- شمولیت
- ستمبر 26، 2011
- پیغامات
- 2,767
- ری ایکشن اسکور
- 5,410
- پوائنٹ
- 562
خفیہ حلالہ سینٹر کے مولوی نے مختلف مردوں سے میرا بار بار حلالہ کرایا
لندن (رپورٹ، آصف ڈار) اپنے شوہر کے ہاتھوں بیک وقت طلاق حاصل کرکے ایک خفیہ حلالہ سینٹر پہنچنے والی ایک پاکستانی مسلمان عورت کا کہنا ہے کہ ایک نام نہاد مولوی نے اسے کئی مردوں کے پاس بھیج کر اس کا حلالہ کردیا اور جب وہ تنگ آگئی اس نے مولوی کی بات ماننے سے انکار کردیا اور واپس اپنے شوہر کے پاس چلی گئی مگر مولوی نے اس کے ذہن پر اس قدر منفی اثرات ڈالے کہ وہ نفسیاتی مریضہ بن گئی۔ پاکستان سے شادی کرکے مڈلینڈز میں سیٹل ہونے والی اس عورت نے اپنی جی پی کو بتایا کہ اس کے شوہر نے غصے میں آکر اسے تین طلاقیں دے دی تھیں۔ چونکہ اس نے پاکستان میں اپنے والدین سے سن رکھا تھا کہ شوہر اگر تین بار طلاق کہہ دے تو طلاق ہوجاتی ہے۔ چنانچہ وہ اپنا شک دور کرنے کے لئے ایک اور پاکستانی عورت کی مدد سے خفیہ حلالہ سینٹر پہنچ گئی جہاں پر بیٹھے ہوئے نام نہاد مولوی نے اس سے کہا کہ اب وہ اپنے شوہر پر حرام ہوچکی ہے اور اسے حلالہ کرنا ہوگا۔ اس نے بتایا کہ وہ اپنے شوہر کے گھر کو چھوڑ کر اپنی ایک دوست کے ساتھ رہنے لگ پڑی تھی کیونکہ وہ سمجھنے لگی تھی کہ اب اس کا شوہر اس کے لئے غیر مرد بن گیا ہے۔ حالانکہ اس کے شوہر نے اسے بارہا سمجھایا اور ایک فتویٰ بھی لاکر دکھایا کہ ان کی طلاق نہیں ہوئی مگر اس نے اپنے شوہر کی بات نہیں سنی بلکہ مولوی کے کہنے میں آکر اس نے مولوی کے بتائے ہوئے ایک مرد کے ساتھ ایک رات کے لئے حلالہ کرلیا تاہم جب وہ کچھ دن بعد وہ اسی مولوی کے پاس دوبارہ گئی تو اس نے اسے بتایا کہ اس کا حلالہ موثر نہیں ہوا۔ لہٰذا اسے ایک مرتبہ پھر حلالہ کرنا پڑے گا۔ اس عورت کی داستان سننے والی جی پی نے جنگ لندن کو اپنا نام خفیہ رکھنے کی شرط پر بتایا کہ چونکہ یہ سادہ لوح عورت مولوی کے چنگل میں پھنس گئی تھی اس لئے مولوی نے خود بھی اس کے ساتھ ایک رات کے لئے حلالہ کیا اور اس کی عزت کو مذہب کی آڑ میں تار تار کیا گیا۔ اس کے اب یہ عورت سمجھتی ہے کہ اس کی سخت توہین کی گئی ہے۔ اس لئے اس کو ڈپریشن ہوگیا ہے اور وہ دل ہی دل میں یہ سمجھتی ہے کہ اب وہ اپنے شوہر کے ساتھ دھوکہ کررہی ہے جسے اس کے حلالوں کے بارے میں کچھ علم نہیں ہے۔ حلالہ کا شکار ہونے والی عورتوں کے ساتھ کام کرنے والی ایک پاکستان نژاد برطانوی سوشل ورکر نے بتایا کہ ان کے پاس اس قسم کے بہت زیادہ کیس آتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اکثر اوقات ان کے پاس ایسے سادہ لوح جینوئین افراد آتے ہیں جو بعض مولویوں کے ہاتھوں لٹ چکے ہوتے ہیں اور ان کے خلاف قانونی کاروائی کرنے کے لئے مشورہ مانگتے ہیں مگر قانون ان کی اس لئے مدد نہیں کرسکتا کہ چونکہ حلالہ کرانے والی عورت خود اپنی اور اپنے شوہر کی مرضی سے حلالہ مولوی کے ساتھ نکاح کرتی ہے۔ چونکہ اس کو ریپ نہیں کہا جاسکتا اس لئے پولیس اس پر کارروائی نہیں کرتی۔ انہوں نے کہا کہ ویسے بھی یہ لوگ اپنی عزت کے ڈر سے معاملے کو زیادہ اچھالنا نہیں چاہتے۔ انہوں نے کہا کہ ان کے پاس ایک ایسی عورت بھی آئی تھی جس کے شوہر نے اسے غصے میں طلاق دے دی مگر بعد میں وہ سخت نادم ہوا اور وہ دونوں ایک مولوی کے پاس گئے۔ مولوی نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ کسی سے حلالہ کرالیں مگر انہوں نے اپنی بدنامی سے بچنے کے لئے مولوی کو حلالہ کرنے کی درخواست دی۔ مولوی نے وعدہ کیا کہ وہ اگلے ہی روز اس عورت کو طلاق دیدے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ جب اگلے روز اس عورت کا سابق شوہر آیا مولوی سے طلاق کا تقاضا کیا تو اس نے صاف انکار کردیا اور کہا کہ وہ اپنی بیوی کو کسی بھی صورت میں طلاق نہیں دے گا۔ اس شخص نے مولوی کی بہت منتیں کیں مگر وہ نہ مانا۔ چنانچہ اس کے شوہر کو اس معاملے میں محلے اور مسجد کے دوسرے لوگوں کو ملوث کرنا پڑا۔ انہوں نے کہا کہ لوگوں کو مولوی کو مارپیٹ کر طلاق پر آمادہ کیا۔ اس سوشل ورکر نے کہا کہ بعض نام نہاد مولوی نو مسلم عورتوں کو سخت پریشان کرتے ہیں اور حلالہ کے نام پر ان کا سخت جنسی استحصال کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ نومسلم عورتیں معلومات نہ رکھنے کی وجہ سے ہر چھوٹی موٹی بات پوچھنے مولویوں کے پاس جاتی ہیں مگر ان میں سے بعض مولوی ان کی کم علمی کا فائدہ اٹھا کر انہیں داغ دار کردیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کے پاس کئی نومسلم عورتیں آئی ہیں جنہوں نے اپنے ساتھ ہونے والے سلوک پر شکایت کی ہے۔ ان میں سے بعض عورتیں اب اسلامی فلاحی اداروں میں بھی مقیم ہیں۔ جہاں ان کی بحالی کا کام ہورہا ہے۔ لندن سے تعلق رکھنے والے ایک سنگل مدر نے اپنا نام افشاء نہ کرنے کی شرط پر جنگ کو بتایا کہ وہ دو مردوں کے درمیان پنگ پانگ بن گئی تھی جس کے بعد اس نے شادیوں سے توبہ کرلی ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی گزار رہی تھی کہ اس کے اپنے شوہر کے ساتھ اختلافات ہوگئے اور انہوں نے ایک دوسرے سے علیحدگی اختیار کرکے طلاق لے لی۔ اس نے بتایا کہ کچھ عرصہ بعد اس نے ایک اور مرد کے ساتھ شادی کرلی مگر ایک دن اس نے غصے میں آکر اسے طلاق دے دی جس کے بعد وہ سخت پریشان بھی ہوا اس نے بتایا کہ وہ اپنے اس شوہر کو نہیں چھوڑنا چاہتی تھی چنانچہ وہ ایک مفتی کے پاس پہنچ گئی جس نے اسے مشورہ دیا کہ اگر وہ اپنے پہلے شوہر کے ساتھ دوبارہ شادی کرکے اس سے طلاق لے لے تو اس کا حلالہ ہوجائے گا اور پھر وہ اپنے دوسرے شوہر کے ساتھ دوبارہ شادی کرسکتی ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ اس نے ایسا ہی کیا اور اپنے پہلے شوہر کو دوبارہ شادی اور طلاق دینے پر آمادہ کریں۔ جب وہ طلاق لے کر دوسرے شوہر کے پاس آئی تو اس نے اسے دوبارہ قبول کرنے سے انکار کردیا۔ جب وہ پھر مفتی کے پاس گئی تو اس نے کہا کہ اگر اب وہ اپنے پہلے شوہر کے ساتھ تیسری مرتبہ شادی کرنا چاہتی ہے اسے کسی اور کے ساتھ حلالہ کرنا پڑے گا۔ اس نے بتایا کہ وہ حلالوں سے تنگ آگئی ہے اور اب اس نے کسی سے شادی نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ اس کا چھوٹا بیٹا اپنی ماں کو شوہر تبدیل کرتے ہوئے دیکھ کر بڑا نہ ہو۔ حلالہ کے حوالے سے مختلف مکاتب فکر کا نکتہ نظر ایک ہی ہے کہ حلالہ محض اس لئے نہیں کیا جاسکتا کہ اس عورت کی اپنے شوہر کے پاس جانے کی خواہش ہوتی ہے اور وہ اس سے دوبارہ نکاح کرنا چاہتی ہے۔ بلکہ تمام علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ طلاق کے بعد اگر کوئی عورت حلالہ کے ارادے کے بغیر کسی دوسرے مرد کے ساتھ شادی کرلے اور کچھ عرصے بعد ان دونوں میں طلاق ہوجائے تو وہ دوبارہ شادی کرسکتے ہیں۔ تاہم حلالہ کے نام پر شادی کرنے کی اسلام میں اجازت نہیں دی گئی۔ اس بارے میں برطانیہ کے مقتدر علماء کرام کا کہنا ہے کہ بعض نام نہاد مولویوں اور مفاد پرستوں نے مذہب کے نام پر دوکانیں لگا رکھی ہیں اور لوگوں کی بھاری اکثریت ان کے چنگل میں پھنس جاتی ہے۔ ان علماء نے لوگوں کو مشورہ دیا ہے کہ انہیں نکاح، شادی، طلاق، خلع وغیرہ کوئی مسئلہ درپیش ہو تو وہ صرف مستند اداروں میں ہی جائیں اور ایسے لوگوں کے ہتھے نہ چڑھیں جو عورتوں کا جنسی استحصال کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ سینٹر کے اندر حلالہ کے حوالے سے جنگ لندن میں ایک سنسنی خیز رپورٹ شائع ہوئی ہے جس میں معروف عالم دین مولانا شفیق الرحمن اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے اس مسئلے کو انتہائی سنگین قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ اس سے برطانوی مسلمانوں کے ہزاروں گھر تباہ ہورہے ہیں۔
حوالہ
لندن (رپورٹ، آصف ڈار) اپنے شوہر کے ہاتھوں بیک وقت طلاق حاصل کرکے ایک خفیہ حلالہ سینٹر پہنچنے والی ایک پاکستانی مسلمان عورت کا کہنا ہے کہ ایک نام نہاد مولوی نے اسے کئی مردوں کے پاس بھیج کر اس کا حلالہ کردیا اور جب وہ تنگ آگئی اس نے مولوی کی بات ماننے سے انکار کردیا اور واپس اپنے شوہر کے پاس چلی گئی مگر مولوی نے اس کے ذہن پر اس قدر منفی اثرات ڈالے کہ وہ نفسیاتی مریضہ بن گئی۔ پاکستان سے شادی کرکے مڈلینڈز میں سیٹل ہونے والی اس عورت نے اپنی جی پی کو بتایا کہ اس کے شوہر نے غصے میں آکر اسے تین طلاقیں دے دی تھیں۔ چونکہ اس نے پاکستان میں اپنے والدین سے سن رکھا تھا کہ شوہر اگر تین بار طلاق کہہ دے تو طلاق ہوجاتی ہے۔ چنانچہ وہ اپنا شک دور کرنے کے لئے ایک اور پاکستانی عورت کی مدد سے خفیہ حلالہ سینٹر پہنچ گئی جہاں پر بیٹھے ہوئے نام نہاد مولوی نے اس سے کہا کہ اب وہ اپنے شوہر پر حرام ہوچکی ہے اور اسے حلالہ کرنا ہوگا۔ اس نے بتایا کہ وہ اپنے شوہر کے گھر کو چھوڑ کر اپنی ایک دوست کے ساتھ رہنے لگ پڑی تھی کیونکہ وہ سمجھنے لگی تھی کہ اب اس کا شوہر اس کے لئے غیر مرد بن گیا ہے۔ حالانکہ اس کے شوہر نے اسے بارہا سمجھایا اور ایک فتویٰ بھی لاکر دکھایا کہ ان کی طلاق نہیں ہوئی مگر اس نے اپنے شوہر کی بات نہیں سنی بلکہ مولوی کے کہنے میں آکر اس نے مولوی کے بتائے ہوئے ایک مرد کے ساتھ ایک رات کے لئے حلالہ کرلیا تاہم جب وہ کچھ دن بعد وہ اسی مولوی کے پاس دوبارہ گئی تو اس نے اسے بتایا کہ اس کا حلالہ موثر نہیں ہوا۔ لہٰذا اسے ایک مرتبہ پھر حلالہ کرنا پڑے گا۔ اس عورت کی داستان سننے والی جی پی نے جنگ لندن کو اپنا نام خفیہ رکھنے کی شرط پر بتایا کہ چونکہ یہ سادہ لوح عورت مولوی کے چنگل میں پھنس گئی تھی اس لئے مولوی نے خود بھی اس کے ساتھ ایک رات کے لئے حلالہ کیا اور اس کی عزت کو مذہب کی آڑ میں تار تار کیا گیا۔ اس کے اب یہ عورت سمجھتی ہے کہ اس کی سخت توہین کی گئی ہے۔ اس لئے اس کو ڈپریشن ہوگیا ہے اور وہ دل ہی دل میں یہ سمجھتی ہے کہ اب وہ اپنے شوہر کے ساتھ دھوکہ کررہی ہے جسے اس کے حلالوں کے بارے میں کچھ علم نہیں ہے۔ حلالہ کا شکار ہونے والی عورتوں کے ساتھ کام کرنے والی ایک پاکستان نژاد برطانوی سوشل ورکر نے بتایا کہ ان کے پاس اس قسم کے بہت زیادہ کیس آتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اکثر اوقات ان کے پاس ایسے سادہ لوح جینوئین افراد آتے ہیں جو بعض مولویوں کے ہاتھوں لٹ چکے ہوتے ہیں اور ان کے خلاف قانونی کاروائی کرنے کے لئے مشورہ مانگتے ہیں مگر قانون ان کی اس لئے مدد نہیں کرسکتا کہ چونکہ حلالہ کرانے والی عورت خود اپنی اور اپنے شوہر کی مرضی سے حلالہ مولوی کے ساتھ نکاح کرتی ہے۔ چونکہ اس کو ریپ نہیں کہا جاسکتا اس لئے پولیس اس پر کارروائی نہیں کرتی۔ انہوں نے کہا کہ ویسے بھی یہ لوگ اپنی عزت کے ڈر سے معاملے کو زیادہ اچھالنا نہیں چاہتے۔ انہوں نے کہا کہ ان کے پاس ایک ایسی عورت بھی آئی تھی جس کے شوہر نے اسے غصے میں طلاق دے دی مگر بعد میں وہ سخت نادم ہوا اور وہ دونوں ایک مولوی کے پاس گئے۔ مولوی نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ کسی سے حلالہ کرالیں مگر انہوں نے اپنی بدنامی سے بچنے کے لئے مولوی کو حلالہ کرنے کی درخواست دی۔ مولوی نے وعدہ کیا کہ وہ اگلے ہی روز اس عورت کو طلاق دیدے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ جب اگلے روز اس عورت کا سابق شوہر آیا مولوی سے طلاق کا تقاضا کیا تو اس نے صاف انکار کردیا اور کہا کہ وہ اپنی بیوی کو کسی بھی صورت میں طلاق نہیں دے گا۔ اس شخص نے مولوی کی بہت منتیں کیں مگر وہ نہ مانا۔ چنانچہ اس کے شوہر کو اس معاملے میں محلے اور مسجد کے دوسرے لوگوں کو ملوث کرنا پڑا۔ انہوں نے کہا کہ لوگوں کو مولوی کو مارپیٹ کر طلاق پر آمادہ کیا۔ اس سوشل ورکر نے کہا کہ بعض نام نہاد مولوی نو مسلم عورتوں کو سخت پریشان کرتے ہیں اور حلالہ کے نام پر ان کا سخت جنسی استحصال کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ نومسلم عورتیں معلومات نہ رکھنے کی وجہ سے ہر چھوٹی موٹی بات پوچھنے مولویوں کے پاس جاتی ہیں مگر ان میں سے بعض مولوی ان کی کم علمی کا فائدہ اٹھا کر انہیں داغ دار کردیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کے پاس کئی نومسلم عورتیں آئی ہیں جنہوں نے اپنے ساتھ ہونے والے سلوک پر شکایت کی ہے۔ ان میں سے بعض عورتیں اب اسلامی فلاحی اداروں میں بھی مقیم ہیں۔ جہاں ان کی بحالی کا کام ہورہا ہے۔ لندن سے تعلق رکھنے والے ایک سنگل مدر نے اپنا نام افشاء نہ کرنے کی شرط پر جنگ کو بتایا کہ وہ دو مردوں کے درمیان پنگ پانگ بن گئی تھی جس کے بعد اس نے شادیوں سے توبہ کرلی ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی گزار رہی تھی کہ اس کے اپنے شوہر کے ساتھ اختلافات ہوگئے اور انہوں نے ایک دوسرے سے علیحدگی اختیار کرکے طلاق لے لی۔ اس نے بتایا کہ کچھ عرصہ بعد اس نے ایک اور مرد کے ساتھ شادی کرلی مگر ایک دن اس نے غصے میں آکر اسے طلاق دے دی جس کے بعد وہ سخت پریشان بھی ہوا اس نے بتایا کہ وہ اپنے اس شوہر کو نہیں چھوڑنا چاہتی تھی چنانچہ وہ ایک مفتی کے پاس پہنچ گئی جس نے اسے مشورہ دیا کہ اگر وہ اپنے پہلے شوہر کے ساتھ دوبارہ شادی کرکے اس سے طلاق لے لے تو اس کا حلالہ ہوجائے گا اور پھر وہ اپنے دوسرے شوہر کے ساتھ دوبارہ شادی کرسکتی ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ اس نے ایسا ہی کیا اور اپنے پہلے شوہر کو دوبارہ شادی اور طلاق دینے پر آمادہ کریں۔ جب وہ طلاق لے کر دوسرے شوہر کے پاس آئی تو اس نے اسے دوبارہ قبول کرنے سے انکار کردیا۔ جب وہ پھر مفتی کے پاس گئی تو اس نے کہا کہ اگر اب وہ اپنے پہلے شوہر کے ساتھ تیسری مرتبہ شادی کرنا چاہتی ہے اسے کسی اور کے ساتھ حلالہ کرنا پڑے گا۔ اس نے بتایا کہ وہ حلالوں سے تنگ آگئی ہے اور اب اس نے کسی سے شادی نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ اس کا چھوٹا بیٹا اپنی ماں کو شوہر تبدیل کرتے ہوئے دیکھ کر بڑا نہ ہو۔ حلالہ کے حوالے سے مختلف مکاتب فکر کا نکتہ نظر ایک ہی ہے کہ حلالہ محض اس لئے نہیں کیا جاسکتا کہ اس عورت کی اپنے شوہر کے پاس جانے کی خواہش ہوتی ہے اور وہ اس سے دوبارہ نکاح کرنا چاہتی ہے۔ بلکہ تمام علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ طلاق کے بعد اگر کوئی عورت حلالہ کے ارادے کے بغیر کسی دوسرے مرد کے ساتھ شادی کرلے اور کچھ عرصے بعد ان دونوں میں طلاق ہوجائے تو وہ دوبارہ شادی کرسکتے ہیں۔ تاہم حلالہ کے نام پر شادی کرنے کی اسلام میں اجازت نہیں دی گئی۔ اس بارے میں برطانیہ کے مقتدر علماء کرام کا کہنا ہے کہ بعض نام نہاد مولویوں اور مفاد پرستوں نے مذہب کے نام پر دوکانیں لگا رکھی ہیں اور لوگوں کی بھاری اکثریت ان کے چنگل میں پھنس جاتی ہے۔ ان علماء نے لوگوں کو مشورہ دیا ہے کہ انہیں نکاح، شادی، طلاق، خلع وغیرہ کوئی مسئلہ درپیش ہو تو وہ صرف مستند اداروں میں ہی جائیں اور ایسے لوگوں کے ہتھے نہ چڑھیں جو عورتوں کا جنسی استحصال کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ سینٹر کے اندر حلالہ کے حوالے سے جنگ لندن میں ایک سنسنی خیز رپورٹ شائع ہوئی ہے جس میں معروف عالم دین مولانا شفیق الرحمن اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے اس مسئلے کو انتہائی سنگین قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ اس سے برطانوی مسلمانوں کے ہزاروں گھر تباہ ہورہے ہیں۔
حوالہ