• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قول و فعل میں سچائی سے تمسّک اور دھوکے بازی سے اجتناب

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,400
ری ایکشن اسکور
9,990
پوائنٹ
667
قول و فعل میں سچائی سے تمسّک اور دھوکے بازی سے اجتناب


خطیب:الدکتور حسین آل الشیخ
مترجم:آصف ہارون

پہلا خطبہ

تمام قسم کی تعریف اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے لئے ہیں جس نے لوگوں کو ایسے امور سے مأمور کیا جو ان کی زندگی کی اصلاح و صلاح کے لئے ضامن ہیں اور ایسے امور سے منع کیا جو ان کی زندگی کو اجاڑ دے۔ اور میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ معبود برحق یکتا ہے لا شریک ہے اور میں اس بات کی گواہی بھی دیتا ہوں کہ حضرت محمد ﷺ اس کے بندے اور سچے رسول ہیں اے اللہ! نبی اکرم ﷺ پر، اُن کی آل پر اور اُن کے اصحاب پر درود و سلام اور برکتوں کی بارش نازل فرما۔ آمین۔
حمد و ثناء کے بعد!
اے مسلمانو! اللہ سے ڈر جاؤ، وہ تمہارے حالات درست کر دے گا اور تمہیں دنیا و آخرت کی سعادتوں سے نواز دے گا۔ چنانچہ ارشاد ہے:
یأیھا الذین آمنوا اتقوا اللّٰہ وقولوا قولا سدیدًا۔ یصلح لکم أعمالکم ویغفرلکم ذنوبکم ومن یطع اللہ ورسولہ فقد فاز فوزاً عظیماً (الأحزاب، ۸۰-۸۱)
’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈر جاؤ اور ہمیشہ صاف ستھری بات کیا کرو۔ اللہ تمہارے اعمال کی اصلاح فرما دے گا اور تمہارے گناہوں کو معاف کر دے گا اور جو اللہ اور اس کے رسول کی تابعداری کرے گا وہ عظیم الشان کامیابی کو حاصل کر لے گا۔‘‘
اے مسلمانوں کی جماعت! اسلام میں جن اصول و قوانین کا رعایت و لحاظ رکھا گیا ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ زندگی کے تمام مراحل اور سارے معاملات میں قول و فعل کی سچائی سے تمسک اختیار کیا جائے۔ چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
یا أیھا الذین آمنوا اتقوا اللّٰہ وکونوا مع الصادقین (التوبۃ: ۱۱۹)
’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈر جاؤ اور سچے لوگوں کی معیت اختیار کر لو۔ ‘‘
اے مسلمان بھائیو! دینِ اسلام نے زندگی کے تمام چھوٹے بڑے معاملات اور ساری چھوٹی بڑی صورتوں میں سچائی اپنانے کی تلقین کی ہے جیسا کہ پیغمبرِ اسلام حضرت محمد ﷺ کا فرمانِ گرامی ہے۔
البیّعان بالخیار ما لم یتفرقا فان صدقا وبیّنا بورک لھما فی بیعھما واِن کذبا وکتما محقت برکۃ بیعھما (بخاری و مسلم)
’’خرید و فروخت کرنے والے دونوں فریقوں کو (خرید و فروخت فسخ کرنے کا) اختیار حاصل ہے جب تک وہ ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں۔ پس اگر وہ سچ بولیں گے اور چیز (کے عیوب و نقائص) کو واضح کر دیں گے تو ان کی خرید و فروخت بابرکت ہو گی اور اگر وہ جھوٹ سے کام لیں گے اور چیز (کے عیوب و نقائص) کو چھپائیں گے تو ان کی خرید و فروخت سے برکت کو اُچک لیا جاتا ہے۔‘‘
خبردار! دھوکہ اور خیانت اپنی جمیع صورتوں اور مختلف شکلوں کے ساتھ ایک خطرناک حرکت، قبیح طریقہ اور برائی پر مبنی معاملہ و تعامل ہے۔ چنانچہ جو شخص شخصی اغراض اور ذاتی مفادات کے حصول کے لئے، شیطان کی پیروی کرتے ہوئے اپنے معاملات میں دھوکے، ملمع سازی اور حقائق کی پردہ پوشی سے کام لیتا ہے تو وہ اچھی طرح جان لے کہ وہ عذاب الٰہی کو دعوت دے رہا ہے اور اللہ نے اس کی سزا کیلئے گھات تیار کر رکھی ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
ویل للمطففین۔ الذین إذا اکتالو علی الناس یستوفون۔ وإذا کالوھم أو وزنوھم یخسرون۔ ألا یظن اولئک أنھم مبعوثون۔ لیوم عظیم۔ یوم یقوم الناس لرب العالمین (المطففین: ۱-۷)
’’ناپ تول میں کمی کرنے والوں کیلئے ہلاکت و بربادی ہے کہ جب لوگوں سے ناپ کرتے ہیں تو پورا پورا ناپ کرتے ہیں لیکن جب لوگوں کو ناپ کر یا تول کر دیتے ہیں تو اس میں کمی کر دیتے ہیں۔ کیا یہ نہیں سمجھتے کہ انہیں ایک بڑے اور عظیم الشان دن میں اُٹھایا جائے گا۔ ایسا دن کہ جس میں سب لوگ جہانوں کے پروردگار کے سامنے کھڑے ہوں گے۔‘‘
عبد الملک بن مروان کہتے ہیں: ’’مجھے ایک اعرابی (بدّوی) نے کہا: اے عبد الملک! اللہ تعالیٰ نے ناپ تول میں کمی کرنے والے کے بارے میں جو فرمانا تھا فرما دیا ہے آپ کا اپنے بارے میں کیا خیال ہے جب کہ آپ بغیر ناپ و تول کے لوگوں کے أموال کو حاصل کرتے ہیں۔‘‘
اے لوگوں کے اموال و أسباب کو دھوکے اور دغاداری سے حاصل کرنے والے! اللہ سے ڈر جاؤ۔ مذکورہ عظیم الشان آیات میں غور و فکر سے کام لو۔ اپنے آپ کو ضیاع اوقات اور وقوع موت سے قبل مہلک گناہوں اور خطرناک غلطیوں سے بچا لو۔
بعض محققین اہل علم نے کہا ہے کہ ہر وہ شخص جو اپنے تجارتی یا غیر تجارتی معاملات میں کسی بھی ذریعہ سے دھوکہ دہی کرتا ہے تو وہ ناپ تول میں کمی کرنیوالےکے ما نندہے۔ جو مذکورہ وعید و تھدید(دہمکی) میں
‏‏‏ داخل ہے۔ میرے دوستو! بلاشبہ دھوکہ، زمین میں بگاڑ پیدا کرنے، خیانت، خلقِ خدا کو تکلیف دینے، ناپ و تول کی کمی اور حق تلفی کے مترادف ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے صاحب مدین (حضرت شعیبؑ) کے بارے خبر دی ہے کہ انہوں نے اپنی قوم کو کہا:
یا قوم أوفوا المکیال والمیزان بالقسط ولا تبخسوا الناس أشیاءھم ولا تعثوا فی الأرض مفسدین (ھود، ۸۵)
’’اے برادرانِ قوم! ٹھیک ٹھیک انصاف کے ساتھ ناپ تول کیا کرو اور لوگوں کی اُن کی چیزوں میں حق تلفی نہ کیا کرو اور زمین میں فساد نہ پھیلاتے پھرو۔‘‘
