• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

لفظ نجد کی دلالت (بحوالہ حدیث نجد)

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
بہرام نے یہ ثابت کرنا ہے کہ نجد کا لفظ احادیث میں صرف ایک علاقہ کے لئے بولا جاتا ہے پس انہوں نے کوئی ایسی حدیث پیش کرنی ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ نجد صرف ایک علاقے کا نام ہے
مگر اوپر کی حدیث یا بحث میں ایسی کوئی نص نہیں ملتی اگر بہرام اوپر کی حدیث سے یہ بات ثابت کر دے تو میں بحث چھوڑ دوں گا ورنہ شاکر بھائی سے گزارش ہے کہ یا تو اس طرح کی پوسٹیں ڈیلیٹ کریں یا پھر میری بحث سے معذرت ہے
یہ ہے آپ کے اس دھاگہ کی اولین پوسٹ کا اقتباس جس میں محل نزاع کی وضاحت اس طرح کی گئی ہے
محل نزاع

کیا صحابہ کے دور میں اور قرآن و حدیث میں نجد لفظ ہمیشہ صرف ایک خاص علاقے کے لئے بولا جاتا تھا
اس پر دور صحابہ نہیں بلکہ عہد نبویﷺ کی حدیث ہے پیش کی ہے جس میں انصار اور مہاجر صحابہ سعودی نجد میں رہنے والوں کو اہل نجد کہہ رہے ہیں اور پھر بھی اصح کتاب بعد کتاب اللہ میں درج یہ معنی آپ کے لئے نص نہیں یہ نہایت حیرت انگزیز بات ہے
اب ایک نیا مطالبہ کہ صرف نجد کو ہی نجد کہا جاتا تھا یہ ثابت کرنے فرمائش اور ان احادیث سے کیا ثابت ہورہا ہے یہی نا کہ اہل نجد سے مراد سعودی نجد میں رہنے والے ہی ہیں
آپ کی ان اداؤں پر بے اختیار عدم کا یہ شعرہی ذہین میں آتا ہے کہ
وہ باتیں تری وہ فسانے ترے
شگفتہ شگفتہ بہانے ترے
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
بہرام صاحب، آپ کی پیش کردہ دلیل سے یہ تو ثابت ہو گیا کہ سعودی نجد کو بھی نجد قرار دیا جاتا تھا۔ لیکن اس میں حصر کہیں نہیں ہے۔ یعنی یہ معلوم نہیں ہو رہا کہ فقط سعودی نجد کے رہنے والے ہی اہل نجد کہلائے جاتے تھے یا دیگر علاقے والوں کو بھی اہل نجد کہا جاتا تھا۔
آپ حصر کی کوئی دلیل رکھتے ہوں تو پیش فرمائیں۔ اور اپنی پوسٹس کو پھیلا پھیلا کر پیش کرنے کے بجائے ٹو دی پوائنٹ ایک وقت میں ایک بات کیجئے۔
تمام غیرمتعلقہ بحث اس دھاگے سے ڈیلیٹ کر دی گئی ہے جس میں آپ ، عبدہ اور ارشد کی پوسٹس شامل ہیں۔
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
پہلی بات تو میں نے اس دھاگہ میں صرف ایک دلیل دی جو نہ بہرام صاحب نگل سگتے ہیں اور نہ اگل سکتے ہیں اور جو خود بہرام صاحب کی ہی دلیل تھی
پس میرا یہ دعوی ہے کہ میری دلیل کے جواب دینے سے بہرام صاحب عاجز آ گئے ہیں
کیا یہ ٹھیک ہے بہرام صاحب
نہیں تو پہلے صرف میری دلیل کا جواب دے دو ورنہ مان لیں
ہاتھ کنگن کو آرسی کیا
میری ایک دلیل کیا سب پہ بھاری نہیں جیسے ایک زرداری سب پہ بھاری کا
بہرام کے دلائل کا رد انشاء اللہ اگلی پوسٹ میں
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
اب جو لوگ عراق کو نجد ثابت کرنا چاہتے ہیں ان کی خدمت میں اصح کتاب بعد کتاب اللہ کے ترجمہ داؤد راز کی گواہی کہ رسول اللہﷺ کے زمانے میں تو عراق تھا ہی نہیں
1 - وقَّتَ النبيُّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ قرنًا لأهلِ نجدٍ، والجُحفةَ لأهلِ الشأمِ، وذا الحُليفةَ لأهلِ المدينةِ . قال : سمعتُ هذا منَ النبيِّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ، وبلغني أنَّ النبيَّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ قال : ( ولأهلِ اليمنِ يلمْلمَ ) . وذكر العراقَ، فقال : لم يكن عراقٌ يومئذٍ .
ترجمہ داؤد راز
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل نجد کے لیے مقام قرن ' حجفہ کو اہل شام کے لیے اور ذوالحلیفہ کو اہل مدینہ کے لیے میقات مقرر کیا۔ بیان کیا کہ میں نے یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا اور مجھے معلوم ہوا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اہل یمن کے لیے یلملم (میقات) ہے اور عراق کا ذکر ہوا تو انہوں نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں عراق نہیں تھا۔

