- شمولیت
- اگست 25، 2014
- پیغامات
- 6,372
- ری ایکشن اسکور
- 2,589
- پوائنٹ
- 791
ماہ شعبان کی بدعات
محمد اسحاق سلفی
شعبان ہجری سال کا آٹھواں مہینہ ہے۔ لفظ شعب اس وقت کے لیے استعمال ہوتا ہے جس میں علیحدگی اختیار کی جاتی ہو۔ اہل عرب اس ماہ میں پانی کی تلاش میں دور نکل جاتے تھے اور انھیں ایک دوسرے سے علیحدہ ہونا پڑتا تھا۔ شعبان کو مکرم بھی کہا جاتا ہے۔ شعبان کی پندرہویں شب کو عرف عام میں شب برأت بھی کہا جاتا ہے۔ اسلام سے نابلد بعض مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ اس رات میں گناہ بخشے جاتے ہیں، عمریں بڑھائی جاتی ہیں، روزی میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ اسی لیے بعض مسلمان رات جاگ کر بلند آواز سے دعائیں کرتے ہیں۔ ان دعاؤں کو لوگوں نے از خود گڑھ لیا ہے۔ قبروں کی زیارت کرتے ہیں اور روشنی و چراغاں کرتے ہیں، حلوہ بناتے ہیں اور قبروں پر پھول چڑھاتے ہیں۔ بیوہ عورت یہ عقیدہ رکھتی ہے کہ اس کے شوہر کی روح پندرہویں شعبان کی رات میں آتی ہے، اس لیے اس کے واسطے پسندیدہ کھانا پکاتی ہے۔ بعض علماء اس رات کے لیے شب قدر جیسی فضیلتیں بیان کرتے ہیں اور لوگوں کے ذہن میں یہ بات ڈالتے ہیں کہ شب قدر میں جس روح کے نزول کا ذکر قرآن مجید میں ہے اس سے مراد مُردوں کی روحیں ہیں۔ اس رات میں یہ لوگ شب بیداری کرتے، مسجدوں میں جمع ہوکر رات بھر نوافل پڑھتے اور اس رات قبروں کی زیارت کرتے ہیں۔ واعظین اس شب کی فضیلت میں یہ حدیث بیان کرتے ہیں: قُوْمُوْا لَیْلَہَا وَصُوْمُوْا نَہَارَہَا۔ یعنی اس رات میں نوافل پڑھو اور دن میں ر وزہ رکھو۔
پندرہویں شعبان کی رات کے بارے میں دو نظریے پائے جاتے ہیں جن کا اثر آج انتہائی عروج پر ہے۔ شام و بصرہ کے تمام تابعین اور عباد و زہاد اس رات اجتماعی طور پر مسجدوں میں جاگنا، اچھے کپڑے پہننا، خشوع و خضوع کے ساتھ بکثرت عبادت کرنا مستحب سمجھتے تھے اور خود بھی اس پر کار بند ہوتے تھے۔ اس ضمن میں خالد بن معدان مکحول اور لقمان بن عامر کا نام بطور خاص آتا ہے جب کہ شام کے شہرۂ آفاق عالم اوزاعی اور دوسرے بعض علماء کا خیال ہے کہ یہ امور اجتماعی نہیں بلکہ انفرادی طور پر درست ہیں۔ اس کے بر خلاف علمائے حجاز و فقہائے مدینہ پندرہویں شعبان کی رات کی بابت وارد ساری حدیثوں کو ضعیف موضوع اور اس رات مذکورہ بالا اعمال و افعال کو بدعت قرار دیتے ہیں۔
(اقتضاء الصراط المستقیم لابن تیمیہ ۲/ ۱۲۶)
ابن رجب فرماتے ہیں پندرہویں شعبان کی رات کے متعلق امام احمد کا کوئی کلام نہیں ہے لیکن ان سے دو ایسی روایتیں منقول ہیں، جن سے اس رات میں قیام کے استحباب پر استدلال کیا جاسکتا ہے اور دونوں روایتیں عیدین کی راتوں میں قیام سے متعلق ہیں۔ ایک روایت ہے کہ اس رات میں جماعت کے ساتھ قیام کرنا مستحب نہیں ہے۔ اس لیے کہ نبی ﷺ سے منقول نہیں ہے اور دوسری روایت میں ہے کہ اس رات میں قیام مستحب ہے اور استدلال عبدالرحمن بن یزید بن الاسود کے فعل سے ہے جو تابعی ہیں۔ اس طرح پندرہ شعبان کی رات کا قیام نبی ﷺ اور آپ کے اصحاب سے ثابت نہیں ہے لیکن تابعین شام کے کی ایک جماعت سے اس رات کا قیام ثابت ہے۔
(لطائف المعارف للحافظ ابن رجب بحوالہ التحذیر من البدع لابن باز، ص۲۳)
خود ابن رجب کے کلام میں اس بات کی تصریح موجود ہے کہ پندرہ شعبان کی رات کی عبادت کے بارے میں حضور ﷺ اور آپ کے ساتھیوں سے کچھ ثابت نہیں ہے۔ امام اوزاعی اور ابن رجب کا اس رات میں انفرادی طور پر عبادت اختیار کرنا غریب اور ضعیف ہے۔ اس لیے کہ کسی مسلمان کو اس بات کا حق نہیں ہے کہ جو چیز دلیل شرعی سے ثابت نہ ہو اسے دین میں داخل کرے خواہ اس کا تعلق انفرادی عمل سے ہو یا اجتماعی عمل سے، اسے خفیہ کیا جائے یا اعلانیہ۔ اس کے لیے اﷲ کے رسول اﷲ ﷺ کا فرمان عام ہے:
