا افراط ہے اور یہ بھی مطلوب نہیں ہے۔ پس اخلاق حسنہ ہوں یا رذائل دونوں انہی جبلتوں اور قوتوں سے پیدا ہوتے ہیں۔ اگر یہ جبلتیں یعنی عقل، غضب اور شہوت اعتدال میں ہوں تو اخلاق حسنہ پیدا ہوتے ہیں اور اگر یہ افراط وتفریط میں ہوں تو رذائل پیدا ہوتے ہیں۔ تو یہ جبلتیں اور قوتیں جنریٹر ہیں۔ واللہ اعلم
ایک اور بات یہ بھی ذہن میں آتی ہے کہ ہمیں وہ اسباب بھی اختیار نہیں کرنے چاہییں جو ان جبلتوں میں افراط وتفریط کا باعث بنیں۔ مثلا ضرورت سے کم کھانا انسان میں شہوت کی جبلت کو تفریط میں لے جانے کا سبب بنتا ہے اور ضرورت سے زائد کھانا انسان میں شہوت کی جبلت میں افراط کا باعث ہے لہذا نہ تو ضرورت سے کم کھانا نیکی ہے اور نہ ہی ضرورت سے زائد کھانا جہاد ہے بلکہ کھانے میں اعتدال ہونا چاہیے تا کہ شہوت کی قوت میں بھی اعتدال رہے۔ واللہ اعلم
سلف صالحین کا کہنا ہے کہ شہوت کی قوت اس لیے رکھی گئی کہ انسان اس کے ذریعے اپنے نفس کے لیے نفع بخش چیزوں کو حاصل کرے۔ اور غضب کی قوت کا مقصد یہ ہے کہ انسان اس کے ذریعے اپنے ذات سے ضرر رساں چیزوں کو دور کرے۔ اور عقل کی قوت مقصد یہ ہے کہ وہ نفس کے لیے نفع بخش اور ضرر رساں چیزوں میں فرق کرے۔ پس یہ تینوں قوتیں در اصل انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی گئی ہیں۔
اگر انسان میں کسی چیز کے حصول مثلا دنیا، مال یا جاہ وغیرہ کی طلب پیدا ہو تو یہ قوت شہوت کی وجہ سے ہے۔ اگر یہ طلب شدید ہو جائے تو اسے حرص، لالچ اور طمع کہتے ہیں۔ اگر انسان اس شدید طلب کے بعد وہ چیز حاصل کر لے تو اس سے بخل اور کنجوسی پیدا ہوتی ہے۔ اور اگر ایسا ہو کہ طلب تو شدید ہو لیکن انسان کو اسے حاصل کرنا مشکل ہو یہاں تک کہ اسے اس کے حصول کے لیے اپنی قوت غضب استعمال کرنی پڑے تو اس سے فخر، تکبر، ظلم اور عداوت پیدا ہوتی ہے۔
اور اگر انسان اپنے آپ سے کسی ضرر رساں چیز کو دور کرنا چاہے تو اس کے لیے قوت غضب کو استعمال کرتا ہے مثلا کسی نے اسے لعن طعن یا گالم گلوچ کی اور اب وہ اس لعن طعن یا گالم گلوچ کو اپنے سے دور کرنا چاہتا ہے تو اس کے لیے غضب کی قوت کو استعمال کرے گا۔ اگر وہ اس ضرر رساں چیز کو اپنے سے دور نہ کر سکے تو اس سے بغض پیدا ہوتا ہے اور اگر انسان کسی اور دیکھے کہ وہ فائدہ حاصل کرنے یا اپنے سے ضرر کو دور کرنے کی قدرت رکھتا ہے لیکن میں اس پر قادر نہیں ہو تو اس سے حسد پیدا ہوتا ہے۔
یہ بات بھی ذہن میں آتی ہے کہ جذبہ انتقام بھی قوت غضب کے افراط سے پیدا ہوتا ہے۔ لیکن اس پر مستقل لکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ بیماری بہت عام ہے۔
Last edited: