سرفراز فیضی
سینئر رکن
- شمولیت
- اکتوبر 22، 2011
- پیغامات
- 1,091
- ری ایکشن اسکور
- 3,807
- پوائنٹ
- 376
لال اشتراکیت کا طبلہ ، بندہ مزدوراور……
سرمایہ داری تو خیر مشہور عام فیل اور ظالم نظام ہے۔ ہر شئے میں روٹی اور ہر چیز میں جنس دیکھنے والی اشتراکیت عالمی اسٹیج پر جب سے ناکام ہوئی ہے تب سے مزدوروں کی محرومی پر تبصرہ کرنے والوں کی بھرمار ہوگئی ہے۔ یہ کتنی تلخ حقیقت ہے کہ دولت کے حالیہ تیز رفتار اضافے نے اس طبقہ کی زبوں حالیوں کو مزید بڑھا دیا ہے اور حالات ابھی اس موڑ پر نہیں آئے ہیں کہ یہ کہا جائے ’’یہ طبقہ کچھ دنوں بعد معیشت کے دھارے میں شامل ہوسکتا ہے‘‘۔
جملہ معترضہ کے طور پر یہ بات عرض کرتا چلوں کہ عالمی مالیاتی بحران، غریب طبقہ کی بڑھتی غربت، میڈیم طبقہ کی ناآسودگی اور سرمایہ دار گروپ کا ذہنی اور فکری اضطراب اسلام اور اہل اسلام کے لیے جدید دعوتی امکانات لے کر آیا ہے۔ ہمارے لیے یہ اچھا موقع ہے کہ روحانی افکار اور معلومات کے سیلاب سے لوگوں کے دل و دماغ کو سیر کردیں اور مضطرب دنیا کو ایک قابل عمل لائحہ دے کر قیادت کا فریضہ بھی انجام دیں۔
قارئین کرام! بات مزدوروں پر چل رہی تھی تو اس سلسلے میں غور و فکر کا پہلا نکتہ یہ ہے کہ دنیا سے مزدوری کو ختم کیا جاسکتا ہے؟…… کیا ایسا ممکن ہے کہ کوئی آقا نہ رہے اور نہ کوئی مزدور! دراصل یہی وہ موڑ ہے جہاں پر سرمایہ داری اور اشتراکیت دونوں گھٹنے ٹیک دیتے ہیں اور اسلام سر اٹھا کر بڑے طنطنے کے ساتھ خطاب کرنا شروع کرتا ہے۔
بڑی واضح سی بات ہے مزدور یا مزدوری کا خاتمہ ہرگز نہیں ہوسکتا، یہ ایک قدیم تاریخی سلسلہ ہے۔ اس میں صرف اصلاح کی جاسکتی ہے جس کے صحیح ترین اصول صرف اسلام کے پاس ہیں۔
مزدوری کی تاریخ کے حوالے سے قرآن پاک کی ایک آیت قطعی واضح ہے۔ ارشاد ہے: ﴿قَالَتْ إِحْدَاہُمَا یَا أَبَتِ اسْتَأْجِرْہُ إِنَّ خَیْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِیُّ الْأَمِیْنُ(26) قَالَ إِنِّیْ أُرِیْدُ أَنْ أُنکِحَکَ إِحْدَی ابْنَتَیَّ ہَاتَیْنِ عَلَی أَن تَأْجُرَنِیْ ثَمَانِیَ حِجَجٍ فَإِنْ أَتْمَمْتَ عَشْراً فَمِنْ عِندِکَ وَمَا أُرِیْدُ أَنْ أَشُقَّ عَلَیْکَ سَتَجِدُنِیْ إِن شَاء اللَّہُ مِنَ الصَّالِحِیْنَ(27) قَالَ ذَلِکَ بَیْنِیْ وَبَیْنَکَ أَیَّمَا الْأَجَلَیْنِ قَضَیْتُ فَلَا عُدْوَانَ عَلَیَّ وَاللَّہُ عَلَی مَا نَقُولُ وَکِیْلٌ (28)﴾ (القصص:26-27-28)
مذکورہ آیتوں کا سادہ سا مفہوم یہ ہے کہ حضرت شعیب علیہ السلام کی جن دو بیٹیوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی اہلیت وصلاحیت اور پاکیزہ سیرت کا مشاہدہ کیا تھا ان میں سے ایک نے والد محترم سے گزارش کی:
’’کہا انھیں مزدور رکھ لیجئے، مزدوری کے لیے اگر آپ کسی کا چناؤ کرتے ہیں تو طاقت ور امانت دار شخص اچھا رہے گا۔ حضرت شعیب علیہ السلام نے موسیٰ (علیہ السلام) سے فرمایا، میں اپنی ان دونوں صاحب زادیوں میں سے ایک کی آپ سے شادی کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں لیکن شرط یہ ہے کہ میرے یہاں آٹھ سال تک آپ کو کام کرنا پڑے گا۔ اگر آپ نے دس پورا کردیا تو یہ آپ کی مہربانی ہوگی، میں تکلیف میں ڈالنا مناسب نہیں سمجھتا۔ ان شاء اﷲ آپ مجھے اچھے لوگوں میں سے پاؤ گے۔ حضرت موسیٰ(علیہ السلام) نے جواب دیا، ہمارے اور آپ کے درمیان گویا دونوں مدتیں ہیں جسے بھی میں پورا کردوں میرے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا جائے گا کیونکہ ہم جو کچھ بول رہے ہیں اﷲ اس پر وکیل ہے۔‘‘
یہ آیتیں اپنے یہاں معنی کی ایک دنیا آباد رکھتی ہیں۔ موضوع کے حوالے سے غور کیجئے تو انبیاء و صالحین کے یہاں ایک خاص قسم کی اخلاقی ذہنیت اور مثبت فکر روشن نظر آتی ہے جس کے بغیر جدید مادی دنیا کے مسائل ہمیشہ لاینحل رہیں گے۔ اسی طرح یہ بھی معلوم ہو رہا ہے کہ جبر عموماً آجر کی جانب سے ہواکرتا ہے اور اس زمانے میں بھی یہ جابرانہ فکر پائی جاتی تھی۔
ہم اسے مسلسل واقعاتی سلسلے میں ملاحظہ کرسکتے ہیں کہ آجر اور مزدور کا جھگڑا ہوتا رہا ہے بلکہ ٹھیک بات تو یہ ہے کہ سرمایہ داروں اور زمینداروں کے اٹھے ہاتھوں، بھنچے ہونٹوں اور اکڑی ہوئی گردنوں نے مزدوروں کو مذہب کے تئیں باغی بنادیا، سفا کیوں کی لامتناہیت نے ان کی روح کو اس قدر روندا کہ عیسائیت کا کمزور گھروندا ٹوٹ پھوٹ کر رہ گیا۔
زندگی کی گھور سے ، موت کی عفونت سے، اذیتوں کی ماری مٹی اور خون ٹپکاتی ہوئی آنکھوں سے اشتراکی انقلاب صور اسرافیل کی صورت چیختا ہوا نکلا اور آن کی آن میں وادیوں کی وادیاں نگل گیا، سچ کہئے کہ فکر وخیال کا دھارا بدل گیا۔
یہ مسئلہ اپنی جگہ اور قطع نظر اس سے کہ چند سرمایہ داروں کے خاتمے کے بعد سپر سرمایہ داری کا وجود ہوا جیسا کہ اقبال ابلیس کے ایک مشیر کی زبانی کہہ گئے
ہوں! مگر میری جاں بینی بتاتی ہے مجھے
جو ملوکیت کا اک پردہ ہو اس سے کیا خطر
ہم نے خود شاہی کو پہنایا ہے جمہوری لباس
جب ذرا آدم ہوا ہے خودشناس وخود نگر
کاروبار شہر یاری کی حقیقت اور ہے
یہ وجود میر وسلطاں پر نہیں کچھ منحصر
مقام غور و فکر یہ ہے کہ پامالی حقوق کے دنیا نے کتنے بھیانک نتائج دیکھے!…… پامالی حقوق کے نتائج کی اس سے بھیانک مثال اور کیا ہوسکتی ہے کہ جس مالک نے یہ پوری کائنات بنائی بندوں نے اس کا صریح انکار کیا اور صرف انکار نہیں بلکہ یہ انکار ایک علم، ایک فلسفہ، ایک مدرسہ فکر بن گیا۔ جس پر لوگ فخر کرنے لگے بلکہ یہ کہا جائے تو بے جانہ ہوگا کہ اسلام کے بعد جس چیز نے دنیا کو سب سے زیادہ بدلا وہ اشتراکیت ہی ہے۔
اس لیے حقوق کی بازیابی یعنی مزدوروں کے حقوق کی بازیابی سے متعلق گفت و شنید اور بحث و مباحثہ جاری رہنا ہی چاہیے تاکہ موجودہ مسائل و مشکلات کا حل دریافت ہوسکے۔ اس مباحثے میں چند باتوں کی جانب توجہ حد درجہ ضروری ہے ۔
اولاً یہ کہ مزدوری کا مفہوم کیا ہے، پھر شرعی طور پر اس بات کی وضاحت کہ مزدوری یا کوئی اور جائز پیشہ نہ صرف یہ کہ حقیر نہیں ہے بلکہ اسلام میں اس کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔
ثانیاً: اجرت کے مروجہ تصورات کیا ہیں اور ان کے مقابل اسلامی تصور کیا ہے کیونکہ جب تک یہ تصور انسانی ذہنوں میں پختہ نہیں ہوتا محض قانونی باتیں حقیقی تبدیلی لانے میں کامیاب نہیں ہوسکتیں۔
ثالثاً:اجرت کی کون کون سی قسمیں ہوسکتی ہیں اور کون سی قسم ترجیحی اعتبار سے اسلامی مزاج کے موافق ہے۔
اس سلسلے کی چوتھی بنیادی چیز یہ ہے کہ قانونی حد بندیوں کے ساتھ اخلاقی اور انسانی اعتبار سے مزدوروں کا خیال رکھا جائے تاکہ انسان آخرت میں اﷲ کے سامنے سرخ رو ہوسکے۔
محدثین کرام اسے اور اس جیسے دیگر مسائل کو عموماً ’’اجارہ‘‘ کے عنوان سے بیان کرتے ہیں۔ اس میں عام مزدوروں سے لے کر کرایہ داری ، درزی گیری، لوہاری، طب، تدریس وغیرہ کے مسائل بیان فرماتے ہیں۔ اس طرح اجارہ ایک وسیع لفظ ٹھہرا حتیٰ کہ زمین کو ٹھیکے پر دینا، ریلوں بسوں اور ٹرانسپورٹ کا کرایہ بھی اسی ضمن میں آتا ہے۔
ہمارے یہاں اجرت سے مراد وہ نقد بدلہ ہوا کرتا ہے جو کسی کام کرنے والے کو اس کی محنت کے عوض حاصل ہو۔ اب یہ محنت دماغی بھی ہو سکتی ہے اور جسمانی بھی!…… چونکہ سربراہ مملکت سے لے کر ادنیٰ چپر اسی تک سبھی محنت کے عموم میں داخل ہیں اس لیے ان تمام کا معاوضہ اجرت ہی کہلائے گا۔
البتہ ہماری اپنی زبان میں ذہنی طور پر ’’مزدوری‘‘ کا لفظ بولنے پر عام اور غیر تربیت یافتہ مزدوروں کو محنت کے بدلے ملنے والی رقم مراد ہوتی ہے جو کبھی یومیہ، کبھی ہفتہ واری اور کبھی ماہواری ہوتی ہے۔ مثلاً: قلی،کوچوان، گارے مٹی کے کام کرنے والے۔ ان سے ہٹ کر کلرک، چپراسی وغیرہ نوکر کہلاتے ہیں اور ان کی اجرتیں تنخواہ کے نام سے یاد کی جاتی ہیں۔ تعلیم یافتہ حضرات کی اجرت کو بھی تنخواہ اورمشاہرہ جبکہ ان کے پیشے کو ملازمت اور نوکری بولتے ہیں۔ اس کے برخلاف آزاد پیشہ افراد کی خدمات کے عوض جو معاوضہ حاصل ہوتا ہے اسے فیس اور ان کے فن کے اعتبار سے پیشوں کا نام بھی تجویز کیا جاتا ہے۔
لیکن مزدوری کی اس بحث میں اعلیٰ ملازمت پیشہ، سرکاری ملازمین، آزاد پیشے والے حضرات کبھی مراد نہیں ہوتے۔
مزدوری کی حوصلہ افزائی سے میری مراد یہ نہیں ہے کہ آدمی ترجیحی طور پر مزدوری کا پیشہ اختیار کرے بلکہ یہ ہے کہ آدمی کو محنت سے گریز نہیں کرنا چاہیے اور کوئی بھی پیشہ فی نفسہ ذلیل نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ شریعت نے بیکار بیٹھنے والوں کو موجب طعن ٹھہرایا ہے اور ذلت پیشہ کے معاشرہ میں جو ذہنیت تھی اسے مختلف طریقوں سے بدلنے کی کامیاب کوشش کی۔ اس کے باوجود یہ نہیں کہا جاسکتا کہ موجودہ سوسائٹی بطور خاص ماضی قریب کا معاشرہ اس ذہنیت سے پاک رہا ہو چنانچہ ہمارے پیشے ور بزرگوں میں سے کتنے ہی تنگ نظر بزرگ علماء دین نے بعض حلال پیشوں کو نہ صرف مکروہ ٹھہرایا بلکہ بنام ’’کفو‘‘ معاشرے کی طبقہ وار تقسیم بھی کی۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ یہ جراثیم آج بھی عوام ہی نہیں گنتی کے علماء میں بھی موجود ہیں، یہ علماء کسی بھی مکتب فکر کے ہوں ان کی سوچ بہرحال گندی اور خطرناک ہے جبکہ قرآن پاک میں حضرت موسیٰ علیہ السلام سے مزدوری کا واضح ثبوت ملتا ہے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام ہی پر کیا موقوف عموماً انبیاء کرام کے تعلق سے مزدوری کے دلائل موجود ہیں۔ مثلاً بخاری شریف میں ایک حدیث یوں ہے:
﴿مابعث اﷲ نبیا الا رعی الغنم فقال اصحابہ وانت؟ فقال نعم کنت ارعاھا علی قراریط لاھل مکۃ﴾ (کتاب الاجارۃ/باب رعی الغنم)
یعنی کوئی بھی نبی ایسا مبعوث نہیں کیا گیا جس نے بکریاں نہ چرائی ہوں۔ صحابہ کرام نے یہ سن کر پوچھا آپ نے بھی؟ جواب دیا ہاں! میں نے بھی اہل مکہ کی بکریاں چند قراریط پر چرائی ہیں۔
امام بخاری نے کتاب الاجارۃ میں ایک باب یوں قائم کیا ہے:’’باب استیجار الرجل الصالح‘‘اور اس کے تحت انھوں نے آیت﴿ان خیر من استاجرت القوی الامین﴾ کا ذکر کیا ہے۔
شارحین فقہ بخاری کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ اس سے ان کی ایک غرض یہ بھی ہوسکتی ہے کہ نیک اور صالح افراد کو مزدوری کرنے میں کوئی عار نہیں ہونا چاہیے اور نہ تو ان سے مزدوری کرانے میں کوئی برائی ہے۔
میرا تو کہنا ہے کہ یہ پوری ذہنیت اور یہ تصور ہی ختم ہوجانا چاہیے، اس تصور کے رہتے خصوصیت کے ساتھ علماء و طلباء کے مسائل حل نہیں ہوسکتے جبکہ حال دوسری قوموں کا اس کے برعکس ہے۔ وہاں پیشوں کو حقیر نہیں جانا جاتا، یہ صرف ہمارے معاشرے کے باطل تصورات میں سے ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ ائمہ، مؤذنین و دیگر علماء و مشائخ کو ترجیحی طور پر ہمارے معاشرے میں موقع ملنا چاہیے لیکن اس تصور کو توڑنے کے لیے بہر حال ذہنی فضا بنانی پڑے گی۔
بخاری شریف ہی کی ایک روایت میں ہے کہ صحابہ کرام حمالی تک کیا کرتے تھے۔ بھلا سوچئے تو سہی کہ صحابہ کرام سے زیادہ معزز انبیاء کے بعد اس کائنات میں کون ہے؟
روایت یوں ہے:
﴿عن ابی مسعود الانصاری رضی اﷲ عنہ قال کان رسول اﷲ ﷺاذا امرنا بالصدقۃ انطلق احدنا الی السوق فیحامل فیصیب المد وان بعضھم لمائۃ الف قال ما نراہ الا نفسہ﴾ (کتاب الاجارۃ/باب من آجر نفسہ لیحمل علی ظہرہ ثم تصدق بہ واجرۃ الحمال)
اس روایت میں بتایا گیا ہے کہ رسول اﷲﷺ جب صدقہ کا حکم فرماتے تھے تو صحابہ کرام بازاروں میں جاکر حمالی کرتے تھے۔
مسند احمد کی ایک روایت ہے جس کی سند حافظ ابن حجر کے یہاں مصدق ہے کہ حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے بھوک کی شدت سے پریشان ہو کر ایک یہودیہ کے یہاں سولہ ڈول پانی کھینچا جس کا معاوضہ فی ڈول ایک کھجور تھا حتیٰ کہ ان کے ہاتھوں میں چھالے پڑگئے۔
ان باتوں سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ قرون اولیٰ میں مزدوری کے کیا تصورات تھے اور ہمارے دور میں کیسی ذہنیت اور کیسامعاشرتی رویہ ہے؟ یہ ذہن اور یہ رویہ ہماری مشترکہ قولی و عملی جدوجہد سے ختم ہوسکتا ہے!
