حرب بن شداد
سینئر رکن
- شمولیت
- مئی 13، 2012
- پیغامات
- 2,149
- ری ایکشن اسکور
- 6,345
- پوائنٹ
- 437
السلام علیکم۔
آج کل پاکستان میں ایس ایم ایس پیغامات بسااوقات موصول ہوتے ہیں جن میں معاشرتی اُمور کو سامنے رکھتے ہوئے اچھے اور اخلاقی انداز میں کلمات کو خوبصورتی سے جمع کر کے اس پوری روایت کو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے منسوب کردیا جاتا ہے۔۔۔
دوستو! روایات کو وضع کرکے اُمت میں پھیلانے کا یہ کام کوئی نیا نہیں ہے ماضی میں بھی شیعہ روافض اس طرح کی گھناؤنی سازشوں اُمت کو گمراہی کے راستے پر ڈالنے کے سرگرم عمل تھے مگر اُس وقت کے آئمہ اور محدثین نے جب یہ اس بگاڑ کا جائزہ لیا تو اُن سازشی شیعہ رافضیوں کے خلاف اپنی ساری توانیاں خرچ کرکے اُمت کو اس فتنے سے محفوظ رکھا لیکن اگر کل دوبارہ یہ شیعہ رافضی اس میڈیا کو استمعال کرتے ہوئے اپنے جھوٹ اور کذب روایات کو اُمت میں پھیلارہے ہیں۔۔۔ لہذا واضعین حدیث کے حوالے سے ایک چھوٹا ساتعرف پیش خدمت ہے۔۔۔
واضعین حدیث کا تعارف
اسلام میں وضع حدیث کی ابتداء سبائیوں نے کی تھی بعد میں یہ ہی لوگ شیعہ کے نام سے مستقل مذہبی طائفہ کی صورت اختیار کر گئے اب انہوں نے جو کچھ کیا وہ سیاست کی بجائے مذہب کے نام سے کیا حب آل بیت کا نعرہ پہلے ہی لگا رہے تھے اب اس کے ساتھ خلافت، امامت، اور وراثت کا بھی اضافہ کرلیا عام مسلمانوں کی مخالفت سے بچنے کے لئے تقیہ جیسے مفروضہ کو مذہب کا حصہ بنایا جس کے ذریعے ہر قسم کے جھوٹ کو جائز قرار دیا، پس پھر کیا تھا! انہوں نے مطلب براری اور مشن کی تکمیل کے لئے موضوع روایات کے انبار لگادیئے جو اسلام اور مسلمانوں کے لئے نہایت خطرناک ثابت ہوئیں مگر جلد ہی محدثین کرام اور آئمہ عظام ان کی ایسی حرکات سے واقف ہوگئے انہوں نے کمال جرات کے ساتھ شیعوں کے اس گھاؤنے اور اسلام شکن کردار سے پردہ اٹھایا اور واضع کیا کہ اس طائفہ سے تعلق رکھنے والے اکثر راوی قابل اعتماد نہیں ہیں اور ان میں جو غلو پسند ہیں وہ ہر اعتبار سے اسلام دشمن ناقابل حجت ہیں اور ان کی روایت کردہ احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث نہیں بلکہ جھوٹ کا پلندا ہیں جو قابل تسلیم کی بجائے نامقبول اور ردی کی ٹوکری میں پھیکنے کے لائق ہیں امام مالک نے ان کے بارہ میں بڑا جامع تجزیہ کیا ہے فرماتے ہیں!۔
لاتکلمھم ولاترو عنھم فانھم یکذبون
تم ان سے نہ کلام کرو اور نہ ان سے روایت لو بلاشبہ یہ جھوٹ بولتے ہیں۔
امام شافعی رحمہ اللہ عراق میں کئی دفعہ تشریف لے گئے جس وجہ سے انہوں نے اس طائفہ کا قریب سے مطالعہ کیا اور وہ اس نتیجہ پر پہنچے جیسا کہ فرماتے ہیں۔۔۔
ما رایت فی اھل الاھواء قوما اشد بالزور من الرافضہ
میں نے رافضیوں سے زیادہ جھوٹا کسی کو نہیں دیکھا۔
امام شریک رحمہ اللہ جن کی تمام تر زندگی عراق میں گذری وہیں پروان چڑھے اور بالآخر مسند قضا پر براجمان ہوئے قاضی ہونے کے ناطے سے تحقیق و تفتیش ان کی ذمہ داری تھی انہوں نے پوری تحقیق سے یہ معلوم کیا تھا کہ یہ لوگ قابل اعتماد ہیں چنانچہ فرماتے ہیں۔
