ابو داؤد
رکن
- شمولیت
- اپریل 27، 2020
- پیغامات
- 580
- ری ایکشن اسکور
- 187
- پوائنٹ
- 77
لا الہ الا اللہ ۔ قول وعمل
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اللہ نے انسان کو اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے اس پر اطاعت لازم قرار دی ہے ان عبادات میں سے پہلے نمبر پر لا الہ الا اللہ کو قولا و عملا سمجھنا ہے اس بارے میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے :
وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اﷲِ جَمِیْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا [آل عمران: ۱۰۳]
اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو سب مل کر اور آپس میں تفرقہ نہ ڈالو۔
دوسری جگہ ارشاد ہے:
شَرَعَ لَکُمْ مِّنَ الدِّیْنِ مَا وَصّٰی بِہٖ نُوْحًا وَالَّذِیْ اَوْحَیْنَا اِلَیْکَ وَمَاوَصَّیْنَا بِہٖ اِبْرٰھِیْمَ وَ مُوْسٰی وَ عِیْسٰی اَنْ اَقِیْمُوا الدِّیْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِیْہِ [الشوری: ۱۳]
تمہارے لئے (اللہ نے) دین میں سے وہ شریعت بنائی ہے جسکی تاکید نوح علیہ السلام کو کی تھی اور جسکی وحی آپ ﷺ کو کی ہے اور جس کی تاکید ہم نے ابراہیم علیہ السلام ، موسی علیہ السلام، عیسی علیہ السلام کو کی تھی کہ دین کو قائم کرو اس میں تفرقہ مت ڈالو۔
اللہ نے اپنے بندوں کو جس بات کی تاکید کی ہے وہ کلمہ توحید ہے جو کفر و اسلام میں فرق کرنے والا ہے۔ کلمہ توحید سے جہالت یا بغاوت یا عناد لوگوں میں تفرقہ کا سبب ہے ان خرابیوں کو ختم کرکے امت کو متحد رکھنے کا ذریعہ صرف یہی کلمہ ہے۔
اَنْ اَقِیْمُوا الدِّیْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِیْہِ۔
کہ دین کو قائم کرو اس میں تفرقہ مت ڈالو ۔
اور
قُلْ ھٰذِہٖ سَبِیْلِیْ اَدْعُوْ اِلَی اﷲِ عَلٰی بَصِیْرَةٍ اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِیْ وَ سُبْحٰنَ اﷲِ وَمَا اَنَا مِنَ الَمُشْرِکِیْنَ [یوسف: ۱۰۸]
(اے محمد ﷺ) کہہ دیجئے یہ میرا راستہ ہے میں اللہ کی طرف بصیرت کی بنیاد پر بلا رہا ہوں اور میرے متبعین بھی (ایسا ہی کرتے ہیں) اور اللہ کی ذات پاک ہے میں مشرکین میں سے نہیں ہوں۔
اب جو شخص توحید کو سمجھ جائے اس کا اقرار کرلے تو اس پر لازم ہے کہ اس توحید سے دلی محبت رکھے اس کی مدد کرے اپنے ہاتھ اور زبان سے جس طرح بھی ممکن ہو اس توحید کے مدد گاروں کی بھی مدد کرے جب کوئی بندہ شرک کو پہچان لے تو اس پر لازم ہے کہ اس سے دلی طور پر نفرت کرے تب وہ ان لوگوں کی لڑی میں پرویا ہوا شامل ہوگا جن کے بارے میں اللہ نے فرمایا :
وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اﷲِ جَمِیْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا ۔
اللہ کی رسی کو سب مل کر مضبوطی سے تھامے رکھو آپس میں تفرقہ مت ڈالو۔