غیر اسلامی معاشی نظام میں تصورات اجرت کا معاملہ یا تو محدود ہے یا غیر معتدل کیونکہ سرمایہ دارانہ تصورات اور اشتراکی رجحانات نے دنیا کے تمام فکری ڈھانچوں پر اپناا ثر بہر حال ڈالا ہے اور جہاں بھی یہ دونوں خیالات جگہ پاگئے وہاں نقص لازم ہے۔ یہ دونوں دھارے کون سے فکری دھارے ہیں ان کا پس منظر اور کارنامہ کیا کچھ ہے ہر پڑھا لکھا طبقہ کسی نہ کسی حد تک ان سے واقف ہے۔
سرمایہ داری کا اصل الاصول ’’زیادہ سے زیادہ نفع‘‘ کمانا ہے۔ اس کے علاوہ جتنی بھی تفریعات اور ذیلی ضابطے ہیں سب اسی اصل کے تابع ہیں۔ یہ بیمار سوچ ہر ممکن تگ و دو اس بات پر صرف کرتی ہے کہ مزدور کو کم سے کم مزدوری دی جائے خواہ اس کے لیے رضا مندی کی راہ اپنانی پڑے یا استحصال ، جبر اور حیلہ کا راستہ۔ نفع اندوزی کے اس مہیب تصور کے نتیجے میں بیگاری کا خون آشام دور بھی دیکھا گیا جس کے اثرات آج بھی بعض علاقوں میں موجود ہیں۔
موجودہ دور میں اگرچہ کچھ مجبوریوں اور مصلحتوں کے پیش نظر مزدوروں کے بہت سے حقوق تسلیم کر لیے گئے ہیں مگر عملاً ان کا کما حقہ فائدہ نہیں مل رہا ہے جس کی کھلی وجہ سرمایہ داری کی جاہلانہ و جابرانہ ذہنیت ہی ہے۔ مریض طبیعتیں اجرت کو مزدوروں کا لازمی اور کھلا حق تسلیم نہیں کرتیں، اس میں ممنونیت، احسان مندی، مالکیت کے تقاضے صریح اور غیر صریح طور پر شامل ہی رہتے ہیں۔
اشتراکی نظام میں اجرت کے لیے کسی سودے بازی کی گنجائش نہیں ہے۔ ہر کام کی اجرت کا ایک طے شدہ معیار ہے گویا ساری اجارہ داری حکومت کے ہاتھوں میں ہے۔ عوام حکومت کی مرضی کے مطابق محنت کرے گی اور اس کی دی ہوئی روزی سے زندگی گزارے گی۔ اشتراکی تصور اصلاً یہی ہے گوکہ اس نظام کے فیل ہوجانے کے بعد کچھ تبدیلیاں بھی رونما ہوگئی ہیں۔
اجرت کا یہ تصور اجتماعیت کی غلط اور غیر معتدل پالیسی کا نتیجہ ہے۔ بطور نظریہ بھی اس تصور میں گہرائی نہیں ہے۔ یہاں اخلاقی و نفسیاتی احساسات و احتیاجات کا کوئی راستہ ہی نہیں ہے۔
مذکورہ رجحانات و تصورات کے برخلاف اسلام کا تصور بنیادی حیثیت سے انفرادی اور اجتماعی کشمکش سے آزاد ہے اسی لیے اسلام ایک صالح اور وسط نظام کی حیثیت سے نمودار ہوتا ہے۔
اسلامی تصور اجرت کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ صرف قانون نہیں بناتا ہے بلکہ اپنی خاص ترکیب سے معاشرے کو یہ ذہن دیتا ہے کہ اجرت مزدور کا لازمی حق ہے اور اجرت کے بدلے مزدور کی جسمانی اور دماغی صلاحیتوں سے معروف طریقے پر فائدہ اٹھانا آجر کا بھی حق ہے۔ اس میں کسی طرف سے ممنونیت کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔
اسلام کی یہ معاشی حقیقت جس معاشرے میں رائج نہیں ہے وہاں یہ عمومی ذہن پایا جاتا ہے کہ وقت پر مشاہدہ یا اجرت دینا کوئی احسان کے قبیل کی چیز ہے، اپنے یہاں اجرت پر رکھ لینے کو بھی احسان سے ملاڈالتے ہیں اور مزدوروں کو ذہنی اذیتیں دیتے ہیں۔
حالانکہ یہ گھناؤنی حرکت ہے۔ اسلام نے اس ذہنیت کو توڑنے کے لیے یہ سوچ بھی عنایت کی کہ محنت کے معاشی مفہوم میں صرف ذہنی اور جسمانی مشقت مراد ہے یعنی محنت کرنے والے افراد شامل نہیں ہیں۔ فقہائے کرام کا متفقہ فیصلہ ہے: ﴿ان العقد فی الاجارۃ تتعلق بالمنفعۃ دون الرقبۃ﴾ یعنی مزدوری کا معاہدہ فائدہ سے متعلق ہوتا ہے ، فرد اور ذات اس میں شامل نہیں ہے۔
مزدور کی اجرت کو لازم قرار دینا، محنت سے صرف جسمانی اور دماغی مشقت مراد لینا جیسی چیزوں پر اسلام نے بس نہیں کیا بلکہ اس کے لیے پوری فضا تیار کی، ماحول کو موافق بنا کے ان اصولوں کو اعتباریت بخشا اور مزدوروں کی معاشرتی ، اخلاقی اور نفسیاتی احساسات و احتیاجات کی تسکین بھی ضروری قرار دیا۔ اس کی ایک مثال رسول اﷲﷺ کا یہ فرمان ہے: ﴿اکرموھم ککرامۃ اولادکم واطعموھم مما تاکلون﴾ انھیں اپنی اولاد جیسی عزت دو اور جو کچھ تم کھاتے ہو اسی میں سے انھیں بھی کھلاؤ۔ یہ حدیث پاک گوکہ غلاموں سے زیادہ تعلق رکھتی ہے مگر نفس مسئلہ کی مناسبت سے اس کا ایک ایک لفظ قابل غور ہے۔
اسلامی تصور اجرت کو حقیقی معنی میں سمجھ لینے کے لیے اس کے محرکات کا جاننا ضروری ہے۔ پورے اسلامی نظام اخلاق کو ذہن میں مرتکز کرنے کے ساتھ اسلامی مزاج سے آشنائی بھی ہونی چاہیے کیونکہ اسلامی احکامات اپنی اپنی انفرادیت کے ساتھ باہم مربوط بھی ہیں۔
اجرت کی قسمیں:
اجرت کی تقسیم مختلف اعتبارسے کی گئی ہے۔ یہاں دو انداز کی قسمیں درج کی جاتی ہیں:۔
(۱)اجرت وقت: یعنی ایسی اجرت جس کی تعیین میں کام کے اوقات کا اعتبار کیا گیا ہو۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ آدمی نے جتنے ایام اور جتنے گھنٹے کام کیا ہے اسے شمار کرکے معاوضہ دیا جائے مثلاً یومیہ اجرت، ماہانہ اجرت۔ ان کے اندر بھی مختلف درجات و اعتبارات روا رکھے جاتے ہیں۔
