محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,785
- پوائنٹ
- 1,069
لفظ وہابی کے بارے
لفظ وہابی کے بارےمیں انگریزوں اور نواب صاحب کی ایک سوچ
ملحوظ رہے کہ نواب صاحب نے وہابی کا لفظ د"لڑنے والوںد" کے لئے اس معنی میں استعمال کیا ہے جس معنی میں انگریز اسے مجاہدین پرلانا چاہتے تھے اور اپنے لئے ان سے متمائز نام د"موحدین ہندد" اختیار کیا ہے؛ نیزاس میں یہ بھی اشارہ ہے کہ یہ جماعت صرف ہندوستان میں ہے اور ہندوستان سے باہر ان دنوں ترکِ تقلید کے عنوان سے کوئی مکتبِ فکرموجود نہ تھا، لفٹینٹ گورنرنے جب یہ درخواست منظور کرلی کہ غیرمقلدین کووہابی نہ کہا جائے تواس میں صراحت کی کہ یہ لوگ وہابیان ملک ہزارہ (مولانا اسماعیل شہید وغیرہم) سے نفرت رکھتے ہیں؛ چنانچہ نواب صاحب لکھتے ہیں:
د"چنانچہ لفٹینٹ گورنرصاحب بہادر موصوف نے اس درخواست کومنظور کیا اورپھرایک اشتہار اس مضمون کا دیا گیا کہ موحدینِ ہند پرشبہ بدخواہی گورنمنٹ عامہ نہ ہو، خصوصاً جولوگ کہ وہابیانِ ملک ہزارہ سے نفرت رکھتے ہوں اور گورنمنٹ ہند کے خیرخواہ ہیں ایسے موحدین مخاطب بہ وہابی نہ ہود"۔
(ترجمانِ وہابیہ:۶۲)
موحدینِ ہند اس وقت تک صرف اس درجہ تک پہنچے تھے کہ لفظ وہابی اُن پرنہ بولا جائے اور مولانا اسماعیل شہیدؒ سے ان کا کوئی تعلق ظاہر نہ ہو؛ لیکن ابھی تک یہ مرحلہ باقی تھا کہ حکومت سے اپنے لئے سرکاری سطح پر لفظ اہلِ حدیث خاص کرالیا جائے اور لفظ وہابی سرکاری طور پر بھی کاغذات سے نکال دیا جائے، یہ خدمت مولانا محمدحسین صاحب بٹالوی نے سرانجام دی۔
نواب صاحب کی جماعتی فکر
ترکِ تقلید کی فضا ہموی محل شبہ میں نہ تھی۔
موحدین ہند کی علمی اور عملی حالت
نواب صاحب کے عہد میں غیرمقلدین اہلحدیث کے نام سے موسوم نہ تھے، ترکِ تقلید کی فضا خاصی معروف ہوچکی تھی اور یہ لوگ موحدینِ ہند کہلاتے تھے، یہ لوگ کس علمی اور عملی حالت میں تھے، اسے خود نواب صاحب سے سنیئے:
د"یہ لوگ معاملات کے مسائل میں حدیث کی سمجھ اور بوجھ سے بالکل عاری ہیں اور اہلِ سنت کے طریق پر ایک مسئلہ بھی استنباط نہیں کرسکتے، حدیث پرعمل کرنے کی بجائے زبانی جمع وخرچ اور سنت کی اتباع کی جگہ شیطانی تسویلات پراکتفا کرتے ہیں اور اس کوعین دین تصور کرتے ہیںد"۔
(الحطہ:۱۵۱)
نواب صاحب نے معاملات کی قید اس لئے لگائی ہے کہ عبادات میں ان لوگوں نے آمین بالجہر اور رفع الیدین وغیرہ کی کچھ روایات ضروریاد کی ہوتی ہیں، سواس سے یہ نہ سمجھا جائے کہ یہ لوگ فنِ حدیث سے کچھ آشنا ہیں، نواب صاحب عبادات میں بھی ان غیرمقلدین سے چنداں موافق نہ تھے، آپ کے صاحبزادہ حسن علی لکھتے ہیں:
د"آپ حنفی نماز کوہمیشہ اقرب الی السنۃ فرماتے رہتے تھےد"۔
(مأثرصدیقی:۱/۳)
پیش نظر رہے کہ عبدالحق بنارسی اور میاں نذیر حسین صاحب کے دور تک یہ حضرات اہلحدیث (اصطلاحِ جدید) میں معروف نہ تھے نہ اس وقت تک یہ اصطلاح باضابطہ طور پرقائم ہوئی تھی، ابھی یہ حضرات ترکِ تقلید کے نام سے پہچانے جاتے تھے، یاموحدین ہند کے نام سے ؟۔
مولانا محمدحسین صاحب بٹالوی
مولانا بٹالوی سنہ۱۲۵۲ھ میں پیدا ہوئے، آپ اور نواب صدیق حسن خاں صاحب ہم اُستاد تھے، مولانا بٹالوی کے استاد بھی مفتی صدرالدین صاحب دہلوی تھے، آپ نے حدیث میاں نذیرحسین صاحب دہلوی سے پڑھی، آپ مولانا عبدالمجید صاحب سوہدروی کا یہ بیان پہلے سن آئے ہیں:
د"لفظ وہابی آپ ہی کی کوششوں سے سرکاری دفاتر اورکاغذات سے منسوخ ہوا اور جماعت کواہلحدیث کے نام سے موسوم کیا گیاد"۔
(مآثرصدیقی:۱/۳)
یہیں سے جماعت اہل حدیث ایک مستقل مکتبِ فکر کے طور پراُبھرتی ہے، یہ صحیح ہے کہ اس فرقے کا مولدومسکن ہندوستان سے باہر کہیں نہیں ملتا؛ یہی وجہ ہے کہ یہ حضرات اہلِ حدیث کہلانے سے پہلے موحدین ہند کہلاتے تھے؛ تاہم یہ ضرور ہے کہ ان دنوں یہ فرقہ اہلِ حدیث کے عنوان سے مشہور نہ تھا اور اس کے تمام علماءتقریباًانہی بزرگوں کے شاگرد اور شاگرد درشاگردہیں جنھیں جماعت کے موسسین کے طور پر ہم ذکر کرآئے ہیں، مولانا حافظ عبدالمنان وزیرآبادی، مولانا سلامت اللہ جیراجپوری، مولانا عبدالوہاب ملتانی (بانی فرقہ امامیہ اہلِ حدیث) اور حافظ محمدلکھوی، حاظ غلام رسول قلعہ یہان سنگھ والے سب میاں نذیر حسین صاحب دہلوی کے ہی شاگرد تھے؛ البتہ غزنی سے چند ایسے اور بزرگ ضرور تشریف لائے جواسمکتبِ فکر میں نئے شامل ہوئے اور پھراپنی محنت وخدمت سے پنجاب میں ایک ممتاز گروہ بن کراُبھرے، یہ گروہ غزنوی نام سے معروف ہے۔
