سرفراز فیضی
سینئر رکن
- شمولیت
- اکتوبر 22، 2011
- پیغامات
- 1,091
- ری ایکشن اسکور
- 3,807
- پوائنٹ
- 376
لیجئے جناب! جواب حاضر ہے
فضیلۃ الشیخ عبدالمعید مدنی(علیگڑ
الحمد اللہ وحدہ والصلوۃ والسلام علی من لا نبی بعدہ،والذین اھتدوا بھداہ۔
میرے نام سلمان صاحب کی طرف سے کچھ سوالات آئے ہیں، یہ سوالات ایسے نہیں کہ ان کا جواب دیا جائے، جو شخص خود سراپا سوال ہو، اس کی سرگرمیاں سوالنامے ہوں، اس کی چندہ خوری اور چندہ بٹوری سوال ہی سوال ہو۔ اس کی انتہا پسندی، فکری تشدد سوالیہ نشان ہو، اس کی تلون مزاجی زیر سوال آئے۔ اس کی سفلہ بیانی، سفلہ شخصیت اور مطلب برآری سوالیہ نشانات کے دائرے میں ہو اس کے سوالات کیسے؟ اور ان کے جوابات کی ضرورت کیا؟مگر پبلک میں ان کے سوالات جانے سے جوابات دینے کی مجبوری ہے، اور باربار ان کی طرف سے جوابات کا تقاضہ بھی ہے۔
۱۔ کہا جاتا ہے کہ منگتے کے سوآنگن ہوتے ہیں، اور وہ بہت طوطا چشم ہوتا ہے اس سے وفاداری کی توقع رکھنا حماقت ہوتی ہے، چونکہ اس کے چہرے کا پانی اتر چکا ہوتا ہے اس لیے اس کے اندر دناء ت بھر جاتی ہے اور مروت رخصت ہوجاتی ہے، منگتوں کی محبت اور وفاداری کا سرا ان کے کشکول اور شکم سے جڑا ہوتا ہے، سالہا سال کی نوازش ایک لمحہ میں بے وقعت ہو سکتی ہے۔ اگر حسب توقع کشکول نہ بھرا اور شکم سیری نہ ہوئی تو نفرت اور دوری طے ہوتی ہے۔ اور سالہا سال کی نفرت لمحوں میں محبت اور تعلق خاطر میں تبدیل ہو سکتی ہے۔ شرط یہ ہے کہ کشکول بھر جائے اور شکم سیر ہوجائے۔ اور چونکہ ایسے لوگ صدا لگانے کے عادی ہوتے ہیں اس لیے اپنی محبت و نفرت کو آواز دینے میں بڑے ماہر ہوتے ہیں، کچھ اسی طرح کا حال سلمان صاحب کا ہے انھوں نے گدا گری کے لیے کئی کشکول رکھ چھوڑے ہیں اور ایک ایک کشکول کا کئی کئی نام رکھتے ہیں اور پبلک میں اسے گھماتے رہتے ہیں تاکہ وہ بھرجائیں اور ان کے نفس ناطقہ کو طاقت ملتی رہے۔
شاید کسی وقت ان کا کشکول خلیجی ممالک ان کی توقع کے مطابق نہیں بھر سکے اس لیے ان کی وفاداری محبت اور تعلق خاطراب شیعہ ایران اور تحریکیوں سے جڑ گیا ہے۔ اور تصوف کی اس انار کلی کو بازار گلاب میں بڑی پذیرائی مل رہی ہے، شیعہ حضرات نے ان سے بڑی توقعات وابستہ کر لی ہیں۔ اور تحریکی تو ان کو اپنی کلغیوں میں سجانے لگے ہیں، اور ان کا نفس ناطقہ بھی دراز ہوچکا ہے۔ انھوں نے گلف کے خلاف اپنی نفرت کو صدائے نفیر بنا دیا ہے، والعیاذ باللہ۔مزید گداگرانہ گڑگڑاہٹ کو حق گوئی کہتے ہیں، احسان فراموش محسن کش حق گو نہیں ہوتا وہ ڈھیٹ اور گپی ہوتا ہے۔
۲۔ سلمان صاحب کو آل سعود بے حسب و نسب نظر آتے ہیں، چلئے اگر کچھ لوگوں کے اس شگوفے کو ہم مان بھی لیں تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے رسول کریم ﷺ کا ارشاد ہے حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
''ان اللہ لاینظر الی اجسامکم، ولا الی صورکم ولکن ینظر الی قلوبکم واعمالکم'' (مسلم ۲۵۶۴)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی لمبی روایت ہے اس کا آخری ٹکڑا ہے فرمان نبوی ہے:
