• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

كيا آغا خانى مسلمان ہيں؟

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
كيا آغا خانى مسلمان ہيں؟

مولانا عبدالرحمن كيلانى 
مفسر تيسير القرآن​

… حصہ اول …

اس حصہ ميں ايسے عقائدونظريات كا ذكر ہے جن ميں كم از كم نام كى حد تك تمام مسلمانوں اور اسماعيليوں ميں اشتراك موجود ہے :
الف : اركانِ اسلام
(1) كلمہ شہادت
اسلام ميں داخل ہونے كے لئے كلمہ شہادت كا زبان سے اقرار كرنا ضرورى ہے- اس كلمہ كے دو اجزا ہيں يعنى أشهد أن لا إله إلا الله اور أشهد أن محمدًا رّسول الله اور اگر كوئى مسلمان بهى ان دونوں اجزا يا دونوں ميں سے كسى كا زبانى يا معنوى طور پر انكار كردے، يا اس سے ايسے اعمال سرزد ہوں جن سے اس كلمہ كے كسى جزو كى ترديد ہوتى ہو تو وہ شخص دائرئہ اسلام سے خارج سمجھاجائے گا-
قاديانيوں نے اس كلمہ كے دوسرے جزو كا معنوى طور پر انكار كيا- يعنى رسول اللہ ﷺ كى رسالت كو تاقيامت واجب الاتباع تسليم كرتے ہوئے ايك اور ’نبى كى نبوت‘ كو تسليم كرليا تو پاكستان كى عدالت ِعاليہ نے اس فرقہ كو ١٩٧٥ء ميں غير مسلم قرار دے ديا تها-
تمام اہل سنت كے برعكس آغا خانى (اسماعيليہ) فرقہ كے كلمہ شہادت كے اجزا دو نہيں بلكہ تين ہيں: أشهد أن لا إله الله وأشهد أن محمد رسول الله وأشهد أن أمير الموٴمنين علي الله
علاوہ ازيں ان كے ہاں پہلے دو اجزا (جو سب مسلمانوں ميں مشترك ہيں) كا بهى وہ مفہوم نہيں،جو دوسرے مسلمانوں كے ہاں پايا جاتاہے-كلمہ كے پہلے جزء لا الہ الا اللہ كا عام مفہوم يہ ہے كہ اللہ كے سوا كوئى معبود يا عبادت كے لائق نہيں- اگرچہ بعض مسلمانوں نے اللہ تعالىٰ كى بعض صفات اُلوہيت، يعنى مشكل كشائى اور حاجت روائى وغيرہ ميں اپنے زندہ يا فوت شدہ بزرگوں اور پيروں كو بهى شامل كرليا تاہم غير اللہ كو سجدہ كرنا ايسا عمل ہے جسے مسلمانوں كے تمام فرقے حرام سمجھتے ہيں مگر اسماعيلى اپنے حاضر امام كو سجدہ كرتے اوراس كو كارِ ثواب اور اصل عبادت سمجھتے ہيں- درج ذيل اقتباسات ملاحظہ فرمائيے :
(i)”اس دنيا ميں جوموٴمن پہلے تهے اور جو موٴمن اس وقت ہيں اور جو آئندہ ہوں گے سب مومن’شاه پير‘كى عبادت كرتے تهے، كررہے ہيں اور كرتے رہيں گے-“
(ii) ”پير شاہ ہمارے گناہ بخش ديتے ہيں… امام حاضر كو ہم ’پيرشاہ‘ كہتے ہيں-“
(iii) امام (على) كے ظاہر ہونے كے بعد اللہ نے اسلام كو مقبول كيا اور پيغمبر كا دور ختم ہوا، اس كے بعد كوئى پيغمبر اس دنيا ميں نہيں آيا- اس كے معنى يہ ہيں كہ امام كا ظہور اللہ كا ظہور ہے جس كى پہچان اللہ كى پہچان ہے جس كى بندگى اللہ كى بندگى ہے جس كى حمد اللہ كى حمد ہے جس كى بيعت اللہ كى بيعت ہے جس كى فرمانبردارى اللہ كى فرمانبردارى ہے-“
ان اقتباسات سے معلوم ہوتا ہے كہ اسماعيليہ نے زبانى اقرار كے باوجود، اپنے حاضر امام ميں تمام صفاتِ اُلوہيت ماننے كى بنا پر معنوى طور پر لا إلہ إلا اللہ كى ترديد كردى ہے، اور عملى طور پر جس كى ترديد كى، اس كا بيان آگے آئے گا-
اب كلمہ شہادت كے دوسرے جز محمّد رسول اللہ كى طرف آيئے- اس كا عام مفہوم يہ ہے كہ رسول اللہ ﷺ كے صحيح اور ثابت شدہ تمام اقوال و افعال قيامت تك كے لئے تمام مسلمانوں كے لئے واجب الاتباع ہيں- آپ ﷺ كے قول يا فعل كے مقابلے پر كسى كا قول يا فعل ترك كرديا جائے گا- اسماعيليہ كا زبانى دعوىٰ يہى ہے كہ جيسا كہ اسماعيليہ تعليمات پرائمر كے ص ٥ پر’ذہنى مشق‘ كے عنوان كے نيچے يوں لكها ہوا ہے :
اسلام
الله قرآن شريف
رسول ﷺ حديث شريف
حاضر امام فرمان مبارك
پير گنان شريف
مگر عملاً حاضر امام كے فرمانِ مبارك كے مقام كے بالمقابل حديث شريف كا تو ذكر ہى كيا، وہ فرمانِ مبارك قرآن كے مقابلہ ميں يا تو اس كے ہم پلہ ہوتے ہيں يا اس سے بلند تر درجہ ركهتے ہيں- درج ذيل اقتباسات ملاحظہ فرمائيے :
(1)”قرآن شريف كى صحيح سمجھ اور اس كے چھپے بهيدوں كے صحيح معنى اور صحيح علم امام حاضر كو ہى ہوتا ہے- امام حاضر قرآنِ ناطق (بولتا ہوا قرآن) ہے، اس لئے اس كے فرمانوں كے مطابق عمل كرنا چاہئے-“
(2)”نزول وحى كا سلسلہ ختم ہونے كے بعد زمانہ كے اماموں كى معرفت ان كے فرمانوں كى شكل ميں جو ہدايات كى جاتى ہيں وہ اللہ كے كلام كے برابر ہيں-“
(3) ”اللہ نے حضرت پيغمبر كى معرفت تيس پارے نازل كئے- (باقى دس پارے) زمانہ كے اماموں كى معرفت ان كے فرمانوں كى شكل ميں ظاہرہورہے ہيں-“
