• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

لوہے کی انگوٹھی پہننا

شمولیت
ستمبر 05، 2014
پیغامات
161
ری ایکشن اسکور
59
پوائنٹ
75
[FONT=KFGQPC Uthman Taha Naskh, KFGQPC Uthmanic Script HAFS, Scheherazade, Trebuchet MS, Arial, Helvetica]السلام علیکم ورحمته اللہ وبرکاته
اس حدیث کے متعلق اہل علم راہنمائی فرمائیں خصوصاً @اسحاق سلفی آیا یہ حدیث حسن ہے یا ضعیف
شیخ البانی رحمہ اللہ اس حدیث کو ضعیف جبکہ شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ نے اس حدیث پر حسن کا حکم لگایا ہے۔ مکمل وضاحت کے ساتھ جواب مطلوب ہے۔
[/FONT]
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ أَبِي رِزْمَةَ، - الْمَعْنَى - أَنَّ زَيْدَ بْنَ حُبَابٍ، أَخْبَرَهُمْ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُسْلِمٍ السُّلَمِيِّ الْمَرْوَزِيِّ أَبِي طَيْبَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ رَجُلاً، جَاءَ إِلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم وَعَلَيْهِ خَاتَمٌ مِنْ شَبَهٍ فَقَالَ لَهُ ‏"‏ مَا لِي أَجِدُ مِنْكَ رِيحَ الأَصْنَامِ ‏"‏ ‏.‏ فَطَرَحَهُ ثُمَّ جَاءَ وَعَلَيْهِ خَاتَمٌ مِنْ حَدِيدٍ فَقَالَ ‏"‏ مَا لِي أَرَى عَلَيْكَ حِلْيَةَ أَهْلِ النَّارِ ‏"‏ ‏.‏ فَطَرَحَهُ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مِنْ أَىِّ شَىْءٍ أَتَّخِذُهُ قَالَ ‏"‏ اتَّخِذْهُ مِنْ وَرِقٍ وَلاَ تُتِمَّهُ مِثْقَالاً ‏"‏ ‏.‏ وَلَمْ يَقُلْ مُحَمَّدٌ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُسْلِمٍ ‏.‏ وَلَمْ يَقُلِ الْحَسَنُ السُّلَمِيِّ الْمَرْوَزِيِّ ‏.‏
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
مرد و زن کا لوہے یا پیتل کی انگوٹھی پہننا
شروع از رانا ابو بکر بتاریخ : 28 August 2014 10:18 AM
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا چاندی کے انگوٹھی کے علاوہ لوہے یا پیتل وغیرہ کی انگوٹھی پہننے کا جواز مرد وزن کو ہے؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

لوہے یا پیتل وغیرہ کی انگوٹھی پہننا بعض روایات میں منع آیا ہے اگرچہ روایت میں کلام ہے :(باب ماجاء فی خاتم الحدید سنن ابو دائود ) (صححه الالباني صحيح ابي دائود كتاب الخاتم باب ماجاء في خاتم الحديد (٤٢٢٥) والنسائي (٥٢١٢-5210)
صاحب عون المعبود فرماتے ہیں:
’’ والحديث يدل علي كراهة لبس خاتم الحديد ’’ (٤/١٤٤)
انگوٹھی میں موتی یا ہیرا وغیرہ جڑوانا بظاہر جائز ہے حدیث میں ہے:
’’ كان خاتم النبي صلي الله عليه وسلم من ورق فصه حبشي ’’(صحيح مسلم كتاب اللباس باب في خاتم الورق قصه حبشي (٥٤٨٧) ابو دائود (٤٢١٦) والمشكاة (٤٣٨٨) (سنن ابی دائود ماجاء فی اتخاد الخاتم )

یعنی '' نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی چاندی کی انگوٹھی میں نگینہ حبشی تھا۔''
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’ اي كان حجرا من بلاد الحبشة او علي لون الحبشة او كان جزعا او عقيقا لان ذلك قد يوتي من بلاد الحبشة ’’ (فتح الباري 10/322)
یعنی '' نگینہ ملک حبشہ کے پتھر یا حبشی رنگ یا منکے یا عقیق پتھر کا تھا کیونکہ اسے ملک حبشہ سے برآمد کیا جاتا تھا۔''
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