من احدث فی امرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد۔ (صحیح بخاری کتاب الصلح باب اذا اصطلحوا علی صلح جور ۵/ ۳۷۷ رقم الحدیث ۲۶۹۷، صحیح مسلم، کتاب الأقضیۃ باب نقض الاحکام الباطلۃ ۶/ ۲۵۷ رقم الحدیث ۱۷)
’’جس نے بھی ہمارے اس دین میں نئی بات پیدا کی جو اس میں نہیں ہے تو وہ مردود ہے۔‘‘
اس حدیث کا شمار اسلام کے اصول اور اس کے قواعد میں ہوتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جس نے بھی دین میں اختراع کیا جس کی شہادت دین کے اصول سے نہیں ملتی تو وہ ہرگز قابل توجہ نہیں ہوگی۔ امام نووی رحمہٗ اﷲ فرماتے ہیں :
’’اس حدیث کا حفظ کے ذریعہ اہتمام کرنا چاہیے اور منکرات کے ازالہ میں اس کا استعمال ہونا چاہیے اور اس کے استدلال کو عام کیا جانا چاہیے۔‘‘
الحاصل پندرہ شعبان کی رات میں متعد روایتیں ہیں اور سب کی سب موضوع یا ضعیف ہیں جن سے استدلال کرنا درست نہیں ہے۔ ضعیف حدیث کے سلسلہ میں ایک اہم قاعدہ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ نے ذکر کیا ہے۔ فرماتے ہیں:
’’ضعیف حدیثوں پر عبادات کے باب میں اس وقت عمل کیا جائے گا جب کہ اس کی اصل صحیح دلیل سے ثابت ہو لیکن پندرہ شعبان کی روایت کو منانے والے جشن کے بارے میں کوئی دلیل نہیں ہے۔‘‘ (اقتضاء الصراط المستقیم لابن تیمیہ ۲/ ۲۶)
پندرہ شعبان کی رات والی ان احادیث نے امت مسلمہ کی ایک بڑی تعداد کو راہ حق سے دور تیرگی وتاریکی میں لا کھڑا کیا ہے، ضرورت ہے کہ ان کی حقیقت سے قارئین کو آگاہ کیا جائے۔
پندرہ شعبان کی روایتوں کا جائزہ
۱- حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ کی روایت:
من صلی لیلۃ النصف من شعبان اثنتی عشرۃ رکعۃ یقرأ فی کل رکعۃ قل ہو اﷲ احد ثلاثین مرۃ لم یخرج حتی یری مقعدہ من الجنۃ ویشفع فی عشرۃ من اہل بیتہ کلہم وجبت لہ النار۔
’’جس نے پندرہ شعبان کی رات بارہ رکعت نماز پڑھی اور ہر رکعت میں سورۂ اخلاص تیس مرتبہ پڑھی تو مرنے سے پہلے جنت میں اس کا ٹھکانہ دکھایا جائے گا اور اس کے گھر والوں میں دس ایسے لوگوں کے سلسلہ میں اس کی سفارش قبول کی جائے گی جن پر جہنم واجب ہوچکی ہوگی۔‘‘
’’حدیث کی تخریج‘‘
اس حدیث کو بزار نے کشف الاستار (۴۳۶/۲) میں ابن عراق نے تنزیۃ الشریعۃ عن اخبار الموضوعۃ میں اور علامہ ابن جوزی نے العلل المتناہیۃ (۷۰/۱) میں بیان کیا ہے۔
دونوں کی سندیں ہشام بن عبدالرحمن پر آکر ملتی ہیں۔ ہشام اعمش سے روایت کرتے ہیں اور اعمش ابو صالح سے اور ابو صالح حضرت ابو ہریرۃ سے۔
’’حدیث کی سند‘‘
ہشام بن عبدالرحمن، یہ غیر معروف ہیں۔ (مجمع الزوائد ۶۵/۸)
الاعمش، ان کا نام سلیمان بن مہران ہے یہ ثقہ ہیں، لیکن تدلیس سے متصف ہیں۔ (تقریب التہذیب ص ۲۵۴)
’’حدیث کا حکم‘‘
بزار نے کہا کہ اس حدیث کے بیان کرنے میں ہشام کا کوئی متابع نہیں۔
(کشف الاستار ۴۳۶/۲)
امام ابن جوزی رحمہٗ اﷲ فرماتے ہیں کہ:
’’یہ حدیث صحیح نہیں ہے، اس میں بہت سے مجہول راوی ہیں۔‘‘ (العلل المتناھیۃ ۷۰/۱)
۲- حضرت علی رضی اﷲ عنہ کی روایت:
ان النبی ﷺ قال یا علی من صلی مائۃ رکعۃ فی لیلۃ النصف من شعبان یقرأ فی کل رکعۃ بفاتحۃ الکتاب وقل ہو اﷲ احد عشر مرات قال النبی ﷺ یا علی ما من عبد یصلی ہذہٖ الصلوۃ إلا قضی اﷲ عزوجل کل حاجۃ طلبہا تلک اللیلۃ۔ الخ
’’رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: اے علی جس نے بھی پندرہ شعبان کی رات سو رکعت نماز پڑھی اور ہر رکعت میں سورہ فاتحہ وقل ہو اﷲ احد دس بار پڑھا ۔پھر آپ نے فرمایا: اے علی جو بندہ بھی ان نمازوں کو ادا کرتا ہے تو اﷲ اس کی تمام حاجتوں کو جو اس رات طلب کرتا ہے، پوری کردیتا ہے۔‘‘
امام شوکانی فرماتے ہیں :
’’یہ حدیث موضوع ہے اور اس حدیث میں رات کا اہتمام کرنے والوں کے لیے جس قدر ثواب کی تصریح کی گئی ہے، ارباب بصیرت کے نزدیک اس روایت کے ضعیف ہونے کے لیے یہی کافی ہے۔ اس حدیث کے رجال مجہول ہیں اور یہ حدیث دوسرے طرق سے بھی روایت کی جاتی ہے لیکن وہ موضوع ہیں اور ان کے رواۃ مجہول ہیں اور ’مختصر‘ میں فرماتے ہیں کہ پندرہ شعبان کی حدیث نماز باطل ہے۔‘‘