جب عراق تھا ہی نہیں تو پھر اس کو حدیث نجد کی بحث میں زیر بحث لانا کہاں کا انصاف ہے اور ساتھ ہی اہل نجد کے لئے میقات کا مقام قرن بتایا گیا ہے آج بھی جو لوگ ریاض اور اس کے گرد نواح سے حج کے لئے مکہ مکرمہ جاتے ہیں وہ احرام قرن کے مقام سے بندھتے ہیں اب اتنی واضح دلیل کو جو دلیل نہ مانے ان کی عقلوں پر ماتم نہ کیا جائے تا پھر کیا کیا جائے؟
اب اس روایت میں بیان کئے گئے معنی کو ذہین میں رکھتے ہوئے کہ
" آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں عراق نہیں تھا۔"
اب حدیث نجد کو ملاحظہ فرمائیں
- ذكَر النبيُّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم : ( اللهمَّ بارِكْ لنا في شامِنا ، اللهمَّ بارِكْ لنا في يَمَنِنا ) . قالوا : يا رسولَ اللهِ ، وفي نَجدِنا ؟ قال : ( اللهمَّ بارِكْ لنا في شامِنا ، اللهمَّ بارِكْ لنا في يَمَنِنا ) . قالوا : يا رسولَ اللهِ ، وفي نَجدِنا ؟ فأظنُّه قال في الثالثةِ : ( هناك الزلازِلُ والفِتَنُ ، وبها يَطلُعُ قرنُ الشيطانِ ) .
صحيح البخاري » كتاب الفتن » باب قول النبي صلى الله عليه وسلم الفتنة من قبل المشرق ، الصفحة أو الرقم: 7094
ترجمہ داؤد راز
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے اللہ! ہمارے ملک شام میں ہمیں برکت دے، ہمارے یمن میں ہمیں برکت دے۔ صحابہ نے عرض کیا اور ہمارے نجد میں؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا اے اللہ ہمارے شام میں برکت دے، ہمیں ہمارے یمن میں برکت دے۔ صحابہ نے عرض کی اور ہمارے نجد میں؟ میرا گمان ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری مرتبہ فرمایا وہاں زلزلے اور فتنے ہیں اور وہاں شیطان کا سینگ طلوع ہو گا۔