درج بالا ہر دو اقتباسات ميں فرامين حاضر امام كو قرآن كے ہم پلہ قرار ديا گيا ہے- ليكن درج ذيل فرمان ميں، فرمان تو دركنار گنان كا درجہ بهى قرآن سے بڑها ديا گيا ہے-
ملاحظہ فرمائيے :
(4)”آپ لوگوں كے لئے جو علم ہے وہ گنان ہے- قرآن شريف كو تيرہ سو سال ہوچكے ہيں وہ ملك عرب كى آبادى كے لئے ہے- جبكہ گنان كو سات سو سال ہوئے ہيں اور تم لوگوں كے لئے گنان ہے اور اسى پر عمل كرنا-“
قرآن كو چهوڑنے اور گنان كو اپنانے كى و جہ بهى خوب بتلائى ہے- آنجہانى سرآغا خان سوم سلطان محمد شاہ اپنے فرامين كى قرآن پر بالادستى كا اظہار يوں فرما رہے ہيں:
(5) ”دين كى ہدايت كے لئے صرف كتابيں اور تحريرى الفاظ ہى كافى نہيں-“ (لندن جماعت خانہ :١١/ جون ١٩٥١ء)
(6)”اسماعيليوں كے پاس ہدايت كے لئے كوئى تحريرى كتاب نہيں بلكہ حياتِ امام ہے-“ (بمبئى، ٢٨ دسمبر ١٩٤٥ء)
غور فرمائيے كہ جب فرامين مبارك بلكہ گنان شريف كے مقابلہ ميں قرآن شريف كى بهى كچھ حيثيت نہ ہو تو حديث شريف كس كھيت كى مولى ہوئى-
اب اس كا دوسرا پہلو يہ بهى ہے كہ اسماعيلى رسول اللہ ﷺ سے اپنے امام حاضر كا درجہ بلند تر سمجهتے ہيں- درج ذيل سوال جواب ملاحظہ ہو:
سوال: ’پيغمبر‘ يعنى ناطق اور ’اساس‘ يعنى امام… ان دونوں ميں كس كا درجہ بڑا ہے؟
جواب: اساس كا درجہ بڑا ہے، كيونكہ جو كام پيغمبروں سے نہيں ہوسكتا تها وہ ’اساس‘ امام كرتے تهے اور پيغمبروں ميں سے اماموں كو بنانے كا اللہ تعالىٰ كا وعدہ ہے- جيسا كہ حضرت ابراہيم  كے لئے ہوا تها- اس سے بهى ثابت ہوتا ہے كہ اساس كا درجہ بڑا ہوتا ہے- پيغمبر اللہ كا پيغام پہنچاتے ہيں اور ا س كے ذريعہ اللہ كى پہچان كراتے ہيں جبكہ ’اساس‘ يعنى امام اپنى ذاتى طاقت سے بذاتِ خود ہدايت كرتے ہيں- اپنى پہچان آپ كرواتے ہيں اور ان كو كسى كى مدد كى ضرورت نہيں ہوتى -
ان تصريحات سے معلوم ہوجاتا ہے كہ محمد رسول اللہ كا جو مفہوم عام مسلمان سمجهتے ہيں، اسماعيليوں كے ہاں يكسر مفقود ہے-
كلمہ شہادت ميں اثنا عشرى شيعوں نے بهى ايك تيسرے جزء علي ولي اللہ كا اضافہ كرليا-جس كے معنى ہيں كہ على اللہ كے وصى ہيں- يعنى اللہ كا حكم تها كہ رسول اللہ ﷺ كے بعد اُنہيں خليفہ بنايا جاتا اور اسماعيليوں نے جو اضافہ كيا وہ أن اميرالموٴمنين علي اللہ ہے جس كے معنى ہيں كہ ”على الله ہيں“ يا ”على الله سے ہيں-“
ہم اپنے اس معنى كى تائيد ميں درج ذيل گنان پيش كرتے ہيں:
(1) ”اس وقت نبى محمد ﷺ نے يہ بتلايا كہ بهائى فرشتو! آپ كو ايك بہت ہى اچهى بات بتلاتا ہوں (كہ جب على پيدا ہوئے تو) انہوں نے اپنا تعارف مجھ كو خود ہى كرايا كہ وہى (على) تو پورى كائنات كا خالق ہے- اس لئے على كو صحيح اللہ كہئے، اس عقيدہ ميں ذرّہ برابر كمى نہ كريں-“
(2) ”اوّل ہى سے جو اللہ ہے، اسے على كہئے-“
”نبى محمد نے اپنے شوہر (يعنى على) كو پہچانا“(نعوذ بالله من ذلك الهفوات)
(3) ”جب حضور اكرم ﷺ نے شاہ على كا ديدار كيا تو سب سے اوّل ان كو صحيح اللہ پايا“
ان تصريحات سے معلوم ہوا كہ على تو صحيح اللہ ہيں اور دوسرے امام حاضر بهى اللہ كا مظہر ضرور ہيں- ان كا كلام، كلام اللہ سے بڑھ كر تو ہوسكتا ہے مگر كمزور نہيں ہوسكتا- اب خود ہى فيصلہ كرليجئے كہ عام مسلمانوں كے كلمہ شہادت اور اسماعيليوں كے كلمہ شہادت كے مفہوم ميں كوئى قدرِ مشترك باقى رہ جاتى ہے؟
(2)نماز دوسرا رُكن اسلام
كلمہ شہادت كے بعد اسلام كا دوسرا رُكن نماز ہے جس كى قرآن ميں سات سو بار تكرار سے تاكيد آئى ہے- پانچ وقت كى نماز مسجد ميں جاكر باجماعت ادا كرنا ضرورى ہے- اسماعيلى فرقہ اس وقت نماز كا تارك ہے اور اسے تسليم نہيں كرتا- وہ صلوٰة كے معنى ’دعا‘ كركے اس شرعى تكليف سے آزاد ہوگئے ہيں- اس سلسلہ ميں اسماعيلى تعليمات كا درج ذيل اقتباس ملاحظہ فرمائيے :
(1) ”ہمارے نزديك اس (لفظ صلوٰة) سے مراد وہ خاص عبادت ہے جو مقررہ اوقات پر كى جاتى ہے- مقررہ اوقات پر دُعا پڑهنا ہر موٴمن پر فرض ہے- قرآن پاك ميں دعا كے لئے صلوٰة كا لفظ بهى استعمال ہوا ہے-“
(1) ”آنحضرت ﷺ كے ارشاد كے مطابق صلوٰة (دعا) موٴمن كى معراج ہے-“
مسجد كے بجائے جماعت خانہ
اسماعيلى چونكہ نماز نہيں پڑهتے لہٰذا اپنى ’دعا گاہ‘كو مسجد بهى نہيں بلكہ ’جماعت خانہ‘ كہتے ہيں- جبكہ دنيا بهر كے ديگر تمام فرقوں سے تعلق ركهنے والے مسلمان اپنى عبادت گاه كو مسجد ہى كہتے ہيں- اقتباس :
”يوں تو دعا كيسے بهى ادا كى جاسكتى ہے، ليكن بہتر يہى ہے كہ دعا پڑهنے كے لئے موٴمن مولا كے گهر يعنى ’جماعت خانہ‘ جائے-“
دُعا بهى روزانہ صرف دو بار فرض ہے!
يعنى صبح كى اور شام كى دعا- آج كل جو دعا جماعت خانوں ميں پڑهى جاتى ہے،يہ حاضر امام شاہ كريم حسينى كى منظور شدہ ہے جو اُنہوں نے ٢١ مارچ ١٩٧٠ء كو منظورفرمائى- اس سے پہلے يہ فرقہ صلوٰة يا دعا كون سى اور كيسے پڑهتا تها، وہ ہميں معلوم نہيں-
موجودہ منظور شدہ دعا كے چہ حصے ہيں- چهٹے حصہ ميں اسماعيلى اماموں كا شجرہ ہے- ہر حصے كے خاتمہ پر سجدہ كيا جاتا ہے جس ميں پڑها جاتا ہے:”اللهم لك سجودي وطاعتي“جب سجدہ كيا جاتا ہے تو ہر جماعت خانہ ميں سامنے حاضر امام كى قد آدم تصوير موجود ہوتى ہے جس كے مطلب كے وضاحت كى ہميں ضرورت نہيں- مكھى اور كامڑيا (جماعت خانہ كے منتظمین وغيرہ) كا منہ چونكہ موٴمنوں يا دينداروں كى طرف ہوتا ہے، اس لئے ان كيلئے ان كے سامنے عليحدہ امام كى تصوير لگى ہوتى ہے- اب آپ خود فيصلہ كرليجئے كہ نماز كے سلسلہ ميں اسماعيليوں اور عام مسلمانوں كے درميان كيا قدرِ مشترك باقى رہ جاتى ہے؟
(3) زكوٰة اسلام كا تيسرا اہم رُكن
جس كا حكم قرآن ميں تقريباً ستر بار آيا ہے- اس كا عام مفہوم يہ ہے كہ ہر غنى يا صاحب ِنصاب مسلمان ہر سال بعد اپنى بچت كا چاليسواں حصہ نكال كر الله كى راہ ميں دے ديتا ہے- زكوٰة، انفرادى طور پر نكالى جائے يا اجتماعى طور پر اس كا كثير حصہ محتاج و نادار افراد كو ديا جاتا ہے، گويا زكوٰة كے پيسہ كا بهاوٴ اميرطبقہ سے غريب كى طرف ہوتاہے-
اسماعيلى فرقہ ميں ايسى زكوٰة كا تصور تك نہيں- اس كے بجائے ان كے ہاں كا ہر ديندار اپنى آمدنى كا دسواں حصہ (دسوند) نكال كر اپنے امام حاضر كو پيش كرنے كا پابند ہوتا ہے- پهر اسے امام حاضر كے علاوہ اپنے پير كے لئے بهى آمدنى كا چاليسواں حصہ نكالنا ہوتا ہے اور اس كے علاوہ شكريت اور دوسرى قسم كے نذرانے الگ ہيں- درج ذيل گيان ملاحظہ فرمائيے:
”ست گرجى (سچے گوروجى يعنى حاضر امام) كى خدمت ’دسوند‘ ديتے رہئے-
اور چاليسواں حصہ پير كو ديتے رہئے اور بے شمار ’شكريت‘ ديتے رہئے-
جو خلوص كے ساتھ دسوند اور شكريت ديتے ہيں،ان كى جب آخرى گهڑى آئے گى (يعنى موت كا وقت) تو يہ آپ (امام) كے پاس پہنچيں گے-“
اب ديكهئے زكوٰة اور دسوند ميں درج ذيل بنيادى فرق ہيں:
(1) زكوٰة بچت پر لگتى ہے جبكہ ’دسوند‘ آمدنى پر لگتى ہے-
(2) زكوٰة كى شرح اڑهائى فيصد يا چاليسواں حصہ ہے جبكہ دسوند كى شرح تحرير ميں دس فيصد اور عملاً ساڑهے بارہ فيصد ہوتى ہے يا آٹهواں حصہ ہوتى ہے-
(3) زكوٰة صرف مالداروں پر لگتى ہے، جبكہ دسوند امير و غريب سب كے لئے ہے-
(4) زكوٰة ميں زكوٰة ادا كرنے والے كى ضروريات كا لحاظ ركها جاتا ہے،ليكن دسوند ميں كچھ خيال نہيں ركها جاتا-
(5)زكوٰة كى رقم كا كثير حصہ غريبوں كى جيب ميں جاتا ہے جبكہ دسوند كى رقم امام حاضر (حو پہلے ہى امير كبير ہيں) كى جيب ميں جاتى ہے-
(6) زكوٰة باقى مال كو معمولى قسم كى لغزشوں سے پاك كرتى ہے- سود يا حرام كى كمائى زكوٰة كو پاك نہيں كرسكتى، ليكن دسوند ادا كرنے كے بعد بقايا مال خواہ كسى طريقے سے كمايا ہو پاك ہوجاتا ہے-
اندريں حالات دسوند كو كسى حد تك انكم ٹيكس كا نام تو ديا جاسكتا ہے ليكن اس كا اسلامى فريضہ زكوٰة سے كوئى تعلق نہيں-
(4) روزہ اسلام كا چوتها رُكن
پورے ماہ رمضان كے روزے اللہ تعالىٰ نے ہر مسلمان پر فرض قرار ديے ہيں ليكن اسماعيلى اس فريضہ سے بهى آزاد ہيں- اس كے عوض ان كے ہاں درج ذيل دو طرح كے روزے ركهے جاتے ہيں :
(1) جمعہ بيچ (يعنى وہ جمعہ جو چاند كى پہلى كو آئے) كا روزہ
”جمعہ بيچ تقريباً ہر چہ ماہ ميں ايك مرتبہ آتى ہے اور ہر ايك ديندار كو يہ روزہ فرض ہونے كى بنا پر اسے عمل ميں لانے كى كوشش كرنى چاہئے سوائے كسى ناگزير وجہ يا بيمارى كے-“
(2) چاند كے بعد ساتويں تاريخ كا روزہ
”١٩٦٢ء سے مولانا حاضر امام (شاہ كريم حسينى) كے فرمان كے مطابق اس روزے كو شاہ مولا كے روزے كا نام ديا گيا ہے- اس روزے كے دن جماعت خانہ ميں گنان شريف، فرمانِ مبارك اور كلام بولا اور پڑها جائے-“
اب ديكهئے ہرماہ ميں ايك روزہ يا سال كے ١٢ روزے تو موجودہ امام نے ١٩٦٢ء سے فرض كئے، اس سے پہلے اسماعيليوں پر صرف دو روزے يعنى جمعہ بيچ كے روزے فرض تهے؟ يہ دو روزے كس امام نے اور كب فرض كئے تهے؟ يہ ہميں معلوم نہيں- نيز ہميں يہ بهى معلوم نہيں كہ ماہ رمضان كے تيس روزے جو اللہ نے فرض كئے تهے، وہ كس امام نے اور كب معاف كردئيے تهے-
(5) حج اسلام كا پانچواں رُكن
ہر صاحب ِاستطاعت پر زندگى ميں ايك باربيت اللہ كا حج اللہ تعالىٰ نے ہر مسلمان پر فرض قرار ديا ہے- اسماعيلى حضرات اس فريضہ سے بهى آزاد ہيں- كوئى اسماعيلى كاروبار كى غرض سے يا از راہ سيروتفريح مكہ چلا جائے اور وہاں حج يا عمرہ كرلے تو اسے اس بات كى اجازت ہے- حج يا عمرہ كو ايك فريضہ سمجھ كر كوئى اسماعيلى ارادتاً اور تكلّفاً وہاں نہيں جاتا-
ب : ديگر اسلامى شعائر
اركانِ اسلام كے علاوہ كچھ ايسے اسلامى شعار بهى ہيں جنہيں مسلمانوں كے سب فرقے تسليم كرتے ہيں مگراسماعيليوں نے ان ميں يا تو نئى راہ نكال لى ہے يا بالكل متضاد روش اختيار كرركهى ہے اور وہ درج ذيل ہيں:
(1)سلام اور سلام كا جواب
مسلمانوں كے تمام فرقوں ميں مسنون سلام و جواب السلام عليكم اور وعليكم السلام ہے، ليكن اسماعيلى فرقہ اس مسئلہ ميں متضاد روش اختيار كرتا ہے- ان كے ہاں سلام و جواب كو مندرجہ ذيل دو حصوں ميں تقسيم كيا گيا ہے :
(1) جب كوئى ديندار جماعت خانہ ميں جائے تو كہتا ہے ’ہے زندہ؟‘ دوسرے اسے جواب ديتے ہيں: ’قائم پايا‘
دراصل اس سوال و جواب ميں اسماعيليوں كا اپنے امام كے متعلق حي قيوم ہونے كے عقيدہ كو بار بار دہرايا جاتا ہے- آنے والا پوچھتا ہے: كيا ہمارا امام زندہ ہے؟ اور جواب دينے والا كہتا ہے: ”ہم نے تو اسے قائم ہى پايا ہے-“ اس طرح ہر آن مريدوں كى ذہن سازى كى مہم جارى رہتى ہے-
(2) اور جماعت خانہ سے باہر جب كسى كو سلام كہنا ہو تو كہنے والا كہتا ہے ’ياعلى مدد!‘ اور جواب دينے والا كہتا ہے:’مولا على مدد ‘ ان كى درسى كتاب ميں يہ مضمون يوں ادا كيا گيا ہے :
”ياعلى مدد‘ ہمارا سلام ہے-’مولا على مدد‘ سلام كا جواب ہے-“
(2) نو روز اور سالِ نو
مسلمانوں كا ہجرى سال چاند سے تعلق ركهتا ہے اور يہ يكم محرم الحرام كو شروع ہوتا ہے- تاہم يہ مسلمانوں كا كوئى تہوار نہيں ہے- اسماعيلى اس مسئلہ ميں بهى متضاد روش ركهتے ہيں- ان كا سال شمسى ہے- ٢١/ مارچ كو شروع ہوتا ہے اور اس دن اسماعيلى تہوار بهى مناتے ہيں- درج ذيل اقتباس ملاحظہ فرمائيے:
”نوروز كى خوشى منانا اسماعيليوں كى ايك قديم روايت ہے- اس كى سالانہ مجلس ٢١/ مارچ كو صبح صادق كے بعد ہر ايك جماعت خانے ميں منعقد كى جائے- ٢١/ مارچ كو مذہبى نقطہ نگاہ سے ہمارا نيا سال شروع ہوتا ہے-“
اب يہ تو ظاہر ہے كہ ٢١ مارچ (نوروز) سے مجوسيوں اور سورج پرستوں كو تو عقيدت ہوسكتى ہے مسلمانوں كا اس سے كيا تعلق ؟
(3) تہذيب ِمغرب سے دلدادگى
يہ تو سب جانتے ہيں كہ مغربى تہذيب اسلامى تہذيب كى نقيض (ضد) ہے- اسماعيليوں ميں عورت كا پردہ نام كى كوئى چيز نہيں- جماعت خانوں ميں البتہ عورتوں كے بیٹھنے كى الگ جگہ مقرر ہوتى ہے ،ليكن كئى قسم كى مجالس ميں عورتيں اور مرداكٹھے ہوتے ہيں- حاضر امام اور آپ كے باپ دادا كا تہذيب ِمغرب سے دلدادگى كا يہ عالم ہے كہ حاضر امام كى والدہ لارڈ پرنس كى بڑى صاحبزادى ہيں- آپ نے برطانيہ، سوئٹزر لينڈ اور ہاورڈ يونيورسٹى ميں تعليم حاصل كركے گريجوايٹ كى ڈگرى لى ہے، ليكن دينى تعليم كى شايد آپ كو ضرورت ہى نہ تهى- ہوسكتا ہے كہ زير نورِ خدا كى طرح يہ دينى علم بهى ان اماموں ميں نسلاً بعد نسل از خود ہى منتقل ہوتا رہتا ہے-
امام حاضر كے دادا آغاخان سوم ريس كورس كے انتہائى شيدائى تهے اور ان كے بيشتر گهوڑوں نے بازى جيتى ہے- حاضرامام اور ان كے آباوٴ اجداد كا لباس اور وضع قطع بهى تہذيب ِمغرب كى دلدادگى پر بڑى واضح دليل ہے- علاوہ ازيں تمام جماعت خانوں ميں امام حاضركى قد آدم تصاوير كى موجودگى اور آپ كے پيروكاروں كا ان كے آگے سربسجود ہونا مستزاد ہے- غور فرمائيے ان تمام اُمور ميں سے كوئى بات بهى اسلامى نقطہ نگاہ سے ايك مذہبى رہنما كے شايانِ شان ہوسكتى ہے؟
(4) اسلامى تعليمات كى نشرواشاعت كے بجائے اخفا
ہر مسلمان پر اسلامى تعليمات كى اشاعت فرض ہے، قولاً بهى اور عملاً بهى- مسلمان جہاں بهى گئے وہاں مساجد تعمير كيں، دينى مدارس قائم كئے اور علما نے اپنى تصانيف كے ذريعہ حتىٰ الوسع دينى تعليم كى نشرواشاعت كو اپنا معمول بنايا مگر اسماعيلى فرقہ كا معاملہ اس كے بالكل برعكس ہے- اگر كہيں ان كے جماعت خانے ہيں بهى تو وہ عوام پر بند ہيں- ان كے مذہبى تعليم كے مدارس صرف نائٹ سكولز ہيں جہاں غير اسماعیلى بچوں كو داخل نہيں كيا جاتا- ان كى مذہبى كتابيں صرف اسماعيليہ ايسو سى ايشنز ہى چهاپ سكتى ہيں جنہيں كوئى غير اسماعيلى خريد بهى نہيں سكتا- اس سلسلہ ميں ان كى كتاب ’ہمارى مقدس مذہبى رسومات‘ كا درج ذيل اقتباس ملاحظہ فرمائيے :
