حافظ محمد عمر
مشہور رکن
- شمولیت
- مارچ 08، 2011
- پیغامات
- 427
- ری ایکشن اسکور
- 1,542
- پوائنٹ
- 109
ماں باپ کو گالی دینا کبیرہ گنا ہ ہے
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ « مِنَ الْكَبَائِرِ شَتْمُ الرَّجُلِ وَالِدَيْهِ ». قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ هَلْ يَشْتِمُ الرَّجُلُ وَالِدَيْهِ قَالَ « نَعَمْ يَسُبُّ أَبَا الرَّجُلِ فَيَسُبُّ أَبَاهُ وَيَسُبُّ أُمَّهُ فَيَسُبُّ أُمَّهُ » [متفق علیه]
’’ حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ کبیرہ گناہوں میں سے ایک گناہ آدمی کا اپنے ماں باپ کو گالی دینا ہے؟ ‘‘ کہا گیا : ’’ اور کیا آدمی اپنےماں باپ کو گالی دیتا ہے؟‘‘ فرمایا: ’’ ہاں! کسی آدمی کے باپ کو گالی دیتا ہے تو وہ آدمی اس کے باپ کو گالی دیتا ہے اور اس کی ماں کو گالی دیتا ہے تو وہ اس کی ماں کو گالی دیتا ہے۔‘‘
تشریح:
1۔ قرآن مجید میں اللہ تعالی نے والدین کو ’’ اف‘‘ تک کہنے اور جھڑکنے سے منع فرمایا :
﴿فَلَا تَقُلْ لَهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا﴾ [الإسراء: 17/ 32]
’’تم ان کو ’’اف ‘‘ تک نہ کہو اور نہ ان کو جھڑکو اور ان کو عزت سے مخاطب کرو۔‘‘
گالی دینا تو بہت دور کی بات۔
2۔ والدین کو اگرچہ گالی نہ دے اور نہ ہی تکلیف دے مگر ایسا کام کرے جس کا نتیجہ یہ ہو کہ کوئی انہیں گالی دے یا تکلیف پہنچائے تو یہ حرام ہے۔
3۔ جس کام کے نتیجہ میں خطرہ ہو کہ کوئی شخص گناہ میں مبتلا ہو جائے گا ، وہ کام بھی ناجائز ہے، مثلا کسی کے والدین کوگالی دینے سے خطرہ ہے کہ وہ اس کے والدین کو گالی دے گا، اگرچہ یہ ضروری نہیں کیونکہ ہو سکتا ہے کہ وہ اس کے والدین کو گالی نہ دے۔ فقہاء کی اصطلاح میں اسے سد ذرائع کہتے ہیں۔
سد ذرائع کی ایک دلیل اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے:
﴿وَلَا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْوًا بِغَيْرِ عِلْمٍ﴾ [الأنعام: 6/108]
’’ اور جنہیں یہ لوگ اللہ کے سوا پکارتے ہیں ان کوگالیاں نہ دو نہیں تو وہ بے سمجھی سے ضد میں آ کر اللہ کو گالیاں دینے لگیں گے۔‘‘
ایک اور دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا:
’’ اے عائشہ رضی اللہ عنہا! اگر تمہاری قوم نئی نئی جاہلیت سے (اسلام میں) آئی ہوئی نہ ہوتی تو میں بیت اللہ کے متعلق حکم دیتا اور اسے گرا دیا جاتا۔اس کا جو حصہ اس سے نکال دیا گیا ہے میں اس میں داخل کر دیتا اور اسے عین زمین کے ساتھ ملا دیتا۔ اس کا ایک مشرقی دروازہ بنا دیتا اور ایک مغربی اور اسے ابراہیم علیہ السلام کی بنیاد پر پہنچا دیتا۔‘‘[بخاری: 42]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خطرے سے کعبہ کو نہیں گرایا کہ کعبہ کو گرانے سے یہ نئی نئی مسلمان ہونے والی قوم شبہات میں مبتلا نہ ہو جائے حالانکہ کعبہ کو گرا کر دوبارہ بنانے میں بہت سے فائدے تھے۔
البتہ ایک بات مد نظر رہنی چاہیے کہ لوگوں کے گناہ میں مبتلا ہونے کے خطرے سے صرف وہ کام چھوڑ سکتا ہے جو ضروری نہ ہو بلکہ اختیار ہو، اگر فرض کی ادائیگی سے کوئی شخص گناہ میں مبتلا ہوتا ہے تو اس کی پروا نہیں کی جائے گی، مثلا اگر کوئی شخص نماز کی دعوت دینےسے بد زبانی شروع کر دے تو نماز کی دعوت ترک نہیں کی جائے گی، صرف اختیاری کام چھوڑے جا سکتے ہیں۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس موضوع پر ایک عنوان قائم کیا ہے:
باب من ترك بعض الاختيار مخافة أن يقصر فهم بعض الناس عنه فيقعوا في أشد منه
’’ یعنی اس شخص کا بیان جو بعض اختیاری چیزیں( جو ضروری نہ ہوں) اس خوف سے چھوڑ دے کہ بعض لوگوں کی سمجھ اس سے قاصر رہے گی، تو وہ اس سے بھی سخت چیز میں جا پڑیں گے۔