مطلقاً قیاس كا ردّ کرنا صحیح نہیں، قیاسِ فاسد (جو كتاب وسنت کے مخالف ہو) کا ردّ ہونا چاہئے، لیکن ’قیاس صحیح‘ حجّت ہے۔
یہ تو ایسے ہی ہے جیسے کوئی ضعیف حدیث سے استدلال کرے تو اسے کہا جائے کہ حدیث سے استدلال کرنا صحیح نہیں۔
•اللہ تعالیٰ نے خود بھی قیاس کیا ہے اور ہمیں بھی قیاس کرنے کا حکم دیا ہے، فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
﴿ إِنَّ مَثَلَ عِيسَىٰ عِندَ اللَّـهِ كَمَثَلِ آدَمَ ۖ خَلَقَهُ مِن تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهُ كُن فَيَكُونُ ﴾ ... سورة آل عمران: 59
کہ ’’اللہ کے نزدیک عیسیٰ� کی مثال آدم� کی سی ہے کہ اللہ نے انہیں (آدم� کو) مٹی سے پیدا کیا اور حکم دیا کہ ہو جا اور وہ ہو گئے۔‘‘
عظیم مفسر امام قرطبی� اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ یہ آیت قیاس کی صحّت کی دلیل ہے۔
اس آيت کریمہ میں سیدنا عیسیٰ� کی خرق عادت (بغیر باپ کے) تخلیق کو سیدنا آدم� کی زیادہ خرق عادت (یعنی بغیر ماں باپ کے) تخلیق پر قیاس کیا گیا ہے۔
نیز فرمایا: ﴿ فَاعْتَبِرُوا يَا أُولِي الْأَبْصَارِ ﴾ ... سورة الحشر: 2
کہ ’’پس اے آنکھوں والو! ’عبرت‘ حاصل کرو۔‘‘
امام رازی نے قیاس کی حجیت پر اس آیتِ کریمہ سے استدلال کیا ہے۔
عبرت سے مراد ہی یہی ہے کہ ظالم لوگوں کا برا انجام دیکھ کر اس سے عبرت حاصل کی جائے، اپنے آپ کو ان پر قیاس کیا جائے کہ اگر ہم سے بھی یہی عمل سرزد ہوا تو ہمارا انجام بھی ان جیسا ہو سکتا ہے۔
معروف مفسر امام واحدی� فرماتے ہیں: ومعنى الاعتبار: النظر في الأمور ليعرف بها شيء آخر من جنسها ... فتح القدیر للشوکانی
اگر غور کیا جائے تو قرآن کریم کے تمام قصّوں کا مقصد بھی عبرت حاصل کرنا ہے، اور اپنے آپ کو ان پر قیاس کرنا ہے کہ اگر ہم بھی ان کی روش پر چلے تو ہمارا انجام سے بھی ان جیسا ہو سکتا ہے۔
فرمانِ باری ہے: ﴿ لَقَدْ كَانَ فِي قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌ لِّأُولِي الْأَلْبَابِ ﴾ ... يوسف: 111
کہ ’’ان کے بیان میں عقل والوں کے لئے یقیناً نصیحت اور عبرت ہے۔‘‘
نیز فرمایا: ﴿ أَفَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَيَنظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ۚ دَمَّرَ اللَّـهُ عَلَيْهِمْ ۖ وَلِلْكَافِرِينَ أَمْثَالُهَا ﴾ ... محمد: 10
کہ ’’کیا ان لوگوں نے زمین میں چل پھر کر اس کا معائنہ نہیں کیا کہ ان سے پہلے کے لوگوں کا نتیجہ کیا ہوا؟ اللہ نے انہیں ہلاک کر دیا اور کافروں کے لئے اسی طرح کی سزائیں ہیں۔‘‘
کیا یہ قیاس نہیں؟؟؟
•نبی کریمﷺ نے بھی قیاس کیا ہے، اور امت کو اس کی تعلیم دی ہے۔
صحیح بخاری میں ہے:
ايك عورت نبی کریمﷺ کے پاس ایک عورت آئی اور عرض کیا کہ میری ماں نے حج کی نذر مانی تھی، لیکن وہ اس سے پہلے ہی فوت ہوگئی، کیا میں اس کی طرف سے حج کر سکتی ہوں؟ آپﷺ نے فرمایا: « نعم ، حجي عنها، أرأيت لو كان على أمك دين أكنت قاضيته؟ » کہ ’’ہاں! اس کی طرف سے حج کرو، تمہارا کیا خیال ہے اگر اس کی ماں پر کوئی قرض ہوتا، کیا تم اسے ادا کرتی؟‘‘ اس نے عرض کیا کہ جی ہاں! تو آپﷺ نے فرمایا: « فاقضوا الله الذي له ، فإن الله أحق بالوفاء »کہ ’’پس اللہ کا قرض ادا کیا کرو، اللہ (کا قرض) زیادہ حق رکھتا ہے کہ اسے پورا کیا جائے۔‘‘ صحیح البخاری
اس حدیث مبارکہ میں یہ سوال کرنا کہ اگر تمہاری ماں پر قرض ہوتا تو تم ادا کرتیں؟ کا مقصد اس پر قیاس کرنے کے علاوہ اور کیا ہے؟ گویا یہ سوال کرکے اُمت کو بھی - واللہ اعلم - ’قیاس صحیح‘ کرنے کی تعلیم دی جا رہی ہے، ورنہ اس سوال کے بغیر بھی جواب دیا جا سکتا تھا۔
صحیحین میں حدیث مبارکہ ہے:
ایک بدو نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ میری بیوی نے سیاہ لڑکا جنا ہے، اور میں اس سے انکار کرتا ہوں (کہ وہ میرا نہیں کیونکہ میں اور میری بیوی سیاہ نہیں) نبی کریمﷺ نے فرمایا: « هل لك من إبل؟ » کہ ’’کیا تمہارے پاس اونٹ ہیں؟‘‘ اس نے عرض کیا: جی ہاں، پوچھا: « فما ألوانها؟ » کہ ’’ان کا رنگ کیا ہے؟‘‘ اس نے عرض کیا: سرخ، آپﷺ نے دریافت فرمایا: « هل فيها من أورق؟ » کہ ’’کیا ان میں کوئی گندمی رنگ کا اونٹ بھی ہے؟‘‘ عرض کیا: جی ہاں، گندمی بھی ہے، فرمایا: « فأنى ترى ذلك جاءها؟ » کہ ’’تمہارا کیا خیال ہے وہ کہاں سے آیا؟‘‘ عرض کیا: يا رسول الله! (اس کے دادا پردادا کی) کسی رگ نے اسے کھینچ لیا ہوگا (یعنی اوپر کی نسل میں کوئی اس رنگ کا اونٹ ہوگا) آپﷺ نے فرمایا: « ولعل هذا عرق نزعه » کہ ’’شائد اسے بھی کسی رگ نے کھینچ لیا ہو۔‘‘ صحیح البخاری ومسلم
اس سارے سوال وجواب کا مقصد قیاسِ صحیح کی تعلیم دینے کے علاوہ اور کیا ہے؟
سنن النسائی میں روایت ہے کہ نبی کریمﷺ سے خشک کھجور کی تر کھجور سے بیع کے متعلق سوال کیا گیا تو آپﷺ نے پاس موجود صحابہ کرام� سے پوچھا « أينقص الرطب إذا يبس » کہ ’’کیا تر کھجور خشک ہونے کے بعد ہم ہو جاتی ہے؟‘‘ انہوں نے عرض کیا: جی ہاں، تو آپﷺ نے اس سے منع فرما دیا۔ صحیح سنن النسائی
یہ بات تو ہر شخص کو معلوم ہے کہ تر کھجور خشک ہونے کے بعد کم ہو جاتی ہے، نبی کریمﷺ کے سوال کرنے کا مقصد صرف اس کی بیع منع ہونے کی علت بیان کرنا تھا کہ گویا یہ کم کھجور کی زیادہ کھجور کے ساتھ بیع کی مثل ہے، چونکہ وہ سود ہے لہٰذا یہ بھی جائز نہیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم!
•صحابہ کرام� سے قیاس کی مشروعیت اور ان سے بکثرت قیاس کرنا ثابت ہے،
سردَست اس کی دو مثالیں درج ذیل ہیں:
صحیح مسلم میں سیدنا ابن عباس� سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: « من ابتاع طعاما فلا يبعه حتى يستوفيه ». قال ابن عباس: وأحسب كل شيء مثله
کہ ’’جو شخص کھانا خریدے تو اسے پورا لینے سے پہلے نہ بیچے۔‘‘ سیدنا ابن عباس� فرماتے ہیں کہ میں ہر شے کو اسی (کھانے) کی مثل خیال کرتا ہوں۔
یعنی دیگر اشیاء کو بھی اس معاملے میں کھانے پر قیاس کرتا ہوں۔
سیدنا عمر� نے سیدنا ابو موسیٰ اشعری� کو خط لکھا، جس میں فرمایا: الفهم الفهم فيما يختلج في صدرك مما لم يبلغك في القرآن والسنة , اعرف الأمثال والأشباه ثم قس الأمور عند ذلك
ویسے بھی شریعت محمدیہ صرف نبی کریمﷺ کے زمانے تک محدود نہیں ہے، بلکہ قیامت تک کیلئے ہے، اور اس میں قیامت تک پیش آمدہ مسائل کا حل موجود ہے۔ ان مسائل کا بھی جو نبی کریمﷺ کے زمانے میں وقوع پذیر ہوئے اور ان مسائل کا بھی جو بعد میں ہوتے رہے اور قیامت تک پیش آتے رہیں گے۔ (اور ظاہر ہے کہ وہ نئے مسائل ہوں گے) بعض احکامات کا حل براہ راست کتاب وسنت سے (عبارۃ النص) مل جاتا ہے، جبکہ بعض احکامات کا حل براہِ راست نہیں، بلکہ فروع کو کسی علت کی بناء پر اصول پر قیاس کرکے ملتا ہے۔ اگر قیاس کا ہی انکار کر دیا جائے تو پھر شریعت محمدیہ قیامت تک کے مسائل کیسے حل کرے گی؟؟؟
کتاب وسنت میں یتیم کے مال کو کھانے کی بہت سخت وعید ہے، تو یتیم کے مال کو جلا دینا یا ضائع کر دیا اس پر قیاس کے باعث حرام ہے۔
ماں باپ کو اف کہنے کی بھی اجازت نہیں، تو ان سے بد زبانی اور مار پیٹ بالاولیٰ جائز نہیں۔
نبی کریمﷺ کے زمانے میں سواری کیلئے جانور اور کشتیاں استعمال ہوتی تھیں، آج سائنس کی ترقی کے بعد گاڑی، ٹریں اور جہاز وغیرہ کو انہی پر قیاس کیا جائے گا۔
سود اور جوئے کی موجودہ بہت سی صورتیں نبی کریمﷺ کے زمانے میں موجود نہیں تھیں، انہیں بھی مشترک علت کی بناء پر حرام کہا جائے گا۔ وغیرہ وغیرہ
لہٰذا ’قیاس صحیح‘ دین میں حجت ہے اور چونکہ اجماع کی طرح یہ کتاب وسنت سے ہی ثابت ہے لہٰذا یہ کتاب وسنت پر ہی عمل ہے، اس سے خارج نہیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم!