- شمولیت
- مارچ 04، 2011
- پیغامات
- 790
- ری ایکشن اسکور
- 3,982
- پوائنٹ
- 323
[FONT="]قیاس کی مذمت[/FONT]
[FONT="]دین السلام کی بنیادی چیزوں پر ہے، ایک اللہ تعالی کی کتاب قرآن مجید اور دوسری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت و حدیث۔ اللہ تعالی نے قرآن مجید مین متعدد مقامات پر ان دونوں کی اطاعت و تابعداری کا حکم فرمایا۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے آخری ایام میں ان ہی کے بارے میں فرمایا۔[/FONT]
[FONT="]تَرَکْتُ فِیْکُمْ اَمَرَیْنِ لَنْ تَضِلُّوْا مَا تَمَسَّکْتُمْ بِھِمَا: کِتَابُ اﷲِ وَسُنَّۃُ رَسُوْلِہٖ[/FONT]
[FONT="]([/FONT][FONT="]مشکوۃ شریف:جلد اول:حدیث نمبر 181)[/FONT]
[FONT="]ترجمہ: "میں تم میں دو چیزیں چھوڑ کر چلا ہوں تم گمراہ نہیں ہوگے جب تک مضبوطی سے ان کو پکڑے رکھو گے کتاب اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت"[/FONT] [FONT="] اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا جو بھی قرآٰن و حدیث کو چھوڑ دے گا وہ گمراہ ہوجائےگا۔ ابو حنیفہ کا شمار بھی ان لوگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے قرآن و حدیث کو چھوڑ دیا۔[/FONT] [FONT="]اور ابو حنیفہ نے قرآن و حدیث چھوڑ کر قیاس میں خوب مہارت حاصل کی۔ حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قیاس کرنے کی ممانت ہے ۔ امام المحدیثین امام بخاری نے حدیث بیان دین کے مسائل میں رائے پر عمل کرنے کی مذمت، اسی طرح بے ضرورت قیاس کرنے کی۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بیان کیا ہے۔[/FONT] [FONT="]ان اللہ لا ینزع العلم بعد ان اعطاکموہ انتزاعا ولکن ینتزعہ منھم مع قبض العلماء بعلمھم فیبقی ناس جھال یستفون فیفتون برایھم فیضلون ویضلون[/FONT][FONT="] [/FONT][FONT="](صحیح بخاری جلد 3 کتاب الاعتصام باب 1214 حدیث 2150 ص 932)[/FONT] [FONT="]بے شک اللہ تعالی یہ نہیں کرنے کا کہ علم تم کو دے کر پھر تم سے چھین لے بلکہ علم اس طرح اٹھائےگا کہ عالم لوگ مرجائیں گے۔ ان کے ساتھ علم بھی چلا جائے گا۔ اور چند جاہل لوگ رہ جائیں گے۔ ان سے کوئی مسئلا پوچھے گا تو اپنی رائے سے بات کرین گے۔ آپ بھی گمراہوں گے دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔[/FONT] [FONT="]حضرت علی رضہ اللہ عنہ نے قیاس کا رد ان الفاظ میں کیا ہے۔[/FONT]
[FONT="]لوکان الدین بالرای لکان اسفل الخف اولی بالمسح من اعلاوقد رایت رسول اللہﷺ یمسح علی ظاھر خفیہ[/FONT][FONT="] [/FONT][FONT="](سنن ابوداؤد ج اول کتاب الطھارۃ باب کیف المسح حدیث 162 ص 100)[/FONT][FONT="][/FONT]
[FONT="]اگر دین قیاس پر ہوتا تو موزے کے نیچے کی طرف مسح کرنا بہتر ہوتا۔ اوپر کی طرف سے حالانکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا مسح کرتے تھے موزوں کے اوپر۔[/FONT]
[FONT="]حضرت عبداللہ بن عمر رضہ اللہ عنہ حضرت جابر بن زید رضی اللہ عنہ سے کہتے تھے۔[/FONT]