احمل العلم عن کل من لقیہ الا الرافضہ فانھم یضعون الحدیث ویتخذونہ دینا۔
ہر شخص سے علم حاصل کرو مگر شیعہ رافضی سے نہیں کیونکہ یہ لوگ حدیث وضع کرکے پھر اس کو دین بنا لیتے ہیں۔
بلاشبہ قاضی شریک رحمہ اللہ کا تجزیہ سوفیصد درست ہے ان کے مذہب کی بنیادی روایات اکثر وضع کے قبیل سے ہیں جو ان کی مذہبی کتابوں کے مطالعہ سے معلوم کی جاسکتی ہیں۔
معروف محدث امام یزید بن ہارون رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
یکتب عن کل صاحب بدعہ اذا لم یکن داعیہ الی الرافضہ فانھم یکذبون
ہر اس بدعتی کی روایت لکھ لو جو بدعت کی طرف دعوت نہ دیتا ہو مگر شیعہ رافضیوں سے روایت نہ لکھا کرو کیونکہ یہ جھوٹ بولتے ہیں۔
امام المحقق العلامہ حافظ ابن القیم تو ان کے بارے میں اس نتیجے پر پہنچے تھے جیسا کہ وہ فرماتے ہیں!۔
انھم اکذب خلق اللہ۔۔۔
اللہ تعالٰی کی مخلوق میں یہ (شیعہ رافضی) سب سے زیادہ جھوٹ بولتے ہیں۔۔۔
ان محدثین عظام نے شیعہ رافضیوں کے بارے میں مذکورہ خیالات کا اظہار تعصب اور عناد کی بناء پر نہیں کیا بلکہ انہوں نے ایک چشم دیدگواہ کی طرح ان کے کذب کا مشاہدہ کیا تھا جس کا اعتراف خود ارباب شیعہ نے بھی کیا ہے۔۔۔
امام حماد بن سلمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں مجھے شیعہ رافضیوں کے ایک شیخ نے بتایا کہ!۔
کانوا یجتمعون علی وضع الاحادیث
وہ حدیث کے وضع پر جمع ہوتے ہیں۔
یعنی یہ ایک یا دو کا معاملہ نہیں تھا بلکہ وضع حدیث کے بارہ میں ان کی سوچ اور کردار اجتماعی ہے حافظ ابن حبان نے بھی ایک ایسا واقعہ امام عبداللہ بن یزید مقری سے نقل فرمایا ہے کہ اہل بدعت میں سے ایک آدمی نے بدعت سے توبہ کی تو وہ کہنے لگا۔۔۔
انظروا ھذا الحدیث عمن تاخذونہ کنا اذا راینا رایا جعلنا لہ حدیثا
تم حدیث قبول کرتے وقت تحقیق کیا کرو ہم جب کوئی رائے قائم کرتے تو اس کے لئے حدیث وضع کر لیتے تھے۔
ابن ابی الحدید کا شمار معتدل اور محققین شیعہ میں سے ہے وہ بھی وضع حدیث کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔۔۔
ان اصل الکذب فی حدیث الفضائل جاء من جھہ الشیعہ
بلاشبہ فضائل کی حدیث میں اصل جھوٹ شیعہ کی طرف سے آیا۔۔۔
ویسے تو شیعہ حضرات نے ہر پہلو سے روایات وضع کی ہیں مگر ان کے وضع کا ایک نہایت خطرناک انداز ہے وہ یہ کہ یہ کسی ایسے واقعہ کو لیتے ہیں جو لوگوں میں پہلے سے مشہور ہوتا ہے پھر اس کے ساتھ ایسے کمال طریقہ سے جھوٹ کی آمیزش کرتے ہیں جس سے گمان ہوتا ہے کہ واقعہ بالکل درست ہے چنانچہ دور قریب کے معروف محقق علامہ محب الدین الخطیب ان کی اس تلبیسانہ چال کو طشت ازبام کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔۔۔
انھم کانوا یعمدون الی حادثہ وقعت بالفعل فیور دون منھا ما کان یعرفہ الناس ثم یلصقون بھا لصیقا من الکذب والافک یوھمون انہ اصل الخبر ومن جملہ عناصرہ۔