۳- حضرت علی رضی اﷲ عنہ سے دوسری روایت ہے:
عن النبی ﷺ قال اذا کانت لیلۃ النصف من شعبان فقوموا لیلہا وصوموا نہارہا فان اﷲ ینزل فیہا لغروب الشمش الیٰ سماء الدنیا فیقول ألا من مستغفرلی فاغفرلہ الا مسترزق فارزقہ الا مبتلی فاعافیہ الا کذا الا کذا حتی یطلع الفجر۔ (سنن ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلوۃ، باب ماجاء فی لیلۃ الصنف من شعبان، ۴۴۴/۱)
’’رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا جب نصف شعبان کی رات ہو تو رات میں قیام کرو اور دن میں روزہ رکھو، کیونکہ اﷲ تعالیٰ غروب آفتاب کے وقت اس شب میں آسمان دنیا کی جانب نزول فرماتا ہے اور کہتا ہے: کوئی مغفرت چاہنے والا ہے کہ میں اس کی مغفرت کروں۔ ہے کوئی رزق طلب کرنے والا کہ میں اسے رزق دوں، ہے کوئی مصیبت میں مبتلا کہ میں اسے عافیت دوں، اس طرح کے ارشادات فرماتا رہتا ہے یہاں تک کہ فجر طلوع ہوجاتی ہے۔‘‘
’’حدیث کی سند‘‘
حدثنا الحسن بن علی الخلال حدثنا عبدالرزاق انبانا ابن ابی سبرۃ عن ابراہیم بن محمد عن معاویۃ بن عبداﷲ بن جعفر عن ابیہ عن علی ابن ابی طالب۔
اس حدیث کا ایک راوی ابن ابی سبرۃ ہے جس کی کنیت ابوبکر ہے۔ اس کے بارے میں زوائد میں ہے کہ ضعیف ہے اور امام احمد بن حنبل اور ابن معین کہتے تھے کہ یہ حدیثیں وضع کرتا ہے۔ امام نسائی کہتے ہیں کہ یہ متروک ہے۔ ابن معین کہتے ہیں وہ ضعیف ہے۔ ابن حبان کہتے ہیں وہ ثقہ راویوں سے موضوع حدیثیں روایت کرتا ہے اس کو حجت بنانا صحیح نہیں۔ (تہذیب التہذیب، ۴۸/۱۲)
اس کا ایک راوی عبدالرزاق بن ہمام ہے جس کے بارے میں امام نسائی فرماتے ہیں کہ اپنے آخری دور میں جو روایات انھوں نے بیان کی ہیں، وہ منکر ہیں۔
(میزان الاعتدال، ۶۱۰/۲)
اس حدیث کے سلسلہ میں علامہ عبدالرحمن محدث مبارکپوری فرماتے ہیں:
لم اجد فی صوم یوم لیلۃ النصف من شعبان حدیثاً مرفوعاً صحیحاً واما حدیث علی الذی رواہ ابن ماجۃ بلفظ اذا کانت لیلۃ النصف من شعبان فقوموا لیلہا وصوموا نہارہا فقد عرفت انہ ضعیف جدّاً۔
اس سے قبل لکھتے ہیں:
وفی سندہ ابوبکر بن عبداﷲ بن محمد بن ابی سبرۃ القرشی العامری المدنی قیل اسمہ عبداﷲ وقیل قد ینسب الی جدہ رموہ بالوضع کذا فی التقریب وقال الذہبی فی المیزان ضعفہ البخاری وغیرہ وروی عبداﷲ وصالح ابنا احمد عن ابیہما قال کان یضع الحدیث قال النسائی متروک۔ (تحفۃ الاحوذی للمبارکفوری، ۵۳/۲)
’’مجھے پندرہ شعبان کے روزے کے بارے میں کوئی صحیح حدیث مرفوع نہیں ملی اور حضرت علی کی حدیث ’’فقوموا لیلہا وصوموا نہارہا‘‘ سخت ضعیف ہے کیوں کہ اس کا ایک راوی ابوبکر بن عبداﷲ بعض محدثین کے نزدیک متہم بالکذب ہے اور امام بخاری نے ضعیف کہا ہے اور امام احمد نے کہا ہے کہ وہ حدیث گڑھتا تھا اور امام نسائی نے فرمایا کہ وہ متروک ہے، یعنی محدثین نے اس سے روایت کرنا چھوڑ دیا ہے۔‘‘
اس حدیث میں اﷲ تعالیٰ کے آسمان دنیا پر نزول فرمانے کا جو ذکر ہوا ہے وہ بخاری اور مسلم کی حدیث کے مطابق ہر شب کے لیے ہے۔ اسے شب برأت کے لیے خاص کرنے کی کوئی وجہ نہیں۔
معلوم ہوا کہ ابن ماجہ کی یہ روایت نہایت بودی ہے، اس لیے اس سے نہ نصف شعبان کی نماز ثابت ہوتی ہے اور نہ روزہ مگر عام طور سے علماء تحقیق کی زحمت نہیں کرتے اور لوگوں کو بدعتوں میں مشغول رکھتے ہیں۔
۴- اسی طرح حضرت علیؓ ہی سے ایک تیسری روایت مروی ہے:
فان أصبح ذلک الیوم صائما کان کصیام ستین سنۃ ماضیۃ وستین سنۃ مقبلۃ رواہ ابن الجوزی فی الموضوعات وقال موضوع واسنادہ مظلم۔ (تحفۃ الأحوذی للمبارکفوری ۳/ ۳۶۸)
’’شب برأت کا ایک روزہ ساٹھ سال گذشتہ اور ساٹھ سال آئندہ کے روزے کے برابر ہے۔ امام ابن جوزی نے اس کو اپنی کتاب موضوعات میں روایت کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ روایت موضوع ہے اور اس کی اسناد تاریک ہے۔‘‘
