اب سوال یہ ہے کہ ہم کیاکریں؟
بہت خوب ۔ اللہ آپ کو خوش رکھے ۔اس استثناء کے ساتھ کہ زبان پر زبان والے کااثر ہوتاہے اوریہ لازمی ہے۔اگرزبان کے بڑے ادیب ملحد اورکمیونسٹ نظریہ رکھنے والے ہوں گے توزبان میں لازمی طورپر اس طرح کے مصطلحات پیداہوں گے اورایسے ادیب زبان کا دھارااپنے نظریات کی جانب موڑناچاہیں گے۔اگرزبان پر فحش نگاروں کاغلبہ ہوگاتوزبان اس کے اثرکوبھی قبول کرے گی اورزبان وبیان میں فحش نگاری کے جرثومے جابجادکھائی دیں گے۔
اگرزبان پر صالح اورنیک خیالات رکھنے والے افراد کاغلبہ ہوگاتوپھران کی باتیں بھی اسی قبیل اورنہج کی ہوں گی ۔
دوسری بات یہ ہے کہ ادیب کے جوذاتی نظریات ہوں گے اسی کے تحت وہ زبان کو ترویج دے گا۔اس کی ایک معمولی مثال عرض کرتاہوں۔
ایک نظریہ صالح اقدارکے ترجمانوں کاہے کہ شاعراورادیب کاکام یہ ہے کہ انسانی دکھ اوردرد کو بہترطورپر بیان کرے یعنی جوکچھ ہواہے ویسانہیں بلکہ اپنے نظریات وخیالات کے ذریعہ خراب کوبھی بہتربنائے اورناگفتنی کو گفتنی کے دائرہ کار میں لاکر پیش کرے۔مختصر یہ کہ شاعراورادیب کی مثال مصور کی ہے جو تصویر مین اپنے خیالات کے رنگ بھی بھرتاہے۔
ایک دوسرانظریہ یہ ہے کہ شاعراورادیب محض فوٹوگرافر ہے سماج میں جوکچھ ہورہاہے اس کو بلاکم وکاست پیش کردیاجائے اس طرح کانظریہ عمومی طورپر کمیونسٹ ادیبوں کارہاہے اوراسی قبیل اوردھارے مین منٹو عصمت چغتائی اورکچھ دیگرنام ہیں۔
اب دیکھیں منٹو اورعصمت چغتائی نے اپنے افسانوں مین جوکچھ کہاہے اورناگفتنی کو مزید ناگفتنی بناکر پیش کیاہے وہ ان کے نظریات کاہی ردعمل تھا۔
اب سوال یہ ہے کہ ہم کیاکریں؟
اس دنیا میں کوئی جگہ خالی نہیں رہتی۔اس کی بھرتی ضرورہوتی ہے۔اگرسنت کو اس کی جگہ سے ہٹادیاجائے تواس کی جگہ بدعت لے لیتی ہے۔
اگراہل اورلائق لوگوں کو منصب سے ہٹایاجائے تونالائق اورنااہل لوگ اس پرقبضہ کرلیتے ہیں
اگردینی علم سے جڑے،مذہبی خیالات اورصالح ا قدار کے افراد ادب اورزبان سے رشتہ توڑلیں گے توکچھ دوسرے لوگ اس کی جگہ لیں گے؟
دورحاضر میں ایک بڑاالمیہ یہ ہے کہ علماء نے تقریباادب اورزبان سے اپنارشتہ توڑلیاہے۔ دیکھ لیں دورحاضر میں ادب اورزبان کے بڑے ناموں میں سے کوئی بھی ایک عالم موجود ہے جب کہ ماضی میں مولانا شبلی نعمانی، مولوی الطاف حسین حالی،مولوی نذیراحمد یہ اردوادب کے اساطین میں شمارہوتے تھے۔
علماء کیلئے ضروری ہے کہ وہ ادب اورزبان کے ساتھ رشتہ برقراررکھیں تاکہ دین بیزارافراد اورفحش نگاروں کیلئے جگہ خالی نہ رہے۔
[/HL]