(۲)اجرت عمل: ایسی اجرت جس کی تعیین میں مقدار عمل کا اعتبار ہو یعنی اگر کام کم ہے تو اجرت کم اور زیادہ ہے تو اجرت زیادہ مثلاً جلد سازی فی کتاب 70 روپیہ۔
(۱)اجرت متعارفہ: وہ مقدار زر جو مزدور کی محنت کے معاوضہ میں دی جائے جیسے 400 روپئے روزانہ یا 10 ہزارماہانہ۔ اسے اجرت ظاہری بھی بولتے ہیں۔
(۲)اجرت صحیحہ: ملنے والی رقم سے مزدور کی ضروریات زندگی یعنی خوراک، لباس، مکان، علاج، تعلیم جس قدر حاصل ہوں اسی بقدر کسی اجرت کو اجرتِ صحیحہ بولتے ہیں یعنی یہاں مزدور کی مقدار اجرت پر نگاہ نہیں ہوتی ہے بلکہ بنیادی طور پر اس کی ضروریات خمسہ کو پیش نگاہ رکھا جاتا ہے مثلاً کسی کی تنخواہ 7000 ہو لیکن اشیاء کی گرانی اور بعض دوسرے معقول اسباب کے ناطے اس کی ضرورت پوری ہونے سے رہ جائے تو گویا اس کی اجرت صحیح نہیں ہے۔
حکیم ایم اے قاسم اس کی دوسری تعریف لکھتے ہیں: ’’حقیقی اجرت سے مراد اشیاء و خدمات کی وہ مجموعی مقدار جو کسی مزدور کو اس کی خدمات کے صلہ میں حاصل ہوتی ہے۔ اس میں عموماً تنخواہ کے علاوہ دوسری مراعات بھی شامل ہیں مثلاً مفت طبی امداد، تعلیم، رہائشی مکان، وردی وغیرہ۔ مذکورہ دونوں تعریفات میں کوئی حقیقی فرق نہیں ہے کہ دونوں میں ہی اجرتوں کو ضروریات زندگی سے جوڑ کر بیان کیا گیا ہے، الا کہ پہلی تعریف کے اعتبار سے تنخواہ ہی میں اتنی گنجائش رکھی جائے کہ ضروریات پوری ہوجائیں اور دوسری تعریف میں نقد تنخواہ ہی میں لحاظ رکھنے کے بجائے الگ سے مسائل کا حل سوچا گیا ہے۔ یہ دونوں صورتیں مروج ہیں۔
یہاں سب سے پہلے ہی یہ بات ذہن نشین کرلینے کی ہے کہ اجرت اصل میں ایک معاہدہ ہے جس میں طرفین کی رضامندی ہو۔ یہ معاہدہ شرعی حدوں میں جس انداز سے بھی انجام پاجائے اجرت درست ہوگی خواہ وہ کم ہو یا زیادہ!…… اس لحاظ سے اجرت کی تمام ذکر کردہ اقسام درست ہیں، مختلف حالات میں مختلف طریقوں کا سہارا لیا جائے گا مثلاً کوئی مزدور آپ کے یہاں روزانہ 2 گھنٹے کام کرتا ہے۔ اب یہاں لامحالہ اجرت وقت کا اعتبار کیا جائے گا یا اگر ممکن ٹھہرا تو اجرت عمل پر بھی عمل ہوسکتا ہے البتہ عام حالات میں اسلام کے نزدیک اجرت صحیحہ یا اجرت حقیقی کا اعتبار کیا جانا چاہیے۔
اس کے لیے قرآن و حدیث اور اسلامی تاریخ سے دنیا کو بغیر کسی تعصب کے مدد لینی چاہیے ان شاء اﷲ مسائل حل ہوسکتے ہیں۔
موضوع کے آخر میں اس بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ معاملہ صرف آجروں کی طرف سے ہی نہیں ہے، اشتراکی فکر نے جانے انجانے میں لوگوں کو یہی رجحان دیا ہے مانو دنیا کا ایک حصہ سرمایہ داروں کا اور دوسرا حصہ یک طرفہ مزدوروں کا ہے۔
بات ایسی نہیں ہے مزدور بھی بے ایمانی ، دھوکہ، فریب اور پتہ نہیں کون کون سے امور انجام دیتے ہیں اس لیے نفس کو ایمانی غذا دینی بہت ضروری ہے اور یہ غذا اشتراکیت کے پاس نہیں ہے جبکہ سرمایہ داری کے پاس یک طرفہ ورن سسٹم ہے کہ لوگ گویا ان کی خدمت کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔ یہ غذا صرف اسلام دے سکتا ہے۔
معلوم ہونا چاہیے آجر صرف سرمایہ دار نہیں ہوتے بلکہ مزدور طبقہ بھی مختلف ضروریات کے تحت آجر ہوتا ہے۔ ایسے میں اگر مزدوروں کی شرارتوں اور بے ایمانیوں کو فروغ دیا جائے جیسا کہ اشتراکیت اپنی خاص ہیئت کے ناطے ایسا کر رہی ہے تو یہ بڑی خطرناک بات ہوگی۔
بڑی ذلت کی بات ہے کہ دونوں نظاموں نے آجر اور مزدور کے جھگڑوں کو ہوا ہی دیا ہے۔ سرمایہ داروں نے ظلم کی شکل میں اور اشتراکیوں نے رد عمل میں جتھابندی کی صورت میں۔ حالانکہ فی الحقیقت کوئی طبقاتی اعتبار سے آجر ہے نہ مزدور اور سب آجر ہیں سب مزدور ہیں۔ سارے لوگوں کی ضروریات ایک دوسرے سے وابستہ ہیں، شرط یہ ہے کہ یہ وابستگی ایمانداری کے ساتھ نبھائی جائے۔
٭شعبان بیدار صفویؔ
انتڑیوں سے وجود پذیر ہوئی فکر یعنی لال اشتراکیت کا طبلہ ایسا بجا کہ اس کی گونج پر اچھے اچھے قربان ہوگئے۔ کہاں کی سارنگی، کہاں کی شہنائی!…… کہا جانے لگا اب مزدور اور محنت کش طبقہ کمزور نہیں رہ گیا، اپنی اجتماعی قوت کے ذریعے سماج اور حکومت سے اپنے مفادات حاصل کرسکتا ہے۔ یہ بات آرگنائز صنعتوں کے بارے میں ممکن ہے صحیح ہو لیکن مزدوروں کی کثیر تعداد آج بھی سرمایہ داروں کے رحم و کرم پر ہے۔فاضل دوست شعبان بیدار صفوی زود نگار ہیں لیکن معیار کے ساتھ سمجھوتہ نہیں کرتے ۔ محترم انٹرنیٹ کی دنیا کے آدمی نہیں۔ ان کی تحریریں ان شاء اللہ ہم وقفہ وقفہ سے قارئین کی خدمت میں پیش کرتے رہیں گے۔ مزدوروں کے حقوق کے متعلق اسلام، اشتراکیت اور سرمایہ دارانہ افکار کا موازنہ ملاحظہ فرمائیں۔واضح رہے کہ شعبان بیدار صاحب نے ایک اسلامی مدرسہ سے فیض یافتہ ہیں۔انہوں کسی عصری اسکول ، کالج یا یونیورسٹی سے تعلیم حاصل نہیں کی ہے ۔ سرفراز فیضی