میرے مسلمان بھائی! اللہ جبّار (جبر والے) سے ڈر جاؤ اور اچھی طرح جان لو کہ ہر قسم کے معاملات میں دھوکہ دہی اختیار کرنا کبیرہ گناہوں میں سے ایک کبیرہ گناہ ہے اسی لئے حبیبِ کبریاء حضرت محمد ﷺ نے اپنی امت کو دھوکے کی تمام أقسام، متعدد صورتوں اور مختلف شکلوں سے متنبہ کیا ہے آپ ﷺ نے لوگوں کو دھوکے کے تالابوں میں گھسنے سے تہدید آمیز الفاظ کے ذریعے ڈرایا ہے اور اس تعفّن زدہ عادت میں کودنے سے سخت الفاظ کے ساتھ منع فرمایا ہے چنانچہ آپ ﷺ کا فرمانِ گرامی ہے۔
من غشّنا فلیس منّا ’’جس نے ہمارے ساتھ دھوکہ دہی کا معاملہ کیا وہ ہم میں سے نہیں ہے‘‘
دوسرے الفاظ یہ ہیں:
من غشّ فلیس منّا (مسلم) جس نے ملاوٹ و دھوکہ وہی سے کام لیا وہ ہم میں سے نہیں ہے‘‘
آپؐ کی اپنی امت کے بارے حرص کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ نے صرف مذکورہ بالا تحریم و نہی پر ہی اکتفاء نہیں کیا کہ جس کے عموم میں دھوکے کی تمام اقسام و اَنواع داخل ہیں، بلکہ آپ ﷺ نے اپنی امت کو مخصوص معاملات و تصرّفات میں بھی دھوکے سے منع فرما دیا ہے کیونکہ یہ چیز لوگوں میں بہت زیادہ واقع ہوتی ہے لوگوں کی اکثریت اس میں مبتلا ہوتی ہے اور اس کے خطرات و عواقب بہت زیادہ سنگین اور شدید ہوتے ہیں۔
پس ریاستی و ملکی انتظام و انصرام اور حکومتی مناصب و ریاستی ذمہ داریوں کے حوالے سے آپ ﷺ نے اس بات سے تنبیہ فرمائی ہے کہ اگر کسی شخص کو اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے معاملات پر نگران بنایا ہو اور لوگوں کی مصلحتوں اور ضرورتوں کا ذمہ دار ٹھہرایا ہو پھر وہ لوگوں کی دینی و دنیوی مصالح کی حفاظت و نگرانی میں سستی و کوتاہی سے کام لیتا ہے یا اُن میں لوگوں سے خیانت کرتا ہے یا پھر اُن کو دھوکے میں رکھتا ہے۔ تو ایسے شخص کے بارے آپ ﷺ کا فرمانِ گرامی ہے:
’’ما من والٍ یسترعیہ اللّٰہ۔ جل وعلا۔ علی رعیّۃ ثم یموت وھو غاش لرعیتہ إلا حرّمہ اللّٰہ علی الجنّۃ‘‘ وفی لفظ ’’ما من عبد یسترعیہ اللّٰہ رعیّۃ فلم یحطھا بنصحہ إلا لم یدخل الجنۃ معھم‘‘
’’جس شخص کو بھی اللہ نے عوام و رعایا کا نگران و حاکم مقرر کیا ہو پھر وہ اپنی عوام و رعیت سے دھوکہ کرتے ہوئے مر جاتا ہے تو اللہ نے اس کے جسم کو جنت پر حرام کر دیا ہے (یعنی وہ جنت میں نہیں جائے گا)‘‘ دوسرے الفاظ یہ ہیں ’’کسی آدمی کو اللہ عوام کا نگران مقررکرتا ہے پھر وہ اُن کی ضروریات و مصالح کے حوالے سے پاس داری نہیں برتتا تو وہ ان کے ساتھ جنت میں داخل نہیں ہو گا۔‘‘
اے مسلمان بھائیو! دینِ اسلام نے خرید و فروخت اور اجارہ وغیرھا جیسے مالی معاملات کے میدان میں بھی، دھوکے سے قطعی طور پر منع فرما دیا ہے چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
ولا تأکلوا أموالکم بینکم بالباطل (البقرۃ: ۱۸۸)