ج1ص562

محدث فتویٰ
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
السلام علیکم

ورحمته اللہ وبرکاته
اس حدیث کے متعلق اہل علم راہنمائی فرمائیں خصوصاً @

اسحاق سلفی
آیا یہ حدیث حسن ہے یا ضعیف
شیخ البانی رحمہ اللہ اس حدیث کو ضعیف جبکہ شیخ زبیر علی زئی رحمہ

اللہ نے اس حدیث پر حسن کا حکم لگایا ہے۔ مکمل وضاحت کے ساتھ جواب

مطلوب ہے۔[/FONT]
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
’’ فتاوی نور علی الدرب ‘‘ میں علامہ ابن باز فرماتے ہیں :
حكم لبس السلاسل والخواتم من النحاس والحديد في الصلاة
( تانبے اور لوہے کی چین انگوٹھی پہن کر نماز پڑھنے کا شرعی حکم ؟)
س: تقول السائلة: هل صحيح أنه لا تجوز الصلاة بخواتم وسلاسل النحاس؟ أفيدونا أفادكم الله وجزاكم الله خيرا )
سوال :: کیا یہ بات صحیح ہے کہ : تانبے اور لوہے کی چین یا انگوٹھی پہن کر نماز پڑھنا جائز نہیں ؟
ـــــــــــــــــــــــ
ج: ليس بصحيح، ولا حرج في الصلاة بخواتم الذهب في حق المرأة، وخاتم الفضة في حق الجميع، وخاتم الحديد في حق الجميع، لا حرج في ذلك، والحديث الذي في تحريم هذا حديث ضعيف شاذ مخالف للأحاديث الصحيحة، وقال عليه الصلاة والسلام للذي أراد الزواج وليس عنده شيء، قال له: «التمس ولو خاتما من حديد ((1) أخرجه البخاري في كتاب النكاح، باب السلطان ولي، برقم (5135)، ومسلم في كتاب النكاح، باب الصداق وجواز كونه تعليم قرآن وخاتم حديد، برقم (1425))»، فدل على جواز لبس الخاتم من الحديد،
نہیں یہ بات صحیح نہیں ،اور عورت کیلئے سونے کی انگوٹھی پہن کر نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ،اور چاندی اور لوہے کی انگوٹھی پہن کر کسی
کیلئے بھی نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ، اور اس(لوہے کی انگوٹھی ) کی حرمت میں وارد حدیث ضعیف اور شاذ ہے ،اور صحیح احادیث کے خلاف ہے ،اور نبی کریم ﷺ نے شادی کے خواہش مند ایک شخص کو جس کے پاس دینے کیلئے کچھ نہیں تھا اسے فرمایا تھا کہ جا تلاش کر اگر لوہے کی لوہے انگوٹھی ہی مل جائے (تو مہر میں وہی دے دے )یہ حدیث لوہے کی انگوٹھی پہننے کے جواز میں دلیل ہے
(( مکمل حدیث یہ ہے :
ترجمہ :
سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہا کہ میں اپنے آپ کو آپ کے لیے ہبہ کرتی ہوں۔ پھر وہ دیر تک کھڑی رہی۔ اتنے میں ایک مرد نے کہا کہ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی ضرورت نہ ہو تو اس کا نکاح مجھ سے فرما دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ تمہارے پاس انہیں مہر میں دینے کے لیے کوئی چیز ہے؟ اس نے کہا کہ میرے پاس اس تہمد کے سوا اور کچھ نہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تم اپنا یہ تہمد اس کو دے دو گے تو تمہارے پاس پہننے کے لیے تہمد بھی نہیں رہے گا۔ کوئی اور چیز تلاش کر لو۔ اس مرد نے کہا کہ میرے پاس کچھ بھی نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کچھ تو تلاش کرو، ایک لوہے
