مقبول احمد سلفی
سینئر رکن
- شمولیت
- نومبر 30، 2013
- پیغامات
- 1,400
- ری ایکشن اسکور
- 463
- پوائنٹ
- 209
لاپتہ شوہر کی کم ازکم دوحالت بنتی ہیں ۔
(1) شوہر لاپتہ (بمعنی غائب)یعنی بیوی کو چھوڑ کے چلا گیا ہو، وہ اصلا زندہ ہو، اس سے رابطہ بھی ممکن ہومگر کسی وجہ سے بیوی سے لاتعلق ہوکر کہیں چلا گیا ہو ۔
ایسی صورت میں بیوی شوہر سے رابطہ کرے اور درمیانی دوری ختم کرنے کی کوشش کرے ۔ اگرشوہر بیوی سے الگ رہنا چاہتا ہے ، بیوی کو نان و نفقہ سے محروم کررکھا ہے اور مطالبہ پہ بھی نہیں دیتا تو بیوی حاکم وقت سے نکاح فسخ کرالے ۔ اس کے بعد اختیار ہے کہ وہ دوسرے مرد سے شادی کرلے۔
(2) واقعی شوہر گم ہوگیا ہو اور اس کی کوئی خبر یا اس سے کوئی رابطہ نہ ہواور اس کے متعلق زندہ یا مردہ ہونا معلوم نہ ہو۔
اس صورت میں ائمہ اور فقہاء کے درمیان کافی اختلافات پائے جاتے ہیں مگر میں اختلاف سے دور رہتے ہوئے راحج قول پیش کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔
لاپتہ (مفقود الخبر) شوہرکی بیوی کے مختصر احکام:
٭ ایسی عورت شرعی عدالت میں اپنے شوہر کے لاپتہ ہونے کی خبر درج کرائے ۔ عدالت حالات و واقعات کو سامنے رکھتے ہوئے اس کے لئے شوہر فوت ہونے کا حکم لگائے گی ۔
٭عدالت میں خبر دینے کے بعد بیوی کب تک انتظار کرے ؟ اس سے متعلق حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ایک قول ہے جسے امام بخاری ؒ نے اور امام شافعی ؒ وغیرہ نے ذکر کیا ہے ۔
أنَّ عمرَ بنَ الخطَّابِ قالَ : أيُّما امرأةٍ فقدت زوجَها ، فلم تدرِ أينَ هوَ فإنَّها تنتظِرُ أربعَ سنينَ ثمَّ تنتظرُ أربعةَ أشهرٍ وعشرًا۔( کتاب الام للشافعی 8/657)
ترجمہ: حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جس عورت کا خاوند گم ہوجائے اور اس کاپتہ معلوم نہ ہو کہ وہ کہا ں ہے۔ تو وہ عورت چار سال تک انتظار کرے پھر چار ماہ دس دن عدت گزارے۔
امام مالک ؒ نے اسی قول کو اختیار کیا ہے ۔ یہ قول راحج نظر آتا ہے۔ یہاں چار سال کی مدت سے اختلاف کیا جاتا ہے خصوصا آج کے ترقی یافتہ زمانے میں کسی خبر کو ایک کونے سے دوسرے کونے تک پہنچانا نہایت آسان ہوگیا ہے ۔ اس لحاظ سے ایک سال کی مدت زیادہ معقول نظر آتی ہے ۔ اور اس بات کی تائید ایک حدیث سے بھی ہوتی جس میں گم شدہ سامان کو ایک سال تک پہچان کرانے کا ذکر ہے ۔
سُئل رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ عن الُّلقطةِ ، الذهبُ أو الورِقُ ؟ فقال : اعرَفْ وكاءَها وعفاصَها . ثم عرِّفها سنةً . فإن لم تعرف فاستنفقْها . ( مسلم :1722)
ترجمہ : زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے لقطہ(گری پڑی چیز) سونا یا چاندی کے بارے میں پوچھا، توآپ نے فرمایا:اس کا سربند اور اس کی تھیلی پہچان لو،پھرسال بھر تک اس کی پہچان کراؤ، اگر تمہیں معلوم نہ ہوسکے تو پھراسے خرچ کرلو۔
