• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

"لا باس بہ" کی حیثیت

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,580
پوائنٹ
384
اسلام علیکم۔
اس لفظ کے مرتبے اور حکم پر علماء میں شدید اختلاف پایا جاتا ہے۔
امیر الصنعانی کے نزدیک اس لفظ سے متصف راوی کی حدیث صرف اعتبار میں لکھی جائے گی، فرماتے ہیں:
"إن من قيل فيه ذلك يكتب حديثه للإعتبار، وينظفر فيه إلا أنها دونها"
حالانکہ مجھے نہیں لگتا کہ اس میں ان کا کوئی سلف ہے۔ واللہ اعلم
اس کے برعکس امام ابن ابی حاتم رحمہ اللہ نے یصلح للاعبتار کی شرط لا باس بہ سے نچلے درجے والے راوی یعنی صالح الحدیث پر لگائی ہیں، فرماتے ہیں:
"ووجدت الألفاظ في الجرح والتعديل على مراتب شتى وإذا قيل للواحد إنه ثقة أو متقن ثبت فهو ممن يحتج بحديثه، وإذا قيل له [إنه - 2] صدوق أو محله الصدق أولا بأس به فهو ممن يكتب حديثه وينظر فيه وهي المنزلة الثانية، وإذا قيل شيخ فهو بالمنزلة الثالثة يكتب حديثه وينظر فيه إلا أنه دون الثانية، وإذا قيل صالح الحديث فإنه يكتب حديثه للاعتبار"
اس کلام سے ظاہر یہ ہوتا ہے کہ اعتبار یا متابعت کی شرط، اور ینظر فیہ یعنی تحقیق کرنے کی شرط کے درمیان تفریق کر کے انہوں نے یہ واضح کیا ہے کہ لا باس بہ سے متصف راوی کے لیے اعتبار کی شرط نہیں ہے بلکہ اس کے لیے صرف تحقیق کی شرط ہے۔ اور تحقیق سے مراد یہ ہو گا کہ دیکھا جائے آیا اس راوی نے کسی ثقہ راوی کی مخالفت تو نہیں کی، یا سند و متن میں اضطراب کا مرتکب تو نہیں، یا تدلیس وغیرہ کا الزام تو نہیں، یا کبار محدثین نے اس کی کسی خاص حدیث پر کلام تو نہیں کیا وغیرہ، اگر ان میں سے کوئی بھی اس کے لیے ثابت ہو جائے تو اس روایت میں وہ ضعیف ٹھہرے گا، وگرنہ اس کی روایت حسن ہو گی۔
اس کے علاوہ حافظ ابن حجر کے نزدیک بھی لا باس بہ یا لیس بہ باس والا راوی حسن الحدیث ہوتا ہے، کیونکہ آپ رحمہ اللہ اپنی کتاب تعجیل المنفعہ میں ابراہیم بن ابی ہرۃ پر بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
"وثقه أبوحاتم ؛ فقال : لا بأس به"
یعنی انہوں نے لا باس بہ کو وثقہ یا توثیق سے تعبیر دیا ہے۔
اور ایک مقام پر عمران بن موسی بن حیان کے متعلق فرماتے ہیں:
"وثقه الدَّارَقُطْنِيّ" (تہذیب) جبکہ امام دارقطنی نے ان کے متعلق صرف اتنا کہا تھا کہ: "لا بأس به"
اس کے علاوہ حافظ ابن حجر نے لا باس بہ کے طبقے میں لفظ "صدوق" کو بھی رکھا ہے اور آپ سے کئی ایسی مثالیں ملتی ہیں جہاں انہوں نے صدوق راوی کی حدیث کو حسن کہہ کر تعبیر دیا ہے، مثلا: تعجیل المنفعہ ہی میں آپ عبد اللہ بن عبید الدیلی پر بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
"وأما الراوي عن عديسة فقد أخرج حديثه أيضا الترمذي والنسائي، وقال الترمذي: حسن غريب، وهذا يقتضي أنه عنده صدوق معروف"
اس سے معلوم ہوتا ہےکہ ان کے نزدیک صدوق راوی کی حدیث حسن ہوتی ہے، اور صدوق بھی لا باس بہ کے مرتبے ہی کا لفظ ہے جس سے بالواسطہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ لا باس بہ والا راوی بھی ان کے نزدیک حسن الحدیث ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ علامہ نور الدین ہیثمی عیسی بن جاریہ پر بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
"وَوَثَّقَهُ أَبُو زُرْعَةَ" حالانکہ امام ابو زرعہ نے صرف "لا بأس به" کہا تھا جس سے معلوم ہوتا کہ یہ کلمۃ ان کے نزدیک بھی توثیق کا کام کرتا ہے۔
امام یحیی بن معین سے بھی یہی ثابت ہے، فرماتے ہیں:
"إذا قلتُ : ليس به بأس ؛ فهو ثقة" اس قول کے اوپر تبصرہ کرتے ہوئے ملتقی اہل الحدیث کے ایک اہل علم شخص فرماتے ہیں:
وليس هذا باصطلاح خاص به، وأيضاً فإنه لا يدل على أن " لا بأس به " تساوي " ثقة " ، وإنما الأمر كما قال العراقي في " فتح المغيث " ( ص 174 ) : ( لم يقل ابن معين : إن قولي " لا بأس به " كقولي " ثقة " حتى يلزم منه التساوي بين اللفظين ، إنما قال إن من قال فيه هذا فهو ثقة ، وللثقة مراتب ، فالتعبير عنه بقولهم : " ثقة " أرفع من التعبير عنه بقولهم : " لا بأس به " وإن اشتركا في مطلق الثقة " .
اسی طرح امام دحیم سے بھی یہی ثابت ہے کہ وہ اس کلمۃ سے توثیق مراد لیتے تھے، جیسا کہ امام ابو زرعہ الدمشقی اپنی تاریخ میں بیان کرتے ہیں کہ:
قلت لعبد الرحمن بن إبراهيم [هو دحيم] : ما تقول في علي بن حَوشب الفزاري؟ قال : لا بأس به؛ قلت : ولمَ لا تقول : ثقة، ولا تعلم إلا خيراً ؟ قال : قد قلت لك : إنه ثقة
اس کے علاوہ امام ذہبی فرماتے ہیں:
فأعلى العبارات في الرواة المقبولين: ثبت حجة، وثبت حافظ، وثقة متقن، وثقة ثقة، ثم ثقة صدوق، ولا بأس به، وليس به بأس، ثم محله الصدق، وجيد الحديث، وصالح الحديث، وشيخ وسط، وشيخ حسن الحديث، وصدوق إن شاء الله، وصويلح، ونحو ذلك. میزان
اس قول سے بھی اشارہ ملتا ہے کہ حافظ ذہبی اس کلمہ سے توثیق مراد لیتے ہیں کیونکہ انہوں لا باس بہ کو ثقہ والے درجے میں ذکر کیا ہے۔
امام ابو حاتم الرازی کے کلام سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ کلمہ لا باس بہ ان کے نزدیک حسن الحدیث سے کم نہیں۔ کیونکہ امام ابو حاتم اکثر راویوں کے بارے میں یہ توثیق کے لیے فرماتے ہیں، چند مثالیں درج ذیل ہیں:


