رضا میاں
سینئر رکن
- شمولیت
- مارچ 11، 2011
- پیغامات
- 1,557
- ری ایکشن اسکور
- 3,581
- پوائنٹ
- 384
اسلام علیکم۔
اس لفظ کے مرتبے اور حکم پر علماء میں شدید اختلاف پایا جاتا ہے۔
امیر الصنعانی کے نزدیک اس لفظ سے متصف راوی کی حدیث صرف اعتبار میں لکھی جائے گی، فرماتے ہیں:
"إن من قيل فيه ذلك يكتب حديثه للإعتبار، وينظفر فيه إلا أنها دونها"
حالانکہ مجھے نہیں لگتا کہ اس میں ان کا کوئی سلف ہے۔ واللہ اعلم
اس کے برعکس امام ابن ابی حاتم رحمہ اللہ نے یصلح للاعبتار کی شرط لا باس بہ سے نچلے درجے والے راوی یعنی صالح الحدیث پر لگائی ہیں، فرماتے ہیں:
"ووجدت الألفاظ في الجرح والتعديل على مراتب شتى وإذا قيل للواحد إنه ثقة أو متقن ثبت فهو ممن يحتج بحديثه، وإذا قيل له [إنه - 2] صدوق أو محله الصدق أولا بأس به فهو ممن يكتب حديثه وينظر فيه وهي المنزلة الثانية، وإذا قيل شيخ فهو بالمنزلة الثالثة يكتب حديثه وينظر فيه إلا أنه دون الثانية، وإذا قيل صالح الحديث فإنه يكتب حديثه للاعتبار"
اس کلام سے ظاہر یہ ہوتا ہے کہ اعتبار یا متابعت کی شرط، اور ینظر فیہ یعنی تحقیق کرنے کی شرط کے درمیان تفریق کر کے انہوں نے یہ واضح کیا ہے کہ لا باس بہ سے متصف راوی کے لیے اعتبار کی شرط نہیں ہے بلکہ اس کے لیے صرف تحقیق کی شرط ہے۔ اور تحقیق سے مراد یہ ہو گا کہ دیکھا جائے آیا اس راوی نے کسی ثقہ راوی کی مخالفت تو نہیں کی، یا سند و متن میں اضطراب کا مرتکب تو نہیں، یا تدلیس وغیرہ کا الزام تو نہیں، یا کبار محدثین نے اس کی کسی خاص حدیث پر کلام تو نہیں کیا وغیرہ، اگر ان میں سے کوئی بھی اس کے لیے ثابت ہو جائے تو اس روایت میں وہ ضعیف ٹھہرے گا، وگرنہ اس کی روایت حسن ہو گی۔
اس کے علاوہ حافظ ابن حجر کے نزدیک بھی لا باس بہ یا لیس بہ باس والا راوی حسن الحدیث ہوتا ہے، کیونکہ آپ رحمہ اللہ اپنی کتاب تعجیل المنفعہ میں ابراہیم بن ابی ہرۃ پر بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
"وثقه أبوحاتم ؛ فقال : لا بأس به"
یعنی انہوں نے لا باس بہ کو وثقہ یا توثیق سے تعبیر دیا ہے۔
اور ایک مقام پر عمران بن موسی بن حیان کے متعلق فرماتے ہیں:
"وثقه الدَّارَقُطْنِيّ" (تہذیب) جبکہ امام دارقطنی نے ان کے متعلق صرف اتنا کہا تھا کہ: "لا بأس به"
اس کے علاوہ حافظ ابن حجر نے لا باس بہ کے طبقے میں لفظ "صدوق" کو بھی رکھا ہے اور آپ سے کئی ایسی مثالیں ملتی ہیں جہاں انہوں نے صدوق راوی کی حدیث کو حسن کہہ کر تعبیر دیا ہے، مثلا: تعجیل المنفعہ ہی میں آپ عبد اللہ بن عبید الدیلی پر بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
