صرف راستہ روکنا قوم لوط سے مشابہت کا سبب کیسے بنے گا۔ سیکیورٹی کی وجہ سے، تعمیراتی کام کی وجہ سے ، کبھی کسی کے گھر میں میت ہوجاتی ہے اور گھر میں جگہ نہ ہونے کی وجہ سے راستہ روکا جاتا ہے ۔
کسی جائز وجہ سے راستہ روکنے پر تو یہ وعید نہیں ہونی چاہیے۔ ہاں کسی کو دانستہ تنگ کرنے ، پریشان کر نے کی غرض سے راستہ روکنا اس میں شامل ہوسکتا ہے۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
اس آیت میں قوم لوط کے جس (راستہ کاٹنے ) کا ذکر ہے ، اس سے مراد
( ڈاکہ زنی ،راہ زنی ، لوٹ مار ) ہے
اس آیت کا ترجمہ علامہ عبدالرحمن کیلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
( أَئِنَّكُمْ لَتَأْتُونَ الرِّجَالَ وَتَقْطَعُونَ السَّبِيلَ وَتَأْتُونَ فِي نَادِيكُمُ الْمُنْكَرَ ۔۔۔ )
کیا تم لوگ (شہوت سے) مردوں کے پاس جاتے ہو، اور راہزنی کرتے ہو اور اپنی مجالس میں برے کام کرتے ہو ؟
اور اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
(وَتَقْطَعُوْنَ السَّبِيْلَ 29) 29 ۔ العنکبوت :29) کے دو مطلب ہیں ایک تو ترجمہ سے واضح ہے۔ ان لوگوں کی صرف یہی بدعادت نہیں تھی کہ وہ لونڈے بازی کرتے تھے بلکہ مسافروں کی راہ تکتے رہتے، پھر انھیں اپنے ساتھ بستی میں لے آتے اس سے لواطت بھی کرتے پھر اس کا مال اسباب نقدی وغیرہ چھین کر اسے اپنی بستی سے باہر نکال دیتے تھے۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ وہ عورتوں کو چھوڑ کر مردوں سے اپنی خواہش پوری کرکے بقائے نقل انسانی کے فطری طریق کو قطع کرتے تھے۔
[ تَأْتُونَ فِي نَادِيكُمُ الْمُنْكَرَ] یعنی یہ لوگ اجتماعی قسم کی لواطت کرتے تھے۔ مثلاً جب کوئی مسافر یا کوئی خوبصورت لڑکا ان کے ہتھے چڑھ جاتا تو اسے اپنے ڈیرے پر لے جاتے پھر باری باری ایک دوسرے کے سامنے اس سے لواطت کرتے تھے۔ اور اس میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتے تھے۔ اور اپنی مجالس میں ایک دوسرے سے انتہائی لچر اور بےحیائی کی زبان استعمال کرتے تھے۔
(تفسیر تیسیرالقرآن )
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اور تفسیر احسن البیان میں حافظ صلاح الدین یوسف صاحب لکھتے ہیں :
اس کے ایک معنی تو یہ کیے گے ہیں کہ
آنے جانے والے مسافروں، نو واردوں اور گزرنے والوں کو زبردستی پکڑ پکڑ کر تم ان سے بےحیائی کا کام کرتے ہو، جس سے لوگوں کے لئے راستوں سے گزرنا مشکل ہوگیا ہے، قطع طریق کے ایک معنی قطع نسل کے بھی کئے گئے ہیں، یعنی عورتوں کی شرم گاہوں کو استعمال کرنے کی بجائے مردوں کی دبر استعمال کر کے تم اپنی نسل بھی منقطع کرنے میں لگے ہوئے ہو (فتح القدیر)
[ تَأْتُونَ فِي نَادِيكُمُ الْمُنْكَرَ] یہ بےحیائی کیا تھی ؟ اس میں بھی مختلف اقوال ہیں، مثلا لوگوں کو کنکریاں مارنا، اجنبی مسافر کا استہزاء و استخفاف، مجلسوں میں پاد مارنا، ایک دوسرے کے سامنے اغلام بازی، شطرنج وغیرہ قسم کی قماربازی، رنگے ہوئے کپڑے پہننا، وغیرہ۔ امام شوکانی فرماتے ہیں، کوئی بعید نہیں کہ وہ یہ تمام ہی منکرات کرتے رہے ہوں "انتہیٰ
اور امام قرطبی ؒ اپنی تفسیر میں
( تقطعون السبیل ) کے اوپر مذکور دونوں معنی لکھے ہیں :
(وَتَقْطَعُونَ السَّبِيلَ) قِيلَ: كَانُوا قُطَّاعَ الطَّرِيقِ، قَالَهُ ابْنُ زَيْدٍ. وَقِيلَ: كَانُوا يَأْخُذُونَ النَّاسَ مِنَ الطُّرُقِ لِقَضَاءِ الْفَاحِشَةِ، حَكَاهُ ابْنُ شَجَرَةَ. وَقِيلَ: إِنَّهُ قَطْعُ النَّسْلِ بِالْعُدُولِ عن النساء إلى الرجال.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