سرمایہ داری تو خیر مشہور عام فیل اور ظالم نظام ہے۔ ہر شئے میں روٹی اور ہر چیز میں جنس دیکھنے والی اشتراکیت عالمی اسٹیج پر جب سے ناکام ہوئی ہے تب سے مزدوروں کی محرومی پر تبصرہ کرنے والوں کی بھرمار ہوگئی ہے۔ یہ کتنی تلخ حقیقت ہے کہ دولت کے حالیہ تیز رفتار اضافے نے اس طبقہ کی زبوں حالیوں کو مزید بڑھا دیا ہے اور حالات ابھی اس موڑ پر نہیں آئے ہیں کہ یہ کہا جائے ’’یہ طبقہ کچھ دنوں بعد معیشت کے دھارے میں شامل ہوسکتا ہے‘‘۔
جملہ معترضہ کے طور پر یہ بات عرض کرتا چلوں کہ عالمی مالیاتی بحران، غریب طبقہ کی بڑھتی غربت، میڈیم طبقہ کی ناآسودگی اور سرمایہ دار گروپ کا ذہنی اور فکری اضطراب اسلام اور اہل اسلام کے لیے جدید دعوتی امکانات لے کر آیا ہے۔ ہمارے لیے یہ اچھا موقع ہے کہ روحانی افکار اور معلومات کے سیلاب سے لوگوں کے دل و دماغ کو سیر کردیں اور مضطرب دنیا کو ایک قابل عمل لائحہ دے کر قیادت کا فریضہ بھی انجام دیں۔
کیا دنیا سے مزدوری کو ختم کیا جاسکتا ہے؟
قارئین کرام! بات مزدوروں پر چل رہی تھی تو اس سلسلے میں غور و فکر کا پہلا نکتہ یہ ہے کہ دنیا سے مزدوری کو ختم کیا جاسکتا ہے؟…… کیا ایسا ممکن ہے کہ کوئی آقا نہ رہے اور نہ کوئی مزدور! دراصل یہی وہ موڑ ہے جہاں پر سرمایہ داری اور اشتراکیت دونوں گھٹنے ٹیک دیتے ہیں اور اسلام سر اٹھا کر بڑے طنطنے کے ساتھ خطاب کرنا شروع کرتا ہے۔
بڑی واضح سی بات ہے مزدور یا مزدوری کا خاتمہ ہرگز نہیں ہوسکتا، یہ ایک قدیم تاریخی سلسلہ ہے۔ اس میں صرف اصلاح کی جاسکتی ہے جس کے صحیح ترین اصول صرف اسلام کے پاس ہیں۔
مزدوری کی تاریخ کے حوالے سے قرآن پاک کی ایک آیت قطعی واضح ہے۔ ارشاد ہے: ﴿قَالَتْ إِحْدَاہُمَا یَا أَبَتِ اسْتَأْجِرْہُ إِنَّ خَیْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِیُّ الْأَمِیْنُ(26) قَالَ إِنِّیْ أُرِیْدُ أَنْ أُنکِحَکَ إِحْدَی ابْنَتَیَّ ہَاتَیْنِ عَلَی أَن تَأْجُرَنِیْ ثَمَانِیَ حِجَجٍ فَإِنْ أَتْمَمْتَ عَشْراً فَمِنْ عِندِکَ وَمَا أُرِیْدُ أَنْ أَشُقَّ عَلَیْکَ سَتَجِدُنِیْ إِن شَاء اللَّہُ مِنَ الصَّالِحِیْنَ(27) قَالَ ذَلِکَ بَیْنِیْ وَبَیْنَکَ أَیَّمَا الْأَجَلَیْنِ قَضَیْتُ فَلَا عُدْوَانَ عَلَیَّ وَاللَّہُ عَلَی مَا نَقُولُ وَکِیْلٌ (28)﴾ (القصص:26-27-28)
مذکورہ آیتوں کا سادہ سا مفہوم یہ ہے کہ حضرت شعیب علیہ السلام کی جن دو بیٹیوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی اہلیت وصلاحیت اور پاکیزہ سیرت کا مشاہدہ کیا تھا ان میں سے ایک نے والد محترم سے گزارش کی:
’’کہا انھیں مزدور رکھ لیجئے، مزدوری کے لیے اگر آپ کسی کا چناؤ کرتے ہیں تو طاقت ور امانت دار شخص اچھا رہے گا۔ حضرت شعیب علیہ السلام نے موسیٰ (علیہ السلام) سے فرمایا، میں اپنی ان دونوں صاحب زادیوں میں سے ایک کی آپ سے شادی کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں لیکن شرط یہ ہے کہ میرے یہاں آٹھ سال تک آپ کو کام کرنا پڑے گا۔ اگر آپ نے دس پورا کردیا تو یہ آپ کی مہربانی ہوگی، میں تکلیف میں ڈالنا مناسب نہیں سمجھتا۔ ان شاء اﷲ آپ مجھے اچھے لوگوں میں سے پاؤ گے۔ حضرت موسیٰ(علیہ السلام) نے جواب دیا، ہمارے اور آپ کے درمیان گویا دونوں مدتیں ہیں جسے بھی میں پورا کردوں میرے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا جائے گا کیونکہ ہم جو کچھ بول رہے ہیں اﷲ اس پر وکیل ہے۔‘‘
یہ آیتیں اپنے یہاں معنی کی ایک دنیا آباد رکھتی ہیں۔ موضوع کے حوالے سے غور کیجئے تو انبیاء و صالحین کے یہاں ایک خاص قسم کی اخلاقی ذہنیت اور مثبت فکر روشن نظر آتی ہے جس کے بغیر جدید مادی دنیا کے مسائل ہمیشہ لاینحل رہیں گے۔ اسی طرح یہ بھی معلوم ہو رہا ہے کہ جبر عموماً آجر کی جانب سے ہواکرتا ہے اور اس زمانے میں بھی یہ جابرانہ فکر پائی جاتی تھی۔
ہم اسے مسلسل واقعاتی سلسلے میں ملاحظہ کرسکتے ہیں کہ آجر اور مزدور کا جھگڑا ہوتا رہا ہے بلکہ ٹھیک بات تو یہ ہے کہ سرمایہ داروں اور زمینداروں کے اٹھے ہاتھوں، بھنچے ہونٹوں اور اکڑی ہوئی گردنوں نے مزدوروں کو مذہب کے تئیں باغی بنادیا، سفا کیوں کی لامتناہیت نے ان کی روح کو اس قدر روندا کہ عیسائیت کا کمزور گھروندا ٹوٹ پھوٹ کر رہ گیا۔
زندگی کی گھور سے ، موت کی عفونت سے، اذیتوں کی ماری مٹی اور خون ٹپکاتی ہوئی آنکھوں سے اشتراکی انقلاب صور اسرافیل کی صورت چیختا ہوا نکلا اور آن کی آن میں وادیوں کی وادیاں نگل گیا، سچ کہئے کہ فکر وخیال کا دھارا بدل گیا۔
باطل باطل پر غالب آیا!