۵- حضرت علی رضی اﷲ عنہ سے ایک چوتھی روایت مروی ہے:
حضرت علی رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اﷲ ﷺ کو پندرہ شعبان کی رات میں دیکھا آپ نے چودہ رکعت نماز پڑھی پھر بیٹھے اور چودہ مرتبہ سورہ فاتحہ، چودہ مرتبہ قل أعوذ برب الناس اور ایک مرتبہ آیۃ الکرسی اور آیت ’لقد جائکم رسول‘ الی آخرہ پڑھی۔ میں نے فراغت کے بعد آپ کے اس عمل کے بارے میں پوچھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جس نے میرے اس عمل کی طرح کیا اسے بیس حج مبرور اور بیس سال کے روزوں کا ثواب ملے گا اور اگر اس دن کا روزہ رکھ لیا تو اسے دو سال کے روزوں کا ثواب ملے گا۔
امام بیہقی، زرقانی، ابن الجوزی، ابن عراق اور امام سیوطی نے اس پر ضعیف اور موضوع ہونے کا حکم لگایا ہے۔
(الموضوعات ۱۳/۲، تنزیۃ الشریعۃ ۲/ ۹۳، اللألی المصنوعۃ ۳/ ۶۰)
۶- حضرت ابوبکرؓ کی روایت:
پندرہ شعبان کی فضیلت میں حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے، وہ نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں:
یطلع اﷲ الی جمیع خلقہ لیلۃ النصف من شعبان فیغفر لجمیع خلقہ الا المشرک أو مشاحن۔ (ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلاۃ، باب ماجاء فی لیلۃ النصف من شعبان ۴۴۵/۱، رقم الحدیث ۱۳۹۰)
’’پندرہ شعبان کی رات اﷲ تعالیٰ اپنے تمام مخلوق کے اعمال پر مطلع ہوتا ہے اور مشرک و کینہ پرور کے علاوہ تمام بندوں کو بخش دیتا ہے۔‘‘
’’حدیث کی تخریج‘‘: اس حدیث کو بزار نے کشف الاستار (۴۳۰/۲)، ابن خزیمہ نے التوحید (۳۲۶/۳)، ابن ابی عاصم نے السنۃ (۲۲۱/۴)، لالکائی نے شرح الاعتقاد (۴۳۸/۵)، ابونعیم نے بحوالہ سلسلۃ الصحیحۃ (۱۳۲/۶)، بیہقی نے الترغیب والترہیب (۲۸۳/۷) میں روایت کیا ہے۔
سبھی ائمہ کی سندیں عبدالملک پر جاکر مل جاتی ہیں اور پھر سند یوں ہے:
عبد الملک عن مصعب بن ابی ذئب عن قاسم بن محمد عن ابیہ عن ابی بکر الصدیق مرفوعاً۔
’’حدیث کی سند‘‘
(۱) عبدالملک بن عبدالملک اس حدیث کا مدار انھیں پر ہے۔ امام بخاری نے ان کے بارے میں کہا ہے کہ ان کی حدیثیں محل نظر ہیں۔ حافظ ذہبی نے کہا ہے کہ امام بخاریؒ نے ان کے بارے میں ’’فی حدیثہٖ نظر‘‘ کہہ کر ان کی یہی حدیث مراد لی ہے ابن حبان نے کہا ہے کہ عبدالملک کی حدیثوں کی متابعت کوئی نہیں کرتا۔ (میزان الاعتدال، ۶۵۹/۲)
واضح ہو کہ امام بخاری کا ’’فی حدیثہٖ نظر‘‘ کہنا شدید ضعف کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ حافظ ابن حجر نے ابن عدی کا یہ قول نقل کیا ہے کہ عبدالملک اس حدیث سے معروف ہیں اور عمروبن الحارث کے علاوہ کوئی ان سے یہ حدیث روایت نہیں کرتا اور یہ حدیث اس سند سے منکر ہے۔ (لسان المیزان، ۶۷/۴)
(۲) مصعب بن ابی ذئب۔ اس حدیث کے راویوں میں مصعب بن ابی ذئب ہیں، ابو حاتم نے ان کو غیر معروف بتایا ہے۔ (الجرح والتعدیل، ۳۰۷/۸)
’’حدیث کا حکم‘‘: بزار کی رائے ہے کہ حدیث کی سند اگرچہ ضعیف ہے مگر راوی حضرت ابوبکرؓ ہیں، اس لیے ان کی عظمت حدیث کو تقویت بخشتی ہے اور عبدالملک غیر معروف ہیں، پھر بھی اہل علم نے اس حدیث کو بیان کیا ہے اور پسند فرمایا ہے۔
علامہ ہیثمی نے بزار کی رائے کی تردید کی ہے اور اسے ساقط اور ناقابل اعتبار گردانا ہے۔ (کشف الاستار، ۴۳۵/۲)
علامہ البانی نے اس حدیث کو صحیح اور سند کو عبدالملک و مصعب کی وجہ سے ضعیف بتایا ہے اور اس بات کی صراحت کی ہے کہ میں نے حدیث کی تصحیح صرف بکثرت صحابہ سے مروی ہونے کی بنا پر کی ہے۔ (ظلال الجنۃ، ۲۲۳/۱)
(۷) حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کی روایت
عن عروۃ عن عائشۃ قال فقدت رسول اﷲ ﷺ ذات لیلۃ فخرجت فاذا ہو بالبقیع رفع رأسہ الی السمآء فقال لی کنت تخافین ان یحیف اﷲ علیک ورسولہ؟ قالت قلت ظننت انک اتیت بعض نسائک فقال ان اﷲ عزوجل ینزل لیلۃ النصف من شعبان الی السمآء الدنیا فیغفر فیہا لأکثر من عدد شعر غنم بنی کلب۔ (سنن ترمذی مع التحفۃ ۳۶۴/۳، رقم الحدیث ۷۳۶، سنن ابن ماجہ کتاب اقامۃ الصلاۃ باب ماجاء فی لیلۃ النصف من شعبان ۴۴۴/۱، مسند احمد ۲۳۸/۶، الترغیب والترہیب ۲۸۳/۳)