قال ابن أبي حاتم : « سمعت أبى يقول : عبد ربه بن سعيد لا بأس به، قلت : يحتج بحديثه ؟ قال : « هو حسن الحديث ثقة » ( الجرح والتعديل 6 / 41 ) .
وقال : « سألت أبى عن عطاء الخراساني ؟ فقال : لا بأس به صدوق، قلت : يحتج بحديثه ؟ قال : نعم » ( الجرح والتعديل 6 / 335 ) .
وقال أبو حاتم في عبد ريه بن سعيد : « لا بأس به » ، فقال ابنه : يحتج به ؟ فقال : « هو حسن الحديث » ، ( علل الحديث 1 / 298 / 365 )
وقال في واقد بن محمد بن زيد : « لا بأس به، ثقة، يحتج بحديثه » ( الجرح والتعديل 9 / 32 ) .

اس کے علاوہ کچھ مثالیں ایسی بھی ملتی ہیں جہاں امام ابو حاتم فرماتے ہیں:


وقال : سألت أبى عن عبد الحميد - هو : ابن مهران - ؟ فقال : ليس به بأس، قلت : يحتج به ؟ قال : لا ، ولكن يكتب حديثه » ( الجرح والتعديل 6 / 9 ) .
وقال : « سمعته يقول ما أرى بحديثه - أي : عبد الله بن موسى التيمي - بأساً، قلت : يحتج بحديثه ؟ قال : ليس محله ذلك » ( الجرح والتعديل 5 / 167 ) .
وقال : « سألت أبى عن على بن على الرفاعي ؟ قال ليس بحديثه بأس ؟ قلت : يحتج بحديثه ؟ قال : لا » ( الجرح والتعديل 6 / 169 ) .
وقال : « سألته عن إبراهيم بن عقبة ؟ فقال : صالح لا بأس به، قلت : يحتج بحديثه ؟ قال : يكتب حديثه » ( الجرح والتعديل 2 / 117 ) .
وقال : « سألت أبى عن عبيد الله بن على بن أبى رافع، قال : لا بأس بحديثه، ليس منكر الحديث، قلت : يحتج بحديثه ؟ قال : لا، هو يحدث بشيء يسير، وهو شيخ » (الجرح و التعديل 5 / 328 ) .

لیکن ان میں کوئی تعارض نہیں ہے کیونکہ امام ابو حاتم حجت سے مراد صرف اعلی درجہ کے راوی لیتے تھے مثلا امام احمد، یحیی بن سعید القطان وغیرہ جیسے اعلی ترین قسم کے ثقہ راوی۔ ان کا لا یحتج بہ کہنا ان کے حسن الحدیث کہنے کے منافی نہیں ہے، توضیح الکلام میں اس کی تفصیل موجود ہے، دیکھئے ص 219۔
خلاصہ یہ نکلتا ہے کہ امام ابو حاتم کے نزدیک لا باس بہ والا راوی کم از کم حسن الحدیث ہوتا ہے۔
اور اگر آپ امام دارقطنی کے رجال پر کلام پر غور کریں تو آپ دیکھیں گے زیادہ تر مقامات جہاں امام دارقطی لا باس بہ کہتے ہیں وہیں کسی دوسری روایت میں اسی راوی کے لیے ثقہ بھی کہتے ہیں۔ اور بعض دفعہ تو ایک ہی روایت میں لا باس بہ کہہ کر ثقہ بھی کہہ دیتے ہیں۔ بہت ہی کم ایسے مقامات ہوں گے جہاں وہ لا باس بہ کہہ کر دوسری روایت میں صرف لیس بقوی جیسے ہلکے الفاظ استعمال کیے ہیں اور وہ بھی قرائن کو مد نظر رکھتے ہوئے۔
یہی حال امام ابو الحسن العجلی، امام نسائی، اور امام ابن عدی کا بھی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک بھی یہ کلمہ کم از کم حسن الحدیث کے مترادف ہے۔
ہاں یہ ضرور ہے کہ محدثین نے لا بأس به، ليس به بأس اور ما اعلم به باس، لا باس به ان شاء الله، ارجو انه لا باس به کے الفاظ میں فرق کیا ہے۔