یہ مسئلہ اپنی جگہ اور قطع نظر اس سے کہ چند سرمایہ داروں کے خاتمے کے بعد سپر سرمایہ داری کا وجود ہوا جیسا کہ اقبال ابلیس کے ایک مشیر کی زبانی کہہ گئے
ہوں! مگر میری جاں بینی بتاتی ہے مجھے
جو ملوکیت کا اک پردہ ہو اس سے کیا خطر
ہم نے خود شاہی کو پہنایا ہے جمہوری لباس
جب ذرا آدم ہوا ہے خودشناس وخود نگر
کاروبار شہر یاری کی حقیقت اور ہے
یہ وجود میر وسلطاں پر نہیں کچھ منحصر
مقام غور و فکر یہ ہے کہ پامالی حقوق کے دنیا نے کتنے بھیانک نتائج دیکھے!…… پامالی حقوق کے نتائج کی اس سے بھیانک مثال اور کیا ہوسکتی ہے کہ جس مالک نے یہ پوری کائنات بنائی بندوں نے اس کا صریح انکار کیا اور صرف انکار نہیں بلکہ یہ انکار ایک علم، ایک فلسفہ، ایک مدرسہ فکر بن گیا۔ جس پر لوگ فخر کرنے لگے بلکہ یہ کہا جائے تو بے جانہ ہوگا کہ اسلام کے بعد جس چیز نے دنیا کو سب سے زیادہ بدلا وہ اشتراکیت ہی ہے۔
اس لیے حقوق کی بازیابی یعنی مزدوروں کے حقوق کی بازیابی سے متعلق گفت و شنید اور بحث و مباحثہ جاری رہنا ہی چاہیے تاکہ موجودہ مسائل و مشکلات کا حل دریافت ہوسکے۔ اس مباحثے میں چند باتوں کی جانب توجہ حد درجہ ضروری ہے ۔
اولاً یہ کہ مزدوری کا مفہوم کیا ہے، پھر شرعی طور پر اس بات کی وضاحت کہ مزدوری یا کوئی اور جائز پیشہ نہ صرف یہ کہ حقیر نہیں ہے بلکہ اسلام میں اس کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔
ثانیاً: اجرت کے مروجہ تصورات کیا ہیں اور ان کے مقابل اسلامی تصور کیا ہے کیونکہ جب تک یہ تصور انسانی ذہنوں میں پختہ نہیں ہوتا محض قانونی باتیں حقیقی تبدیلی لانے میں کامیاب نہیں ہوسکتیں۔
ثالثاً:اجرت کی کون کون سی قسمیں ہوسکتی ہیں اور کون سی قسم ترجیحی اعتبار سے اسلامی مزاج کے موافق ہے۔
اس سلسلے کی چوتھی بنیادی چیز یہ ہے کہ قانونی حد بندیوں کے ساتھ اخلاقی اور انسانی اعتبار سے مزدوروں کا خیال رکھا جائے تاکہ انسان آخرت میں اﷲ کے سامنے سرخ رو ہوسکے۔
مزدوری کا مفہوم:
محدثین کرام اسے اور اس جیسے دیگر مسائل کو عموماً ’’اجارہ‘‘ کے عنوان سے بیان کرتے ہیں۔ اس میں عام مزدوروں سے لے کر کرایہ داری ، درزی گیری، لوہاری، طب، تدریس وغیرہ کے مسائل بیان فرماتے ہیں۔ اس طرح اجارہ ایک وسیع لفظ ٹھہرا حتیٰ کہ زمین کو ٹھیکے پر دینا، ریلوں بسوں اور ٹرانسپورٹ کا کرایہ بھی اسی ضمن میں آتا ہے۔
ہمارے یہاں اجرت سے مراد وہ نقد بدلہ ہوا کرتا ہے جو کسی کام کرنے والے کو اس کی محنت کے عوض حاصل ہو۔ اب یہ محنت دماغی بھی ہو سکتی ہے اور جسمانی بھی!…… چونکہ سربراہ مملکت سے لے کر ادنیٰ چپر اسی تک سبھی محنت کے عموم میں داخل ہیں اس لیے ان تمام کا معاوضہ اجرت ہی کہلائے گا۔
البتہ ہماری اپنی زبان میں ذہنی طور پر ’’مزدوری‘‘ کا لفظ بولنے پر عام اور غیر تربیت یافتہ مزدوروں کو محنت کے بدلے ملنے والی رقم مراد ہوتی ہے جو کبھی یومیہ، کبھی ہفتہ واری اور کبھی ماہواری ہوتی ہے۔ مثلاً: قلی،کوچوان، گارے مٹی کے کام کرنے والے۔ ان سے ہٹ کر کلرک، چپراسی وغیرہ نوکر کہلاتے ہیں اور ان کی اجرتیں تنخواہ کے نام سے یاد کی جاتی ہیں۔ تعلیم یافتہ حضرات کی اجرت کو بھی تنخواہ اورمشاہرہ جبکہ ان کے پیشے کو ملازمت اور نوکری بولتے ہیں۔ اس کے برخلاف آزاد پیشہ افراد کی خدمات کے عوض جو معاوضہ حاصل ہوتا ہے اسے فیس اور ان کے فن کے اعتبار سے پیشوں کا نام بھی تجویز کیا جاتا ہے۔
لیکن مزدوری کی اس بحث میں اعلیٰ ملازمت پیشہ، سرکاری ملازمین، آزاد پیشے والے حضرات کبھی مراد نہیں ہوتے۔
مزدوری کی حوصلہ افزائی:
مزدوری کی حوصلہ افزائی سے میری مراد یہ نہیں ہے کہ آدمی ترجیحی طور پر مزدوری کا پیشہ اختیار کرے بلکہ یہ ہے کہ آدمی کو محنت سے گریز نہیں کرنا چاہیے اور کوئی بھی پیشہ فی نفسہ ذلیل نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ شریعت نے بیکار بیٹھنے والوں کو موجب طعن ٹھہرایا ہے اور ذلت پیشہ کے معاشرہ میں جو ذہنیت تھی اسے مختلف طریقوں سے بدلنے کی کامیاب کوشش کی۔ اس کے باوجود یہ نہیں کہا جاسکتا کہ موجودہ سوسائٹی بطور خاص ماضی قریب کا معاشرہ اس ذہنیت سے پاک رہا ہو چنانچہ ہمارے پیشے ور بزرگوں میں سے کتنے ہی تنگ نظر بزرگ علماء دین نے بعض حلال پیشوں کو نہ صرف مکروہ ٹھہرایا بلکہ بنام ’’کفو‘‘ معاشرے کی طبقہ وار تقسیم بھی کی۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ یہ جراثیم آج بھی عوام ہی نہیں گنتی کے علماء میں بھی موجود ہیں، یہ علماء کسی بھی مکتب فکر کے ہوں ان کی سوچ بہرحال گندی اور خطرناک ہے جبکہ قرآن پاک میں حضرت موسیٰ علیہ السلام سے مزدوری کا واضح ثبوت ملتا ہے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام ہی پر کیا موقوف عموماً انبیاء کرام کے تعلق سے مزدوری کے دلائل موجود ہیں۔ مثلاً بخاری شریف میں ایک حدیث یوں ہے:
﴿مابعث اﷲ نبیا الا رعی الغنم فقال اصحابہ وانت؟ فقال نعم کنت ارعاھا علی قراریط لاھل مکۃ﴾ (کتاب الاجارۃ/باب رعی الغنم)
یعنی کوئی بھی نبی ایسا مبعوث نہیں کیا گیا جس نے بکریاں نہ چرائی ہوں۔ صحابہ کرام نے یہ سن کر پوچھا آپ نے بھی؟ جواب دیا ہاں! میں نے بھی اہل مکہ کی بکریاں چند قراریط پر چرائی ہیں۔
امام بخاری نے کتاب الاجارۃ میں ایک باب یوں قائم کیا ہے:’’باب استیجار الرجل الصالح‘‘اور اس کے تحت انھوں نے آیت﴿ان خیر من استاجرت القوی الامین﴾ کا ذکر کیا ہے۔
شارحین فقہ بخاری کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ اس سے ان کی ایک غرض یہ بھی ہوسکتی ہے کہ نیک اور صالح افراد کو مزدوری کرنے میں کوئی عار نہیں ہونا چاہیے اور نہ تو ان سے مزدوری کرانے میں کوئی برائی ہے۔
میرا تو کہنا ہے کہ یہ پوری ذہنیت اور یہ تصور ہی ختم ہوجانا چاہیے، اس تصور کے رہتے خصوصیت کے ساتھ علماء و طلباء کے مسائل حل نہیں ہوسکتے جبکہ حال دوسری قوموں کا اس کے برعکس ہے۔ وہاں پیشوں کو حقیر نہیں جانا جاتا، یہ صرف ہمارے معاشرے کے باطل تصورات میں سے ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ ائمہ، مؤذنین و دیگر علماء و مشائخ کو ترجیحی طور پر ہمارے معاشرے میں موقع ملنا چاہیے لیکن اس تصور کو توڑنے کے لیے بہر حال ذہنی فضا بنانی پڑے گی۔
بخاری شریف ہی کی ایک روایت میں ہے کہ صحابہ کرام حمالی تک کیا کرتے تھے۔ بھلا سوچئے تو سہی کہ صحابہ کرام سے زیادہ معزز انبیاء کے بعد اس کائنات میں کون ہے؟
روایت یوں ہے:
﴿عن ابی مسعود الانصاری رضی اﷲ عنہ قال کان رسول اﷲ ﷺاذا امرنا بالصدقۃ انطلق احدنا الی السوق فیحامل فیصیب المد وان بعضھم لمائۃ الف قال ما نراہ الا نفسہ﴾ (کتاب الاجارۃ/باب من آجر نفسہ لیحمل علی ظہرہ ثم تصدق بہ واجرۃ الحمال)
اس روایت میں بتایا گیا ہے کہ رسول اﷲﷺ جب صدقہ کا حکم فرماتے تھے تو صحابہ کرام بازاروں میں جاکر حمالی کرتے تھے۔
مسند احمد کی ایک روایت ہے جس کی سند حافظ ابن حجر کے یہاں مصدق ہے کہ حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے بھوک کی شدت سے پریشان ہو کر ایک یہودیہ کے یہاں سولہ ڈول پانی کھینچا جس کا معاوضہ فی ڈول ایک کھجور تھا حتیٰ کہ ان کے ہاتھوں میں چھالے پڑگئے۔
ان باتوں سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ قرون اولیٰ میں مزدوری کے کیا تصورات تھے اور ہمارے دور میں کیسی ذہنیت اور کیسامعاشرتی رویہ ہے؟ یہ ذہن اور یہ رویہ ہماری مشترکہ قولی و عملی جدوجہد سے ختم ہوسکتا ہے!
