• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ماہ شعبان : فضائل و بدعات

شمولیت
اگست 28، 2018
پیغامات
200
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
90
ماہ شعبان فضائل و بدعات
تحریر: عبد الخبیر السلفی

ماہ شعبان اسلامی سن ہجری کا آٹھواں مہینہ ہے، اس کی فضیلت کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ یہ وہ مہینہ ہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نفلی روزے کثرت سے رکھا کرتے تھے،حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُ حَتَّى نَقُولَ : لَا يُفْطِرُ، وَيُفْطِرُ حَتَّى نَقُولَ : لَا يَصُومُ. فَمَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَكْمَلَ صِيَامَ شَهْرٍ إِلَّا رَمَضَانَ، وَمَا رَأَيْتُهُ أَكْثَرَ صِيَامًا مِنْهُ فِي شَعْبَانَ"(بخاری: 1969) یعنی رسول صلی اللہ علیہ وسلم لگاتار روزے رکھتے تھے یہاں تک کہ ہم کہتے اب آپ روزے نہیں چھوڑیں گے اور آپ لگاتار روزے چھوڑتے جاتے تھے یہاں تک کہ ہم کہتے اب آپ روزے نہیں رکھیں گے اور میں نے کبھی آپ کو سوائے رمضان کے پورا مہینہ روزہ رکھتے ہوئے نہیں دیکھا اور میں نے آپ کو شعبان سے زیادہ کسی مہینہ میں(نفلی) روزہ رکھتے ہوئے نہیں دیکھا. ایک حدیث میں اس کی حکمت بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی، حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں" قُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَمْ أَرَكَ تَصُومُ شَهْرًا مِنَ الشُّهُورِ مَا تَصُومُ مِنْ شَعْبَانَ. قَالَ : " ذَلِكَ شَهْرٌ يَغْفُلُ النَّاسُ عَنْهُ بَيْنَ رَجَبٍ وَرَمَضَانَ، وَهُوَ شَهْرٌ تُرْفَعُ فِيهِ الْأَعْمَالُ إِلَى رَبِّ الْعَالَمِينَ، فَأُحِبُّ أَنْ يُرْفَعَ عَمَلِي وَأَنَا صَائِمٌ ".(نسائی:2357) یعنی میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نے آپ کو اتنے روزے رکھتے ہوئے کسی مہینہ میں نہیں دیکھا جتنے آپ شعبان میں روزے رکھتے ہیں؟ آپ نے فرمایا یہ وہ مہینہ ہے جس سے لوگ غافل ہیں جو رجب اور رمضان کے درمیان ہے اس میں اعمال اللہ رب العالمین کے دربار میں پیش کئے جاتے ہیں پس میں چاہتا ہوں کہ میرے اعمال روزے کی حالت میں پیش کئے جائیں. البتہ امت کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نصف شعبان کے بعد روزہ رکھنے سے منع فرما دیا چنانچہ ابوداؤد میں ایک روایت ہے " إِذَا انْتَصَفَ شَعْبَانُ فَلَا تَصُومُوا " (أبو داود :2337) یعنی جب شعبان آدھا ہو جائے تو تم روزہ مت رکھو، البتہ سنت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق ہر سوموار یا جمعرات کا روزہ ہے تو اس کی اجازت ہے. واللہ اعلم بالصواب
اس تفصیل سے یہ بات تو طے ہے کہ روزے کے لئے پندرہ شعبان کو خاص کرنے کی کوئی خصوصیت اور دلیل نہیں ہے بلکہ شعبان کے مہینہ میں بلا کسی تاریخ کی قید اور اہتمام کے بغیر، پندرہ شعبان تک روزے رکھے جا سکتے ہیں یا صرف ایام بیض (13/14/15 تاریخ) کے روزے رکھے جائیں تو یہ بھی سنت سے ثابت ہے پندرہ شعبان کی الگ سے کوئی خصوصیت صحیح احادیث سے ثابت نہیں ہے.