اس حدیث نبوی میں تین خطوں کا ذکر ہے
1۔ شام
2۔ یمن
3۔ نجد
شام اور یمن میں برکت کے لئے رسول اللہﷺ نے دعا فرمائی اور ان خطوں کے لئے کسی نے دعا کے لئے درخواست بھی نہیں کی رسول اللہﷺ نے اس حدیث میں صرف یمن فرمایا لیکن کچھ لوگ یمن کو بھی نجد یمن اور عراق کو نجد عراق کہتے ہیں یمن کو نجد یمن کہنا رسول اللہﷺ اس فرمان کے خلاف ہے کہ جب بھی رسول اللہ ﷺ نے خطہ یمن کا ذکر کیا ہمیشہ صرف یمن ہی فرمایا نہ کہ نجد یمن اور عراق اس بحث سے خارج ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے نہیں تھا
ایک طرف تو رسول اللہﷺ بغیر کسی کی درخواست کے شام اور یمن کے لئے دعا فرمارہے ہیں لیکن دوسری جانب رسول اللہﷺ عالمین کے لئے رحمت ہونے کے باوجود خطہ نجد کے لئے تکرار کے ساتھ کی گئی درخواست کے باوجود دعا نہیں فرماتے بلکہ فرماتے ہیں کہ " وہاں زلزلے اور فتنے ہیں اور وہاں شیطان کا سینگ طلوع ہو گا "
اس کے علاوہ صحیح بخاری کی احادیث کے مطابق شیطان کا سینگ طلوع ہونے کی سمت کی بھی رسول اللہﷺ نے نشاندہی فرمادی ہے
سمِعتُ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم يقولُ وهو على المِنبَرِ : ( ألا إنَّ الفِتنَةَ ها هنا - يُشيرُ إلى المَشرِقِ - من حيثُ يَطلُعُ قَرنُ الشيطانِ ) .
الراوي: عبدالله بن عمر المحدث: البخاري - المصدر: صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 3511
خلاصة حكم المحدث: [صحيح]

ترجمہ داؤد راز
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ منبر پر فرما رہے تھے، آگاہ ہو جاؤ اس طرف سے فساد پھوٹے گا۔ آپ نے مشرق کی طرف اشارہ کر کے یہ جملہ فرمایا، جدھر سے شیطان کا سینگ طلوع ہوتا ہے۔
یعنی منبر پر رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد ہے کہ شیطان کا سینگ مشرق کی جانب سے طلوع ہوگا اب منبر رسول ﷺ سے مشرق کی سمت کے تعین کے لئے صحیح بخاری کی اس حدیث سے مدد لیتے ہیں

- قام النبيُّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ خطيبًا ، فأشار نحو مسكنِ عائشةَ ، فقال : ( هنا الفتنةُ - ثلاثًا - من حيث يطلَعُ قرنُ الشيطانِ ) .
الراوي: عبدالله بن عمر المحدث: البخاري - المصدر: صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 3104
خلاصة حكم المحدث: [صحيح]

ترجمہ داؤد راز
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیتے ہوئے عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا کہ اسی طرف سے (یعنی مشرق کی طرف سے) فتنے برپا ہوں گے ' تین مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح فرمایا کہ یہیں سے شیطان کا سر نمودار ہو گا۔