”جماعت خانے كے احاطے ميں جماعت كى سہولت كے لئے اسماعيليہ ايسو سى ايشن كى طرف سے مذہبى كتابيں خريدنے كا خاص بندوبست كيا جائے گا- اس كے علاوہ كسى بهى شخص يا ادارے كو مذہبى كتاب جمع كرنے كا حق حاصل نہيں ہے- سوائے اس كے كہ كسى خاص حالات كے تحت اسماعيليہ ايسوسى ايشن كى طرف سے اجازت لى گئى ہو-“
اسلام افشاء و تبليغ كا دين ہے جس كے متعلق رسول اللہ ﷺ كو ﴿بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ اِلَيْكَ﴾ اور ﴿فَاصْدَعْ بِمَا تُوْمَرُ﴾ كا حكم تها- اس لحاظ سے اسماعيلى مذہب اسلام كے عين ضد ہے- غالباً اس كى وجہ يہ ہے كہ اس فرقہ كى كچھ تعليمات ايسى بهى ہيں جنہيں يہ اوراق ميں منتقل ہونے ہى نہيں ديتے بلكہ يہ راز ايسے ہيں جوسينہ بہ سينہ چلتے ہيں- جيسا كہ ابوعبداللہ شيعى كے متعلق پانچويں درسى كتاب ميں لكها ہے كہ
”حضرت امام رضى عبداللہ عليہ السلام (اسماعيليوں كے دسويں امام) نے ابوعبداللہ كو لائق اور قابل آدمى ديكھ كر واعى ابن حوشب كے پاس تعليم كى غرض سے يمن بهيج ديا- چنانچہ ان كے زير تربيت ابوعبداللہ نے اسماعيلى مذہب كے راز سيكهے- جب اسماعيلى تعليمات ميں بالكل پختہ ہوگئے تو حضرت امام عليہ السلام كے حكم سے آپ كو داعى بنا كر مغرب (شمالى افريقہ) كى طرف بهيج ديا گيا-“
اسماعیلى راہبوں كو كيا راز سكهلائے جاتے تهے؟ يہ بات ان كے لٹريچر سے نہيں مل سكتى- اس فرقہ كا ايك عظيم داعى حسن بن صباح (م١١٢٤ء /٥١٨ھ) بهى تها جس كے متعلق لكها ہے كہ وہ
”حضرت امام مستنصر باللہ كے زمانے كے ايك عظيم داعى اور بہادر فدائى تهے- جنہوں نے قلعہ الموت فتح كيا تها-“
اب اس عظيم داعى كے كردار سے كچھ نہ كچھ اُن خفيہ رازوں پر روشنى پڑ جاتى ہے- اس داعى كا كردار يہ تها كہ وہ
”ايك دہشت پسند اور خفيہ جماعت كا بانى تها-اس نے كوہ البرز ميں واقع قلعه اَلَمُوْت (اَلَمُوْط) كو فتح كيا، وہ اپنے مريدوں كوحشيش پلوا كر بے ہوش كرديتا تها- پهر وہ انہيں اس فردوس ميں پهراتا جو اس نے وادى الموت ميں بنائى تهى- اس بہشت ميں اس نے بہت سى خوبصورت عورتيں ركهى ہوئى تهيں-اس دہشت پسند جماعت كے اركان كو فدائين كہا جاتاتها اور ان فدائين سے مشہور ہستيوں كے قتل كرنے كا كام ليا جاتا اور اس كے عوض انہيں بہشت ميں رہائش مہيا كى جاتى تهى-اس كے جانشين صديوں اپنے فدائيوں كے بل بوتے پر اپنے ملحدانہ خيالات كى نشرواشاعت كرتے رہے- وسط ِايشيا كے بڑے بڑے حكمران ان سے لرزہ براندام رہتے تهے- آخر ساتويں صدى ہجرى ميں ہلاكو خان نے قلعہ الموت كو فتح كيا اور ان كى بہشت اور ملجاء و ماوىٰ كو تہس نہس كركے ايك عالم كو ان كے مظالم سے رہائى دلائى-“
غالباً ايسے ہى كچھ راز ہوتے تهے جو اس فرقہ كے داعيوں كو سكهلائے جاتے تهے-
… حصہ دوم…

اس حصہ ميں چند ايسے اُموركا ذكر كيا جائے گا جواسماعيلى فرقہ ميں تو روحِ رواں كى حيثيت ركهتے ہيں، مگر اسلام سے ان كا كچھ تعلق نہيں ہے- اور يہ دو طرح كے ہيں:
(1)عقائد سے متعلق اور (2)عبادات و شعائر سے متعلق
الف: اسماعيلى عقائد
عقائد سے متعلق تين اُمور قابل ذكر ہيں:
(1) امامت (2) نورِ امامت اور (3)شانِ امامت
(1) امامت
امامت كا عقيدہ صرف اسماعيليوں ميں ہى نہيں بلكہ شيعہ حضرات كے تمام فرقوں ميں يكساں طور پر پايا جاتاہے- قرآنِ كريم كى ر و سے مسلمانوں كا امام صرف ان ميں ان كا سب سے متقى شخص ہى ہوسكتا ہے اور تقوىٰ كا نسلاًبعد نسل اولاد اور ان كى اولاد ميں منتقل ہوتے چلے جانا عقلاً محال ہے- دورِ نبوى ﷺ سے پہلے كى پورى انسانى تاريخ ميں صرف ايك مثال ايسى ملتى ہے جہاں چار پشتوں تك يہ سلسلہ رہا- يعنى حضرت ابراہيم  نبى تهے، پهر ان كے بيٹے اسحق  نبى ہوئے، پهر ان كے بيٹے يعقوب نبى ہوئے اور پهر ان كے بيٹے يوسف  نبى ہوئے- اس كے بعد يہ سلسلہ قائم نہ رہ سكا- اب اثنا عشرى تويہ سلسلہ بارہ اماموں تك چلا كر بارہويں امام كو غائب بتلاتے ہيں، جبكہ اسماعيلى (نزارى) اور بوہرے اس كو تاقيامت جارى ركهنے كے قائل ہيں- اس وقت نزارى اسماعيليوں كے ٤٩ ويں امام شاہ كريم حسينى ہيں اور مستعلوى اسماعيليوں يا بوہروں كے ٥١ ويں امام ملا طاہر سيف الدين تهے، جن كا انتقال چند سال قبل ہواہے-