’’حضرت عروہ سے مروی ہے کہ وہ حضرت عائشہ سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے کہا: میں نے ایک رات رسول اﷲ ﷺ کو موجود نہیں پایا۔ میں آپ ﷺ کی تلاش میں نکل پڑی تو کیا دیکھتی ہوں کہ آپ مدینہ کی قبرستان بقیع میں اپنا سر آسمان کی طرف اٹھائے ہوئے ہیں۔ آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ تمھیں یہ ڈر تھا کہ اﷲ اور اس کے رسول ﷺ تم پر ظلم کریں گے؟ میں نے کہا: مجھے گمان ہوا کہ آپ ﷺ اپنی عورتوں میں سے کسی کے پاس گئے ہوں گے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اﷲ تعالیٰ پندرہ شعبان کی رات کو آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے اور قبیلہ بنوکلب کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ لوگوں کی مغفرت کرتا ہے۔‘‘
یہ حدیث ترمذی نے جس سلسلۂ اسناد کے ساتھ بیان کی ہے، وہ یہ ہے:
ہم سے احمد بن منیع نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں ہمیں یزید بن ہارون نے خبر دی، وہ کہتے ہیں: ہمیں حجاج بن ارطاۃ نے خبر دی وہ یحییٰ بن ابی کثیر سے روایت کرتے ہیں، وہ عروہ سے اور وہ حضرت عائشہ سے روایت کرتے ہیں۔
اس حدیث کو نقل کرکے امام ترمذی نے لکھا ہے کہ حضرت عائشہ کی اس حدیث کو ہم اسی اسناد سے جانتے ہیں جن کے راوی حجاج ہیں اور میں نے امام بخاری کو سنا، وہ اس حدیث کو ضعیف قرار دے رہے تھے، وہ کہتے ہیں یحییٰ ابن کثیر نے عروہ سے نہیں سنا ہے، نیز امام بخاری کہتے ہیں حجاج نے یحییٰ ابن ابن کثیر سے نہیں سنا ہے۔
یعنی یہ حدیث اپنی اسناد کے لحاظ سے دو جگہ منقطع ہے ایک حجاج اور یحییٰ کے درمیان اور دوسرے یحییٰ اور عروہ کے درمیان۔ اس سے یہ واقعہ اور ارشاد رسول ثابت نہیں ہوتا۔
’’حدیث کی تخریج‘‘: اس حدیث کو امام ترمذی نے السنن، ابن ماجہ نے السنن، امام احمد نے مسند احمد، بیہقی نے سلسلۃ الصحیحۃ میں تخریج کی ہے۔
’’حدیث کی سند‘‘: ہر ایک کی مشترکہ سند یوں ہے عن حجاج بن ارطاۃ عن یحیٰ بن ابی کثیر عن عروہ عن عائشۃ مرفوعاً۔
’’حدیث کا حکم‘‘ : حجاج بن ارطاۃ! یہ صدوق راوی ہیں بکثرت غلطی اور تدلیس میں معروف ہیں (صدوق کثیر الخطا والتدلیس)۔ (تقریب التہذیب، ص۱۵۲)
امام بخاری نے کہا ہے کہ حجاج نے یحییٰ بن ابی کثیر سے حدیثیں نہیں سنی ہیں۔
(سنن ترمذی مع التحفۃ ۳/ ۳۶۵)
یحییٰ بن کثیر یہ ثقہ اور ثابت ہیں لیکن تدلیس و ارسال کیا کرتے ہیں، عروۃ بن الزبیر سے ان کا سماع ثابت نہیں ہے۔ (تہذیب التہذیب ۱۱/ ۲۶۸)
امام بخاری نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ یحییٰ ابن کثیر نے عروہ سے نہیں سنا ہے اور اسی طرح حجاج نے یحییٰ بن ابی کثیر سے نہیں سنا ہے۔
(سنن الترمذی ۳/ ۱۱۶)
حجاج اور یحییٰ دونوں مدلس ہیں او ردو دو جگہ انقطاع پایا جاتا ہے۔ امام دارقطنی نے کہا ہے کہ حدیث کی سند مضطرب اور غیر ثابت ہے۔ (اسنی المطالب، ص۸۰)
غرضیکہ یہ حدیث ضعیف ہے، کیونکہ اس کے سلسلہ رواۃ میں حجاج بن ارطاۃ ہے جس کو تمام محدثین نے باتفاق ضعیف قرار دیا ہے۔
اس روایت میں جو واقعہ بیان ہوا ہے اس کی صحت مشتبہ معلوم ہوتی ہے کیونکہ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کا تنہا رات میں دیر گئے قبرستان جانا قرین مصلحت نہیں اور آپ ﷺ کا حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے یہ سوال کرنا کیا تمھیں یہ اندیشہ لاحق ہوگیا ہے کہ اﷲ اور رسول تمہاری حق تلفی کریں گے، ایک ایسا سوال ہے جس کی نسبت نبی ﷺ کی طرف صحیح معلوم نہیں ہوتی۔ کیونکہ حضرت عائشہ تو خیال کرسکتی تھیں کہ آپ ﷺ کسی ضرورت سے اپنی دوسری ازواج کے ہاں تشریف لے گئے ہوں گے۔ لیکن اس میں اﷲ کی طرف سے حق تلفی کا سوال کہاں پیدا ہوتا ہے جو حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا اس بدگمانی میں مبتلا ہوتیں؟ پھر اگر پندرہویں شعبان کی شب ایسی فضیلت والی ہوتی کہ اس میں لا تعداد مردوں کی بخشش ہوجاتی ہے تو آپ پہلے ہی لوگوں کو بتادیتے تاکہ وہ اس شب میں عبادت و غیرہ کا اہتمام کرتے یہ کس طرح ممکن ہے کہ آپ اس فضیلت والی شب سے اپنے اصحاب کو باخبر نہ کریں، یہاں تک کہ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کو بھی اس کی خبر نہ ہو اور اتفاق سے جب وہ قبرستان جائیں تو انھیں اس کا پتہ چلے؟ اس قسم کے معمے ضعیف حدیثیں ہی پیدا کرتی رہتی ہیں۔ سنت رسول ہمیشہ روشن ہوتی ہے اور دلوں میں یقین پیدا کرتی ہے۔
۸- حضرت عبداﷲ بن عمرو بن العاص کی روایت:
عن ابن عمرو مرفوعا من قرأ لیلۃ النصف من شعبان الف مرۃ قل ہو اللّٰہ احد فی مائۃ رکعۃ لم یخرج من الدنیا حتی یبعث اللّٰہ الیہ فی منامہ مائۃ ملک ثلاثون یبشّرونہ بالجنۃ وثلاثون یومنونہ من النار وثلاثون یعصمونہ من ان یخطی وعشر یکیدون من عاداہ۔ (مسند أحمد ۱۷۶/۲)
’’ابن عمرو بن العاص رسول اﷲ ﷺ کی طرف نسبت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جس نے پندرہ شعبان کی رات میں سو رکعت کے اندر ایک ہزار بار قل ھو اﷲ احد پڑھ لیا تو وہ دنیا سے روانہ نہیں ہوگا، یہاں تک کہ اﷲ تعالیٰ اس کے پاس خواب میں سو فرشتے بھیجے گا، تیس جنت سے نجات کی بشارت، تیس جہنم سے نجات اور تیس لغزشوں اور غلطیوں سے بچائیں گے اور اس کے علاوہ دس دشمنوں کا دفاع کریں گے۔‘‘
’’حدیث کی تخریج‘‘:
امام احمد بن حنبل رحمہٗ اﷲ نے اس حدیث کی تخریج کی ہے۔
’’حدیث کی سند‘‘: عن ابن لہیعۃ عن حی بن عبداللّٰہ عن ابی عبد الرحمٰن الحبلی عن عبد اللّٰہ بن عمروبن العاص مرفوعاً۔
’’حدیث کا حکم‘‘: ابن لہیعہ مختلط ہونے کی وجہ سے ضعیف ہیں حی بن عبداﷲ یہ صدوق راوی ہیں، کبھی وہم بھی ہوجاتا ہے، صغار تابعین کا زمانہ پایا ہے مگر کسی صحابی سے ان کی ملاقات نہیں۔ حافظ منذری نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے۔ (مرعاۃ المفاتیح ۳۴۲/۴، الترغیب ۴۶۰/۳)، امام ابن جوزی (الموضوعات الکبری ۲/ ۱۲۵)، ابن عراق (تنزیۃ الشریعۃ ۹۳/۲)، اور امام سیوطی (اللألی المصنوعۃ ۲/ ۵۹) نے اسے موضوع کہا ہے۔
علامہ البانی رحمہٗ اﷲ فرماتے ہیں کہ ابن لہیعہ اگرچہ ضعیف ہیں مگر رشدین سعد بن حی کی متابعت کی ہے۔ ابن حیویہ نے رشدین کی روایت ذکر کی ہے۔ اس طرح یہ حدیث حسن لغیرہٖ ہوجاتی ہے۔ (سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ ۱۳۶/۳)
۹- حضرت معاذ بن جبل رضی اﷲ عنہ کی روایت:
عن معاذ بن جبل رضی اﷲ عنہ قال من احیاء اللیالی الخمس وجبت لہ الجنۃ الترویۃ ولیلۃ عرفۃ ولیلۃ النحر ولیلۃ الفطر ولیلۃ النصف من شعبان۔
’’جس نے پانچ راتوں کو جاگ کر عبادت کی اس کے لیے جنت واجب ہوگئی، ذی الحجہ کی آٹھویں نویں اور دسویں رات، عیدالفطر کی رات اور پندرہ شعبان کی رات۔‘‘
’’حدیث کی تخریج‘‘: اس حدیث کی تخریج ابن ابی عاصم (السنۃ ۱/ ۲۲۴)، ابن حبان (الاحسان ۴۷۰/۷)، بیہقی (مرعاۃ المفاتیح ۳۴۱/۴) اور طبرانی (مجمع الزوائد ۸/ ۶۵) نے کی ہے۔
’’حدیث کی سند‘‘: مذکورہ بالا سبھی ائمہ کی سند مکحول الشامی پر جاکر مل جاتی ہے مکحول نے مالک بن یخامر اور انھوں نے معاذ بن جبل رضی اﷲ عنہ سے مرفوعاً روایت کی ہے، مکحول یہ عبداﷲ الشامی ہیں، یہ ثقہ اور مشہور فقیہ ہیں لیکن بکثرت ارسال سے متصف ہیں۔
(تقریب التہذیب،ص۵۴۵)
امام ذہبی نے تصریح کی ہے کہ مکحول اور مالک بن یخامر کے درمیان ملاقات ثابت نہیں ہے، ان دونوں کے درمیان انقطاع پایا جاتا ہے۔
’’حدیث کا حکم‘‘: مکحول اور عبدالمالک کے درمیان انقطاع کی وجہ سے سند ضعیف ہے۔ ابن ابی حاتم نے کہا میں نے اپنے والد سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا تو میرے والد نے اس حدیث کو منکر بتایا۔ (العلل المتناہیۃ ۲/ ۱۷۳)
