• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قوم پرستی جاہلیت کی پکار

محمد عاصم

مشہور رکن
شمولیت
مئی 10، 2011
پیغامات
236
ری ایکشن اسکور
1,027
پوائنٹ
104
بسم اللہ الرحمن الرحیم​


قوم پرستی جاہلیت کی پکار
آج پاکستان میں ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت پاکستان کے باسیوں کو قوم پرستی کی دلدل میں پھنسایا جارہا ہے یہ وہ جہالت ہے جس میں مشرکینِ مکہ ہی نہیں پورا جزیرۃ العرب مبتلا تھا اور چھوٹی چھوٹی سی بات پر ایک قبیلہ دوسرے قبیلہ پر حملہ آور ہوجاتا تھا اور یہ لڑائی کئی کئی دن تک ہوتی رہتی اور جب دونوں طرف سے سینکڑوں لوگ قتل ہوجاتے تو خود ہی تھک ہار کر لڑائی وقتی طور پر ختم کردیتے تھے، یہ قوم پرستی کی انتہائی ذلت آمیز داستانیں ہیں جو کہ ہم سب کو علم ہونے کے باوجودآج پاکستان میں دوہرائی جارہی ہیں مگر بجائے ہم ان سے درسِ عبرت لیں ان کو فراموش کیے بیٹھے ہیں اور ہمارے اہلِ علم حضرات بھی اس جہالت سے پُر فتنے پر لکھتے اور بولتے نظر نہیں آ رہے۔
قوم پرستی ایک خطرناک موذی مرض ہے اس سے ہر مسلمان کو آگاہی ہونا بہت ضروری ہے تبھی ہم اس خطرناک مرض سے بچ سکیں گے، کیا وجہ ہے کہ ہم ایسی بیماری جو انسان کی جان لےسکتی ہے سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں مگر ایسا مرض جو ایک انسان کی ہی نہیں پوری انسانیت کے لیے موت کا پیغام ہے سے بچنے کی تدبیر نہیں کررہے؟؟؟
آج کتنے ہی گھر ہیں جو اس مرض نے تباہ و برباد کردیے ہیں،کتنے ہی معصوم لوگوں کو موت کے گاٹ اتار دیا ہے اس موذی مرض نے، مگر اس سب کے باوجود ہم اس موذی مرض کے خلاف کوئی بھی خاص مدافیت نہیں کررہے جوکہ ایک ایسے معاشرے کی عکاسی نہیں کرتا جو عقل و شعور رکھتا ہو۔ہم سب اپنے آپ کو بہت کچھ سمجھتے ہیں مگر کبھی سوچا کہ اس قوم پرستی کی لعنت سے کیسے جان چھوڑائی جائے؟؟؟کہ جس کی وجہ سے نہ صرف ہماری ذات بلکہ اسلام اور پاکستان کی بھی سلامتی کو خطرہ ہے، قوم پرست رہنماءصرف پاکستان کے ہی دشمن نہیں ہیں بلکہ یہ لوگ اسلام سے بےبہرہ اور گمراہ ہیں کہ جو لوگوں کو اپنے ناجائز مقاصد کے لیے استعمال کررہے ہیں اور پاکستان کو توڑنے کی سازش کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش بھی کر رہے ہیں۔
اسلام سے پہلے عرب معاشرے کا کیا حال تھا اس بارے میں اللہ تعالی کا ارشاد مبارک ہے کہ[/​

وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِيْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا ۠وَاذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ اِذْ كُنْتُمْ اَعْدَاۗءً فَاَلَّفَ بَيْنَ قُلُوْبِكُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِھٖٓ اِخْوَانًا ۚ وَكُنْتُمْ عَلٰي شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنْقَذَكُمْ مِّنْھَا ۭ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ لَكُمْ اٰيٰتِھٖ لَعَلَّكُمْ تَھْتَدُوْنَ ١٠٣؁
اور مضبوطی سے تھام لو تم لوگ اللہ کی رسی کو سب مل کر، اور آپس میں مت بٹو ٹکڑیوں میں اور یاد کرو اللہ کے اس (عظیم الشان انعام و) احسان کو جو اس نے تم پر فرمایا، جب کہ تم لوگ آپس میں ایک دوسرے کے دشمن بنے ہوئے تھے، تو اس نے باہم جوڑ دیا تمہارے (پھٹے ہوئے) دلوں کو، پھر تم اس کے فضل و کرم سے آپس میں بھائی بھائی بن گئے اور تم لوگ کھڑے تھے دوزخ کے (ہولناک گڑھے کے) عین کنارے پر، تو اس نے بچا لیا تم کو اس سے اسی طرح اللہ بیان فرماتا ہے تمہارے لئے اپنی آیتیں، تاکہ تم لوگ سیدھی راہ پر رہو۔
صحیح مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں تین باتوں سے اللہ رحیم خوش ہوتا ہے اور تین باتوں سے ناخوش ہوتا ہے ایک تو یہ کہ اسی کے عبادت کرو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو دوسرے اللہ کی رسی:::قرآن و سنت:::کو اتفاق سے پکڑو، تفرقہ نہ ڈالو، تیسرے اپنے خلفاءکی خیر خواہی کرو، فضول بکواس، زیادتی سوال اور بربادی مال::فضول خرچی:: یہ تینوں چیزیں رب کی ناراضگی کا سبب ہیں، بہت سی روایتیں ایسی بھی ہیں جن میں سے کہ اتفاق کے وقت وہ خطا سے بچ جائیں گے اور بہت سی احادیث میں نا اتفاقی سے ڈرایا بھی ہے، ان ہدایات کے باوجود امت میں اختلافات ہوئے اور تہتر فرقے ہو گئے جن میں سے ایک نجات پا کر جنتی ہو گا اور جہنم کے عذابوں سے بچ رہے گا اور یہ وہ لوگ ہیں جو اس پر قائم ہوں جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب تھے۔ پھر اپنی نعمت یاد دلائی، جاہلیت کے زمانے میں اوس و خزرج کے درمیان بڑی لڑائیاں اور سخت عداوت تھی آپس میں برابر جنگ جاری رہتی تھی جب دونوں قبیلے اسلام لائے تو اللہ کریم کے فضل سے بالکل ایک ہو گئے سب حسد بغض جاتا رہا اور آپس میں بھائی بھائی بن گئے اور نیکی اور بھلائی کے کاموں میں ایک دوسرے کے مددگار اور اللہ تعالٰی کے دین میں ایک دوسرے کے ساتھ متفق ہو گئے، جیسے اور جگہ ہے آیت (ھوالذی ایدک بنصرہ وبالمومنین والف بین قلوبھم) الخ، وہ اللہ جس نے تیری تائید کی اپنی مدد کے ساتھ اور مومنوں کے ساتھ اور ان کے دلوں میں الفت ڈال دی،اور روایات سے ملتا ہے کہ یہودیوں نے ان دونوں قبیلوں کو سابقہ آپس کی جنگوں کی یاد دہانیاں کرواتے اور ان کے مقتولین کی یاد دلاتے اور ان کی نسلی عصبیت کو دوبارہ جگانے کی لاکھ کوشش کرتے مگر وہ یہود کبھی بھی اپنے اس مقصد میں کامیاب نہ ہوپائے، مگر آج یہود کی سازشیں کامیاب ہو گئی ہیں،کیا وجہ ہے کہ ہم یہود کی سازشوں کا مقابلہ نہیں کرپارہے؟؟؟ اور اب کیا وجہ ہے کہ ہم کو پھر پہلے والی جہالت کی طرف دھکیلا جارہا ہے جس چیز کو اسلام نے حرام قرار دیا تھا آج ہم یہود اور نصاری کے ایجنٹوں کی باتوں میں آکر اسی حرام کام::نسلی تعصیب:: پر عمل کررہے ہیں؟
اللہ نے ہر انسان کو عقل و شعور سے نواز رکھا ہے مگر اب جو کوئی اس کا استعمال نہیں کرتا اور ایسے شخص کی اطاعت اور پیروی کررہا ہے جو کہ مسلمانوں میں انتشار اور تفرقہ پیدا کررہا ہے تو ایسے لوگ اصل میں گدھے ہیں کہ کوئی جہاں چاہے ان کو ہانک کر لے جائے، ارے بھائیو اس عقل و شعور کا کیا فائدہ اگر اس کو استعمال نہیں کرنا تو؟؟؟
اسلام میں قوم پرستی صرف حرام ہی نہیں بلکہ اس کو جہالت کہا گیا ہے،یہ ایسی جہالت ہے جو قوموں کو زوال کی طرف لے جاتی ہے اور اسلام میں لوگوں کو قوموں کی سطح پر تقسیم در تقسیم کردیتی ہے اسلام جو واحدت و اتفاق کا درس دیتا ہے یہ قوم پرستی اسلام کی واحدت کو پاراپارا کردیتی ہے، اب ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ نے یہ مختلف قبائل اور خاندان کیوں بنائے ہیں آیا اس لیے کہ ان کی بنیاد پر لوگ کو آپس میں لڑایا جائےاور ان کی نسلوں کوختم کیا جائے یا کہ صرف آپس میں پہچان کے لیے ہیں۔اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ​
يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّاُنْثٰى وَجَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَاۗىِٕلَ لِتَعَارَفُوْا ۭ اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌ خَبِيْرٌ 13؀
اے لوگوں یقینا ہم نے تم سب کو ایک ہی مرد اور عورت سے پیدا کیا ہے اور تمہیں مختلف قوموں اور خاندانوں میں (محض اس لئے) تقسیم کر دیا کہ تاکہ تم آپس میں پہچان کر سکو بیشک اللہ کے یہاں تم میں سے سب سے بڑا عزت دار وہ شخص ہے جو سب سے زیادہ متقی (و پرہیز گار) ہو بیشک اللہ پوری طرح جانتا ہے (تمہارے عمل و کردار کو اور وہ) پوری طرح باخبر ہے (تمہاری احوال سے)
مقصد اس آیت مبارکہ کا یہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام جو مٹی سے پیدا ہوئے تھے ان کی طرف سے نسبت میں توکل جہان کے آدمی ہم مرتبہ ہیں اب جو کچھ فضیلت جس کسی کو حاصل ہو گی وہ امر دینی اطاعت اللہ اور اتباع نبوی ﷺ
کی وجہ سے ہو گی یہی راز ہے جو اس آیت کو غیبت کی ممانعت اور ایک دوسرے کی توہین و تذلیل سے روکنے کے بعد وارد کی کہ سب لوگ اپنی پیدائشی نسبت کے لحاظ سے بالکل یکساں ہیں کنبے قبیلےاور برادریاں صرف پہچان کے لئے ہیں تاکہ جتھا بندی اور ہمدردی قائم رہے۔ فلاں بن فلاں قبیلے والا کہا جاسکے اور اس طرح ایک دوسرے کی پہچان آسان ہو جائے ورنہ بشریت کے اعتبار سے سب قومیں یکساں ہیں صحیح بخاری شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ سب سے زیادہ بزرگ کون ہے ؟ آپ نے فرمایا جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہو لوگوں نے کہا ہم یہ عام بات نہیں پوچھتے فرمایا پھر سب سے زیادہ بزرگ حضرت یوسف علیہ السلام ہیں جو خود نبی تھے نبی ذادے تھے دادا بھی نبی تھے پردادا تو خلیل اللہ تھے انہوں نے کہاہم یہ بھی نہیں پوچھتے ۔ فرمایا پھر عرب کے بارے میں پوچھتے ہو ؟ سنو ! ان کے جو لوگ جاہلیت کے زمانے میں ممتاز تھے وہی اب اسلام میں بھی پسندیدہ ہیں جب کہ وہ علم دین کی سمجھ حاصل کرلیں صحیح مسلم شریف میں ہے اللہ تمہاری صورتوں اور مالوں کو نہیں دیکھتا بلکہ تمہارے دلوں اور عملوں کو دیکھتا ہے مسند احمد میں ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوذر رضی اللہ عنہ سے فرمایا خیال رکھ کہ تو کسی سرخ وسیاہ پر کوئی فضیلت نہیں رکھتا ہاں تقویٰ میں بڑھ جا تو فضیلت ہے ۔ طبرانی میں ہے مسلمان سب آپس میں بھائی بھائی ہیں کسی کو کسی پر کوئی فضیلت نہیں مگر تقویٰ کے ساتھ ۔ مسند بزار میں ہے تم سب اولاد آدم ہو اور خود حضرت آدم مٹی سے پیدا کئے گئے ہیں لوگو اپنے باپ دادوں کے نام پر فخر کرنے سے باز آؤ ورنہ اللہ تعالٰی کے نزدیک ریت کے تودوں اور آبی پرندوں سے بھی زیادی ہلکے ہو جاؤ گے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ والے دن اپنی اونٹنی قصوا پر سوار ہو کر طواف کیا اور ارکان کو آپ اپنی چھڑی سے چھو لیتے تھے ۔ پھر چونکہ مسجد میں اس کے بٹھانے کو جگہ نہ ملی تو لوگوں نے آپ کو ہاتھوں ہاتھ اتارا اور انٹنی بطن مسیل میں لے جا کر بٹھایا ۔ اس کے بعد آپ نے اپنی اونٹنی پر سوار ہو کر لوگوں کو خطبہ سنایا جس میں اللہ تعالٰی کی حمدو ثنا بیان کر کے فرمایا لوگو اللہ تعالٰی نے تم سے جاہلیت کے اسباب اور جاہلیت کے باپ دادوں پر فخر کرنے کی رسم اب دور کر دی ہے پس انسان دو ہی قسم کے ہیں یا تو نیک پرہیزگار جو اللہ کے نزدیک بلند مرتبہ ہیں یا بدکار غیر متقی جو اللہ کی نگاہوں میں ذلیل و خوار ہیں پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی ۔ پھر فرمایا میں اپنی یہ بات کہتا ہوں اور اللہ تعالٰی سے اپنے لئے اور تمہارے لئے استغفار کرتا ہوں ۔ مسند احمد میں ہے کہ تمہارے نسب نامے دراصل کوئی کام دینے والے نہیں تم سب بالکل برابر کے حضرت آدم علیہ السلام کے لڑکے ہو کسی کو کسی پر فضیلت نہیں ہاں فضیلت دین و تقویٰ سے ہے انسان کو یہی برُائی کافی ہے کہ وہ بدگو ، بخیل ، اور فحش کلام ہو۔ ابن جریر کی اس روایت میں ہے کہ اللہ تعالٰی تمہارے حسب نسب کو قیامت کے دن نہ پوچھے گا تم سب میں سے زیادہ بزرگ اللہ کے نزدیک وہ ہیں جو تم سب سے زیادہ پرہیزگار ہوں ۔ مسند احمد میں ہے کہ نبی علیہ السلام منبر پر تھے کہ ایک شخص نے سوال کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے بہتر کون ہے ؟ آپ نے فرمایا جو سب سے زیادہ مہمان نواز سب سے زیادہ پرہیزگار سب سے زیادہ اچھی بات کا حکم دینے والا سب سے زیادہ برُی بات سے روکنے والا سب سے زیادہ صلح رحمی کرنے والا ہے ۔
ایک اور حدیث مبارک میں ہے کہ



حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ ہم ایک جنگ میں تھے اور سفیان نے ایک مرتبہ بیان کیا کہ ہم ایک لشکر میں تھے تو مہاجرین میں سے ایک نے ایک انصاری کو مارا انصاری نے پکار کر کہا کہ اے جماعت انصار! اور مہاجرنے پکار کر کہا کہ اے جماعت مہاجرین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سنا تو فرمایا

یہ جاہلیت کی پکار کیسی ہے لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ایک مہاجر نے ایک انصاری کو مارا آپ نے فرمایا جاہلیت کی اس پکار کو چھوڑو یہ برُا کلمہ ہے۔
صحیح بخاری:جلد دوم:باب:
جاہلیت کی طرح گفتگو کرنے کی ممانعت
اس آیت اور احادیث کی روشنی میں دیکھا جائے تو قوم پرستی کی کوئی حقیقت نہیں رہتی سوائے جاہلیت کے اور معلوم نہیں یہ قوم پرست رہنماء کس کے کہنے پر اُمت کو باہم متحارب کرنے کی ناپاک جسارت کررہے ہیں، یہ اس دنیا میں تو شاید کچھ ذاتی فوائد حاصل کرلیں مگر ان ظالموں کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوگا کیونکہ ایک انسان کی زندگی بچانا گویا پوری انسانیت کو بچانا ہے اور ایک انسان کو بلاوجہ قتل کرنا گویا پوری انسانیت کا قتل کرنا ہے اور امت میں فتنہ پیدا کرناقتل سے بھی بدتر ہے اور قوم پرستی کی دعوت جاہلیت کی دعوت ہے یہ اتنی برُی دعوت ہے کہ جس کو سُن کر نبی علیہ السلام کو غصہ آیا اور اس طرح قوم پرستی کی آواز لگانے سے منع فرمایا اور ساتھ ہی اس کو جاہلیت کی پکار کے ساتھ تشبہ دی۔

آج افسوس کے ساتھ کہنہ پڑتا ہے کہ مسلمانوں کو پہلے تو دین کے نام پر فرقوں میں تقسیم کی گیا تھا کہ تم حنبلی ہو، تم مالکی ہو، تم شافعی ہو، تم حنفی ہو، تم جعفری ہو، تم سلفی ہو، اور یہاں پر ہی بس نہیں کی گئی بلکہ ہر امام کو ماننے والوں میں آگے کئی کئی جماعتیں اور گروہ وجود میں لائے گے کہ ہر کسی کا اپنا امیر و امام مقرر کیا گیا اور اپنا ایک علیحدہ سسٹم چلایا گیا۔ اور پھر خلافت کے نظام کو بذریعہ جنگ ختم کرکے ملکوں میں تقسیم کردیا گیا تھا کہ تم انڈین ہو، تم پاکستانی ہو، تم عراقی ہو، تم سعودی ہو، تم فلسطینی ہو، تم ایرانی ہو، تم افغانی ہو، یہاں پر ہی بس نہیں کی گئی بلکہ اب صوبوں کے نام پر بھی تقسیم کی جارہی ہے کہ تم سندھی ہو، تم پنجابی ہو، تم بلوچی ہو،تم پختون ہو، اور اب اس بھی آگے کی جاہلیت میں مسلمانوں کو لے جایا جا رہا ہے کہ زبان اور قبیلہ کے نام پر بھی امت کو فرقوں میں تقسیم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، یہ اتنے زیادہ ان کفار نے جال بھن دیے ہیں کہ ان کو کاٹنا مشکل سے مشکل تر ہوتاجارہا ہے اور مسلمانوں میں علم کی کمی کی وجہ سے اس عصبیت کو بہت چرچہ مل رہا ہے اور لوگ ان قوم پرست رہنماوں کی باتوں میں پھنس رہے ہیں۔
ایک مسلمان ان سب باتوں سے پہلے ایک مسلم ہے کہ جس نے بھی اللہ کی ایکتائی کا اور محمد
ﷺ کی رسالت کا اقرار کیا اور اس کلمے کی شرائط کو پورا کیا وہ مسلم ہوگیا اب اس کا جان و مال دوسرے مسلمان پر حرام ہوگیا۔


نبیﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ

ابومالک، اپنے والد سے روایت کرتے ہیں فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرما تے ہوئے سنا کہ جس نے لَا اِلٰہ اِلَّا اللہ کہا اور اللہ تعالی کے سواء اور چیزوں کی پرستش کا انکار کردیا اس کا جان ومال محفوظ ہوگیا باقی ان کے دل کی حالت کا حساب اللہ تعالی کے ذمہ ہے۔
صحیح مسلم:جلد اول:کتاب:
ایمان کا بیان :باب:ایسے لوگوں سے قتال کا حکم یہاں کہ وہ لا الہ الا اللہ کہیں
اس فرمانِ رسول علیہ السلام
کے ہوتے ایک مسلمان کس طرح اپنے کلمہ گو مسلمان کو قتل کرسکتا ہے؟؟؟اور وہ بھی صرف قبائلی تعصیب کی وجہ سے کہ جس تعصیب کا اسلام سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔
آخر کیا ہوگیا ہے ہم لوگوں کو ، ہم کس دن ان نسلی دیواروں کو توڑیں گے؟؟؟اور آپس میں بھائی بھائی بن کر اتحاد اور اتفاق کا مظاہرہ کریں گے یہ بات یاد رکھیں جب تک ہم متحد نہیں ہوجاتے ہم مسلمان اسی طرح دنیا میں محکومی کی زندگی گزارتے رہیں گے اور یہود ، نصاری ، مشرک اور ان کے نام نہاد مسلمان ایجنٹ ہم کو فرقوں اور گروہوں میں تقسیم کر کےہم پر حکومت کرتے رہے گے۔ اور یاد رکھیں وقت کے ہر طاغوت اور فرعون کا یہی ایک حربہ ہوتا ہے حکمرانی کرنے کا کہ لوگوں کو فرقہ فرقہ اور گروہ گروہ کر کے حکمرانی کی جائے، جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ
اِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِي الْاَرْضِ وَجَعَلَ اَهْلَهَا شِيَعًا