شیعہ رافضی ایک ایسے واقعے کو لیتے ہیں جو لوگوں میں پہلے سے مشہور ہوتا ہے پھر اس واقعہ کے ساتھ جھوٹ ملا دیتے ہیں جس سے وہم ہوتا ہے کہ انہوں نے جو اپنی طرف سے آمیزش کی ہے وہ بھی اصل واقعہ سے ہے۔
موصوف کا ان کے بارے میں یہ تبصرہ بڑا پُرمغز ہے جس سے رافضیوں کے وضع حدیث کے انداز پر بخوبی روشنی پڑتی ہے اس کی مثالیں دیکھنی ہوں تو ایسے واقعات جو حدیث کی معروف کتابوں میں صحیح سند کے ساتھ موجود ہیں کو ان کی کتابوں میں سے ملاحظہ کریں تو قارئین خود ان میں بعد المشرقین پائیں گے غدیر خم کا واقعہ ہی لیجئے جس کو انہوں نے ایک لمبی چوڑی داستان بنادیا ہے اس طرح حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا واقعہ دیکھ لیں اس پر داستان کا رنگ کتنا غالب ہے کہ اصل حقیقت پرائی ہوکر رہ گئی ہے۔۔۔
اس پوری محنت کا مطلب ہر خاص وعام میں یہ شعور بیدار کرنا مقصود ہے کہ وہ شیعہ رافضیوں کی ان سازشوں سے ہوشیار رہیں ابھی یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نام سے روایات کو ایس ایم ایس پیغامات کے ذریعے معاشرے کے لوگوں میں عام کررہے ہیں تاکہ عام گفتگو میں عامی حضرات جو ان (شیعہ رافضیوں) کے مکر سے واقف نہیں ہیں وہ جب محوو گفتگو ہوں تو دوران گفتگو مثال کے لئے ان غلط روایات کو بیان کریں اور کہیں کے حضرت علی کا قول ہے ہمیں اس طرح کی چال بازیوں سے ہوشیار ہونے کی ضرورت ہے اور اس طرح کے پیغامات بھیجنے والوں سے اس قول کی دلیل طلب کرنی چاہئے تاکہ اختلاف ان کے حوصلوں کو پست کردے اگر ہم مزاحمت نہیں کریں گے تو تاریخ اوپر پیش کردی گئی ہے۔۔۔ آخر میں یہ ہی کہوں گا کے۔۔۔ ذرا سوچئے!۔
والسلام علیکم۔۔۔
آج کل پاکستان میں ایس ایم ایس پیغامات بسااوقات موصول ہوتے ہیں جن میں معاشرتی اُمور کو سامنے رکھتے ہوئے اچھے اور اخلاقی انداز میں کلمات کو خوبصورتی سے جمع کر کے اس پوری روایت کو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے منسوب کردیا جاتا ہے۔۔۔
دوستو! روایات کو وضع کرکے اُمت میں پھیلانے کا یہ کام کوئی نیا نہیں ہے ماضی میں بھی شیعہ روافض اس طرح کی گھناؤنی سازشوں اُمت کو گمراہی کے راستے پر ڈالنے کے سرگرم عمل تھے مگر اُس وقت کے آئمہ اور محدثین نے جب یہ اس بگاڑ کا جائزہ لیا تو اُن سازشی شیعہ رافضیوں کے خلاف اپنی ساری توانیاں خرچ کرکے اُمت کو اس فتنے سے محفوظ رکھا لیکن اگر کل دوبارہ یہ شیعہ رافضی اس میڈیا کو استمعال کرتے ہوئے اپنے جھوٹ اور کذب روایات کو اُمت میں پھیلارہے ہیں۔۔۔ لہذا واضعین حدیث کے حوالے سے ایک چھوٹا ساتعرف پیش خدمت ہے۔۔۔
واضعین حدیث کا تعارف
اسلام میں وضع حدیث کی ابتداء سبائیوں نے کی تھی بعد میں یہ ہی لوگ شیعہ کے نام سے مستقل مذہبی طائفہ کی صورت اختیار کر گئے اب انہوں نے جو کچھ کیا وہ سیاست کی بجائے مذہب کے نام سے کیا حب آل بیت کا نعرہ پہلے ہی لگا رہے تھے اب اس کے ساتھ خلافت، امامت، اور وراثت کا بھی اضافہ کرلیا عام مسلمانوں کی مخالفت سے بچنے کے لئے تقیہ جیسے مفروضہ کو مذہب کا حصہ بنایا جس کے ذریعے ہر قسم کے جھوٹ کو جائز قرار دیا، پس پھر کیا تھا! انہوں نے