اب آتا ہے میرا سوال کہ آپ کے نزدیک اس کلمہ کی کیا حیثیت ہے؟
جزا اللہ خیرا۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
’’ لاباس بہ‘‘ عمومی طور پر توثیق ہی کا صیغہ ہے۔
لیکن اگر کسی ناقد کے بارے میں یہ ثابت ہوجائے کہ وہ اس سے توثیق مراد نہیں لیتے۔تو ان کے کلام میں توثیق مراد نہیں ہوگی۔
یا اگرکوئی ناقد توثیق ہی مراد لے لیکن کسی خاص مقام پر قرینہ ملے کہ یہاں اس نے توثیق مراد نہیں لیا تو وہاں بھی اس سے توثیق نہیں سمجھاجائے گا۔
بہرحال یہ ایک اجتہادی معاملہ اس میں علی الاطلاق کوئی بات نہیں کہی جاسکتی۔
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,580
پوائنٹ
384
شیخ البانی ایک شخص کا رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
لقد أعله بثلاث علل:
الأولى: قول أبي حاتم المتقدم في الحديث الذي قبله في (المهاصر) :
"لا بأس به "! فقال المومى إليه: "وهو ممن يكتب حديثه وينظر فيه عند أبي حاتم، كما في "مقدمة الجرح والتعديل " ... ".
فأقول: نعم، هذا مذهبه فكان ماذا؟! هلا بينت لقرائك ماذا تفهم منه؟! ألم تعلم أنه لا يعني هذا الذي عنيته أنت من تضعيفه، وإنما عنى أنه ليس في المرتبة الأولى في الاحتجاج به؟! فقد قال:
1- "إذا قيل للواحد: إنه ثقة، أو متقن، ثبت؛ فهو ممن يحتج بحديثه ".
2- "وإذا قيل له: إنه صدوق، أو محله الصدق، أو لا بأس به؛ فهو ممن يكتب حديثه وينظر فيه، وهي المنزلة الثانية".
فهذا صريح في أن من كان في المنزلة الثانية أنه يحتج به، ولكن ليس شأنه شأن من كان في المنزلة الأولى. فهذه مرتبة من كان صحيح الحديث، والثانية مرتبة من كان حسن الحديث. ولذلك حسن الحافظ ابن حجر إسناد حديثه الذي قبل هذا.

سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ: تحت ح 3139
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,101
ری ایکشن اسکور
1,462
پوائنٹ
344
اسلام علیکم۔
اس لفظ کے مرتبے اور حکم پر علماء میں شدید اختلاف پایا جاتا ہے۔
امیر الصنعانی کے نزدیک اس لفظ سے متصف راوی کی حدیث صرف اعتبار میں لکھی جائے گی، فرماتے ہیں:
"إن من قيل فيه ذلك يكتب حديثه للإعتبار، وينظفر فيه إلا أنها دونها"
حالانکہ مجھے نہیں لگتا کہ اس میں ان کا کوئی سلف ہے۔ واللہ اعلم
اس کے برعکس امام ابن ابی حاتم رحمہ اللہ نے یصلح للاعبتار کی شرط لا باس بہ سے نچلے درجے والے راوی یعنی صالح الحدیث پر لگائی ہیں، فرماتے ہیں:
"ووجدت الألفاظ في الجرح والتعديل على مراتب شتى وإذا قيل للواحد إنه ثقة أو متقن ثبت فهو ممن يحتج بحديثه، وإذا قيل له [إنه - 2] صدوق أو محله الصدق أولا بأس به فهو ممن يكتب حديثه وينظر فيه وهي المنزلة الثانية، وإذا قيل شيخ فهو بالمنزلة الثالثة يكتب حديثه وينظر فيه إلا أنه دون الثانية، وإذا قيل صالح الحديث فإنه يكتب حديثه للاعتبار"
اس کلام سے ظاہر یہ ہوتا ہے کہ اعتبار یا متابعت کی شرط، اور ینظر فیہ یعنی تحقیق کرنے کی شرط کے درمیان تفریق کر کے انہوں نے یہ واضح کیا ہے کہ لا باس بہ سے متصف راوی کے لیے اعتبار کی شرط نہیں ہے بلکہ اس کے لیے صرف تحقیق کی شرط ہے۔ اور تحقیق سے مراد یہ ہو گا کہ دیکھا جائے آیا اس راوی نے کسی ثقہ راوی کی مخالفت تو نہیں کی، یا سند و متن میں اضطراب کا مرتکب تو نہیں، یا تدلیس وغیرہ کا الزام تو نہیں، یا کبار محدثین نے اس کی کسی خاص حدیث پر کلام تو نہیں کیا وغیرہ، اگر ان میں سے کوئی بھی اس کے لیے ثابت ہو جائے تو اس روایت میں وہ ضعیف ٹھہرے گا، وگرنہ اس کی روایت حسن ہو گی۔
اس کے علاوہ حافظ ابن حجر کے نزدیک بھی لا باس بہ یا لیس بہ باس والا راوی حسن الحدیث ہوتا ہے، کیونکہ آپ رحمہ اللہ اپنی کتاب تعجیل المنفعہ میں ابراہیم بن ابی ہرۃ پر بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
"وثقه أبوحاتم ؛ فقال : لا بأس به"
یعنی انہوں نے لا باس بہ کو وثقہ یا توثیق سے تعبیر دیا ہے۔
اور ایک مقام پر عمران بن موسی بن حیان کے متعلق فرماتے ہیں:
"وثقه الدَّارَقُطْنِيّ" (تہذیب) جبکہ امام دارقطنی نے ان کے متعلق صرف اتنا کہا تھا کہ: "لا بأس به"
اس کے علاوہ حافظ ابن حجر نے لا باس بہ کے طبقے میں لفظ "صدوق" کو بھی رکھا ہے اور آپ سے کئی ایسی مثالیں ملتی ہیں جہاں انہوں نے صدوق راوی کی حدیث کو حسن کہہ کر تعبیر دیا ہے، مثلا: تعجیل المنفعہ ہی میں آپ عبد اللہ بن عبید الدیلی پر بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