حقیقت یہ ہے کہ فرعون نے زمین میں سرکشی کی اور اس کے باشندوں کو گروہوں میں تقسیم کردیا تھا۔
::القصص۔آیت:۴
تو ہم جب تک ان گروہ بندیوں چاہے وہ دینی ہوں، ملکی ہوں، یا قبائلی ہوں سے نکل نہیں آتے اور ایک ملت ، ایک جسم،بن نہیں جاتے یہ کفار اور ان کے نام نہاد مسلمان ایجنٹ ہم پر ایسے ہی ظلم کرتے رہیں گے۔

اللہ سے دُعا ہے کہ اللہ ہم سب کلمہ پڑھنے والوں کو قرآن و سنت پر متحد و مجتمع کردے اور ہم کو دینی قبائلی اور ملکی گروہ بندیوں سے نجات دے اور ہماری کھوئی ہوئی عظمت ہم کو واپس لوٹا دے۔
آمین یا رب العالمین​

 

عبداللہ حیدر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
316
ری ایکشن اسکور
1,018
پوائنٹ
120
السلام علیکم
الشیخ بن باز رحمہ اللہ نے اس مسئلے پر نقد لکھی ہے جو یہاں دیکھی جا سکتی ہے لیکن عمومی طور پر عربوں میں یہ مرض ہماری نسبت شدت تر ہے۔ "العرب و المسلمون" کی تفریق میڈیا پر اکثر سنی جا سکتی ہے۔
 
شمولیت
اگست 16، 2011
پیغامات
58
ری ایکشن اسکور
317
پوائنٹ
0
مسلم قومیت کی بدعت الامام سیدابوالاعلیٰ مودودی رحمہ اللہ

مسلم قومیت کی بدعت
الامام سیدابوالاعلیٰ مودودی رحمہ اللہ

دعوت انبیاء کا مطالعہ کریں تو اﷲتعالیٰ سے تعلق پیدا کرلینے کے بعد اگر کسی اجتماعی فرض کا کوئی نقشہ آپ کے قلب وذہن میں بنتا ہے تو وہ ایک ’اصولی تحریک‘ کا قیام ہی کہلاسکتا ہے مگر واقعاتی دنیا میں آئیں تو آپ ششدر رہ جاتے ہیں کہ وہی اسلام جو عقیدہ اور عمل کا مجموعہ ہے اور جو موروثی فضیلت یا علاقائی برتری اور نسلی بالادستی کا سب سے بڑا مخالف اور اس کی میزان میں اتباع حق کے سامنے قومی مفاد کوئی وزن ہی نہیں رکھتا ۔۔۔آج وہ اسلام خود ایک ’قوم‘بنادیا گیا ہے عقیدہ وعمل کی کوئی شرط رکھے بغیر ایک وراثت کی طرح نسل درنسل منتقل ہوتا ہے ۔اور ایسی نسل کی ترقی ہی اسلام کی ترقی کہلاتی ہے مسلمان نام کی اس نسل کو دوسری اقوام پر فتح دلانا اب اسلام کی فتح ہے ۔جواسلام پوری انسانی زندگی کو اپنے نقشے پر بدل دینے کا مطالبے پر بضد رہا تھا اور باطل سے دست وگریباں رہنا دنیا میں اس کا امتیاز ہوا کرتا تھا اب نہ صرف وہ باطل نظاموں کے زیر سایہ ہنسی خوشی بس لیتا ہے بلکہ ان شرکیہ نظاموں کی خدمت وترقی کی غرض سے اپنے پیروکاروں کو ان سے صلح جوئی اور وفاداری کے سبق بھی دینے لگا ہے۔

اسلام کے معنی ومفہوم میں اس قدر بڑی حیرت انگیز تبدیلی جو بجا طور پر تاریخ اسلام کی چند بڑی بدعات اور عظیم ترین انحرافات میں سے ایک کہلاسکتی ہے ’’مسلم قومیت ‘‘کے نام سے منسوب ہوئی ۔یہی بدعت آگے چل کر وطنیت ،علاقائیت اور جمہوریت وغیرہ ایسی گمراہیوں کوجنم دیتی رہی ہے اسی نے پچھلے سوسال کے عرصے میں مسلم خون کی بھینٹ لی اور آئندہ بھی نظر آتا ہے کہ اس گمراہی کا علاج نہ کیا گیا تو اسلام کی راہ میں جو کچھ دیا جائے گا وہ اسی کو وصول ہوتا رہے گا ۔قومیت کا یہ بت توڑنا اس لیے آسان نہیں کہ اس نے عبائے اسلام باقاعدہ زیب تن کرکررکھی ہے مگر فرزندان اسلام کو اﷲوحدہ لاشریک کے آگے جھکانے کے لیے اس بدعت ضلالت کا پردہ چاک کردینا بہرحال ضروری ہے اور اس دور کا ایک بہت بڑا فریضہ ۔

ویسے تو امت اسلام کسی دور میں خیر سے یکسر محروم نہیں رہی مگر برصغیر میں قومیت کے اس بت کے خلاف ایک منظم اور مسلسل آواز آج سے ساٹھ ستر برس قبل اٹھائی گئی ہمارے علم میں اس بدعت ضلالت کے خلاف اس سے بہتر اور اس قدر واضح آواز برصغیر کی تاریخ میں نہیں سنی گئی:(مدیر ایقاظ)