اجرت کے تصورات:
غیر اسلامی معاشی نظام میں تصورات اجرت کا معاملہ یا تو محدود ہے یا غیر معتدل کیونکہ سرمایہ دارانہ تصورات اور اشتراکی رجحانات نے دنیا کے تمام فکری ڈھانچوں پر اپناا ثر بہر حال ڈالا ہے اور جہاں بھی یہ دونوں خیالات جگہ پاگئے وہاں نقص لازم ہے۔ یہ دونوں دھارے کون سے فکری دھارے ہیں ان کا پس منظر اور کارنامہ کیا کچھ ہے ہر پڑھا لکھا طبقہ کسی نہ کسی حد تک ان سے واقف ہے۔
سرمایہ داری کا اصل الاصول ’’زیادہ سے زیادہ نفع‘‘ کمانا ہے۔ اس کے علاوہ جتنی بھی تفریعات اور ذیلی ضابطے ہیں سب اسی اصل کے تابع ہیں۔ یہ بیمار سوچ ہر ممکن تگ و دو اس بات پر صرف کرتی ہے کہ مزدور کو کم سے کم مزدوری دی جائے خواہ اس کے لیے رضا مندی کی راہ اپنانی پڑے یا استحصال ، جبر اور حیلہ کا راستہ۔ نفع اندوزی کے اس مہیب تصور کے نتیجے میں بیگاری کا خون آشام دور بھی دیکھا گیا جس کے اثرات آج بھی بعض علاقوں میں موجود ہیں۔
موجودہ دور میں اگرچہ کچھ مجبوریوں اور مصلحتوں کے پیش نظر مزدوروں کے بہت سے حقوق تسلیم کر لیے گئے ہیں مگر عملاً ان کا کما حقہ فائدہ نہیں مل رہا ہے جس کی کھلی وجہ سرمایہ داری کی جاہلانہ و جابرانہ ذہنیت ہی ہے۔ مریض طبیعتیں اجرت کو مزدوروں کا لازمی اور کھلا حق تسلیم نہیں کرتیں، اس میں ممنونیت، احسان مندی، مالکیت کے تقاضے صریح اور غیر صریح طور پر شامل ہی رہتے ہیں۔
اشتراکی نظام میں اجرت کے لیے کسی سودے بازی کی گنجائش نہیں ہے۔ ہر کام کی اجرت کا ایک طے شدہ معیار ہے گویا ساری اجارہ داری حکومت کے ہاتھوں میں ہے۔ عوام حکومت کی مرضی کے مطابق محنت کرے گی اور اس کی دی ہوئی روزی سے زندگی گزارے گی۔ اشتراکی تصور اصلاً یہی ہے گوکہ اس نظام کے فیل ہوجانے کے بعد کچھ تبدیلیاں بھی رونما ہوگئی ہیں۔
اجرت کا یہ تصور اجتماعیت کی غلط اور غیر معتدل پالیسی کا نتیجہ ہے۔ بطور نظریہ بھی اس تصور میں گہرائی نہیں ہے۔ یہاں اخلاقی و نفسیاتی احساسات و احتیاجات کا کوئی راستہ ہی نہیں ہے۔
مذکورہ رجحانات و تصورات کے برخلاف اسلام کا تصور بنیادی حیثیت سے انفرادی اور اجتماعی کشمکش سے آزاد ہے اسی لیے اسلام ایک صالح اور وسط نظام کی حیثیت سے نمودار ہوتا ہے۔
اسلامی تصور اجرت کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ صرف قانون نہیں بناتا ہے بلکہ اپنی خاص ترکیب سے معاشرے کو یہ ذہن دیتا ہے کہ اجرت مزدور کا لازمی حق ہے اور اجرت کے بدلے مزدور کی جسمانی اور دماغی صلاحیتوں سے معروف طریقے پر فائدہ اٹھانا آجر کا بھی حق ہے۔ اس میں کسی طرف سے ممنونیت کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔
اسلام کی یہ معاشی حقیقت جس معاشرے میں رائج نہیں ہے وہاں یہ عمومی ذہن پایا جاتا ہے کہ وقت پر مشاہدہ یا اجرت دینا کوئی احسان کے قبیل کی چیز ہے، اپنے یہاں اجرت پر رکھ لینے کو بھی احسان سے ملاڈالتے ہیں اور مزدوروں کو ذہنی اذیتیں دیتے ہیں۔
حالانکہ یہ گھناؤنی حرکت ہے۔ اسلام نے اس ذہنیت کو توڑنے کے لیے یہ سوچ بھی عنایت کی کہ محنت کے معاشی مفہوم میں صرف ذہنی اور جسمانی مشقت مراد ہے یعنی محنت کرنے والے افراد شامل نہیں ہیں۔ فقہائے کرام کا متفقہ فیصلہ ہے: ﴿ان العقد فی الاجارۃ تتعلق بالمنفعۃ دون الرقبۃ﴾ یعنی مزدوری کا معاہدہ فائدہ سے متعلق ہوتا ہے ، فرد اور ذات اس میں شامل نہیں ہے۔
مزدور کی اجرت کو لازم قرار دینا، محنت سے صرف جسمانی اور دماغی مشقت مراد لینا جیسی چیزوں پر اسلام نے بس نہیں کیا بلکہ اس کے لیے پوری فضا تیار کی، ماحول کو موافق بنا کے ان اصولوں کو اعتباریت بخشا اور مزدوروں کی معاشرتی ، اخلاقی اور نفسیاتی احساسات و احتیاجات کی تسکین بھی ضروری قرار دیا۔ اس کی ایک مثال رسول اﷲﷺ کا یہ فرمان ہے: ﴿اکرموھم ککرامۃ اولادکم واطعموھم مما تاکلون﴾ انھیں اپنی اولاد جیسی عزت دو اور جو کچھ تم کھاتے ہو اسی میں سے انھیں بھی کھلاؤ۔ یہ حدیث پاک گوکہ غلاموں سے زیادہ تعلق رکھتی ہے مگر نفس مسئلہ کی مناسبت سے اس کا ایک ایک لفظ قابل غور ہے۔
اسلامی تصور اجرت کو حقیقی معنی میں سمجھ لینے کے لیے اس کے محرکات کا جاننا ضروری ہے۔ پورے اسلامی نظام اخلاق کو ذہن میں مرتکز کرنے کے ساتھ اسلامی مزاج سے آشنائی بھی ہونی چاہیے کیونکہ اسلامی احکامات اپنی اپنی انفرادیت کے ساتھ باہم مربوط بھی ہیں۔
اجرت کی قسمیں:
اجرت کی تقسیم مختلف اعتبارسے کی گئی ہے۔ یہاں دو انداز کی قسمیں درج کی جاتی ہیں:۔
شرح تعیین کے لحاظ سے:
(۱)اجرت وقت: یعنی ایسی اجرت جس کی تعیین میں کام کے اوقات کا اعتبار کیا گیا ہو۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ آدمی نے جتنے ایام اور جتنے گھنٹے کام کیا ہے اسے شمار کرکے معاوضہ دیا جائے مثلاً یومیہ اجرت، ماہانہ اجرت۔ ان کے اندر بھی مختلف درجات و اعتبارات روا رکھے جاتے ہیں۔
(۲)اجرت عمل: ایسی اجرت جس کی تعیین میں مقدار عمل کا اعتبار ہو یعنی اگر کام کم ہے تو اجرت کم اور زیادہ ہے تو اجرت زیادہ مثلاً جلد سازی فی کتاب 70 روپیہ۔