"وأما الراوي عن عديسة فقد أخرج حديثه أيضا الترمذي والنسائي، وقال الترمذي: حسن غريب، وهذا يقتضي أنه عنده صدوق معروف"
اس سے معلوم ہوتا ہےکہ ان کے نزدیک صدوق راوی کی حدیث حسن ہوتی ہے، اور صدوق بھی لا باس بہ کے مرتبے ہی کا لفظ ہے جس سے بالواسطہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ لا باس بہ والا راوی بھی ان کے نزدیک حسن الحدیث ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ علامہ نور الدین ہیثمی عیسی بن جاریہ پر بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
"وَوَثَّقَهُ أَبُو زُرْعَةَ" حالانکہ امام ابو زرعہ نے صرف "لا بأس به" کہا تھا جس سے معلوم ہوتا کہ یہ کلمۃ ان کے نزدیک بھی توثیق کا کام کرتا ہے۔
امام یحیی بن معین سے بھی یہی ثابت ہے، فرماتے ہیں:
"إذا قلتُ : ليس به بأس ؛ فهو ثقة" اس قول کے اوپر تبصرہ کرتے ہوئے ملتقی اہل الحدیث کے ایک اہل علم شخص فرماتے ہیں:
وليس هذا باصطلاح خاص به، وأيضاً فإنه لا يدل على أن " لا بأس به " تساوي " ثقة " ، وإنما الأمر كما قال العراقي في " فتح المغيث " ( ص 174 ) : ( لم يقل ابن معين : إن قولي " لا بأس به " كقولي " ثقة " حتى يلزم منه التساوي بين اللفظين ، إنما قال إن من قال فيه هذا فهو ثقة ، وللثقة مراتب ، فالتعبير عنه بقولهم : " ثقة " أرفع من التعبير عنه بقولهم : " لا بأس به " وإن اشتركا في مطلق الثقة " .
اسی طرح امام دحیم سے بھی یہی ثابت ہے کہ وہ اس کلمۃ سے توثیق مراد لیتے تھے، جیسا کہ امام ابو زرعہ الدمشقی اپنی تاریخ میں بیان کرتے ہیں کہ:
قلت لعبد الرحمن بن إبراهيم [هو دحيم] : ما تقول في علي بن حَوشب الفزاري؟ قال : لا بأس به؛ قلت : ولمَ لا تقول : ثقة، ولا تعلم إلا خيراً ؟ قال : قد قلت لك : إنه ثقة
اس کے علاوہ امام ذہبی فرماتے ہیں:
فأعلى العبارات في الرواة المقبولين: ثبت حجة، وثبت حافظ، وثقة متقن، وثقة ثقة، ثم ثقة صدوق، ولا بأس به، وليس به بأس، ثم محله الصدق، وجيد الحديث، وصالح الحديث، وشيخ وسط، وشيخ حسن الحديث، وصدوق إن شاء الله، وصويلح، ونحو ذلك. میزان
اس قول سے بھی اشارہ ملتا ہے کہ حافظ ذہبی اس کلمہ سے توثیق مراد لیتے ہیں کیونکہ انہوں لا باس بہ کو ثقہ والے درجے میں ذکر کیا ہے۔
امام ابو حاتم الرازی کے کلام سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ کلمہ لا باس بہ ان کے نزدیک حسن الحدیث سے کم نہیں۔ کیونکہ امام ابو حاتم اکثر راویوں کے بارے میں یہ توثیق کے لیے فرماتے ہیں، چند مثالیں درج ذیل ہیں:
قال ابن أبي حاتم : « سمعت أبى يقول : عبد ربه بن سعيد لا بأس به، قلت : يحتج بحديثه ؟ قال : « هو حسن الحديث ثقة » ( الجرح والتعديل 6 / 41 ) .