مولانا عبداللہ غزنوی میاں صاحب سے حدیث پڑھ کرواپس غزنی چلے گئے، وہاں مسلمانوں کوترکِ تقلید کی دعوت دی، ان کی یہ تحریک وہاں مسلمانوں کی وحدتِ ملی کوتوڑنے کاموجب سمجھی گئی اور اندیشہ پیدا ہوا کہ کہیں اس کے پیچھے انگریزوں کی افغانستان پرقبضہ کرنے کی سازش کارفرما نہ ہو اس پرحکومتِ افغانستان نے انہیں ملک سے نکال دیا اور یہ حضرات ہندوستان آگئے، ہندوستان میں ان دنوں مولانا محمدحسین بٹالوی غیرمقلدین کے مذہبی ایڈوکیٹ تھے، آپ جہاد کے خلاف رسالہ د"الاقتصادد" لکھ کرانگریزوں کومطمئن کرچکے تھے اور پھرانہیں سرکارِانگلشیہ سے ایک وسیع جاگیر بھی ملی تھی؛ سوہندوستان میں غیرمقلد ہوکر رہنا اب ان حضرات کے لئے چنداں مشکل نہ تھا؛ یہاں کے غیرمقلدوں نے ان علمائے غزنی کا بڑے تپاک سے استقبال کیا۔
پنجاب میں غزنوی علماء کی آمد
مولانا محمدحسین صاحب بٹالوی کے عہد میں پنجاب میں غزنوی علماء کی آمدہوئی، حضرت مولانا عبداللہ غزنوی افغانستان سے جلاوطن ہوئے تھے، ان حضرات کارحجان ترکِ تقلید کی طرف تھا، انہیں یہاں بنابنایا میدان مل گیا، ہندوستان کے دیگر اہلِ حدیث حضرات سے اُن کا ایک موضوع میں اختلاف رہا، یہ حضرات تصوف اور بیعت وسلوک کے قائل تھے، مولانا عبدالجبار غزنوی نے د"اثبات الالہام والبیعۃد" کے نام سے اس موضوع پرایک کتاب بھی لکھی، مولانا عبداللہ غزنوی کے دوبیٹے مولانا عبدالجبار اور مولانا عبدالواحد تھے، مولانا عبدالجبار کے بیٹے مولانا داؤد غزنوی اور مولانا عبدالغفار تھے، مولانا عبدالواحد کی اولاد میں سے مولانا اسماعیل غزنوی اپنے حلقے میں معروف ہوئے، مولانا اسماعیل غزنوی سعودی عرب کے ملک عبدالعزیز بن آلِ سعود کے وزیر رہے ہیں، آپ کے واسطہ سے سعودی عرب کے اور نجد کے علماء اور موحدینِ ہند کے مابین خاصے تعلقات قائم ہوگئے؛ یہاں تک کہ اس مناسبت سے پھرسے لفظ وہابی موحدین ہند پرآگیا، اب یہ لوگ لفظ وہابی سے زیادہ گریز نہ کرتے تھے؛ کیونکہ سعودی تعلقات سے ان کی ایک نسبت آلِ شیخ سے قائم ہوچکی تھی؛ سولفظ وہابی یہاں اور قوت پکڑگیا اِس دور میں غزنوی حضرات جماعت میں اپنی محنت وخدمت سے ایک ممتاز گروہ بن کراُبھرےاور ایک دور تک جماعتِ اہلِ حدیث کی قیادت ان کے ہاتھ میں رہی۔
مولانا ثناء اللہ صاحب امرتسری
مولانا ثناء اللہ صاحب امرتسری علماء دیوبند اور جماعت اہلِ حدیث کے مابین ایک نقطۂ اتصال تھے، آپ دارالعلوم دیوبند کے فاضل تھے؛ مگرمسلک ترکِ تقلید کا ہی رہا؛ تاہم آخر دم تک علماء دیوبند سے بہت قریب کا تعلق رہا، غیرمقلدین میں سے آپ نے مولانا حافظ عبدالمنان وزیرآبادی سے حدیث پڑھی، مولانا محمدحسین صاحب بٹالوی کے بھی شاگرد تھے، ملک کی سیاسی جدوجہد میں بارہا علماء دیوبند کے ساتھ شریک ہوئے اور فرقہ باطلہ کے رد میں بھی علماء دیوبند کے شانہ بشانہ کام کیا، انگریزوں کی ڈائری میں تحریک ریشمی رومال کے ذیل میں لکھا ہے:
د"جنود ربانیہ کی فہرست میں میجر جنرل ہے یہی شخص مولوی ثناء اللہ امرتسری ہے انجمن اہلِ حدیث پنجاب کا صدر ہے، ہندوستان میں شاید سب سے ممتاز وہابی ہے، امرتسر سے شائع ہونے والے ہفت روزہ اردو اخبار اہلِ حدیث کومرتب کرتا ہے،مولوی ثناء اللہ امرتسری مولانا محمود الحسن کا شاگرد ہے اور شاید بیس پچیس برس گزرے ان سے حدیث پڑھی تھید"۔
(تحریک ریشمی رومال د"انگریزوں کی اپنی ڈائرید")
اس سے پتہ چلتا ہے کہ انگریز اب پھر سے لفظ وہابی ان حضرات کے لئے واپس لارہے تھے، نواب صدیق حسن خان صاحب اور مولانا محمدحسین صاحب بٹالوی نے جب رسالہ د"تنسیخِ جہادد" پردستخط کیئے اور وہابیانِ ہزارہ سے نفرت کا اظہار کیا تھا تولفظ وہابی ان موحدینِ ہند سے اُٹھا لیا گیا تھا اور جونہی ان میں سے کسی نے مولانا محمود الحسن سے نسبت ظاہر کردی توپھراُسے وہابی قرار دیا جانے لگا، انگریزی سیاست کے اس مدوجزر میں معلوم نہیں کتنے لوگ ڈوبے ہوں گے۔
مولانا محمدابراہیم صاحب سیالکوٹی
آپ مولانا غلام حسن صاحب سیالکوٹی (شاگرد نواب صدیق حسن صاحب) اور حافظ عبدالمنان صاحب وزیرآبادی کے شاگرد تھے، مولانا ثناء اللہ صاحب امرتسری سے گہرے تعلق کی بناء پریہ بھی علماء دیوبند کے بہت قریب ہوگئے تھے؛ یہاں تک کہ آپ کے بارے میں انگریزوں کی ڈائری میں یہ الفاظ ملتے ہیں:
د"پسرمستری قادر بخش سکنہ سیالکوٹد"۔
مشہور اور نہایت بااثراور متعصب وہابی مبلغ، ہندوستان میں سفر کرتا رہتا ہے اور وہابیوں کے جلسوں میں اور دوسرے فرقوں سے مناظروں کے دوران نہایت پرجوش تقریریں کرتا ہے، اس لئے اس کی ہروقت مانگ رہتی ہے، ظفرعلی کاکٹرحامی ہے اور ثناء اللہ امرتسری کا ساتھی اور مولوی عبدالرحیم عرف بشیر احمد اور عبداللہ پشاوری کتب فروش کا ساتھی ہے۔
(تحریک ریشمی رومال د"انگریزوں کی اپنی ڈائرید")
مولانا وحید الزماں حیدرآبادی، المتوفی: سنہ۱۳۳۸ھ م سنہ۱۹۲۰ء
کتبِ حدیث کے اردو تراجم اور وحید اللغات لکھنے کے باعث آپ فرقہ اہلِ حدیث میں سب سے بڑے مصنف سمجھے جاتے ہیں، نواب صدیق خان کے بعد اس باب میں انہی کا نام ہے، پہلے نواب صاحب نے آپ کوتراجم کے لیے تنخواہ پرملازم رکھا، آپ کے دور میں مولوی شمس الحق عظیم آبادی، مولوی محمدحسین صاحب بٹالوی، مولوی عبداللہ غازی پوری ہولوی فقہ اللہ صاحب پنجابی غیرمقلدین کی نمایاں شخصیتیں تھے، مولانا ثناء اللہ صاحب امرتسری بھی خاصے معروف ہوچکے تھے۔
آپ نے میاں نذیر حسین صاحب سے حدیث پڑھی، غیرمقلد ہونے کے بعد شیعیت کی طرف خاصے مائل ہوگئے، آپ کی کتاب ہدیۃ المہدی آپ کے انہی خیالات کی ترجمان ہے، مجھ کومیرے ایک دوست نے لکھا کہ جب سے تم کتاب د"ہدیۃ المہدید" تالیف کی ہے تواہلِ حدیث کا ایک بڑا گروپـــــ تم سے بددل ہوگئے ہیں اور عامہ اہلِ حدیث کا اعتقاد تم سے جاتا رہا ہے۔(وحیداللغات مادہ شر)
آپ فخرالدین الطویحی شیعی (۱۰۸۵ھ) کی کتاب مطلع نیرین اور مجمع البحرین سے خاصے متأثر تھے، وحیداللغات کی اس قسم کی عبارات انہی خیالات کی تائید کرتی ہیں، شیخین رضی اللہ عنہ کواکثر اہلِ سنت حضرت علیؓ سے افضل کہتے ہیں اور مجھ کواس امر پربھی کوئی قطعی دلیل نہیں ملتی، نہ یہ مسئلہ کچھ اصولِ دین اور ارکانِ دین سے ہے، زبردستی اس کومتکلمین نے عقائد میں داخل کردیا ہے۔(مادہ عثم)
حضرت علیؓ اپنے تئیں سب سے زیادہ خلافت کا مستحق جانتے تھے اور ہے بھی یہی۔(مادہ عجز)
حضرت امیرمعاویہؓ کے بارے میں لکھتے ہیں: ان کی نسبت کلماتِ تعظیم مثل حضرت ورضی اللہ عنہ سخت دلیری اور بیباکی ہے۔(مادہ عجز)
پھرمحرم کے بارے میں رقمطراز ہیں:یہ مہینہ خوشی کا نہیں رہا ـــــ محرم کا مہینہ شہادت کی وجہ سے غم کا ہے۔(مادہ عود:۱/۵، طبع: بنگلور)
محمداشرف یوسف صاحب تحقیق کر لیا کرے :لفظ وہابی کے بارے
لفظ وہابی کے بارےمیں انگریزوں اور نواب صاحب کی ایک سوچ
ملحوظ رہے کہ نواب صاحب نے وہابی کا لفظ د"لڑنے والوںد" کے لئے اس معنی میں استعمال کیا ہے جس معنی میں انگریز اسے مجاہدین پرلانا چاہتے تھے اور اپنے لئے ان سے متمائز نام د"موحدین ہندد" اختیار کیا ہے؛ نیزاس میں یہ بھی اشارہ ہے کہ یہ جماعت صرف ہندوستان میں ہے اور ہندوستان سے باہر ان دنوں ترکِ تقلید کے عنوان سے کوئی مکتبِ فکرموجود نہ تھا، لفٹینٹ گورنرنے جب یہ درخواست منظور کرلی کہ غیرمقلدین کووہابی نہ کہا جائے تواس میں صراحت کی کہ یہ لوگ وہابیان ملک ہزارہ (مولانا اسماعیل شہید وغیرہم) سے نفرت رکھتے ہیں؛ چنانچہ نواب صاحب لکھتے ہیں:
د"چنانچہ لفٹینٹ گورنرصاحب بہادر موصوف نے اس درخواست کومنظور کیا اورپھرایک اشتہار اس مضمون کا دیا گیا کہ موحدینِ ہند پرشبہ بدخواہی گورنمنٹ عامہ نہ ہو، خصوصاً جولوگ کہ وہابیانِ ملک ہزارہ سے نفرت رکھتے ہوں اور گورنمنٹ ہند کے خیرخواہ ہیں ایسے موحدین مخاطب بہ وہابی نہ ہود"۔
(ترجمانِ وہابیہ:۶۲)
موحدینِ ہند اس وقت تک صرف اس درجہ تک پہنچے تھے کہ لفظ وہابی اُن پرنہ بولا جائے اور مولانا اسماعیل شہیدؒ سے ان کا کوئی تعلق ظاہر نہ ہو؛ لیکن ابھی تک یہ مرحلہ باقی تھا کہ حکومت سے اپنے لئے سرکاری سطح پر لفظ اہلِ حدیث خاص کرالیا جائے اور لفظ وہابی سرکاری طور پر بھی کاغذات سے نکال دیا جائے، یہ خدمت مولانا محمدحسین صاحب بٹالوی نے سرانجام دی۔
نواب صاحب کی جماعتی فکر
ترکِ تقلید کی فضا ہموی محل شبہ میں نہ تھی۔
موحدین ہند کی علمی اور عملی حالت
نواب صاحب کے عہد میں غیرمقلدین اہلحدیث کے نام سے موسوم نہ تھے، ترکِ تقلید کی فضا خاصی معروف ہوچکی تھی اور یہ لوگ موحدینِ ہند کہلاتے تھے، یہ لوگ کس علمی اور عملی حالت میں تھے، اسے خود نواب صاحب سے سنیئے:
د"یہ لوگ معاملات کے مسائل میں حدیث کی سمجھ اور بوجھ سے بالکل عاری ہیں اور اہلِ سنت کے طریق پر ایک مسئلہ بھی استنباط نہیں کرسکتے، حدیث پرعمل کرنے کی بجائے زبانی جمع وخرچ اور سنت کی اتباع کی جگہ شیطانی تسویلات پراکتفا کرتے ہیں اور اس کوعین دین تصور کرتے ہیںد"۔
(الحطہ:۱۵۱)
نواب صاحب نے معاملات کی قید اس لئے لگائی ہے کہ عبادات میں ان لوگوں نے آمین بالجہر اور رفع الیدین وغیرہ کی کچھ روایات ضروریاد کی ہوتی ہیں، سواس سے یہ نہ سمجھا جائے کہ یہ لوگ فنِ حدیث سے کچھ آشنا ہیں، نواب صاحب عبادات میں بھی ان غیرمقلدین سے چنداں موافق نہ تھے، آپ کے صاحبزادہ حسن علی لکھتے ہیں:
د"آپ حنفی نماز کوہمیشہ اقرب الی السنۃ فرماتے رہتے تھےد"۔
(مأثرصدیقی:۱/۳)
پیش نظر رہے کہ عبدالحق بنارسی اور میاں نذیر حسین صاحب کے دور تک یہ حضرات اہلحدیث (اصطلاحِ جدید) میں معروف نہ تھے نہ اس وقت تک یہ اصطلاح باضابطہ طور پرقائم ہوئی تھی، ابھی یہ حضرات ترکِ تقلید کے نام سے پہچانے جاتے تھے، یاموحدین ہند کے نام سے ؟۔
مولانا محمدحسین صاحب بٹالوی
مولانا بٹالوی سنہ۱۲۵۲ھ میں پیدا ہوئے، آپ اور نواب صدیق حسن خاں صاحب ہم اُستاد تھے، مولانا بٹالوی کے استاد بھی مفتی صدرالدین صاحب دہلوی تھے، آپ نے حدیث میاں نذیرحسین صاحب دہلوی سے پڑھی، آپ مولانا عبدالمجید صاحب سوہدروی کا یہ بیان پہلے سن آئے ہیں:
د"لفظ وہابی آپ ہی کی کوششوں سے سرکاری دفاتر اورکاغذات سے منسوخ ہوا اور جماعت کواہلحدیث کے نام سے موسوم کیا گیاد"۔
(مآثرصدیقی:۱/۳)
یہیں سے جماعت اہل حدیث ایک مستقل مکتبِ فکر کے طور پراُبھرتی ہے، یہ صحیح ہے کہ اس فرقے کا مولدومسکن ہندوستان سے باہر کہیں نہیں ملتا؛ یہی وجہ ہے کہ یہ حضرات اہلِ حدیث کہلانے سے پہلے موحدین ہند کہلاتے تھے؛ تاہم یہ ضرور ہے کہ ان دنوں یہ فرقہ اہلِ حدیث کے عنوان سے مشہور نہ تھا اور اس کے تمام علماءتقریباًانہی بزرگوں کے شاگرد اور شاگرد درشاگردہیں جنھیں جماعت کے موسسین کے طور پر ہم ذکر کرآئے ہیں، مولانا حافظ عبدالمنان وزیرآبادی، مولانا سلامت اللہ جیراجپوری، مولانا عبدالوہاب ملتانی (بانی فرقہ امامیہ اہلِ حدیث) اور حافظ محمدلکھوی، حاظ غلام رسول قلعہ یہان سنگھ والے سب میاں نذیر حسین صاحب دہلوی کے ہی شاگرد تھے؛ البتہ غزنی سے چند ایسے اور بزرگ ضرور تشریف لائے جواسمکتبِ فکر میں نئے شامل ہوئے اور پھراپنی محنت وخدمت سے پنجاب میں ایک ممتاز گروہ بن کراُبھرے، یہ گروہ غزنوی نام سے معروف ہے۔
مولانا عبداللہ غزنوی میاں صاحب سے حدیث پڑھ کرواپس غزنی چلے گئے، وہاں مسلمانوں کوترکِ تقلید کی دعوت دی، ان کی یہ تحریک وہاں مسلمانوں کی وحدتِ ملی کوتوڑنے کاموجب سمجھی گئی اور اندیشہ پیدا ہوا کہ کہیں اس کے پیچھے انگریزوں کی افغانستان پرقبضہ کرنے کی سازش کارفرما نہ ہو اس پرحکومتِ افغانستان نے انہیں ملک سے نکال دیا اور یہ حضرات ہندوستان آگئے، ہندوستان میں ان دنوں مولانا محمدحسین بٹالوی غیرمقلدین کے مذہبی ایڈوکیٹ تھے، آپ جہاد کے خلاف رسالہ د"الاقتصادد" لکھ کرانگریزوں کومطمئن کرچکے تھے اور پھرانہیں سرکارِانگلشیہ سے ایک وسیع جاگیر بھی ملی تھی؛ سوہندوستان میں غیرمقلد ہوکر رہنا اب ان حضرات کے لئے چنداں مشکل نہ تھا؛ یہاں کے غیرمقلدوں نے ان علمائے غزنی کا بڑے تپاک سے استقبال کیا۔
پنجاب میں غزنوی علماء کی آمد
مولانا محمدحسین صاحب بٹالوی کے عہد میں پنجاب میں غزنوی علماء کی آمدہوئی، حضرت مولانا عبداللہ غزنوی افغانستان سے جلاوطن ہوئے تھے، ان حضرات کارحجان ترکِ تقلید کی طرف تھا، انہیں یہاں بنابنایا میدان مل گیا، ہندوستان کے دیگر اہلِ حدیث حضرات سے اُن کا ایک موضوع میں اختلاف رہا، یہ حضرات تصوف اور بیعت وسلوک کے قائل تھے، مولانا عبدالجبار غزنوی نے د"اثبات الالہام والبیعۃد" کے نام سے اس موضوع پرایک کتاب بھی لکھی، مولانا عبداللہ غزنوی کے دوبیٹے مولانا عبدالجبار اور مولانا عبدالواحد تھے، مولانا عبدالجبار کے بیٹے مولانا داؤد غزنوی اور مولانا عبدالغفار تھے، مولانا عبدالواحد کی اولاد میں سے مولانا اسماعیل غزنوی اپنے حلقے میں معروف ہوئے، مولانا اسماعیل غزنوی سعودی عرب کے ملک عبدالعزیز بن آلِ سعود کے وزیر رہے ہیں، آپ کے واسطہ سے سعودی عرب کے اور نجد کے علماء اور موحدینِ ہند کے مابین خاصے تعلقات قائم ہوگئے؛ یہاں تک کہ اس مناسبت سے پھرسے لفظ وہابی موحدین ہند پرآگیا، اب یہ لوگ لفظ وہابی سے زیادہ گریز نہ کرتے تھے؛ کیونکہ سعودی تعلقات سے ان کی ایک نسبت آلِ شیخ سے قائم ہوچکی تھی؛ سولفظ وہابی یہاں اور قوت پکڑگیا اِس دور میں غزنوی حضرات جماعت میں اپنی محنت وخدمت سے ایک ممتاز گروہ بن کراُبھرےاور ایک دور تک جماعتِ اہلِ حدیث کی قیادت ان کے ہاتھ میں رہی۔
مولانا ثناء اللہ صاحب امرتسری
مولانا ثناء اللہ صاحب امرتسری علماء دیوبند اور جماعت اہلِ حدیث کے مابین ایک نقطۂ اتصال تھے، آپ دارالعلوم دیوبند کے فاضل تھے؛ مگرمسلک ترکِ تقلید کا ہی رہا؛ تاہم آخر دم تک علماء دیوبند سے بہت قریب کا تعلق رہا، غیرمقلدین میں سے آپ نے مولانا حافظ عبدالمنان وزیرآبادی سے حدیث پڑھی، مولانا محمدحسین صاحب بٹالوی کے بھی شاگرد تھے، ملک کی سیاسی جدوجہد میں بارہا علماء دیوبند کے ساتھ شریک ہوئے اور فرقہ باطلہ کے رد میں بھی علماء دیوبند کے شانہ بشانہ کام کیا، انگریزوں کی ڈائری میں تحریک ریشمی رومال کے ذیل میں لکھا ہے:
د"جنود ربانیہ کی فہرست میں میجر جنرل ہے یہی شخص مولوی ثناء اللہ امرتسری ہے انجمن اہلِ حدیث پنجاب کا صدر ہے، ہندوستان میں شاید سب سے ممتاز وہابی ہے، امرتسر سے شائع ہونے والے ہفت روزہ اردو اخبار اہلِ حدیث کومرتب کرتا ہے،مولوی ثناء اللہ امرتسری مولانا محمود الحسن کا شاگرد ہے اور شاید بیس پچیس برس گزرے ان سے حدیث پڑھی تھید"۔
(تحریک ریشمی رومال د"انگریزوں کی اپنی ڈائرید")
اس سے پتہ چلتا ہے کہ انگریز اب پھر سے لفظ وہابی ان حضرات کے لئے واپس لارہے تھے، نواب صدیق حسن خان صاحب اور مولانا محمدحسین صاحب بٹالوی نے جب رسالہ د"تنسیخِ جہادد" پردستخط کیئے اور وہابیانِ ہزارہ سے نفرت کا اظہار کیا تھا تولفظ وہابی ان موحدینِ ہند سے اُٹھا لیا گیا تھا اور جونہی ان میں سے کسی نے مولانا محمود الحسن سے نسبت ظاہر کردی توپھراُسے وہابی قرار دیا جانے لگا، انگریزی سیاست کے اس مدوجزر میں معلوم نہیں کتنے لوگ ڈوبے ہوں گے۔
مولانا محمدابراہیم صاحب سیالکوٹی
آپ مولانا غلام حسن صاحب سیالکوٹی (شاگرد نواب صدیق حسن صاحب) اور حافظ عبدالمنان صاحب وزیرآبادی کے شاگرد تھے، مولانا ثناء اللہ صاحب امرتسری سے گہرے تعلق کی بناء پریہ بھی علماء دیوبند کے بہت قریب ہوگئے تھے؛ یہاں تک کہ آپ کے بارے میں انگریزوں کی ڈائری میں یہ الفاظ ملتے ہیں:
د"پسرمستری قادر بخش سکنہ سیالکوٹد"۔
مشہور اور نہایت بااثراور متعصب وہابی مبلغ، ہندوستان میں سفر کرتا رہتا ہے اور وہابیوں کے جلسوں میں اور دوسرے فرقوں سے مناظروں کے دوران نہایت پرجوش تقریریں کرتا ہے، اس لئے اس کی ہروقت مانگ رہتی ہے، ظفرعلی کاکٹرحامی ہے اور ثناء اللہ امرتسری کا ساتھی اور مولوی عبدالرحیم عرف بشیر احمد اور عبداللہ پشاوری کتب فروش کا ساتھی ہے۔
(تحریک ریشمی رومال د"انگریزوں کی اپنی ڈائرید")
مولانا وحید الزماں حیدرآبادی، المتوفی: سنہ۱۳۳۸ھ م سنہ۱۹۲۰ء
کتبِ حدیث کے اردو تراجم اور وحید اللغات لکھنے کے باعث آپ فرقہ اہلِ حدیث میں سب سے بڑے مصنف سمجھے جاتے ہیں، نواب صدیق خان کے بعد اس باب میں انہی کا نام ہے، پہلے نواب صاحب نے آپ کوتراجم کے لیے تنخواہ پرملازم رکھا، آپ کے دور میں مولوی شمس الحق عظیم آبادی، مولوی محمدحسین صاحب بٹالوی، مولوی عبداللہ غازی پوری ہولوی فقہ اللہ صاحب پنجابی غیرمقلدین کی نمایاں شخصیتیں تھے، مولانا ثناء اللہ صاحب امرتسری بھی خاصے معروف ہوچکے تھے۔
آپ نے میاں نذیر حسین صاحب سے حدیث پڑھی، غیرمقلد ہونے کے بعد شیعیت کی طرف خاصے مائل ہوگئے، آپ کی کتاب ہدیۃ المہدی آپ کے انہی خیالات کی ترجمان ہے، مجھ کومیرے ایک دوست نے لکھا کہ جب سے تم کتاب د"ہدیۃ المہدید" تالیف کی ہے تواہلِ حدیث کا ایک بڑا گروپـــــ تم سے بددل ہوگئے ہیں اور عامہ اہلِ حدیث کا اعتقاد تم سے جاتا رہا ہے۔(وحیداللغات مادہ شر)
آپ فخرالدین الطویحی شیعی (۱۰۸۵ھ) کی کتاب مطلع نیرین اور مجمع البحرین سے خاصے متأثر تھے، وحیداللغات کی اس قسم کی عبارات انہی خیالات کی تائید کرتی ہیں، شیخین رضی اللہ عنہ کواکثر اہلِ سنت حضرت علیؓ سے افضل کہتے ہیں اور مجھ کواس امر پربھی کوئی قطعی دلیل نہیں ملتی، نہ یہ مسئلہ کچھ اصولِ دین اور ارکانِ دین سے ہے، زبردستی اس کومتکلمین نے عقائد میں داخل کردیا ہے۔(مادہ عثم)
حضرت علیؓ اپنے تئیں سب سے زیادہ خلافت کا مستحق جانتے تھے اور ہے بھی یہی۔(مادہ عجز)
حضرت امیرمعاویہؓ کے بارے میں لکھتے ہیں: ان کی نسبت کلماتِ تعظیم مثل حضرت ورضی اللہ عنہ سخت دلیری اور بیباکی ہے۔(مادہ عجز)
پھرمحرم کے بارے میں رقمطراز ہیں:یہ مہینہ خوشی کا نہیں رہا ـــــ محرم کا مہینہ شہادت کی وجہ سے غم کا ہے۔(مادہ عود:۱/۵، طبع: بنگلور)
لفظ وہابی کے بارے
لفظ وہابی کے بارےمیں انگریزوں اور نواب صاحب کی ایک سوچ
ملحوظ رہے کہ نواب صاحب نے وہابی کا لفظ د"لڑنے والوںد" کے لئے اس معنی میں استعمال کیا ہے جس معنی میں انگریز اسے مجاہدین پرلانا چاہتے تھے اور اپنے لئے ان سے متمائز نام د"موحدین ہندد" اختیار کیا ہے؛ نیزاس میں یہ بھی اشارہ ہے کہ یہ جماعت صرف ہندوستان میں ہے اور ہندوستان سے باہر ان دنوں ترکِ تقلید کے عنوان سے کوئی مکتبِ فکرموجود نہ تھا، لفٹینٹ گورنرنے جب یہ درخواست منظور کرلی کہ غیرمقلدین کووہابی نہ کہا جائے تواس میں صراحت کی کہ یہ لوگ وہابیان ملک ہزارہ (مولانا اسماعیل شہید وغیرہم) سے نفرت رکھتے ہیں؛ چنانچہ نواب صاحب لکھتے ہیں:
د"چنانچہ لفٹینٹ گورنرصاحب بہادر موصوف نے اس درخواست کومنظور کیا اورپھرایک اشتہار اس مضمون کا دیا گیا کہ موحدینِ ہند پرشبہ بدخواہی گورنمنٹ عامہ نہ ہو، خصوصاً جولوگ کہ وہابیانِ ملک ہزارہ سے نفرت رکھتے ہوں اور گورنمنٹ ہند کے خیرخواہ ہیں ایسے موحدین مخاطب بہ وہابی نہ ہود"۔
(ترجمانِ وہابیہ:۶۲)
موحدینِ ہند اس وقت تک صرف اس درجہ تک پہنچے تھے کہ لفظ وہابی اُن پرنہ بولا جائے اور مولانا اسماعیل شہیدؒ سے ان کا کوئی تعلق ظاہر نہ ہو؛ لیکن ابھی تک یہ مرحلہ باقی تھا کہ حکومت سے اپنے لئے سرکاری سطح پر لفظ اہلِ حدیث خاص کرالیا جائے اور لفظ وہابی سرکاری طور پر بھی کاغذات سے نکال دیا جائے، یہ خدمت مولانا محمدحسین صاحب بٹالوی نے سرانجام دی۔
نواب صاحب کی جماعتی فکر
ترکِ تقلید کی فضا ہموی محل شبہ میں نہ تھی۔
موحدین ہند کی علمی اور عملی حالت
نواب صاحب کے عہد میں غیرمقلدین اہلحدیث کے نام سے موسوم نہ تھے، ترکِ تقلید کی فضا خاصی معروف ہوچکی تھی اور یہ لوگ موحدینِ ہند کہلاتے تھے، یہ لوگ کس علمی اور عملی حالت میں تھے، اسے خود نواب صاحب سے سنیئے:
د"یہ لوگ معاملات کے مسائل میں حدیث کی سمجھ اور بوجھ سے بالکل عاری ہیں اور اہلِ سنت کے طریق پر ایک مسئلہ بھی استنباط نہیں کرسکتے، حدیث پرعمل کرنے کی بجائے زبانی جمع وخرچ اور سنت کی اتباع کی جگہ شیطانی تسویلات پراکتفا کرتے ہیں اور اس کوعین دین تصور کرتے ہیںد"۔
(الحطہ:۱۵۱)
نواب صاحب نے معاملات کی قید اس لئے لگائی ہے کہ عبادات میں ان لوگوں نے آمین بالجہر اور رفع الیدین وغیرہ کی کچھ روایات ضروریاد کی ہوتی ہیں، سواس سے یہ نہ سمجھا جائے کہ یہ لوگ فنِ حدیث سے کچھ آشنا ہیں، نواب صاحب عبادات میں بھی ان غیرمقلدین سے چنداں موافق نہ تھے، آپ کے صاحبزادہ حسن علی لکھتے ہیں:
د"آپ حنفی نماز کوہمیشہ اقرب الی السنۃ فرماتے رہتے تھےد"۔
(مأثرصدیقی:۱/۳)
پیش نظر رہے کہ عبدالحق بنارسی اور میاں نذیر حسین صاحب کے دور تک یہ حضرات اہلحدیث (اصطلاحِ جدید) میں معروف نہ تھے نہ اس وقت تک یہ اصطلاح باضابطہ طور پرقائم ہوئی تھی، ابھی یہ حضرات ترکِ تقلید کے نام سے پہچانے جاتے تھے، یاموحدین ہند کے نام سے ؟۔
مولانا محمدحسین صاحب بٹالوی
مولانا بٹالوی سنہ۱۲۵۲ھ میں پیدا ہوئے، آپ اور نواب صدیق حسن خاں صاحب ہم اُستاد تھے، مولانا بٹالوی کے استاد بھی مفتی صدرالدین صاحب دہلوی تھے، آپ نے حدیث میاں نذیرحسین صاحب دہلوی سے پڑھی، آپ مولانا عبدالمجید صاحب سوہدروی کا یہ بیان پہلے سن آئے ہیں:
د"لفظ وہابی آپ ہی کی کوششوں سے سرکاری دفاتر اورکاغذات سے منسوخ ہوا اور جماعت کواہلحدیث کے نام سے موسوم کیا گیاد"۔
(مآثرصدیقی:۱/۳)
یہیں سے جماعت اہل حدیث ایک مستقل مکتبِ فکر کے طور پراُبھرتی ہے، یہ صحیح ہے کہ اس فرقے کا مولدومسکن ہندوستان سے باہر کہیں نہیں ملتا؛ یہی وجہ ہے کہ یہ حضرات اہلِ حدیث کہلانے سے پہلے موحدین ہند کہلاتے تھے؛ تاہم یہ ضرور ہے کہ ان دنوں یہ فرقہ اہلِ حدیث کے عنوان سے مشہور نہ تھا اور اس کے تمام علماءتقریباًانہی بزرگوں کے شاگرد اور شاگرد درشاگردہیں جنھیں جماعت کے موسسین کے طور پر ہم ذکر کرآئے ہیں، مولانا حافظ عبدالمنان وزیرآبادی، مولانا سلامت اللہ جیراجپوری، مولانا عبدالوہاب ملتانی (بانی فرقہ امامیہ اہلِ حدیث) اور حافظ محمدلکھوی، حاظ غلام رسول قلعہ یہان سنگھ والے سب میاں نذیر حسین صاحب دہلوی کے ہی شاگرد تھے؛ البتہ غزنی سے چند ایسے اور بزرگ ضرور تشریف لائے جواسمکتبِ فکر میں نئے شامل ہوئے اور پھراپنی محنت وخدمت سے پنجاب میں ایک ممتاز گروہ بن کراُبھرے، یہ گروہ غزنوی نام سے معروف ہے۔
مولانا عبداللہ غزنوی میاں صاحب سے حدیث پڑھ کرواپس غزنی چلے گئے، وہاں مسلمانوں کوترکِ تقلید کی دعوت دی، ان کی یہ تحریک وہاں مسلمانوں کی وحدتِ ملی کوتوڑنے کاموجب سمجھی گئی اور اندیشہ پیدا ہوا کہ کہیں اس کے پیچھے انگریزوں کی افغانستان پرقبضہ کرنے کی سازش کارفرما نہ ہو اس پرحکومتِ افغانستان نے انہیں ملک سے نکال دیا اور یہ حضرات ہندوستان آگئے، ہندوستان میں ان دنوں مولانا محمدحسین بٹالوی غیرمقلدین کے مذہبی ایڈوکیٹ تھے، آپ جہاد کے خلاف رسالہ د"الاقتصادد" لکھ کرانگریزوں کومطمئن کرچکے تھے اور پھرانہیں سرکارِانگلشیہ سے ایک وسیع جاگیر بھی ملی تھی؛ سوہندوستان میں غیرمقلد ہوکر رہنا اب ان حضرات کے لئے چنداں مشکل نہ تھا؛ یہاں کے غیرمقلدوں نے ان علمائے غزنی کا بڑے تپاک سے استقبال کیا۔
پنجاب میں غزنوی علماء کی آمد
مولانا محمدحسین صاحب بٹالوی کے عہد میں پنجاب میں غزنوی علماء کی آمدہوئی، حضرت مولانا عبداللہ غزنوی افغانستان سے جلاوطن ہوئے تھے، ان حضرات کارحجان ترکِ تقلید کی طرف تھا، انہیں یہاں بنابنایا میدان مل گیا، ہندوستان کے دیگر اہلِ حدیث حضرات سے اُن کا ایک موضوع میں اختلاف رہا، یہ حضرات تصوف اور بیعت وسلوک کے قائل تھے، مولانا عبدالجبار غزنوی نے د"اثبات الالہام والبیعۃد" کے نام سے اس موضوع پرایک کتاب بھی لکھی، مولانا عبداللہ غزنوی کے دوبیٹے مولانا عبدالجبار اور مولانا عبدالواحد تھے، مولانا عبدالجبار کے بیٹے مولانا داؤد غزنوی اور مولانا عبدالغفار تھے، مولانا عبدالواحد کی اولاد میں سے مولانا اسماعیل غزنوی اپنے حلقے میں معروف ہوئے، مولانا اسماعیل غزنوی سعودی عرب کے ملک عبدالعزیز بن آلِ سعود کے وزیر رہے ہیں، آپ کے واسطہ سے سعودی عرب کے اور نجد کے علماء اور موحدینِ ہند کے مابین خاصے تعلقات قائم ہوگئے؛ یہاں تک کہ اس مناسبت سے پھرسے لفظ وہابی موحدین ہند پرآگیا، اب یہ لوگ لفظ وہابی سے زیادہ گریز نہ کرتے تھے؛ کیونکہ سعودی تعلقات سے ان کی ایک نسبت آلِ شیخ سے قائم ہوچکی تھی؛ سولفظ وہابی یہاں اور قوت پکڑگیا اِس دور میں غزنوی حضرات جماعت میں اپنی محنت وخدمت سے ایک ممتاز گروہ بن کراُبھرےاور ایک دور تک جماعتِ اہلِ حدیث کی قیادت ان کے ہاتھ میں رہی۔
مولانا ثناء اللہ صاحب امرتسری