مطلب براری اور مشن کی تکمیل کے لئے موضوع روایات کے انبار لگادیئے جو اسلام اور مسلمانوں کے لئے نہایت خطرناک ثابت ہوئیں مگر جلد ہی محدثین کرام اور آئمہ عظام ان کی ایسی حرکات سے واقف ہوگئے انہوں نے کمال جرات کے ساتھ شیعوں کے اس گھاؤنے اور اسلام شکن کردار سے پردہ اٹھایا اور واضع کیا کہ اس طائفہ سے تعلق رکھنے والے اکثر راوی قابل اعتماد نہیں ہیں اور ان میں جو غلو پسند ہیں وہ ہر اعتبار سے اسلام دشمن ناقابل حجت ہیں اور ان کی روایت کردہ احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث نہیں بلکہ جھوٹ کا پلندا ہیں جو قابل تسلیم کی بجائے نامقبول اور ردی کی ٹوکری میں پھیکنے کے لائق ہیں امام مالک نے ان کے بارہ میں بڑا جامع تجزیہ کیا ہے فرماتے ہیں!۔
لاتکلمھم ولاترو عنھم فانھم یکذبون
تم ان سے نہ کلام کرو اور نہ ان سے روایت لو بلاشبہ یہ جھوٹ بولتے ہیں۔
امام شافعی رحمہ اللہ عراق میں کئی دفعہ تشریف لے گئے جس وجہ سے انہوں نے اس طائفہ کا قریب سے مطالعہ کیا اور وہ اس نتیجہ پر پہنچے جیسا کہ فرماتے ہیں۔۔۔
ما رایت فی اھل الاھواء قوما اشد بالزور من الرافضہ
میں نے رافضیوں سے زیادہ جھوٹا کسی کو نہیں دیکھا۔
امام شریک رحمہ اللہ جن کی تمام تر زندگی عراق میں گذری وہیں پروان چڑھے اور بالآخر مسند قضا پر براجمان ہوئے قاضی ہونے کے ناطے سے تحقیق و تفتیش ان کی ذمہ داری تھی انہوں نے پوری تحقیق سے یہ معلوم کیا تھا کہ یہ لوگ قابل اعتماد ہیں چنانچہ فرماتے ہیں۔
احمل العلم عن کل من لقیہ الا الرافضہ فانھم یضعون الحدیث ویتخذونہ دینا۔
ہر شخص سے علم حاصل کرو مگر شیعہ رافضی سے نہیں کیونکہ یہ لوگ حدیث وضع کرکے پھر اس کو دین بنا لیتے ہیں۔
بلاشبہ قاضی شریک رحمہ اللہ کا تجزیہ سوفیصد درست ہے ان کے مذہب کی بنیادی روایات اکثر وضع کے قبیل سے ہیں جو ان کی مذہبی کتابوں کے مطالعہ سے معلوم کی جاسکتی ہیں۔
معروف محدث امام یزید بن ہارون رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
یکتب عن کل صاحب بدعہ اذا لم یکن داعیہ الی الرافضہ فانھم یکذبون
ہر اس بدعتی کی روایت لکھ لو جو بدعت کی طرف دعوت نہ دیتا ہو مگر شیعہ رافضیوں سے روایت نہ لکھا کرو کیونکہ یہ جھوٹ بولتے ہیں۔
امام المحقق العلامہ حافظ ابن القیم تو ان کے بارے میں اس نتیجے پر پہنچے تھے جیسا کہ وہ فرماتے ہیں!۔
انھم اکذب خلق اللہ۔۔۔
اللہ تعالٰی کی مخلوق میں یہ (شیعہ رافضی) سب سے زیادہ جھوٹ بولتے ہیں۔۔۔
ان محدثین عظام نے شیعہ رافضیوں کے بارے میں مذکورہ خیالات کا اظہار تعصب اور عناد کی بناء پر نہیں کیا بلکہ انہوں نے ایک چشم دیدگواہ کی طرح ان کے کذب کا مشاہدہ کیا تھا جس کا اعتراف خود ارباب شیعہ نے بھی کیا ہے۔۔۔
امام حماد بن سلمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں مجھے شیعہ رافضیوں کے ایک شیخ نے بتایا کہ!۔
کانوا یجتمعون علی وضع الاحادیث
وہ حدیث کے وضع پر جمع ہوتے ہیں۔