کی انگوٹھی ہی سہی! اسے وہ بھی نہیں ملی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا۔ کیا تمہارے پاس کچھ قرآن مجید ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ جی ہاں! فلاں فلاں سورتیں ہیں، ان سورتوں کا انہوں نے نام لیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر ہم نے تیرا نکاح اس عورت سے ان سورتوں کے کے بدلے کیا جو تم کو یاد ہیں۔))
وأما الحديث الذي فيه أنه رأى على إنسان خاتما من حديد فقال: «ما لي أرى عليك حلية أهل النار؟، ورأى آخر عليه خاتم من صفر قال: ما لي أجد منك ريح الأصنام؟ ( أخرجه الترمذي في كتاب اللباس، باب ما جاء في الخاتم الحديد، برقم (1785)، وأبو داود أول كتاب الخاتم، باب ما جاء في خاتم الحديد، برقم (4223)، والنسائي في المجتبى في كتاب الزينة مقدار ما يجعل في الخاتم من الفضة، برقم (5195)، واللفظ للترمذي)» فهو حديث ضعيف شاذ مخالف للأحاديث الصحيحة.
اور وہ حدیث جو سیدنا بریدہ رضی الله عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لوہے کی انگوٹھی پہن کر آیا، آپ نے فرمایا: ”کیا بات ہے میں دیکھ رہا ہوں کہ تم جہنمیوں کا زیور پہنے ہو؟“ پھر وہ آپ کے پاس پیتل کی انگوٹھی پہن کر آیا، آپ نے فرمایا: ”کیا بات ہے کہ تم سے بتوں کی بدبو آ رہی ہے؟ پھر وہ آپ کے پاس سونے کی انگوٹھی پہن کر آیا، تو آپ نے فرمایا: ”کیا بات ہے میں دیکھ رہا ہوں کہ تم جنتیوں کا زیور پہنے ہو؟ اس
نے پوچھا: میں کس چیز کی انگوٹھی پہنوں؟ آپ نے فرمایا: ”چاندی کی اور (وزن میں) ایک مثقال سے کم رکھو“۔
یہ حدیث ضعیف اور شاذ ہے ،اور صحیح احادیث کے خلاف ہے ،
ـــــــــــــــــــــــــــــــ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- اس باب میں عبداللہ بن عمرو سے بھی روایت ہے، ۳- عبداللہ بن مسلم کی کنیت ابوطیبہ ہے اور وہ عبداللہ بن مسلم مروزی ہیں۔
اور یہ حدیث سنن ابی داود/ الخاتم ۴ (۴۲۲۳)، سنن النسائی/الزینة ۴۶ (۵۱۹۸)، (تحفة الأشراف : ۱۹۸۲)، و مسند احمد (۵/۳۵۹)
(اس کے راوی عبداللہ بن مسلم ابو طیبہ حافظہ کے کمزور ہیں، انہیں اکثر وہم ہو جایا کرتا تھا)
قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (4396) ، آداب الزفاف (128)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن علامہ شعیب الارناؤط مسند احمد کی تحقیق(۳۸۔۱۴۲ ) میں لکھتے ہیں :
صحيح لغيره دون قوله: فجاء وقد لبس خاتماً من صُفْر، فقال النبي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
"أجد معك ريح أهل الأصنام"، وهذا إسناد حسن في المتابعات والشواهد، عبد الله ابن مسلم -وهو السُّلَمي العامري أبو طَيْبة المَرْوزي- روى عنه جمع، وقال أبو حاتم: يكتب حديثه، ولا يحتج به. وقال أحمد: لا أعرفه. وذكره ابن حبان في "الثقات"، وقال: يخطىء ويخالف، وذكره ابن خلفون في "الثقات"، وقال الذهبي في "الميزان": صالح الحديث. وقال ابن حجر: صدوق يهم. وباقي رجال الإسناد ثقات رجال الشيخين ‘‘

