• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قیام اللیل کے مسائل وفضائل

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
بسم اللہ الرحمن الرحیم

قیام اللیل کے مسائل وفضائل


محمد رفیق طاہر حفظہ اللہ
قیام اللیل کے فضائل ومسائل رمضان المبارک کی راتوں میں قیام اللیل کا خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے جسے رمضان المبارک کی نسبت سے قیام رمضان اور طویل قیام کے سبب کبھی ایک پاؤں اور کبھی دوسرے پر مکمل وزن ڈال کر ایک پاؤں کو راحت پہنچانے کی نسبت سے نماز تراویح کہتے ہیں ۔
اور چونکہ اسکے ساتھ ہی وتر بھی ادا کیے جاتے ہیں تو اس مناسبت سے مکمل قیام اللیل یا تراویح کو نماز وتر بھی کہہ دیتے ہیں ۔ اور ہُجُود یعنی رات کی نیند کو ترک کرکے اس نماز کو ادا کرنے کی وجہ سے اسی نماز کو ہی نماز تہجد بھی کہا جاتا ہے ۔

قیام اللیل کی فضیلت:

اس نماز کی بہت بڑی فضیلت ہے ۔

رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں :

مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ (صحيح البخاري : 37 )

جس نے بھی رمضان کا قیام ایمان کی حالت میں نیکی کی نیت سے کیا تو اسکے گزشتہ تمام گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔

تروایح کی رکعات:

رسول اللہ ﷺ بھی رمضان و غیر رمضان میں گیارہ رکعت قیام اللیل فرماتے ۔ (صحیح بخاری : ۲۰۱۳)

رسول اللہ ﷺ نے بھی اپنے اصحاب کو آٹھ رکعت تراویح اور وتر باجماعت پڑھائے تھے ۔

سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ ثَمَانَ رَكَعَاتٍ، وَأَوْتَرَ، فَلَمَّا كَانَتِ اللَّيْلَةُ الْقَابِلَةُ اجْتَمَعْنَا فِي الْمَسْجِدِ، وَرَجَوْنَا أَنْ يَخْرُجَ فَيُصَلِّيَ بِنَا، فَأَقَمْنَا فِيهِ حَتَّى أَصْبَحْنَا، فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، رَجَوْنَا أَنْ تَخْرُجَ فَتُصَلِّيَ بِنَا، قَالَ: «إِنِّي كَرِهْتُ - أَوْ خَشِيتُ - أَنْ يُكْتَبَ عَلَيْكُمُ الْوِتْرُ» (صحیح ابن حبان : 2415)

رسول اللہ ﷺ نے ہمیں رمضان المبارک میں آٹھ رکعت (نماز تراویح) اور وتر پڑھائے , تو جب اگلی رات آئے ہم مسجد میں جمع ہوئے , اور ہمیں امید تھی کہ آپ ﷺ نکلیں گے اور ہمیں نماز پڑھائیں گے , ہم صبح تک وہیں رہے ۔ تو ہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ ہم آپ ﷺ کے نکلنے کی امید رکھتے تھے کہ آپ ﷺ ہمیں نماز پڑھائیں گے ۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا میں نے ناپسند کیا یا میں ڈر گیا کہ کہیں تم پر وتر فرض نہ ہو جائے ۔

اسی طرح جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے ایک اور روایت ہے وہ فرماتے ہیں :

جَاءَ أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَانَ مِنِّي اللَّيْلَةَ شَيْءٌ فِي رَمَضَانَ، قَالَ: «وَمَا ذَاكَ يَا أُبَيُّ؟» قَالَ: نِسْوَةٌ فِي دَارِي قُلْنَ: إِنَّا لَا نَقْرَأُ الْقُرْآنَ، فَنُصَلِّي بِصَلَاتِكَ، قَالَ: فَصَلَّيْتُ بِهِنَّ ثَمَانِيَ رَكَعَاتٍ، ثُمَّ أَوْتَرْتُ، قَالَ: فَكَانَ شِبْهُ الرِّضَا، وَلَمْ يَقُلْ شَيْئًا (صحيح ابن حبان : 2549)