یعنی منبر رسول ﷺ کے جس جانب امی عائشہ کا حجرہ تھا وہی سمت مشرق کی ہے اور جو لوگ رسول اللہﷺ کے روضہ اطہر کی حاضری سے فیض یاب ہوئے ہیں جانتے ہیں کہ موجودہ جغرافیہ جس سمت کو مشرقی سمت کہتا ہے وہی رسول اللہﷺ کا فرمان ہے اب جو لوگ رسول اللہﷺ کی تعین کی ہوئی مشرقی سمت کو نہ مانے اوراپنے نفس کی مانتے ہوئے ہزار حیلے بہانے کرے اس کو سمجھنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے
والسلام
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
پہلے آپ نے لأهلِ نجدٍ کا ترجمہ ہمارے نجد کرکے گمراہی پھیلانے کی کوشش کی کچھ اس طرح
بہرام صاحب میں آپ کے بارے میں حسن ظن رکھتا ہوں کہ آپ جاہل نہیں بلکہ آبائی خصوصیت کی وجہ سے تکتموا لحق کے مرتکب ہو رہے ہیں ورنہ آپ کو اصول فقہ کی دلالتوں کی قسموں کا اچھی طرح پتا ہو گا میں نے جو لاھل نجد کا ترجمہ ہمارے نجد والے کیا ہے وہ اسی حدیث میں نص سے ثابت ہے مگر وہ اقتضاء النص ہے جیسے حرمت علیکم امھتکم میں نکاح کو مقدر لینا لازمی ہے ورنہ مائیں ہمارے اوپر کسی اور حوالے سے حرام نہیں ہیں ایس طرح حرمت علیکم المیتۃ میں بھی لحم مقدر ہے اور ایسی نص کو اقتضاء النص کہتے ہیں
اب میں نے جو ہمارے اہل نجد کیا ہے وہ کسی تھوڑا سا بھی فقہ جاننے والے سے پوچھیں گے تو وہ بتا دے گا کہ یہاں ہمارے مقدر ہونا لازمی ہے اور اسی پر دلالت سمجھانے کے لئے میں نے گدھے والی مثال بھی لکھی تھی اگر میری یہ دلالت اقتضاء النص میں نہ آتی ہو تو میں بحث چھوڑ دوں گا
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
یہ ہے آپ کے اس دھاگہ کی اولین پوسٹ کا اقتباس جس میں محل نزاع کی وضاحت اس طرح کی گئی ہے
اس پر دور صحابہ نہیں بلکہ عہد نبویﷺ کی حدیث ہے پیش کی ہے جس میں انصار اور مہاجر صحابہ سعودی نجد میں رہنے والوں کو اہل نجد کہہ رہے ہیں اور پھر بھی اصح کتاب بعد کتاب اللہ میں درج یہ معنی آپ کے لئے نص نہیں یہ نہایت حیرت انگزیز بات ہے
اب ایک نیا مطالبہ کہ صرف نجد کو ہی نجد کہا جاتا تھا یہ ثابت کرنے فرمائش اور ان احادیث سے کیا ثابت ہورہا ہے یہی نا کہ اہل نجد سے مراد سعودی نجد میں رہنے والے ہی ہیں
آپ کی ان اداؤں پر بے اختیار عدم کا یہ شعرہی ذہین میں آتا ہے کہ
وہ باتیں تری وہ فسانے ترے
شگفتہ شگفتہ بہانے ترے
آپ نے جو دلائل دئے اس سے کیا یہ مطلب نکلتا ہے کہ
صرف رات ہی یوم کہلائی گی

میں نے ایک آیت پیش کی تھی کہ جس میں آپ یوم کا معنی صرف دن لے سکتے ہیں اپنے الفاظ دوبارہ کوٹ کرتا ہوں
سخرھا علیھم سبع لیال و ثمانیۃ ایام حسوما
یہاں یوم سے مراد صرف دن ہے
تو دوسری جگہ یہ ایسے آتا ہے
فتمتعوا فی دارکم ثلاثۃ ایام
پہلی آیت کو دیکھیں تو یوم کا معنی صرف دن کیا جا سکتا ہے رات نہیں کیا جا سکتا اور روزمرہ بول چال کے مطابق بھی یوم کا معنی صرف دن ہے
تو میرا بہرام صاحب سے سوال ہے کہ کیا اس ایک آیت میں یوم کا معنی صرف دن ثابت ہونے سے اور پھر عام معاشرے میں بھی اس سے مراد صرف دن لینے سے یہ کوئی دلیل لے سکتا ہے کہ جو دوسری آیت میں اس کا معنی دن اور رات دونوں آیا ہے وہ کتاب اللہ کے خلاف ہے اسلئے رد کیا جاتا ہے
بلاکل اسی طرح آپ ساری احادیث میں اپنی طرف سے نجد کا معنی صرف سعودی نجد ثابت کر دیں اور عام روزمرہ بول چال میں بھی اس سے مراد صرف سعودی نجد ثابت کر دیں پھر بھی میری پہلے دلیل کے مطابق اقتضاء النص سے عراق نجد ثابت ہوتا ہے اور مسلم والی حدیثوں سے عبارۃ النص سے عراق شیطان کے سینگ کے مصداق ٹھرتا ہے

