• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قیام اللیل - قیام رمضان

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
513
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
قیام اللیل - قیام رمضان

1. صلاۃ اللیل، قیام اللیل، صلاۃ تہجد، وتر (بعض نصوص میں) اسی طرح رمضان کے مہینہ میں قیام رمضان اور صلاۃ تراویح (بعد کے ادوار میں) یہ سب در حقیقت ایک ہی صلاۃ کے مختلف نام ہیں جو رات میں صلاۃ عشاء کے بعد اور وقت فجر سے پہلے ادا کی جاتی ہے.

اسی وجہ سے جب ابو سلمہ بن عبد الرحمن بن عوف نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیا تھا :كيف كانت صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم في رمضان ؟
تو انہوں نے جواب دیا: ما كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يزيد في رمضان ولا في غيره على إحدى عشرة ركعة.
(صحیح بخاری 1147)

جس سے معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے مہینہ میں قیام رمضان یا صلاۃ تراویح کے نام سے کوئی اضافی صلاۃ نہیں ادا کیا کرتے تھے.

2. قیام اللیل یا قیام رمضان کا وقت صلاۃ عشاء کے بعد سے طلوع فجر سے پہلے تک ہوتا ہے.
عن علي رضی اللہ عنہ قال : من كل الليل قد أوتر رسول الله صلى الله عليه وسلم من أوله، وأوسطه، وانتهى وتره إلى السحر.

(سنن ابن ماجہ 1186)
وعن عائشة رضی اللہ عنہا قالت : كل الليل أوتر رسول الله صلى الله عليه وسلم وانتهى وتره إلى السحر.
(صحیح بخاری 996)

3. صلاۃ اللیل کا افضل وقت رات کا آخری پہر ہے.
عن عبد الرحمن بن عبد القاري أنه قال: خرجت مع عمر بن الخطاب رضي الله عنه ليلة في رمضان إلى المسجد، فإذا الناس أوزاع متفرقون، يصلي الرجل لنفسه، ويصلي الرجل فيصلي بصلاته الرهط، فقال عمر : إني أرى لو جمعت هؤلاء على قارئ واحد لكان أمثل. ثم عزم فجمعهم على أبي بن كعب، ثم خرجت معه ليلة أخرى والناس يصلون بصلاة قارئهم، قال عمر : نعم البدعة هذه، والتي ينامون عنها أفضل من التي يقومون. يريد آخر الليل، وكان الناس يقومون أوله.

(صحيح بخاري 2010)

وعن أبي هريرة رضی اللہ عنہ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " ينزل ربنا تبارك وتعالى حين يبقى ثلث الليل الآخر كل ليلة، فيقول: من يسألني فأعطيه ؟ من يدعوني فأستجيب له ؟ من يستغفرني فأغفر له ؟ حتى يطلع الفجر ". فلذلك كانوا يستحبون صلاة آخر الليل على أوله.
(سنن ابن ماجہ 1366)

4. صلاۃ اللیل کی رکعات کی کوئی متعین تعداد نہیں جس میں کمی اور بیشی کی گنجائش نہ ہو. ابن عبد البر فرماتے ہیں : "لا خلاف بين أهل العلم أن صلاة الليل ليس له حد محدود، بل هو فعل خير وعمل بر، فمن شاء استقل ومن شاء استكثر. " التمهيد

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قیام اللیل کبھی سات کبھی نو کبھی گیارہ اور کبھی تیرہ رکعات ادا فرمایا کرتے تھے، البتہ آپ کا عمومی معمول گیارہ رکعات کا تھا. اس تعلق سے چند احادیث ملاحظہ ہوں :

عن مسروق قال : سألت عائشة رضي الله عنها عن صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم بالليل، فقالت : سبع وتسع، وإحدى عشرة، سوى ركعتي الفجر.
(صحیح بخاری 1139)

عن عبد الله بن أبي قيس قال : قلت لعائشة رضي الله عنها : بكم كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يوتر ؟ قالت : كان يوتر بأربع وثلاث، وست وثلاث، وثمان وثلاث، وعشر وثلاث، ولم يكن يوتر بأنقص من سبع، ولا بأكثر من ثلاث عشرة.
(سنن ابى داود 1362)

عن أبي سلمة بن عبد الرحمن أنه سأل عائشة رضي الله عنها : كيف كانت صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم في رمضان ؟ فقالت : ما كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يزيد في رمضان ولا في غيره على إحدى عشرة ركعة، يصلي أربعا فلا تسأل عن حسنهن وطولهن، ثم يصلي أربعا فلا تسأل عن حسنهن وطولهن، ثم يصلي ثلاثا.
(صحيح بخاری 1147)

مذکورہ تینوں احادیث ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے منقول ہیں جن سے یہ واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ صلوات خمسہ کی متعینہ رکعات کی طرح سے صلاۃ اللیل کی رکعات کی تعداد متعین نہیں جس میں کمی بیشی کی گنجائش نہ ہو.