٭ ایک سال کی مدت حتمی نہ مانی جائے کیونکہ اس میں آگے پیچھے کا امکان ہے ، اس لئے مدت کے متعلق حتمی فیصلہ قاضی کا ہوگا وہ حالات و ظروف دیکھ کر مدت کی تعیین کریں گے ۔
٭جس وقت قاضی کے پاس شوپرلاپتہ ہونے کی خبر جائے اس وقت سے مدت شمار ہوگی ، اس سے پہلی والی مدت کا کوئی اعتبار نہ ہوگا۔
٭ عورت پہلے قاضی کی طرف سے دئے گئے وقت گذارے پھرقاضی نکاح فسخ کردے ۔ اس کے بعدبیوی چار مہینے دس دن وفات کی عدت گذارے ،پھر دوسرے مرد سے شادی کرنا جائز ہوجائے گا۔
٭ بلاوجہ قاضی/حاکم کا انتظار میں تاخیر کرانا صحیح نہیں ہے ، اگر ایسی صورت ظاہر ہو تو دوسرے سے فیصلہ کرائے ۔
٭ایسے بھی حالات ہوسکتے ہیں کہ عورت کو مزید انتظار کرنے کی نوبت نہ پڑے ۔ ایسے حالات میں قاضی بالفور نکاح فسخ کردے ۔
٭لاپتہ شوہر اگر انتظار کے وقت یا عدت گذارتے وقت لوٹ آئے تو وہی عورت اس کی بیوی ہوگی ۔ اسے نکاح کرنے یا دوسرے سے شادی کرنے کی ضرورت نہیں ۔
٭ لاپتہ شوہر اگر بیوی کا دوسرے مرد سے شادی کے بعد واپس آیا تو اسے اختیار ہے چاہے تو وہ دوسرے شوہر کے نکاح پہ باقی رکھے یا پھر اپنی زوجیت میں رکھے ۔
٭ لاپتہ شخص نے اگر مال چھوڑا ہے تو قاضی جس وقت اس کی موت کا حکم لگائے گا ، اس کے بعد میراث تقسیم کرسکتے ہیں۔
واللہ اعلم بالصواب
نوٹ: چونکہ اس مسئلہ میں اہل علم کی رائیں مختلف ہیں اس لئے بحث کے طور پہ ٹھوس دلائل ذریعہ مزید بات بڑھائی جاسکتی ہے ۔
(1) شوہر لاپتہ (بمعنی غائب)یعنی بیوی کو چھوڑ کے چلا گیا ہو، وہ اصلا زندہ ہو، اس سے رابطہ بھی ممکن ہومگر کسی وجہ سے بیوی سے لاتعلق ہوکر کہیں چلا گیا ہو ۔
ایسی صورت میں بیوی شوہر سے رابطہ کرے اور درمیانی دوری ختم کرنے کی کوشش کرے ۔ اگرشوہر بیوی سے الگ رہنا چاہتا ہے ، بیوی کو نان و نفقہ سے محروم کررکھا ہے اور مطالبہ پہ بھی نہیں دیتا تو بیوی حاکم وقت سے نکاح فسخ کرالے ۔ اس کے بعد اختیار ہے کہ وہ دوسرے مرد سے شادی کرلے۔
(2) واقعی شوہر گم ہوگیا ہو اور اس کی کوئی خبر یا اس سے کوئی رابطہ نہ ہواور اس کے متعلق زندہ یا مردہ ہونا معلوم نہ ہو۔
اس صورت میں ائمہ اور فقہاء کے درمیان کافی اختلافات پائے جاتے ہیں مگر میں اختلاف سے دور رہتے ہوئے راحج قول پیش کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔
لاپتہ (مفقود الخبر) شوہرکی بیوی کے مختصر احکام:
٭ ایسی عورت شرعی عدالت میں اپنے شوہر کے لاپتہ ہونے کی خبر درج کرائے ۔ عدالت حالات و واقعات کو سامنے رکھتے ہوئے اس کے لئے شوہر فوت ہونے کا حکم لگائے گی ۔
٭عدالت میں خبر دینے کے بعد بیوی کب تک انتظار کرے ؟ اس سے متعلق حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ایک قول ہے جسے امام بخاری ؒ نے اور امام شافعی ؒ وغیرہ نے ذکر کیا ہے ۔