''ومن بطأ بہ عملہ لم یسرع بہ نسبہ''(مسلم۲۶۹۹)
امام محمد بن عبدالوہاب نے مسائل جاہلیت میں ''طعن فی الانساب'' (مسئلہ۸۹) اور ''فخر بالاحساب''(مسئلہ ۸۷) کو بیان کیا ہے۔
حضرت ابو مالک اشعریؓ سے روایت ہے رسول گرامی ﷺ نے فرمایا ''أربع فی امتی من امر الجاہلیۃ لا یترکونھن، الفخر بالأحساب، والطعن فی الأنساب، والاستسقاء بالنجوم والنیاحۃ''(مسلم: ۹۳۴)
سلمان صاحب خود کو آل رسول میں شمار کرتے ہیں سید کا سابقہ اور حسینی کا لاحقہ لگاتے ہیں۔ سابقہ اور لاحقہ سے بھی آل رسول میں شمارہونے کی ان کی حیثیت محفوظ نہ رہی، جناب نے صدقات اور خیرات میں خود کو ڈبو کر اور زندگی بھر اسے مشغلہ بنا کر اپنی سیادت اور حسینیت کی چادر میلی کرلی ہے بلکہ اس ردائے تقدس کو تار تار کردیا۔
اس موقع سے ان سے بھی مطالبہ کیا جا سکتا ہے کہ دوسروں کے بے حسب و نسب کہنے کی آپ نے جرأت کی ہے تو آپ بھی اپنے حسب ونسب کا حساب دیدیجئے آپ کے سلسلہ نسب میں بھی انقطاع کا سوال اٹھایا جا سکتا ہے اور لوگ اٹھاتے ہیں اور سوسال سے آپ کے نانا کا گھرانہ سیدشہید کو کیش کر رہا ہے،بتائیے کیا آپ کے نانا کا گھرانہ ان سے تعلق رکھتا ہے، ان کے خواہر زادگاں کی اکثریت تو ٹونک میں آباد تھی اور وہ اہل حدیث تھے۔ سید فخر الدین کا سلسلہ تو صوفیاء سے تھا۔ ان کا سلسلہ اور سید احمد شہید کا سلسلہ علم اللہ شاہ پر جا کر جڑتا ہے سید شہید کی شاخ الگ ہے اور سید ضیاء النبی کی شاخ الگ ہے، پھر یہ گھپلا بازی کیوں؟ اور آپ اپنے حسینی سلسلہ کو ثابت کیجئے مستند روایات سے اگرآپ دوسروں کے حسب و نسب پر طعن کرتے ہیں۔
میرے نام سلمان صاحب کی طرف سے کچھ سوالات آئے ہیں، یہ سوالات ایسے نہیں کہ ان کا جواب دیا جائے، جو شخص خود سراپا سوال ہو، اس کی سرگرمیاں سوالنامے ہوں، اس کی چندہ خوری اور چندہ بٹوری سوال ہی سوال ہو۔ اس کی انتہا پسندی، فکری تشدد سوالیہ نشان ہو، اس کی تلون مزاجی زیر سوال آئے۔ اس کی سفلہ بیانی، سفلہ شخصیت اور مطلب برآری سوالیہ نشانات کے دائرے میں ہو اس کے سوالات کیسے؟ اور ان کے جوابات کی ضرورت کیا؟مگر پبلک میں ان کے سوالات جانے سے جوابات دینے کی مجبوری ہے، اور باربار ان کی طرف سے جوابات کا تقاضہ بھی ہے۔
۱۔ کہا جاتا ہے کہ منگتے کے سوآنگن ہوتے ہیں، اور وہ بہت طوطا چشم ہوتا ہے اس سے وفاداری کی توقع رکھنا حماقت ہوتی ہے، چونکہ اس کے چہرے کا پانی اتر چکا ہوتا ہے اس لیے اس کے اندر دناء ت بھر جاتی ہے اور مروت رخصت ہوجاتی ہے، منگتوں کی محبت اور وفاداری کا سرا ان کے کشکول اور شکم سے جڑا ہوتا ہے، سالہا سال کی نوازش ایک لمحہ میں بے وقعت ہو سکتی ہے۔ اگر حسب توقع کشکول نہ بھرا اور شکم سیری نہ ہوئی تو نفرت اور دوری طے ہوتی ہے۔ اور سالہا سال کی نفرت لمحوں میں محبت اور تعلق خاطر میں تبدیل ہو سکتی ہے۔ شرط یہ ہے کہ کشکول بھر جائے اور شکم سیر ہوجائے۔ اور چونکہ ایسے لوگ صدا لگانے کے عادی ہوتے ہیں اس لیے اپنی محبت و نفرت کو آواز دینے میں بڑے ماہر ہوتے ہیں، کچھ اسی طرح کا حال سلمان صاحب کا ہے انھوں نے گدا گری کے لیے کئی کشکول رکھ چھوڑے ہیں اور ایک ایک کشکول کا کئی کئی نام رکھتے ہیں اور پبلک میں اسے گھماتے رہتے ہیں تاکہ وہ بھرجائیں اور ان کے نفس ناطقہ کو طاقت ملتی رہے۔
