ساجد تاج
فعال رکن
- شمولیت
- مارچ 09، 2011
- پیغامات
- 7,174
- ری ایکشن اسکور
- 4,517
- پوائنٹ
- 604
قوتِ نافذہ توحید اور اس کے ثمرات
بسم اللہ الرحمن الرحیم
قوتِ نافذہ توحید اور اس کے ثمرات
مسلم معاشرے میں اسلام نافذ نہ ہونے مطلب یہ بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ افراد میں قوت نافذہ ماند پڑ چکی ہے۔ یا تو وہ اسلام نافذ کرنا نہیں چاہتے اور اگر معاملہ اس کے برعکس ہے تو ان میں وہ طاقت نہیں پائی جاتی جس کے تحت اسلام نافذ ہو۔ نچلی سطح سے بالائی سطح تک حالت ایسی ہی ہو تو اس کی وجوہات کو دیکھا جا سکتا ہے۔ قوت نافذہ سلب ہونے کی سب سے پہلی بڑی وجہ یہ سمجھ آتی ہے کہ لوگوں میں عقیدہ توحید میں جگہ جگہ شگاف ہیں۔ اور یہ اپنی انتہائی پست حالت میں ہے۔
اس بات کی انتہائی اعلی اور قابل یقین مثال قرآن میں مل سکتی ہے۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام اکیلے ہی اللہ کی توحید کا پرچار کرنے والے تھے۔ والد کے سامنے عقیدہ توحید پیش کیا تو گھر سے نکلنا پڑا۔ حاکم وقت سے پالا پڑا تو انتہائی کٹھن آزمائشوں کا لگاتار سلسلہ شروع ہو گیا۔ حاکم وقت کے پاس ابراہیم علیہ السلام کے عقیدہ توحید کا کوئی جواب نہیں تھا اس کے باوجود کہ وہ اللہ تعالی کی ذات کو پہچان چکا تھا لیکن عملاً انکاری ہی رہا۔ جب ابراہیم علیہ السلام نے حاکم وقت اور قوم کے بزرگوں کی مورتیوں کو عقیدہ توحید کی ضرب لگائی تو ساری قوم اپنے گریبان میں منہ ڈال کر سوچ رہی تھی کہ ابراہیم علیہ السلام نے جو دعوت پیش کی ہے دراصل وہی حق ہے۔ اور یہ کہ قوم والے ہی ظالم ہیں۔ لیکن قوم نے پھر بھی مان کے نہیں دیا۔
قوت نافذہ کے اس مظاہرے کی پاداش میں ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں پھینکا گیا۔ تو اللہ احکم الحاکمین نے دنیا کی سب سے بڑی آگ کو سکوں والی ٹھنڈک میں تبدل ہونے کا حکم جاری فرما دیا۔ چنانچہ کہا جا سکتا ہے کہ جب ''عقیدہ توحید'' راسخ ہو گا تو ''قوت نافذہ'' اللہ تعالی کی طرف سے عطا ہو گی۔ اور قوت نافذہ کے مظاہرے پر اللہ تعالی کی رحمت اور برکت حاصل ہو کر رہے گی۔