’’ مسلمان کے نام سے جو یہ قوم اس وقت موجود ہے وہ خود بھی اس حقیقت کو بھول گئی ہے اور اس کے طرز عمل نے دنیا کو بھی یہ بات بھلادی ہے کہ اسلام اصل میں ایک تحریک کانام ہے جو دنیا میں ایک مقصد اور کچھ اصول لے کر اٹھی تھی اور مسلمان کا لفظ اس جماعت کے لیے وضع کیا گیا تھا ۔جو اس تحریک کی پیروی اور علمبرداری کے لیے بنائی گئی تھی تحریک گم ہوگئی اس کا مقصد فراموش کردیا گیا ۔اس کے اصولوں کو ایک ایک کرکے توڑا گیا ۔اور اس کا نام اپنی تمام معنویت کھودینے کے بعد اب محض ایک نسلی ومعاشرتی قومیت کے نام کی حیثیت سے استعمال کیا جارہا ہے حد یہ ہے کہ ان مواقع پر بھی بے تکلف استعمال کیا جاتا رہا ہے جہاں اسلام کا مقصد پامال ہوتا ہے ،جہاں اس کے اصول توڑے جاتے ہیں جہاں اسلام کے بجائے غیر اسلام ہوتا ہے ۔

بازاروں میں جائیے ’’مسلمان رنڈیاں ‘‘آپ کو کوٹھوں پر بیٹھی نظر آئیں گی اور ’’مسلمان زانی‘‘گشت لگاتے ملیں گے جیل خانوں کا معائنہ کیجئے ’’مسلمان چوروں ‘‘، ’’مسلمان ڈاکوؤں ‘‘اور ’’مسلمان بدمعاشوں‘‘سے آپ کا تعارف ہوگا۔دفتروں اور عدالتوں کے چکرلگائیے رشوت خوری ،جھوٹی شہادت ،جعل ،فریب ،ظلم اور ہر قسم کے اخلاقی جرائم کے ساتھ آپ لفظ ’مسلمان ‘کا جوڑ لگاہوا پائیں گے سوسائٹی میں پھرئیے کہیں آپ کی ملاقات’’ مسلمان شرابیوں ‘‘سے ہوگی ،کہیں آپ کو ’’مسلمان قمار باز‘‘ملیں گے ۔کہیں’’ مسلمان سازندوں ‘‘اور ’’مسلمان گویوں‘‘ اور ’’مسلمان بھانڈوں‘‘ سے آپ دوچارہونگے۔

بھلا غور تو کیجئے یہ لفظ ’’مسلمان ‘‘کتنا ذلیل کردیا گیا ہے اور کن کن صفات کے ساتھ جمع ہورہا ہے ۔مسلمان اور زانی! مسلمان اور شرابی! مسلمان اور قمار باز! مسلمان اور رشوت خور! اگر وہ سب کچھ جو ایک کافر کرسکتا ہے وہی ایک مسلمان بھی کرنے لگے تو پھر مسلمان کے وجود کی دنیا میں حاجت ہی کیا ہے اسلام تو نام ہی اس تحریک کا تھا جو دنیا سے ساری بداخلاقیوں کو مٹانے کے لیے اٹھی تھی اس نے مسلمان کے نام سے ان چیدہ آدمیوں کی جماعت بنائی تھی جو خود بلند ترین اخلاق کے حامل ہو ں اور اصلاح اخلاق کے علمبردار بنیں ۔اس نے اپنی جماعت میں ہاتھ کاٹنے کی ،پتھر مارمار کرہلاک کردینے کی ،کوڑے برسابرسا کر کھال اڑا دینے کی ،حتی کہ سولی پر چڑھادینے کی ہولناک سزائیں اسی لیے تومقرر کی تھیں کہ جو جماعت دنیا سے زنا کو مٹانے اٹھی ہے خود اس میں کوئی زانی نہ پایا جائے جس کاکام شراب کا استیصال ہے وہ خود شراب خوروں کے وجود سے خالی ہو ۔جسے چوری اور ڈاکہ کا خاتمہ کرنا ہے خود اس میں کوئی چور اور ڈاکو نہ ہو ۔

اس کا تو مقصد ہی یہ تھا کہ جنہیں دنیا کی اصلاح کرنی ہے وہ دنیا بھر سے زیادہ نیک سیرت ،عالی مرتبہ اور باوقار لوگ ہوں اسی لیے قمار بازی ،جعل سازی اور رشوت خوری تو درکنار اس نے تو اتنا بھی گوارانہ کیا کہ کوئی مسلمان سازندہ اور گویّا ہو ۔کیونکہ مصلحین اخلاق کے مرتبہ سے یہ بھی گری ہوئی چیز ہے جس اسلام نے ایسی سخت قیود اور اتنے شدید ڈسپلن کے ساتھ اپنی تحریک اٹھائی تھی اور جس نے اپنی جماعت میں چھانٹ چھانٹ کر بلند ترین کیریکٹر کے آدمیوں کو بھرتی کیا تھا اس کی رسوائی اس سے بڑھ کراور کیا ہوسکتی ہے کہ رنڈی اور بھڑوے اور چور اور زانی تک کے ساتھ لفظ ’مسلمان ‘کا جوڑ لگ جائے ۔کیا اس قدر ذلیل اور رسواہوجانے کے بعد بھی ’اسلام‘ اور ’مسلمان‘کی یہ وقعت باقی رہ سکتی ہے کہ سر اس کے آگے عقیدت سے جھک جائیں اور آنکھیں اس کیلئے فرش راہ بنیں ؟جو شخص بازار بازار اور گلی گلی خوار ہورہا ہو کیا کبھی اس کے لیے بھی آپ نے کسی کو ادب سے کھڑے ہوتے دیکھا ہے ؟