نتیجہ:
آپ کی ایسی تمام دلیلیں جس میں نجد کو صرف سعودی نجد کہا گیا ہے وہ اس موضوع کے لئے قابل اعتبار نہیں پس اس میں ہمارا ٹائم ضائع نہ کریں بلکہ کوئی اور دلیل موضوع کو ثابت کرنے کے لئے پیش کریں
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
اب اس روایت میں بیان کئے گئے معنی کو ذہین میں رکھتے ہوئے کہ
" آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں عراق نہیں تھا۔"
اب حدیث نجد کو ملاحظہ فرمائیں
- ذكَر النبيُّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم : ( اللهمَّ بارِكْ لنا في شامِنا ، اللهمَّ بارِكْ لنا في يَمَنِنا ) . قالوا : يا رسولَ اللهِ ، وفي نَجدِنا ؟ قال : ( اللهمَّ بارِكْ لنا في شامِنا ، اللهمَّ بارِكْ لنا في يَمَنِنا ) . قالوا : يا رسولَ اللهِ ، وفي نَجدِنا ؟ فأظنُّه قال في الثالثةِ : ( هناك الزلازِلُ والفِتَنُ ، وبها يَطلُعُ قرنُ الشيطانِ ) .
صحيح البخاري » كتاب الفتن » باب قول النبي صلى الله عليه وسلم الفتنة من قبل المشرق ، الصفحة أو الرقم: 7094
ترجمہ داؤد راز
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے اللہ! ہمارے ملک شام میں ہمیں برکت دے، ہمارے یمن میں ہمیں برکت دے۔ صحابہ نے عرض کیا اور ہمارے نجد میں؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا اے اللہ ہمارے شام میں برکت دے، ہمیں ہمارے یمن میں برکت دے۔ صحابہ نے عرض کی اور ہمارے نجد میں؟ میرا گمان ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری مرتبہ فرمایا وہاں زلزلے اور فتنے ہیں اور وہاں شیطان کا سینگ طلوع ہو گا۔

اس حدیث نبوی میں تین خطوں کا ذکر ہے
1۔ شام
2۔ یمن
3۔ نجد
شام اور یمن میں برکت کے لئے رسول اللہﷺ نے دعا فرمائی اور ان خطوں کے لئے کسی نے دعا کے لئے درخواست بھی نہیں کی رسول اللہﷺ نے اس حدیث میں صرف یمن فرمایا لیکن کچھ لوگ یمن کو بھی نجد یمن اور عراق کو نجد عراق کہتے ہیں یمن کو نجد یمن کہنا رسول اللہﷺ اس فرمان کے خلاف ہے کہ جب بھی رسول اللہ ﷺ نے خطہ یمن کا ذکر کیا ہمیشہ صرف یمن ہی فرمایا نہ کہ نجد یمن اور عراق اس بحث سے خارج ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے نہیں تھا
ایک طرف تو رسول اللہﷺ بغیر کسی کی درخواست کے شام اور یمن کے لئے دعا فرمارہے ہیں لیکن دوسری جانب رسول اللہﷺ عالمین کے لئے رحمت ہونے کے باوجود خطہ نجد کے لئے تکرار کے ساتھ کی گئی درخواست کے باوجود دعا نہیں فرماتے بلکہ فرماتے ہیں کہ " وہاں زلزلے اور فتنے ہیں اور وہاں شیطان کا سینگ طلوع ہو گا "
اس کے علاوہ صحیح بخاری کی احادیث کے مطابق شیطان کا سینگ طلوع ہونے کی سمت کی بھی رسول اللہﷺ نے نشاندہی فرمادی ہے
سمِعتُ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم يقولُ وهو على المِنبَرِ : ( ألا إنَّ الفِتنَةَ ها هنا - يُشيرُ إلى المَشرِقِ - من حيثُ يَطلُعُ قَرنُ الشيطانِ ) .
الراوي: عبدالله بن عمر المحدث: البخاري - المصدر: صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 3511
خلاصة حكم المحدث: [صحيح]

ترجمہ داؤد راز
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ منبر پر فرما رہے تھے، آگاہ ہو جاؤ اس طرف سے فساد پھوٹے گا۔ آپ نے مشرق کی طرف اشارہ کر کے یہ جملہ فرمایا، جدھر سے شیطان کا سینگ طلوع ہوتا ہے۔
یعنی منبر پر رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد ہے کہ شیطان کا سینگ مشرق کی جانب سے طلوع ہوگا اب منبر رسول ﷺ سے مشرق کی سمت کے تعین کے لئے صحیح بخاری کی اس حدیث سے مدد لیتے ہیں