یعنی یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور علامہ شعیب الارناؤط صحیح ابن حبان کی تخریج میں اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں :
قلت: وفي الباب عن عبد الله بن عمرو أن النبي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رأى على بعض أصحابه خاتمًا من ذهب فأعرض عنه، فألقاه، واتخذ خاتماً من حديد، فقال: " هذا شر، هذا حلية أهل النار "، فألقاه، فاتخذ خاتماً من وَرق، فسكت عنه النبي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. أخرجه أحمد 2/163 و179 و211، والبخاري في " الأدب المفرد " (1021) ، والطحاوي 4/261، وسنده حسن.
(تعلیق صحیح ابن حبان جلد ۱۲ صفحہ ۳۰۰ )
یعنی نبی اکرم ﷺ نے ایک صحابی کو سونے کی انگوٹھی پہنے دیکھا تو اس سے بے رخی کی ،اس نے انگوٹھی اتار کر پھینک دی ،اور لوہے کی انگوٹھی بنوالی ،آپ نے فرمایا یہ بھی بری ہے ،کیونکہ یہ جہنمیوں کا زیور ہے، اس نے یہ سن کر وہ بھی پھینک دی ،اور چاندی کی انگوٹھی بنوا کر پہن لی ،اس پر آپ خاموش رہے ،
مسند احمد ،الادب المفرد ،اس کی سند حسن ہے ،
اور علامہ زبیر علی زئی ابوداود کی تخریج میں لکھتے ہیں :
’’ حسن ،عبد اللہ بن مسلم حسن الحدیث علی الراجح ‘‘
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــ۔
هل لبس خاتم الحديد حرام على الرجال ؟
السؤال : سمعت أن لبس خاتم الحديد حرام للرجال ، فنرجو توضيح الموضوعمع ذكر الأدلة.
سوال : کیا مردوں کیلئے لوہے کی انگوٹھی پہننا حرام ہے ؟
ــــــــــــــــــــــــــ
الجواب :
الحمد لله
"عن عبد الله بن بريدة عن أبيه رضي الله عنهما : أن رجلاً جاء النبي صلى اللهعليه وسلم وعليه خاتم من ذهب ، فقال : ( مالي أجد منك ريح الأصنام ؟)
فطرحه ، ثم جاء وعليه خاتم من حديد ، فقال : (ما لي أرى عليك حلية أهل النار؟) فطرحه ، فقال : يا رسول الله من أي شيء أتخذه ؟ قال : ( اتخذه من ورقولا تتمه مثقالاً )
أخرجه أبو داود والترمذي والنسائي قال الترمذي : هذا حديثغريب ، وعن إياس بن الحارث بن المعيقيب عن جده قال : كان خاتم النبي صلىالله عليه وسلم من حديد ملوي عليه فضة ، قال فربما كان في يدي ، قال ، وكان
المعيقيب على خاتم النبي صلى الله عليه وسلم ، خرجه أبو داود والنسائي. وفيالصحيحين عن سهل بن سعد الأنصاري رضي الله عنه ، أن النبي صلى اللهعليه وسلم قال للذي خطب المرأة التي وهبت نفسها للنبي صلى الله عليه وسلم :

(التمس ولو خاتماً من حديد) وهذا يدل على جواز لبس الخاتم من الحديد ، كمايدل عليه حديث معيقيب ، أما حديث بريدة المذكور آنفاً ففي سنده ضعف ، وبذلكيتضح أن الراجح عدم كراهة لبس الخاتم من الحديد ، ولكن لبس الخاتم منالفضة أفضل ؛ لأن النبي صلى الله عليه وسلم كان خاتمه من فضة كما ثبت فيالصحيحين.
وبالله التوفيق ، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم" انتهى.
اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء .
الشيخ عبد العزيز بن عبد الله بن باز ... الشيخ عبد الرزاق عفيفي ... الشيخ

عبد الله بن غديان .
"فتاوى اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء" (24/64) .


الإسلام سؤال وجواب
 
شمولیت
جون 05، 2018
پیغامات
266
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
79
*لوہے کی انگوٹھی*

بقلم: مامون رشید ہارون رشید سلفی

فیشن کا دور ہے لوگ تجمل وتزین اور آرائش وزیبائش میں قسم قسم کے نسخے آزماتے ہیں خوبصورت دیکھنے اور دیدہ زیب دکھنے کی خاطر مختلف وسائل اپناتے ہیں انواع و اقسام کے لباس، بھانت بھانت کے زیورات اور دیگر سامان سنگار سے سجنے سنورنے کا خاصا اہتمام کرتے ہیں انہیں وسائل آرائش میں سے ایک انگوٹھی بھی ہے... انگوٹھی مختلف قسم کی دھاتوں جسے سونے چاندی لوہے تانبے وغیرہ سے بنتی ہے جبکہ اللہ کے رسول سے صرف چاندی کی انگوٹھی پہننے کا ثبوت موجود ہے لہذا شرعی تعلیمات سے محبت رکھنے والے مسلمانوں کے لیے یہ بات بھی اہم ہے کہ وہ چاندی کے علاوہ دیگر دھاتوں سے بنی انگوٹھیوں کے بارے میں اسلام کا حکم دریافت کریں چنانچہ بسا اوقات بعض احباب کی جانب سے اس طرح کا سوال آتا ہے کہ لوہے کی انگوٹھی پہننا شرعا کیسا ہے کیا یہ جائز ہے یا شریعت میں کہیں اس کی ممانعت وارد ہوئی ہے اس مختصر مضمون میں لوہے کی انگوٹھی کے سلسلے میں چند تحقیقی باتیں آ گئی ہیں جو ان شاء اللہ قارئین کے لیے مفید ثابت ہوں گی-

سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ مسئلہ ہذا میں اہل علم کا اختلاف ہے :
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ لوہے کی انگوٹھی پہننا جائز اور درست ہے جن میں امام ابراہیم نخعی، ابن عبد البر، امام ابن باز ،ابن عثیمین اور سعودی فتوی کمیٹی وغیرہ علمائے کرام ہیں .
ان حضرات کے دلائل :
پہلی دلیل: منع اور عدم جواز پر کوئی دلیل نہیں ہے اور اصول فقہ میں یہ قاعدہ معروف یے کہ .."الأصل في الأشياء الحل حتى يثبت تحريمه بوجه يعتد به "

دوسری دلیل :اللہ کے رسول کا فرمان اس صحابی کے لیے جنہوں نے اس عورت سے نکاح کیا تھا جس نے اپنے کو رسول کے لیے ہبہ کر دیا تھا " التمس ولو خاتما من حديد " ( بخاری ومسلم)
وجہ استدلال یہ ہے کہ اگر لوہے کی انگوٹھی پہننا جائز نہ ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسی چیز کو مہر بنانے کی اجازت نہ دیتے جس کا استعمال حرام ہو ...جیساکہ جب شراب کی حرمت وارد ہوئی تو صحابہ نے فرمائش کی کہ اس کو بیچ کر اس کی قیمت سے اسفتادہ کر لینے کی اجازت مرحمت فرمائیں چنانچہ رسول اللہ نے کہا کہ نہیں سب بہا دو جو خود حرام ہے اس کی قیمت بھی حرام ہے ...اور یہ بات معروف ہے کہ انگوٹھی سے استفادہ صرف پہن کر ہی کیا جا سکتا ہے ...لہذا معلوم ہوا کہ جب انگوٹھی رکھنا اور بطور مہر بیوی کو دینا جائز ہے تو اس کا پہننا بھی جائز ہے ...بنا بر ایں بعض حضرات کا یہ کہنا کہ حدیث مذکور میں لوہے کی انگوٹھی کے جواز کی دلیل نہیں ہے بلکہ اس کا معاملہ سونے کی طرح ہے آدمی کے لیے اس کا استعمال تو ممنوع ہے لیکن مہر میں عورت کو دینا جائز ہے کیونکہ اس کو (یعنی لوہے کی انگوٹھی کو ) بطور مہر دینے سے یہ لازم نہیں آتا کہ عورت اس کو پہنے گنجائش ہے کہ عورت اس کو فروخت کرکے اس کی قیمت سے استفادہ کرے .. مبنی بر خطا ہے کیونکہ سونا اصلا حلال الاستعمال ہے صرف مردوں کے لئے اس کا پہننا حرام ہے جبکہ لوہے کی انگوٹھی کا استعمال بلا تفریق مرد وزن آپ حرام قرار دیتے ہیں اور جیسا کہ ہم نے بتایا کہ انگوٹھی سے فائدہ صرف پہن کر ہی اٹھایا جاتا ہے لہذا جب اس کا پہننا مرد وعورت کسی کے لیے بھی جائز نہ رہا تو اس کی اصل ہی ممنوع قرار پائی ..اور جو چیز اصلا ممنوع اور حرام ہو تو اس کا استخدام سوائے مستثنیات کے بہر صورت ممنوع ہے ..لہذا ایسے لوگوں کو غور کرنے کی ,ضرورت ہے ..

