سنن ابو داود
155- بَاب مَا جَاءَ فِي الْقِيَامِ
۱۵۵-باب: استقبال کے لئے کھڑے ہونے کا بیان
5215- حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ بْنِ سَهْلِ ابْنِ حُنَيْفٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ: أَنَّ أَهْلَ قُرَيْظَةَ لَمَّا نَزَلُوا عَلَى حُكْمِ سَعْدٍ أَرْسَلَ إِلَيْهِ النَّبِيُّ ﷺ ، فَجَاءَ عَلَى حِمَارٍ أَقْمَرَ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ : < قُومُوا إِلَى سَيِّدِكُمْ > أَوْ < إِلَى خَيْرِكُمْ > فَجَاءَ حَتَّى قَعَدَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ۔
* تخريج: خ/الجھاد ۱۶۸ (۳۰۴۳)، المناقب ۱۲ (۳۸۰۴)، المغازي ۳۱ (۴۱۲۱)، الاستئذان ۲۵ (۶۲۶۲)، م/الجھاد ۲۲ (۱۷۶۸)، (تحفۃ الأشراف: ۳۹۶۰)، وقد أخرجہ: حم (۶/۱۴۲) (صحیح)
۵۲۱۵- ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب قریظہ کے لوگ سعد کے حکم (فیصلہ) پر اترے تو نبی اکرم ﷺ نے سعد رضی اللہ عنہ کو بلا بھیجا، وہ ایک سفید گدھے پر سوار ہو کر آئے تو نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' تم اپنے سردار یا اپنے بہتر شخص کی طرف بڑھو''، پھر وہ آئے یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آکر بیٹھ گئے۔
5216- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ شُعْبَةَ، بِهَذَا الْحَدِيثِ، قَالَ: فَلَمَّا كَانَ قَرِيبًا مِنَ الْمَسْجِدِ قَالَ لِلأَنْصَارِ: < قُومُوا إِلَى سَيِّدِكُمْ >۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۳۹۶۰) (صحیح)
۵۲۱۶- اس سند سے بھی شعبہ سے یہی حدیث مروی ہے اس میں ہے :جب وہ مسجد سے قریب ہوئے تو آپ نے انصار سے فرمایا:''اپنے سردار کی طرف بڑھو'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس سے قیام تعظیم کی بابت استدلال درست نہیں کیونکہ ترمذی میں انس رضی اللہ عنہ کی یہ روایت موجود ہے کہ اللہ کے رسول اللہ ﷺ لوگوں میں سب سے زیادہ محبوب تھے پھر بھی لوگ آپ کو دیکھ کر کھڑے نہیں ہوتے تھے، کیونکہ لوگوں کو یہ معلوم تھا کہ آپ کو یہ چیز پسند نہیں۔ دوسری جانب مسند احمد میں''
قوموا إلى سيدكم'' کے بعد ''
فأنزلوه '' کا اضافہ ہے جو صحیح ہے اور اس امر میں صریح ہے کہ لوگوں کو سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے لئے کھڑے ہونے کا جو حکم ملا یہ کھڑا ہونا دراصل سعد رضی اللہ عنہ کو اس زخم کی وجہ سے بڑھ کر اتارنے کے لئے تھا جو تیر کے لگنے سے ہوگیا تھا، نہ کہ یہ قیام تعظیم تھا۔
5217- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ وَابْنُ بَشَّارٍ، قَالا: حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، أَخْبَرَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ مَيْسَرَةَ بْنِ حَبِيبٍ، عَنِ الْمِنْهَالِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ عَائِشَةَ بِنْتِ طَلْحَةَ، عَنْ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ عَائِشَةَ رَضِي اللَّه عَنْهَا أَنَّهَا قَالَتْ: مَا رَأَيْتُ أَحَدًا كَانَ أَشْبَهَ سَمْتًا وَهَدْيًا وَدَلا، وَقَالَ الْحَسَنُ: حَدِيثًا وَكَلامًا، وَلَمْ يَذْكُرِ الْحَسَنُ السَّمْتَ وَالْهَدْيَ وَالدَّلَّ، بِرَسُولِ اللَّهِ ﷺ مِنْ فَاطِمَةَ كَرَّمَ اللَّهُ وَجْهَهَا: كَانَتْ إِذَا دَخَلَتْ عَلَيْهِ قَامَ إِلَيْهَا فَأَخَذَ بِيَدِهَا وَقَبَّلَهَا وَأَجْلَسَهَا فِي مَجْلِسِهِ، وَكَانَ إِذَا دَخَلَ عَلَيْهَا قَامَتْ إِلَيْهِ فَأَخَذَتْ بِيَدِهِ فَقَبَّلَتْهُ وَأَجْلَسَتْهُ فِي مَجْلِسِهَا۔
* تخريج: ت/المناقب ۶۱ (۳۸۷۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۸۸۳، ۱۸۰۴۰) (صحیح)
۵۲۱۷- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے طور طریق اور چال ڈھال میں فاطمہ رضی اللہ عنہا سے بڑھ کر رسول اللہ ﷺ کے مشابہ کسی کو نہیں دیکھا (حسن کی روایت میں ''بات چیت میں'' کے الفاظ ہیں، اور حسن نے ''سمتاً وهدياً ودلا'' (طور طریق اورچال ڈھال) کا ذکر نہیں کیا ہے) وہ جب رسول اللہ ﷺ کے پاس آتیں تو آپ کھڑے ہو کر ان کی طرف لپکتے اور ان کا ہاتھ پکڑ لیتے، ان کو بو سہ دیتے اور اپنے بیٹھنے کی جگہ پر بٹھاتے،اور رسول اللہ ﷺ جب ان کے پاس تشریف لے جاتے تو وہ آپ کے پاس لپک کر پہنچتیں، آپ کا ہاتھ تھام لیتیں، آپ کو بوسہ دیتیں، اور اپنی جگہ پر بٹھاتیں۔