- قام النبيُّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ خطيبًا ، فأشار نحو مسكنِ عائشةَ ، فقال : ( هنا الفتنةُ - ثلاثًا - من حيث يطلَعُ قرنُ الشيطانِ ) .
الراوي: عبدالله بن عمر المحدث: البخاري - المصدر: صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 3104
خلاصة حكم المحدث: [صحيح]

ترجمہ داؤد راز
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیتے ہوئے عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا کہ اسی طرف سے (یعنی مشرق کی طرف سے) فتنے برپا ہوں گے ' تین مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح فرمایا کہ یہیں سے شیطان کا سر نمودار ہو گا۔

یعنی منبر رسول ﷺ کے جس جانب امی عائشہ کا حجرہ تھا وہی سمت مشرق کی ہے اور جو لوگ رسول اللہﷺ کے روضہ اطہر کی حاضری سے فیض یاب ہوئے ہیں جانتے ہیں کہ موجودہ جغرافیہ جس سمت کو مشرقی سمت کہتا ہے وہی رسول اللہﷺ کا فرمان ہے اب جو لوگ رسول اللہﷺ کی تعین کی ہوئی مشرقی سمت کو نہ مانے اوراپنے نفس کی مانتے ہوئے ہزار حیلے بہانے کرے اس کو سمجھنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے
والسلام
کوئی بہرام صاحب کو بتا دے کہ میں اس دھاگہ میں نہ تو یہ ثابت کر رہا ہوں کہ شیطان کے سینگ والی حدیث کون سے نجد کے بارے ہے اور نہ ہی کہ مدینہ کے مشرق میں کون سا نجد واقع ہے پس میں عرق کا نہ ہونے اور نجد عراق کا نہ ہونے کا میں جواب دے سکتا ہوں مگر یہ جگہ نہیں
میں نے اس نجد پر اس فورم پر بہت بحث دیکھی ہے پس میں نے سوچا کہ جب تک اس کو ایک منظم طریقے سے علیحدہ علیحدہ ٹکڑے کر کے نہیں چلائیں گے گول مول کرنے والوں سے بچنا ممکن نہیں پس میں نے اسکو چار حصوں میں تقسیم کیا ہے
1-کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں نجد صرف سعودی نجد تھا یا عراقی نجد بھی ہوتا تھا (اس کے لئے یہ دھاگہ ہے)
2-کیا مشرق سے مراد صرف سورج طلوع ہونے کہ جگہ ہی ہے یا کچھ اور بھی معنی ہو سکتا ہے (اسکے لئے بھی علیحدہ دھاگہ شروع کیا ہے)
3-ان دونوں دھاگوں کے فیصلے کے بعد شیطان کے سینگوں والی حدیث والا دھاگہ میں ان شاء اللہ شروع کروں گا مگر اس میں بنیاد انھہیں دو بحثوں کو بنایا جائے گا
4-شیطان کے سینگ کا اطلاق عراق یا سعودی نجد پر ثابت ہونے کر بعد یہ موضوع شروع کروں گا کہ کسی خطے پر شیطان کا سینگ کا اطلاق ثابت ہونے پر ہم اسکے اندر پیدا ہونے والے ہر آدمی کو مطلقا اسکا مصداق نہیں ٹھرا سکتے بلکہ اس کے لئے خارجی دلائل بھی چاہیئے ہوں گے پس نہ تو امام ابو حنیفہ پر اور نہ محمد بن عبد الوھاب پر ہم مطلقا اس کا حکم لگا سکتے ہیں
کیا تمام بھائی اس ترتیب سے اتفاق کرتے ہیں

