عشق -- عشقِ الٰہی / عشقِ رسول (ص)
عشق ۔۔۔
محبت کے تمام ناموں میں یہ نام سب سے زیادہ کڑوا ، کسیلا اور گھٹیا ہے ۔
اس لفظ کا استعمال قدیم عربی کلام میں بہت کم اور قرآن اور صحیح احادیث میں بالکل نہیں ہوا ہے ۔
البتہ شعراء و صوفیاء حضرات نے اپنے کلام میں اس لفظ کا کثرت سے استعمال کیا ہے اور جس کے معنی فرطِ محبت ہے ۔
لغت کے مطابق ۔۔۔ عشق ، دراصل ایک لیس دار پودے کا نام ہے جو کسی چیز سے چمٹ جائے تو اس کا ساتھ نہیں چھوڑتا ۔
یہی حال عشق کا ہے کہ جس کو اس نام کی بیماری لگ گئی وہ اس کے لیے جان لیوا ثابت ہوتی ہے ۔
عشق کا لفظ ضرر رساں پہلو کا حامل ہے ۔
عشق کا جذبہ بے راہ روی کی نفسانی خواہشات سے لبریز ہوتا ہے ۔
اسی لیے قرآن و حدیث میں اس لفظ کا کہیں بھی استعمال نہیں ہوا ہے ۔
یہ ایک ایسا لفظ ہے جس کا سرا جنون سے ملتا ہے ۔
چنانچہ اہلِ قاموس لکھتے ہیں :
الجنون فنون و العشق من فنہ
جنون کی کئی قسمیں ہیں اور عشق اس کی ایک قسم ہے ۔
عشق کی اس معنوی حقیقت کی طرف مرزا غالب نے بھی اشارہ کیا ہے :
عشق نے غالب نکما کر دیا
ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے
مطلقاََ اس لفظ کے استعمال سے روکنا مناسب امر نہیں کہلایا جا سکتا ۔
کیونکہ ۔۔۔ ایک شوہر اپنی بیوی سے کہتا ہے کہ 'میری جان ، مجھے تم سے عشق ہے' ۔
جو عشق کرتا ہے ، اس کو عاشق کہا جاتا ہے ۔ اور جس سے عشق ہو ، وہ معشوق کہلاتا ہے ۔
آج تک کی اسلامی تاریخ میں کسی نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو 'معشوق' کے لفظ سے یاد نہیں کیا ۔
لہذا اگر کوئی خاتم النبیین امامِ اعظم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے لفظ عشق استعمال کرتے ہوئے عشقِ رسول کا دعویٰ کرے تو گویا دوسرے معنوں میں وہ رسول اللہ کو معشوق کہتا ہے ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات کے طور پر بیشمار الفاظ بیان ہوئے ہیں ۔۔۔ ہادی ، شفیع ، مکرم ، اکرم ، کریم ، رحمت ، مبشر ، نذیر ، محسن ، مجتبیٰ ۔۔۔ وغیرہ ۔
اب اگر کوئی ان صفات میں ایک اور لفظ کا معشوق کا اضافہ فرمائے تو بجا طور پر اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ رسول کی صفات اللہ بیان کرے گا یا ہم امتی ؟
معشوق جیسا تیسرے درجے کا لفظ ۔۔۔ اُس پیغمبر آخر الزماں رحمۃ للعالمین کے لیے مناسب کہلایا جا سکتا ہے ؟
بالکل نہیں ، ہرگز نہیں ۔
امتِ مسلمہ کا یہ مشترکہ عقیدہ ہے کہ ۔۔۔
رسول کے سب سے زیادہ جاں نثار ، آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے سب سے زیادہ فرمانبردار اور آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) کو سب سے زیادہ چاہنے والے ۔۔۔
خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ (رضی اللہ عنہم اجمعین) تھے ۔
اسلام کی تاریخ میں ایک چھوٹی سے چھوٹی سطر بھی ایسی نہیں ملتی جس میں کسی صحابی نے اپنے آپ کو یا کسی دوسرے صحابی کو عاشقِ رسول کا لقب یا خطاب دیا ہو ۔
ثابت یہی ہوا کہ ۔۔۔ رسول سے محبت تو کی جا سکتی ہے لیکن رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) سے عشق ، قطعاََ نہیں کیا جا سکتا ۔
کوئی بھی اپنی سگی بہن سے ایسا نہیں کہتا کہ
