• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قیاس کی مذمت

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,497
پوائنٹ
964
قیاس کی مذمت
ان الحمد للہ نحمدہ و نستعینہ من یھداللہ فلا مضل لہ ومن یضلل فلا ھادی لہ واشھد ان لا الہ الااللہ وحدہ لاشریک لہ واشھد ان محمد ا عبدہ ورسولہ فان خیر الحدیث کتاب اللہ وخیر الھدی ھد محمد رسول اللہﷺ وشر الامور محدثاتھا وکل بدعۃ ضلالۃ اما بعد:
دین السلام کی بنیادی چیزوں پر ہے، ایک اللہ تعالی کی کتاب قرآن مجید اور دوسری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت و حدیث۔ اللہ تعالی نے قرآن مجید مین متعدد مقامات پر ان دونوں کی اطاعت و تابعداری کا حکم فرمایا۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے آخری ایام میں ان ہی کے بارے میں فرمایا۔
تَرَکْتُ فِیْکُمْ اَمَرَیْنِ لَنْ تَضِلُّوْا مَا تَمَسَّکْتُمْ بِھِمَا: کِتَابُ اﷲِ وَسُنَّۃُ رَسُوْلِہٖ
(مشکوۃ شریف:جلد اول:حدیث نمبر 181)
ترجمہ: "میں تم میں دو چیزیں چھوڑ کر چلا ہوں تم گمراہ نہیں ہوگے جب تک مضبوطی سے ان کو پکڑے رکھو گے کتاب اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت"اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا جو بھی قرآٰن و حدیث کو چھوڑ دے گا وہ گمراہ ہوجائےگا۔ ابو حنیفہ کا شمار بھی ان لوگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے قرآن و حدیث کو چھوڑ دیا۔اور ابو حنیفہ نے قرآن و حدیث چھوڑ کر قیاس میں خوب مہارت حاصل کی۔ حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قیاس کرنے کی ممانت ہے ۔ امام المحدیثین امام بخاری نے حدیث بیان دین کے مسائل میں رائے پر عمل کرنے کی مذمت، اسی طرح بے ضرورت قیاس کرنے کی۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بیان کیا ہے۔ان اللہ لا ینزع العلم بعد ان اعطاکموہ انتزاعا ولکن ینتزعہ منھم مع قبض العلماء بعلمھم فیبقی ناس جھال یستفون فیفتون برایھم فیضلون ویضلون(صحیح بخاری جلد 3 کتاب الاعتصام باب 1214 حدیث 2150 ص 932)بے شک اللہ تعالی یہ نہیں کرنے کا کہ علم تم کو دے کر پھر تم سے چھین لے بلکہ علم اس طرح اٹھائےگا کہ عالم لوگ مرجائیں گے۔ ان کے ساتھ علم بھی چلا جائے گا۔ اور چند جاہل لوگ رہ جائیں گے۔ ان سے کوئی مسئلا پوچھے گا تو اپنی رائے سے بات کرین گے۔ آپ بھی گمراہوں گے دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔حضرت علی رضہ اللہ عنہ نے قیاس کا رد ان الفاظ میں کیا ہے۔
لوکان الدین بالرای لکان اسفل الخف اولی بالمسح من اعلاوقد رایت رسول اللہﷺ یمسح علی ظاھر خفیہ(سنن ابوداؤد ج اول کتاب الطھارۃ باب کیف المسح حدیث 162 ص 100)
اگر دین قیاس پر ہوتا تو موزے کے نیچے کی طرف مسح کرنا بہتر ہوتا۔ اوپر کی طرف سے حالانکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا مسح کرتے تھے موزوں کے اوپر۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضہ اللہ عنہ حضرت جابر بن زید رضی اللہ عنہ سے کہتے تھے۔
انک من فقھاء البصرۃ فلا تفت الا بقران ناطق اوسنۃ ماضیۃ فان فعلت غیر ذلک ھلک واھلک(سنن دارمی جلد اول ص 54)تم بصرہ کے فقہاء میں سے ایک ہو تم صرف قرآن کے حکم کے ذریعے فتوی دیا کرو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے ذریعے فتوی دیا کرو اگر تم اس کے علاوہ کسی دوسرے طریقے سے فتوی دو گے تو تم بھی ہلاک ہوجاؤ گے اور دوسروں کو بھی ہلاک کرو گے۔ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر تم نے دین میں قیاس سے علم حاصل کرنا شروع کردیا تو تم بہت سے حرام کو حلال کرلو گے اور بہت سے حلال کو حرام کرلو گے۔
