• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قوالی کا جواز

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
@اسحاق سلفی بھائی کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے عرض ہے:

وَقَالَ هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ: حَدَّثَنَا صَدَقَةُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ، حَدَّثَنَا عَطِيَّةُ بْنُ قَيْسٍ الكِلاَبِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ غَنْمٍ الأَشْعَرِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو عَامِرٍ أَوْ أَبُو مَالِكٍ الْأَشْعَرِيُّ، وَاللَّهِ مَا كَذَبَنِي: سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: لَيَكُونَنَّ مِنْ أُمَّتِي أَقْوَامٌ، يَسْتَحِلُّونَ الحِرَ وَالحَرِيرَ، وَالخَمْرَ وَالمَعَازِفَ، وَلَيَنْزِلَنَّ أَقْوَامٌ إِلَى جَنْبِ عَلَمٍ، يَرُوحُ عَلَيْهِمْ بِسَارِحَةٍ لَهُمْ، يَأْتِيهِمْ - يَعْنِي الفَقِيرَ - لِحَاجَةٍ فَيَقُولُونَ: ارْجِعْ إِلَيْنَا غَدًا، فَيُبَيِّتُهُمُ اللَّهُ، وَيَضَعُ العَلَمَ، وَيَمْسَخُ آخَرِينَ قِرَدَةً وَخَنَازِيرَ إِلَى يَوْمِ القِيَامَةِ.
اور ہشام بن عمار نے بیان کیا کہ ان سے صدقہ بن خالد نے بیان کیا ، ان سے عبد الرحمن بن یزید نے ، ان سے عطیہ بن قیس کلابی نے ، ان سے عبدالرحمن بن غنم اشعری نے بیان کیا کہا کہ مجھ سے ابو عامر رضی اللہ عنہ یا ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا اللہ کی قسم انہوں نے جھوٹ نہیں بیان کیا کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت میں ایسے برے لوگ پیدا ہوجائیں گے جو زنا کاری ، ریشم کا پہننا ، شراب پینا اور گانے بجانے کو حلال بنالیں گے اور کچھ متکبر قسم کے لوگ پہاڑ کی چوٹی پر ( اپنے بنگلوں میں رہائش کرنے کے لیے ) چلے جائیں گے ۔ چرواہے ان کے مویشی صبح وشام لائیں گے اور لے جائیں گے ۔ ان کے پاس ایک فقیر آدمی اپنی ضرورت لے کر جائے گا تو وہ ٹالنے کے لیے اس سے کہیں گے کہ کل آنا لیکن اللہ تعالیٰ رات کو ان کو ( ان کی سرکشی کی وجہ سے ) ہلاک کردے گا پہاڑ کو ( ان پر ) گرادے گا اور ان میں سے بہت سوں کو قیامت تک کے لیے بندر اور سور کی صورتوں میں مسخ کردے گا ۔
‌صحيح البخاري: كِتَابُ الأَشْرِبَةِ»» بَابُ مَا جَاءَ فِيمَنْ يَسْتَحِلُّ الخَمْرَ وَيُسَمِّيهِ بِغَيْرِ اسْمِهِ

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَعِيلَ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَقَ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ عَنْ الْوَلِيدِ بْنِ عَبْدَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ وَالْكُوبَةِ وَالْغُبَيْرَاءِ وَقَالَ كُلُّ مُسْكِرٍ حَرَامٌ قَالَ أَبُو دَاوُد قَالَ ابْنُ سَلَامٍ أَبُو عُبَيْدٍ الْغُبَيْرَاءُ السُّكْرُكَةُ تُعْمَلُ مِنْ الذُّرَةِ شَرَابٌ يَعْمَلُهُ الْحَبَشَةُ.
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب ‘ جوئے ‘ سارنگی اور غبیراء سے منع فرمایا ہے ، اور فرمایا ” ہر نشہ آور چیز حرام ہے ۔ “ امام ابوداؤد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ابن سلام ابو عبید نے کہا کہ ” غبیراء “ مکئی جوار وغیرہ سے بنائی جانے والی شراب ہے جو اہل حبشہ بناتے ہیں ۔
سنن أبي داؤد»» كِتَابُ الْأَشْرِبَةِ»» بَابُ مَا جَاءَ فِي السَّكرِ


حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَلِيِّ بْنِ بَذِيمَةَ حَدَّثَنِي قَيْسُ بْنُ حَبْتَرٍ النَّهْشَلِيُّ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ وَفْدَ عَبْدِ الْقَيْسِ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ فِيمَ نَشْرَبُ قَالَ لَا تَشْرَبُوا فِي الدُّبَّاءِ وَلَا فِي الْمُزَفَّتِ وَلَا فِي النَّقِيرِ وَانْتَبِذُوا فِي الْأَسْقِيَةِ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ فَإِنْ اشْتَدَّ فِي الْأَسْقِيَةِ قَالَ فَصُبُّوا عَلَيْهِ الْمَاءَ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ فَقَالَ لَهُمْ فِي الثَّالِثَةِ أَوْ الرَّابِعَةِ أَهْرِيقُوهُ ثُمَّ قَالَ إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَ عَلَيَّ أَوْ حُرِّمَ الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْكُوبَةُ قَالَ وَكُلُّ مُسْكِرٍ حَرَامٌ قَالَ سُفْيَانُ فَسَأَلْتُ عَلِيَّ بْنَ بَذِيمَةَ عَنْ الْكُوبَةِ قَالَ الطَّبْلُ.

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ وفد عبدالقیس کے لوگوں نے کہا : اے اﷲ کے رسول ! ہم کس میں پئیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” کدو کے برتن ( تونبے ) ‘ تارکول لگے برتن اور لکڑی کے برتن میں مت پیو ‘ اپنے مشکیزوں میں نبیذ بنایا کرو ۔ “ انہوں نے کہا : اے اﷲ کے رسول ! اگر مشکیزوں میں ہوتے ہوئے بھی اس میں شدت آ جائے تو ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” اس میں مزید پانی ڈال لیا کرو ۔ “ انہوں نے کہا : اے اﷲ کے رسول ! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری یا چوتھی بار فرمایا ” اسے بہا ڈالو ۔ “ پھر فرمایا ” اﷲ تعالیٰ نے مجھ پر حرام فرمایا ہے یا کہا ۔ حرام کی گئی ہے ۔ شراب ‘ جوا اور کوبہ ۔ “ اور فرمایا ” ہر نشہ دینے والی چیز حرام ہے ۔ “ سفیان ثوری کہتے ہیں کہ میں نے علی بن بذیمہ سے ” کوبہ “ کی وضاحت پوچھی تو انہوں نے کہا : ” اس سے مراد ڈھول ہے ۔ “
سنن أبي داؤد»» كِتَابُ الْأَشْرِبَةِ»» بَابٌ فِي الْأَوْعِيَةِ

مذکورہ بالا احادیث سے موسیقی اور آلات موسیقی کا حرام ہونا ثابت ہوتا ہے۔ اب جن احادیث میں موسیقی سے متعلق بعض چیزوں کے جائز ہونے کا ثبوت ملتا ہے، وہ اس حرام کے حکم عموم میں تخصیص و استثناء پیدا کرتا ہے۔ اور جن احادیث میں جواز کا ثبوت ملتا ہے وہاں الفاظ بھی اسی پر دلالت کرتے ہیں کہ وہاں معاملہ تخصیص و استثناء کا ہے!

مندرجہ ذیل احادیث اس کا ثبوت ہیں:
حدثنا أحمد، قال حدثنا ابن وهب، قال أخبرنا عمرو، أن محمد بن عبد الرحمن الأسدي، حدثه عن عروة، عن عائشة، قالت دخل على رسول الله صلى الله عليه وسلم وعندي جاريتان تغنيان بغناء بعاث، فاضطجع على الفراش وحول وجهه، ودخل أبو بكر فانتهرني وقال مزمارة الشيطان عند النبي صلى الله عليه وسلم فأقبل عليه رسول الله ـ عليه السلام ـ فقال ‏"‏ دعهما ‏"‏ فلما غفل غمزتهما فخرجتا‏.
ہم سے احمد بن عیسی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبد اللہ بن وہب نے بیان کیا، کہا کہ مجھے عمرو بن حارث نے خبر دی کہ محمد بن عبد الرحمن اسدی نے ان سے بیان کیا، ان سے عروہ نے، ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے، انہوں نے بتلایا کہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر تشریف لائے اس وقت میرے پاس ( انصار کی ) دو لڑکیاں جنگ بعاث کے قصوں کی نظمیں پڑھ رہی تھیں۔ آپ بستر پر لیٹ گئے اور اپنا چہرہ دوسری طرف پھیر لیا۔ اس کے بعد حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ آئے اور مجھے ڈانٹا اور فرمایا کہ یہ شیطانی باجہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں؟ آخر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ جانے دو خاموش رہو پھر جب حضرت ابوبکر دوسرے کام میں لگ گئے تو میں نے انہیں اشارہ کیا اور وہ چلی گئیں۔
صحيح البخاري»» کِتَابُ العِيدَيْنِ»» بَابُ الحِرَابِ وَالدَّرَقِ يَوْمَ العِيدِ

حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: عَمْرٌو، حَدَّثَنِي أَبُو الأَسْوَدِ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَعِنْدِي جَارِيَتَانِ تُغَنِّيَانِ بِغِنَاءِ بُعَاثَ، فَاضْطَجَعَ عَلَى الفِرَاشِ وَحَوَّلَ وَجْهَهُ، فَدَخَلَ أَبُو بَكْرٍ، فَانْتَهَرَنِي وَقَالَ: مِزْمَارَةُ الشَّيْطَانِ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَقْبَلَ عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: «دَعْهُمَا»، فَلَمَّا غَفَلَ غَمَزْتُهُمَا، فَخَرَجَتَا،
ہم سے اسماعیل نے بیان کیا ، کہا کہ مجھ سے ابن وہب نے بیان کیا کہ عمرو نے کہا کہ مجھ سے ابوالاسود نے بیان کیا ، ان سے عروہ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے یہاں تشریف لائے تو دو لڑ کیا ں میرے پاس جنگ بعاث کے گیت گارہی تھیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بستر پر لیٹ گئے اور چہرہ مبارک دوسری طرف کرلیا اس کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ آگئے اور آپ نے مجھے ڈانٹا کہ یہ شیطانی گانا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں ! لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ انہیں گانے دو ، پھر جب ابوبکر رضی اللہ عنہ دوسری طرف متوجہ ہوگئے تو میں نے ان لڑکیوں کو اشارہ کیا اور وہ چلی گئیں ۔
‌صحيح البخاري»» كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّيَرِ»» بَابُ الدَّرَقِ

اس حدیث میں ایک تو یہ بات ہے کہ وہ چھوٹی بچیاں تھی، لیکن اس بات کو ابھی زیر بحث نہیں لاتے!

اہم بات یہ ہے کہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اسے شیطانی فعل سمجھا ہے، اگر موسیقی حرام نہ ہوتی تو ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا اسے شیطانی فعل نہ کہتے ، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ صحابی رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہی سیکھا تھا کہ یہ موسیقی شیطانی فعل ہے۔ یہ ہے موسیقی کا عمومی طور پر حرام ہونا، جیسا کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اوپر بیان کردہ احادیث سے ثابت ہے اور اس حدیث میں ابو بکر صدیق رضی اللہ کے قول سے بھی اس کی مزید وضاحت ہو گئی!

لیکن اس موقع پر اللہ کے نبی صلی اللہ وسلم نے ابو بکر صدیق رضی اللہ کو کہا کہ انہیں کرنے دو،

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا جو ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے اس قول کی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تردید کر دی ہے یا نہیں!

نہیں ایسا نہیں! بلکہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فعل کی اس موقع پر اجازت دی ہے! جو اسی واقعہ کی دوسری روایت میں مذکور ہے، اور اس کی راویت بھی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی ہی ہے!


حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ هِشَامٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ دَخَلَ أَبُو بَكْرٍ وَعِنْدِي جَارِيَتَانِ مِنْ جَوَارِي الْأَنْصَارِ تُغَنِّيَانِ بِمَا تَقَاوَلَتْ الْأَنْصَارُ يَوْمَ بُعَاثَ قَالَتْ وَلَيْسَتَا بِمُغَنِّيَتَيْنِ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ أَمَزَامِيرُ الشَّيْطَانِ فِي بَيْتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَذَلِكَ فِي يَوْمِ عِيدٍ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا أَبَا بَكْرٍ إِنَّ لِكُلِّ قَوْمٍ عِيدًا وَهَذَا عِيدُنَا.
ہم سے عبید بن اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابو اسامہ نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے باپ ( عروہ بن زبیر ) نے، ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے، آپ نے بتلایا کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ تشریف لائے تو میرے پاس انصار کی دو لڑکیاں وہ اشعار گا رہی تھیں جو انصار نے بعاث کی جنگ کے موقع پر کہے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہ گانے والیاں نہیں تھیں، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں شیطانی باجے اور یہ عید کا دن تھا آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر سے فرمایا اے ابو بکر ہر قوم کی عید ہوتی ہے اور آج یہ ہماری عید ہے۔
صحيح البخاري»» کِتَابُ العِيدَيْنِ»» بَابُ سُنَّةِ العِيدَيْنِ لِأَهْلِ الإِسْلاَمِ