......... باقی آئندہ
 
شمولیت
اگست 28، 2018
پیغامات
200
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
90
[پندرہ شعبان کی رات میں کی جانے والی بدعات ]
اس رات میں بہت ساری بدعات نکال لی گئی ہیں ان میں سے بعض کو مندرجہ ذیل سطور میں بیان کیا جا رہا ہے:
(1)[پندرہ شعبان کو برات کی رات سمجھنا :]اس رات کے متعلق مسلمانوں میں بعض ضعیف اور موضوع روایات کی بنیاد پر عام رجحان پایا جاتا ہے کہ یہ بخشش اور جہنم سے آزادی کی رات ہے اس لئے بڑے اہتمام کے ساتھ جوق در جوق شب بیداری کی جاتی ہے اور ہجوم کی شکل میں قبرستانوں کی زیارت کی جاتی ہے، بڑے زور و شور کے ساتھ گھروں اور قبرستانوں میں چراغاں کیا جاتا ہے جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح احادیث میں صرف اتنا ہے کہ اللہ تعالی اس رات میں مشرک اور کینہ توز کے علاوہ سب کو معاف کر دیتا ہے چنانچہ حدیث میں ہے "عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ : " إِنَّ اللَّهَ لَيَطَّلِعُ فِي لَيْلَةِ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ، فَيَغْفِرُ لِجَمِيعِ خَلْقِهِ إِلَّا لِمُشْرِكٍ أَوْ مُشَاحِنٍ "(إبن ماجہ :1390)حضرت ابو موسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالی نصف شعبان کی رات جلوہ افروز ہوتا ہے پس اپنی ساری مخلوق کو بخش دیتا ہے سوائے مشرک اور کینہ پرور کے، اس روایت میں زیادہ سے زیادہ اس رات اللہ کی عام بخشش کا ذکر ہے جو اس میں کی جانے والی کسی خاص عبادت سے مشروط نہیں ہے اور نا ہی اس بنیاد پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحیح روایات کے مطابق کبھی بھی خصوصیت کے ساتھ رت جگا کیا اور نا ہی صحابہ رضی اللہ عنہم کو اس کی ترغیب دلائی، شیطان کی چالیں بھی عجیب ہیں اس نے اس رات میں جس کی عبادت کا ثبوت نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت بھی نہیں مصنوعی عبادتوں میں لگا کر مسلمانوں کو ان راتوں سے غافل کر دیا جن میں اللہ اپنے بندے کو آواز لگا لگا کر پکارتا ہے حدیث میں ہے "عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " يَنْزِلُ رَبُّنَا تَبَارَكَ وَتَعَالَى كُلَّ لَيْلَةٍ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا، حِينَ يَبْقَى ثُلُثُ اللَّيْلِ الْآخِرُ، يَقُولُ : مَنْ يَدْعُونِي فَأَسْتَجِيبَ لَهُ ؟ مَنْ يَسْأَلُنِي فَأُعْطِيَهُ ؟ مَنْ يَسْتَغْفِرُنِي فَأَغْفِرَ لَهُ ؟ " حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ ہمارا رب آسمان دنیا پر ہر رات نزول فرماتا ہے جب آخری تہائی رات باقی رہ جاتی ہے اور اعلان کرتا ہے، ہے کوئی مجھے پکارنے والا میں اس کی پکار سنوں؟ ہے کوئی مجھ سے سوال کرنے والا میں اس کو عطا کروں؟ ہے کوئی مجھ سے مغفرت طلب کرنے والا کہ میں اس کو بخش دوں؟ چنانچہ واقعہ یہ ہے کہ آج کا جاہل اور بدعتی مسلمان اسی رات کی عبادت کو اپنے لئے کافی سمجھتا ہے حتی کہ اس کو فرائض کی بھی پرواہ نہیں ہے اور جہاں تک قبرستان کی زیارت کی بات ہے تو اس رات میں خصوصی زیارت پر دلالت کرنے والی روایات درجہ صحت کو نہیں پہنچتی جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بلا شعبان کی راتوں کی قید کے حسب موقع قبرستان کی زیارت کو جاتے تھے اور ہمیں بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی إتباع میں زیارت قبور کرنا چاہیے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - كُلَّمَا كَانَ لَيْلَتُهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - يَخْرُجُ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ إِلَى الْبَقِيعِ، فَيَقُولُ : " السَّلَامُ عَلَيْكُمْ دَارَ قَوْمٍ مُؤْمِنِينَ، وَأَتَاكُمْ مَا تُوعَدُونَ غَدًا مُؤَجَّلُونَ، وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللَّهُ بِكُمْ لَاحِقُونَ، اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِأَهْلِ بَقِيعِ الْغَرْقَدِ " (مسلم :974) یعنی جب کبھی نبی صلی کی باری ان کے یہاں ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے آخری پہر میں جنت البقیع چلے جاتے، پس وہاں آپ" دعا کہتے" السلام علیکم دار قوم مؤمنين.......، اس حدیث سے معلوم ہو رہا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رات میں زیارتِ قبور کی عام عادت تھی اس میں شعبان کی کوئی خصوصیت نہیں ہے یہاں بھی شیطان کی ہوشیاری ملاحظہ فرمائیں کہ اس نے اہل بدعت کو کس طرح ہر رات کی سنت نبی سے ثابت شدہ زیارت قبور اور نفع بخش دعا سے محروم کردیا اور صرف ایک رات کی بدعات و خرافات سے لبریز مزعومہ عبادت میں مست کر دیا جو سنت نبی کے خلاف ہونے کے باعث سراسر خسارے کا سبب ہے! فانا للہ و انا الیہ راجعون
 