یہ تو بہت ذلیل طبقہ کی مثال تھی اس سے اونچے تعلیم یافتہ طبقہ کی حالت اور زیادہ افسوس ناک ہے ۔یہاں یہ سمجھاجاتا ہے کہ اسلام ایک نسلی قومیت کا نام ہے اور جو شخص مسلمان ماں باپ کے ہاں پیدا ہوا ہے وہ بہرحال مسلمان ہے خواہ عقیدہ ومسلک اور طرز زندگی کے اعتبار سے وہ اسلام کے ساتھ کوئی دور کی مناسبت بھی نہ رکھتا ہو ۔سوسائٹی میں آپ چلیں پھریں تو آپ کو ہرجگہ عجیب وغریب قسم کے ’مسلمانوں ‘سے سابقہ پیش آئے گا ۔کہیں کوئی صاحب خدا اور رسالت اور آخرت کے قطعی منکر ہیں اور کسی مادہ پرستانہ مسلک پر پورا ایمان رکھتے ہیں مگر ان کے ’مسلمان ‘ہونے میں کوئی فرق نہیں آتا ۔ایک تیسرے صاحب سود کھاتے ہیں اور زکوٰۃ کا نام تک نہیں لیتے مگر ہیں یہ بھی ’مسلمان‘ہی۔

ایک اور بزرگ بیوی اور بیٹی کو میم صاحبہ یا شریمتی جی بنائے ہوئے سنیما لیے جارہے ہیں ۔یا کسی رقص وسرور کی محفل میں صاحب زادی سے وائلن بجوارہے ہیں مگر آپ کے ساتھ بھی لفظ’مسلمان‘بدستور چپکا ہوا ہے ۔

ایک دوسرے ذات شریف نماز ،روزہ، حج ،زکوٰۃ ،تمام فرائض سے مستثنیٰ ہیں شراب،زنا،رشوت ۔جوا اور ایسی سب چیزیں ان کے لیے جائز ہوچکی ہیں حلال وحرام کی تمیز سے نہ صرف خالی الذہن ہیں بلکہ اپنی زندگی کے کسی معاملہ میں بھی ان کو یہ معلوم کرنے کی پرواہ نہیں ہوتی کہ اﷲکا قانون اس بارے میں کیا کہتا ہے خیالات ،اقوال اور اعمال میں ان کے اور ایک کافر اور مشرک کے درمیان کوئی فرق نہیں پایا جاتا ۔مگر ان کا شمار بھی ’مسلمانوں ‘ہی میں ہوتا ہے ۔غرض اس نام نہاد مسلم سوسائٹی کا جائزہ لیں گے تو اس میں آپ کو بھانت بھانت کا’مسلمان‘نظر آئے گا مسلمان کی اتنی قسمیں ملیں گی کہ آپ شمار نہ کرسکیں گے۔یہ ایک چڑیا گھر ہے جس میں چیل کوے ،گدھ ،بٹیر ،تیتر اور ہزاروں قسم کے جانور جمع ہیں اور ان میں سے ہر ایک ’چڑیا ‘ہے کیونکہ چڑیا گھر میں ہے۔

پھر لطف یہ ہے کہ یہ لوگ اسلام سے انحراف کرنے پر ہی اکتفا نہیں کرتے بلکہ ان کا نظریہ اب یہ ہوگیا ہے کہ ’مسلمان‘جو کچھ بھی کرے وہ ’اسلامی ‘ہے حتی کہ اگر وہ اسلام سے بغاوت بھی کرے تو و ہ اسلامی بغاوت ہے یہ بینک کھولیں تو اس کانام ’اسلامی بینک ‘ہوگا ، یہ انشورنس کمپنی قائم کریں تو وہ ’اسلامی انشورنس کمپنی‘ہوگی ،یہ جاہلیت کی تعلیم کا ادارہ کھولیں تو وہ’ مسلم یونیورسٹی‘، ’اسلامیہ کالج‘ یا ’اسلامیہ اسکول‘ہوگا ،ان کی کافرانہ ریاست کو ’اسلامی ریاست ‘کے نام سے موسوم کیا جائے گا۔ (اس وقت دنیامیں ایسی اسلامی ریاستوں کی تعداد ۵۵تک پہنچتی ہے اﷲکرے زور حریت اور زیادہ)۔

ان کے فرعون اور نمرود ،’اسلامی بادشاہوں ‘کے نام سے یاد کئے جائیں گے ان کی جاہلانہ زندگی ’اسلامی تہذیب وتمدن ‘قرار دی جائے گی ۔ان کی موسیقی ،مصوری اور بت تراشی کو ’اسلامی آرٹ ‘کے معزز لقب سے ملقب کیا جائے گا ان کے زندقے اور اوہام لاطائل کو ’اسلامی فلسفہ‘کہا جائیگا ۔حتی کہ یہ سوشلسٹ بھی ہوجائیں تو ’مسلم سوشلسٹ‘کے نام سے پکاریں جائیں گے ان سارے ناموں سے آپ آشنا ہوں چکے ہیں اب صرف کسرباقی ہے کہ ’اسلامی شراب خانے‘ ، ’اسلامی قحبہ خانے‘ اور ’اسلامی قمار خانے ‘ جیسی اصطلاحوں سے بھی آپ کا تعارف شروع ہوجائے ۔مسلمانوں کے اس طرز عمل نے اسلام کے لفظ کو اتنا بے معنی کردیا ہے کہ ایک کافرانہ چیز کو ’اسلامی کفر‘یا’اسلامی معصیت‘کے نام سے موسوم کرنے میں اب کسی تناقض فی الاصطلاح Contradiction in termsکا شبہ تک نہیں ہوتا۔حالانکہ اگر کسی دکان پر آپ ’سبزی خوروں کی دکان گوشت ‘یا ولایتی سودیشی بھنڈار‘ کا بورڈ لگا دیکھیں یا کسی عمارت کا نام ’’موحدین کا بت خانہ‘‘سنیں تو شاید آپ سے ہنسی ضبط نہ ہوسکے گی ۔