شاید کسی وقت ان کا کشکول خلیجی ممالک ان کی توقع کے مطابق نہیں بھر سکے اس لیے ان کی وفاداری محبت اور تعلق خاطراب شیعہ ایران اور تحریکیوں سے جڑ گیا ہے۔ اور تصوف کی اس انار کلی کو بازار گلاب میں بڑی پذیرائی مل رہی ہے، شیعہ حضرات نے ان سے بڑی توقعات وابستہ کر لی ہیں۔ اور تحریکی تو ان کو اپنی کلغیوں میں سجانے لگے ہیں، اور ان کا نفس ناطقہ بھی دراز ہوچکا ہے۔ انھوں نے گلف کے خلاف اپنی نفرت کو صدائے نفیر بنا دیا ہے، والعیاذ باللہ۔مزید گداگرانہ گڑگڑاہٹ کو حق گوئی کہتے ہیں، احسان فراموش محسن کش حق گو نہیں ہوتا وہ ڈھیٹ اور گپی ہوتا ہے۔
۲۔ سلمان صاحب کو آل سعود بے حسب و نسب نظر آتے ہیں، چلئے اگر کچھ لوگوں کے اس شگوفے کو ہم مان بھی لیں تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے رسول کریم ﷺ کا ارشاد ہے حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
''ان اللہ لاینظر الی اجسامکم، ولا الی صورکم ولکن ینظر الی قلوبکم واعمالکم'' (مسلم ۲۵۶۴)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی لمبی روایت ہے اس کا آخری ٹکڑا ہے فرمان نبوی ہے:
''ومن بطأ بہ عملہ لم یسرع بہ نسبہ''(مسلم۲۶۹۹)
امام محمد بن عبدالوہاب نے مسائل جاہلیت میں ''طعن فی الانساب'' (مسئلہ۸۹) اور ''فخر بالاحساب''(مسئلہ ۸۷) کو بیان کیا ہے۔
حضرت ابو مالک اشعریؓ سے روایت ہے رسول گرامی ﷺ نے فرمایا ''أربع فی امتی من امر الجاہلیۃ لا یترکونھن، الفخر بالأحساب، والطعن فی الأنساب، والاستسقاء بالنجوم والنیاحۃ''(مسلم: ۹۳۴)
سلمان صاحب خود کو آل رسول میں شمار کرتے ہیں سید کا سابقہ اور حسینی کا لاحقہ لگاتے ہیں۔ سابقہ اور لاحقہ سے بھی آل رسول میں شمارہونے کی ان کی حیثیت محفوظ نہ رہی، جناب نے صدقات اور خیرات میں خود کو ڈبو کر اور زندگی بھر اسے مشغلہ بنا کر اپنی سیادت اور حسینیت کی چادر میلی کرلی ہے بلکہ اس ردائے تقدس کو تار تار کردیا۔
اس موقع سے ان سے بھی مطالبہ کیا جا سکتا ہے کہ دوسروں کے بے حسب و نسب کہنے کی آپ نے جرأت کی ہے تو آپ بھی اپنے حسب ونسب کا حساب دیدیجئے آپ کے سلسلہ نسب میں بھی انقطاع کا سوال اٹھایا جا سکتا ہے اور لوگ اٹھاتے ہیں اور سوسال سے آپ کے نانا کا گھرانہ سیدشہید کو کیش کر رہا ہے،بتائیے کیا آپ کے نانا کا گھرانہ ان سے تعلق رکھتا ہے، ان کے خواہر زادگاں کی اکثریت تو ٹونک میں آباد تھی اور وہ اہل حدیث تھے۔ سید فخر الدین کا سلسلہ تو صوفیاء سے تھا۔ ان کا سلسلہ اور سید احمد شہید کا سلسلہ علم اللہ شاہ پر جا کر جڑتا ہے سید شہید کی شاخ الگ ہے اور سید ضیاء النبی کی شاخ الگ ہے، پھر یہ گھپلا بازی کیوں؟ اور آپ اپنے حسینی سلسلہ کو ثابت کیجئے مستند روایات سے اگرآپ دوسروں کے حسب و نسب پر طعن کرتے ہیں۔