شمولیت
اگست 28، 2018
پیغامات
200
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
90
(2)پندرہویں شعبان کی رات کو لیلہ مبارکہ سمجھنا : سورہ دخان میں ہے " اِنَّـآ اَنْزَلْنَاهُ فِىْ لَيْلَـةٍ مُّبَارَكَةٍ ۚ اِنَّا كُنَّا مُنْذِرِيْنَ ، فِـيْـهَا يُفْرَقُ كُلُّ اَمْرٍ حَكِـيْمٍ ،اَمْرًا مِّنْ عِنْدِنَا ۚ اِنَّا كُنَّا مُرْسِلِيْنَ ،رَحْـمَةً مِّنْ رَّبِّكَ ۚ اِنَّهٝ هُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِـيْمُ" (سورہ دخان : 3-6) بے شک ہم نے اس کو (کتاب) مبارک رات میں نازل کیا ہے، یقیناً ہم ہی ڈرانے والے ہیں، اس میں ہر باحکمت امر کا فیصلہ ہماری طرف سے ہوتا ہے بے شک ہم ہی بھیجنے (رسول) والے ہیں آپ کے رب کی رحمت سے، یقیناً وہ سننے والا اور جاننے والا ہے. ان آیات سے بعض لوگوں کو دھوکہ ہوا ہے اور انہوں نے اس مبارک رات سے شعبان کی پندرہویں رات سمجھ لیا ہے جب کہ یہ سراسر قرآن مجید کے خلاف ہے، اگر ہم قرآن کی مختلف آیات کو زیر نظر رکھیں تو معلوم ہوگا کہ اس سے مراد لیلۃ القدر ہے جو رمضان میں ہے چنانچہ اس رات میں نزول قرآن کی بات کہی گئی ہے اور یہی بات لیلۃ القدر کے بارے میں بھی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے "اِنَّـآ أنزلناه فی لیلۃ القدر" یعنی ہم نے اس کو لیلۃ القدر میں نازل کیا ہے، گویا کہ لیلۃ القدر اور لیلہ مبارکہ دونوں ایک ہی رات کے دو مختلف نام ہیں جس میں قرآن نازل کیا گیا ہے اور یہ رات کب ہے اس كى وضاحت ایک دوسری جگہ ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے "شھر رمضان الذی انزل فیہ القرآن "یعنی رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا ہے اس سے معلوم ہوا کہ در حقیقت لیلہ مبارکہ رمضان میں ہے ناکہ شعبان میں.
(3)آتش بازی: اس رات کی جانے والی بدعات وخرافات میں سب سے بدترین اور ملعون رسم " رسمِ آتش بازی“ بھی ہے، جو آتش پرستوں اور کفار ومشرکین کی نقالی ہے، اس ابلیسی رسم میں ہرسال مسلمانوں کی لاکھوں، کروڑوں کی گاڑھی کمائی آگ میں جلا دی جاتی ہے، بڑی دھوم دھام سے آگ کا یہ کھیل کھیلا جاتا ہے،واضح رہے، آتش بازی کی یہ بدترین رسم کئ بڑے گناہوں کا مجموعہ ہے:
(1) اسراف وفضول خرچی
قرآنِ کریم میں اپنی کمائی فضولیات میں خرچ کرنے والوں کو شیطان کا بھائی قرار دیاگیاہے، اللہ تعالیٰ إرشاد فرماتا ہے: ”اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ کَانُوْا اِخْوَانَ الشَّیَاطِیْن“ بے شک فضول خرچی کرنے والے شیاطین کے بھائی ہیں۔ (سورہ بنی اسرائیل:28)
(2) کفار ومشرکین کی مشابہت
ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کفارومشرکین اور یہود ونصاریٰ کی مشابہت اختیار کرنے سے سختی کے ساتھ منع فرمایاہے، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : "مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَہُوَ مِنْہُمْ" (أبو داود :4031) یعنی جو شخص کسی قوم سے مشابہت اختیار کرے تو اس کا شمار انھیں میں ہوگا. مگر افسوس ہے ہم پر کہ ہر چیز میں ہم کو غیروں کا طریقہ ہی پسند ہے اور اپنے محبوب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں سے نفرت ہے۔
(3) دوسروں کو تکلیف دینا
جب پٹاخے چھوڑے جاتے ہیں تو اس کی آواز سے کتنے لوگوں کو تکلیف ہوتی ہے اس کو ہر شخص جانتا ہے، جبکہ ہمارا مذہب اسلام ہم کو یہ تعلیم دیتا ہے کہ ایک مومن آدمی سے کسی بھی شخص کو (مسلم ہو یا غیرمسلم) تکلیف نہیں ہونی چاہیے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: :والْمُوٴْمِنُ مَنْ اَمِنَہُ النَّاسُ علٰی دِمَائِہِمْ وَاَمْوَالِہِمْ " (ترمذی :2627) یعنی صحیح معنی میں موٴمن وہ شخص ہے جس سے تمام لوگ اپنی جانوں اور مالوں پر مامون اور بے خوف وخطر رہیں، گویا کہ صرف ”آتش بازی“ کی ایک رسم کئی بدترین اور بڑے گناہوں کا مجموعہ ہے، جو کسی بھی طرح مسلم معاشرے میں رواج پانے کے لائق نہیں؛ بلکہ پہلی فرصت میں قابلِ ترک ہے۔
 
شمولیت
اگست 28، 2018
پیغامات
200
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
90
(4)چراغاں کرنا:
پندرہ شعبان کے موقع پر بعض لوگ گھروں، مسجدوں اور قبرستانوں میں چراغاں کرتے ہیں، یہ بھی اسلامی طریقے کے خلاف ہے اور ہندوؤں کے تہوار دیوالی کی نقل اور مشابہت ہے۔ مشہور حنفی عالم بدرالدین عینی رحمہ اللہ نے لکھاہے کہ: چراغاں کی رسم کا آغاز یحییٰ بن خالد برمکی سے ہوا ہے، جو اصلاً آتش پرست تھا، جب وہ اسلام لایا تو اپنے ساتھ یہ آگ اور چراغ کی روشنی بھی لایا، جو بعد میں مسلم سوسائٹی میں داخل ہوگئی اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ اس کو مذہبی رنگ دے دیاگیا۔ (عمدة القاری 11/117) اسی طرح غیرمسلموں کے ساتھ میل جول کی وجہ سے یہ رسم ہم نے اسلام میں داخل کرلی اور غیروں کی نقالی کرنے لگے، جب کہ غیروں کی نقل ومشابہت پر سخت وعید آئی ہے جس کو اوپر بیان کردیاگیا۔
(5)حلوہ پکانا:
اس موقع پر بعض لوگ حلوہ پکاکر حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے نام کی نیاز لگاتے ہیں؛ حالاں کہ اس رات کا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے یہ نا تو آپ کی ولادت کا دن ہے اور ناہی آپ کی وفات کا بلکہ آپ کی شہادت شوال کے مہینہ میں واقع جنگ احد میں ہوئی ہے اور پھر شہداء یا کسی بھی ولی کی نیاز لگانا حرام ہے جس کی شریعت میں کوئی گنجائش نہیں ہے اور اس رات حلوہ پکانے کا بھی کوئی ثبوت نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں ہے ہمیشہ یاد رکھیں کوئی بھی کام جس کو دین سمجھ کر کیا جا رہا ہے اس کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہونا ضروری ہے ورنہ وہ مردود ہے۔ آیات کریمہ، احادیث شریفہ، صحابہٴ کرام کے آثار، تابعین
و تبع تابعین کے اقوال اور بزرگانِ دین کے عمل میں کہیں اس کا تذکرہ اور ثبوت نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ شیطان نے یہ سوچا کہ اس رات میں مشرک اور کینہ توز کے علاوہ اللہ تعالیٰ لا تعداد لوگوں کی مغفرت فرماتا ہے تو شیطان سے یہ بات کیسے برداشت ہوگی؛ اس لیے اس نے مسلمانوں کو غیر اللہ کی نیاز میں لگا کر مشرکین کی صف میں کھڑا کردیا اور ان خرافات میں پھنسا کر سنّت طریقے سے دور کردیا بلکہ اللہ کے مومن بندوں سے کینہ و حسد میں مبتلا کردیا، إنا لله وإنا إليه راجعون.
بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دندانِ مبارک جب شہید ہوئے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حلوہ نوش فرمایاتھا، یہ بات بالکل من گھڑت اور بے اصل ہے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دندانِ مبارک غزوہ احد میں شہید ہوئے تھے، اور غزوہ احد ماہِ شوال میں پیش آیا تھا، جب کہ حلوہ شعبان میں پکایا جاتا ہے، دانت ٹوٹنے کی تکلیف ماہِ شوال میں اور حلوہ کھایا گیا دس مہینے بعد شعبان میں، کس قدر بے ہودہ اور باطل خیال ہے!
(6) گھروں کی صفائی ستھرائی اور روحوں کی حاضری کا عقیدہ رکھنا:
اس رات میں گھروں کی لپائی پوتائی اور نئے کپڑوں کی تبدیلی کا اہتمام بھی بعض لوگ کیا کرتے ہیں، نیز گھروں میں اگربتی جلاتے ہیں اور یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اس رات میں مردوں کی روحیں گھروں میں آتی ہیں، لہذا ان کے استقبال میں ایسا کیا کرتے ہیں۔ یہ عقیدہ بالکل فاسد اور مردود ہے، یہ عقیدہ رکھنا جائز نہیں؛کیوں کہ کوئی بھی انسان مرنے کے بعد اس دنیا میں نہیں آتا ہے مومن ہے تب بھی اور مشرک، کافر ہے تب بھی چنانچہ ترمذی حدیث نمبر 1071 میں اس کی وضاحت موجود ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جب میت کو قبر میں داخل کردیا جاتا ہے تو دو فرشتے آتے ہیں اور اس سے سوال جواب کرتے ہیں اگر بندہ مومن ہوتا ہے تو ان کے جوابات صحیح صحیح دیتا ہے اور اس کی قبر کو کشادہ کردیا جاتا ہے اور فرشتے اس سے کہتے ہیں کہ تو سو جا اس دلہن کی طرح جس کے گھر کے افراد میں سب سے زیادہ محبوب اس کو جگاتا ہے یہاں تک کہ اللہ اس کو قیامت کے دن اٹھائے گا اور اگر بندہ منافق ہوتا ہے تو وہ ان کے سوالات کے جواب میں کہتا ہے ہائے! ہائے میں نہیں جانتا، اس کی قبر کو تنگ کردیا جاتا یہاں تک کہ قیامت کے دن اللہ اس کو اٹھائے گا. اس سے معلوم ہوا کہ بندہ مومن ہو یا کافر و مشرک یا منافق کسی بھی صورت میں وہ دنیا میں نہیں آتا، لگتا ہے یہ عقیدہ بھی ہندوؤں کے باطل عقیدے آوا گبن سے جاہل مسلمانوں میں در آیا ہے! غرض یہ کہ اس قبیل کی تمام رسمیں خرافات اور بے اصل ہیں، جن کا دین سے کوئی تعلق نہیں؛ لہٰذا ان سب چیزوں سے احتراز لازم ہے، ہماری کامیابی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع میں ہی مضمر ہے.
 
شمولیت
اگست 28، 2018
پیغامات
200
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
90
آخری بات: تاریخ اسلام کا مطالعہ کرنے والے پر یہ بات مخفی نا ہوگی کہ پندرہ شعبان کی بدعات بھی رجب اور محرم کی بدعات کی طرح روافض و شیعوں کی دین ہے، ان کے یہاں یہ رات بہت متبرک اور پاکیزہ تصور کی جاتی ہے کیونکہ یہ ان کے امام غائب کی پیدائش کی تاریخ ہے، چنانچہ ایک شیعہ مصنف لکھتا ہے "پندرہ شعبان إمام مہدی آخر الزماں علیہ السلام کا روز ولادت شیعوں کو ایسا قد آور آئینہ عطا کرتا ہے جب وہ اس میں دیکھتا ہے اسے اپنے مذہب کی تمام خصوصیات کا عکس اس میں واضح طور پر نمایاں نظر آتا ہے اسی لئے وہ اس بات کی بھرپور کوشش کرتا ہے کہ وہ اس نور کو ہمیشہ زندہ رکھے اور اس خوشی کو ہمیشہ تازہ رکھے........ اس بنا پر ضروری ہے کہ امام علیہ السلام کا روز ولادت (پندرہ شعبان) نہایت احترام و تزک و احتشام کے ساتھ منایا جائے کیونکہ یہ خوشی مذہب کی ابدیت کی دلیل ہے جہاں تمام امیدیں مستقبل میں عملی ہو جائیں گی یہی سبب ہے کہ شیعہ اپنے اور انسانی معاشرے کے گرد نور کا دائرہ دیکھ رہے ہیں اور اسی دائرہ میں مہدویت کا اعتقاد "تعمیری اور زندگی اور زندگی کو متحرک بنانے والا" أمام مہدی علیہ السلام کا اسم گرامی جد و جہد اور اس سمت لے جانے والی ہر تحریک کو کامیابی کی منزل تک پہنچانے والا اور "انتظار" تحریک کو آگے بڑھانے کا آلہ اور متحرک وسیلہ ہے یہ باتیں اس وقت اور زیادہ اہم ہوجاتی ہیں جب ہم دیکھتے ہیں دنیا کا عظیم ترین آخری انقلاب الہی قوانین الہی ہدایت اور الہی رہبر کے زیر سایہ رونما ہوگا " (نور کائنات : 8) یہ عبارت شیعہ حضرات کی اس تاریخ سے ان کی والہانہ محبت و عقیدت کو صاف بیان کر رہی ہے ممکن ہے رجب کے کونڈوں کی طرح اصل مقصد کو صیغہ راز میں رکھ کر پندرہ شعبان کی فضیلت کو من گھڑت اور بناوٹی احادیث کے ذریعے بڑا چڑھا کر بیان کیا ہو اور مسلم معاشرے میں اس کو پھیلا دیا ہو؟ بہرحال معاملہ جو بھی ہو ایک سچے مسلمان کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی إتباع میں صرف اتنی ہی بات کرنی چاہیے جتنی اس کے نبی نے کی ہے جس کی وضاحت اوپر ہو چکی ہے اللہ ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے آمین
 
شمولیت
اگست 28، 2018
پیغامات
200
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
90
سرر هذا الشهر کا مفہوم

تحریر :عبد الخبیر السلفی بدایوں
بہار سے ہمارے ایک بھائی نے بخاری، مسلم، مسند احمد بن حنبل وغیرہ میں موجود ماہ شعبان میں روزہ سے متعلق ایک روایت کے بارے میں معلوم کیا تھا اس کی تشریح آپ کے سامنے پیش کی جا رہی ہے روایت اس طرح ہے. " حَدَّثَنَا الصَّلْتُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا مَهْدِيٌّ ، عَنْ غَيْلَانَ . ح وحَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ ، حَدَّثَنَا مَهْدِيُّ بْنُ مَيْمُونٍ ، حَدَّثَنَا غَيْلَانُ بْنُ جَرِيرٍ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، أَنَّهُ سَأَلَهُ ، أَوْ سَأَلَ رَجُلًا وَعِمْرَانُ يَسْمَعُ ، فَقَالَ : يَا أَبَا فُلَانٍ ، أَمَا صُمْتَ سَرَرَ هَذَا الشَّهْرِ ؟ قَالَ : أَظُنُّهُ قَالَ يَعْنِي رَمَضَانَ ، قَالَ الرَّجُلُ : لَا يَا رَسُولَ اللَّهِ ، قَالَ : فَإِذَا أَفْطَرْتَ ، فَصُمْ يَوْمَيْنِ ، لَمْ يَقُلِ الصَّلْتُ أَظُنُّهُ يَعْنِي رَمَضَانَ ، قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ : وَقَالَ ثَابِتٌ : عَنْ مُطَرِّفٍ ، عَنْ عِمْرَانَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ سَرَرِ شَعْبَانَ . (بخاری :1983)
یعنی عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا یا ( مطرف نے یہ کہا کہ ) سوال تو کسی دوسرے آدمی نے کیا تھا لیکن وہ سن رہے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اے ابوفلاں! کیا تم نے اس مہینے کے آخر کے روزے رکھے؟ ابونعمان نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ راوی نے کہا کہ آپ کی مراد رمضان سے تھی۔ ابوعبداللہ ( امام بخاری رحمہ اللہ ) کہتے ہیں کہ ثابت نے بیان کیا، ان سے مطرف نے، ان سے عمران رضی اللہ عنہ نے اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ( رمضان کے آخر کے بجائے ) شعبان کے آخر میں کا لفظ بیان کیا. مسلم میں یہ روایت اس طرح ہے "وحَدَّثَنِي عَبْدُ اللهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَسْمَاءَ الضُّبَعِيُّ، حَدَّثَنَا مَهْدِيٌّ وَهُوَ ابْنُ مَيْمُونٍ، حَدَّثَنَا غَيْلَانُ بْنُ جَرِيرٍ، عَنْ مُطَرِّفٍ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ لَهُ: - أَوْ قَالَ لِرَجُلٍ وَهُوَ يَسْمَعُ - «يَا فُلَانُ، أَصُمْتَ مِنْ سُرَّةِ هَذَا الشَّهْرِ؟» قَالَ: لَا، قَالَ: «فَإِذَا أَفْطَرْتَ، فَصُمْ يَوْمَيْنِ»" (مسلم :2745) یعنی حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا ۔ یاکسی اور شخص سے پوچھا اور وہ سن رہے تھے : اےفلاں!کیا تم نے اس مہینے کے آخیر میں روزے رکھے ہیں؟ اس نے جواب دیا، نہیں : آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛ تو جب روزے ترک کرو تو دو دن کے روزے رکھ لو.
یہ روایت مختلف الفاظ کے ساتھ بخاری، مسلم کے علاوہ مسند احمد بن حنبل اور دارمی وغیرہ میں بھی موجود ہے
هذا الشهر کا مفہوم :
روایت میں موجود لفظ "ھذا الشھر" سے مراد کونسا مہینہ ہے اس میں بخاری کی سند کے ایک راوی ابونعمان رحمہ اللہ کو گمان یہ ہے کہ اس مہینہ سے مراد رمضان کا مہینہ ہے لیکن مسلم، دارمی اور مسند احمد بن حنبل وغیرہ میں موجود روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد شعبان کا مہینہ ہے جیسا کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے ثابت عن مطرف کے حوالے سے اس کی وضاحت کی ہے چنانچہ مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ جب اس آدمی سے اس ماہ کے آخیر میں روزے سے متعلق پوچھا اور انہوں نے نفی میں اس کا جواب دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "فَإِذَا أَفْطَرْتَ مِنْ رَمَضَانَ فَصُمْ يَوْمَيْنِ مَكَانَهُ " یعنی جب تم رمضان کے روزے رکھ لو تو اس کی جگہ دو روزے رکھو، حدیث کے اس ٹکڑے سے اس بات کی وضاحت ہوتی ہے کہ حدیث میں موجود "اس ماہ" سے مراد شعبان کا مہینہ ہے،
سرر ھذا الشہر کا مفہوم
اس روایت میں موجود لفظ "سرر" کے متعلق علماء کا اختلاف ہے
چنانچہ حافظ إبن حجر رحمہ اللہ نے اس اختلاف کو فتح الباری میں بیان کیا ہے فرماتے ہیں" و"السرر" بفتح السين المهملة، ويجوز كسرها وضمها جمع سرة ويقال أيضا: "سرار" بفتح أوله وكسره، ورجح الفراء الفتح، وهو من الاستسرار، قال أبو عبيد والجمهور: المراد بالسرر هنا آخر الشهر، سميت بذلك لاستسرار القمر فيها وهي ليلة ثمان وعشرين وتسع وعشرين وثلاثين. ونقل أبو داود عن الأوزاعي وسعيد بن عبد العزيز أن سرره أوله، ونقل الخطابي عن الأوزاعي كالجمهور، وقيل: السرر وسط الشهر. حكاه أبو داود أيضا ورجحه بعضهم، ووجهه بأن السرر جمع سرة وسرة الشيء وسطه، ويؤيده الندب إلى صيام البيض، وهي وسط الشهر، وأنه لم يرد في صيام آخر الشهر ندب، بل ورد فيه نهي خاص وهو آخر شعبان لمن صامه لأجل رمضان، " یعنی " اور" السرر" سین کے زبر کے ساتھ، اور اس پر پیش اور زیر بھی جائز ہے" سرّۃ" کی جمع ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے" سرار" سین کے زبر