’’آپس میں ایک دوسرے کے أموال کو باطل و ناجائز طریقے سے مت کھاؤ۔‘‘
اسی طرح رسولِ گرامیؐ کا فرمان ہے:
’’المسلم أخوالمسلم، لا یحل لمسلم أن یبیع بیعًا لأخیہ یعلم أن فیہ عیبا إلا بینّہ لہ‘‘ (ابن ماجہ)
’’مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے کسی مسلمان کو یہ بات زیب نہیں دیتی کہ وہ اپنے مسلمان بھائی سے عیب و نقص پر مبنی خرید و فروخت کا کوئی معاملہ طے کرے، بلکہ ہونا تو یہ چاہئے کہ وہ اس عیب و نقص کو واضح طور پر بیان کر دے)‘‘
حافظ ابن حجرؒ نے اس حدیث کو ’’حسن‘‘ قرار دیا ہے۔
شریعت اسلامیہ نے دھوکے کی منعیت اور انسداد کا خوب اہتمام کیا ہے حتّٰی کہ ہر اس دروازے کو بند کر دیا ہے جہاں سے دھوکے کے متحقق ہونے کا خدشہ تھا۔ اگرچہ وہ خرید و فروخت کا معاملہ نہ بھی ہو۔
چنانچہ بخاری و مسلم میں نبی اکرم ﷺ سے منقول یہ الفاظ موجود ہیں ’’ولا تناجشوا‘‘ ’’ایک دوسرےکو دھوکہ دینے کی غرض سے قیمت نہ بڑھاؤ‘‘
’’نجش‘‘ سے مراد یہ ہے کہ کوئی شخص سامانِ خرید و فروخت کی قیمت بڑھا دے حالانکہ اس کا اس کو خریدنے کا کوئی ارادہ نہیں ہوتا وہ ایسا اس لئے کرتا ہے تاکہ سامانِ خرید و فروخت کی قیمت بھی بڑھ جائے اور ساتھ ساتھ فروخت کنندہ کو نفع یا خریدنے والے کو نقصان پہنچا سکے۔ اور یہ بالکل واضح دھوکہ ہے۔
اسلامی بھائیو! مسلمان کیلئے دھوکے کی شدید ترین، سنگین ترین، اور انجام کے لحاظ سے بری ترین صورتوں میں سے ایک صورت یہ بھی ہے کہ عمومی طور پر ساری سرکاری اسکیمیں اور منصوبہ جات اور خصوصی طور پر ملکی باشندوں اور شہریوں کیلئے جو اسکیمیں اور منصوبہ جات، حکومت کی طرف سے منظور ہوتے ہیں ان میں ٹھیکیدارحضرات بہت دھوکے سے کام لیتے ہیں یہ روش نہ صرف حرام ہے بلکہ زمین میں فساد و بگاڑ پیدا کرنے کے مترادف ہے اس پر مستزاد یہ کہ حاکم وقت کے ساتھ خیانت بھی ہے اور مسلم معاشرے کی اقدار کے منافی ہے۔ اور جو ایسا کرتا ہے اسے رسولِ گرامیؐ کا یہ فرمانِ مدِّنظر رکھنا چاہئے۔
لکل غادر لواء یوم القیامۃ، یقال: ھذہ غدرۃ فلان (متفق علیہ)
’’ہر دھوکے باز کیلئے قیامت والے دن (بطور نشانی کے) ایک جھنڈا ہو گا۔ کہا جائے گا: یہ فلاں کی دھوکے بازی ہے۔‘‘
حکومت کی طرف سے مأمور و مسئوول بھائی! اچھی طرح جان لو کہ جتنی بھی حکومتیں اسکیمیں اور ملکی منصوبہ جات، آپ کی وزارت اور ادارت کی نگرانی و مسئوولیت کے تحت آتے ہیں وہ ساری کی ساری آپ کے پاس بطور امانت کے ہیں اور آپ کو اس بات پر امین بنایا گیا ہے کہ آپ مکمل توجہ، اخلاص، سچائی اور اہتمام کے ساتھ ان سب اسکیموں اور منصوبوں کا جائزہ لیا کریں۔ لہٰذا اس میں جو کوتاہی اور سستی ہو گی وہ نہ صرف مسلمانوں کے ساتھ بہت بڑا دھوکہ تصور ہو گا بلکہ حاکم وقت اور اپنے پیشے سے غداری بھی سمجھی جائے گی۔