خصوصا کیا محترم شاکر بھائی اس میں تعاون کریں گے اللہ جزا دے امین
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
پہلی بات تو میں نے اس دھاگہ میں صرف ایک دلیل دی جو نہ بہرام صاحب نگل سگتے ہیں اور نہ اگل سکتے ہیں اور جو خود بہرام صاحب کی ہی دلیل تھی
پس میرا یہ دعوی ہے کہ میری دلیل کے جواب دینے سے بہرام صاحب عاجز آ گئے ہیں
کیا یہ ٹھیک ہے بہرام صاحب
نہیں تو پہلے صرف میری دلیل کا جواب دے دو ورنہ مان لیں
ہاتھ کنگن کو آرسی کیا
میری ایک دلیل کیا سب پہ بھاری نہیں جیسے ایک زرداری سب پہ بھاری کا
بہرام کے دلائل کا رد انشاء اللہ اگلی پوسٹ میں
میں آپ سے پہلے بھی عرض کرچکا کہ آپ کسی اچھے ماہر امراض چشم سے رجوع فرمالیں کیوں آپ کو ضعف بصارت کی وجہ سے بہت کم نظر آتا ہے لگتا ہے آپ نے میری درخواست کو سنجیدگی سے نہیں لیا اللہ سے دعا ہے آپ کو صحت عطاء فرمائے آمین
آپ کی پہلی دلیل یہ ہے

میری پہلی دلیل
بہرام صاحب نے اپنی پوسٹ میں مندرجہ بالا احادیث ذکر کی تھیں جس میں دوسری حدیث کا انھوں نے ترجمہ نہیں کیا کیونکہ وہ ترجمہ بتاتا ہے کہ اہل عراق جب عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو اپنے آپ کو اہل نجد میں شمار کرتے ہوئے اپنے لئے اہل نجد والے مقام قرن کو متعین سمجھتے تھے مگر مشقت کی وجہ سے دوسرا مقام متعین کروانا چاہتے تھے یہ ہے اصح الکتاب بعد کتاب اللہ کی گواہی بہرام صاحب کی زبانی


کمزوری چشم کی بناء پر پہلی غلط فہمی

آپ کی اس پوسٹ میں جس حدیث کا تذکرہ ہے وہ میں نے ترجمہ کے ساتھ ہی پیش کی تھی مندرجہ ذیل لنک کی پوسٹ نمبر 13 میں
#mce_temp_url#

