السلام علیکم
ورحمته اللہ وبرکاته
اس حدیث کے متعلق اہل علم راہنمائی فرمائیں خصوصاً
@
اسحاق سلفی آیا یہ حدیث حسن ہے یا ضعیف
شیخ البانی رحمہ اللہ اس حدیث کو ضعیف جبکہ شیخ زبیر علی زئی رحمہ
اللہ نے اس حدیث پر حسن کا حکم لگایا ہے۔ مکمل وضاحت کے ساتھ جواب
مطلوب ہے۔[/FONT]
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
’’ فتاوی نور علی الدرب ‘‘ میں علامہ ابن باز فرماتے ہیں :
حكم لبس السلاسل والخواتم من النحاس والحديد في الصلاة
( تانبے اور لوہے کی چین انگوٹھی پہن کر نماز پڑھنے کا شرعی حکم ؟)
س: تقول السائلة: هل صحيح أنه لا تجوز الصلاة بخواتم وسلاسل النحاس؟ أفيدونا أفادكم الله وجزاكم الله خيرا )
سوال :: کیا یہ بات صحیح ہے کہ : تانبے اور لوہے کی چین یا انگوٹھی پہن کر نماز پڑھنا جائز نہیں ؟
ـــــــــــــــــــــــ
ج: ليس بصحيح، ولا حرج في الصلاة بخواتم الذهب في حق المرأة، وخاتم الفضة في حق الجميع، وخاتم الحديد في حق الجميع، لا حرج في ذلك، والحديث الذي في تحريم هذا حديث ضعيف شاذ مخالف للأحاديث الصحيحة، وقال عليه الصلاة والسلام للذي أراد الزواج وليس عنده شيء، قال له: «التمس ولو خاتما من حديد ((1) أخرجه البخاري في كتاب النكاح، باب السلطان ولي، برقم (5135)، ومسلم في كتاب النكاح، باب الصداق وجواز كونه تعليم قرآن وخاتم حديد، برقم (1425))»، فدل على جواز لبس الخاتم من الحديد،
نہیں یہ بات صحیح نہیں ،اور عورت کیلئے سونے کی انگوٹھی پہن کر نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ،اور چاندی اور لوہے کی انگوٹھی پہن کر کسی
کیلئے بھی نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ، اور اس(لوہے کی انگوٹھی ) کی حرمت میں وارد حدیث ضعیف اور شاذ ہے ،اور صحیح احادیث کے خلاف ہے ،اور نبی کریم ﷺ نے شادی کے خواہش مند ایک شخص کو جس کے پاس دینے کیلئے کچھ نہیں تھا اسے فرمایا تھا کہ جا تلاش کر اگر لوہے کی لوہے انگوٹھی ہی مل جائے (تو مہر میں وہی دے دے )یہ حدیث لوہے کی انگوٹھی پہننے کے جواز میں دلیل ہے
(( مکمل حدیث یہ ہے :
ترجمہ :
سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہا کہ میں اپنے آپ کو آپ کے لیے ہبہ کرتی ہوں۔ پھر وہ دیر تک کھڑی رہی۔ اتنے میں ایک مرد نے کہا کہ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی ضرورت نہ ہو تو اس کا نکاح مجھ سے فرما دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ تمہارے پاس انہیں مہر میں دینے کے لیے کوئی چیز ہے؟ اس نے کہا کہ میرے پاس اس تہمد کے سوا اور کچھ نہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تم اپنا یہ تہمد اس کو دے دو گے تو تمہارے پاس پہننے کے لیے تہمد بھی نہیں رہے گا۔ کوئی اور چیز تلاش کر لو۔ اس مرد نے کہا کہ میرے پاس کچھ بھی نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کچھ تو تلاش کرو، ایک لوہے
کی انگوٹھی ہی سہی! اسے وہ بھی نہیں ملی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا۔ کیا تمہارے پاس کچھ قرآن مجید ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ جی ہاں! فلاں فلاں سورتیں ہیں، ان سورتوں کا انہوں نے نام لیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر ہم نے تیرا نکاح اس عورت سے ان سورتوں کے کے بدلے کیا جو تم کو یاد ہیں۔))
وأما الحديث الذي فيه أنه رأى على إنسان خاتما من حديد فقال: «ما لي أرى عليك حلية أهل النار؟، ورأى آخر عليه خاتم من صفر قال: ما لي أجد منك ريح الأصنام؟ ( أخرجه الترمذي في كتاب اللباس، باب ما جاء في الخاتم الحديد، برقم (1785)، وأبو داود أول كتاب الخاتم، باب ما جاء في خاتم الحديد، برقم (4223)، والنسائي في المجتبى في كتاب الزينة مقدار ما يجعل في الخاتم من الفضة، برقم (5195)، واللفظ للترمذي)» فهو حديث ضعيف شاذ مخالف للأحاديث الصحيحة.