قاضی شریح رحمہ اللہ: نے کہا کہ سنت تلوار ہے جو قیاس کی گردن اڑانے کے لئے ہے۔(اعلام الموقعین جلد اول ص228)
امام حماد بن زید رحم اللہ نے کہا کسی نے امام ایوب سختیانی رحم اللہ سے کہا آپ رائے اور قیاس سے کام کیوں نہیں لیتے ۔ آ پ نے کہا یہ تو ایسا ہی سوال ہے جیسا کسی نے گدھے سے پوچھا تم جگالی کیوں نہیں کرتے ؟ بولا میں باطل اور بے کار چیز کو چبانا پسند نہیں کرتا۔ (تذکرۃ الحفاظ جلد اول ص 120،121)امام ابن خلدون رحم اللہ کہتے ہیں فقہ کی تقسیم دو طریقہ پر ہوگئی اہل عراق رائے اور قیاس والے تھے اور اہل حجاز اصحاب حدیث تھے ۔ عراقیوں (اہل الرای ) میں حدیث کم تھی تو انہوں نے کثرت سے قیاس کا استعمال کیا اور اس کے استعمال میں مہارت حاصل کی۔ جسکی وجہ سے ان کا نام ہی رائے والے پڑگیا اس گروہ کے سردار ابو حنیفہ اور ان کے شاگرد تھے اور اہل حجاز (اصحاب حدیث) کے امام مالک رحمہ اللہ ، امام شافعی رحمہ اللہ اور ان کے بعد کے (محدثین تھے)(داستان حنیفہ ص 22)۔علامہ شہرستانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
اصحاب الرای ھم اھل العراق وھم اصحاب ابی حنیفۃ وانما سمو ا اصحاب الرای لان اکثر عنایتھم بتحصیل وجہ القیاس(الملل و النحل ص 188)
عراق اصحاب الرائے تھے اور یہ ابو حنیفہ کے شاگرد اور اصحاب ہیں ان کا نام اصحاب الرائے اس وجہ سے ہے کہ ان کی زیادہ تر کوشش قیاس کے ذریعہ ہوتی تھی۔
علامہ ابن حزم رحم اللہ نے کہا کسی دینی مسئلا کے بارے میں قیاس و رائے سے فیصلا کرنا حرام ہے۔ اس لئے کہ اللہ تعالی نے نزاع کے صورت میں کتاب و سنت کی جانب رجوع کرنے کا حکم دیا ہے۔ بخلاف ازیں جو شخص قیاس و رائے یا کسی خود ساختہ علت کی طرف رجوع کرتا ہے وہ حکم الہی کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ ( المحلی ابن حزم جلد اول ص105)امام جعفر بن محمد بن علی بن حسین رحمہ اللہ نے ایک مرتبہ ابو حنیفہ سے کہا اللہ سے ڈرو اور قیاس نہ کیا کر ہم کل اللہ کے سامنے کھڑے ہوں گے ہم بھی اور ہمارے مخالف بھی ۔ ہم تو کہیں گے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور تم اور تمہارے ساتھی کہیں گے ہماری رائے یہ تھی اور ہمارا قیاس یہ تھا۔ پس اللہ تعالی ہمارے اور تمہارے ساتھ وہ کرے گا جو چاہے۔(اعلام الموقعین جلد اول ص 229)الغرض دین اسلام میں قرآن و حدیث چھوڑ کر قیاس کرنے کی قطعا اجازت نہیں اور ابو حنیفہ کا قیاس ہمارے لئے حجت نہیں ۔ ہمارے لئے حجت اللہ کا قرآن اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے۔
تحریر : خرم شہزاد
مضمون پڑہنے سے تو یہی اندازہوتا ہے کہ لکھنے والا قیاس سے مطلقا منع کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور اس کے نزدیک قیاس صحیح یا غیر صحیح میں کوئی فرق نہیں ۔ ۔ ۔ اور اگر یہ تسلیم بھی کر لیا جائے کہ اس میں قیاس کا مطلقا رد نہیں جیسا کہ شیخ رفیق طاہر صاحب نے وضاحت کی ہے تو پھر بھی ان باتوں کی وضاحت ضروری تھی کہ :
مطلقاً قیاس كا ردّ کرنا صحیح نہیں، قیاسِ فاسد (جو كتاب وسنت کے مخالف ہو) کا ردّ ہونا چاہئے، لیکن ’قیاس صحیح‘ حجّت ہے۔