اور زیر کے ساتھ لیکن الفراء نے زبر کو راجح قرار دیا ہے (سَرار) اور یہ" الاستسرار "سے ہے، ابو عبید اور جمہور کہتے ہیں کہ یہاں السرر سے مراد مہینہ کا آخر ہے، اس کا نام "سرر " مہینہ کے آخر میں چاند کے چھپنے کی وجہ سے رکھا گیا ہے اور وہ شعبان کی اٹھائیس اور انتیس کی رات ہے. ابو داؤد نے اوزاعی اور سعید بن عبدالعزيز رحمہم اللہ سے نقل کیا ہے کہ سرر سے مراد مہینہ کا شروع ہے جبکہ امام خطابی نے اوزاعی سے ابوداؤد کے برعکس جمہور ہی کا قول نقل کیا ہے، اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ سرر سے مراد مہینہ کا درمیانہ مراد ہے، اس کو ابوداؤد نے بھی بیان کیا ہے اور بعض علماء نے اس کو راجح قرار دیا ہے اور اس کی توجیہ یہ ہے کہ سرر، سرۃ کی جمع ہے اور سرۃ کسی بھی چیز کا میانہ ہوتا ہے اور اس کی تائید ایام بیض کے روزوں کے مستحب ہونے سے ہوتی ہے اور یہ مہینہ کا وسط ہی ہے، اور مہینہ کے آخر میں روزوں کا استحباب وارد نہیں ہے، بلکہ اس میں تو خاص طور پر نہی وارد ہوئی ہے اور وہ ہے شعبان کے آخر میں جس نے روزہ رکھا رمضان کی وجہ سے (استقبال میں)
امام نووی رحمہ اللہ نے بھی شرح مسلم میں اس اختلاف کو ذکر کیا ہے آخر میں بیان کرتے ہیں " قال القاضی :والأشهر أن المراد آخر الشھر کما قالہ أبو عبید و الاکثرون" یعنی قاضی کہتے ہیں اور زیادہ مشہور بات یہ ہے کہ اس سے مراد مہینہ کا آخر ہے جیسا کہ أبو عبید اور اکثر علماء نے کہا ہے، اس تفصیل سے یہ بات معلوم ہوئی کہ" سرر الشھر" کی توضیح میں علماء کی آراء مختلف ہیں
(1) جمہور اہل علم کی رائے یہ ہے کہ اس سے مراد مہینہ کا آخر ہے ، اس کی دلیل یہ کہ یہ" استسرار القمر" سے ہے جس کا مطلب ہوتا ہے چاند کا مہینہ کی آخری تاریخوں میں چھپنا،
(2) اس سلسلے کی دوسری رائے یہ ہے کہ اس سے مراد مہینہ کا درمیان یعنی پندرہ شعبان ہے بعض علماء نے اس کو راجح قرار دیا ہے، اس کی دلیل یہ ہے کہ اس کا ایک معنی "وسط الشی" یعنی کسی چیز کا درمیانہ بھی ہوتا ہے اور مسلم کی روایت میں "سُرّۃ" کے الفاظ بھی آئے جس کے معنی ناف کے ہیں اور اس کو سرۃ اسی وجہ سے کہتے ہیں کیونکہ یہ درمیان میں ہوتی ہے،
(3) اس سلسلے کی تیسری رائے یہ ہے کہ اس سے مراد مہینہ کا شروع ہے جیسا کہ بعض علماء کہا ہے
راجح قول ان اقوال میں دلائل کے اعتبار سے جمہور اہل علم کا قول زیادہ راجح لگتا ہے اور اس کی کئی وجہ ہیں،
(1) صرف مسلم میں "سرۃ" کا لفظ ہے بقیہ احادیث میں "سرر" یا سرار کے الفاظ ہیں چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں " لكن لم أره في جميع طرق الحديث باللفظ الذي ذكره وهو" سرة " بل هو عند أحمد من وجهين بلفظ" سرار" و أخرجه من طرق سليمان التيمي في بعضها سرر وفي بعضها سرار، و هذا يدل على أن المراد آخر الشھر" حافظ إبن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ لیکن میں نے نہیں دیکھا حدیث کی تمام اسناد میں اس لفظ کو جس کو انہوں نے (امام مسلم رحمہ اللہ) بیان کیا ہے اور وہ لفظ "سرۃ" ہے بلکہ امام احمد نے اس کو دو سندوں سے لفظ" سرار" کے ساتھ روایت کیا ہے اور سلیمان التیمی کی سند سے انہوں نے روایت کیا ہے اس کی بعض سند میں سرر اور بعض میں سرار ہیں اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس سے مراد مہینہ کا آخر ہے
(2) اگر لفظ "سرۃ" ہی فرض کر لیا جائے پھر بھی یہ مہینہ کے وسط کے لئے صریح نہیں ہے کیونکہ "سرۃ" کی دوسرے أعضاء جسم کے مقابلے میں بہتر ہونے کی دلیل کتاب و سنت میں موجود نہیں ہے جیسا کہ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ اس درمیان اور بہتر ہونے کی وجہ سے سرۃ کہا گیا ہے بلکہ قرآن اور حدیث میں اس کے مقابلے دوسرے أعضاء کے اشرف ہونے کے اشارے ملتے ہیں مثلاً دل، چہرہ وغیرہ وغیرہ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا جا سکتا ہے اس کو "سرۃ" اس کے ارد گرد کے مقابلے اس کے پوشیدہ ہونے کی وجہ سے کہا جاتا ہے
(3) اس سلسلے کی تیسری بات یہ کہ بظاہر حدیث سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ رمضان کا مہینہ شروع ہو چکا تھا جس سے بظاہر یہی گمان ہوتا ہے کہ یہ مہینہ کے آخر کا معاملہ ہو ناکہ شعبان کی پندرہ تاریخ کا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت یہ نہیں کہ آپ کسی معاملے کو ایک ایک دو دو ہفتہ ٹالے رہیں اور دو تین ہفتے کے بعد کسی معاملے کے متعلق پوچھیں، شاید ایسی کوئی بھی مثال نہیں پیش کی جا سکتی جس میں آپ نے عمل کے امکان کے بعد بھی بلا وجہ کسی کام کو مؤخر کیا ہو؟اور جو لوگ اس سے مراد شعبان کا درمیانہ لے رہے ہیں ان کے پاس بجزء اس کے کوئی دلیل نہیں کہ ایام بیض کے روزے مستحب ہیں، یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ ایام بیض کے روزے مستحب ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہیں لیکن مسئلہ زیر بحث میں اس کی کوئی دلیل نہیں ہے
اب صرف ایک بات رہ جاتی ہے کہ اگر اس سے مراد مہینہ کا آخر ہے تو ایسی صورت میں یہ روایت ان روایات کے خلاف ہے جن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے ایک دو دن پہلے روزہ رکھنے سے منع فرمایا چنانچہ حدیث میں ہے "لا يَتَقَدَّمَنَّ أحَدُكُمْ رَمَضانَ بصَوْمِ يَومٍ أوْ يَومَيْنِ، إلّا أنْ يَكونَ رَجُلٌ كانَ يَصُومُ صَوْمَهُ، فَلْيَصُمْ ذلكَ اليَومَ" (صحيح البخاري:1914)
یعنی تم میں سے کوئی ہرگز ہرگز رمضان سے ایک یا دو دن پہلے روزہ نا رکھے مگر وہ شخص جو روزے رکھتا چلا آرہا ہے تو وہ اس دن روزہ رکھ لے، گویا کہ رمضان سے ایک دو دن پہلے روزہ رکھنا عام حالات میں جائز نہیں ہے ہاں اگر کسی کی کسی دن یا تاریخ کے روزے کی عادت ہو تو اس کو روزہ رکھنے میں حرج نہیں ہے، بظاہر یہ روایت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کی زیر بحث روایت کے خلاف نظر آرہی ہے لیکن علماء نے اس کے کئی جواب دئیے ہیں
(1) یہ شخص جن کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ رکھنے کا حکم دیا اس سلسلے میں احتمال ہے ممکن ہے یہ حکم اس وجہ سے دیا ہو کہ یہ ان کی عادت رہی ہو اور جب انکو رمضان سے پہلے ایک دو دن پہلے روزہ نا رکھنے کا نبوی حکم پہنچا تو انہوں نے یہ روزے چھوڑ دئیے ہوں اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو حکم دیا کہ اس کی جگہ رمضان کے روزے ہونے کے بعد دو روزے رکھو،
(2) اس کا بھی احتمال ہے کہ یہ ان کے نذر کے روزے رہے ہوں جن کو انہوں نے چھوڑ دیا ہو،
(3) اس میں احتمال یہ بھی ہے کہ یہ حکم اس صحابی کے لئے خاص ہو کسی بھی وجہ سے، جبکہ دیگر امتیوں کے لئے حکم یہ ہے کہ رمضان سے ایک دو دن پہلے روزہ رکھنا جائز نہیں ہے
اس تفصیل سے ان لوگوں کی غلطی بھی واضح ہو جاتی ہے جو ان روایات سے صرف پندرہ شعبان کے روزے کی دلیل پکڑتے ہیں کیونکہ پہلی بات تو یہ کہ یہ متعین نہیں کہ اس سے مراد پندرہ شعبان ہے بلکہ اس کے بر عکس دلائل سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اس سے مراد مہینہ کا آخر ہے ،دوسری بات یہ کہ بالفرض مان لیا جائے کہ اس مراد پندرہ شعبان ہے جیسا کہ بعض علماء کا قول ہے تو بھی اس سے مراد صرف پندرہ شعبان نہیں بلکہ اس مراد ایام بیض ہوں گے (13-14-15)
 
Last edited:
شمولیت
اگست 28، 2018
پیغامات
200
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
90
فتح الباری یا شرح مسلم کے حوالے انہی احادیث کے تحت ہیں جن کا ذکر اوپر بخاری و مسلم کے حوالے سے گذرا
 
Top