لہٰذا جو دنیا و آخرت کی فوز و فلاح چاہتا ہے اور اپنے آپ کو آتشِ جہنم سے بچانا چاہتا ہے اُسے چاہئے کہ وہ اپنے تمام قسم کے معاملات میں سچائی اور فرائض منصبی میں وضاحت بیانی اور ارادے کی پختگی کو اپنا لے۔
اے میرے بھائی! حق تلفی اور معاملات میں ہر قسم کے دھوکہ بازی اورحقائق میں پردہ پوشی کو خیر آباد کہہ دو، نتیجۃً آپ نیک، پرہیزگار، راست باز اور سلیم الفطرت انسان بن جائیں گے۔ پس رسول اللہ ﷺ ایک دِن بازار میں گئے تو فرمایا
’’یا عشر التجار‘‘ فرفع التجار أبصارھم ثم قال لھم: ’’یا معشر التجار! ان التجار یوم القیامۃ یبعثون فجاّرا الا من برّ وصدق‘‘ (ترمذی)
’’اے تاجروں کی جماعت! پس سب تاجروں نے نظریں اُٹھا کر آپ کی طرف دیکھا پھر آپ نے فرمایا: اے تاجروں کی جماعت! سب تاجر روزِ قیامت گناہوں میں لت پت اُٹھائے جائیں گے مگر وہ نہیں جنہوں نے نیکی اور سچائی کے دامن کو ہمیشہ پکڑے رکھا۔‘‘
امام ترمذیؒ نے اس حدیث کو ’’حسن صحیح‘‘ کہا ہے اور بعض اہل علم نے بھی اس کو ’’حسن‘‘ قرار دیا ہے۔
اے مسلمان بھائیو! ہر حال میں اللہ سے ڈر جاؤ۔ یقیناً خوفِ الٰہی کی بدولت ہمارے احوال درست اور زندگی سعادت مند اور پاکیزہ ہو جائے گی۔
میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میں ہر گناہ پر اللہ تعالیٰ سے اپنے لئے، آپ کے لئے اور سارے مسلمانوں کے لئے بخشش کا طالب ہوں۔ پس اسی سے بخشش کے طالب رہو بیشک وہ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔
دوسرا خطبہ

میری ہر قسم کی مدح سرائی اور شکر گزاری ربّ کائنات کیلئے ہے اور میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ وہ یکتا ہے لا شریک ہے اور میں اس بات کی بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی حضرت محمد ﷺ اس کے بندے اور سچے رسول ہیں۔ اے اللہ! حضرت محمدؐ پر، آپ ﷺ کی آل پر اور آپ کے صحابہ پر درود و سلام کی بارشیں اور برکتیں نازل فرما۔
اے مسلمان بھائیو! دھوکے بازی اور خیانت کی تحریم اور سامانِ تجارت کے عیوب و نقائص پر پردہ پوشی کی ممنوعیت، صرف خرید و فروخت اور تجارتی معاملات پر ہی منحصر نہیں ہے بلکہ یہ ہر اس دھوکے بازی کو بھی شامل ہے جو مسلمانوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے تمام معاملات و مصالح میں رونما ہوتی ہے۔ جھوٹی بات کی نشر و اشاعت بھی دھوکے بازی ہے اسی طرح ہر وہ بات اور کلام جو لوگوں کے ادیان، أخلاق اور أعراض (عزتوں) کے بگاڑ کا سبب بنے وہ بھی دھوکے اور ملاوٹ میں شامل ہے۔
اس طرح افواہوں کی نشر و اشاعت، اخلاق باختہ باتوں کی دعوت و تبلیغ، أسباب جرائم کی نشر و اشاعت اور خصائل و خصائص کو نظر انداز کر دینا بھی عظیم ترین دھوکے بازی اور جعل سازی ہے۔