" مجھے اپنی بہن سے عشق ہے "
بلکہ ۔۔۔ اگر یوں کہے کہ " مجھے اپنی بہن سے محبت ہے " تو یہ فطری بات سمجھی جاتی ہے۔
جب سب مانتے ہیں کہ ایک لفظ محبت اگر کوئی بھائی اپنی بہن سے کہے تو یہی لفظ کسی غیر لڑکی کو کہنے سے اُس بھائی کو روکا جائے گا۔
بالکل اسی طرح جب کوئی عاشق اپنی معشوقہ کے لیے لفظ عشق استعمال کرے اور یہی لفظ رسول(صلی اللہ علیہ وسلم) کے لیے استعمال کرنے سے کوئی اُس عاشقِ نامراد کو روکے یا ٹوکے ۔۔۔ تو روکنے ٹوکنے والے پر اعتراض بھی نہ کیا جانا چاہئے ۔
ضروری نہیں کہ ہر جذبے کے دو رُخ ہوں ۔ اگر ہوں بھی تو پھر کسی جذبے کا رُخ بدلتے ہی اس جذبے کا نام بھی تبدیل ہو جائے گا ۔
مثلاََ ۔۔۔ محبت ایک جذبہ ہے ۔۔۔ اس کا نام لیتے ہی لوگوں کے ذہنوں میں نرمی ، گداز ، لگاؤ کی طرف دھیان جاتا ہے ۔
لیکن یہی جذبہ اگر منفی رُخ اختیار کرے تو لوگ اس منفی رُخ کو محبت کا نام تو ہرگز نہیں دیں گے بلکہ نفرت ، جنون ، عشق یا پاگل پن کے الفاظ استعمال میں لائیں گے ۔
اسی طرح غصہ بھی ایک جذبہ ہے ۔۔۔ اور یہ ایک منفی جذبہ ہے ، اس سے بچنا چاہئے ۔ اب اگر اس جذبے کا رُخ تبدیل کیا جائے تو اس کا نام بھی پھر غصہ نہیں رہے گا ۔۔۔ حمیت یا غیرت ہو جائے گا ۔
عمومی مشاہدہ تو یہی رہا ہے کہ نفرت کی طرح عشق بھی ایک خودغرض اور سفلی جذبہ ہے ۔
عشق کا مثبت پہلو آج تک دیکھا نہیں گیا ۔ اگر بالفرض ہو بھی تو وہ لغوی معنوں میں عشق نہیں بلکہ محبت کہلائے گا ۔
لہذا ایسا کہنا بیجا نہیں کہ ۔۔۔ نفرت کی طرح ، عشق ایک گھٹیا جذبہ ہے ۔
قرآن میں جھوٹ بولنے سے منع کیا گیا ہے اور جھوٹوں پر خود اللہ نے لعنت بھیجی ہے ۔
اب کوئی آپ سے سوال کر دے کہ : بتائیے قرآن میں لفظ جھوٹ کہاں لکھا ہے ؟
تو آپ کا کیا جواب ہوگا ؟
کیونکہ جھوٹ تو اُردو زبان کا ایک لفظ ہے ۔ جبکہ قرآن عربی زبان میں نازل ہوا ہے ۔
اور اُردو لفظ 'جھوٹ' کا صحیح عربی مترادف لفظ ' کذب' ہے ۔ اور یہی عربی لفظ کذب قرآن میں استعمال ہوا ہے ۔
لہذا اس بات کا میری اور آپ کی طرح کوئی بھی انکار نہیں کرتا کہ قرآن میں جھوٹ کا لفظ لکھا ہوا نہیں ہے ۔
بالکل یہی معاملہ ۔۔۔ لفظ محبت کا ہے ۔
عربی میں اس کا عین مترادف لفظ ' حُب ' ہے ۔ آپ کوئی سی بھی عربی۔اُردو لغت چیک کر لیں ۔
حُب ۔۔۔ قرآن میں درج ذیل جگہوں پر ہے :
1) سورہ البقرہ ، آیات : 190 ، 195 اور 222 ۔
2) اٰل عمرٰن ، آیت : 46 ۔
3) النساء ، آیت : 148 ۔
4) المائدہ ، آیت : 42 ۔
5) الانفال ، آیت : 58 ۔
ایک شخص زید ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اپنی ماں سے بے انتہا محبت کرتا ہے ۔
اگر آپ زید کی اس محبت کی انتہا کو عشق کا نام دیں اور کہیں کہ
زید ، اپنی ماں سے عشق کرتا ہے
تو ذرا بتائیے ۔۔۔ معاشرے میں یا نیٹ کی اردو کمیونیٹی میں لوگ آپ کے تعلق سے کس قسم کا خیال ظاہر فرمائیں گے ؟
جب آپ مانتے ہیں کہ ۔۔۔
ماں سے عشق نہیں کیا جا سکتا ۔۔۔
صحابہ (رضوان اللہ عنہم) جو رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کو ہم سے زیادہ انتہائی درجے کی محبت کرنے والے تھے ۔۔۔ انہوں نے بھی رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) سے عشق کا دعویٰ نہیں کیا ۔۔۔