اور وہ حدیث جو سیدنا بریدہ رضی الله عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لوہے کی انگوٹھی پہن کر آیا، آپ نے فرمایا: ”کیا بات ہے میں دیکھ رہا ہوں کہ تم جہنمیوں کا زیور پہنے ہو؟“ پھر وہ آپ کے پاس پیتل کی انگوٹھی پہن کر آیا، آپ نے فرمایا: ”کیا بات ہے کہ تم سے بتوں کی بدبو آ رہی ہے؟ پھر وہ آپ کے پاس سونے کی انگوٹھی پہن کر آیا، تو آپ نے فرمایا: ”کیا بات ہے میں دیکھ رہا ہوں کہ تم جنتیوں کا زیور پہنے ہو؟ اس
نے پوچھا: میں کس چیز کی انگوٹھی پہنوں؟ آپ نے فرمایا: ”چاندی کی اور (وزن میں) ایک مثقال سے کم رکھو“۔
یہ حدیث ضعیف اور شاذ ہے ،اور صحیح احادیث کے خلاف ہے ،
ـــــــــــــــــــــــــــــــ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- اس باب میں عبداللہ بن عمرو سے بھی روایت ہے، ۳- عبداللہ بن مسلم کی کنیت ابوطیبہ ہے اور وہ عبداللہ بن مسلم مروزی ہیں۔
اور یہ حدیث سنن ابی داود/ الخاتم ۴ (۴۲۲۳)، سنن النسائی/الزینة ۴۶ (۵۱۹۸)، (تحفة الأشراف : ۱۹۸۲)، و مسند احمد (۵/۳۵۹)
(اس کے راوی عبداللہ بن مسلم ابو طیبہ حافظہ کے کمزور ہیں، انہیں اکثر وہم ہو جایا کرتا تھا)
قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (4396) ، آداب الزفاف (128)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن علامہ شعیب الارناؤط مسند احمد کی تحقیق(۳۸۔۱۴۲ ) میں لکھتے ہیں :
صحيح لغيره دون قوله: فجاء وقد لبس خاتماً من صُفْر، فقال النبي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
"أجد معك ريح أهل الأصنام"، وهذا إسناد حسن في المتابعات والشواهد، عبد الله ابن مسلم -وهو السُّلَمي العامري أبو طَيْبة المَرْوزي- روى عنه جمع، وقال أبو حاتم: يكتب حديثه، ولا يحتج به. وقال أحمد: لا أعرفه. وذكره ابن حبان في "الثقات"، وقال: يخطىء ويخالف، وذكره ابن خلفون في "الثقات"، وقال الذهبي في "الميزان": صالح الحديث. وقال ابن حجر: صدوق يهم. وباقي رجال الإسناد ثقات رجال الشيخين ‘‘
یعنی یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور علامہ شعیب الارناؤط صحیح ابن حبان کی تخریج میں اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں :
قلت: وفي الباب عن عبد الله بن عمرو أن النبي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رأى على بعض أصحابه خاتمًا من ذهب فأعرض عنه، فألقاه، واتخذ خاتماً من حديد، فقال: " هذا شر، هذا حلية أهل النار "، فألقاه، فاتخذ خاتماً من وَرق، فسكت عنه النبي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. أخرجه أحمد 2/163 و179 و211، والبخاري في " الأدب المفرد " (1021) ، والطحاوي 4/261، وسنده حسن.
(تعلیق صحیح ابن حبان جلد ۱۲ صفحہ ۳۰۰ )
یعنی نبی اکرم ﷺ نے ایک صحابی کو سونے کی انگوٹھی پہنے دیکھا تو اس سے بے رخی کی ،اس نے انگوٹھی اتار کر پھینک دی ،اور لوہے کی انگوٹھی بنوالی ،آپ نے فرمایا یہ بھی بری ہے ،کیونکہ یہ جہنمیوں کا زیور ہے، اس نے یہ سن کر وہ بھی پھینک دی ،اور چاندی کی انگوٹھی بنوا کر پہن لی ،اس پر آپ خاموش رہے ،
مسند احمد ،الادب المفرد ،اس کی سند حسن ہے ،
اور علامہ زبیر علی زئی ابوداود کی تخریج میں لکھتے ہیں :
’’ حسن ،عبد اللہ بن مسلم حسن الحدیث علی الراجح ‘‘
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــ۔
هل لبس خاتم الحديد حرام على الرجال ؟
السؤال : سمعت أن لبس خاتم الحديد حرام للرجال ، فنرجو توضيح الموضوعمع ذكر الأدلة.
سوال : کیا مردوں کیلئے لوہے کی انگوٹھی پہننا حرام ہے ؟
ــــــــــــــــــــــــــ
الجواب :
الحمد لله
"عن عبد الله بن بريدة عن أبيه رضي الله عنهما : أن رجلاً جاء النبي صلى اللهعليه وسلم وعليه خاتم من ذهب ، فقال : ( مالي أجد منك ريح الأصنام ؟)
فطرحه ، ثم جاء وعليه خاتم من حديد ، فقال : (ما لي أرى عليك حلية أهل النار؟) فطرحه ، فقال : يا رسول الله من أي شيء أتخذه ؟ قال : ( اتخذه من ورقولا تتمه مثقالاً )
أخرجه أبو داود والترمذي والنسائي قال الترمذي : هذا حديثغريب ، وعن إياس بن الحارث بن المعيقيب عن جده قال : كان خاتم النبي صلىالله عليه وسلم من حديد ملوي عليه فضة ، قال فربما كان في يدي ، قال ، وكان
المعيقيب على خاتم النبي صلى الله عليه وسلم ، خرجه أبو داود والنسائي. وفيالصحيحين عن سهل بن سعد الأنصاري رضي الله عنه ، أن النبي صلى اللهعليه وسلم قال للذي خطب المرأة التي وهبت نفسها للنبي صلى الله عليه وسلم :
(التمس ولو خاتماً من حديد) وهذا يدل على جواز لبس الخاتم من الحديد ، كمايدل عليه حديث معيقيب ، أما حديث بريدة المذكور آنفاً ففي سنده ضعف ، وبذلكيتضح أن الراجح عدم كراهة لبس الخاتم من الحديد ، ولكن لبس الخاتم منالفضة أفضل ؛ لأن النبي صلى الله عليه وسلم كان خاتمه من فضة كما ثبت فيالصحيحين.
وبالله التوفيق ، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم" انتهى.
اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء .
الشيخ عبد العزيز بن عبد الله بن باز ... الشيخ عبد الرزاق عفيفي ... الشيخ
عبد الله بن غديان .
"فتاوى اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء" (24/64) .
الإسلام سؤال وجواب