اسی طرح یہ بھی خیانت، دھوکہ اور ملاوٹ ہے کہ کسی مجرد فقہی رائے پر اعتماد کرتے ہوئے فتاویٰ صادر کر دینا یعنی قابل اعتبار مقصد اور دلیل شرعی کے بغیر ہی مجرد مذہبی تعصب کی فضا قائم کر دینا جبکہ اس رائے کے برعکس یا اِس کی مخالفت میں کتاب و سنت کی صریح اور صحیح دلیل کی وضاحت موجود ہو۔
اسی طرح حکومتی ذمہ داریوں میں کسی دھوکے سے کام لینا بھی قبیح ترین عادت ہے یعنی اگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو کوئی حکومتی عہدہ دیا ہے یا حاکم وقت یا ولی عہد کی طرف سے آپ کے سپرد کوئی حکومتی ذمہ داری ہے۔ پھر آپ کسی نااہل آدمی کو کسی اہل آدمی پر ترجیح دیتے ہوئے اُسے کوئی حکومتی ذمہ داری سونپتے ہیں یا پھر کسی ترقی، تنخواہ کے اجراء یا ملازمت و غیرھا کے سلسلے میں میرٹ سے ہٹ کر کسی کی تعیناتی کرتے ہیں تو یہ بھی قابلِ مذمت عادت ہے گویا آپ اپنے فرض منصبی سے غداری کا ثبوت دے رہے ہیں۔
اِسی طرح یہ بات اور زیادہ سنگین ہو جاتی ہے کہ جب ذاتی مقاصد، شخصی مفادات، اقرباء پروری اور حسب و نسب کی بنیاد کسی نااہل آدمی کو تعینات کیا جاتا ہے۔ حالانکہ شریعت اسلامیہ اور وہ مقاصد و قوانین جو کسی ولی عہد نے مسلمانوں کے علاقوں میں نافذ کئے ہوئے ہیں، اس فعل شنیع کی اجازت نہیں دیتے۔
بلاشبہ نبی کریم ﷺ پر درود و سلام، افضل ترین عمل ہے۔
اے اللہ! اپنے بندے اور سچے رسول حضرت محمد ﷺ پر، خلفاء راشدین اور ہدایت یافتہ ائمہ حضرت ابو بکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ پر اور تمام صحابہ کرام پر، نبی کریمؐ کی آل پر، تابعین پر اور اُن لوگوں پر جو سلف صالحین کی خلوص کے ساتھ پیروی کرنے والے ہیں سب پر درود و سلام، برکتوں اور اپنی خوشیوں کی بارشیں نازل فرما۔
اے اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو عزت عطا فرما، اے اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو عزت عطا فرما۔
اے اللہ! مسلمانوں کے دشمنوں کی گرفت کر لے، اے اللہ! مسلمانوں کے دشمنوں کی گرفت کر لے۔
اے اللہ! اپنی مرضی و منشاء کے مطابق ہمیں ہمارے دشمنوں کی شرارتوں سے محفوظ و مأمون فرما۔
اے اللہ! بلاشبہ تو (دعاؤں) کو سننے والا اور (اعمال) کو جاننے والا ہے۔
اے اللہ! جو بھی، مسلمانوں کو اجتماعی یا انفرادی طور پر تکلیف دینے پر تُلا ہوا ہے اُسےاسکی نفسی تکلیفوں میں مبتلا فرما اور اس کی تدبیروں کو نیست و نابود فرما۔ اے جہانوں کے پروردگار۔
اے اللہ! ہمارے اور تمام مسلمانوں کے أحوال کو درست فرما دے۔ اے اللہ! مسلمانوں کی ہر جگہ حفاظت فرما۔ اے اللہ! مسلمانوں کی ہر جگہ حفاظت فرما۔ اے اللہ!مسلمانوں کی پریشانیوں، تکلیفوں اور مصیبتوں کو دور فرما۔ اے رحم کرنیوالوں میں سب سے زیادہ رحم کرنے والے!