ہمارا خیال ہے کہ امت مسلمہ میں کسی کو بھی اس بات میں اختلاف نہیں ہے کہ توحید کے لئے دلی طور پر علم زبانی اقرار اور اوامر و نواہی کے نفاذ کے لئے عمل ضروری ہے اگر ان میں سے کوئی بھی چیز کم ہوئی تو آدمی مسلم نہیں کہلائے گا۔ اگر زبان سے توحید کا اقرار کرلے مگر عمل نہ کرے تو ایسا شخص کافر، توحید سے بغض رکھنے والا شمار ہوگا۔ جیسے فرعون اور ابلیس اور اگر توحید پر ظاہری عمل کرتا ہے مگر باطن میں اسکا اعتقاد نہیں رکھتا تو ایسا شخص منافق ہے کافر سے بھی زیادہ اسلام کے لئے نقصان دہ ہے ۔
امام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ فرماتے ہیں : توحید کی دو قسمیں ہیں توحید ربوبیت توحید الوہیت۔
توحید ربوبیت: توحید ربوبیت کا اقرار مسلم و کافر دونوں کرتے ہیں کفر اور اسلام میں فرق توحید الوہیت کا ہے اس لئے ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ ان دونوں قسم کی توحید کو سمجھے اور یہ بھی یاد رکھے کہ کفار اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ اللہ ہی خالق رازق اور عالم کی تدبیر کرنے والا ہے ۔
قُلْ مَنْ یَّرْزُقُکُمْ مِّنَ السَّمَاءِ وَالْاَرْضِ اَمَّنْ یَّمْلِکُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَمَنْ یُّخْرِجُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَیُخْرِجُ الْمَیِّتَ مِنَ الْحَیِّ وَمَنْ یُّدَبِّرُ الْاَمْرَ فَسَیَقُوْلُوْنَ اﷲُ فَقُلْ اَفَلَا تَتَّقُوْنَ [یونس: ۳۱]
(اے محمد ﷺ) اگر آپ ان (کافروں) سے پوچھیں کہ تمہیں آسمان و زمین سے رزق کون دیتا ہے یا کون سماعت و بصارت کا مالک ہے کون زندہ کو مردہ سے مردہ کو زندہ سے نکالتا ہے کون امور کی تدبیر کرتا ہے؟ تو یہ لوگ فورا کہیں گے کہ اللہ۔آپ کہہ دیجئے کہ تم اس سے ڈرتے کیوں نہیں ؟
دوسری جگہ ارشاد ہے:
وَلَئِنْ سَاَلْتَہُمَ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَ سَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَیَقُوَلُنَّ اﷲُ فَاَنّٰی یُؤْفَکُوْنَ
(اے محمد ﷺ) اگر آپ ان سے پوچھیں کہ آسمانوں اور زمینوں کو کس نے پیدا کیا ہے اور چاند سورج کو تابع کیا ہے یہ (کافر) کہیں گے اللہ نے۔ یہ کس طرف جارہے ہیں۔ [العنکبوت: ۶۱]
جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ کافر بھی توحید ربوبیت کا اقرار کرتے تھے تو پھر کسی شخص کا یہ کہنا کہ خالق رازق تدبیر کرنے والا صرف اللہ ہے اس کو مسلمان نہیں بناسکتا جب تک کہ لا الہ الا اللہ کے معنی پر عمل نہ کرے ۔
اللہ کی یہ صفات یعنی خالق ، رازق مدبر۔ ان کے کچھ خاص معانی ہیں جن کی وجہ سے یہ صفات صرف اللہ کے لئے ہی مختص ہوجاتی ہیں جب کوئی مسلمان کہتا ہے کہ اللہ خالق ہے تو اسکا مطلب یہ ہے کہ وہی اکیلا اللہ ہے جس نے تمام مخلوق کو انصاف سے پیدا کیا ہے جب رازق کہا جائے تو اس کا معنی ہوگا جب اللہ نے مخلوق کو وجود بخشا تو ان کے لئے رزق بھی مہیا کر دیا۔