اسی وجہ سے اسلاف کے یہاں اس سلسلہ میں مختلف معمول رہا ہے.
امام ترمذی رحمہ اللہ قیام رمضان کے تعلق سے فرماتے ہیں : رأى بعض أهل العلم أن يصلي إحدى وأربعين ركعة مع الوتر وهو قول أهل المدينة والعمل على هذا عندهم بالمدينة. اور امام شافعی وغیرہ ائمہ سے بیس کا قول نقل کر کے فرماتے ہیں : وقال الشافعي: وهكذا أدركت ببلدنا بمكة يصلون عشرين ركعة. وقال أحمد : روي في هذا ألوان ولم يقض فيه بشيء. (سنن ترمذى كتاب الصوم باب ما جاء في قيام شهر رمضان)

5. اس وقت مسلمانان عالم میں قیام رمضان میں معمول بہ آٹھ یا بیس رکعات ہیں، اور دونوں ہی فریق اپنے اپنے عمل کو افضل قرار دینے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور صرف کرتے ہیں ، آئیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چند احادیث کی روشنی میں اسے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں :
عن جابر رضي الله عنه قال : سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم ؛ أي الصلاة أفضل ؟ قال : " طول القنوت ".

(صحیح مسلم 756/165)

عن عبد الله بن عمرو رضي الله عنهما قال : قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم : " أحب الصيام إلى الله صيام داود ؛ كان يصوم يوما ويفطر يوما، وأحب الصلاة إلى الله صلاة داود ؛ كان ينام نصف الليل ويقوم ثلثه وينام سدسه ".
(صحیح بخاری 3420)

اور خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول بھی تقریباً ثلث لیل کا ہی تھا :

عن كريب - مولى ابن عباس - أن عبد الله بن عباس أخبره أنه بات ليلة عند ميمونة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، وهي خالته، ... فنام رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى إذا انتصف الليل، أو قبله بقليل أو بعده بقليل، استيقظ رسول الله صلى الله عليه وسلم ... ثم قام إلى شن معلقة فتوضأ منها فأحسن وضوءه ثم قام يصلي، قال ابن عباس : فقمت فصنعت مثل ما صنع، ثم ذهبت فقمت إلى جنبه ... فصلى ركعتين، ثم ركعتين، ثم ركعتين، ثم ركعتين، ثم ركعتين، ثم ركعتين، ثم أوتر، ثم اضطجع حتى أتاه المؤذن، فقام فصلى ركعتين خفيفتين ثم خرج فصلى الصبح. (صحیح بخاری 183)

اب اگر کوئی گیارہ رکعات کے ساتھ ثلث لیل قیام کرتا ہے اور دوسرا بیس رکعات کے ساتھ ایک گھنٹہ قیام کرتا ہے اور رکعات کی زیادتی کی وجہ سے اپنی صلاۃ کو افضل تصور کرتا ہے تو یہ اس کی خام خیالی ہو گی.

اسی طرح اگر کوئی بیس رکعات کے ساتھ ثلث لیل قیام کرتا ہے اور دوسرا گیارہ رکعات کے ساتھ ایک گھنٹہ قیام کرتا ہے اور اپنی صلاۃ کو افضل تصور کرتا ہے تو وہ بھی بعید عن الصواب ہے، کیونکہ فرمان نبوی ہے: "أفضل الصلاة طول القنوت" اور "أفضل الصلاة صلاة داود" - ثلث الليل -
اب اگر کوئی دونوں کو ایک ساتھ جمع کر لیتا ہے (یعنی ثلث لیل، طول قنوت اور سات، نو، گیارہ یا تیرہ رکعات) تو اس کے افضل ترین ہونے میں شبہہ نہیں ہونا چاہئے.

هذا ما تبين لي والله أعلم بالصواب

كتبه: عبد البر بن حقيق الله مدنی
 
Top