"وأما الراوي عن عديسة فقد أخرج حديثه أيضا الترمذي والنسائي، وقال الترمذي: حسن غريب، وهذا يقتضي أنه عنده صدوق معروف"
اس سے معلوم ہوتا ہےکہ ان کے نزدیک صدوق راوی کی حدیث حسن ہوتی ہے، اور صدوق بھی لا باس بہ کے مرتبے ہی کا لفظ ہے جس سے بالواسطہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ لا باس بہ والا راوی بھی ان کے نزدیک حسن الحدیث ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ علامہ نور الدین ہیثمی عیسی بن جاریہ پر بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
"وَوَثَّقَهُ أَبُو زُرْعَةَ" حالانکہ امام ابو زرعہ نے صرف "لا بأس به" کہا تھا جس سے معلوم ہوتا کہ یہ کلمۃ ان کے نزدیک بھی توثیق کا کام کرتا ہے۔
امام یحیی بن معین سے بھی یہی ثابت ہے، فرماتے ہیں:
"إذا قلتُ : ليس به بأس ؛ فهو ثقة" اس قول کے اوپر تبصرہ کرتے ہوئے ملتقی اہل الحدیث کے ایک اہل علم شخص فرماتے ہیں:
وليس هذا باصطلاح خاص به، وأيضاً فإنه لا يدل على أن " لا بأس به " تساوي " ثقة " ، وإنما الأمر كما قال العراقي في " فتح المغيث " ( ص 174 ) : ( لم يقل ابن معين : إن قولي " لا بأس به " كقولي " ثقة " حتى يلزم منه التساوي بين اللفظين ، إنما قال إن من قال فيه هذا فهو ثقة ، وللثقة مراتب ، فالتعبير عنه بقولهم : " ثقة " أرفع من التعبير عنه بقولهم : " لا بأس به " وإن اشتركا في مطلق الثقة " .
اسی طرح امام دحیم سے بھی یہی ثابت ہے کہ وہ اس کلمۃ سے توثیق مراد لیتے تھے، جیسا کہ امام ابو زرعہ الدمشقی اپنی تاریخ میں بیان کرتے ہیں کہ:
قلت لعبد الرحمن بن إبراهيم [هو دحيم] : ما تقول في علي بن حَوشب الفزاري؟ قال : لا بأس به؛ قلت : ولمَ لا تقول : ثقة، ولا تعلم إلا خيراً ؟ قال : قد قلت لك : إنه ثقة
اس کے علاوہ امام ذہبی فرماتے ہیں:
فأعلى العبارات في الرواة المقبولين: ثبت حجة، وثبت حافظ، وثقة متقن، وثقة ثقة، ثم ثقة صدوق، ولا بأس به، وليس به بأس، ثم محله الصدق، وجيد الحديث، وصالح الحديث، وشيخ وسط، وشيخ حسن الحديث، وصدوق إن شاء الله، وصويلح، ونحو ذلك. میزان
اس قول سے بھی اشارہ ملتا ہے کہ حافظ ذہبی اس کلمہ سے توثیق مراد لیتے ہیں کیونکہ انہوں لا باس بہ کو ثقہ والے درجے میں ذکر کیا ہے۔
امام ابو حاتم الرازی کے کلام سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ کلمہ لا باس بہ ان کے نزدیک حسن الحدیث سے کم نہیں۔ کیونکہ امام ابو حاتم اکثر راویوں کے بارے میں یہ توثیق کے لیے فرماتے ہیں، چند مثالیں درج ذیل ہیں:


قال ابن أبي حاتم : « سمعت أبى يقول : عبد ربه بن سعيد لا بأس به، قلت : يحتج بحديثه ؟ قال : « هو حسن الحديث ثقة » ( الجرح والتعديل 6 / 41 ) .
وقال : « سألت أبى عن عطاء الخراساني ؟ فقال : لا بأس به صدوق، قلت : يحتج بحديثه ؟ قال : نعم » ( الجرح والتعديل 6 / 335 ) .
وقال أبو حاتم في عبد ريه بن سعيد : « لا بأس به » ، فقال ابنه : يحتج به ؟ فقال : « هو حسن الحديث » ، ( علل الحديث 1 / 298 / 365 )
وقال في واقد بن محمد بن زيد : « لا بأس به، ثقة، يحتج بحديثه » ( الجرح والتعديل 9 / 32 ) .

اس کے علاوہ کچھ مثالیں ایسی بھی ملتی ہیں جہاں امام ابو حاتم فرماتے ہیں:


وقال : سألت أبى عن عبد الحميد - هو : ابن مهران - ؟ فقال : ليس به بأس، قلت : يحتج به ؟ قال : لا ، ولكن يكتب حديثه » ( الجرح والتعديل 6 / 9 ) .
وقال : « سمعته يقول ما أرى بحديثه - أي : عبد الله بن موسى التيمي - بأساً، قلت : يحتج بحديثه ؟ قال : ليس محله ذلك » ( الجرح والتعديل 5 / 167 ) .
وقال : « سألت أبى عن على بن على الرفاعي ؟ قال ليس بحديثه بأس ؟ قلت : يحتج بحديثه ؟ قال : لا » ( الجرح والتعديل 6 / 169 ) .
وقال : « سألته عن إبراهيم بن عقبة ؟ فقال : صالح لا بأس به، قلت : يحتج بحديثه ؟ قال : يكتب حديثه » ( الجرح والتعديل 2 / 117 ) .
وقال : « سألت أبى عن عبيد الله بن على بن أبى رافع، قال : لا بأس بحديثه، ليس منكر الحديث، قلت : يحتج بحديثه ؟ قال : لا، هو يحدث بشيء يسير، وهو شيخ » (الجرح و التعديل 5 / 328 ) .