یعنی یہ ایک یا دو کا معاملہ نہیں تھا بلکہ وضع حدیث کے بارہ میں ان کی سوچ اور کردار اجتماعی ہے حافظ ابن حبان نے بھی ایک ایسا واقعہ امام عبداللہ بن یزید مقری سے نقل فرمایا ہے کہ اہل بدعت میں سے ایک آدمی نے بدعت سے توبہ کی تو وہ کہنے لگا۔۔۔
انظروا ھذا الحدیث عمن تاخذونہ کنا اذا راینا رایا جعلنا لہ حدیثا
تم حدیث قبول کرتے وقت تحقیق کیا کرو ہم جب کوئی رائے قائم کرتے تو اس کے لئے حدیث وضع کر لیتے تھے۔
ابن ابی الحدید کا شمار معتدل اور محققین شیعہ میں سے ہے وہ بھی وضع حدیث کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔۔۔
ان اصل الکذب فی حدیث الفضائل جاء من جھہ الشیعہ
بلاشبہ فضائل کی حدیث میں اصل جھوٹ شیعہ کی طرف سے آیا۔۔۔
ویسے تو شیعہ حضرات نے ہر پہلو سے روایات وضع کی ہیں مگر ان کے وضع کا ایک نہایت خطرناک انداز ہے وہ یہ کہ یہ کسی ایسے واقعہ کو لیتے ہیں جو لوگوں میں پہلے سے مشہور ہوتا ہے پھر اس کے ساتھ ایسے کمال طریقہ سے جھوٹ کی آمیزش کرتے ہیں جس سے گمان ہوتا ہے کہ واقعہ بالکل درست ہے چنانچہ دور قریب کے معروف محقق علامہ محب الدین الخطیب ان کی اس تلبیسانہ چال کو طشت ازبام کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔۔۔
انھم کانوا یعمدون الی حادثہ وقعت بالفعل فیور دون منھا ما کان یعرفہ الناس ثم یلصقون بھا لصیقا من الکذب والافک یوھمون انہ اصل الخبر ومن جملہ عناصرہ۔
شیعہ رافضی ایک ایسے واقعے کو لیتے ہیں جو لوگوں میں پہلے سے مشہور ہوتا ہے پھر اس واقعہ کے ساتھ جھوٹ ملا دیتے ہیں جس سے وہم ہوتا ہے کہ انہوں نے جو اپنی طرف سے آمیزش کی ہے وہ بھی اصل واقعہ سے ہے۔
موصوف کا ان کے بارے میں یہ تبصرہ بڑا پُرمغز ہے جس سے رافضیوں کے وضع حدیث کے انداز پر بخوبی روشنی پڑتی ہے اس کی مثالیں دیکھنی ہوں تو ایسے واقعات جو حدیث کی معروف کتابوں میں صحیح سند کے ساتھ موجود ہیں کو ان کی کتابوں میں سے ملاحظہ کریں تو قارئین خود ان میں بعد المشرقین پائیں گے غدیر خم کا واقعہ ہی لیجئے جس کو انہوں نے ایک لمبی چوڑی داستان بنادیا ہے اس طرح حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا واقعہ دیکھ لیں اس پر داستان کا رنگ کتنا غالب ہے کہ اصل حقیقت پرائی ہوکر رہ گئی ہے۔۔۔
اس پوری محنت کا مطلب ہر خاص وعام میں یہ شعور بیدار کرنا مقصود ہے کہ وہ شیعہ رافضیوں کی ان سازشوں سے ہوشیار رہیں ابھی یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نام سے روایات کو ایس ایم ایس پیغامات کے ذریعے معاشرے کے لوگوں میں عام کررہے ہیں تاکہ عام گفتگو میں عامی حضرات جو ان (شیعہ رافضیوں) کے مکر سے واقف نہیں ہیں وہ جب محوو گفتگو ہوں تو دوران گفتگو مثال کے لئے ان غلط روایات کو بیان کریں اور کہیں کے حضرت علی کا قول ہے ہمیں اس طرح کی چال بازیوں سے ہوشیار ہونے کی ضرورت ہے اور اس طرح کے پیغامات بھیجنے والوں سے اس قول کی دلیل طلب کرنی چاہئے تاکہ اختلاف ان کے حوصلوں کو پست کردے اگر ہم مزاحمت نہیں کریں گے تو تاریخ اوپر پیش کردی گئی ہے۔۔۔ آخر میں یہ ہی کہوں گا کے۔۔۔ ذرا سوچئے!۔
والسلام علیکم۔۔۔