یہ تو ایسے ہی ہے جیسے کوئی ضعیف حدیث سے استدلال کرے تو اسے کہا جائے کہ حدیث سے استدلال کرنا صحیح نہیں۔
•اللہ تعالیٰ نے خود بھی قیاس کیا ہے اور ہمیں بھی قیاس کرنے کا حکم دیا ہے، فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
﴿ إِنَّ مَثَلَ عِيسَىٰ عِندَ اللَّـهِ كَمَثَلِ آدَمَ ۖ خَلَقَهُ مِن تُرَ‌ابٍ ثُمَّ قَالَ لَهُ كُن فَيَكُونُ ﴾ ... سورة آل عمران: 59
کہ ’’اللہ کے نزدیک عیسیٰ� کی مثال آدم� کی سی ہے کہ اللہ نے انہیں (آدم� کو) مٹی سے پیدا کیا اور حکم دیا کہ ہو جا اور وہ ہو گئے۔‘‘
عظیم مفسر امام قرطبی� اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ یہ آیت قیاس کی صحّت کی دلیل ہے۔
اس آيت کریمہ میں سیدنا عیسیٰ� کی خرق عادت (بغیر باپ کے) تخلیق کو سیدنا آدم� کی زیادہ خرق عادت (یعنی بغیر ماں باپ کے) تخلیق پر قیاس کیا گیا ہے۔

نیز فرمایا: ﴿ فَاعْتَبِرُ‌وا يَا أُولِي الْأَبْصَارِ‌ ﴾ ... سورة الحشر: 2
کہ ’’پس اے آنکھوں والو! ’عبرت‘ حاصل کرو۔‘‘
امام رازی نے قیاس کی حجیت پر اس آیتِ کریمہ سے استدلال کیا ہے۔
عبرت سے مراد ہی یہی ہے کہ ظالم لوگوں کا برا انجام دیکھ کر اس سے عبرت حاصل کی جائے، اپنے آپ کو ان پر قیاس کیا جائے کہ اگر ہم سے بھی یہی عمل سرزد ہوا تو ہمارا انجام بھی ان جیسا ہو سکتا ہے۔
معروف مفسر امام واحدی� فرماتے ہیں: ومعنى الاعتبار: النظر في الأمور ليعرف بها شيء آخر من جنسها ... فتح القدیر للشوکانی