تو آپ ، رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) سے عشق کا دعویٰ کرنے میں کس طرح حق بجانب ثابت ہوں گے ؟؟؟
عشق کسی بھی جذبے کی انتہا ہو ۔۔۔ اسلام کی سیدھی سادی تعلیمات تو یہی ہیں کہ ہر بات میں میانہ روی اور اعتدال اختیار کیا جائے ۔۔۔ انتہا کی طرف جانے کا خود رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) نے کوئی مشورہ نہیں دیا ہے اور نہ ہی عشق ایسا گندا اور گھٹیا عمل صحابہ (صلی اللہ علیہ وسلم) سے ثابت ہے ۔
اللہ صرف جذبوں کو نہیں دیکھتا بلکہ ہمارے اعمال کو بھی دیکھتا ہے ۔ اور یہ صحیح مسلم کی مشہور حدیث ہے ۔
اللہ تعالیٰ ۔۔۔ تمہارے دلوں اور عملوں کو دیکھتا ہے ۔
صحیح مسلم ، كتاب البر والصلة والآداب ، باب : تحريم ظلم المسلم وخذله واحتقاره ودمه وعرضه وماله ، حدیث : 6708
اور ہمارا یہ عمل ، جو ہم زبانی کلامی رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) سے عشق کا لفظ جوڑ کر خود کو عاشقِ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کہلاتے ہیں ۔۔۔ اللہ کے ہاں مقبول نہیں ۔۔۔ اس لیے کہ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی ذاتِ مبارکہ ، عشق جیسے گھٹیا جذبے سے متوصف نہیں ہے ۔
بہت سی کتب میں یوں بھی لکھا ہوتا ہے :
رب نے اپنے محبوب سے عشق کیا ۔۔۔
حضرت بلال (رضی اللہ عنہ) سچے عاشق رسول تھے ۔۔۔
لیکن ایسی باتیں دلیل نہیں بن سکتیں۔
اگر ایسی ہی بے سند باتوں کو بنیاد بنایا جائے تو ہر کوئی اٹھ کھڑا ہوگا اور اپنے اپنے دعوے یوں ٹھونک دے گا :
مرزا غلام احمد اللہ کے ایک سچے نبی تھے ۔
گوہر شاہی کا کہنا ہے کہ فریضہ ء حج اب مسلمانوں پر سے ساقط ہو چکا ہے ۔
اللہ تعالیٰ حضرت علی (رض) کو خاتم النبیین بنانا چاہتا تھا لیکن حضرت جبریل (ع) نے غلطی سے وحی حضرت محمد (ص) پر نازل کر دی ۔
(نعوذ باللہ ، ثم نعوذباللہ)
جب درج بالا تین باتوں کے ثبوت میں قرآن و حدیث سے دلیل طلب کی جائے گی تو 'عشقِ رسول' کے اثبات کے لیے کیوں دلیل طلب نہیں کی جا سکتی ؟ کیا 'عشقِ رسول' یا 'عاشقِ رسول' قول کی سچائی کی دلیل میں قرآن و حدیث سے ثبوت مانگنا بےکار محض بات ہے ؟؟
رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) سے محبت ، معروف بات ہے اور قرآن و احادیث بھی اس کی گواہ ہیں ۔
لیکن عشقِ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) اگر معروف بات ہو بھی تو یہ ایک متنازعہ معاملہ ہے ۔ کیونکہ عشق کے جو معنی عمومی طور پر لیے جاتے ہیں وہ سب کو معلوم ہیں ۔
اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) سے متعلق ہر وہ بات جس پر مسلمانوں میں تنازع اٹھ کھڑا ہو ۔۔۔ اس کو حل کرنے کے لیے قرآن میں ایک بہت آسان قاعدہ بیان ہوا ہے ۔۔۔ شائد آپ کو بھی معلوم ہو :
فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللّهِ وَالرَّسُولِ ۔۔۔
اگر کسی مسئلہ میں تم باہم اختلاف کرو تو اسے (حتمی فیصلہ کے لئے) اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف لوٹا دو ۔۔۔
(سورہ النساء ، آیت : 59 )
اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی طرف لوٹانے کا مطلب ۔۔۔ قرآن اور حدیث سے دلیل طلب کرنا ہے ۔۔۔ یہ بات ہر کوئی جانتا ہے ۔
لہذا اگر اب بھی کسی کو عشقِ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کا دعویٰ ہے تو اس فرد کو صرف اور صرف قرآن یا صحیح احادیث سے اپنی بات کی تائید میں دلیل دینا چاہئے ۔۔۔ ورنہ بحث برائے بحث یا خواہ مخواہ کی ضد یا ہٹ دھرمی کا کوئی علاج نہیں ہے ۔
عشقِ حقیقی یا عشقِ مجازی کی کوئی ترکیب نہ صحیح العقیدہ مسلمان کے ہاں قابلِ قبول ہے اور نہ اُن علماء و ائمہ کے ہاں جو دین و دنیا کے کسی بھی مسئلے کے حل کے لیے راست قرآن و سنت کی طرف رجوع کرتے ہیں ۔
عشقِ حقیقی یا عشقِ مجازی کی ادب میں کوئی حیثیت ہو سکتی ہے ( اور جس کا انکار کوئی نہیں کرتا ) لیکن اسلام میں اس طرح کے خودساختہ عقیدوں کی قطعاََ گنجائش نہیں ۔ اگر ذرہ برابر بھی گنجائش ہوتی تو خیرالقرون سے اس کا ثبوت ضرور ملتا ۔ جب کہ وہ تین بہتر زمانے وہ زمانے تھے جن کے بہترین ہونے کی گواہی خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی ۔
بہت سے لوگ معصومیت سے پوچھتے ہیں کہ :
اگر عشق ، واقعی ایک گھٹیا جذبہ ہے تو اسلام نے ہمیں کیوں نہیں بتایا ، جہاں یہ کہا جا رہا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) سے دل و جان سے محبت کرو وہاں یہ کیوں نہیں بتایا گیا کہ عشق نہ کرو ؟؟
تو اس کا جواب ذیل کی حدیث ہے ۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
مجھے حد سے مت بڑھانا جیسے عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو حد سے بڑھا دیا ۔
میں تو محض اس کا بندہ ہی ہوں ، تم مجھے اللہ کا بندہ اور اس کا رسول کہو ۔
( صحيح بخاري ، كتاب احاديث الانبياء ، باب : {واذكر في الكتاب مريم اذ انتبذت من اهلها} ، حدیث : 3484 )
لہذا ۔۔۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو صرف رسول کہیے اور وہی تمام صفات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ منسوب کیجئے جن کا ذکر قرآن و حدیث میں آیا ہے ۔۔۔ مثلاََ رحمۃ للعالمین ، نذیر ، بشیر ، شافع ، ہادی ، اکرم ، مکرم ۔۔۔ وغیرہ ۔
لیکن اگر آپ خود کو عاشقِ رسول کہیں گے تو سامنے والا لازمی رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کو معشوق سمجھے گا ۔۔۔ اور یہ معشوق جیسا تیسرے درجے کا لفظ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ساتھ لگنا یا لگانا کسی بھی مسلمان کو کسی بھی صورت میں قبول نہیں ہے ۔
آخری بات یہ کہ
اکثریت اس حقیقت کو مانتی ہے کہ :
عشق وہ جذبہ ہے جو عقل و ہوش سے بےگانہ کر دیتا ہے ۔
اب اسی حقیقت پر ذرا ٹھنڈے دل سے سوچئے کہ
اللہ سے محبت اگر ہوش و حواس اور عقل سے بےگانہ ہو کر کی جائے تو پھر
اللہ کی عبادت کیسے کی جائے گی ؟ اللہ کے احکام پر عمل آوری کس طرح ہوگی ؟
رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی اطاعت کیسے کی جائے گی ؟ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی سنتوں پر کیسے عمل ہوگا؟
کیونکہ ۔۔۔ عبادت کرنے کے لیے ، احکامِ الٰہی پر عمل کرنے کے لیے ، سنتوں کو اپنانے کے لیے ۔۔۔ عقل اور ہوش و حواس کا ہونا بہت بہت ضروری ہے !!