وقال : « سألت أبى عن عطاء الخراساني ؟ فقال : لا بأس به صدوق، قلت : يحتج بحديثه ؟ قال : نعم » ( الجرح والتعديل 6 / 335 ) .
وقال أبو حاتم في عبد ريه بن سعيد : « لا بأس به » ، فقال ابنه : يحتج به ؟ فقال : « هو حسن الحديث » ، ( علل الحديث 1 / 298 / 365 )
وقال في واقد بن محمد بن زيد : « لا بأس به، ثقة، يحتج بحديثه » ( الجرح والتعديل 9 / 32 ) .
اس کے علاوہ کچھ مثالیں ایسی بھی ملتی ہیں جہاں امام ابو حاتم فرماتے ہیں:
وقال : سألت أبى عن عبد الحميد - هو : ابن مهران - ؟ فقال : ليس به بأس، قلت : يحتج به ؟ قال : لا ، ولكن يكتب حديثه » ( الجرح والتعديل 6 / 9 ) .
وقال : « سمعته يقول ما أرى بحديثه - أي : عبد الله بن موسى التيمي - بأساً، قلت : يحتج بحديثه ؟ قال : ليس محله ذلك » ( الجرح والتعديل 5 / 167 ) .
وقال : « سألت أبى عن على بن على الرفاعي ؟ قال ليس بحديثه بأس ؟ قلت : يحتج بحديثه ؟ قال : لا » ( الجرح والتعديل 6 / 169 ) .
وقال : « سألته عن إبراهيم بن عقبة ؟ فقال : صالح لا بأس به، قلت : يحتج بحديثه ؟ قال : يكتب حديثه » ( الجرح والتعديل 2 / 117 ) .
وقال : « سألت أبى عن عبيد الله بن على بن أبى رافع، قال : لا بأس بحديثه، ليس منكر الحديث، قلت : يحتج بحديثه ؟ قال : لا، هو يحدث بشيء يسير، وهو شيخ » (الجرح و التعديل 5 / 328 ) .
لیکن ان میں کوئی تعارض نہیں ہے کیونکہ امام ابو حاتم حجت سے مراد صرف اعلی درجہ کے راوی لیتے تھے مثلا امام احمد، یحیی بن سعید القطان وغیرہ جیسے اعلی ترین قسم کے ثقہ راوی۔ ان کا لا یحتج بہ کہنا ان کے حسن الحدیث کہنے کے منافی نہیں ہے، توضیح الکلام میں اس کی تفصیل موجود ہے، دیکھئے ص 219۔
خلاصہ یہ نکلتا ہے کہ امام ابو حاتم کے نزدیک لا باس بہ والا راوی کم از کم حسن الحدیث ہوتا ہے۔
اور اگر آپ امام دارقطنی کے رجال پر کلام پر غور کریں تو آپ دیکھیں گے زیادہ تر مقامات جہاں امام دارقطی لا باس بہ کہتے ہیں وہیں کسی دوسری روایت میں اسی راوی کے لیے ثقہ بھی کہتے ہیں۔ اور بعض دفعہ تو ایک ہی روایت میں لا باس بہ کہہ کر ثقہ بھی کہہ دیتے ہیں۔ بہت ہی کم ایسے مقامات ہوں گے جہاں وہ لا باس بہ کہہ کر دوسری روایت میں صرف لیس بقوی جیسے ہلکے الفاظ استعمال کیے ہیں اور وہ بھی قرائن کو مد نظر رکھتے ہوئے۔
یہی حال امام ابو الحسن العجلی، امام نسائی، اور امام ابن عدی کا بھی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک بھی یہ کلمہ کم از کم حسن الحدیث کے مترادف ہے۔
ہاں یہ ضرور ہے کہ محدثین نے لا بأس به، ليس به بأس اور ما اعلم به باس، لا باس به ان شاء الله، ارجو انه لا باس به کے الفاظ میں فرق کیا ہے۔