اے اللہ!اے زندہ اور قائم و دائم رہنے والے! مسلمانوں پر نیک لوگوں کو حکمران مقرر فرما۔ اے اللہ! مسلمانوں کو اور مسلمان حکمرانوں کو اِن کے دشمنوں کی شرارتوں سے محفوظ و مأمون فرما۔ اے قوت والے! اے غلبہ و استحکام والے!
اے اللہ! ہمارے ولی عہد اور خادم حرمین شریفین کو ایسے کام کرنے کی توفیق عطا فرما جو تجھے پسند ہوں اور جن سے تو راضی ہو۔ اے اللہ! حق، نیکی اور تقویٰ کے کاموں پر تو،ہمارے ولی عہدکا مددگار اور حامی و ناصر بن جا۔ اے اللہ! ہمارے حکمران اور اس کے نائب کو ایسے کام کرنے کی توفیق عطا فرما جس میں ہمارے ملکوں کی سلامتی اور شہریوں کی صلاح کا سامان موجود ہو۔ اے اللہ! مسلمانوں کے تمام حکمرانوں کو اچھے کام کرنے کی توفیق عطا فرما۔
اے اللہ! اے زندہ اور قائم و دائم رہنے والے! اے زندہ اور قائم و دائم رہنے والے! ہم تجھ سے یہ سوال کرتے ہیں کہ تو ہر جگہ پر مسلمانوں کی فتح و نصرت کی خوشخبری کے ساتھ ہمارے دلوں کو فرحت و مسرت سے نواز دے۔ اے اللہ! ہر جگہ پر مسلمانوں کی فتح و نصرت کی خوش خبری کے ساتھ تمام مؤمنین کے دلوں کو فرحت و مسرت سے مالا مال فرما دے۔ اے اللہ! ہر جگہ سنتِ نبویہ کی ضیاء پاشیوں کے ظہور کے ساتھ ہمارے دلوں کو شادمانی عطا فرما۔ اے جہانوں کے پروردگار!
اے اللہ! تمام مؤمن مردوں اور عورتوں کو، مسلمان مردوں اور عورتوں کو، زندہ اور فوت شدگان کو معاف فرما دے۔
اے اللہ!تو بے پرواہ ہے لائقِ حمد و ثناء ہے ہمیں بارش عطا فرما، ہمیں بارش عطا فرما۔ اے اللہ!ہمارے اوپر رحمت کی بارش نازل فرما۔ ہمارے اوپر رحمت کی بارش نازل فرما۔ اے اللہ!ہم میں سے کمزور لوگوں پر رحم فرما۔ ہم میں سے کمزور لوگوں پر رحم فرما۔ اے اللہ! ہماری زمینوں کو بارش کے ذریعے رونق بخش دے۔ ہماری زمینوں کو بارش کے ذریعے طاقت عطا فرما۔
اے اللہ! ہمارے گناہوں کی بدولت ہمارا مؤاخذہ نہ فرما۔ ہمارے گناہوں کی بدولت ہمارا مؤاخذہ نہ فرما۔ اے اللہ! اپنے فضل و کرم کے ساتھ ہمیں امن و آشتی عطا فرما۔ اپنے فضل و کرم کے ساتھ ہمیں امن و آشتی عطا فرما۔
اللہ کے بندو! اللہ کو کثرت سے یادکیا کرو اور صبح و شام اس کی تسبیح بیان کیا﷭کرو۔
وآخر دعوانا أن الحمد للّٰہ رب العالمین

نوٹ:
لائیو خطبہ سننے کے لیے یہاں کلک کریں
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
عبد الرشید
یہ خطبہ کس حرم کا ہے؟ حرمِ مکی یا مدنی کا؟
اور کس تاریخ کو دیا گیا؟
دونوں کی وضاحت ضرور دیا کریں!
 
Top