تیسری دلیل: ” كان خاتم النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَليه وَسَلَّمَ مِنْ حديد مَلْوِيٌّ عليه فِضّة“ ( ابو داود نسائی ) اس حدیث میں مذکور ہے کہ اللہ کے رسول کی انگوٹھی لوہے کی تھی جس پر چاندی ملی (مونڈی) ہوئی تھی ..
اس حدیث کو امام نووی ,ابن مفلح ,ابن حجر ,ملا علی قاری ,شمس الحق عظیم آبادی ,محمد عبدر الرحمن مبارکپوری صاحب تحفۃ اور معاصرین میں سے شیخ شعیب أرنؤوط وغیرہ نے جید قوی اور حسن قرار دیا ہے ..

چوتھی دلیل:مصنف ابن ابی شیبۃ کے اندر مروی حضرت عبد اللہ بن مسعود کا اثر جسکو امام احمد نے صحیح قرار دیا ہے کہ آپ لوہے کی انگوٹھی پہنتے تھے ..

اور کچھ لوگ عدم جواز کے قائل ہیں جن میں نووی ابن حجر اور معاصرین میں سے شیخ البانی کے مشہور شاگرد مشہور حسن آل سلمان(مبتدع صاحب الطامات والبلایا ) ہیں ..دلائل :
پہلی دلیل :
عن عبد الله بن بريدة عن أبيه رضي الله عنهما : أن رجلاً جاء النبي صلى الله عليه وسلم وعليه خاتم من ذهب ، فقال : ( مالي أجد منك ريح الأصنام ؟) فطرحه ، ثم جاء وعليه خاتم من حديد ، فقال : (ما لي أرى عليك حلية أهل النار ؟) فطرحه ، فقال : يا رسول الله من أي شيء أتخذه ؟ قال : اتخذه من ورق ولا تتمه مثقالاً )..اس حدیث کو ابوداود ترمذی نسائی وغیرہ ائمہ حدیث نے روایت کیا ہے ( اس حدیث میں لوہے کی انگوٹھی کو جہنمیوں کا زیور قرار دیا گیا ہے ) ..لیکن یہ حدیث ضعیف ہے خود امام ترمذی نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے ..اسی طرح امام ابن عدی , ابن عبد البر ,ابن رجب ,ذہبی ,شوکانی اور البانی وغیرہم رحمہم اللہ نے بھی ضعیف قرار دیا ہے ..
دوسری دلیل اسی مفہوم میں مروی حضرت عمر کا اثر ...لیکن یہ بھی ضعیف ہے جیسا کہ تمہید میں ابن عبد البر نے اس کوضعیف قرار دیا ہے ..

تیسری دلیل :حضرت عمر ہی کا اثر جو کہ مصنف ابن ابی شیبہ کے اندر ہے «أن عمر رأى على رجل خاتم حديد , فكرهه»
اس میں ہے کہ حضرت عمر نے لوہے کی انگوٹھی کو مکروہ جانا ..
خلاصہ کلام یہ ہے کہ لوہے کی انگوٹھی پہننا جائز ہے کیونکہ عدم جواز اور تحریم کے سلسلے میں مروی تمام آحادیث ضعیف ہیں ..جبکہ اصل اشیاء میں حلت واباحت ہے حتی کہ صحیح دلیل کی روشنی میں حرمت ثابت ہو جائے ... ساتھ ہی انگوٹھی کے استعمال کی حلت پر دلالت کرنے والے صحیح دلائل بھی موجود ہیں جیسا کہ ہم نے اوپر ذکر کیا ہے..
واللہ اعلم ..
 
شمولیت
جون 05، 2018
پیغامات
266
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
79
.