اب آتا ہے میرا سوال کہ آپ کے نزدیک اس کلمہ کی کیا حیثیت ہے؟
جزا اللہ خیرا۔
اس لفظ کے مرتبے اور حکم پر علماء میں شدید اختلاف پایا جاتا ہے۔
امیر الصنعانی کے نزدیک اس لفظ سے متصف راوی کی حدیث صرف اعتبار میں لکھی جائے گی، فرماتے ہیں:
"إن من قيل فيه ذلك يكتب حديثه للإعتبار، وينظفر فيه إلا أنها دونها"
حالانکہ مجھے نہیں لگتا کہ اس میں ان کا کوئی سلف ہے۔ واللہ اعلم
اس کے برعکس امام ابن ابی حاتم رحمہ اللہ نے یصلح للاعبتار کی شرط لا باس بہ سے نچلے درجے والے راوی یعنی صالح الحدیث پر لگائی ہیں، فرماتے ہیں:
"ووجدت الألفاظ في الجرح والتعديل على مراتب شتى وإذا قيل للواحد إنه ثقة أو متقن ثبت فهو ممن يحتج بحديثه، وإذا قيل له [إنه - 2] صدوق أو محله الصدق أولا بأس به فهو ممن يكتب حديثه وينظر فيه وهي المنزلة الثانية، وإذا قيل شيخ فهو بالمنزلة الثالثة يكتب حديثه وينظر فيه إلا أنه دون الثانية، وإذا قيل صالح الحديث فإنه يكتب حديثه للاعتبار"
اس کلام سے ظاہر یہ ہوتا ہے کہ اعتبار یا متابعت کی شرط، اور ینظر فیہ یعنی تحقیق کرنے کی شرط کے درمیان تفریق کر کے انہوں نے یہ واضح کیا ہے کہ لا باس بہ سے متصف راوی کے لیے اعتبار کی شرط نہیں ہے بلکہ اس کے لیے صرف تحقیق کی شرط ہے۔ اور تحقیق سے مراد یہ ہو گا کہ دیکھا جائے آیا اس راوی نے کسی ثقہ راوی کی مخالفت تو نہیں کی، یا سند و متن میں اضطراب کا مرتکب تو نہیں، یا تدلیس وغیرہ کا الزام تو نہیں، یا کبار محدثین نے اس کی کسی خاص حدیث پر کلام تو نہیں کیا وغیرہ، اگر ان میں سے کوئی بھی اس کے لیے ثابت ہو جائے تو اس روایت میں وہ ضعیف ٹھہرے گا، وگرنہ اس کی روایت حسن ہو گی۔
اس کے علاوہ حافظ ابن حجر کے نزدیک بھی لا باس بہ یا لیس بہ باس والا راوی حسن الحدیث ہوتا ہے، کیونکہ آپ رحمہ اللہ اپنی کتاب تعجیل المنفعہ میں ابراہیم بن ابی ہرۃ پر بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
"وثقه أبوحاتم ؛ فقال : لا بأس به"
یعنی انہوں نے لا باس بہ کو وثقہ یا توثیق سے تعبیر دیا ہے۔
اور ایک مقام پر عمران بن موسی بن حیان کے متعلق فرماتے ہیں:
"وثقه الدَّارَقُطْنِيّ" (تہذیب) جبکہ امام دارقطنی نے ان کے متعلق صرف اتنا کہا تھا کہ: "لا بأس به"
اس کے علاوہ حافظ ابن حجر نے لا باس بہ کے طبقے میں لفظ "صدوق" کو بھی رکھا ہے اور آپ سے کئی ایسی مثالیں ملتی ہیں جہاں انہوں نے صدوق راوی کی حدیث کو حسن کہہ کر تعبیر دیا ہے، مثلا: تعجیل المنفعہ ہی میں آپ عبد اللہ بن عبید الدیلی پر بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
"وأما الراوي عن عديسة فقد أخرج حديثه أيضا الترمذي والنسائي، وقال الترمذي: حسن غريب، وهذا يقتضي أنه عنده صدوق معروف"
اس سے معلوم ہوتا ہےکہ ان کے نزدیک صدوق راوی کی حدیث حسن ہوتی ہے، اور صدوق بھی لا باس بہ کے مرتبے ہی کا لفظ ہے جس سے بالواسطہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ لا باس بہ والا راوی بھی ان کے نزدیک حسن الحدیث ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ علامہ نور الدین ہیثمی عیسی بن جاریہ پر بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
"وَوَثَّقَهُ أَبُو زُرْعَةَ" حالانکہ امام ابو زرعہ نے صرف "لا بأس به" کہا تھا جس سے معلوم ہوتا کہ یہ کلمۃ ان کے نزدیک بھی توثیق کا کام کرتا ہے۔
امام یحیی بن معین سے بھی یہی ثابت ہے، فرماتے ہیں:
"إذا قلتُ : ليس به بأس ؛ فهو ثقة" اس قول کے اوپر تبصرہ کرتے ہوئے ملتقی اہل الحدیث کے ایک اہل علم شخص فرماتے ہیں:
وليس هذا باصطلاح خاص به، وأيضاً فإنه لا يدل على أن " لا بأس به " تساوي " ثقة " ، وإنما الأمر كما قال العراقي في " فتح المغيث " ( ص 174 ) : ( لم يقل ابن معين : إن قولي " لا بأس به " كقولي " ثقة " حتى يلزم منه التساوي بين اللفظين ، إنما قال إن من قال فيه هذا فهو ثقة ، وللثقة مراتب ، فالتعبير عنه بقولهم : " ثقة " أرفع من التعبير عنه بقولهم : " لا بأس به " وإن اشتركا في مطلق الثقة " .
اسی طرح امام دحیم سے بھی یہی ثابت ہے کہ وہ اس کلمۃ سے توثیق مراد لیتے تھے، جیسا کہ امام ابو زرعہ الدمشقی اپنی تاریخ میں بیان کرتے ہیں کہ:
قلت لعبد الرحمن بن إبراهيم [هو دحيم] : ما تقول في علي بن حَوشب الفزاري؟ قال : لا بأس به؛ قلت : ولمَ لا تقول : ثقة، ولا تعلم إلا خيراً ؟ قال : قد قلت لك : إنه ثقة
اس کے علاوہ امام ذہبی فرماتے ہیں:
فأعلى العبارات في الرواة المقبولين: ثبت حجة، وثبت حافظ، وثقة متقن، وثقة ثقة، ثم ثقة صدوق، ولا بأس به، وليس به بأس، ثم محله الصدق، وجيد الحديث، وصالح الحديث، وشيخ وسط، وشيخ حسن الحديث، وصدوق إن شاء الله، وصويلح، ونحو ذلك. میزان
اس قول سے بھی اشارہ ملتا ہے کہ حافظ ذہبی اس کلمہ سے توثیق مراد لیتے ہیں کیونکہ انہوں لا باس بہ کو ثقہ والے درجے میں ذکر کیا ہے۔
امام ابو حاتم الرازی کے کلام سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ کلمہ لا باس بہ ان کے نزدیک حسن الحدیث سے کم نہیں۔ کیونکہ امام ابو حاتم اکثر راویوں کے بارے میں یہ توثیق کے لیے فرماتے ہیں، چند مثالیں درج ذیل ہیں:
قال ابن أبي حاتم : « سمعت أبى يقول : عبد ربه بن سعيد لا بأس به، قلت : يحتج بحديثه ؟ قال : « هو حسن الحديث ثقة » ( الجرح والتعديل 6 / 41 ) .
وقال : « سألت أبى عن عطاء الخراساني ؟ فقال : لا بأس به صدوق، قلت : يحتج بحديثه ؟ قال : نعم » ( الجرح والتعديل 6 / 335 ) .
وقال أبو حاتم في عبد ريه بن سعيد : « لا بأس به » ، فقال ابنه : يحتج به ؟ فقال : « هو حسن الحديث » ، ( علل الحديث 1 / 298 / 365 )
وقال في واقد بن محمد بن زيد : « لا بأس به، ثقة، يحتج بحديثه » ( الجرح والتعديل 9 / 32 ) .
اس کے علاوہ کچھ مثالیں ایسی بھی ملتی ہیں جہاں امام ابو حاتم فرماتے ہیں:
وقال : سألت أبى عن عبد الحميد - هو : ابن مهران - ؟ فقال : ليس به بأس، قلت : يحتج به ؟ قال : لا ، ولكن يكتب حديثه » ( الجرح والتعديل 6 / 9 ) .
وقال : « سمعته يقول ما أرى بحديثه - أي : عبد الله بن موسى التيمي - بأساً، قلت : يحتج بحديثه ؟ قال : ليس محله ذلك » ( الجرح والتعديل 5 / 167 ) .
وقال : « سألت أبى عن على بن على الرفاعي ؟ قال ليس بحديثه بأس ؟ قلت : يحتج بحديثه ؟ قال : لا » ( الجرح والتعديل 6 / 169 ) .
وقال : « سألته عن إبراهيم بن عقبة ؟ فقال : صالح لا بأس به، قلت : يحتج بحديثه ؟ قال : يكتب حديثه » ( الجرح والتعديل 2 / 117 ) .
وقال : « سألت أبى عن عبيد الله بن على بن أبى رافع، قال : لا بأس بحديثه، ليس منكر الحديث، قلت : يحتج بحديثه ؟ قال : لا، هو يحدث بشيء يسير، وهو شيخ » (الجرح و التعديل 5 / 328 ) .
لیکن ان میں کوئی تعارض نہیں ہے کیونکہ امام ابو حاتم حجت سے مراد صرف اعلی درجہ کے راوی لیتے تھے مثلا امام احمد، یحیی بن سعید القطان وغیرہ جیسے اعلی ترین قسم کے ثقہ راوی۔ ان کا لا یحتج بہ کہنا ان کے حسن الحدیث کہنے کے منافی نہیں ہے، توضیح الکلام میں اس کی تفصیل موجود ہے، دیکھئے ص 219۔
خلاصہ یہ نکلتا ہے کہ امام ابو حاتم کے نزدیک لا باس بہ والا راوی کم از کم حسن الحدیث ہوتا ہے۔
اور اگر آپ امام دارقطنی کے رجال پر کلام پر غور کریں تو آپ دیکھیں گے زیادہ تر مقامات جہاں امام دارقطی لا باس بہ کہتے ہیں وہیں کسی دوسری روایت میں اسی راوی کے لیے ثقہ بھی کہتے ہیں۔ اور بعض دفعہ تو ایک ہی روایت میں لا باس بہ کہہ کر ثقہ بھی کہہ دیتے ہیں۔ بہت ہی کم ایسے مقامات ہوں گے جہاں وہ لا باس بہ کہہ کر دوسری روایت میں صرف لیس بقوی جیسے ہلکے الفاظ استعمال کیے ہیں اور وہ بھی قرائن کو مد نظر رکھتے ہوئے۔
یہی حال امام ابو الحسن العجلی، امام نسائی، اور امام ابن عدی کا بھی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک بھی یہ کلمہ کم از کم حسن الحدیث کے مترادف ہے۔
ہاں یہ ضرور ہے کہ محدثین نے لا بأس به، ليس به بأس اور ما اعلم به باس، لا باس به ان شاء الله، ارجو انه لا باس به کے الفاظ میں فرق کیا ہے۔
اب آتا ہے میرا سوال کہ آپ کے نزدیک اس کلمہ کی کیا حیثیت ہے؟
جزا اللہ خیرا۔