[FONT="]انک من فقھاء البصرۃ فلا تفت الا بقران ناطق اوسنۃ ماضیۃ فان فعلت غیر ذلک ھلک واھلک[/FONT][FONT="] [/FONT][FONT="](سنن دارمی جلد اول ص 54)[/FONT][FONT="][/FONT] [FONT="]تم بصرہ کے فقہاء میں سے ایک ہو تم صرف قرآن کے حکم کے ذریعے فتوی دیا کرو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے ذریعے فتوی دیا کرو اگر تم اس کے علاوہ کسی دوسرے طریقے سے فتوی دو گے تو تم بھی ہلاک ہوجاؤ گے اور دوسروں کو بھی ہلاک کرو گے۔[/FONT] [FONT="]ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر تم نے دین میں قیاس سے علم حاصل کرنا شروع کردیا تو تم بہت سے حرام کو حلال کرلو گے اور بہت سے حلال کو حرام کرلو گے۔[/FONT]
[FONT="]قاضی شریح رحمہ اللہ: نے کہا کہ سنت تلوار ہے جو قیاس کی گردن اڑانے کے لئے ہے۔[/FONT][FONT="] [/FONT][FONT="](اعلام الموقعین جلد اول ص228)[/FONT]
[FONT="]امام حماد بن زید رحم اللہ نے کہا کسی نے امام ایوب سختیانی رحم اللہ سے کہا آپ رائے اور قیاس سے کام کیوں نہیں لیتے ۔ آ پ نے کہا یہ تو ایسا ہی سوال ہے جیسا کسی نے گدھے سے پوچھا تم جگالی کیوں نہیں کرتے ؟ بولا میں باطل اور بے کار چیز کو چبانا پسند نہیں کرتا۔[/FONT][FONT="] (تذکرۃ الحفاظ جلد اول ص 120،121)[/FONT] [FONT="]امام ابن خلدون رحم اللہ کہتے ہیں فقہ کی تقسیم دو طریقہ پر ہوگئی اہل عراق رائے اور قیاس والے تھے اور اہل حجاز اصحاب حدیث تھے ۔ عراقیوں (اہل الرای ) میں حدیث کم تھی تو انہوں نے کثرت سے قیاس کا استعمال کیا اور اس کے استعمال میں مہارت حاصل کی۔ جسکی وجہ سے ان کا نام ہی رائے والے پڑگیا اس گروہ کے سردار ابو حنیفہ اور ان کے شاگرد تھے اور اہل حجاز (اصحاب حدیث) کے امام مالک رحمہ اللہ ، امام شافعی رحمہ اللہ اور ان کے بعد کے (محدثین تھے)[/FONT][FONT="] [/FONT][FONT="](داستان حنیفہ ص 22)۔[/FONT][FONT="][/FONT] [FONT="]علامہ شہرستانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:[/FONT]
[FONT="]اصحاب الرای ھم اھل العراق وھم اصحاب ابی حنیفۃ وانما سمو ا اصحاب الرای لان اکثر عنایتھم بتحصیل وجہ القیاس[/FONT][FONT="] [/FONT][FONT="](الملل و النحل ص 188)[/FONT][FONT="][/FONT]
[FONT="]عراق اصحاب الرائے تھے اور یہ ابو حنیفہ کے شاگرد اور اصحاب ہیں ان کا نام اصحاب الرائے اس وجہ سے ہے کہ ان کی زیادہ تر کوشش قیاس کے ذریعہ ہوتی تھی۔[/FONT]
[FONT="]علامہ ابن حزم رحم اللہ نے کہا کسی دینی مسئلا کے بارے میں قیاس و رائے سے فیصلا کرنا حرام ہے۔ اس لئے کہ اللہ تعالی نے نزاع کے صورت میں کتاب و سنت کی جانب رجوع کرنے کا حکم دیا ہے۔ بخلاف ازیں جو شخص قیاس و رائے یا کسی خود ساختہ علت کی طرف رجوع کرتا ہے وہ حکم الہی کی خلاف ورزی کرتا ہے[/FONT][FONT="]۔ [/FONT][FONT="]( المحلی ابن حزم جلد اول ص105)[/FONT] [FONT="]امام جعفر بن محمد بن علی بن حسین رحمہ اللہ نے ایک مرتبہ ابو حنیفہ سے کہا اللہ سے ڈرو اور قیاس نہ کیا کر ہم کل اللہ کے سامنے کھڑے ہوں گے ہم بھی اور ہمارے مخالف بھی ۔ ہم تو کہیں گے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور تم اور تمہارے ساتھی کہیں گے ہماری رائے یہ تھی اور ہمارا قیاس یہ تھا۔ پس اللہ تعالی ہمارے اور تمہارے ساتھ وہ کرے گا جو چاہے۔[/FONT][FONT="] [/FONT][FONT="](اعلام الموقعین جلد اول ص 229)[/FONT][FONT="][/FONT] [FONT="]الغرض دین اسلام میں [/FONT][FONT="]قرآن و حدیث چھوڑ کر قیاس کرنے کی قطعا اجازت نہیں[/FONT][FONT="] اور ابو حنیفہ کا قیاس ہمارے لئے حجت نہیں ۔ ہمارے لئے حجت اللہ کا قرآن اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے۔
تحریر : خرم شہزاد
[/FONT]