ادائیگی کے لحاظ سے اجرت:
(۱)اجرت متعارفہ: وہ مقدار زر جو مزدور کی محنت کے معاوضہ میں دی جائے جیسے 400 روپئے روزانہ یا 10 ہزارماہانہ۔ اسے اجرت ظاہری بھی بولتے ہیں۔
(۲)اجرت صحیحہ: ملنے والی رقم سے مزدور کی ضروریات زندگی یعنی خوراک، لباس، مکان، علاج، تعلیم جس قدر حاصل ہوں اسی بقدر کسی اجرت کو اجرتِ صحیحہ بولتے ہیں یعنی یہاں مزدور کی مقدار اجرت پر نگاہ نہیں ہوتی ہے بلکہ بنیادی طور پر اس کی ضروریات خمسہ کو پیش نگاہ رکھا جاتا ہے مثلاً کسی کی تنخواہ 7000 ہو لیکن اشیاء کی گرانی اور بعض دوسرے معقول اسباب کے ناطے اس کی ضرورت پوری ہونے سے رہ جائے تو گویا اس کی اجرت صحیح نہیں ہے۔
حکیم ایم اے قاسم اس کی دوسری تعریف لکھتے ہیں: ’’حقیقی اجرت سے مراد اشیاء و خدمات کی وہ مجموعی مقدار جو کسی مزدور کو اس کی خدمات کے صلہ میں حاصل ہوتی ہے۔ اس میں عموماً تنخواہ کے علاوہ دوسری مراعات بھی شامل ہیں مثلاً مفت طبی امداد، تعلیم، رہائشی مکان، وردی وغیرہ۔ مذکورہ دونوں تعریفات میں کوئی حقیقی فرق نہیں ہے کہ دونوں میں ہی اجرتوں کو ضروریات زندگی سے جوڑ کر بیان کیا گیا ہے، الا کہ پہلی تعریف کے اعتبار سے تنخواہ ہی میں اتنی گنجائش رکھی جائے کہ ضروریات پوری ہوجائیں اور دوسری تعریف میں نقد تنخواہ ہی میں لحاظ رکھنے کے بجائے الگ سے مسائل کا حل سوچا گیا ہے۔ یہ دونوں صورتیں مروج ہیں۔
کون سی اجرت دی جائے:
یہاں سب سے پہلے ہی یہ بات ذہن نشین کرلینے کی ہے کہ اجرت اصل میں ایک معاہدہ ہے جس میں طرفین کی رضامندی ہو۔ یہ معاہدہ شرعی حدوں میں جس انداز سے بھی انجام پاجائے اجرت درست ہوگی خواہ وہ کم ہو یا زیادہ!…… اس لحاظ سے اجرت کی تمام ذکر کردہ اقسام درست ہیں، مختلف حالات میں مختلف طریقوں کا سہارا لیا جائے گا مثلاً کوئی مزدور آپ کے یہاں روزانہ 2 گھنٹے کام کرتا ہے۔ اب یہاں لامحالہ اجرت وقت کا اعتبار کیا جائے گا یا اگر ممکن ٹھہرا تو اجرت عمل پر بھی عمل ہوسکتا ہے البتہ عام حالات میں اسلام کے نزدیک اجرت صحیحہ یا اجرت حقیقی کا اعتبار کیا جانا چاہیے۔
قانونی حد بندیوں سے آگے……!
قانون سے ہٹ کر استحصالی ذہنیتوں کو سامنے رکھنا ضروری ہے
، یہ ذہنیتیں جو مشکلات کھڑی کرتی ہیں عام طور پر انھیں قانونی درجہ بندیوں سے حل نہیں کیا جاسکتا۔ استحصال کی اختلاف احوال کے ساتھ مختلف شکلیں ہوسکتی ہیں، بعض صورتیں معاہدے کے بعد پیش ہوتی ہیں اور بعض معاہدے سے قبل ہی ظاہر رہتی ہیں مثلاً انسان کے ساتھ ایسے حالات آجاتے ہیں جب وہ اپنی محنت کو ذلت کے ساتھ فروخت کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے جیسے سرمایہ داروں کی مصنوعی ارزانی سے چھوٹے دوکاندار ٹوٹ پھوٹ کر ختم ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح محنت کی فروختگی میں بھی مجبوریوں سے فائدہ اٹھا کر اجرت کم سے کم کردی جاتی ہے۔ اب یہ حکومت اور معاشرے کی یکساں ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ ایسے حالات پیدا کرائیں کہ آدمی دو وقت کی روٹی اور علاج و معالجہ کی فکر کے ناطے اپنی محنت کو گوبر بھاؤ پر بیچنے کو مجبور نہ ہو۔ حکومتوں نے اس سلسلے کا اچھا قدم یہ اٹھایا ہے کہ کم سے کم مزدوری کی تعین کردی ہے لیکن ظاہر ہے یہ اقدام بغیر ذہنوں کو بدلے کافی نہیں ہے۔اس کے لیے قرآن و حدیث اور اسلامی تاریخ سے دنیا کو بغیر کسی تعصب کے مدد لینی چاہیے ان شاء اﷲ مسائل حل ہوسکتے ہیں۔
موضوع کے آخر میں اس بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ معاملہ صرف آجروں کی طرف سے ہی نہیں ہے، اشتراکی فکر نے جانے انجانے میں لوگوں کو یہی رجحان دیا ہے مانو دنیا کا ایک حصہ سرمایہ داروں کا اور دوسرا حصہ یک طرفہ مزدوروں کا ہے۔
بات ایسی نہیں ہے مزدور بھی بے ایمانی ، دھوکہ، فریب اور پتہ نہیں کون کون سے امور انجام دیتے ہیں اس لیے نفس کو ایمانی غذا دینی بہت ضروری ہے اور یہ غذا اشتراکیت کے پاس نہیں ہے جبکہ سرمایہ داری کے پاس یک طرفہ ورن سسٹم ہے کہ لوگ گویا ان کی خدمت کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔ یہ غذا صرف اسلام دے سکتا ہے۔
معلوم ہونا چاہیے آجر صرف سرمایہ دار نہیں ہوتے بلکہ مزدور طبقہ بھی مختلف ضروریات کے تحت آجر ہوتا ہے۔ ایسے میں اگر مزدوروں کی شرارتوں اور بے ایمانیوں کو فروغ دیا جائے جیسا کہ اشتراکیت اپنی خاص ہیئت کے ناطے ایسا کر رہی ہے تو یہ بڑی خطرناک بات ہوگی۔
بڑی ذلت کی بات ہے کہ دونوں نظاموں نے آجر اور مزدور کے جھگڑوں کو ہوا ہی دیا ہے۔ سرمایہ داروں نے ظلم کی شکل میں اور اشتراکیوں نے رد عمل میں جتھابندی کی صورت میں۔ حالانکہ فی الحقیقت کوئی طبقاتی اعتبار سے آجر ہے نہ مزدور اور سب آجر ہیں سب مزدور ہیں۔ سارے لوگوں کی ضروریات ایک دوسرے سے وابستہ ہیں، شرط یہ ہے کہ یہ وابستگی ایمانداری کے ساتھ نبھائی جائے۔