اسماعیلى بهى ابتداء ً كسى امام كے غائب ہونے اور پهر كسى وقت بطورِ امام مہدى اس كے ظاہر ہونے كے قائل تهے ،جيسا كہ ان كا اپنے ساتويں امام محمدبن اسماعيل كے متعلق عقيدہ تها اور اسى لئے اس فرقہ كو سَبعيہ (يعنى سات اماموں والا) بهى كہتے ہيں جبكہ اثنا عشرى اپنے اماموں كا سلسلہ چلا رہے تهے- پهر جب اثنا عشرى نے اپنے بارہويں امام، امام مہدى كے غائب ہونے اور دوبارہ كسى وقت ظاہر ہونے كے عقيدہ كو اختيار كرليا تو اسماعيليوں كے عقيدہ ميں غالباً رقابت كے طور پر ايك بنيادى تبديلى يہ آئى كہ انہوں نے اپنے پہلے عقيدہ كو چهوڑ كر از سر نو امامت كے سلسلہ كو جارى كرديا- جو آج تك جارى ہے-
شيعانِ على نے ابتدا ہى ميں يہ تو طے كرليا كہ امامت اولادِ على كا حق ہے مگر اس كى جزئيات ميں بہت سے اختلافات واقع ہوئے، مثلاً امامت حضرت على كى اولاد ميں ہو يا صرف بنو فاطمہ ميں، كيسانى فرقہ نے حضرت على كے بيٹے محمد بن حنفيہ كو امام تسليم كرليا اور الگ فرقہ بن گيا- ليكن شيعہ كے باقى فرقے صرف بنوفاطمہ كو ہى امامت كا حقدار سمجهتے ہيں اور عجيب تر بات يہ ہے كہ اسماعيلى حضرت فاطمہ كے بڑے بيٹے حضرت حسن كو امامت سے خارج كرديتے ہيں، جبكہ اثنا عشرى دوسرا امام حضرت حسن ہى كو تسليم كرتے ہيں-
نسلى امامت كے سلسلہ ميں اس اختلاف كا بهى فيصلہ نہ ہوسكا كہ آيا يہ امامت صرف بڑے بيٹے كا حق ہے يا چهوٹا بهى امام بن سكتا ہے- اسماعيليوں نے امام جعفر صادق كے بڑے بيٹے كو امام تسليم كيا حالانكہ وہ امام جعفر صادق (م١٤٨ھ) كى وفات سے پانچ سال پہلے ہى فوت ہوچكے تهے- اثنا عشرى ان كے چهوٹے بيٹے موسىٰ كاظم كو امام تسليم كرتے ہيں پهر اسماعيليوں ميں سے بهى كچھ لوگ چهوٹے بيٹے كى امامت كے قائل ہوگئے- مستعلوى بوہرے اسى وجہ سے نزاريوں سے الگ ہوئے كہ اُنہوں نے مستنصر باللہ كے چهوٹے بيٹے مستعلى كو امام تسليم كرليا، جو اس وقت سلطان تهے اور بڑے بيٹے نزار اور ان كے بيٹے ان كى قيد ميں تهے-
تيسرا اختلاف بعض اماموں كے مستور ہونے يا ان كو مستور كردينے سے ہوا- مستور ہونے، پهر قيامت كے قريب ظاہر ہونے كا عقيدہ تقريباً سب شیعہ فرقوں ميں پايا جاتاہے- كسى فرقہ كے نزديك تو حضرت على بهى فوت نہيں ہوئے بلكہ بادلوں ميں مستور ہيں- اسماعيل بهى مستور تهے، محمد بن اسماعيل بهى، اثنا عشرى كے بارہويں امام مہدى بهى اور مستعليوں كے امام طيب بهى- ايسے ہى اختلافات نے شيعوں كو بے شمار فرقوں ميں تقسيم كرديا-
اہل سنت كے عقيدہ كے مطابق امامت كو بطورِ حق نسلاً بعد نسل آگے منتقل كرنے كا عقيدہ سراسر اسلامى تعليمات كے منافى ہے- اور اس كى ايك بڑى وجہ يہ بهى ہے كہ اماموں كے معصوم ہونے اور ان كى غير مشروط اطاعت كا عقيدہ معنوى طور پر عقيدہٴ ختم نبوت كا نقيض (متضاد) ہے-
(2) نور ِامامت
نور ِ امامت اسماعيليوں كا برتر اُصول ہے جس كا مطلب يہ ہے كہ اللہ كا نور حضرت على ميں منتقل ہوا- وہ خدا كے اوتار تهے- پهر يہ نور نسلاً بعد نسل ان كے اماموں ميں منتقل ہوتا چلا آرہا ہے- اسماعيلى اپنے امام حاضر كو حاضر ناظر سمجهتے ہوئے اس سے رفع حاجات اور مشكل كشائى نيز گريہ و زارى كى دعائيں حتىٰ كہ سجدہ بهى يہ سمجھ كر كرتے ہيں كہ ان كے امام ميں اللہ كانور منتقل ہوكر آچكا ہے- لہٰذا ان كا حاضر امام خدا كا قائم مقام يا اوتار ہے-
انتقالِ نور كے سلسلہ ميں پهر وہى سوال پيدا ہوتا ہے كہ آيا يہ صرف بڑے بيٹے كى طرف ہى منتقل ہوتا ہے يا دوسرے كى طرف بهى ہوسكتا ہے؟ اگر يہ صرف بڑے بيٹے كى طرف ہى منتقل ہوتا ہے تو حضرت حسن كو اس نور سے كيوں محروم كيا جاتا ہے اور حضرت حسين ميں يہ نور كيوں تسليم كيا جاتا ہے؟ اور اگر يہ چهوٹے بيٹوں كى طرف بهى منتقل ہوسكتا ہے تو اثنا عشريوں كا كيا قصور ہے جنہوں نے بڑے بيٹے اسماعيل كى غير موجودگى يا وفات كى وجہ سے چهوٹے بيٹے موسىٰ كاظم كو امام تسليم كرلياتها يا بوہروں كا كيا قصور ہے جنہوں نے اس نور كو نزّار كے بجائے مُستعلي ميں تسليم كرليا تها-