مدبر کا معنی ہوگا کہ وہ اللہ جو اپنی تدبیر سے آسمان سے زمین پر فرشتے اتارتا ہے اسی کی تدبیر سے وہ فرشتے آسمان پر چڑھتے ہیں وہ بادلوں کو اپنی تدبیر سے چلاتا ہے ہوائیں اس کی تدبیر کے ماتحت ہیں اسی طرح ساری مخلوق اس کی تدبیر کے مطابق اپنی اپنی ذمہ داری پوری کرنے کے لئے سرگرم عمل ہے۔
یہ صفات توحید ربوبیت سے متعلق ہیں ان کا اقرار کفار بھی کرتے ہیں اور توحید الوہیت کا معنی ہے کہ لا الہ الا اللہ کے معنی کو بھی اس طرح سمجھنا ہے جس طرح ربوبیت سے متعلق مذکورہ صفات کا مطلب ہے۔ لا الہ الا اللہ کا معنی ہے نفی و اثبات یعنی کہ ہر چیز سے الوہیت کی نفی کرکے صرف اللہ کے لئے ثابت کی جائے۔
الٰہ کا مطلب ہے ایسا معبود کہ اس کے بغیر کسی اور کے لئے عبادت جائز ہی نہ ہو اور ایسا معبود صرف اللہ اکیلاہی ہے لہٰذا جو شخص اللہ کے علاوہ کسی اور کے لئے نذر مانے یا ذبح کرے تو یہ اس کی عبادت کہلائے گی اسی طرح دعا بھی غیر اللہ سے کرنا اسکی عبادت شمار ہوتی ہے اللہ کا فرمان ہے :
وَلَا تَدْعُ مِنْ دُوْنِ اﷲِ مَالَا یَنْفَعُکَ وَلَا یَضُرُّکَ فَاِنْ فَعَلْتَ فَاِنَّکَ اِذَا مِنَ الظّٰلِمِیْنَ
اللہ کو چھوڑ کر ایسوں کو مت پکارو جو نہ نفع دے سکتے ہیں نہ نقصان اگر آپ نے ایسا کیا تو ظالموں میں سے ہوگے۔ [یونس: ۱۰۶]
اسی طرح جس نے اپنے اور اللہ کے درمیان کسی کو واسطہ بنالیا اور اس کے بارے میں یہ عقیدہ رکھا کہ وہ مجھے اللہ کے قریب کردے گا تو یہ بھی اس کی عبادت شمار ہوگی جیسے کہ اللہ نے کافروں کے بارے میں فرمایا ہے :
وَیَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اﷲِ مَالَا یَضُرُّھُمْ وَلَا یَنْفَعَہُمْ وَ یَقُوْلُوْنَ ھٰؤُلَاءِ شُفَعَاؤُنَا عِنْدَاﷲِ قُلْ اَتُنَبِّئُوْنَ اﷲَ بِمَا لَا یَعْلَمُ فِی السَّمٰوٰتِ وَلَا فِی الْاَرْضِ سُبْحٰنَہٗ وَتَعٰلٰی عَمَّا یُشْرِکُوْنَ [یونس:۱۸]
یہ اللہ کو چھوڑ کر ایسوں کی عبادت کرتے ہیں جو انکو نہ نقصان دے سکتے ہیں نہ فائدہ اور کہتے ہیں کہ اللہ کے ہاں ہمارے سفارشی ہیں آپ ﷺ کہہ دیجئے کیا تم اللہ کو ایسی بات کی خبر دے رہے ہو کہ (گویا) وہ نہیں جانتا آسمانوں یا زمینوں میں وہ اللہ پاک ہے ان سے جو یہ لوگ شریک کرتے ہیں۔
اللہ تعالی کا ارشاد ہے :
اَلاَ ِﷲِ الدِّیْنُ الْخَالِصُ وَالَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِہٖ اَوْلِیَاءَ مَا نَعْبُدُہُمْ اِلَّا لِیُقَرِّبُوْنَا اِلَی اﷲِ زُلْفٰی اِنَّ اﷲَ یَحْکُمُ بَیْنَہُمْ فِیْ مَا ھُمْ فِیْہِ یَخْتَلِفُوْنَ اِنَّ اﷲَ لَا یَہْدِیْ مَنْ ھُوَ کٰذِبٌ کَفَّارٌ۔ [الزمر: ۳]
باخبر رہو کہ اللہ کیلئے ہے خالص دین اور جو لوگ اللہ کے علاوہ دوست بناتے ہیں (کہتے ہیں) ہم انکی عبادت صرف اس لئے کرتے ہیں کہ یہ ہمیں اللہ کے ہاں مرتبے میں قریب کر دیں اللہ ان کے درمیان ان باتوں کا فیصلہ کرے گا جن میں یہ اختلاف کرتے ہیں اللہ اس کو ہدایت نہیں کرتا جو جھوٹا اور ناشکرا ہو۔
[مجموعۃ الفتاوی الدررالسنیۃ ۲/۱۲۴]