لیکن ان میں کوئی تعارض نہیں ہے کیونکہ امام ابو حاتم حجت سے مراد صرف اعلی درجہ کے راوی لیتے تھے مثلا امام احمد، یحیی بن سعید القطان وغیرہ جیسے اعلی ترین قسم کے ثقہ راوی۔ ان کا لا یحتج بہ کہنا ان کے حسن الحدیث کہنے کے منافی نہیں ہے، توضیح الکلام میں اس کی تفصیل موجود ہے، دیکھئے ص 219۔
خلاصہ یہ نکلتا ہے کہ امام ابو حاتم کے نزدیک لا باس بہ والا راوی کم از کم حسن الحدیث ہوتا ہے۔
اور اگر آپ امام دارقطنی کے رجال پر کلام پر غور کریں تو آپ دیکھیں گے زیادہ تر مقامات جہاں امام دارقطی لا باس بہ کہتے ہیں وہیں کسی دوسری روایت میں اسی راوی کے لیے ثقہ بھی کہتے ہیں۔ اور بعض دفعہ تو ایک ہی روایت میں لا باس بہ کہہ کر ثقہ بھی کہہ دیتے ہیں۔ بہت ہی کم ایسے مقامات ہوں گے جہاں وہ لا باس بہ کہہ کر دوسری روایت میں صرف لیس بقوی جیسے ہلکے الفاظ استعمال کیے ہیں اور وہ بھی قرائن کو مد نظر رکھتے ہوئے۔
یہی حال امام ابو الحسن العجلی، امام نسائی، اور امام ابن عدی کا بھی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک بھی یہ کلمہ کم از کم حسن الحدیث کے مترادف ہے۔
ہاں یہ ضرور ہے کہ محدثین نے لا بأس به، ليس به بأس اور ما اعلم به باس، لا باس به ان شاء الله، ارجو انه لا باس به کے الفاظ میں فرق کیا ہے۔

اب آتا ہے میرا سوال کہ آپ کے نزدیک اس کلمہ کی کیا حیثیت ہے؟
جزا اللہ خیرا۔
بہت اعلی بات کی ہے آپ نے اللہ علم برکت فرماے
 

محمد صارم

مبتدی
شمولیت
جون 18، 2017
پیغامات
5
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
4
لا باس بہ

یہ ابن ابی حاتم کے نزدیک دوسرے مرتبہ کی تعدیل ہے
جبکہ
ابن حجر کے نزدیک چوتھے درجے کے لئے یہ لفظ استعمال ہوتا ہے

مگر ابن حجر نے پہلے درجہ پر صحابہ رضی اللہ عنہم کو رکھا
دوسرے پر اعلی توثیق بر وزن افعل اور تکرار
تیسرے پر ایک صفت سے توثیق

یہ تینوں درجات ابن ابی حاتم کے پہلے درجہ پر ہیں

اور لا باس بہ دوسرے

اس طرح واضح ہو گیا کہ لا باس بہ کے کلمہ سے مراد ابن ابی حاتم اور ابن حجر کے نزدیک ایک سی تعدیل ہے۔

اب مسئلہ یہ ہے وثقہ سے مراد لا باس بہ ہے یا ثقہ ؟

تو اس کا جواب یہ ہے کہ وثقہ سے مراد توثیق ہے جس کا درجہ لا باس بہ والا ہے جبکہ ثقہ سے بھی مراد توثیق ہے مگر اعلی درجہ کی۔
 
شمولیت
ستمبر 06، 2017
پیغامات
96
ری ایکشن اسکور
7
پوائنٹ
65
اس حواله سے لمحات لنظر کی ج نمبر 2 میں ملاحظه فرما لے. فائده سے خالی نهیں.
 
Top