أنَّ عمرَ بنَ الخطَّابِ قالَ : أيُّما امرأةٍ فقدت زوجَها ، فلم تدرِ أينَ هوَ فإنَّها تنتظِرُ أربعَ سنينَ ثمَّ تنتظرُ أربعةَ أشهرٍ وعشرًا۔( کتاب الام للشافعی 8/657)
ترجمہ: حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جس عورت کا خاوند گم ہوجائے اور اس کاپتہ معلوم نہ ہو کہ وہ کہا ں ہے۔ تو وہ عورت چار سال تک انتظار کرے پھر چار ماہ دس دن عدت گزارے۔
امام مالک ؒ نے اسی قول کو اختیار کیا ہے ۔ یہ قول راحج نظر آتا ہے۔ یہاں چار سال کی مدت سے اختلاف کیا جاتا ہے خصوصا آج کے ترقی یافتہ زمانے میں کسی خبر کو ایک کونے سے دوسرے کونے تک پہنچانا نہایت آسان ہوگیا ہے ۔ اس لحاظ سے ایک سال کی مدت زیادہ معقول نظر آتی ہے ۔ اور اس بات کی تائید ایک حدیث سے بھی ہوتی جس میں گم شدہ سامان کو ایک سال تک پہچان کرانے کا ذکر ہے ۔
سُئل رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ عن الُّلقطةِ ، الذهبُ أو الورِقُ ؟ فقال : اعرَفْ وكاءَها وعفاصَها . ثم عرِّفها سنةً . فإن لم تعرف فاستنفقْها . ( مسلم :1722)
ترجمہ : زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے لقطہ(گری پڑی چیز) سونا یا چاندی کے بارے میں پوچھا، توآپ نے فرمایا:اس کا سربند اور اس کی تھیلی پہچان لو،پھرسال بھر تک اس کی پہچان کراؤ، اگر تمہیں معلوم نہ ہوسکے تو پھراسے خرچ کرلو۔
٭ ایک سال کی مدت حتمی نہ مانی جائے کیونکہ اس میں آگے پیچھے کا امکان ہے ، اس لئے مدت کے متعلق حتمی فیصلہ قاضی کا ہوگا وہ حالات و ظروف دیکھ کر مدت کی تعیین کریں گے ۔
٭جس وقت قاضی کے پاس شوپرلاپتہ ہونے کی خبر جائے اس وقت سے مدت شمار ہوگی ، اس سے پہلی والی مدت کا کوئی اعتبار نہ ہوگا۔
٭ عورت پہلے قاضی کی طرف سے دئے گئے وقت گذارے پھرقاضی نکاح فسخ کردے ۔ اس کے بعدبیوی چار مہینے دس دن وفات کی عدت گذارے ،پھر دوسرے مرد سے شادی کرنا جائز ہوجائے گا۔
٭ بلاوجہ قاضی/حاکم کا انتظار میں تاخیر کرانا صحیح نہیں ہے ، اگر ایسی صورت ظاہر ہو تو دوسرے سے فیصلہ کرائے ۔
٭ایسے بھی حالات ہوسکتے ہیں کہ عورت کو مزید انتظار کرنے کی نوبت نہ پڑے ۔ ایسے حالات میں قاضی بالفور نکاح فسخ کردے ۔
٭لاپتہ شوہر اگر انتظار کے وقت یا عدت گذارتے وقت لوٹ آئے تو وہی عورت اس کی بیوی ہوگی ۔ اسے نکاح کرنے یا دوسرے سے شادی کرنے کی ضرورت نہیں ۔
٭ لاپتہ شوہر اگر بیوی کا دوسرے مرد سے شادی کے بعد واپس آیا تو اسے اختیار ہے چاہے تو وہ دوسرے شوہر کے نکاح پہ باقی رکھے یا پھر اپنی زوجیت میں رکھے ۔
٭ لاپتہ شخص نے اگر مال چھوڑا ہے تو قاضی جس وقت اس کی موت کا حکم لگائے گا ، اس کے بعد میراث تقسیم کرسکتے ہیں۔
واللہ اعلم بالصواب
نوٹ: چونکہ اس مسئلہ میں اہل علم کی رائیں مختلف ہیں اس لئے بحث کے طور پہ ٹھوس دلائل ذریعہ مزید بات بڑھائی جاسکتی ہے ۔