علامہ محدث عبیداﷲ رحمانی مبارکپوری فرماتے ہیں کہ یہ حدیث ضعیف ہے۔
(مرعاۃ المفاتیح ۴/ ۳۴۲)
۱۰- حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اﷲ عنہ کی روایت:
یہ حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ کی روایت کے ہم معنی ہے۔
’’حدیث کی تخریج‘‘
اس حدیث کو ابن ماجہ نے دو سندوں سے ذکر کیا ہے۔ (سنن ابن ماجہ کتاب اقامۃ الصلاۃ باب ماجاء فی لیلۃ النصف من شعبان ۱/ ۴۴۵، رقم الحدیث ۱۳۹۰)
پہلی سند: عن ولید بن مسلم عن ابن لہیعۃ عن الضحاک بن ایمن عن الضحاک بن عبد الرحمن عن ابی موسیٰ۔
امام ابن جوزی نے العلل المتناہیۃ (۱/ ۴۴۷) میں اسی سند سے حدیث کو ذکر کیا ہے۔
دوسری سند: عن ابن لہیعۃ عن الزبیر بن سلیم عن الضحاک بن عبدالرحمن عن ابیہ عن ابی موسیٰ۔
اسی سند سے لالکائی اور ابن ابی عاصم نے حدیث کی تخریج کی ہے۔ (السنۃ ۲۲۳/۱)
تنبیہ: ابن ابی عاصم کی سند میں الزبیر بن سلیم کے بدلے الربیع بن سلیمان ہے حالانکہ صحیح الزبیر بن سلیم ہے جیسا کہ حافظ ذہبی وحافظ ابن حجر نے ذکر کیا ہے، ملاحظہ ہو: میزان الاعتدال (۶۷/۲)، تہذیب التہذیب (۳۱۵/۳)۔ علامہ البانی نے الربیع بن سلیمان ہی بغیر تعلیق کے ساتھ باقی رکھا ہے معلوم نہیں قصداً ایسا کیا گیا ہے یا سہواً ہوگیا ہے۔ (ظلال الجنۃ، ۲۲۳/۱)
’’حدیث کی سند‘‘: ولید بن مسلم ثقہ راوی ہیں مگر بہت زیادہ تدلیس کرتے ہیں اور تدلیس تسویہ بھی کرتے ہیں جو تدلیس کی سب سے بری قسم ہے۔
(تقریب التہذیب ص ۵۸۴)
ابن لہیعۃ صدوق روای ہیں اپنی کتابوں کے جل جانے کے بعد مختلط ہوگئے تھے اس لیے اختلاط سے پہلے کی روایتیں مقبول ہیں اور اختلاط کے بعد کی روایتیں مردود سمجھی جاتی ہیں۔
الضحاک بن ایمن یہ کلبی ہیں مجہول راوی ہیں عبدالرحمن بن عزوب یہ ضحاک کے والد ہیں مجہول راوی ہیں۔ (تقریب التہذیب ص ۳۴۶)
’’حدیث کا حکم‘‘: حدیث کی پہلی سند ولید بن مسلم کے مدلس، ابن لہیعہ کے مختلط، ضحاک بن ایمن کے مجہول اور ضحاک بن عبدالرحمن اور ابو موسیٰ کے درمیان انقطاع کی وجہ سے ضعیف ہے۔ دوسری سند ابن لہیعہ کے مختلط، زبیر بن سلیم کے مجہول اور عبدالرحمن بن عرزب کے مجہول نیز ابو موسیٰ سے ملاقات ثابت نہ ہونے کی بنا پر ضعیف ہے۔ (مرعاۃ المفاتیح، ۳۴۱/۴)
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ پندرہ شعبان کی شب کی فضیلت میں جتنی روایات ہیں سب باطل اور ضعیف ہیں۔ کوئی حدیث بھی صحیح نہیں اسی لیے ایسی حدیثیں بخاری اور مسلم میں جگہ نہ پاسکیں۔ جب ضعیف حدیث حجت ہی نہیں ہے تو یہ فضیلت ثابت کہاں سے ہوتی؟ اگر یہ شب فضیلت کی شب ہوتی تو صحابہ کرام میں اس کا چرچا ہوتا اور مشہور اور ثقہ راوی اسے روایت کرتے اتنی اہم بات جس کا عام چرچا ہونا چاہیے صرف ضعیف راویوں کو کیسے معلوم ہوگئی اور اب تو مسلمانوں نے ان ضعیف روایتوں کا سہارا لے کر شب برأت کو باقاعدہ تہوار کی شکل دے دی ہے۔
امام ابوبکر الطرطوشی اپنی کتاب میں تحریر فرماتے ہیں:
ابن وضاح زید بن اسلم سے نقل کرتے ہیں کہ انھوں نے اپنے مشائخ و فقہاء میں سے کسی کو بھی پندرہ شعبان کی رات کی فضیلت کی طرف توجہ کرتے نہیں پایا اور نہ انھوں نے اس رات کو کسی رات پر فضیلت دی اور جب ابن ملیکہ سے کہا گیا کہ زیاد کا خیال یہ ہے کہ پندرہ شعبان کی رات کی عبادتوں کا ثواب شب قدر کی عبادتوں کے ثواب کے برابر ہے تو انھوں نے فرمایا: اگر میں سنتا اور میرے ہاتھ میں ڈنڈا ہوتا تو میں اسے مارتا اور زیاد ایک قصہ گو تھا۔
زید بن اسلم المتوفی ۱۳۶ھ فرماتے ہیں کہ ہم نے اپنے اساتذہ اور اپنے دور کے فقہاء میں سے کسی کو نہیں دیکھا کہ وہ لیلۃ البرأت کی جانب کوئی توجہ دیتے یا اسے دیگر راتوں پر فضیلت دیتے ہوں اور ابن دحیہ کہتے ہیں شب برأ ت کی نمازوں کے بارے میں جتنی روایات ہیں سب موضوع ہیں، ان میں سے ترمذی والی روایت منقطع ہے اور جو شخص ان روایات کو صحیح سمجھ کر ان پر عمل کرے وہ جھوٹ بولتا ہے اور وہ شیطان کا خادم ہے۔ (الحوادث والبدع للطرطوشی)