اُبیّ بن کعب رضی اللہ عنہ نبی ﷺ کے پاس آئے اور کہنے لگے : اے اللہ کے رسول ﷺ رمضان کی گزشتہ رات مجھ سے کچھ ہوا ہے ۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا : اے ابی وہ کیا ہوا؟ کہنے لگے میرے گھر میں کچھ عورتیں تھیں انہوں نے کہا کہ ہم قرآن نہیں پڑھ سکتی تو ہم تیری اقتداء میں نماز پڑھنا چاہتی ہیں , کہتے ہیں کہ میں نے انہیں آٹھ رکعتیں پڑھائیں اورپھر ایک وتر پڑھائے ۔

(عبد اللہ بن جابر رضی اللہ عنہ) کہتے ہیں کہ آپ ﷺ نے اس پر کچھ بھی نہیں کہا اور یہ آپ ﷺ کی رضامندی ظاہر کرنے کی طرح ہی ہوگیا ۔ یعنی رسول اللہ ﷺ نے خود بھی رمضان المبارک میں آٹھ تراویح اور وتر پڑھائے اور آپ ﷺ کے بعض صحابہ نے بھی آپ ﷺ کے دور مسعود میں آٹھ رکعت اور وتر باجماعت پڑھائے , اور یہ بات آپ ﷺ کے علم میں بھی لائی گئی اور آپ ﷺ نے اس پر خاموشی اختیار کی ۔ یعنی آپﷺ کی فعلی اور تقریری حدیث سے رمضان المبارک میں آٹھ رکعت تراویح اور تین وتر باجماعت پڑھنا پڑھانا ثابت ہے ۔

اسی طرح سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں گیارہ رکعت تراویح کا اہتمام فرمایا :

عَنْ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ أَنَّهُ قَالَ أَمَرَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ وَتَمِيمًا الدَّارِيَّ أَنْ يَقُومَا لِلنَّاسِ بِإِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً قَالَ وَقَدْ كَانَ الْقَارِئُ يَقْرَأُ بِالْمِئِينَ حَتَّى كُنَّا نَعْتَمِدُ عَلَى الْعِصِيِّ مِنْ طُولِ الْقِيَامِ وَمَا كُنَّا نَنْصَرِفُ إِلَّا فِي فُرُوعِ الْفَجْرِ (موطا مالك : 253)

سیدنا سائب بن یزید الکندی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے اُبَیّ بن کعب اور تمیم داری رضی اللہ عنہما کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو گیارہ رکعت (آٹھ تراویح اور تین وتر) پڑھائیں ۔ (سائب رضی اللہ عنہ ) فرماتے ہیں کہ قاری مِئِین (وہ سورتیں جنکی آیات سو سے زائد ہیں ) پڑھتے تھے حتى کہ ہم لمبا قیام ہونے کی وجہ سے لاٹھیوں کا سہارا لیا کرتے اور ہم فجر کے قریب ( نماز سے واپس ) لوٹتے ۔

کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ شاید سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے اس حکم سے قبل لوگ باجماعت نماز تراویح ادا نہیں کرتے تھے ۔ تو انکا یہ خیال خام ہے ۔ کیونکہ اس سے قبل جیسا کہ سابقہ سطور میں ذکر کیا گیا ہے رسول اللہ ﷺ نے خود بھی کچھ دن نماز تراویح باجماعت پڑھائی ہے اور فرض ہونے کے خدشہ سے ترک کر دی , اور آپ ﷺ کے زمانہ مبارکہ میں آپ ﷺ کے اصحاب رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بھی باجماعت نماز تراویح پڑھی ۔ اور باجماعت نماز تراویح کا یہ سلسلہ آپ ﷺ کے دور مسعود سے آج تک مسلسل چلا آرہا ہے ۔ ہو ا صرف یہ کہ لوگ ایک ہی مسجد میں مختلف گروہوں کی صورت نماز پڑھتے تھے ۔

تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ایک مسجد کے تمام لوگوں کو ایک امام کے پیچھے جمع فرما دیا :

عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدٍ الْقَارِيِّ أَنَّهُ قَالَ خَرَجْتُ مَعَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ لَيْلَةً فِي رَمَضَانَ إِلَى الْمَسْجِدِ فَإِذَا النَّاسُ أَوْزَاعٌ مُتَفَرِّقُونَ يُصَلِّي الرَّجُلُ لِنَفْسِهِ وَيُصَلِّي الرَّجُلُ فَيُصَلِّي بِصَلَاتِهِ الرَّهْطُ فَقَالَ عُمَرُ إِنِّي أَرَى لَوْ جَمَعْتُ هَؤُلَاءِ عَلَى قَارِئٍ وَاحِدٍ لَكَانَ أَمْثَلَ ثُمَّ عَزَمَ فَجَمَعَهُمْ عَلَى أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ ثُمَّ خَرَجْتُ مَعَهُ لَيْلَةً أُخْرَى وَالنَّاسُ يُصَلُّونَ بِصَلَاةِ قَارِئِهِمْ قَالَ عُمَرُ نِعْمَ الْبِدْعَةُ هَذِهِ وَالَّتِي يَنَامُونَ عَنْهَا أَفْضَلُ مِنْ الَّتِي يَقُومُونَ يُرِيدُ آخِرَ اللَّيْلِ وَكَانَ النَّاسُ يَقُومُونَ أَوَّلَهُ (صحيح البخاري : 2010 )

عبد الرحمن بن عبد القاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ رمضان کی رات مسجد کی طرف گیا تو دیکھا کہ لوگ مختلف گروہوں میں تھے , کوئی اکیلا نماز پڑھ رہا تھا توکسی کی اقتداء میں ایک گروہ نماز کی ادائیگی کر رہا تھا ۔ تو عمر رضی اللہ عنہ فرمایا میرا خیال ہے کہ اگر میں انہیں ایک ہی قاری کے پیچھے جمع کر دوں تو زیادہ بہتر ہوگا ۔ پھر انہوں نے اس کام کا پختہ ارادہ بنا لیا اور انہیں اُبَیّ بن کعب رضی اللہ عنہ کی اقتداء میں جمع کر دیا ۔ پھر میں انکے ساتھ ایک دوسری رات کو نکلا اور لوگ اپنے قاری کی اقتداء میں نماز پڑھ رہے تھے تو عمر رضی اللہ عنہ فرمایا یہ اچھی ایجاد ہے , اور رات کے جس حصہ میں وہ سو جاتے ہیں وہ اس کی نسبت بہتر ہے جس میں وہ قیام کرتے ہیں ۔ وہ (بہتر حصہ سے ) رات کا آخری حصہ مراد لے رہے تھے , جبکہ لوگ رات کے پہلے حصہ میں قیام کرتے تھے ۔

قیام اللیل میں فضیلتیں :

قیام اللیل میں چار مختلف اعتبارات سے فضائل ہیں ۔

۱۔ با جماعت پڑھنا اکیلے پڑھنے کی نسبت افضل وبہتر ہے ۔

کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے :

صَلَاةُ الْجَمَاعَةِ تَفْضُلُ صَلَاةَ الْفَذِّ بِسَبْعٍ وَعِشْرِينَ دَرَجَةً (صحيح البخاري : 645)

جماعت کی نماز اکیلے کی نماز کی نسبت ستائیس گنا افضل ہے ۔

۲۔ جماعت میں افراد جتنے زیادہ ہوں گے, نماز اللہ کو اتنی ہی زیادہ محبوب ہوگی ۔

رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے :

إِنَّ صَلَاةَ الرَّجُلِ مَعَ الرَّجُلِ أَزْكَى مِنْ صَلَاتِهِ وَحْدَهُ وَصَلَاتُهُ مَعَ الرَّجُلَيْنِ أَزْكَى مِنْ صَلَاتِهِ مَعَ الرَّجُلِ وَمَا كَثُرَ فَهُوَ أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ تَعَالَى (سنن أبي داود : 554)

یقینًا آدمی کی ایک آدمی کے ساتھ نماز اکیلے کی نماز کی نسبت زیادہ پاکیزہ ہے اور اسکی دو آدمیوں کے ساتھ نماز ایک آدمی کے ساتھ نماز کی نسبت زیادہ بہتر ہے اور جتنی زیادہ (جماعت) ہو تو وہ اللہ تعالى کو زیادہ محبوب ہے ۔

۳۔ رات کے آخری حصہ میں نماز پڑھنا رات کے اول حصہ میں نماز پڑھنے کی نسبت بہتر ہے ۔

رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے :

يَنْزِلُ رَبُّنَا تَبَارَكَ وَتَعَالَى كُلَّ لَيْلَةٍ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا حِينَ يَبْقَى ثُلُثُ اللَّيْلِ الْآخِرُ يَقُولُ مَنْ يَدْعُونِي فَأَسْتَجِيبَ لَهُ مَنْ يَسْأَلُنِي فَأُعْطِيَهُ مَنْ يَسْتَغْفِرُنِي فَأَغْفِرَ لَهُ ( صحيح البخاري : 1145 )

ہمارے رب تبارک وتعالى ہر رات جب رات کا تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے تو آسمان دنیا پر اترتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ كون هہے جو مجھ سے دعاء کرے ,میں اسکی دعاء قبول کروں۔ کون ہے جو مجھ سے سوال کرے کہ میں اسے عطاء کردوں ۔ کون ہے جو مجھے سے معافی مانگے , میں اسے معاف کر دوں

۔ ۴۔ گھر میں پڑھنا مسجد میں پڑھنے کی نسبت افضل وبہتر ہے ۔

کیونکہ یہ نماز نفلی ہے اور نفل نماز کےبارہ میں رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے :

قَالَ صَلَاةُ الْمَرْءِ فِي بَيْتِهِ أَفْضَلُ مِنْ صَلَاتِهِ فِي مَسْجِدِي هَذَا إِلَّا الْمَكْتُوبَةَ (سنن أبي داود : 1044)

فرضی نماز کے سوا ,آدمی کی گھر میں نماز میری اس مسجد (یعنی مسجد نبوی) میں نماز پڑھنے کی نسبت افضل ہے ۔ لہذا آدمی کو چاہیے ان چاروں میں سے جتنی زیادہ فضیلتوں کو جمع کر سکتا ہے کر لے ۔ اور اگر کوئی شخص رات کے آخری حصہ میں باجماعت کثیر تعداد کے ساتھ اپنے گھر میں قیام اللیل کرنے کا اہتمام کرتا ہے تو اسکی نماز سب سے ا فضل وبہتر ہوگی کیونکہ وہ ہر چار خوبیوں کو جمع کرنے والا ہے ۔

مصدر:

http://www.rafeeqtahir.com/ur/play-article-227.html#.V1EQ1de7VsI.facebook
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ ثَمَانَ رَكَعَاتٍ، وَأَوْتَرَ، فَلَمَّا كَانَتِ اللَّيْلَةُ الْقَابِلَةُ اجْتَمَعْنَا فِي الْمَسْجِدِ، وَرَجَوْنَا أَنْ يَخْرُجَ فَيُصَلِّيَ بِنَا، فَأَقَمْنَا فِيهِ حَتَّى أَصْبَحْنَا، فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، رَجَوْنَا أَنْ تَخْرُجَ فَتُصَلِّيَ بِنَا، قَالَ: «إِنِّي كَرِهْتُ - أَوْ خَشِيتُ - أَنْ يُكْتَبَ عَلَيْكُمُ الْوِتْرُ» (صحیح ابن حبان : 2415)
اس روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا صرف ایک دفعہ کا باجماعت قیام رمضان کا ذکر ہے۔ روایت سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ آخری دفعہ کا ذکر ہے۔ جیسا کہ روایت میں ہے کہ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے باجماعت قیام نہ فرمایا۔
قابلِ غور
1- اگر یہ آخری بار کی بات ہے تو دوسری احادیث سے معلوم ہے کہ یہ قیام سحری تک طویل تھا۔
2- اس سے پہلے کا دو دفعہ کا باجماعت قیام (پہلا تہائی رات تک دوسرا نصف رات تک) کی طوالت اس سے کم تھی۔
پہلے باجماعت قیام (جو کہ تہائی رات تک ہؤا) اور دوسرے باجماعت قیام (جو کہ نصف رات تک ہؤا) کی رکعات کتنی تھیں؟
کیا اتنی ہی جتنی مذکورہ روایت میں ہے؟
بقیہ رات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا مزید رکعات پڑھیں کہ نہیں؟
ان اشکالات کا بدلیل تصفیہ فرمادیں۔ شکریہ
 
Top