جب افراد کی ذہنیتوں کا یہ حال ہے تو قومی اور قومی پالیسی کا اس تناقض سے متاثر نہ ہونا امرمحال ہے آج مسلمانوں کے اخباروں اور رسالوں میں ،مسلمانوں کے جلسوں اور انجمنوں میں مسلمان پڑھے لکھے طبقہ میں آپ ہر طرف کسی چیز کی پکار سنتے ہیں ؟بس یہی ناکہ سرکاری ملازمتوں میں ہمیں جگہیں ملیں ۔غیر الٰہی نظام حکومت کو چلانے کے لیے جس قدر پرزے درکار ہیں ان میں سے کم از کم اپنے پرزے ہم پر مشتمل ہوں شریعت سازمجلسوں (Lagislatives)کی نشستوں میں کم از کم ا تنا تناسب ہمارا ہو’’من لم یحکم بما انزل اﷲ ‘‘ میں کم سے کم اتنے ہی فیصدی ہم بھی ہوں ’’والذین یقاتلون فی سبیل الطاغوت‘‘میں غالب حصہ ہمارا ہی رہے اسی کی ساری چیخ وپکار ہے ۔اسی کانام اسلامی مفاد ہے اسی محور پر مسلمانوں کی قومی سیاست گھوم رہی ہے یہی گروہ عملاً اس وقت مسلم قوم کی پالیسی کو کنٹرول کررہاہے حالانکہ ان چیزوں کو نہ صرف یہ کہ اسلام سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ اس کی عین ضد ہیں ۔غور کرنے کا مقام ہے کہ اگر اسلام ایک تحریک کی حیثیت سے زندہ ہوتا تو کیا اس کا نقطہ نظر یہی ہوتا؟

کیا کوئی اجتماعی اصلاح کی تحریک اور کوئی ایسی جماعت جو خود اپنے اصول پر دنیا میں حکومت قائم کرنے کا داعیہ رکھتی ہو کسی دوسرے اصول کی حکومت قائم کرنے کا داعیہ رکھتی ہو کسی دوسرے اصول کی حکومت میں اپنے پیروؤں کو کل پرزے بننے کی اجازت دیتی ہے ؟کیا کبھی آپ نے سنا ہے کہ اشتراکیوں نے بینک آف انگلینڈ کے نظام میں اشتراکی مفاد کا سوال اٹھایا ہو یا فاشسٹ گرانڈ کو نسل میں اپنی نمائندگی کے مسئلہ پر اشتراکیت کی بقا وفنا کا انحصار رکھا ہو ؟اگر آج روسی کمیونسٹ پارٹی کا کوئی ممبر نازی حکومت کا وفادار خادم بن جائے تو کیا آپ توقع کرتے ہیں کہ ایک لمحہ بھر کیلئے بھی اسے پارٹی میں رہنے دیا جائے گا ؟اور اگر کہیں وہ نازی آرمی میں داخل ہوکر نازیت کو سربلند کرنے کی کوشش کرے تو کیا آپ اس کی جان کی سلامتی کی بھی امید کرسکتے ہیں ؟مگر یہاں آپ کیا دیکھ رہے ہیں اسلام جس روٹی کو زبان پر رکھنے کی اجازت بھی شاید انتہائی اضطرار کی حالت میں دیتااور جس کو حلو سے اتارنے کے لیے (غیرباغ ولا عاد)کی شرط لگاتا اور پھر تاکید کرتا کہ جس طرح سخت بھوک کی حالت میں جان بچانے کے لیے سور کھایا جاسکتا ہے اسی طرح بس یہ روٹی بھی بقدر سد رمق کھالو ۔یہاں اس روٹی کو نہ صرف یہ کہ ھنیئا ً مریئاً کرکے پورے انسباط کے ساتھ کھایا جاتا ہے ۔بلکہ اسی پر کفر اوراسلام کے معرکے سر ہوتے ہیں اور اسی کو اسلامی مفاد کا مرکزی نقطہ قرار دیا جاتا ہے ۔اس کے بعد تعجب نہ کیجئے اگر ایک اخلاقی و اجتماعی مسلک کی حیثیت سے اسلام کے دعوائے حکمرانی کو سن کر دنیا مذاق اڑانے لگے کیونکہ اسلام کی نمائندگی کرنے والوں نے خود اس کے وقار کواور اس کے دعوے کو اپنے معبود شکم کے چرنوں میں بھینٹ چڑھا دیا ہے۔


( ماخوذ از ترجمان القرآن نومبر 1939)​
 

حمّاد

مبتدی
شمولیت
دسمبر 26، 2011
پیغامات
19
ری ایکشن اسکور
57
پوائنٹ
23
سلام علیکم
إنا خلقناکم من ذکر و انثی و جعلناکم شعوباً و قبائل لتعارفوا، إن اکرمکم عند الله اتقاکم۔

کاش هم مسلم اس پر عمل کرلین۔

علامه اقبال رحمه الله فرماتاهی:

تمیز رنگ و بو بر ما حرام است ×××× که ما پروردهء یک نوبهاریم
 
Top