• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

لفظ وہابی سے نفرت کیوں ؟

شمولیت
مارچ 06، 2013
پیغامات
43
ری ایکشن اسکور
54
پوائنٹ
42
لفظ وہابی کے بارے
لفظ وہابی کے بارےمیں انگریزوں اور نواب صاحب کی ایک سوچ
ملحوظ رہے کہ نواب صاحب نے وہابی کا لفظ د"لڑنے والوںد" کے لئے اس معنی میں استعمال کیا ہے جس معنی میں انگریز اسے مجاہدین پرلانا چاہتے تھے اور اپنے لئے ان سے متمائز نام د"موحدین ہندد" اختیار کیا ہے؛ نیزاس میں یہ بھی اشارہ ہے کہ یہ جماعت صرف ہندوستان میں ہے اور ہندوستان سے باہر ان دنوں ترکِ تقلید کے عنوان سے کوئی مکتبِ فکرموجود نہ تھا، لفٹینٹ گورنرنے جب یہ درخواست منظور کرلی کہ غیرمقلدین کووہابی نہ کہا جائے تواس میں صراحت کی کہ یہ لوگ وہابیان ملک ہزارہ (مولانا اسماعیل شہید وغیرہم) سے نفرت رکھتے ہیں؛ چنانچہ نواب صاحب لکھتے ہیں:
د"چنانچہ لفٹینٹ گورنرصاحب بہادر موصوف نے اس درخواست کومنظور کیا اورپھرایک اشتہار اس مضمون کا دیا گیا کہ موحدینِ ہند پرشبہ بدخواہی گورنمنٹ عامہ نہ ہو، خصوصاً جولوگ کہ وہابیانِ ملک ہزارہ سے نفرت رکھتے ہوں اور گورنمنٹ ہند کے خیرخواہ ہیں ایسے موحدین مخاطب بہ وہابی نہ ہود"۔
(ترجمانِ وہابیہ:۶۲)
موحدینِ ہند اس وقت تک صرف اس درجہ تک پہنچے تھے کہ لفظ وہابی اُن پرنہ بولا جائے اور مولانا اسماعیل شہیدؒ سے ان کا کوئی تعلق ظاہر نہ ہو؛ لیکن ابھی تک یہ مرحلہ باقی تھا کہ حکومت سے اپنے لئے سرکاری سطح پر لفظ اہلِ حدیث خاص کرالیا جائے اور لفظ وہابی سرکاری طور پر بھی کاغذات سے نکال دیا جائے، یہ خدمت مولانا محمدحسین صاحب بٹالوی نے سرانجام دی۔
نواب صاحب کی جماعتی فکر
ترکِ تقلید کی فضا ہموی محل شبہ میں نہ تھی۔
موحدین ہند کی علمی اور عملی حالت
نواب صاحب کے عہد میں غیرمقلدین اہلحدیث کے نام سے موسوم نہ تھے، ترکِ تقلید کی فضا خاصی معروف ہوچکی تھی اور یہ لوگ موحدینِ ہند کہلاتے تھے، یہ لوگ کس علمی اور عملی حالت میں تھے، اسے خود نواب صاحب سے سنیئے:
د"یہ لوگ معاملات کے مسائل میں حدیث کی سمجھ اور بوجھ سے بالکل عاری ہیں اور اہلِ سنت کے طریق پر ایک مسئلہ بھی استنباط نہیں کرسکتے، حدیث پرعمل کرنے کی بجائے زبانی جمع وخرچ اور سنت کی اتباع کی جگہ شیطانی تسویلات پراکتفا کرتے ہیں اور اس کوعین دین تصور کرتے ہیںد"۔
(الحطہ:۱۵۱)
نواب صاحب نے معاملات کی قید اس لئے لگائی ہے کہ عبادات میں ان لوگوں نے آمین بالجہر اور رفع الیدین وغیرہ کی کچھ روایات ضروریاد کی ہوتی ہیں، سواس سے یہ نہ سمجھا جائے کہ یہ لوگ فنِ حدیث سے کچھ آشنا ہیں، نواب صاحب عبادات میں بھی ان غیرمقلدین سے چنداں موافق نہ تھے، آپ کے صاحبزادہ حسن علی لکھتے ہیں:
د"آپ حنفی نماز کوہمیشہ اقرب الی السنۃ فرماتے رہتے تھےد"۔
(مأثرصدیقی:۱/۳)
پیش نظر رہے کہ عبدالحق بنارسی اور میاں نذیر حسین صاحب کے دور تک یہ حضرات اہلحدیث (اصطلاحِ جدید) میں معروف نہ تھے نہ اس وقت تک یہ اصطلاح باضابطہ طور پرقائم ہوئی تھی، ابھی یہ حضرات ترکِ تقلید کے نام سے پہچانے جاتے تھے، یاموحدین ہند کے نام سے ؟۔
مولانا محمدحسین صاحب بٹالوی
مولانا بٹالوی سنہ۱۲۵۲ھ میں پیدا ہوئے، آپ اور نواب صدیق حسن خاں صاحب ہم اُستاد تھے، مولانا بٹالوی کے استاد بھی مفتی صدرالدین صاحب دہلوی تھے، آپ نے حدیث میاں نذیرحسین صاحب دہلوی سے پڑھی، آپ مولانا عبدالمجید صاحب سوہدروی کا یہ بیان پہلے سن آئے ہیں:
د"لفظ وہابی آپ ہی کی کوششوں سے سرکاری دفاتر اورکاغذات سے منسوخ ہوا اور جماعت کواہلحدیث کے نام سے موسوم کیا گیاد"۔
(مآثرصدیقی:۱/۳)
یہیں سے جماعت اہل حدیث ایک مستقل مکتبِ فکر کے طور پراُبھرتی ہے، یہ صحیح ہے کہ اس فرقے کا مولدومسکن ہندوستان سے باہر کہیں نہیں ملتا؛ یہی وجہ ہے کہ یہ حضرات اہلِ حدیث کہلانے سے پہلے موحدین ہند کہلاتے تھے؛ تاہم یہ ضرور ہے کہ ان دنوں یہ فرقہ اہلِ حدیث کے عنوان سے مشہور نہ تھا اور اس کے تمام علماءتقریباًانہی بزرگوں کے شاگرد اور شاگرد درشاگردہیں جنھیں جماعت کے موسسین کے طور پر ہم ذکر کرآئے ہیں، مولانا حافظ عبدالمنان وزیرآبادی، مولانا سلامت اللہ جیراجپوری، مولانا عبدالوہاب ملتانی (بانی فرقہ امامیہ اہلِ حدیث) اور حافظ محمدلکھوی، حاظ غلام رسول قلعہ یہان سنگھ والے سب میاں نذیر حسین صاحب دہلوی کے ہی شاگرد تھے؛ البتہ غزنی سے چند ایسے اور بزرگ ضرور تشریف لائے جواسمکتبِ فکر میں نئے شامل ہوئے اور پھراپنی محنت وخدمت سے پنجاب میں ایک ممتاز گروہ بن کراُبھرے، یہ گروہ غزنوی نام سے معروف ہے۔
مولانا عبداللہ غزنوی میاں صاحب سے حدیث پڑھ کرواپس غزنی چلے گئے، وہاں مسلمانوں کوترکِ تقلید کی دعوت دی، ان کی یہ تحریک وہاں مسلمانوں کی وحدتِ ملی کوتوڑنے کاموجب سمجھی گئی اور اندیشہ پیدا ہوا کہ کہیں اس کے پیچھے انگریزوں کی افغانستان پرقبضہ کرنے کی سازش کارفرما نہ ہو اس پرحکومتِ افغانستان نے انہیں ملک سے نکال دیا اور یہ حضرات ہندوستان آگئے، ہندوستان میں ان دنوں مولانا محمدحسین بٹالوی غیرمقلدین کے مذہبی ایڈوکیٹ تھے، آپ جہاد کے خلاف رسالہ د"الاقتصادد" لکھ کرانگریزوں کومطمئن کرچکے تھے اور پھرانہیں سرکارِانگلشیہ سے ایک وسیع جاگیر بھی ملی تھی؛ سوہندوستان میں غیرمقلد ہوکر رہنا اب ان حضرات کے لئے چنداں مشکل نہ تھا؛ یہاں کے غیرمقلدوں نے ان علمائے غزنی کا بڑے تپاک سے استقبال کیا۔
پنجاب میں غزنوی علماء کی آمد
مولانا محمدحسین صاحب بٹالوی کے عہد میں پنجاب میں غزنوی علماء کی آمدہوئی، حضرت مولانا عبداللہ غزنوی افغانستان سے جلاوطن ہوئے تھے، ان حضرات کارحجان ترکِ تقلید کی طرف تھا، انہیں یہاں بنابنایا میدان مل گیا، ہندوستان کے دیگر اہلِ حدیث حضرات سے اُن کا ایک موضوع میں اختلاف رہا، یہ حضرات تصوف اور بیعت وسلوک کے قائل تھے، مولانا عبدالجبار غزنوی نے د"اثبات الالہام والبیعۃد" کے نام سے اس موضوع پرایک کتاب بھی لکھی، مولانا عبداللہ غزنوی کے دوبیٹے مولانا عبدالجبار اور مولانا عبدالواحد تھے، مولانا عبدالجبار کے بیٹے مولانا داؤد غزنوی اور مولانا عبدالغفار تھے، مولانا عبدالواحد کی اولاد میں سے مولانا اسماعیل غزنوی اپنے حلقے میں معروف ہوئے، مولانا اسماعیل غزنوی سعودی عرب کے ملک عبدالعزیز بن آلِ سعود کے وزیر رہے ہیں، آپ کے واسطہ سے سعودی عرب کے اور نجد کے علماء اور موحدینِ ہند کے مابین خاصے تعلقات قائم ہوگئے؛ یہاں تک کہ اس مناسبت سے پھرسے لفظ وہابی موحدین ہند پرآگیا، اب یہ لوگ لفظ وہابی سے زیادہ گریز نہ کرتے تھے؛ کیونکہ سعودی تعلقات سے ان کی ایک نسبت آلِ شیخ سے قائم ہوچکی تھی؛ سولفظ وہابی یہاں اور قوت پکڑگیا اِس دور میں غزنوی حضرات جماعت میں اپنی محنت وخدمت سے ایک ممتاز گروہ بن کراُبھرےاور ایک دور تک جماعتِ اہلِ حدیث کی قیادت ان کے ہاتھ میں رہی۔
مولانا ثناء اللہ صاحب امرتسری
مولانا ثناء اللہ صاحب امرتسری علماء دیوبند اور جماعت اہلِ حدیث کے مابین ایک نقطۂ اتصال تھے، آپ دارالعلوم دیوبند کے فاضل تھے؛ مگرمسلک ترکِ تقلید کا ہی رہا؛ تاہم آخر دم تک علماء دیوبند سے بہت قریب کا تعلق رہا، غیرمقلدین میں سے آپ نے مولانا حافظ عبدالمنان وزیرآبادی سے حدیث پڑھی، مولانا محمدحسین صاحب بٹالوی کے بھی شاگرد تھے، ملک کی سیاسی جدوجہد میں بارہا علماء دیوبند کے ساتھ شریک ہوئے اور فرقہ باطلہ کے رد میں بھی علماء دیوبند کے شانہ بشانہ کام کیا، انگریزوں کی ڈائری میں تحریک ریشمی رومال کے ذیل میں لکھا ہے:
د"جنود ربانیہ کی فہرست میں میجر جنرل ہے یہی شخص مولوی ثناء اللہ امرتسری ہے انجمن اہلِ حدیث پنجاب کا صدر ہے، ہندوستان میں شاید سب سے ممتاز وہابی ہے، امرتسر سے شائع ہونے والے ہفت روزہ اردو اخبار اہلِ حدیث کومرتب کرتا ہے،مولوی ثناء اللہ امرتسری مولانا محمود الحسن کا شاگرد ہے اور شاید بیس پچیس برس گزرے ان سے حدیث پڑھی تھید"۔
(تحریک ریشمی رومال د"انگریزوں کی اپنی ڈائرید")
اس سے پتہ چلتا ہے کہ انگریز اب پھر سے لفظ وہابی ان حضرات کے لئے واپس لارہے تھے، نواب صدیق حسن خان صاحب اور مولانا محمدحسین صاحب بٹالوی نے جب رسالہ د"تنسیخِ جہادد" پردستخط کیئے اور وہابیانِ ہزارہ سے نفرت کا اظہار کیا تھا تولفظ وہابی ان موحدینِ ہند سے اُٹھا لیا گیا تھا اور جونہی ان میں سے کسی نے مولانا محمود الحسن سے نسبت ظاہر کردی توپھراُسے وہابی قرار دیا جانے لگا، انگریزی سیاست کے اس مدوجزر میں معلوم نہیں کتنے لوگ ڈوبے ہوں گے۔
مولانا محمدابراہیم صاحب سیالکوٹی
آپ مولانا غلام حسن صاحب سیالکوٹی (شاگرد نواب صدیق حسن صاحب) اور حافظ عبدالمنان صاحب وزیرآبادی کے شاگرد تھے، مولانا ثناء اللہ صاحب امرتسری سے گہرے تعلق کی بناء پریہ بھی علماء دیوبند کے بہت قریب ہوگئے تھے؛ یہاں تک کہ آپ کے بارے میں انگریزوں کی ڈائری میں یہ الفاظ ملتے ہیں:
د"پسرمستری قادر بخش سکنہ سیالکوٹد"۔
مشہور اور نہایت بااثراور متعصب وہابی مبلغ، ہندوستان میں سفر کرتا رہتا ہے اور وہابیوں کے جلسوں میں اور دوسرے فرقوں سے مناظروں کے دوران نہایت پرجوش تقریریں کرتا ہے، اس لئے اس کی ہروقت مانگ رہتی ہے، ظفرعلی کاکٹرحامی ہے اور ثناء اللہ امرتسری کا ساتھی اور مولوی عبدالرحیم عرف بشیر احمد اور عبداللہ پشاوری کتب فروش کا ساتھی ہے۔
(تحریک ریشمی رومال د"انگریزوں کی اپنی ڈائرید")
مولانا وحید الزماں حیدرآبادی، المتوفی: سنہ۱۳۳۸ھ م سنہ۱۹۲۰ء
کتبِ حدیث کے اردو تراجم اور وحید اللغات لکھنے کے باعث آپ فرقہ اہلِ حدیث میں سب سے بڑے مصنف سمجھے جاتے ہیں، نواب صدیق خان کے بعد اس باب میں انہی کا نام ہے، پہلے نواب صاحب نے آپ کوتراجم کے لیے تنخواہ پرملازم رکھا، آپ کے دور میں مولوی شمس الحق عظیم آبادی، مولوی محمدحسین صاحب بٹالوی، مولوی عبداللہ غازی پوری ہولوی فقہ اللہ صاحب پنجابی غیرمقلدین کی نمایاں شخصیتیں تھے، مولانا ثناء اللہ صاحب امرتسری بھی خاصے معروف ہوچکے تھے۔
آپ نے میاں نذیر حسین صاحب سے حدیث پڑھی، غیرمقلد ہونے کے بعد شیعیت کی طرف خاصے مائل ہوگئے، آپ کی کتاب ہدیۃ المہدی آپ کے انہی خیالات کی ترجمان ہے، مجھ کومیرے ایک دوست نے لکھا کہ جب سے تم کتاب د"ہدیۃ المہدید" تالیف کی ہے تواہلِ حدیث کا ایک بڑا گروپـــــ تم سے بددل ہوگئے ہیں اور عامہ اہلِ حدیث کا اعتقاد تم سے جاتا رہا ہے۔(وحیداللغات مادہ شر)
آپ فخرالدین الطویحی شیعی (۱۰۸۵ھ) کی کتاب مطلع نیرین اور مجمع البحرین سے خاصے متأثر تھے، وحیداللغات کی اس قسم کی عبارات انہی خیالات کی تائید کرتی ہیں، شیخین رضی اللہ عنہ کواکثر اہلِ سنت حضرت علیؓ سے افضل کہتے ہیں اور مجھ کواس امر پربھی کوئی قطعی دلیل نہیں ملتی، نہ یہ مسئلہ کچھ اصولِ دین اور ارکانِ دین سے ہے، زبردستی اس کومتکلمین نے عقائد میں داخل کردیا ہے۔(مادہ عثم)
حضرت علیؓ اپنے تئیں سب سے زیادہ خلافت کا مستحق جانتے تھے اور ہے بھی یہی۔(مادہ عجز)
حضرت امیرمعاویہؓ کے بارے میں لکھتے ہیں: ان کی نسبت کلماتِ تعظیم مثل حضرت ورضی اللہ عنہ سخت دلیری اور بیباکی ہے۔(مادہ عجز)
پھرمحرم کے بارے میں رقمطراز ہیں:یہ مہینہ خوشی کا نہیں رہا ـــــ محرم کا مہینہ شہادت کی وجہ سے غم کا ہے۔(مادہ عود:۱/۵، طبع: بنگلور)
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
لفظ وہابی کے بارے
لفظ وہابی کے بارےمیں انگریزوں اور نواب صاحب کی ایک سوچ
ملحوظ رہے کہ نواب صاحب نے وہابی کا لفظ د"لڑنے والوںد" کے لئے اس معنی میں استعمال کیا ہے جس معنی میں انگریز اسے مجاہدین پرلانا چاہتے تھے اور اپنے لئے ان سے متمائز نام د"موحدین ہندد" اختیار کیا ہے؛ نیزاس میں یہ بھی اشارہ ہے کہ یہ جماعت صرف ہندوستان میں ہے اور ہندوستان سے باہر ان دنوں ترکِ تقلید کے عنوان سے کوئی مکتبِ فکرموجود نہ تھا، لفٹینٹ گورنرنے جب یہ درخواست منظور کرلی کہ غیرمقلدین کووہابی نہ کہا جائے تواس میں صراحت کی کہ یہ لوگ وہابیان ملک ہزارہ (مولانا اسماعیل شہید وغیرہم) سے نفرت رکھتے ہیں؛ چنانچہ نواب صاحب لکھتے ہیں:
د"چنانچہ لفٹینٹ گورنرصاحب بہادر موصوف نے اس درخواست کومنظور کیا اورپھرایک اشتہار اس مضمون کا دیا گیا کہ موحدینِ ہند پرشبہ بدخواہی گورنمنٹ عامہ نہ ہو، خصوصاً جولوگ کہ وہابیانِ ملک ہزارہ سے نفرت رکھتے ہوں اور گورنمنٹ ہند کے خیرخواہ ہیں ایسے موحدین مخاطب بہ وہابی نہ ہود"۔
(ترجمانِ وہابیہ:۶۲)
موحدینِ ہند اس وقت تک صرف اس درجہ تک پہنچے تھے کہ لفظ وہابی اُن پرنہ بولا جائے اور مولانا اسماعیل شہیدؒ سے ان کا کوئی تعلق ظاہر نہ ہو؛ لیکن ابھی تک یہ مرحلہ باقی تھا کہ حکومت سے اپنے لئے سرکاری سطح پر لفظ اہلِ حدیث خاص کرالیا جائے اور لفظ وہابی سرکاری طور پر بھی کاغذات سے نکال دیا جائے، یہ خدمت مولانا محمدحسین صاحب بٹالوی نے سرانجام دی۔
نواب صاحب کی جماعتی فکر
ترکِ تقلید کی فضا ہموی محل شبہ میں نہ تھی۔
موحدین ہند کی علمی اور عملی حالت
نواب صاحب کے عہد میں غیرمقلدین اہلحدیث کے نام سے موسوم نہ تھے، ترکِ تقلید کی فضا خاصی معروف ہوچکی تھی اور یہ لوگ موحدینِ ہند کہلاتے تھے، یہ لوگ کس علمی اور عملی حالت میں تھے، اسے خود نواب صاحب سے سنیئے:
د"یہ لوگ معاملات کے مسائل میں حدیث کی سمجھ اور بوجھ سے بالکل عاری ہیں اور اہلِ سنت کے طریق پر ایک مسئلہ بھی استنباط نہیں کرسکتے، حدیث پرعمل کرنے کی بجائے زبانی جمع وخرچ اور سنت کی اتباع کی جگہ شیطانی تسویلات پراکتفا کرتے ہیں اور اس کوعین دین تصور کرتے ہیںد"۔
(الحطہ:۱۵۱)
نواب صاحب نے معاملات کی قید اس لئے لگائی ہے کہ عبادات میں ان لوگوں نے آمین بالجہر اور رفع الیدین وغیرہ کی کچھ روایات ضروریاد کی ہوتی ہیں، سواس سے یہ نہ سمجھا جائے کہ یہ لوگ فنِ حدیث سے کچھ آشنا ہیں، نواب صاحب عبادات میں بھی ان غیرمقلدین سے چنداں موافق نہ تھے، آپ کے صاحبزادہ حسن علی لکھتے ہیں:
د"آپ حنفی نماز کوہمیشہ اقرب الی السنۃ فرماتے رہتے تھےد"۔
(مأثرصدیقی:۱/۳)
پیش نظر رہے کہ عبدالحق بنارسی اور میاں نذیر حسین صاحب کے دور تک یہ حضرات اہلحدیث (اصطلاحِ جدید) میں معروف نہ تھے نہ اس وقت تک یہ اصطلاح باضابطہ طور پرقائم ہوئی تھی، ابھی یہ حضرات ترکِ تقلید کے نام سے پہچانے جاتے تھے، یاموحدین ہند کے نام سے ؟۔
مولانا محمدحسین صاحب بٹالوی
مولانا بٹالوی سنہ۱۲۵۲ھ میں پیدا ہوئے، آپ اور نواب صدیق حسن خاں صاحب ہم اُستاد تھے، مولانا بٹالوی کے استاد بھی مفتی صدرالدین صاحب دہلوی تھے، آپ نے حدیث میاں نذیرحسین صاحب دہلوی سے پڑھی، آپ مولانا عبدالمجید صاحب سوہدروی کا یہ بیان پہلے سن آئے ہیں:
د"لفظ وہابی آپ ہی کی کوششوں سے سرکاری دفاتر اورکاغذات سے منسوخ ہوا اور جماعت کواہلحدیث کے نام سے موسوم کیا گیاد"۔
(مآثرصدیقی:۱/۳)
یہیں سے جماعت اہل حدیث ایک مستقل مکتبِ فکر کے طور پراُبھرتی ہے، یہ صحیح ہے کہ اس فرقے کا مولدومسکن ہندوستان سے باہر کہیں نہیں ملتا؛ یہی وجہ ہے کہ یہ حضرات اہلِ حدیث کہلانے سے پہلے موحدین ہند کہلاتے تھے؛ تاہم یہ ضرور ہے کہ ان دنوں یہ فرقہ اہلِ حدیث کے عنوان سے مشہور نہ تھا اور اس کے تمام علماءتقریباًانہی بزرگوں کے شاگرد اور شاگرد درشاگردہیں جنھیں جماعت کے موسسین کے طور پر ہم ذکر کرآئے ہیں، مولانا حافظ عبدالمنان وزیرآبادی، مولانا سلامت اللہ جیراجپوری، مولانا عبدالوہاب ملتانی (بانی فرقہ امامیہ اہلِ حدیث) اور حافظ محمدلکھوی، حاظ غلام رسول قلعہ یہان سنگھ والے سب میاں نذیر حسین صاحب دہلوی کے ہی شاگرد تھے؛ البتہ غزنی سے چند ایسے اور بزرگ ضرور تشریف لائے جواسمکتبِ فکر میں نئے شامل ہوئے اور پھراپنی محنت وخدمت سے پنجاب میں ایک ممتاز گروہ بن کراُبھرے، یہ گروہ غزنوی نام سے معروف ہے۔
مولانا عبداللہ غزنوی میاں صاحب سے حدیث پڑھ کرواپس غزنی چلے گئے، وہاں مسلمانوں کوترکِ تقلید کی دعوت دی، ان کی یہ تحریک وہاں مسلمانوں کی وحدتِ ملی کوتوڑنے کاموجب سمجھی گئی اور اندیشہ پیدا ہوا کہ کہیں اس کے پیچھے انگریزوں کی افغانستان پرقبضہ کرنے کی سازش کارفرما نہ ہو اس پرحکومتِ افغانستان نے انہیں ملک سے نکال دیا اور یہ حضرات ہندوستان آگئے، ہندوستان میں ان دنوں مولانا محمدحسین بٹالوی غیرمقلدین کے مذہبی ایڈوکیٹ تھے، آپ جہاد کے خلاف رسالہ د"الاقتصادد" لکھ کرانگریزوں کومطمئن کرچکے تھے اور پھرانہیں سرکارِانگلشیہ سے ایک وسیع جاگیر بھی ملی تھی؛ سوہندوستان میں غیرمقلد ہوکر رہنا اب ان حضرات کے لئے چنداں مشکل نہ تھا؛ یہاں کے غیرمقلدوں نے ان علمائے غزنی کا بڑے تپاک سے استقبال کیا۔
پنجاب میں غزنوی علماء کی آمد
مولانا محمدحسین صاحب بٹالوی کے عہد میں پنجاب میں غزنوی علماء کی آمدہوئی، حضرت مولانا عبداللہ غزنوی افغانستان سے جلاوطن ہوئے تھے، ان حضرات کارحجان ترکِ تقلید کی طرف تھا، انہیں یہاں بنابنایا میدان مل گیا، ہندوستان کے دیگر اہلِ حدیث حضرات سے اُن کا ایک موضوع میں اختلاف رہا، یہ حضرات تصوف اور بیعت وسلوک کے قائل تھے، مولانا عبدالجبار غزنوی نے د"اثبات الالہام والبیعۃد" کے نام سے اس موضوع پرایک کتاب بھی لکھی، مولانا عبداللہ غزنوی کے دوبیٹے مولانا عبدالجبار اور مولانا عبدالواحد تھے، مولانا عبدالجبار کے بیٹے مولانا داؤد غزنوی اور مولانا عبدالغفار تھے، مولانا عبدالواحد کی اولاد میں سے مولانا اسماعیل غزنوی اپنے حلقے میں معروف ہوئے، مولانا اسماعیل غزنوی سعودی عرب کے ملک عبدالعزیز بن آلِ سعود کے وزیر رہے ہیں، آپ کے واسطہ سے سعودی عرب کے اور نجد کے علماء اور موحدینِ ہند کے مابین خاصے تعلقات قائم ہوگئے؛ یہاں تک کہ اس مناسبت سے پھرسے لفظ وہابی موحدین ہند پرآگیا، اب یہ لوگ لفظ وہابی سے زیادہ گریز نہ کرتے تھے؛ کیونکہ سعودی تعلقات سے ان کی ایک نسبت آلِ شیخ سے قائم ہوچکی تھی؛ سولفظ وہابی یہاں اور قوت پکڑگیا اِس دور میں غزنوی حضرات جماعت میں اپنی محنت وخدمت سے ایک ممتاز گروہ بن کراُبھرےاور ایک دور تک جماعتِ اہلِ حدیث کی قیادت ان کے ہاتھ میں رہی۔
مولانا ثناء اللہ صاحب امرتسری
مولانا ثناء اللہ صاحب امرتسری علماء دیوبند اور جماعت اہلِ حدیث کے مابین ایک نقطۂ اتصال تھے، آپ دارالعلوم دیوبند کے فاضل تھے؛ مگرمسلک ترکِ تقلید کا ہی رہا؛ تاہم آخر دم تک علماء دیوبند سے بہت قریب کا تعلق رہا، غیرمقلدین میں سے آپ نے مولانا حافظ عبدالمنان وزیرآبادی سے حدیث پڑھی، مولانا محمدحسین صاحب بٹالوی کے بھی شاگرد تھے، ملک کی سیاسی جدوجہد میں بارہا علماء دیوبند کے ساتھ شریک ہوئے اور فرقہ باطلہ کے رد میں بھی علماء دیوبند کے شانہ بشانہ کام کیا، انگریزوں کی ڈائری میں تحریک ریشمی رومال کے ذیل میں لکھا ہے:
د"جنود ربانیہ کی فہرست میں میجر جنرل ہے یہی شخص مولوی ثناء اللہ امرتسری ہے انجمن اہلِ حدیث پنجاب کا صدر ہے، ہندوستان میں شاید سب سے ممتاز وہابی ہے، امرتسر سے شائع ہونے والے ہفت روزہ اردو اخبار اہلِ حدیث کومرتب کرتا ہے،مولوی ثناء اللہ امرتسری مولانا محمود الحسن کا شاگرد ہے اور شاید بیس پچیس برس گزرے ان سے حدیث پڑھی تھید"۔
(تحریک ریشمی رومال د"انگریزوں کی اپنی ڈائرید")
اس سے پتہ چلتا ہے کہ انگریز اب پھر سے لفظ وہابی ان حضرات کے لئے واپس لارہے تھے، نواب صدیق حسن خان صاحب اور مولانا محمدحسین صاحب بٹالوی نے جب رسالہ د"تنسیخِ جہادد" پردستخط کیئے اور وہابیانِ ہزارہ سے نفرت کا اظہار کیا تھا تولفظ وہابی ان موحدینِ ہند سے اُٹھا لیا گیا تھا اور جونہی ان میں سے کسی نے مولانا محمود الحسن سے نسبت ظاہر کردی توپھراُسے وہابی قرار دیا جانے لگا، انگریزی سیاست کے اس مدوجزر میں معلوم نہیں کتنے لوگ ڈوبے ہوں گے۔
مولانا محمدابراہیم صاحب سیالکوٹی
آپ مولانا غلام حسن صاحب سیالکوٹی (شاگرد نواب صدیق حسن صاحب) اور حافظ عبدالمنان صاحب وزیرآبادی کے شاگرد تھے، مولانا ثناء اللہ صاحب امرتسری سے گہرے تعلق کی بناء پریہ بھی علماء دیوبند کے بہت قریب ہوگئے تھے؛ یہاں تک کہ آپ کے بارے میں انگریزوں کی ڈائری میں یہ الفاظ ملتے ہیں:
د"پسرمستری قادر بخش سکنہ سیالکوٹد"۔
مشہور اور نہایت بااثراور متعصب وہابی مبلغ، ہندوستان میں سفر کرتا رہتا ہے اور وہابیوں کے جلسوں میں اور دوسرے فرقوں سے مناظروں کے دوران نہایت پرجوش تقریریں کرتا ہے، اس لئے اس کی ہروقت مانگ رہتی ہے، ظفرعلی کاکٹرحامی ہے اور ثناء اللہ امرتسری کا ساتھی اور مولوی عبدالرحیم عرف بشیر احمد اور عبداللہ پشاوری کتب فروش کا ساتھی ہے۔
(تحریک ریشمی رومال د"انگریزوں کی اپنی ڈائرید")
مولانا وحید الزماں حیدرآبادی، المتوفی: سنہ۱۳۳۸ھ م سنہ۱۹۲۰ء
کتبِ حدیث کے اردو تراجم اور وحید اللغات لکھنے کے باعث آپ فرقہ اہلِ حدیث میں سب سے بڑے مصنف سمجھے جاتے ہیں، نواب صدیق خان کے بعد اس باب میں انہی کا نام ہے، پہلے نواب صاحب نے آپ کوتراجم کے لیے تنخواہ پرملازم رکھا، آپ کے دور میں مولوی شمس الحق عظیم آبادی، مولوی محمدحسین صاحب بٹالوی، مولوی عبداللہ غازی پوری ہولوی فقہ اللہ صاحب پنجابی غیرمقلدین کی نمایاں شخصیتیں تھے، مولانا ثناء اللہ صاحب امرتسری بھی خاصے معروف ہوچکے تھے۔
آپ نے میاں نذیر حسین صاحب سے حدیث پڑھی، غیرمقلد ہونے کے بعد شیعیت کی طرف خاصے مائل ہوگئے، آپ کی کتاب ہدیۃ المہدی آپ کے انہی خیالات کی ترجمان ہے، مجھ کومیرے ایک دوست نے لکھا کہ جب سے تم کتاب د"ہدیۃ المہدید" تالیف کی ہے تواہلِ حدیث کا ایک بڑا گروپـــــ تم سے بددل ہوگئے ہیں اور عامہ اہلِ حدیث کا اعتقاد تم سے جاتا رہا ہے۔(وحیداللغات مادہ شر)
آپ فخرالدین الطویحی شیعی (۱۰۸۵ھ) کی کتاب مطلع نیرین اور مجمع البحرین سے خاصے متأثر تھے، وحیداللغات کی اس قسم کی عبارات انہی خیالات کی تائید کرتی ہیں، شیخین رضی اللہ عنہ کواکثر اہلِ سنت حضرت علیؓ سے افضل کہتے ہیں اور مجھ کواس امر پربھی کوئی قطعی دلیل نہیں ملتی، نہ یہ مسئلہ کچھ اصولِ دین اور ارکانِ دین سے ہے، زبردستی اس کومتکلمین نے عقائد میں داخل کردیا ہے۔(مادہ عثم)
حضرت علیؓ اپنے تئیں سب سے زیادہ خلافت کا مستحق جانتے تھے اور ہے بھی یہی۔(مادہ عجز)
حضرت امیرمعاویہؓ کے بارے میں لکھتے ہیں: ان کی نسبت کلماتِ تعظیم مثل حضرت ورضی اللہ عنہ سخت دلیری اور بیباکی ہے۔(مادہ عجز)
پھرمحرم کے بارے میں رقمطراز ہیں:یہ مہینہ خوشی کا نہیں رہا ـــــ محرم کا مہینہ شہادت کی وجہ سے غم کا ہے۔(مادہ عود:۱/۵، طبع: بنگلور)

محمداشرف یوسف صاحب تحقیق کر لیا کرے :

جھوٹ بولنا کبیرہ گناہ ہے اور ایک مومن دیگرخرابیوں میں مبتلا ہونے کے باوجود کذاب ہرگز نہیں ہوسکتا۔صفوان بن سلیم سے ایک مرسل روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺسے کسی نے پوچھاکہ کیا مومن بزدل ہوسکتا ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں، پھر پوچھا کیا مومن بخیل ہوسکتا ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں، پوچھا کیا مومن جھوٹا ہوسکتا ہے ؟ آپ نے فرمایانہیں۔(موطا امام مالک)

جھوٹ کی شناعت اور خباثت میں اس وقت مزید اضافہ ہو جاتا ہے جب جھوٹ بولنے والا عام آدمی کے برعکس اہل علم ہو اور جھوٹ بھی دنیاوی معاملات میں نہیں بلکہ دین و مذہب کے لئے بولا جائے۔ لیکن اس کے باوجود بھی ایسے فرقہ پرست نام نہاد علما ء کی کوئی کمی نہیں جو مسلکی تعصب میں اور اپنے مخالفین کو نیچا دکھانے کے لئے بے دریغ جھوٹ بولتے ہیں۔آئیے آپ کا تعارف ایک ایسے ہی علماء سوء پر مشتمل کذابین کے ٹولے سے کرواتے ہیں جو اپنے گھڑے ہوئے ایک جھوٹ کو چھپانے کے لئے جھوٹ پر جھوٹ بولے جارہے ہیں۔

آل تقلید نے لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے اور حقیقت پر پردہ ڈالنے کے لئے سب سے پہلے اہل حدیث گروہ کو غیر مقلد کے من گھڑت اور خود ساختہ نام سے ملقب کیا ۔حالانکہ اس لفظ (غیرمقلد) کا وجود کسی لغت میں نہیں ہے بلکہ یہ خالص تقلیدی کمپنی میں تیار شدہ لفظ ہے ۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے بے وقوف کے مقابلے میں عقلمند کے بجائے غیر بے وقوف کا لفظ اور رات کے مقابلے میں دن کے بجائے غیر رات کا لفظ استعمال کیا جائے۔

1۔ ابو سعد نامی دیوبندی لکھتے ہیں: کچھ عرصہ پہلے غیرمقلدین جو اپنے آپ کو اہل حدیث کہلاواتے ہیں کی کتاب ''حلالہ کی چھری'' نظر سے گزری ۔(حلالہ کی چھری یا رافضیت کا خنجر، صفحہ 4)

2۔ مولاناکمال الدین المسترشد دیوبندی رقم کرتے ہیں: واضح رہے کہ جو لوگ فقہ اور قیاس کے خلاف ہیں انہیں آج کل کی اصطلاح میں ''غیر مقلد'' کہتے ہیں جبکہ وہ خود کو ''اہل حدیث'' کے نام سے موسوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔(قیاس اور تقلید کی حقیقت اور شرعی حیثیت، صفحہ 48)

3۔ مولانا یوسف لدھیانوی دیوبندی رقمطراز ہیں: اہل حدیث حضرات جن کو آپ نے وہابی لکھا ہے۔ اور عام طور پر انہیں غیرمقلد کہا جاتا ہے۔(اختلاف امت صراط مستقیم، صفحہ 28)

4۔ مفتی احمد یارخان نعیمی بریلوی تقلید نہ کرنے والے اہل حدیث حضرات کو غیرمقلد کہتے ہوئے لکھتے ہیں: ایک وہ جنھوں نے اماموں کی تقلید کا انکار کیا جو غیر مقلد یا وہابی کہلاتے ہیں۔(جاء الحق، صفحہ 13)

5۔ محمد طفیل رضوی بریلوی صاحب لکھتے ہیں: غیرمقلدین وہابی گروپ کو آج کل اہل حدیث کہا جاتاہے(ساٹھ زہریلے سانپ اور مسلک حق اہلسنت، صفحہ 21)

دیوبندی، بریلوی اور قادیانی ،حنفیت کی طرف منسوب ان تینوں فرقوں کی پیدائش انگریز کے دور میں عمل میں آئی ورنہ اس سے پہلے ان تینوں فرقوں کا کسی بھی دور میں کوئی نام و نشان نہ تھا ۔ان تینوں ضال فرقوں کے برعکس اہل حدیث کا وجود دور اوّل سے ہے جس کا ذکر بھی جابجا ہر دور کی کتابوں میں موجود اور محفوظ ہے۔الحمداللہ
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
لفظ وہابی کے بارے
لفظ وہابی کے بارےمیں انگریزوں اور نواب صاحب کی ایک سوچ
ملحوظ رہے کہ نواب صاحب نے وہابی کا لفظ د"لڑنے والوںد" کے لئے اس معنی میں استعمال کیا ہے جس معنی میں انگریز اسے مجاہدین پرلانا چاہتے تھے اور اپنے لئے ان سے متمائز نام د"موحدین ہندد" اختیار کیا ہے؛ نیزاس میں یہ بھی اشارہ ہے کہ یہ جماعت صرف ہندوستان میں ہے اور ہندوستان سے باہر ان دنوں ترکِ تقلید کے عنوان سے کوئی مکتبِ فکرموجود نہ تھا، لفٹینٹ گورنرنے جب یہ درخواست منظور کرلی کہ غیرمقلدین کووہابی نہ کہا جائے تواس میں صراحت کی کہ یہ لوگ وہابیان ملک ہزارہ (مولانا اسماعیل شہید وغیرہم) سے نفرت رکھتے ہیں؛ چنانچہ نواب صاحب لکھتے ہیں:
د"چنانچہ لفٹینٹ گورنرصاحب بہادر موصوف نے اس درخواست کومنظور کیا اورپھرایک اشتہار اس مضمون کا دیا گیا کہ موحدینِ ہند پرشبہ بدخواہی گورنمنٹ عامہ نہ ہو، خصوصاً جولوگ کہ وہابیانِ ملک ہزارہ سے نفرت رکھتے ہوں اور گورنمنٹ ہند کے خیرخواہ ہیں ایسے موحدین مخاطب بہ وہابی نہ ہود"۔
(ترجمانِ وہابیہ:۶۲)
موحدینِ ہند اس وقت تک صرف اس درجہ تک پہنچے تھے کہ لفظ وہابی اُن پرنہ بولا جائے اور مولانا اسماعیل شہیدؒ سے ان کا کوئی تعلق ظاہر نہ ہو؛ لیکن ابھی تک یہ مرحلہ باقی تھا کہ حکومت سے اپنے لئے سرکاری سطح پر لفظ اہلِ حدیث خاص کرالیا جائے اور لفظ وہابی سرکاری طور پر بھی کاغذات سے نکال دیا جائے، یہ خدمت مولانا محمدحسین صاحب بٹالوی نے سرانجام دی۔
نواب صاحب کی جماعتی فکر
ترکِ تقلید کی فضا ہموی محل شبہ میں نہ تھی۔
موحدین ہند کی علمی اور عملی حالت
نواب صاحب کے عہد میں غیرمقلدین اہلحدیث کے نام سے موسوم نہ تھے، ترکِ تقلید کی فضا خاصی معروف ہوچکی تھی اور یہ لوگ موحدینِ ہند کہلاتے تھے، یہ لوگ کس علمی اور عملی حالت میں تھے، اسے خود نواب صاحب سے سنیئے:
د"یہ لوگ معاملات کے مسائل میں حدیث کی سمجھ اور بوجھ سے بالکل عاری ہیں اور اہلِ سنت کے طریق پر ایک مسئلہ بھی استنباط نہیں کرسکتے، حدیث پرعمل کرنے کی بجائے زبانی جمع وخرچ اور سنت کی اتباع کی جگہ شیطانی تسویلات پراکتفا کرتے ہیں اور اس کوعین دین تصور کرتے ہیںد"۔
(الحطہ:۱۵۱)
نواب صاحب نے معاملات کی قید اس لئے لگائی ہے کہ عبادات میں ان لوگوں نے آمین بالجہر اور رفع الیدین وغیرہ کی کچھ روایات ضروریاد کی ہوتی ہیں، سواس سے یہ نہ سمجھا جائے کہ یہ لوگ فنِ حدیث سے کچھ آشنا ہیں، نواب صاحب عبادات میں بھی ان غیرمقلدین سے چنداں موافق نہ تھے، آپ کے صاحبزادہ حسن علی لکھتے ہیں:
د"آپ حنفی نماز کوہمیشہ اقرب الی السنۃ فرماتے رہتے تھےد"۔
(مأثرصدیقی:۱/۳)
پیش نظر رہے کہ عبدالحق بنارسی اور میاں نذیر حسین صاحب کے دور تک یہ حضرات اہلحدیث (اصطلاحِ جدید) میں معروف نہ تھے نہ اس وقت تک یہ اصطلاح باضابطہ طور پرقائم ہوئی تھی، ابھی یہ حضرات ترکِ تقلید کے نام سے پہچانے جاتے تھے، یاموحدین ہند کے نام سے ؟۔
مولانا محمدحسین صاحب بٹالوی
مولانا بٹالوی سنہ۱۲۵۲ھ میں پیدا ہوئے، آپ اور نواب صدیق حسن خاں صاحب ہم اُستاد تھے، مولانا بٹالوی کے استاد بھی مفتی صدرالدین صاحب دہلوی تھے، آپ نے حدیث میاں نذیرحسین صاحب دہلوی سے پڑھی، آپ مولانا عبدالمجید صاحب سوہدروی کا یہ بیان پہلے سن آئے ہیں:
د"لفظ وہابی آپ ہی کی کوششوں سے سرکاری دفاتر اورکاغذات سے منسوخ ہوا اور جماعت کواہلحدیث کے نام سے موسوم کیا گیاد"۔
(مآثرصدیقی:۱/۳)
یہیں سے جماعت اہل حدیث ایک مستقل مکتبِ فکر کے طور پراُبھرتی ہے، یہ صحیح ہے کہ اس فرقے کا مولدومسکن ہندوستان سے باہر کہیں نہیں ملتا؛ یہی وجہ ہے کہ یہ حضرات اہلِ حدیث کہلانے سے پہلے موحدین ہند کہلاتے تھے؛ تاہم یہ ضرور ہے کہ ان دنوں یہ فرقہ اہلِ حدیث کے عنوان سے مشہور نہ تھا اور اس کے تمام علماءتقریباًانہی بزرگوں کے شاگرد اور شاگرد درشاگردہیں جنھیں جماعت کے موسسین کے طور پر ہم ذکر کرآئے ہیں، مولانا حافظ عبدالمنان وزیرآبادی، مولانا سلامت اللہ جیراجپوری، مولانا عبدالوہاب ملتانی (بانی فرقہ امامیہ اہلِ حدیث) اور حافظ محمدلکھوی، حاظ غلام رسول قلعہ یہان سنگھ والے سب میاں نذیر حسین صاحب دہلوی کے ہی شاگرد تھے؛ البتہ غزنی سے چند ایسے اور بزرگ ضرور تشریف لائے جواسمکتبِ فکر میں نئے شامل ہوئے اور پھراپنی محنت وخدمت سے پنجاب میں ایک ممتاز گروہ بن کراُبھرے، یہ گروہ غزنوی نام سے معروف ہے۔
مولانا عبداللہ غزنوی میاں صاحب سے حدیث پڑھ کرواپس غزنی چلے گئے، وہاں مسلمانوں کوترکِ تقلید کی دعوت دی، ان کی یہ تحریک وہاں مسلمانوں کی وحدتِ ملی کوتوڑنے کاموجب سمجھی گئی اور اندیشہ پیدا ہوا کہ کہیں اس کے پیچھے انگریزوں کی افغانستان پرقبضہ کرنے کی سازش کارفرما نہ ہو اس پرحکومتِ افغانستان نے انہیں ملک سے نکال دیا اور یہ حضرات ہندوستان آگئے، ہندوستان میں ان دنوں مولانا محمدحسین بٹالوی غیرمقلدین کے مذہبی ایڈوکیٹ تھے، آپ جہاد کے خلاف رسالہ د"الاقتصادد" لکھ کرانگریزوں کومطمئن کرچکے تھے اور پھرانہیں سرکارِانگلشیہ سے ایک وسیع جاگیر بھی ملی تھی؛ سوہندوستان میں غیرمقلد ہوکر رہنا اب ان حضرات کے لئے چنداں مشکل نہ تھا؛ یہاں کے غیرمقلدوں نے ان علمائے غزنی کا بڑے تپاک سے استقبال کیا۔
پنجاب میں غزنوی علماء کی آمد
مولانا محمدحسین صاحب بٹالوی کے عہد میں پنجاب میں غزنوی علماء کی آمدہوئی، حضرت مولانا عبداللہ غزنوی افغانستان سے جلاوطن ہوئے تھے، ان حضرات کارحجان ترکِ تقلید کی طرف تھا، انہیں یہاں بنابنایا میدان مل گیا، ہندوستان کے دیگر اہلِ حدیث حضرات سے اُن کا ایک موضوع میں اختلاف رہا، یہ حضرات تصوف اور بیعت وسلوک کے قائل تھے، مولانا عبدالجبار غزنوی نے د"اثبات الالہام والبیعۃد" کے نام سے اس موضوع پرایک کتاب بھی لکھی، مولانا عبداللہ غزنوی کے دوبیٹے مولانا عبدالجبار اور مولانا عبدالواحد تھے، مولانا عبدالجبار کے بیٹے مولانا داؤد غزنوی اور مولانا عبدالغفار تھے، مولانا عبدالواحد کی اولاد میں سے مولانا اسماعیل غزنوی اپنے حلقے میں معروف ہوئے، مولانا اسماعیل غزنوی سعودی عرب کے ملک عبدالعزیز بن آلِ سعود کے وزیر رہے ہیں، آپ کے واسطہ سے سعودی عرب کے اور نجد کے علماء اور موحدینِ ہند کے مابین خاصے تعلقات قائم ہوگئے؛ یہاں تک کہ اس مناسبت سے پھرسے لفظ وہابی موحدین ہند پرآگیا، اب یہ لوگ لفظ وہابی سے زیادہ گریز نہ کرتے تھے؛ کیونکہ سعودی تعلقات سے ان کی ایک نسبت آلِ شیخ سے قائم ہوچکی تھی؛ سولفظ وہابی یہاں اور قوت پکڑگیا اِس دور میں غزنوی حضرات جماعت میں اپنی محنت وخدمت سے ایک ممتاز گروہ بن کراُبھرےاور ایک دور تک جماعتِ اہلِ حدیث کی قیادت ان کے ہاتھ میں رہی۔
مولانا ثناء اللہ صاحب امرتسری
مولانا ثناء اللہ صاحب امرتسری علماء دیوبند اور جماعت اہلِ حدیث کے مابین ایک نقطۂ اتصال تھے، آپ دارالعلوم دیوبند کے فاضل تھے؛ مگرمسلک ترکِ تقلید کا ہی رہا؛ تاہم آخر دم تک علماء دیوبند سے بہت قریب کا تعلق رہا، غیرمقلدین میں سے آپ نے مولانا حافظ عبدالمنان وزیرآبادی سے حدیث پڑھی، مولانا محمدحسین صاحب بٹالوی کے بھی شاگرد تھے، ملک کی سیاسی جدوجہد میں بارہا علماء دیوبند کے ساتھ شریک ہوئے اور فرقہ باطلہ کے رد میں بھی علماء دیوبند کے شانہ بشانہ کام کیا، انگریزوں کی ڈائری میں تحریک ریشمی رومال کے ذیل میں لکھا ہے:
د"جنود ربانیہ کی فہرست میں میجر جنرل ہے یہی شخص مولوی ثناء اللہ امرتسری ہے انجمن اہلِ حدیث پنجاب کا صدر ہے، ہندوستان میں شاید سب سے ممتاز وہابی ہے، امرتسر سے شائع ہونے والے ہفت روزہ اردو اخبار اہلِ حدیث کومرتب کرتا ہے،مولوی ثناء اللہ امرتسری مولانا محمود الحسن کا شاگرد ہے اور شاید بیس پچیس برس گزرے ان سے حدیث پڑھی تھید"۔
(تحریک ریشمی رومال د"انگریزوں کی اپنی ڈائرید")
اس سے پتہ چلتا ہے کہ انگریز اب پھر سے لفظ وہابی ان حضرات کے لئے واپس لارہے تھے، نواب صدیق حسن خان صاحب اور مولانا محمدحسین صاحب بٹالوی نے جب رسالہ د"تنسیخِ جہادد" پردستخط کیئے اور وہابیانِ ہزارہ سے نفرت کا اظہار کیا تھا تولفظ وہابی ان موحدینِ ہند سے اُٹھا لیا گیا تھا اور جونہی ان میں سے کسی نے مولانا محمود الحسن سے نسبت ظاہر کردی توپھراُسے وہابی قرار دیا جانے لگا، انگریزی سیاست کے اس مدوجزر میں معلوم نہیں کتنے لوگ ڈوبے ہوں گے۔
مولانا محمدابراہیم صاحب سیالکوٹی
آپ مولانا غلام حسن صاحب سیالکوٹی (شاگرد نواب صدیق حسن صاحب) اور حافظ عبدالمنان صاحب وزیرآبادی کے شاگرد تھے، مولانا ثناء اللہ صاحب امرتسری سے گہرے تعلق کی بناء پریہ بھی علماء دیوبند کے بہت قریب ہوگئے تھے؛ یہاں تک کہ آپ کے بارے میں انگریزوں کی ڈائری میں یہ الفاظ ملتے ہیں:
د"پسرمستری قادر بخش سکنہ سیالکوٹد"۔
مشہور اور نہایت بااثراور متعصب وہابی مبلغ، ہندوستان میں سفر کرتا رہتا ہے اور وہابیوں کے جلسوں میں اور دوسرے فرقوں سے مناظروں کے دوران نہایت پرجوش تقریریں کرتا ہے، اس لئے اس کی ہروقت مانگ رہتی ہے، ظفرعلی کاکٹرحامی ہے اور ثناء اللہ امرتسری کا ساتھی اور مولوی عبدالرحیم عرف بشیر احمد اور عبداللہ پشاوری کتب فروش کا ساتھی ہے۔
(تحریک ریشمی رومال د"انگریزوں کی اپنی ڈائرید")
مولانا وحید الزماں حیدرآبادی، المتوفی: سنہ۱۳۳۸ھ م سنہ۱۹۲۰ء
کتبِ حدیث کے اردو تراجم اور وحید اللغات لکھنے کے باعث آپ فرقہ اہلِ حدیث میں سب سے بڑے مصنف سمجھے جاتے ہیں، نواب صدیق خان کے بعد اس باب میں انہی کا نام ہے، پہلے نواب صاحب نے آپ کوتراجم کے لیے تنخواہ پرملازم رکھا، آپ کے دور میں مولوی شمس الحق عظیم آبادی، مولوی محمدحسین صاحب بٹالوی، مولوی عبداللہ غازی پوری ہولوی فقہ اللہ صاحب پنجابی غیرمقلدین کی نمایاں شخصیتیں تھے، مولانا ثناء اللہ صاحب امرتسری بھی خاصے معروف ہوچکے تھے۔
آپ نے میاں نذیر حسین صاحب سے حدیث پڑھی، غیرمقلد ہونے کے بعد شیعیت کی طرف خاصے مائل ہوگئے، آپ کی کتاب ہدیۃ المہدی آپ کے انہی خیالات کی ترجمان ہے، مجھ کومیرے ایک دوست نے لکھا کہ جب سے تم کتاب د"ہدیۃ المہدید" تالیف کی ہے تواہلِ حدیث کا ایک بڑا گروپـــــ تم سے بددل ہوگئے ہیں اور عامہ اہلِ حدیث کا اعتقاد تم سے جاتا رہا ہے۔(وحیداللغات مادہ شر)
آپ فخرالدین الطویحی شیعی (۱۰۸۵ھ) کی کتاب مطلع نیرین اور مجمع البحرین سے خاصے متأثر تھے، وحیداللغات کی اس قسم کی عبارات انہی خیالات کی تائید کرتی ہیں، شیخین رضی اللہ عنہ کواکثر اہلِ سنت حضرت علیؓ سے افضل کہتے ہیں اور مجھ کواس امر پربھی کوئی قطعی دلیل نہیں ملتی، نہ یہ مسئلہ کچھ اصولِ دین اور ارکانِ دین سے ہے، زبردستی اس کومتکلمین نے عقائد میں داخل کردیا ہے۔(مادہ عثم)
حضرت علیؓ اپنے تئیں سب سے زیادہ خلافت کا مستحق جانتے تھے اور ہے بھی یہی۔(مادہ عجز)
حضرت امیرمعاویہؓ کے بارے میں لکھتے ہیں: ان کی نسبت کلماتِ تعظیم مثل حضرت ورضی اللہ عنہ سخت دلیری اور بیباکی ہے۔(مادہ عجز)
پھرمحرم کے بارے میں رقمطراز ہیں:یہ مہینہ خوشی کا نہیں رہا ـــــ محرم کا مہینہ شہادت کی وجہ سے غم کا ہے۔(مادہ عود:۱/۵، طبع: بنگلور)
محمداشرف یوسف صاحب تحقیق کر لیا کرے :

کسی بھی فرقے کی گمراہی کے لئے اتنی بات کافی ہے کہ وہ نومولود ہے اور اس کے عقائد و اعمال کا صحابہ کے دور میں کوئی وجود نہ تھا۔ اسی طرح کسی فرقے کی حقانیت کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ اسکا منہج عقائد و اعمال بعینہ وہی ہیں جو صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین کے تھے اور یہ خصوصیت اہل حدیث کے علاوہ کسی بھی دوسرے فرقے کو حاصل نہیں۔ اہل حدیث کی اس عظیم الشان خصوصیت کہ یہ قدیم ترین جماعت ہے کو تسلیم کر لینے میں چونکہ ان نو مولود فرقوں کی موت تھی اس لئے ان فرقوں نے بڑی شد و مد سے یہ پروپیگنڈہ کیا کہ کچھ لوگ جو خود کو اہل حدیث کہلاواتے ہیں اصل میں یہ اہل حدیث نہیں بلکہ غیر مقلد ہیں۔ یعنی غیر مقلد کا نیا نام گھڑ کر جماعت اہل حدیث کو ایک نئے فرقے کے روپ میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ۔آل تقلید نے جب جھوٹ کا پہلا مرحلہ طے کرتے ہوئے اہل حدیث کے لئے غیر مقلد کا لفظ مشہور کردیا جس سے ان کا مقصد صرف یہ تھا کہ لوگوں کو بارور کروایا جائے کہ غیر مقلدیت ایک نیا فرقہ ہے جس کا وجود انگریز کے دور سے پہلے نہیں تھا۔حافظ ظہور احمد الحسینی دیوبندی لکھتے ہیں: سب سے خطرناک فتنہ ''غیرمقلدیت'' کا ہے۔اس فتنہ کے کارپرداز اپنے آپ کو ''اہل حدیث''کہلاتے ہیں۔انگریز کے برصغیر میں آنے سے پہلے اس فتنہ کا یہاں کوئی وجود نہیں تھا۔(علمائے دیوبند پر زبیرعلی زئی کے الزامات کے جوابات،صفحہ 8 تا 9)

اس مرحلے کو طے کرنے کے بعد ان کے سامنے یہ مسئلہ آن کھڑا ہوا کہ جب غیر مقلدیت ایک نیا فرقہ ہے تو اس فرقے کا کوئی نہ کوئی بانی بھی ہونا چاہیے کیونکہ کوئی فرقہ خودبخود معرض وجود میں نہیں آتا۔ مثل مشہور ہے کہ ایک جھوٹ کو چھپانے کے لئے سو جھوٹ بولنے پڑتے ہیں۔چونکہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے۔ لہذا دیوبندیوں اور بریلویوں کو بھی اپنا جھوٹ نبھانے کے لئے مزید جھوٹ بولنے پڑے۔ پہلا جھوٹ تو یہی کہ اہل حدیث اصل میں غیرمقلد ہیں جو کہ ایک نیا فرقہ ہے۔دوسرا جھوٹ اس فرقے کے بانی کے حوالے سے بولا گیا چناچہ دیوبندی و بریلوی علماء نے مختلف لوگو ں کو غیر مقلد فرقے کا بانی قرار دیا۔ اور تیسرا جھوٹ ان کے عقائد و اعمال کے بارے میں یہ بولا گیا کہ یہ نئے عقائد و اعمال ہیں جن کا وجود ادوار سلف میں نہیں تھا۔

بریلوی و دیوبندی حضرات کی جھوٹ پر تعمیر کی گئی اس عمارت کو زمین بوس کرنے کے لئے راقم الحروف نے انہی کی کتابوں سے غیر مقلد فرقے کے بانی کے تعین میں ان کا آپس میں زبردست تضاد و اختلاف جمع کیا ہے جو یہ بتانے کے لئے کافی ہے کہ غیر مقلد نام کا نہ تو کوئی فرقہ ہے اور نہ ہی اس کا کوئی بانی ہے اور نہ ہی اس فرقے کے کوئی خود ساختہ اعمال و عقائدہیں۔یہ جوغیر مقلدیت کا اتنا شور سنائی دیتا ہے یہ سب کچھ مقلدین کی شعبدے بازی ہے۔
سچ کی ایک خاصیت ہے کہ یہ تبدیل نہیں ہوتا اور جھوٹ کی پہچان یہ ہے کہ یہ مستقل نہیں رہتا بلکہ تبدیل ہوتا رہتا ہے۔اگر واقعی غیر مقلد نام کا کوئی فرقہ ہوتا تواس کا کوئی بانی بھی ہوتا اور مقلدین اس فرقے کے بانی کے تعین میں یقیناًمتفق ہوتے اور یوں باہم متفرق نہ ہوتے۔چونکہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے اور زیادہ دیر چل نہیں پاتا اسی طرح دیوبندی اور بریلویوں کے آپس کے تضاد و اختلاف نے بھی ان کے اس جھوٹ کو چلنے نہیں دیا۔

باقی جواب اگلی کالم پر --------
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
لفظ وہابی کے بارے
لفظ وہابی کے بارےمیں انگریزوں اور نواب صاحب کی ایک سوچ
ملحوظ رہے کہ نواب صاحب نے وہابی کا لفظ د"لڑنے والوںد" کے لئے اس معنی میں استعمال کیا ہے جس معنی میں انگریز اسے مجاہدین پرلانا چاہتے تھے اور اپنے لئے ان سے متمائز نام د"موحدین ہندد" اختیار کیا ہے؛ نیزاس میں یہ بھی اشارہ ہے کہ یہ جماعت صرف ہندوستان میں ہے اور ہندوستان سے باہر ان دنوں ترکِ تقلید کے عنوان سے کوئی مکتبِ فکرموجود نہ تھا، لفٹینٹ گورنرنے جب یہ درخواست منظور کرلی کہ غیرمقلدین کووہابی نہ کہا جائے تواس میں صراحت کی کہ یہ لوگ وہابیان ملک ہزارہ (مولانا اسماعیل شہید وغیرہم) سے نفرت رکھتے ہیں؛ چنانچہ نواب صاحب لکھتے ہیں:
د"چنانچہ لفٹینٹ گورنرصاحب بہادر موصوف نے اس درخواست کومنظور کیا اورپھرایک اشتہار اس مضمون کا دیا گیا کہ موحدینِ ہند پرشبہ بدخواہی گورنمنٹ عامہ نہ ہو، خصوصاً جولوگ کہ وہابیانِ ملک ہزارہ سے نفرت رکھتے ہوں اور گورنمنٹ ہند کے خیرخواہ ہیں ایسے موحدین مخاطب بہ وہابی نہ ہود"۔
(ترجمانِ وہابیہ:۶۲)
موحدینِ ہند اس وقت تک صرف اس درجہ تک پہنچے تھے کہ لفظ وہابی اُن پرنہ بولا جائے اور مولانا اسماعیل شہیدؒ سے ان کا کوئی تعلق ظاہر نہ ہو؛ لیکن ابھی تک یہ مرحلہ باقی تھا کہ حکومت سے اپنے لئے سرکاری سطح پر لفظ اہلِ حدیث خاص کرالیا جائے اور لفظ وہابی سرکاری طور پر بھی کاغذات سے نکال دیا جائے، یہ خدمت مولانا محمدحسین صاحب بٹالوی نے سرانجام دی۔
نواب صاحب کی جماعتی فکر
ترکِ تقلید کی فضا ہموی محل شبہ میں نہ تھی۔
موحدین ہند کی علمی اور عملی حالت
نواب صاحب کے عہد میں غیرمقلدین اہلحدیث کے نام سے موسوم نہ تھے، ترکِ تقلید کی فضا خاصی معروف ہوچکی تھی اور یہ لوگ موحدینِ ہند کہلاتے تھے، یہ لوگ کس علمی اور عملی حالت میں تھے، اسے خود نواب صاحب سے سنیئے:
د"یہ لوگ معاملات کے مسائل میں حدیث کی سمجھ اور بوجھ سے بالکل عاری ہیں اور اہلِ سنت کے طریق پر ایک مسئلہ بھی استنباط نہیں کرسکتے، حدیث پرعمل کرنے کی بجائے زبانی جمع وخرچ اور سنت کی اتباع کی جگہ شیطانی تسویلات پراکتفا کرتے ہیں اور اس کوعین دین تصور کرتے ہیںد"۔
(الحطہ:۱۵۱)
نواب صاحب نے معاملات کی قید اس لئے لگائی ہے کہ عبادات میں ان لوگوں نے آمین بالجہر اور رفع الیدین وغیرہ کی کچھ روایات ضروریاد کی ہوتی ہیں، سواس سے یہ نہ سمجھا جائے کہ یہ لوگ فنِ حدیث سے کچھ آشنا ہیں، نواب صاحب عبادات میں بھی ان غیرمقلدین سے چنداں موافق نہ تھے، آپ کے صاحبزادہ حسن علی لکھتے ہیں:
د"آپ حنفی نماز کوہمیشہ اقرب الی السنۃ فرماتے رہتے تھےد"۔
(مأثرصدیقی:۱/۳)
پیش نظر رہے کہ عبدالحق بنارسی اور میاں نذیر حسین صاحب کے دور تک یہ حضرات اہلحدیث (اصطلاحِ جدید) میں معروف نہ تھے نہ اس وقت تک یہ اصطلاح باضابطہ طور پرقائم ہوئی تھی، ابھی یہ حضرات ترکِ تقلید کے نام سے پہچانے جاتے تھے، یاموحدین ہند کے نام سے ؟۔
مولانا محمدحسین صاحب بٹالوی
مولانا بٹالوی سنہ۱۲۵۲ھ میں پیدا ہوئے، آپ اور نواب صدیق حسن خاں صاحب ہم اُستاد تھے، مولانا بٹالوی کے استاد بھی مفتی صدرالدین صاحب دہلوی تھے، آپ نے حدیث میاں نذیرحسین صاحب دہلوی سے پڑھی، آپ مولانا عبدالمجید صاحب سوہدروی کا یہ بیان پہلے سن آئے ہیں:
د"لفظ وہابی آپ ہی کی کوششوں سے سرکاری دفاتر اورکاغذات سے منسوخ ہوا اور جماعت کواہلحدیث کے نام سے موسوم کیا گیاد"۔
(مآثرصدیقی:۱/۳)
یہیں سے جماعت اہل حدیث ایک مستقل مکتبِ فکر کے طور پراُبھرتی ہے، یہ صحیح ہے کہ اس فرقے کا مولدومسکن ہندوستان سے باہر کہیں نہیں ملتا؛ یہی وجہ ہے کہ یہ حضرات اہلِ حدیث کہلانے سے پہلے موحدین ہند کہلاتے تھے؛ تاہم یہ ضرور ہے کہ ان دنوں یہ فرقہ اہلِ حدیث کے عنوان سے مشہور نہ تھا اور اس کے تمام علماءتقریباًانہی بزرگوں کے شاگرد اور شاگرد درشاگردہیں جنھیں جماعت کے موسسین کے طور پر ہم ذکر کرآئے ہیں، مولانا حافظ عبدالمنان وزیرآبادی، مولانا سلامت اللہ جیراجپوری، مولانا عبدالوہاب ملتانی (بانی فرقہ امامیہ اہلِ حدیث) اور حافظ محمدلکھوی، حاظ غلام رسول قلعہ یہان سنگھ والے سب میاں نذیر حسین صاحب دہلوی کے ہی شاگرد تھے؛ البتہ غزنی سے چند ایسے اور بزرگ ضرور تشریف لائے جواسمکتبِ فکر میں نئے شامل ہوئے اور پھراپنی محنت وخدمت سے پنجاب میں ایک ممتاز گروہ بن کراُبھرے، یہ گروہ غزنوی نام سے معروف ہے۔
مولانا عبداللہ غزنوی میاں صاحب سے حدیث پڑھ کرواپس غزنی چلے گئے، وہاں مسلمانوں کوترکِ تقلید کی دعوت دی، ان کی یہ تحریک وہاں مسلمانوں کی وحدتِ ملی کوتوڑنے کاموجب سمجھی گئی اور اندیشہ پیدا ہوا کہ کہیں اس کے پیچھے انگریزوں کی افغانستان پرقبضہ کرنے کی سازش کارفرما نہ ہو اس پرحکومتِ افغانستان نے انہیں ملک سے نکال دیا اور یہ حضرات ہندوستان آگئے، ہندوستان میں ان دنوں مولانا محمدحسین بٹالوی غیرمقلدین کے مذہبی ایڈوکیٹ تھے، آپ جہاد کے خلاف رسالہ د"الاقتصادد" لکھ کرانگریزوں کومطمئن کرچکے تھے اور پھرانہیں سرکارِانگلشیہ سے ایک وسیع جاگیر بھی ملی تھی؛ سوہندوستان میں غیرمقلد ہوکر رہنا اب ان حضرات کے لئے چنداں مشکل نہ تھا؛ یہاں کے غیرمقلدوں نے ان علمائے غزنی کا بڑے تپاک سے استقبال کیا۔
پنجاب میں غزنوی علماء کی آمد
مولانا محمدحسین صاحب بٹالوی کے عہد میں پنجاب میں غزنوی علماء کی آمدہوئی، حضرت مولانا عبداللہ غزنوی افغانستان سے جلاوطن ہوئے تھے، ان حضرات کارحجان ترکِ تقلید کی طرف تھا، انہیں یہاں بنابنایا میدان مل گیا، ہندوستان کے دیگر اہلِ حدیث حضرات سے اُن کا ایک موضوع میں اختلاف رہا، یہ حضرات تصوف اور بیعت وسلوک کے قائل تھے، مولانا عبدالجبار غزنوی نے د"اثبات الالہام والبیعۃد" کے نام سے اس موضوع پرایک کتاب بھی لکھی، مولانا عبداللہ غزنوی کے دوبیٹے مولانا عبدالجبار اور مولانا عبدالواحد تھے، مولانا عبدالجبار کے بیٹے مولانا داؤد غزنوی اور مولانا عبدالغفار تھے، مولانا عبدالواحد کی اولاد میں سے مولانا اسماعیل غزنوی اپنے حلقے میں معروف ہوئے، مولانا اسماعیل غزنوی سعودی عرب کے ملک عبدالعزیز بن آلِ سعود کے وزیر رہے ہیں، آپ کے واسطہ سے سعودی عرب کے اور نجد کے علماء اور موحدینِ ہند کے مابین خاصے تعلقات قائم ہوگئے؛ یہاں تک کہ اس مناسبت سے پھرسے لفظ وہابی موحدین ہند پرآگیا، اب یہ لوگ لفظ وہابی سے زیادہ گریز نہ کرتے تھے؛ کیونکہ سعودی تعلقات سے ان کی ایک نسبت آلِ شیخ سے قائم ہوچکی تھی؛ سولفظ وہابی یہاں اور قوت پکڑگیا اِس دور میں غزنوی حضرات جماعت میں اپنی محنت وخدمت سے ایک ممتاز گروہ بن کراُبھرےاور ایک دور تک جماعتِ اہلِ حدیث کی قیادت ان کے ہاتھ میں رہی۔
مولانا ثناء اللہ صاحب امرتسری
مولانا ثناء اللہ صاحب امرتسری علماء دیوبند اور جماعت اہلِ حدیث کے مابین ایک نقطۂ اتصال تھے، آپ دارالعلوم دیوبند کے فاضل تھے؛ مگرمسلک ترکِ تقلید کا ہی رہا؛ تاہم آخر دم تک علماء دیوبند سے بہت قریب کا تعلق رہا، غیرمقلدین میں سے آپ نے مولانا حافظ عبدالمنان وزیرآبادی سے حدیث پڑھی، مولانا محمدحسین صاحب بٹالوی کے بھی شاگرد تھے، ملک کی سیاسی جدوجہد میں بارہا علماء دیوبند کے ساتھ شریک ہوئے اور فرقہ باطلہ کے رد میں بھی علماء دیوبند کے شانہ بشانہ کام کیا، انگریزوں کی ڈائری میں تحریک ریشمی رومال کے ذیل میں لکھا ہے:
د"جنود ربانیہ کی فہرست میں میجر جنرل ہے یہی شخص مولوی ثناء اللہ امرتسری ہے انجمن اہلِ حدیث پنجاب کا صدر ہے، ہندوستان میں شاید سب سے ممتاز وہابی ہے، امرتسر سے شائع ہونے والے ہفت روزہ اردو اخبار اہلِ حدیث کومرتب کرتا ہے،مولوی ثناء اللہ امرتسری مولانا محمود الحسن کا شاگرد ہے اور شاید بیس پچیس برس گزرے ان سے حدیث پڑھی تھید"۔
(تحریک ریشمی رومال د"انگریزوں کی اپنی ڈائرید")
اس سے پتہ چلتا ہے کہ انگریز اب پھر سے لفظ وہابی ان حضرات کے لئے واپس لارہے تھے، نواب صدیق حسن خان صاحب اور مولانا محمدحسین صاحب بٹالوی نے جب رسالہ د"تنسیخِ جہادد" پردستخط کیئے اور وہابیانِ ہزارہ سے نفرت کا اظہار کیا تھا تولفظ وہابی ان موحدینِ ہند سے اُٹھا لیا گیا تھا اور جونہی ان میں سے کسی نے مولانا محمود الحسن سے نسبت ظاہر کردی توپھراُسے وہابی قرار دیا جانے لگا، انگریزی سیاست کے اس مدوجزر میں معلوم نہیں کتنے لوگ ڈوبے ہوں گے۔
مولانا محمدابراہیم صاحب سیالکوٹی
آپ مولانا غلام حسن صاحب سیالکوٹی (شاگرد نواب صدیق حسن صاحب) اور حافظ عبدالمنان صاحب وزیرآبادی کے شاگرد تھے، مولانا ثناء اللہ صاحب امرتسری سے گہرے تعلق کی بناء پریہ بھی علماء دیوبند کے بہت قریب ہوگئے تھے؛ یہاں تک کہ آپ کے بارے میں انگریزوں کی ڈائری میں یہ الفاظ ملتے ہیں:
د"پسرمستری قادر بخش سکنہ سیالکوٹد"۔
مشہور اور نہایت بااثراور متعصب وہابی مبلغ، ہندوستان میں سفر کرتا رہتا ہے اور وہابیوں کے جلسوں میں اور دوسرے فرقوں سے مناظروں کے دوران نہایت پرجوش تقریریں کرتا ہے، اس لئے اس کی ہروقت مانگ رہتی ہے، ظفرعلی کاکٹرحامی ہے اور ثناء اللہ امرتسری کا ساتھی اور مولوی عبدالرحیم عرف بشیر احمد اور عبداللہ پشاوری کتب فروش کا ساتھی ہے۔
(تحریک ریشمی رومال د"انگریزوں کی اپنی ڈائرید")
مولانا وحید الزماں حیدرآبادی، المتوفی: سنہ۱۳۳۸ھ م سنہ۱۹۲۰ء
کتبِ حدیث کے اردو تراجم اور وحید اللغات لکھنے کے باعث آپ فرقہ اہلِ حدیث میں سب سے بڑے مصنف سمجھے جاتے ہیں، نواب صدیق خان کے بعد اس باب میں انہی کا نام ہے، پہلے نواب صاحب نے آپ کوتراجم کے لیے تنخواہ پرملازم رکھا، آپ کے دور میں مولوی شمس الحق عظیم آبادی، مولوی محمدحسین صاحب بٹالوی، مولوی عبداللہ غازی پوری ہولوی فقہ اللہ صاحب پنجابی غیرمقلدین کی نمایاں شخصیتیں تھے، مولانا ثناء اللہ صاحب امرتسری بھی خاصے معروف ہوچکے تھے۔
آپ نے میاں نذیر حسین صاحب سے حدیث پڑھی، غیرمقلد ہونے کے بعد شیعیت کی طرف خاصے مائل ہوگئے، آپ کی کتاب ہدیۃ المہدی آپ کے انہی خیالات کی ترجمان ہے، مجھ کومیرے ایک دوست نے لکھا کہ جب سے تم کتاب د"ہدیۃ المہدید" تالیف کی ہے تواہلِ حدیث کا ایک بڑا گروپـــــ تم سے بددل ہوگئے ہیں اور عامہ اہلِ حدیث کا اعتقاد تم سے جاتا رہا ہے۔(وحیداللغات مادہ شر)
آپ فخرالدین الطویحی شیعی (۱۰۸۵ھ) کی کتاب مطلع نیرین اور مجمع البحرین سے خاصے متأثر تھے، وحیداللغات کی اس قسم کی عبارات انہی خیالات کی تائید کرتی ہیں، شیخین رضی اللہ عنہ کواکثر اہلِ سنت حضرت علیؓ سے افضل کہتے ہیں اور مجھ کواس امر پربھی کوئی قطعی دلیل نہیں ملتی، نہ یہ مسئلہ کچھ اصولِ دین اور ارکانِ دین سے ہے، زبردستی اس کومتکلمین نے عقائد میں داخل کردیا ہے۔(مادہ عثم)
حضرت علیؓ اپنے تئیں سب سے زیادہ خلافت کا مستحق جانتے تھے اور ہے بھی یہی۔(مادہ عجز)
حضرت امیرمعاویہؓ کے بارے میں لکھتے ہیں: ان کی نسبت کلماتِ تعظیم مثل حضرت ورضی اللہ عنہ سخت دلیری اور بیباکی ہے۔(مادہ عجز)
پھرمحرم کے بارے میں رقمطراز ہیں:یہ مہینہ خوشی کا نہیں رہا ـــــ محرم کا مہینہ شہادت کی وجہ سے غم کا ہے۔(مادہ عود:۱/۵، طبع: بنگلور)


محمداشرف یوسف صاحب تحقیق کر لیا کرے :

01۔ دیوبندیوں کے ''امام اہلسنت'' سرفراز خان صفدر صاحب عبدالحق بنارسی کو غیر مقلد فرقے کا بانی قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
سو بانی و مبانی اس فرقہ نواحداث کا عبدالحق ہے جو چند روز سے بنارس میں رہتا ہے۔(الکلام المفید فی اثبات التقلید، صفحہ 136)
اسی طرح امین اوکاڑوی دیوبندی کا بھی یہی موقف ہے۔دیکھئے کہتے ہیں: فرقہ غیر مقلدین کا بانی عبدالحق بنارسی ہے۔(تجلیات صفدر، جلد سوم، صفحہ 633)

02۔ ظہور الحسن کسولوی دیوبندی کسی مجہول اکبر خاں نامی شخص کو غیرمقلد فرقے کا بانی بتا رہے ہیں ۔ لکھتے ہیں:
ایک مرتبہ جامع مسجد دہلی میں اکبر خاں غیر مقلدی کا بانی وعظ کر رہا تھا۔(ارواح ثلاثہ، صفحہ 140)

03۔ مفتی محمد نعیم دیوبندی نے سید نذیر حسین دہلوی رحمہ اللہ کو غیر مقلد فرقے کا بانی بنا ڈالا۔ لکھ رہے ہیں:
فرقہ غیر مقلد کے بانی میاں نذیر حسین دہلوی کے حالات (ادیان باطلہ اور صراط مستقیم، صفحہ 234)

04۔ ابوبکر غازی پوری دیوبندی ایک انوکھا ہی راگ الاپ رہے ہیں ۔موصوف شاہ ولی اللہ حنفی اورانکے پوتے شاہ اسماعیل کو غیر مقلد فرقے کا بانی کہہ رہے ہیں۔چناچہ رقمطراز ہیں:
گذشتہ صفحات میں ہم نے حضرت شاہ ولی اللہ اور حضرت شاہ اسماعیل شہید رحمہااللہ کا کلام بکثرت نقل کیا ہے....لیکن یہ اس لئے کہ ہم ا ن دونوں بزرگوں کے بارے میں جانتے ہیں کہ غیر مقلدین کے ہاں ان کی بڑی اونچی حیثیت ہے...غیر مقلدین کو یہ یقین ہے کہ ہندوستان میں غیر مقلدین کے مذہب کی بنیاد انہوں نے رکھی ہے۔(کچھ دیر غیر مقلدین کے ساتھ، صفحہ 179)
تنبیہ: ابوبکر غازی پوری نے یہ بیان اہل حدیث سے ناحق منسوب کرکے بطور رضامندی اپنی کتاب میں درج کیا ہے اور ا س پر کوئی رد نہیں کیا گویا کہ ابوبکر غازی پوری کے نزدیک بھی غیر مقلد فرقے کے بانی یہ دونوں متذکرہ بالا افرادہی ہیں۔ ہمیں حیرت ہے کہ مقلدین اتنی آسانی سے کیسے اتنے بڑے بڑے جھوٹ بول دیتے ہیں جس کا نہ کوئی سر ہوتا ہے نہ پیر۔ آج تک کسی اہل حدیث نے شاہ ولی اللہ اور شاہ اسماعیل کو اپنے فرقے کا بانی قرار نہیں دیا ۔ابوبکر غازی پوری نے بلاوجہ یہ بات اہل حدیث کے سر تھوپ دی ہے۔ لہذا یہ ابوبکر غازی پوری کا انتہائی شرمناک جھوٹ ہے۔

05۔ الیاس گھمن دیوبندی صاحب غیر مقلد فرقے کے بانی کے تعین میں اپنے حواس پر قابو نہ رکھ سکے اور'' گھوم'' گئے۔چناچہ پہلے تو انھوں نے عبدالحق بنارسی کابانی فرقہ غیرمقلدین ہونا نقل کیا ۔پھر سید نذیر حسین دہلوی رحمہ اللہ کو بابائے غیر مقلدیت قرار دے دیا۔چناچہ غیر مقلدین کے جد امجد مولوی عبدالحق بنارسی کی سرخی قائم کر کے لکھتے ہیں:
اگر آپ کو غیر مقلدین کا جد امجد کہا جائے تو بجا ہے۔پھر لکھتے ہیں : سو بانی و مبانی اس فرقہ نواحداث(غیرمقلدیت) کا عبدالحق ہے ۔(فرقہ اہلحدیث پاک و ہند کا تحقیقی جائزہ،صفحہ 30 تا 31)
اسی کتاب میں آگے چل کاگھمن موصوف کا بیان گھوم( بدل) گیا اور فرقہ غیر مقلدیت کے بانی عبدالحق بنارسی سے میاں نذیر حسین ہوگئے۔ موصوف ایک جلی سرخی لگاتے ہیں : بابائے 'غیر مقلدیت' میاں نذیر حسین دہلوی۔(فرقہ اہلحدیث پاک و ہند کا تحقیقی جائزہ،صفحہ 51)

06۔ ظفر احمد تھانوی دیوبندی کے نزدیک غیر مقلد فرقے کے بانی ابن القیم رحمہ اللہ ہیں۔لکھتا ہے: ''لاٗ ناراٗ ینا اٗن ابن القیم الذی ھو الاٗ ب لنوع ھذہ الفرقۃ'' کیونکہ ہم نے دیکھا کہ ابن القیم اس فرقے کی قسم کا باپ ہے۔(اعلاء السنن ، جلد 20، صفحہ 8)

07۔ ابو سعد دیوبندی صاحب وحیدالزماں حیدرآبادی کے بارے میں دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ فرقہ غیرمقلدیت کا بانی ہے۔چناچہ داود راز رحمہ اللہ کی شرح بخاری سے وحیدالزماں حیدرآبادی کا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے خلاف ایک کلام نقل کرنے کے بعدابو سعد دیوبندی لکھتا ہے:
یہی وہ رافضیت ہے جس کی بنیاد پر یہ ڈیڑھ اینٹ کی غیر مقلدیت کی عمارت کھڑی کی گئی اور یہ اس عمارت کے اولین بانی کے الفاظ ہیں۔العیاذ باللہ(حلالہ کی چھری یا رافضیت کا خنجر ،صفحہ 42)

08۔ مفتی حماد اللہ وحید دیوبندی ،غیرمقلد فرقے کا رہنما، پیشوا اور وبانی ابراھیم نظام معتزلی کو بنانے پر تلے بیٹھے ہیں،چناچہ لکھتے ہیں:
فتنہ پروار اور تحریف فی الدین،ائمہ مجتہدین سے بغاوت اسلاف امت کے اوپر طعن و تشنیع اور اجتہاد و قیاس کی حجت شرعیہ سے انکار کرنے والوں کی فہرست میں غیرمقلدین بھی اپنا نام و شہرت رکھتے ہیں۔اور معاندین میں اپنا اعلی نام رکھتے ہیں۔
ان حضرات نے بھی ابراھیم نظام معتزلی کی طرح ''اطعیو االلہ اور اطیعو االرسول'' کی آواز لگائی ہے۔بلکہ یہاں تک اس کو اپنا رہنما اور پیشوا مانتے ہیں اور اس کے اپنے بنائے ہوئے نظریات کو بھی تسلیم کرتے ہیں۔اور اسی کی اتباع میں نیز انگریز کے بڑوں کو خوش کرنے کے لئے ''اطیعو اللہ و الطیعو الرسول'' کی آواز لگائی۔(حجیت اجماع، صفحہ 185)
عجیب بات ہے یہ عقدہ پہلی مرتبہ حماد اللہ دیوبندی صاحب نے ہی کھولا ہے کہ انگریز اطعیو االلہ اور اطیعو االرسول کی آواز سے خوش ہوتے ہیں! جبکہ ہماری ابتک کی معلومات کے مطابق تو انگریز اور دیگر اسلام دشمن قوتیں ہمیشہ یہی نعرہ لگانے والوں سے خائف رہتی ہیں ۔یہ دشمنان اسلام اگر کسی سے خوش ہوتے ہیں تو یہ'' سعادت ''صرف مقلدین کے حصے میں آتی ہے۔جیسے ایک انگریز نے مدرسہ دیوبند کے معائنہ کے بعد کہا: یہ مدرسہ خلاف سرکار نہیں بلکہ موافق سرکار ممد معاون سرکار ہے۔(محمد احسن نانوتوی،صفحہ 217، فخر العلماء ،صفحہ 60) یہ دیوبندیوں کا اپنا اقرار ہے کہ انگریز انکے مدرسہ کی سرگرمیوں پر بہت خوش تھے۔لیکن اس کے باوجود انگریز کو خوش کرنے کا الزام مخالفین کو دیتے زرا شرم نہیں آتی۔

09۔ حکیم نور احمدیزدانی دیوبندی کے نزدیک غیرمقلد فرقے کے بانی نواب صدیق حسن خان رحمہ اللہ ہیں۔موصوف رقمطراز ہیں:
اور اس بات کا سرے سے قائل ہی نہ تھا کہ کسی بڑے محدث یا فقیہ کی روح پاک سے مدد کی درخواست کی جائے۔جیسا کہ امام الطائفہ نواب صدیق حسن خان رحمتہ اللہ علیہ اس راہ کی مشکلات میں ''شیخ سنت مددے'' کا وظیفہ کیا کرتے تھے۔(اصلی صلوۃ الرسول ﷺ ،صفحہ 20)
اسی طرح بانی مذہب غیرمقلدین کے لئے محمد انصرباجوہ دیوبندی کی نظر انتخاب جس شخصیت پر ٹھہری وہ بھی نواب صدیق حسن خان رحمہ اللہ ہیں۔ انصر باجوہ صاحب لکھتے ہیں: غیر مقلدین کے بانی نواب صدیق حسن خان نبی پاک ﷺ سے مدد طلب کرتے ہوئے یہ شعر کہتے ہیں۔(سہ ماہی قافلہ حق، جلد دوم،شمارہ نمبر6، صفحہ 49)

10۔ مفتی احمد یارخان نعیمی بریلوی صاحب دیوبندی اور غیرمقلد دونوں میں کوئی فرق نہیں کرتے بلکہ ان کو ایک ہی فکر کا علمبردار سمجھتے ہیں اور شاہ اسمٰعیل کو ان کے فرقے کا بانی کہتے ہیں۔دیکھئے لکھتے ہیں:
اسمٰعیل کے معتقدین دو گروہ بنے ایک وہ جنھوں نے اماموں کی تقلید کا انکار کیا جو غیر مقلد یا وہابی کہلاتے ہیں۔دوسرے وہ جنہوں نے دیکھا کہ اس طرح اپنے کو ظاہر کرنے سے مسلمان ہم سے نفرت کرتے ہیں انہوں نے اپنے کو حنفی ظاہر کیا۔(جاء الحق، صفحہ 13)

11۔ محمد اقبال عطاری بریلوی ثنا ء اللہ امرتسری رحمہ اللہ کو غیر مقلدفرقے کا بانی بتا رہے ہیں۔ رقمطراز ہیں:
جیساکہ ان کے امام الوہابیہ مولوی ثناء اللہ امرتسری کا قول ہے۔(وہابی اہل حدیث نہیں بجواب ہم اہل حدیث کیوں ہیں؟، صفحہ 18)
اسی کتاب میں مولانا شبیر احمد رضوی بریلوی ''وہابیوں کے سردار اہل حدیث کی گواہی'' کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں: مولوی بٹالوی صاحب کے بعد اب مولوی ثناء اللہ امرتسری کی گواہی پیش خدمت ہے۔(وہابی اہل حدیث نہیں بجواب ہم اہل حدیث کیوں ہیں؟، صفحہ 97)
یعنی شبیر احمد بریلوی بھی مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ کے فرقہ غیر مقلدیت کے بانی اور سردار ہونے پر اقبال عطاری بریلوی سے متفق ہیں۔

12۔ انیس احمد نوری بریلوی بھی دیوبندی اور اہل حدیث اور انکے بقول غیر مقلدین کو ایک ہی لکڑی سے ہانکتے ہوئے دونوں کو ایک ہی فرقہ قرار دیتے ہیں اور ان کے مذہب کے بانی کے طور پرعلامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا نام پیش کرتے ہیں۔دیکھئے لکھتے ہیں:
تمام دیوبندی اور وہابی یعنی محمد بن عبدالوہاب نجدی کے پیروکار و مقلد۔ اور محمدبن عبدالوہاب نجدی جس کے نقش قدم پر چلا۔جس کی کتب کا مطالعہ کرکے ایک نئے مذہب کی بنیاد ڈالی۔جس کا مقلد بنا۔ وہ ہے ابن تیمیہ۔(سنی بیاض، صفحہ169)
تنبیہ: چونکہ بقول انیس احمد نوری بریلوی کے محمد بن عبدالوہاب علامہ ابن تیمیہ کے مقلد تھے اور انہی کی کتابوں سے استفادہ کرتے تھے تو پھر غیرمقلدین اور دیوبندیوں کے مذہب کے اصل بانی تو علامہ ابن تیمیہ ہوئے ناکہ ان کے مقلد محمد بن عبدالوہاب۔کیونکہ ایک مقلد کبھی بھی نیا مذہب نہیں گھڑ سکتا اگر وہ اس قابل ہوتا تو مقلد کیوں ہوتا؟! بلکہ وہ اپنے امام کے اسی مذہب کا پرچار کرتاہے اور اسی کی طرف دعوت دیتا ہے جس کی وہ تقلید کررہا ہوتا ہے۔اسی وجہ سے انیس احمد نوری بریلوی صاحب نے خود ہی لکھ دیا: کیا ہم ان وہابیوں ،مودودیوں، اسراریوں، ندویوں اور غیر مقلدوں کو مشرک کہیں کہ انھوں نے اپنے امام و پیشواء ابن تیمیہ کو مندرجہ بالا عقیدے پر مشرک نہ لکھانہ جانا؟(سنی بیاض، صفحہ170)

13۔ محمد طفیل رضوی بریلوی صاحب محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کو فرقہ غیرمقلدین کا بانی بتاتے ہیں۔چناچہ لکھتے ہیں:
غیرمقلدین وہابی گروپ کو آج کل اہل حدیث کہا جاتاہے......وہابی گروپ اسلئے کہا جاتا ہے کہ یہ لوگ محمد بن عبدالوہاب نجدی کو اپنا پیشوا اور بانی کہتے ہیں۔(ساٹھ زہریلے سانپ اور مسلک حق اہلسنت، صفحہ 21)

دیوبندیوں کی طرح بریلوی صاحبان بھی جھوٹ بولنے میں ید طولیٰ رکھتے ہیں۔اہل حدیث ہمیشہ ہی محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کے مقلد ہونے کے انکاری رہے ہیں ۔پھر بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ خود ہی محمد بن عبدالوہاب کو اپنے مذہب کا بانی کہیں؟؟؟ یہ محمد طفیل رضوی بریلوی کا سیاہ ترین جھوٹ ہے۔

14۔ بریلوی مذہب کے بانی احمد رضا خان صاحب غیرمقلدین فرقے کے بانی کے لئے نذیر حسین دہلوی رحمہ اللہ کا نام تجویز کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
نذیرحسین دھلوی امام لا مذھباں مجتہد نا مقلداں مخترم طرز نوی مبتدع آزادروی ہے۔(فتاویٰ افریقہ،جلد 2، صفحہ 210، بحوالہ اظہار حقیقت،صفحہ 187)

اوپر کی تفصیل سے ثابت ہوا کہ مقلدین اپنے اس دعوے میں کذاب ہیں کہ اہل حدیث ،غیر مقلد نامی کوئی جدیدفرقہ ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ فرقہ انہوں نے خود ہی گھڑا ہے۔ اور ان کے خود ساختہ غیر مقلد فرقے کے بانی کے تعین میں آپس کے زبردست اختلاف نے ان کے جھوٹ کا پول کھول کر رکھ دیا ہے کیونکہ سچ کی پہچان ہی یہ ہوتی ہے کہ یہ ہمیشہ ایک طرح کا ہوتا ہے جبکہ جھوٹ بدلتا رہتا ہے اور اس میں تضاد ہوتا ہے۔ہماری ان مقلدین سے عرض ہے جو جھوٹ بولنے میں کوئی قباحت و شرم محسوس نہیں کرتے۔ کہ اگر ان پاس اہل حدیث کے خلاف کوئی سچی بات اور مضبوط دلیل ہے تو سامنے لائیں ورنہ مسلسل جھوٹ بول کر اپنا نامہ اعمال سیاہ نہ کریں۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
وھابی کون ہیں اوران کی دعوت کیا ہے

میں کچھ مدت قبل مسلمان ہوا ہوں اوربہت سے لوگوں نےمجھے کہا ہے کہ میں وھابیوں سے دوراوربچ کررہوں ، تووھابی کون ہیں اوران کی دعوت کیا ہے ؟

الحمد للہ
مسلمان پر واجب اورضروری ہے کہ وہ سلف صالحین جوصحابہ کرام اوران کی متبعین جنہون نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طریقے کی پیروی کی ان کے منھج اورطریقے پررہتے ہوۓ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع وپیروی کرے رضی اللہ عنہم اجمعین ۔
اورانہیں اہل سنت والجماعت کا نام دیا جاتا ہے ( اہل سنت والجماعت سے مراد حنفی بریلوی نہیں ) اورجوبھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے پر چلے وہ اہل سنت والجماعت میں شامل ہے ۔
اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم توتوحید لے کرآۓ اور شرک و بدعت کا قلع قمع کیا ، اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم توصرف اکیلے اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کی دعوت لاۓ اوراسی کی دعوت دیتے رہے اس کے علاوہ کسی اورکی عبادت کرنا شرک ہے چاہے وہ دعا ہویا مدد ونصرت اوررزق طلب کرنا ۔
اوررہا کلمہ وھابی تو اس کے بارہ میں گزارش ہے کہ کچھ لوگ اس کلمے کا اطلاق شیخ امام محمد بن عبدالوھاب بن سلیمان التمیمی الحنبلی رحمہ اللہ تعالی کی دعوت پر کرتے ہیں ، انہیں اوران کے طریقے پرچلنے والوں کووھابی کا نام دیتے ہیں ۔
جس کے پاس ہلکی سی بھی بصیرت ہے وہ یہ جانتا ہےکہ امام محمد بن عبدالوھاب رحمہ اللہ تعالی کی تحریک دعوت توخالص توحید پرمبنی تھی اورانہوں نے ہرقسم کے شرک مثلا مردوں سے مرادیں مانگنا ، اوردرختوں پتھروں وغیرہ سے حاجتیں پوری کروانا ان سب سے بچنے کی دعوت دی ۔
اورامام محمد بن عبدالوھاب رحمہ اللہ تعالی کا عقیدہ بھی سلف صالح اورتابعین رحمہم اللہ تعالی کے عقیدہ کے مطابق تھا ، اس کی دلیل ان کی کتابیں اوررسائل اورفتوی ہیں اوران کے بعد آنے والے ان کے بیٹے اورپوتوں وغیرہ کی کتابیں بھی اس کی دلیل میں دیکھی جاسکتی ہیں جو کہ سب کی سب مطبوعہ ہیں اوربازارمیں ملتی اورلوگوں کے درمیان پھیل چکی ہیں ۔
ان کی دعوت کتاب اللہ اورسنت نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم کے موافق ومطابق تھی نہ تووھابیہ ایک طریقہ ہے اورنہ ہی ایک مذھب بلکہ یہ تودعوت توحید اور جوکچھ دینی معالم شعارناپید ہوچکے تھے ان کی تجدید ہے ۔
اس لیے ہم سائل سے گزارش کرتے ہیں کہ جن لوگوں نے آپ کوایسے لوگوں سے بچنے کا کہا ہے آپ ان سے بچ کررہیں اس لیے کہ وہ لوگ آپ کو حق اورامت کے اسلاف کے منھج پرچلنے اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرنے سے روک رہے ہیں ۔
اورہر کلمہ حق کہنے اورصحیح عقیدہ پرچلنےوالے شخص کووھابی کہنااور پھر ایسے لوگوں سے بچنے کا کہنا یہ توجاہلوں لالچی لوگوں کا طریقہ ہے ، ہم اللہ تعالی سے سلامتی وعافیت کے طلبگار ہیں ۔
دیکھیں فتاوی شیخ ابن باز رحمہ اللہ تعالی ( 3 / 1306 ) ۔
واللہ اعلم .
الشیخ محمد صالح المنجد
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
سلفی علماء کا احترام نہ کرنےاورانہيں وھابی کہنے والوں کو نصیحت

آپ ان لوگوں کے بارہ میں کیا کہتے ہیں جوموجودہ دور کے علماء کرام کا کسی بھی سبب کی بنا پر نہ تومعترف ہیں اورنہ ہی ان کی موافقت کرتے ہيں مثلا شيخ عثیمین رحمہ اللہ تعالی اورشیخین علامہ البانی اورابن باز رحمہم اللہ تعالی ؟
اوربعض توانہیں وھابی کہتے ہیں ، اوریہ کہتے ہیں کہ ان لوگوں نے عمومی دین اسلام جسے پر سابق علماء کر اکثریت عمل پیرا تھی کوچھوڑ کرایک نۓ فرقے کی پیروی شروع کررکھی ہے ۔

الحمد للہ
مسلمان پرواجب اورضروری ہے کہ وہ اسلامی تعلیمات کوقبول کرتےہوۓ اس پرعمل کرے ، اس لیے جب بھی کوئ قول یا عمل جس کی دلیل قرآن کریم اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں پائ جاۓ اسے سنے تو اس پرضروری ہے کہ وہ اسے قبول کرے اوراسے باقی سب دوسری اشیاء پر مقدم رکھے ۔
اوراسے لوگوں کے اقوال کو قرآن و سنت اورشرعی دلائل پر پیش کرنا چاہیۓ جوبھی قرآن وحدیث کے موافق ہو اسے قبول کرلے ۔
یہ معلوم ہے کہ شیخ محمد بن عبدالوھاب رحمہ اللہ تعالی کی دعوت توحید کی دعوت تھی اوراس میں انہوں نے مشہور کتاب بھی کتاب التوحید کے نام سے تالیف کی ، اوراس میں انہوں نے توحید پر دلائل دیتے ہوۓ قرآنی آیات اورصحیح احادیث نبویہ ذکر کی ہیں ۔
اس کتاب کی شرح ان کے پوتے عبدالرحمن بن حسن اوران کے علاوہ دوسرے علماء کرام نے لکھی ہے ، اس لیے آج تک ان کے کسی بھی مخالف نے اس کتاب کا کوئ رد نہیں لکھا بلکہ ان میں اتنی طاقت ہی نہیں کہ وہ ان کےدلائل کوباطل کرسکیں ۔
وہ کتاب کا رد تونہ لکھ سکے لیکن شیخ محمد بن عبدالوھاب رحمہ اللہ تعالی کے خلاف جھوٹ اوران پرتہمتیں لگانی شروع کردیں اوران کے صحیح ہونے کا اعتقاد بھی خود ہی کرلیا ، اسی بنا پر مخالف یہ اعتقاد رکھتے ہيں کہ وہ باطل اورگمراہی پر تھے اوراسے مسلمانوں کے علماء کرام کے ساتھ بھی ملا دیا مثلا علامہ البانی اورعلامہ ابن باز رحمہم اللہ تعالی ۔
اوریہ بھی معلوم ہے کہ مذکورہ بالا مشائخ اورعلماء کرام صحیح قول سے نہيں ہٹے نہ تواعتقادی اورنہ ہی عملی طور پر بلکہ وہ اعتقاداور عمل میں اسی طریقہ پر تھے جس پر صحابہ کرام رضي اللہ تعالی عنہم اورتابعین ‏عظام اورآئمہ اربعہ اورکتب ستہ کے مصنفین جیسے محدثین کرام وغیرہ عمل پیرا تھے ۔
جولوگ ان علماء کرام کونہيں مانتے اوران کا اعتراف نہيں کرتے یہ ان کی جہالت کی بنا پر ہے اوریا پھر اندھی تقلید اوریاپھر حسد وبغض اورکینہ و عناد اورخواہشات کی پیروی کی وجہ سے ہے ۔
یا پھر اس کا سبب غلط عادات اور رسم ورواج اوربدعات ومنکرات اوردلیل کی مخالفت ہے ، اوران لوگوں پر پہلے اوربعد میں آنے والے سب علماء کرام نے رد کیا ہے تواس لیے دلیل کی اتباع ضروری ہے اوراسے ہر ایک کے قول پر مقدم رکھنا ضروری ہے ۔
واللہ اعلم .
الشيخ ابن جبرین حفظہ اللہ تعالی ۔

http://islamqa.com/ur/12203
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
"وھابی کی تعریف"
ایک مجرم تمہیں دکھاتا ہوں
جرم اسکے سبھی بتاتا ہوں
دین حق کا وہ شیدائی ہے
موت سے اس کی آشنائی ہے
ہے خدا پر فقط نظر اسکی
ہے جسارت ہے یہ کس قدر اسکی
مصطفی صلی علیہ وسلم صرف رہنما اسکے
بادشاہ ہیں تبھی خفااس سے
آگے آگے قدم بڑھاتاہے
موت کوبھی گلے لگاتاہے
زیر خنجر بھی حق سناتاہے
حق کی خاطر وہ سرکٹاتاہے
سرکٹانا ہے زندگی اسکی
ہے یہی ایک بندگی اسکی
ایک سیلاب ہے جو رکتا نہیں
غیراللہ کے آگےجھکتا نہیں
نہ چور ہے نہ شرابی ھے
جرم اسکاہے کہ وہ وھابی ہے
٭٭٭٭٭٭٭
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
بسم اللہ الرحمن الرحیم **
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ **

حنفی۔ سنا ہے اہلحدیث ایک نیا فرقہ نکلا ہے جو نہ صحابہ کو مانتے ہیں اور نہ اماموں کو، بلکہ بزرگوں کو بھی گالیاں دیتے ہیں۔
محمدی۔ بھئی! یہ سب یاروں کا پروپیگنڈا ہے۔ ورنہ دیانتداری کی بات ہے ہم نہ کسی کو برا کہتے ہیں نہ کسی کو گالی دیتے ہیں بلکہ عزت والوں کی عزت کرتے ہیں اور ماننے والوں کو مانتے ہیں۔

حنفی۔ آپ اماموں کومانتے ہیں؟
محمدی۔ کیوں نہیں۔

حنفی۔ لوگ تو کہتے ہیں آپ نہیں مانتے۔
محمدی۔ عیسائی بھی تو کہتے ہیں کہ مسلمان عیسیٰ علیہ السلام کو نہیں مانتے، تو کیا آپ عیسیٰ علیہ السلام کو نہیں مانتے۔

حنفی۔ ہم تو عیسیٰ علیہ السلام کو مانتے ہیں۔
محمدی۔ پھر عیسائی کیوں کہتے ہیں کہ آپ عیسیٰ علیہ السلام کو نہیں مانتے؟

حنفی۔ اس لئے کہ جیسے وہ مانتے ہیں ویسے ہم نہیں مانتے۔
محمدی۔ اسی طرح سے لوگ ہمیں کہتے ہیں۔ کیونکہ جیسے وہ اماموں کو مانتے ہیں ویسے ہم نہیں مانتے۔

حنفی۔ وہ اماموں کو کیسے مانتے ہیں؟
محمدی۔ نبیوں کی طرح۔

حنفی۔ نبیوں کی طرح کیسے؟
محمدی۔ ان کی پیروی کرتے ہیں ان کے نام پر فرقے بناتے ہیں۔ حالانکہ پیروی اور انتساب صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حق ہے۔ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ عیسائی اور مرزائی جو کافر ہیں وہ تو اپنی نسبت اپنے نبی کی طرف کرکے عیسائی اور احمدی کہلائیں۔ اور آپ مسلمان ہوتے ہوئے اپنے نبی کو چھوڑ کر اپنی نسبت امام کی طرف کریں اور حنفی کہلائیں۔ کیا عیسائی اور مرزائی اچھے نہ رہے جنہوں نے کم از کم نسبت تو اپنے نبی کی طرف کی۔
حنفی۔ آپ جو حنفی نہیں کہلاتے تو کیا آپ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو نہیں مانتے؟
محمدی۔ اگر ہم حنفی نہیں کہلاتے تو اس کے یہ معنی تو نہیں کہ ہم ان کو امام بھی نہیں مانتے۔ ہم ان کو امام مانتے ہیں لیکن نبی نہیں مانتےکہ آپ کی طرح ان کے نام پر حنفی کہلائیں۔
آپ ہی بتائیں آپ جو شافعی نہیں کہلاتے تو کیا آپ امام شافعی کو نہیں مانتے؟
حنفی۔ ہم امام شافعی کو ضرور مانتے ہیں لیکن جب حنفی کہلاتے ہیں تو پھر شافعی کہلانے کی کیا ضرورت ؟
محمدی۔ ہمیں بھی محمدی یا اہل حدیث کہلانے کے بعد حنفی کہلانے کی کیا ضرورت؟

حنفی۔ آپ محمدی کیوں کہلاتے ہیں؟
محمدی۔ آپ اپنے امام کے نام پر حنفی کہلائیں، ہم اپنے نبی کے نام پر محمدی نہ کہلائیں۔ آپ ہی بتائیں نبی بڑا یا امام۔ محمدی نسبت اچھی یا حنفی؟

حنفی۔ نسبت تو محمدی بہتر ہے لیکن حنفی بھی غلط تو نہیں۔
محمدی۔ غلط کیوں نہیں؟
اصلی باپ کے ہوتے ہوئے پھرکسی اور کی طرف منسوب ہونا کس شریعت کا مسئلہ ہے۔
جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے روحانی باپ ہیں تو باپ کوچھوڑ کر کسی اور کی طرف نسبت کرنے کے یہ معنی ہیں کہ وہ اپنے باپ کا نہیں یا پھر غلط کار ہے جو اپنے آپ کو غیر کی طرف منسوب کرتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا '' لا ترغبو عن آبائکم فمن رغب عن ابیہ فقد کفر''(مشکوٰۃ شریف) جو اپنے باپ سے نسبت توڑتا ہے وہ کفر کرتا ہے۔
دوسری حدیث میں فرمایا۔'' من ادعی الی غیر ابیہ وھو یعلم فالجنۃ علیہ حرام'' (مشکوۃ شریف) جو اپنی نسبت جانتے بوجھتے غیر باپ کی طرف کرتا ہے اس پر جنت حرام ہے۔
جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے دینی باپ ہیں تو ان کو چھوڑ کر غیر کی طرف نسبت کرنا بے دینی نہیں تو اور کیا ہے۔
اس کے علاوہ آپ بتائیں حنفی بننے کے لئے کہا کس نے ہے؟ کیا اللہ نے کہا ہے یا اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یا خود امام نے؟

حنفی۔ کہا تو کسی نے نہیں۔
محمدی۔ جب حنفی بننے کے لیے کسی نے کہا نہیں، حنفیت اسلام کی کوئی قسم نہیں ، حنفیت نام کی اسلام میں کوئی دعوت نہیں(لیس لہ دعوۃ فی الدنیا ولا فی الآخرۃ) تو حنفی نسبت غلط کیوں نہیں؟

حنفی۔ حنفی کہلانے والے پہلے جتنے گزرے ہیں کیا وہ سب غلط تھے؟
محمدی۔ پہلے حنفی آج کل جیسے نہ تھے، ان کی یہ نسبت کرنا گمراہی اس وقت بنتی ہے جب مذہبی ہو اور فرقہ پرستی کی بنیاد پر ہو۔ اگر یہ نسبت استادی شاگردی کی ہو تو کوئی حرج نہیں۔
حنفی۔ اگر حنفی کہلانا صحیح نہیں کیونکہ یہ فرقہ پرستی ہے تو پھر اہلحدیث کہلانا بھی تو فرقہ پرستی ہے۔

محمدی۔ اہلحدیث کوئی فرقہ نہیں ۔ اہلحدیث تو عین اسلام ہے۔ اسلام نام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کا ہے اور نبی کی پیروی اس کی حدیث پر عمل کرنے سے ہی ہو سکتی ہے۔
لہٰذا اہلحدیث بنے بغیر تو چارہ ہی نہیں۔
 
Top