مولانا ثناء اللہ صاحب امرتسری علماء دیوبند اور جماعت اہلِ حدیث کے مابین ایک نقطۂ اتصال تھے، آپ دارالعلوم دیوبند کے فاضل تھے؛ مگرمسلک ترکِ تقلید کا ہی رہا؛ تاہم آخر دم تک علماء دیوبند سے بہت قریب کا تعلق رہا، غیرمقلدین میں سے آپ نے مولانا حافظ عبدالمنان وزیرآبادی سے حدیث پڑھی، مولانا محمدحسین صاحب بٹالوی کے بھی شاگرد تھے، ملک کی سیاسی جدوجہد میں بارہا علماء دیوبند کے ساتھ شریک ہوئے اور فرقہ باطلہ کے رد میں بھی علماء دیوبند کے شانہ بشانہ کام کیا، انگریزوں کی ڈائری میں تحریک ریشمی رومال کے ذیل میں لکھا ہے:
د"جنود ربانیہ کی فہرست میں میجر جنرل ہے یہی شخص مولوی ثناء اللہ امرتسری ہے انجمن اہلِ حدیث پنجاب کا صدر ہے، ہندوستان میں شاید سب سے ممتاز وہابی ہے، امرتسر سے شائع ہونے والے ہفت روزہ اردو اخبار اہلِ حدیث کومرتب کرتا ہے،مولوی ثناء اللہ امرتسری مولانا محمود الحسن کا شاگرد ہے اور شاید بیس پچیس برس گزرے ان سے حدیث پڑھی تھید"۔
(تحریک ریشمی رومال د"انگریزوں کی اپنی ڈائرید")
اس سے پتہ چلتا ہے کہ انگریز اب پھر سے لفظ وہابی ان حضرات کے لئے واپس لارہے تھے، نواب صدیق حسن خان صاحب اور مولانا محمدحسین صاحب بٹالوی نے جب رسالہ د"تنسیخِ جہادد" پردستخط کیئے اور وہابیانِ ہزارہ سے نفرت کا اظہار کیا تھا تولفظ وہابی ان موحدینِ ہند سے اُٹھا لیا گیا تھا اور جونہی ان میں سے کسی نے مولانا محمود الحسن سے نسبت ظاہر کردی توپھراُسے وہابی قرار دیا جانے لگا، انگریزی سیاست کے اس مدوجزر میں معلوم نہیں کتنے لوگ ڈوبے ہوں گے۔
مولانا محمدابراہیم صاحب سیالکوٹی
آپ مولانا غلام حسن صاحب سیالکوٹی (شاگرد نواب صدیق حسن صاحب) اور حافظ عبدالمنان صاحب وزیرآبادی کے شاگرد تھے، مولانا ثناء اللہ صاحب امرتسری سے گہرے تعلق کی بناء پریہ بھی علماء دیوبند کے بہت قریب ہوگئے تھے؛ یہاں تک کہ آپ کے بارے میں انگریزوں کی ڈائری میں یہ الفاظ ملتے ہیں:
د"پسرمستری قادر بخش سکنہ سیالکوٹد"۔
مشہور اور نہایت بااثراور متعصب وہابی مبلغ، ہندوستان میں سفر کرتا رہتا ہے اور وہابیوں کے جلسوں میں اور دوسرے فرقوں سے مناظروں کے دوران نہایت پرجوش تقریریں کرتا ہے، اس لئے اس کی ہروقت مانگ رہتی ہے، ظفرعلی کاکٹرحامی ہے اور ثناء اللہ امرتسری کا ساتھی اور مولوی عبدالرحیم عرف بشیر احمد اور عبداللہ پشاوری کتب فروش کا ساتھی ہے۔
(تحریک ریشمی رومال د"انگریزوں کی اپنی ڈائرید")
مولانا وحید الزماں حیدرآبادی، المتوفی: سنہ۱۳۳۸ھ م سنہ۱۹۲۰ء
کتبِ حدیث کے اردو تراجم اور وحید اللغات لکھنے کے باعث آپ فرقہ اہلِ حدیث میں سب سے بڑے مصنف سمجھے جاتے ہیں، نواب صدیق خان کے بعد اس باب میں انہی کا نام ہے، پہلے نواب صاحب نے آپ کوتراجم کے لیے تنخواہ پرملازم رکھا، آپ کے دور میں مولوی شمس الحق عظیم آبادی، مولوی محمدحسین صاحب بٹالوی، مولوی عبداللہ غازی پوری ہولوی فقہ اللہ صاحب پنجابی غیرمقلدین کی نمایاں شخصیتیں تھے، مولانا ثناء اللہ صاحب امرتسری بھی خاصے معروف ہوچکے تھے۔
آپ نے میاں نذیر حسین صاحب سے حدیث پڑھی، غیرمقلد ہونے کے بعد شیعیت کی طرف خاصے مائل ہوگئے، آپ کی کتاب ہدیۃ المہدی آپ کے انہی خیالات کی ترجمان ہے، مجھ کومیرے ایک دوست نے لکھا کہ جب سے تم کتاب د"ہدیۃ المہدید" تالیف کی ہے تواہلِ حدیث کا ایک بڑا گروپـــــ تم سے بددل ہوگئے ہیں اور عامہ اہلِ حدیث کا اعتقاد تم سے جاتا رہا ہے۔(وحیداللغات مادہ شر)
آپ فخرالدین الطویحی شیعی (۱۰۸۵ھ) کی کتاب مطلع نیرین اور مجمع البحرین سے خاصے متأثر تھے، وحیداللغات کی اس قسم کی عبارات انہی خیالات کی تائید کرتی ہیں، شیخین رضی اللہ عنہ کواکثر اہلِ سنت حضرت علیؓ سے افضل کہتے ہیں اور مجھ کواس امر پربھی کوئی قطعی دلیل نہیں ملتی، نہ یہ مسئلہ کچھ اصولِ دین اور ارکانِ دین سے ہے، زبردستی اس کومتکلمین نے عقائد میں داخل کردیا ہے۔(مادہ عثم)
حضرت علیؓ اپنے تئیں سب سے زیادہ خلافت کا مستحق جانتے تھے اور ہے بھی یہی۔(مادہ عجز)
حضرت امیرمعاویہؓ کے بارے میں لکھتے ہیں: ان کی نسبت کلماتِ تعظیم مثل حضرت ورضی اللہ عنہ سخت دلیری اور بیباکی ہے۔(مادہ عجز)
پھرمحرم کے بارے میں رقمطراز ہیں:یہ مہینہ خوشی کا نہیں رہا ـــــ محرم کا مہینہ شہادت کی وجہ سے غم کا ہے۔(مادہ عود:۱/۵، طبع: بنگلور)
یہ بات تاریخی طور پر حقیقت پر مبنی ہے۔