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ: أَنَّ أَبَا بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، دَخَلَ عَلَيْهَا وَعِنْدَهَا جَارِيَتَانِ فِي أَيَّامِ مِنَى تُدَفِّفَانِ، وَتَضْرِبَانِ، وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُتَغَشٍّ بِثَوْبِهِ، فَانْتَهَرَهُمَا أَبُو بَكْرٍ، فَكَشَفَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ وَجْهِهِ، فَقَالَ: «دَعْهُمَا يَا أَبَا بَكْرٍ، فَإِنَّهَا أَيَّامُ عِيدٍ، وَتِلْكَ الأَيَّامُ أَيَّامُ مِنًى.
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا کہ ان سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عروہ نے، ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا ابوبکر رضی اللہ عنہ ان کے یہاں ( منا کے دنوں میں ) تشریف لائے اس وقت گھر میں دو لڑکیاں دف بجا رہی تھیں اور بعاث کی لڑائی کی نظمیں گا رہی تھیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم چہرہ مبارک پر کپڑا ڈالے ہوئے تشریف فرما تھے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان دونوں کو ڈانٹا۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چہرہ مبارک سے کپڑا ہٹا کر فرمایا کہ ابوبکر جانے بھی دو یہ عید کے دن ہیں ( اور وہ بھی منا میں )۔
‌صحيح البخاري»» کِتَابُ العِيدَيْنِ»» بَابٌ إِذَا فَاتَهُ العِيدُ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ وَكَذَلِكَ النِّسَاءُ وَمَنْ كَانَ فِي البُيُوتِ وَالقُرَى

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ هِشَامٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ دَخَلَ عَلَيَّ أَبُو بَكْرٍ وَعِنْدِي جَارِيَتَانِ مِنْ جَوَارِي الْأَنْصَارِ تُغَنِّيَانِ بِمَا تَقَاوَلَتْ بِهِ الْأَنْصَارُ يَوْمَ بُعَاثَ قَالَتْ وَلَيْسَتَا بِمُغَنِّيَتَيْنِ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ أَبِمَزْمُورِ الشَّيْطَانِ فِي بَيْتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَذَلِكَ فِي يَوْمِ عِيدٍ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا أَبَا بَكْرٍ إِنَّ لِكُلِّ قَوْمٍ عِيدًا وَهَذَا عِيدُنَا.
ابو اسامہ نے ہشام سے،انھوں نے اپنے والد(عروہ) سے اور انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کی،انھوں نے کہا:حضرت ابو بکر میرے ہاں تشریف لائے جبکہ میرے پاس انصار کی دو بچیاں تھیں۔اور انصار نے جنگ بعاث میں جو اشعار ایک دوسرے کے مقابلے میں کہےتھے،انھیں گارہی تھیں۔کہا:وہ کوئی گانے والیاں نہ تھیں۔حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے(انھیں دیکھ کر) کہا:کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں شیطان کی آواز(بلند ہورہی ) ہے؟اور یہ عید کے دن ہوا تھا۔اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"ابو بکر!ہر قوم کے لئے ایک عید ہے اور یہ ہماری عید ہے۔"
صحيح مسلم»» كِتَابُ صَلَاةِ الْعِيدَيْنِ»» بَابُ الرُّخْصَةِ فِي اللَّعِبِ الَّذِي لَا مَعْصِيَةَ فِيهِ فِي أَيَّامِ الْعِيدِ

ان احادیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم عید کے ایام کا استثناء بیان فرما رہے ہیں، یعنی کہ یہ ایک تخصیصی حکم ہے!

اور یہ بات ہمیشہ ذہن میں رکھنی چاہئے کہ وحی سے ثابت حکم میں تخصیص و استثناء صرف وحی سے ہی ممکن ہے، اور حکم تخصیصی پر قیاس کرنا باطل ہے!

مثلاً قران میں اللہ تعالیٰ نے مردار کو حرام قرار دیا ہے، اور مچھلی کو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حلال قرار دے کر مچھلی کا تخصیصی حکم بتلا دیا ہے، اب کوئی منچلا آکر مردا ر بکرے کو مچھلی پر قیاس کرکے کہے کہ جیسے مچھلی حلال ایسے ہی مردار بکرہ حلال ، تو ایسے منچلے کی عقل پر ماتم ہی کیا جاسکتا ہے!

موسیقی کے معاملہ میں تخصیص و استثناء کے معاملہ کی وضاحت مطلوب تھی، اس کی ایک مثال عید کے حوالہ سے احادیث سے بیان کی گئی ہے، اس کے علاوہ اور بھی استثنائی صورتیں احادیث میں بیان ہوئی ہیں، جیسے شادی کے موقع پر ! مزید کہ آلات کی بھی یہی تخصیصی حکم ہے!

ان شاء اللہ جلد موسقی سے متعلق فقہ حنفی کا مؤقف بھی پیش کیا جائے گا!
 
Last edited:
Top