انتقالِ نور كے سلسلہ ميں يہ بات بهى باعث ِتعجب ہے كہ ١١ /جولائى ١٩٥٧ء كو آغا خان سوم سلطان محمد شاہ نے اپنے بڑے بيٹے پرنس على خان اور چهوٹے بيٹے پرنس صدر الدين دونوں كى موجودگى ميں اپنے پوتے يعنى پرنس على خان كے بيٹے شاہ كريم حسينى كے امام حاضر ہونے كا اعلان كيا اور بيٹيوں كو امامت اور نورِ امامت سے محروم كرديا- اس واقعہ سے تو يہ بات سمجھ ميں آتى ہے كہ انتقالِ نور كاصرف امام حاضر كو ہى علم ہوتا ہے اور دوسروں كو اس وقت معلوم ہوتا ہے جب امام حاضر اعلان كرے- يہ اُصول بهى واقعات پر فٹ نہيں بیٹھتا- اس طرح تو حضرت حسن اور حضرت حسين دونوں ہى امامت اور نورِ امامت سے محروم ہوجاتے ہيں كيونكہ حضرت على نے اپنى وفات سے قبل كسى كو بهى امامت كا اعلان نہيں فرماياتها- اسى طرح جناب اسماعيل بهى اپنے بيٹے محمد كے امام ہونے كا اعلان نہ كرسكے تهے اور اسكى اور بهى بہت سى مثاليں ہيں-
بہرحال انتقالِ نور كے سلسلہ ميں ان كے ہاں كوئى مستقل اصل نظر نہيں آتى- اسى بے ضابطگى كى وجہ سے اسماعيلى مذہب دورِ فاطميين سے لے كر آج تك تفرقہ و تشتت كا شكار ہوكر روبہ انحطاط چلاآرہا ہے-
(3) شانِ امامت
ہم كلمہ طيبہ كے بيان ميں ذكر كرآئے ہيں كہ اسماعيليوں كے امام حاضر كا كلام يا فرامين مباركہ درجہ ميں كلام اللہ كے برابر يا اس سے بڑھ كر تو ہوسكتا ہے، اس سے كم تر نہيں ہوسكتا- ان كے نزديك امام معصوم بهى ہوتا ہے اور كلام اللہ كا حقيقى علم صرف اسے ہى ہوتا ہے-يہ عقيدہ دراصل شانِ رسالت اور ختم نبوت دونوں كا نقيض ہے-
شانِ امامت كا دوسرا پہلو يہ ہے كہ اس سے ايسے ہى عاجزى و زارى سے دعا كى جانى چاہئے، مثلاً ان درج ذيل گريہ و زارى كى دعائيں ملاحظہ فرمائيے:
”يا نور مولانا شاہ كريم حسينى حاضر امام ! چاند رات كے تمام ممبران كى اور حاضر جماعت كى كل مشكلات آسان كريں-“
”يا مولانا حاضر امام! گت جماعت كے كل گناہ معاف كريں-“
”يا مولانا حاضر امام! گت جماعت كو دسوند شكريت ميں پورا ركهيں-“
”يا مولانا حاضر امام! گت جماعت كو حقيقى سمجھ عطا فرمائيں-“
”يا مولانا حاضر امام! گت جماعت كا ايمان سلامت ركهيں-“
”يا مولانا حاضر امام! گت جماعت كو سكهى، سلامت، آباد ركهيں-“
”يامولانا حاضر امام! گت جماعت كو اپنے گهر كى اور گت جماعت كى خدمت كرنے كى اعلىٰ توفيق دے-“
”يا مولانا حاضر امام! گت جماعت كو عبادت، بندگى كرنے كى اعلىٰ ہمت بخشيں-“
”يا مولانا حاضر امام! گت جماعت كو اپنا ظاہرى ،باطنى ،نورانى ديدار نصيب كريں-“
”يا مولانا حاضرت امام! گت جماعت كى عرض ونيتى گريہ و زارى اپنے حضور پرنور ميں قبول كريں-“
سو يہ ہے شان ِ امامت … بتلائيے يہ شان اللہ تعالىٰ سے كسى صورت كم ہے؟
ب : عبادات و شعائر
مندرجہ ذيل عبادات و شعائر فرقہ اسماعيليہ ميں تو موجود ہيں، ليكن اسلام سے ان كا كوئى تعلق نہيں :
ستاڑے ڈالنا
ستاڑے اسماعیلیوں كى ايك مذہبى رسم ہے جس ميں سات دن تك تسبیح پڑهى جاتى اور دعائيں مانگى جاتى ہيں- اس رسم كو جماعت خانے ميں اس وقت ادا كيا جاتاہے جب ملك كو جنگ، سيلاب، زلزلے، قحط يا ايسى ہى كسى دوسرى آفت كا سامنا ہو-
اسى طرح اگر كسى موٴمن پر كوئى بُرا وقت آن پڑے تو ستاڑا ڈالا جاتا ہے اور پورى جماعت مل كر اس مشكل كے لئے دعائيں كرتى ہے- علاوہ ازيں روحانى بہبودى حاصل كرنے كے لئے ستاڑے ڈالے جاتے ہيں-
ستاڑے كى تسبیح كا طريقہ
”دوسرى دعا كے بعد يا على، يا محمد، كى تسبیح پورى ہونے پر ايك وينتى كا پاٹھ (ايجى كرپاكر ہے دكھ داريد نكاڑو) بولا جائے اور اس كے بعد مندرجہ ذيل تسبيح نكالى جائے: اللہ الصمد (١١ دانے) سبحان اللہ (١١ دانے) بى بى فاطمہ كى تسبيح اللہ اكبر (١١ دانے) سبحان اللہ (١١ دانے) الحمد للہ (١١دانے) اس كے بعد جماعت كى گريہ و زارى كى دعائيں ہيں جس ميں مندرجہ ذيل دعاوٴں كا اضافہ كيا جائے :
يا نور مولانا شاہ كريم حسینى حاضر امام ستاڑے كى بركت سے گت جماعت كے كل گناہ معاف كريں-جماعت پر رحم كريں اور راضى ہوں-گت جماعت كى كل مشكلات، آفت اور بيمارياں دور كريں- گت جماعت كى نيك اُميديں پورى كريں-“
يہ ستاڑے ڈالنا اتنى اہم عبادت ہے، جو سال ميں چار دفعہ ضرور كرنى ہے- چهوٹے گاوٴں ميں كسى خاص حالت كے تحت كم تعداد ميں ستاڑے ڈالے جاسكتے ہيں، تاہم سال ميں ايك مرتبہ ستاڑا ڈالنا لازمى ہے-
(2) نادى