اگر غور کیا جائے تو قرآن کریم کے تمام قصّوں کا مقصد بھی عبرت حاصل کرنا ہے، اور اپنے آپ کو ان پر قیاس کرنا ہے کہ اگر ہم بھی ان کی روش پر چلے تو ہمارا انجام سے بھی ان جیسا ہو سکتا ہے۔
فرمانِ باری ہے: ﴿ لَقَدْ كَانَ فِي قَصَصِهِمْ عِبْرَ‌ةٌ لِّأُولِي الْأَلْبَابِ ﴾ ... يوسف: 111
کہ ’’ان کے بیان میں عقل والوں کے لئے یقیناً نصیحت اور عبرت ہے۔‘‘
نیز فرمایا: ﴿ أَفَلَمْ يَسِيرُ‌وا فِي الْأَرْ‌ضِ فَيَنظُرُ‌وا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ۚ دَمَّرَ‌ اللَّـهُ عَلَيْهِمْ ۖ وَلِلْكَافِرِ‌ينَ أَمْثَالُهَا ﴾ ... محمد: 10
کہ ’’کیا ان لوگوں نے زمین میں چل پھر کر اس کا معائنہ نہیں کیا کہ ان سے پہلے کے لوگوں کا نتیجہ کیا ہوا؟ اللہ نے انہیں ہلاک کر دیا اور کافروں کے لئے اسی طرح کی سزائیں ہیں۔‘‘
کیا یہ قیاس نہیں؟؟؟
•نبی کریمﷺ نے بھی قیاس کیا ہے، اور امت کو اس کی تعلیم دی ہے۔
صحیح بخاری میں ہے:
ايك عورت نبی کریمﷺ کے پاس ایک عورت آئی اور عرض کیا کہ میری ماں نے حج کی نذر مانی تھی، لیکن وہ اس سے پہلے ہی فوت ہوگئی، کیا میں اس کی طرف سے حج کر سکتی ہوں؟ آپﷺ نے فرمایا: « نعم ، حجي عنها، أرأيت لو كان على أمك دين أكنت قاضيته؟ » کہ ’’ہاں! اس کی طرف سے حج کرو، تمہارا کیا خیال ہے اگر اس کی ماں پر کوئی قرض ہوتا، کیا تم اسے ادا کرتی؟‘‘ اس نے عرض کیا کہ جی ہاں! تو آپﷺ نے فرمایا: « فاقضوا الله الذي له ، فإن الله أحق بالوفاء »کہ ’’پس اللہ کا قرض ادا کیا کرو، اللہ (کا قرض) زیادہ حق رکھتا ہے کہ اسے پورا کیا جائے۔‘‘ صحیح البخاری
اس حدیث مبارکہ میں یہ سوال کرنا کہ اگر تمہاری ماں پر قرض ہوتا تو تم ادا کرتیں؟ کا مقصد اس پر قیاس کرنے کے علاوہ اور کیا ہے؟ گویا یہ سوال کرکے اُمت کو بھی - واللہ اعلم - ’قیاس صحیح‘ کرنے کی تعلیم دی جا رہی ہے، ورنہ اس سوال کے بغیر بھی جواب دیا جا سکتا تھا۔

صحیحین میں حدیث مبارکہ ہے:
ایک بدو نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ میری بیوی نے سیاہ لڑکا جنا ہے، اور میں اس سے انکار کرتا ہوں (کہ وہ میرا نہیں کیونکہ میں اور میری بیوی سیاہ نہیں) نبی کریمﷺ نے فرمایا: « هل لك من إبل؟ » کہ ’’کیا تمہارے پاس اونٹ ہیں؟‘‘ اس نے عرض کیا: جی ہاں، پوچھا: « فما ألوانها؟ » کہ ’’ان کا رنگ کیا ہے؟‘‘ اس نے عرض کیا: سرخ، آپﷺ نے دریافت فرمایا: « هل فيها من أورق؟ » کہ ’’کیا ان میں کوئی گندمی رنگ کا اونٹ بھی ہے؟‘‘ عرض کیا: جی ہاں، گندمی بھی ہے، فرمایا: « فأنى ترى ذلك جاءها؟ » کہ ’’تمہارا کیا خیال ہے وہ کہاں سے آیا؟‘‘ عرض کیا: يا رسول الله! (اس کے دادا پردادا کی) کسی رگ نے اسے کھینچ لیا ہوگا (یعنی اوپر کی نسل میں کوئی اس رنگ کا اونٹ ہوگا) آپﷺ نے فرمایا: « ولعل هذا عرق نزعه » کہ ’’شائد اسے بھی کسی رگ نے کھینچ لیا ہو۔‘‘ صحیح البخاری ومسلم
اس سارے سوال وجواب کا مقصد قیاسِ صحیح کی تعلیم دینے کے علاوہ اور کیا ہے؟

سنن النسائی میں روایت ہے کہ نبی کریمﷺ سے خشک کھجور کی تر کھجور سے بیع کے متعلق سوال کیا گیا تو آپﷺ نے پاس موجود صحابہ کرام� سے پوچھا « أينقص الرطب إذا يبس » کہ ’’کیا تر کھجور خشک ہونے کے بعد ہم ہو جاتی ہے؟‘‘ انہوں نے عرض کیا: جی ہاں، تو آپﷺ نے اس سے منع فرما دیا۔ صحیح سنن النسائی
یہ بات تو ہر شخص کو معلوم ہے کہ تر کھجور خشک ہونے کے بعد کم ہو جاتی ہے، نبی کریمﷺ کے سوال کرنے کا مقصد صرف اس کی بیع منع ہونے کی علت بیان کرنا تھا کہ گویا یہ کم کھجور کی زیادہ کھجور کے ساتھ بیع کی مثل ہے، چونکہ وہ سود ہے لہٰذا یہ بھی جائز نہیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم!
•صحابہ کرام� سے قیاس کی مشروعیت اور ان سے بکثرت قیاس کرنا ثابت ہے،
سردَست اس کی دو مثالیں درج ذیل ہیں:

صحیح مسلم میں سیدنا ابن عباس� سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: « من ابتاع طعاما فلا يبعه حتى يستوفيه ». قال ابن عباس: وأحسب كل شيء مثله
کہ ’’جو شخص کھانا خریدے تو اسے پورا لینے سے پہلے نہ بیچے۔‘‘ سیدنا ابن عباس� فرماتے ہیں کہ میں ہر شے کو اسی (کھانے) کی مثل خیال کرتا ہوں۔
یعنی دیگر اشیاء کو بھی اس معاملے میں کھانے پر قیاس کرتا ہوں۔

سیدنا عمر� نے سیدنا ابو موسیٰ اشعری� کو خط لکھا، جس میں فرمایا: الفهم الفهم فيما يختلج في صدرك مما لم يبلغك في القرآن والسنة , اعرف الأمثال والأشباه ثم قس الأمور عند ذلك

ویسے بھی شریعت محمدیہ صرف نبی کریمﷺ کے زمانے تک محدود نہیں ہے، بلکہ قیامت تک کیلئے ہے، اور اس میں قیامت تک پیش آمدہ مسائل کا حل موجود ہے۔ ان مسائل کا بھی جو نبی کریمﷺ کے زمانے میں وقوع پذیر ہوئے اور ان مسائل کا بھی جو بعد میں ہوتے رہے اور قیامت تک پیش آتے رہیں گے۔ (اور ظاہر ہے کہ وہ نئے مسائل ہوں گے) بعض احکامات کا حل براہ راست کتاب وسنت سے (عبارۃ النص) مل جاتا ہے، جبکہ بعض احکامات کا حل براہِ راست نہیں، بلکہ فروع کو کسی علت کی بناء پر اصول پر قیاس کرکے ملتا ہے۔ اگر قیاس کا ہی انکار کر دیا جائے تو پھر شریعت محمدیہ قیامت تک کے مسائل کیسے حل کرے گی؟؟؟

کتاب وسنت میں یتیم کے مال کو کھانے کی بہت سخت وعید ہے، تو یتیم کے مال کو جلا دینا یا ضائع کر دیا اس پر قیاس کے باعث حرام ہے۔
ماں باپ کو اف کہنے کی بھی اجازت نہیں، تو ان سے بد زبانی اور مار پیٹ بالاولیٰ جائز نہیں۔
نبی کریمﷺ کے زمانے میں سواری کیلئے جانور اور کشتیاں استعمال ہوتی تھیں، آج سائنس کی ترقی کے بعد گاڑی، ٹریں اور جہاز وغیرہ کو انہی پر قیاس کیا جائے گا۔
سود اور جوئے کی موجودہ بہت سی صورتیں نبی کریمﷺ کے زمانے میں موجود نہیں تھیں، انہیں بھی مشترک علت کی بناء پر حرام کہا جائے گا۔ وغیرہ وغیرہ

لہٰذا ’قیاس صحیح‘ دین میں حجت ہے اور چونکہ اجماع کی طرح یہ کتاب وسنت سے ہی ثابت ہے لہٰذا یہ کتاب وسنت پر ہی عمل ہے، اس سے خارج نہیں۔

واللہ تعالیٰ اعلم!
اللہ تعالی استاد محترم کے علم و عمل میں اضافہ فرمائے ۔۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
رفیق طاہر صاحب کی وضاحت کا شکریہ! اس سے ان کے مقصود کلام کی وضاحت ہو گئی۔ جزاکم اللہ خیرا بھائی!
باقی شاید پہلا تاثر میرا بھی وہی تھا جو انس نضر صاحب کا تھا۔
 
Top