ضعف عقل کی بناء پر غلط فہمی
اہل عراق جب حضرت عمر کے پاس آئے تو انھوں یہ نہیں کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم اہل عراق اور اہل نجد کےلئے میقات قرن منازل مقرر فرمایا ہے بلکہ اگر عراق والوں کے اس قول پر غور کیا جائے تو اس سے یہ نتیجہ ظاہر ہوگا کہ اہل نجد کے لئے رسول اللہﷺ احرام باندھنے کی جگہ قرن منازل قرار دی ہے اور چونکہ ہم اہل عراق بھی جب تک نجد کو عبور نہ کریں ہم مکہ مکرمہ نہیں جاسکتے اور اگر ہم اہل نجد کے میقات یعنی قرن پر جاکر احرام باندھیں تو ہمیں قرن تک جانے میں دشواری ہوگی یعنی ایکسٹرا سفر کرنا پڑے گا اس لئے عراق والوں کے لئے حرام باندھنے کی جگہ حضرت عمر نے ذات عرق تعین کردی ۔
اور ان سب باتوں کا جواب جس دھاگہ سےآپ نے اپنی یہ پوسٹ کاپی پیسٹ کی وہاں عرض کرچکا ہوں لیکن کیا کریں آنکھوں کی بینائی کا کہ آپ کو نظر ہی نہیں آتی آپ کی سہولت کے لئے لنک پیش کئے دیتا ہوں
http://forum.mohaddis.com/threads/برائیوں-کی-جڑ-نجد-یا-عراق.8357/page-4#post-148851
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
1-کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں نجد صرف سعودی نجد تھا یا عراقی نجد بھی ہوتا تھا (اس کے لئے یہ دھاگہ ہے)
اس پر کوئی دلیل بھی عنایت فرمادیں کتاب اللہ اور اصح کتاب بعد کتاب اللہ سے کہ سعودی نجد کو نجد نہیں کہا جاتا تھا رسول اللہﷺ کے عہد میں
یا پھر یہ دلیل عنایت فرمادیں کہ عرب کے کسی اور خطے کو نجد کہا جاتا تھا لیکن یہ بات یاد رہے کہ ہم یہاں حدیث نجد کی بنیاد پر بات کر رہے ہیں اس لئے جب آپ یہ ثابت فرمائیں کہ نجد سے مراد سعودی نجد نہیں کوئی اور خطہ ہے تو ساتھ ہی یہ بھی ثابت کرنا پڑے گا کہ جن لوگ نے رسول اللہﷺ سے اپنے نجد کے لئے دعا کے کہا اور نبی اللہﷺ نے دعا نہیں فرمائی وہ لوگ یا آپ جس خطے کو نجد ثابت کرنا چاہتے ہیں وہاں کے لوگ بارگاہ نبوی ﷺ میں حاضر ہوئے تھے
لیکن سعودی نجد کو ہی احادیث میں بیان کردہ نجد ثابت کروں تو اس کا ذمہ مجھ پر ہے کہ میں سعودی نجد میں رہنے والے لوگوں کی بارگاہ رسالت میں حاضری کو ثابت کروں
چونکہ یہ دھاگہ آپ نے شروع کیا ہے اس لئے پہلے آپ دلیل دیں آپ کی دی ہوئی پہلی دلیل میں اہل عراق کو زبر دستی اہل نجد مانے پر زور دیا گیا ہے اس لئے پہلے آپ یہ ثابت فرمائیں کہ اہل عراق سے کبھی کچھ لوگ رسول اللہﷺ کے دربار میں حاضر ہوئے تھے اور انھوں نے ہی رسول اللہﷺ سے اپنے نجد کے لئے دعا کے لئے کہا اور رسول اللہ ﷺ نے دعا نہیں فرمائی
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
ضعف عقل کی بناء پر غلط فہمی
اہل عراق جب حضرت عمر کے پاس آئے تو انھوں یہ نہیں کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم اہل عراق اور اہل نجد کےلئے میقات قرن منازل مقرر فرمایا ہے بلکہ اگر عراق والوں کے اس قول پر غور کیا جائے------
http://forum.mohaddis.com/threads/برائیوں-کی-جڑ-نجد-یا-عراق.8357/page-4#post-148851
آپ سے گزارش ہے کہ عراقیوں کے قول پر اور میری گدھے والی مثال پر ملا کر غور کریں اور میرے خیال میں آپ غور کر سکتے ہیں کیونکہ گدھے والی مثال صرف مثال تک ہی ہے سمجھانے کے لئے-
میں دوبارہ اکٹھی سمجھاتا ہوں پہلے گدھے والی مثال کو دیکھتے ہیں
1-شاکر کا حکم
گدھے اس فورم پر روزانہ ایک پوسٹ کر سکتے ہیں

2-حکم کے مکلف یعنی محکوم علیہ
تمام گدھے

3-حکم کے بعد بہرام صاحب کا قول
بہرام صاحب ممبران کو کہتے ہیں کہ شاکر صاحب نے گدھوں کے لئے روزانہ ایک پوسٹ کی حد رکھی ہے اس حکم سے مجھے بات سمجھانے میں مشکل ہو گی

4-بہرام صاحب کے قول کا نتیجہ
ایک اور دو اور تین کو ملا کر دیکھا جائے تو خود بخود یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ------------- انتہائی معذرت مگر سمجھانے کے لئے مجھے کوئی مثال نہیں ملی

اسی طرح اب عراقیوں کے نجد کے قول کو لیتے ہیں

1-محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم
نجد کے لئے احرام کا مقام قرن ہے
2-حکم کے مکلف یعنی محکوم علیہ
تمام نجدی
3-حکم کے بعد عراقیوں کا قول
عراقی عمر رضی اللہ عنہ کو کہتے ہیں اللہ کے نبی نے نجد کے لئے قرن مقام متعین کیا ہے مگر اس حکم سے ہمیں مشکل ہو گی
4-عراقیوں کے قول کا نتیجہ
ایک اور دو اور تین کو ملا کر دیکھا جائے تو خود بخود یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ عراقی بھی نجدی ہیں
فاعتبروا یا اولی الابصار
نوٹ:ویسے میں نے رات کو دو دن کے لئے گاؤں جانا ہے اگر وہاں نیٹ نہ ملا تو بعد میں بات ہوگی
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top