سوال
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا لوہے کی انگوٹھی پہننا جائز ہے؟ بعض لوگ صحیح بخاری وغیرہ کی اس حدیث سے استدلال کرتے ہیں جس میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اپنے ایک صحابی کے نکاح کا ارادہ کیا تو فرمایا۔ التمس ولو خاتما من حديد حق مہر کےلیے تلاش کرو۔اگرچہ ایک لوہے کی انگوٹھی ہی مل جائے۔ تو کیا یہ حدیث لوہے کی انگوٹھی پہننے کی دلیل بن سکتی ہے؟

~~~~؛

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
خالص لوہے کی انگوٹھی پہننا شرعاً درست نہیں ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا:عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ:

" أن رجلا أتى النبي صلى الله عليه وسلم وفي يده خاتم من ذهب ، فاعرض النبي صلى الله عليه وسلم عنه ، فلما رأى الرجل كراهيته ، ذهب فألقى الخاتم ، وأخذ خاتما من حديد فلبسه، وأتى النبي صلى الله عليه وسلم قال: "هذا شر؛ هذا حلية أهل النار". فرجع، فطرحه، ولبس خاتما من ورق، فسكت عنه النبي صلى الله عليه وسلم.
(الادب المفرد للبخاری ، باب ترک السلام علی المتخلق واصحاب المعاصی1021۔مسند احمد 2/163،179)

"ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔اس کے ہاتھ میں سونے کی انگوٹھی تھی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منہ موڑ لیا۔ جب اس آدمی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ناپسند یدگی دیکھی تو سونے کی انگوٹھی اتاردی اور لوہے کی انگوٹھی لے کر پہن لی اور (دوبارہ)نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیاتو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:یہ بد ترین ہے۔ جہنم والوں کا زیور ہے۔ وہ پلٹ گیا اور اسے اتار کر پھینک دیا اور چاندی کی انگوٹھی پہن لی۔اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے۔"

علامہ البانی حفظہ اللہ فرماتے ہیں یہ سند جید ہے۔ اس جیسی سند سے امام بخاری نے بخاری شریف کے علاوہ دیگر کتب میں اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ ، امام اسحاق بن راہویہ رحمۃ اللہ علیہ اور امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ نے احتجاج کیا۔ غایۃ المرام فی تخریج الاحدیث الحلال والحرام ص:68اور اسی طرح آداب الزفاف ص:217میں اس کے شواہد بھی ذکر کئے گئے ہیں۔

بریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ:

"عن عبد الله بن بريدة، عن أبيه أن رجلا جاء إلى رسول الله صلي الله عليه وسلم وعليه خاتم من شبه فقال: « مالي أجد منك ريح الأصنام؟ ».فطرحه ثم جاء وعليه خاتم من حديد فقال: « مالي أرى عليك حلية أهل النار؟ ».فطرحه ثم قال: يا رسول الله من أي شيء اتخذه؟قال: « اتخذه من ورق، ولا تنمه مثقالا "
(سنن ابو داؤد(4223)کتاب الخاتم باب ماجاء فی خاتم الحدید سنن نسائی5210،کتاب الزینۃ باب مقدار ما یجعل فی الخاتم من فضۃ جامع ترمذی (1785)کتاب اللباس باب ماجاء گی الخاتم الحدید )

"ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اس نے پیتل کی انگوٹھی پہنی ہوئی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا مجھے کیا ہے کہ میں تجھ میں بتوں کی بو محسوس کر رہا ہوں ؟ اس نے اس انگوٹھی کو اتارکر پھینک دیا۔ پھر آیا تو اس نے لوہے کی انگوٹھی پہنی ہوئی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔کیا ہے مجھے کہ میں تجھ میں آگ والوں کا زیور دیکھ رہا ہوں؟ اس نے اسے پھینک دیا۔ پھر کہا:اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !میں کس چیز کی انگوٹھی بناؤں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک مثقال سے کم چاندی کی بنالے ۔(ایک مثقال ساڑھے چار ماشے کا ہوتا ہے)"

