لاچار شامی مہاجر خواتین عرب باشندوں کی جنسی ہوس کا نشانہ بننے لگیں
بیروت (مانیٹرنگ ڈیسک) شام میں جاری خانہ جنگی نے لاکھوں لوگوں کو بے گھر کردیا ہے لیکن لبنان میں پناہ لینے والی شامی عورتیں اور بچیاں بدترین عذاب کا شکار ہیں کیونکہ ان بے سرو سامان مظلوموں کو بڑے پیمانے پر جنسی استحصال کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ لبنان میں پناہ لینے والے 10 لاکھ شامی شہریوں میں سے 8 لاکھ عورتیں اور بچے ہیں۔
ان کی بڑی تعداد یا تو سڑکوں پر دھکے کھانے پر مجبور ہے یا اپنی عزت کے بدلے سرچھپانے کی جگہ اور دو وقت کی روٹی کی تلاش میں ہے۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کا کہنا ہے کہ شامی عورتوں کو جنسی استعمال کی چیز سمجھ لیا گیا ہے اور ان کو رہائش اور کھانے کے بدلے جسم فروشی پر مجبور کیا جاتا ہے۔
ایک بڑی تعداد کو تو باقاعدہ طور پر جسم فروشی کے دھندے کا حصہ بنادیا گیا ہے جب کہ بہت سی عورتوں کو سہارا دینے کے بہانے ان کی عزت سے کھیلا جارہا ہے۔
ثمر نامی 38 سالہ خاتون نے بتایا کہ وہ شام میں اپنے خاوند اور چھ بچوں کے ساتھ خوشحال زندگی گزاررہی تھی کہ اس کے خاوند کو سرکاری اہلکاروں نے گرفتار کرلیا اور اس کے بعد اس کا کچھ پتا نہیں مل سکا۔
جنگ کی وجہ سے اسے پناہ گزینوں کے ساتھ لبنان آنا پڑا لیکن یہاں اس کے ساتھ جو سلوک ہوا وہ بیان سے باہر ہے۔ پچھلے ایک سال کے دوران متعدد مردوں نے اسے اس کے بچوں کو روٹی اور مکان دینے کے نام پر اس کی عزت سے کھیلا اور ستم ظریفی یہ ہے کہ پولیس نے اسے عصمت فروشی کے الزام میں گرفتار کرلیا۔
امدادی اداروں کے ذرائع کا کہنا ہے کہ شامی پناہ گزین خواتین اور بچیوں کے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک کیا جا رہا ہے اور اپنی عصمت سے محروم کئے جانے کے باوجود یہ بدترین حالات میں رہ رہی ہیں۔ صورتحال یہ ہوچکی ہے کہ شامی خاندان اپنی نوعمر بچیوں کو شادی کے نام پر عمر رسیدہ مردوں کے حوالے کرنے پر مجبور ہیں کیونکہ وہ خون ان کا بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں۔
انٹرنیشنل ریسکیو کمیٹی کا کہنا ہے کہ شامی عورتوں اور بچیوں کو بازاروں میں جنسی طور پر ہراساں کیا جاتا ہے، مرد ان کے خیموں میں گھس کربے آبرو کرتے ہیں اور نوعمر بچیوں کو اٹھا کر کھیتوں اور ویران مقامات پر لے جاتے ہیں جہاں ان سے اجتماعی زیادتی کی جاتی ہے اور بدقسمتی سے ان جرائم میں ریلیف کا کام کرنے والے مرد بھی ملوث ہیں۔
لنک
الامان والحفيظ
ان کی بڑی تعداد یا تو سڑکوں پر دھکے کھانے پر مجبور ہے یا اپنی عزت کے بدلے سرچھپانے کی جگہ اور دو وقت کی روٹی کی تلاش میں ہے۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کا کہنا ہے کہ شامی عورتوں کو جنسی استعمال کی چیز سمجھ لیا گیا ہے اور ان کو رہائش اور کھانے کے بدلے جسم فروشی پر مجبور کیا جاتا ہے۔
ایک بڑی تعداد کو تو باقاعدہ طور پر جسم فروشی کے دھندے کا حصہ بنادیا گیا ہے جب کہ بہت سی عورتوں کو سہارا دینے کے بہانے ان کی عزت سے کھیلا جارہا ہے۔
ثمر نامی 38 سالہ خاتون نے بتایا کہ وہ شام میں اپنے خاوند اور چھ بچوں کے ساتھ خوشحال زندگی گزاررہی تھی کہ اس کے خاوند کو سرکاری اہلکاروں نے گرفتار کرلیا اور اس کے بعد اس کا کچھ پتا نہیں مل سکا۔
جنگ کی وجہ سے اسے پناہ گزینوں کے ساتھ لبنان آنا پڑا لیکن یہاں اس کے ساتھ جو سلوک ہوا وہ بیان سے باہر ہے۔ پچھلے ایک سال کے دوران متعدد مردوں نے اسے اس کے بچوں کو روٹی اور مکان دینے کے نام پر اس کی عزت سے کھیلا اور ستم ظریفی یہ ہے کہ پولیس نے اسے عصمت فروشی کے الزام میں گرفتار کرلیا۔
امدادی اداروں کے ذرائع کا کہنا ہے کہ شامی پناہ گزین خواتین اور بچیوں کے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک کیا جا رہا ہے اور اپنی عصمت سے محروم کئے جانے کے باوجود یہ بدترین حالات میں رہ رہی ہیں۔ صورتحال یہ ہوچکی ہے کہ شامی خاندان اپنی نوعمر بچیوں کو شادی کے نام پر عمر رسیدہ مردوں کے حوالے کرنے پر مجبور ہیں کیونکہ وہ خون ان کا بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں۔
انٹرنیشنل ریسکیو کمیٹی کا کہنا ہے کہ شامی عورتوں اور بچیوں کو بازاروں میں جنسی طور پر ہراساں کیا جاتا ہے، مرد ان کے خیموں میں گھس کربے آبرو کرتے ہیں اور نوعمر بچیوں کو اٹھا کر کھیتوں اور ویران مقامات پر لے جاتے ہیں جہاں ان سے اجتماعی زیادتی کی جاتی ہے اور بدقسمتی سے ان جرائم میں ریلیف کا کام کرنے والے مرد بھی ملوث ہیں۔
لنک
الامان والحفيظ