موٴمن جماعت خانہ ميں جاتاہے تو امام حاضر كى مہمانى كے طور پر كوئى نہ كوئى چيز پليٹ ميں ركھ كر ساتھ لے جاتا ہے اور مكهى كامڑيا كے سامنے ركهى ہوئى تپائى پر (جسے وہ اپنى زبان ميں پاٹ كہتے ہيں) ركھ ديتا ہے- پاٹ پر ايسى اشيا كے ڈهير لگ جاتے ہيں- نيز يہ اشيا جب تبرك كا مقدس درجہ حاصل كرچكتى ہيں تو ان كى جماعت خانہ ميں برسرعام بولى كردى جاتى ہے- متبرك ہونے كى وجہ سے ان اشيا كى قيمت ميں بہت اضافہ ہوجاتاہے- اسى بولى يا نيلامى كا نام ان كى زبان ميں ’نادى‘ ہے - نادى سے يہ رقم ہر جماعت خانہ ميں روزانہ ہزاروں تك جا پہنچتى ہے اور تہواروں كے دن تو اس آمدن ميں اور بهى زيادہ اضافہ ہوجاتاہے- ايسى تمام رقوم امام حاضر كے كهاتے ميں جمع ہوجاتى ہيں اور اس طرح اسماعيلى روزانہ اپنے امام كى مہمانى كا حق ادا كرتے رہتے ہيں-
(3) چهانٹے
اگر عام پانى پر ناد عليًّا والى مشہور مشركانہ رباعى پڑھ كر تين بار اس پانى پر دم كيا جائے تو يہ پانى چهانٹے (يا چھینٹے مارنے) كے لئے تيار ہے- يہ چهانٹے ”(i)گناہوں كى معافى كے لئے (ii)دسوند ميں بهول چوك كے لئے (iii)قيامت كے دن كى شفاعت كے لئے (iv)بيمار كے بستر پر شفا اور صحت كے لئے (v)غسل ميت كے بعد مغفرت كے لئے وغيرہ وغيرہ ڈالے جاتے ہيں- چهانٹے كى رسم كے وقت چهانٹے ڈلوانے والا ’بندہ گناہ گار گت بخشے شاہ پير بخشے‘ كہے- اس كے بعد چهانٹا ڈالنے والا شخص تين مرتبہ چهانٹا ڈالتے ہوئے ہر بار ’فرمان‘ كہے اور اس وقت چهانٹا ڈلوانے والا ’ياعلى، يا محمد‘ كہے-“
اسماعيليوں كى اس مذہبى رسم كى اہميت ان مواقع سے بخوبى لگائى جاسكتى ہے جن پر ہم نے نمبر لگا ديے ہيں-
(4) گناہوں كى معافى
امام حاضر كى مہمانى كے بہت سے طريقے اسماعيليوں ميں رائج ہيں- پہلا تو وہى ہے جس كا ذكر نادى كے سلسلے ميں آچكا ہے- اقتباسِ ذيل ميں اس طريقہ كے علاوہ دوسرے بهى چند طريقوں كى طرف اشارہ كيا گيا ہے :
”جب يہ ممكن نہ رہا كہ امام الوقت مريدوں كے گهر جاكر ان كى دعوت قبول فرمائيں تو مريدوں نے امام كى مہمانى جماعت خانہ ميں كرنى شروع كى- آج بهى مہمانى جماعت خانہ ميں روزانہ پيش كى جاتى ہے- مريد اسے روز مرہ كى كهانے پينے كى اشيا كى صورت ميں پيش كرتے ہيں- عموماً تہواروں پر مہمانى جوش و خروش كے ساتھ پيش كى جاتى ہے-“
”مولانا حاضر امام كى تشريف آورى كے موقع پر بهى نہ صرف مريد اپنے خاندانوں كى جانب سے مہمانياں پيش كرتے ہيں بلكہ اداروں كى جانب سے بهى مہمانياں پيش كى جاتى ہيں- چنانچہ محبت كا يہ اظہار امام كى محبت حاصل كرنے كے لئے ہے-“
اب مريدوں نے امام كى محبت حاصل كرنے كے لئے يا اماموں نے ’محبت حاصل كرنے‘ كے نام پر مريدوں كى جيبوں پر ڈاكہ ڈالنے كے لئے جوطريقے وضع كئے ہيں، ان ميں چند ايك كا ذكر تو اقتباسِ بالا ميں آچكا اور چند ايك يہ ہيں:
(i) پنج بارہ سال كى منڈلى (مجلس) ميں شامل ہونے كا ہديہ-/٧٥ روپے تها، اب گرانى كى وجہ سے شايد ريٹ بڑھ گيا ہے-
(ii) بيت المال كى منڈلى (مجلس) ميں شامل ہونے كا ہديہ -/٢٨٠ روپے تها،اب گرانى كى وجہ سے شايد ريٹ بڑھ گيا ہے-
(iii) اور اگر يكمشت پانچ ہزار روپے ادا كرديئے جائيں تو زندگى بهر كى مہمانى كا حق ادا ہوجاتا ہے اور ايسے آدمى كو امام سے اور امام كو ايسے آدمى سے بہت محبت ہوتى ہے اور اس كے گناہ بخش ديئے جاتے ہيں- (لائف مجلس)
(iv) اور اگر كوئى بيس ہزار روپے يكمشت ادا كردے تو اس كى محبت كے كيا كہنے- ايسا آدمى نور علىٰ نور كے درجہ پر فائز ہوتا ہے- گناہ سے بالكل پاك صاف ہوجاتا ہے اور مرتے ہى سيدها جنت الفردوس ميں جا پہنچتا ہے- بسا اوقات نوبياہتا جوڑے يكمشت چاليس ہزار روپے ادا كركے جنت ميں سيٹيں كنفرم كراليتے ہيں-
يہ اور اس قسم كے كئى نذرانے ہيں، مثلاً بيعت كرنے كے، نومولود كا نام ركهنے كے يا نوبياہتا جوڑے پر ہاتھ ركهنے كے وغيرہ وغيرہ جن سے امام كى مہمانى اور محبت حاصل كى جاتى ہے اور يہ ايسے اُمور ہيں جن كا ذكر ان كے لٹريچر ميں آنا محال ہے- غور فرمائيے، اسلام ميں ايسى مہمانيوں اور رقوم لے كر گناہ سے معافى كے اعلان كردينے كى كوئى گنجائش ہے؟
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
جزاک اللہ بھائی جان، ان آغاخانیوں کی حقیقت پر مزید مضامین موجود ہوں تو ان کو پیش کرنا چاہئے۔ ان کے خلاف مواد بہت کم موجود ہے۔
انشاء اللہ بھائی جان ضرور بھائی جان دیکھتے ہیں اگر کوئی مضمون ملتا ہے تو ضرور پبلش کردیں گے۔
 
Top