یہی حدیث امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ کتاب الاداب (811)اور شعب الایمان (6350)میں لائے ہیں اور ابن حبان نے اسے صحیح کہا ہے۔ (1467)لکنی للدولابی 2/16میں بھی ہے۔ اس کی سند میں ابو طیبہ راوی ہیں جن پر اگرچہ بعض محدثین نے کلام کیا ہے لیکن یہ حسن درجے کا راوی ہے۔امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں"صالح الحدیث"(میزان 2/504حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں(صدوق یھم"(تقریب التہذیب ص:189)اس کی حدیث حسن درجہ سے کم نہیں۔ (ملاحظہ ہو نیل المقصود(4223)

ان احادیث سے معلوم ہوا کہ لوہے کی انگوٹھی پہننا حرام ہے البتہ اگر لوہے کی انگوٹھی کے ساتھ چاندی کی ملاوٹ کر کے ملمع سازی کی گئی ہوتو اس کی رخصت ہے۔ جیسا کہ معیقیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے۔

"كَانَ خَاتَمُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ حَدِيدٍ مَلْوِيٌّ عَلَيْهِ فِضَّةٌ»، قَالَ: فَرُبَّمَا كَانَ فِي يَدِهِ، قَالَ: «وَكَانَ الْمُعَيْقِيبُ عَلَى خَاتَمِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"
(ابو داؤدکتاب الخاتم باب ماجاء فی خاتم الحدید(4224)سنن النسائی کتاب الزینہ باب لیس خاتم ملوی علیہ فضہ (5220)شعب الایمان بیہقی (6252)

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگوٹھی لوہے سے بنی ہوئی تھی اور اس پر چاندی کی ملمع سازی کی گئی تھی۔ وہ بسااوقات میرے ہاتھ میں ہوتی معیقیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگوٹھی کے نگران تھے۔"

ان دونوں احادیث کو جمع کرنے سے معلوم ہوا کہ محض لوہے کی انگوٹھی پہننا حرام ہے۔ البتہ اگر اس پر چاندی لگی ہوئی ہوتو پھر جائز و مشروع ہے۔

صحیح بخاری وغیرہ کی روایت جس میں التمس ولو خاتما من حديد کے الفاظ ہیں۔ یعنی تو تلاش کر اگرچہ لوہے کی انگوٹھی مل جائے ۔ اس کے بارے میں حافظ ابن حجرعسقلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔

"استدل به على جواز لبس خاتم الحديد ولا حجة فيه لأنه لا يلزم من جواز الاتخاذ جواز اللبس فيحتمل أنه أراد وجوده لتنتفع المرأة بِقِيمَتِهِ " (فتح الباری 10/323)
"اس حدیث سے لوہے کی انگوٹھی پہننے پر استدلال کیا گیا ہے ۔حالانکہ اس میں اس کے جواز پر کوئی دلیل نہیں۔ اس لیے کہ انگوٹھی لانا، انگوٹھی پہننے کو لازم نہیں ۔اس میں یہ بھی احتمال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انگوٹھی کے وجود کا ارادہ کیا ہوتا کہ عورت اس کی قیمت سے نفع حاصل کرے۔"

لہٰذا یہ حدیث محض لوہے کی انگوٹھی پہننے پر نص قطعی نہیں ہے۔ اگر اس سے مراد لوہے کی وہ انگوٹھی لی جائے جو کہ چاندی سے ملمع ہوتو پھر کوئی حرج نہیں۔ وگرنہ خالص لوہے کی انگوٹھی حرام جیسا کہ اوپر احادیث ذکر کر دی گئی ہیں۔

بعض آئمہ نے یہ بھی کہا ہے کہ مذکورہ حدیث میں اگر اباحت ہے تو دیگر احادیث میں تحریم ہے اور جب مباح و تحریم کا معارضہ ہوتو حکم تحریم کا لگایا جاتا ہے(ملاحظہ ہو آداب الزفاف ص:219)امام اسحاق بن منصور المروزی رحمۃ اللہ علیہ نے امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا کہ:

"الخاتم من ذهب أو حديد يُكره؟ قال: إي والله"
(مسائل المروزی (224)بحوالہ آداب الزفاف ص: 219)

"کیا سونے یا لوہے کی انگوٹھی مکروہ ہے؟ تو انھوں نے کہاہاں !اللہ کی قسم۔"

اور یہ بات اصول کی کتب میں موجود ہے۔جب مطلق مکروہ کا لفظ بولا جائے تو مکروہ تحریمی مراد ہوتا ہے۔ یہی بات عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ امام اسحاق بن راہویہ رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ سے مروی ہے(ملاحظہ ہو غایۃ المرام ص:69)


ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب
آپ کے مسائل اور ان کا حل
جلد2۔كتاب الادب۔صفحہ نمبر 524
محدث فتویٰ

.
 
Top