حسن شبیر
مشہور رکن
- شمولیت
- مئی 18، 2013
- پیغامات
- 802
- ری ایکشن اسکور
- 1,834
- پوائنٹ
- 196
لسی میں پنجاب اور بہت سے ممالک کےلوگوں کی جسمانی صحت کا راز پنہاں ہے۔ جو لوگ لسی پینے کے عادی ہوتے ہیں انہیں معدے کی بیماریاں لاحق نہیں ہوتی۔ ابھی چند ماہ قبل ایران میں دو گروپ 90 اور 140 کی تعداد میں تشکیل دئیے گئے اور ان لوگوں کو جن کی عمریں 35 سے 65 برس تک تھیں 90 دن تک 500 ملی گرام وٹامن ڈی اور 250 ملی لیٹر دوغ (دہی کی لسی) اور 250 ملی گرام کیلشیم دیا گیا۔ ان کے ٹیسٹ سے ثابت ہوا کہ ان کو ٹائب ٹو کی ذیابیطس میں کافی حد تک افاقہ ہوا۔
اسی طرح تُرکی میں دہی اور لسی کا استعمال بہت زیادہ ہے تقریباً ہر کھانے کے بعد دہی یا لسی جسے ترکی میں بوگڑٹ اور آئران کہتے ہیں ضرور پی جاتی ہے۔ ترکی کے لوگوں کی صحت اور حسن کا ثانی کہیں نہیں ہے ترکی ایک ڈش یوگرٹ کباب بہت مقبول عام ہے۔
یورپ اور امریکہ میں بھی دہی کی جانب عوام الناس کا رجحان دن بدن بڑھتا جارہا ہے۔ امریکہ میں تو آئس کریم پارلرز کی طرز پر یوگرٹ پارلرز بہت مقبول ہورہےہیں۔ ہمارے ایک دوست جو بہت امیرکبیر تھے ان کا ہاضمہ بگڑ گیا اور کئی سال تک معدے کے معالجین کے علاج سے بھی ٹھیک نہیں ہوا تو کسی نے مشورہ دیا کہ آپ لندن جاکر کسی معدے کے امراض کےماہر سے مشورہ کریں۔ وہ صاحب لندن تشریف لے گئے اور وہاں معدے کے اعلیٰ سے اعلیٰ ڈاکٹر سے علاج کروایا مگر صحت یابی نہیں ہوئی۔ لندن کے قیام کے دوران انہیں کسی دوست نے صلاح دی کہ جرمنی میں ایک ماہر نظام ہضم ڈاکٹر ہے اسے بھی ایک بار آزمالیں۔
چنانچہ وہ حضرت جرمنی پہنچ گئے جس شہر میں وہ جرمن ماہر رہتا تھا وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ ڈاکٹر صاحب بہت ضعیف ہوچکےہیں اور انہوں نے پریکٹس چھوڑ دی ہے مگر گاہے بگاہے اکا دُکا کیس لے لیتے ہیں۔ ان صاحب نے ڈاکٹر صاحب کو بذریعہ استدعا کی۔ آخر کار ڈاکٹر صاحب نے انہیں بلالیا۔ موصوف جب ڈاکٹر صاحب ک گھر پہنچے تو انہیں اپنا احوال سنایا اور بیان کرنے کے بعد کہا کہ میں خاص طور پر پاکستان سے بغرض علاج یہاں آیا ہوں۔ یہ بات سنتے ہی جرمن ڈاکٹر جو پہلے انتہائی خاموش اور توجہ سے مریض کا احوال سن رہا تھا یکایک آگ بولہ ہوگیا اور غصے سے کانپنے لگا اور موصوف سے کہا کہ یہاں سےفوراً نکل جاؤ۔
مریض صاحب کو جرمن ڈاکٹر کے اس روئیے سے کافی حیرانی ہوئی۔آخر کار کافی منت سماجت کے بعد جرمن ڈاکٹر نے بتایا کہ بہت سال پہلے میں ہندوستان اور پاکستان گیا تھا اور وہاں سے ہاضمے کی بیماریوں کا علاج وہاں کے اطبا اور ویدوں سے سیکھ کرآیا تھا لگتا ہے آپ نے وہاں کسی اچھے طبیب سے علاج نہیں کرایااور اتنی دور چلے آئے۔ آپ اپنے ملک واپس جائیں اور وہیں کسی ماہر طب کو دکھائیں۔
مریض صاحب نے ڈاکٹر سے کہا کہ اب میں جرمنی آہی گیا ہوں اور آپ سے بعد مشکل ملاقات بھی ہوگئی ہے تو آپ میرا علاج بھی تجویز فرمادیجئے۔ آخر کار ڈاکٹر مان گیا اور اس نے کہا کہ کل دس بجے صبح آنا۔ اگلے دن جب مریض جرمن ڈاکٹر کے گھر پہنچے تو ڈاکٹر نے انہیں ایک صراحی میں سفید رنگ کی مائع گلاس میں ڈال کردی اور اس میں دو چھوٹی شیشیوں میں سے پاؤڈر سیاہ اور سفید رنگ کا ملایا اور کہا یہ تمہارا علاج ہے۔ یہ لسی ہے اور باریک شے کالی مرچ اور نمک ہے۔ تم لسی میں کالی مرچ اور نمک ملا کر پیا کرو ان شاء اللہ صحت یاب ہوجاؤ گے۔
موصوف واپس پاکستان آگئے اور دو تین ماہ کے مستقل لسی بمعہ نمک اور کالی مرچ کے استعمال سے صحت یاب ہوگئے۔ پس لسی ہاضمے کے امراض کے لیے سو دواؤں کی ایک دوا ہے۔ لیکن اس میں کالی مرچ اور نمک ضرور ملا ہونا چاہیے یعنی کالی مرچ اور نمک اس کے لازمی جزو ہیں۔ میٹھی اور برف والی لسی میں وہ فوائد نہیں جو نمکین لسی اور کالی مرچ کی وجہ سے حاصل ہوئے ہیں۔ برف ویسے بھی دانتوں اور معدے کے لیے مضر ہے۔ بچوں اور نوعمر لڑکے لڑکیوں کو چائے ہرگز نہیں پینی چاہیے کیونکہ چائے ان کی طبعی نشوونما کو روک دیتی ہے۔
آج کل مغرب میں بھی کافی اور چائے کی بجائے دودھ اور دہی کی ترغیب دی جارہی ہے۔ روز مرہ کے کھانوں میں بھی دہی کا استعمال انتہائی سود مند ثابت ہونے کے علاوہ ذائقے کو بھی بہتر بناتا ہے۔ اگر ہر ہانڈی میں ایک چٹکی کلونجی اور تھوڑی سی دہی ڈال دی جائے تو اس کے بے انتہا فوائد حاصل ہونگے۔ بشکریہ احمد سعید صدیقی
اسی طرح تُرکی میں دہی اور لسی کا استعمال بہت زیادہ ہے تقریباً ہر کھانے کے بعد دہی یا لسی جسے ترکی میں بوگڑٹ اور آئران کہتے ہیں ضرور پی جاتی ہے۔ ترکی کے لوگوں کی صحت اور حسن کا ثانی کہیں نہیں ہے ترکی ایک ڈش یوگرٹ کباب بہت مقبول عام ہے۔
یورپ اور امریکہ میں بھی دہی کی جانب عوام الناس کا رجحان دن بدن بڑھتا جارہا ہے۔ امریکہ میں تو آئس کریم پارلرز کی طرز پر یوگرٹ پارلرز بہت مقبول ہورہےہیں۔ ہمارے ایک دوست جو بہت امیرکبیر تھے ان کا ہاضمہ بگڑ گیا اور کئی سال تک معدے کے معالجین کے علاج سے بھی ٹھیک نہیں ہوا تو کسی نے مشورہ دیا کہ آپ لندن جاکر کسی معدے کے امراض کےماہر سے مشورہ کریں۔ وہ صاحب لندن تشریف لے گئے اور وہاں معدے کے اعلیٰ سے اعلیٰ ڈاکٹر سے علاج کروایا مگر صحت یابی نہیں ہوئی۔ لندن کے قیام کے دوران انہیں کسی دوست نے صلاح دی کہ جرمنی میں ایک ماہر نظام ہضم ڈاکٹر ہے اسے بھی ایک بار آزمالیں۔
چنانچہ وہ حضرت جرمنی پہنچ گئے جس شہر میں وہ جرمن ماہر رہتا تھا وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ ڈاکٹر صاحب بہت ضعیف ہوچکےہیں اور انہوں نے پریکٹس چھوڑ دی ہے مگر گاہے بگاہے اکا دُکا کیس لے لیتے ہیں۔ ان صاحب نے ڈاکٹر صاحب کو بذریعہ استدعا کی۔ آخر کار ڈاکٹر صاحب نے انہیں بلالیا۔ موصوف جب ڈاکٹر صاحب ک گھر پہنچے تو انہیں اپنا احوال سنایا اور بیان کرنے کے بعد کہا کہ میں خاص طور پر پاکستان سے بغرض علاج یہاں آیا ہوں۔ یہ بات سنتے ہی جرمن ڈاکٹر جو پہلے انتہائی خاموش اور توجہ سے مریض کا احوال سن رہا تھا یکایک آگ بولہ ہوگیا اور غصے سے کانپنے لگا اور موصوف سے کہا کہ یہاں سےفوراً نکل جاؤ۔
مریض صاحب کو جرمن ڈاکٹر کے اس روئیے سے کافی حیرانی ہوئی۔آخر کار کافی منت سماجت کے بعد جرمن ڈاکٹر نے بتایا کہ بہت سال پہلے میں ہندوستان اور پاکستان گیا تھا اور وہاں سے ہاضمے کی بیماریوں کا علاج وہاں کے اطبا اور ویدوں سے سیکھ کرآیا تھا لگتا ہے آپ نے وہاں کسی اچھے طبیب سے علاج نہیں کرایااور اتنی دور چلے آئے۔ آپ اپنے ملک واپس جائیں اور وہیں کسی ماہر طب کو دکھائیں۔
مریض صاحب نے ڈاکٹر سے کہا کہ اب میں جرمنی آہی گیا ہوں اور آپ سے بعد مشکل ملاقات بھی ہوگئی ہے تو آپ میرا علاج بھی تجویز فرمادیجئے۔ آخر کار ڈاکٹر مان گیا اور اس نے کہا کہ کل دس بجے صبح آنا۔ اگلے دن جب مریض جرمن ڈاکٹر کے گھر پہنچے تو ڈاکٹر نے انہیں ایک صراحی میں سفید رنگ کی مائع گلاس میں ڈال کردی اور اس میں دو چھوٹی شیشیوں میں سے پاؤڈر سیاہ اور سفید رنگ کا ملایا اور کہا یہ تمہارا علاج ہے۔ یہ لسی ہے اور باریک شے کالی مرچ اور نمک ہے۔ تم لسی میں کالی مرچ اور نمک ملا کر پیا کرو ان شاء اللہ صحت یاب ہوجاؤ گے۔
موصوف واپس پاکستان آگئے اور دو تین ماہ کے مستقل لسی بمعہ نمک اور کالی مرچ کے استعمال سے صحت یاب ہوگئے۔ پس لسی ہاضمے کے امراض کے لیے سو دواؤں کی ایک دوا ہے۔ لیکن اس میں کالی مرچ اور نمک ضرور ملا ہونا چاہیے یعنی کالی مرچ اور نمک اس کے لازمی جزو ہیں۔ میٹھی اور برف والی لسی میں وہ فوائد نہیں جو نمکین لسی اور کالی مرچ کی وجہ سے حاصل ہوئے ہیں۔ برف ویسے بھی دانتوں اور معدے کے لیے مضر ہے۔ بچوں اور نوعمر لڑکے لڑکیوں کو چائے ہرگز نہیں پینی چاہیے کیونکہ چائے ان کی طبعی نشوونما کو روک دیتی ہے۔
آج کل مغرب میں بھی کافی اور چائے کی بجائے دودھ اور دہی کی ترغیب دی جارہی ہے۔ روز مرہ کے کھانوں میں بھی دہی کا استعمال انتہائی سود مند ثابت ہونے کے علاوہ ذائقے کو بھی بہتر بناتا ہے۔ اگر ہر ہانڈی میں ایک چٹکی کلونجی اور تھوڑی سی دہی ڈال دی جائے تو اس کے بے انتہا فوائد حاصل ہونگے۔ بشکریہ احمد سعید صدیقی