اگر راتوں میں سے کسی رات کی تخصیص عبادت و قیام کے لیے جائز ہوتی تو جمعہ کی رات اس کی زیادہ حق دار تھی، اس لیے کہ اس کا دن تمام دنوں میں سب سے زیادہ بہترین دن ہے، جیسا کہ امام مسلم نے روایت کی ہے ۔
حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا:
لا تختصوا لیلۃ الجمعۃ بقیام من بین اللیالی ولا تختصوا یوم الجمعۃ بصیام من بین الایام الا ان یکون فی صوم یصومہ أحدکم۔ (صحیح مسلم، کتاب الصیام، باب کراہیۃ صیام یوم الجمعۃ منفرداً، ۲۷۴/۴، رقم الحدیث ۱۴۸)
’’جمعہ کی رات کو دیگر راتوں کے مقابل میں قیام کے لیے مخصوص نہ کرو اور جمعہ کے دن روزہ کے لیے مخصوص نہ کرو۔ ہاں اگر کوئی پہلے سے روزہ رکھے ہو تو کوئی بات نہیں۔‘‘
نبی ﷺ نے اس شب کے قیام کی تخصیص سے منع فرمایا تو دوسری راتیں بدرجہ اولیٰ عبادت کے لیے مخصوص نہیں کی جاسکتیں، ہاں مگر جس رات کو عبادت کے لیے مخصوص قرار دیا گیا ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، جیسے لیلۃ القدر اور رمضان کی راتیں جن میں قیام مشروع ہے، ان میں عبادت اور اپنے رب کی رضامندی تلاش کرنا چاہئے۔ رسول اﷲ ﷺ نے اس امر پر ابھارا ہے اور خود بھی ان راتوں میں قیام فرمایا ہے جیسا کہ صحیحین میں حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا:
من قام رمضان ایماناً واحتساباً غفر لہ ما تقدم من ذنبہ ومن قام لیلۃ القدر ایماناً و احتساباً غفر لہ ما تقدم من ذنبہ۔ (صحیح بخاری، کتاب الصوم باب من صام رمضان ایماناً و احتساباً، ۱۴۴/۴، رقم الحدیث ۱۹۰۱، وصحیح مسلم کتاب صلاۃ المسافرین، باب الترغیب فی قیام رمضان، ۲۹۶-۲۹۵/۳، رقم الحدیث ۱۷۵)
’’جس نے ایمان و احتساب کی حالت میں رمضان میں قیام کیا اس کے پچھلے سارے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں اور جس نے ایمان واحتساب کی حالت میں شب قدر میں قیام کیا اس کے پچھلے تمام گناہ بخش دیے جائیں گے۔‘‘
امام مقدسی فرماتے ہیں: ہمارے یہاں بیت المقدس میں نہ صلوٰۃ الرغائب کا وجود تھا نہ صلوٰۃ شعبان کا ، صلوٰۃ شعبان کا وجود ہمارے یہاں سب سے پہلے ۴۴۸ھ میں ہوا۔ ایک شخص ابن ابی الحمراء نابلس سے بیت المقدس آیا وہ قرآن مجید بہت اچھا پڑھتا تھا، وہ پندرہ شعبان کی رات میں مسجد اقصیٰ میں نماز پڑھنے کھڑا ہوا۔ اس کے حسن قرأت سے متاثر ہوکر ایک شخص اس کے پیچھے کھڑا ہوگیا، پھر ایک اور شخص کھڑا ہوگیا، پھر تیسرا، چوتھا، پانچواں، غرضیکہ اس طرح کافی لوگ اس کے پیچھے کھڑے ہوگئے۔ پھر دوسرے سال بھی پندرہ شعبان کی شب میں آیا اور حسب سابق کافی لوگوں نے اس کے ساتھ نماز پڑھی، پھر سال بہ سال یہ نماز ہونے لگی اور اس طرح یہ بدعت رفتہ رفتہ زور پکڑگئی، گھروں گھروں میں پہنچ گئی اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے اور حقیقت یہ ہے کہ دین میں اضافے ایسے ہی کسی طرح ہوتے رہے اور رفتہ رفتہ جزو دین بنالیے گئے اور دین کی اصل تصویر مسخ کرڈالی گئی۔
جن لوگوں نے اس کے جواز کی راہ نکالی ہے ان کا قول باطل ہے صحیح احادیث میں اس کی کوئی بنیاد نہیں ہے کسی نے کیا خوب کہا ہے:
خیر الامور السالفات علی الہدی۔ وشر الامور المحدثات البدائع۔
’’بہترین کام وہ ہے جو ہدایت کے طریقے پر کیے گئے ہوں اور برے کام وہ ہیں جو دین میں نئے اور انوکھے ہیں۔‘‘
شب برأت کی حقیقت کیا ہے؟
سب سے پہلے سوچنے اور سمجھنے کی بات یہ ہے کہ اس شب کو ’’شب برأت‘‘ کس لیے کہا جاتا ہے اور کیا قرآن و حدیث فقہ اور تاریخ میں اس نام کی کوئی شے پائی جاتی ہے؟ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ شب برأت میں شب کا لفظ فارسی ہے۔ عربی میں اس کا نام لیلۃ البرأت ہونا چاہئے یعنی برأت کی رات عربی میں برأت بیزاری اور نفرت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور اسی لفظ سے تبرّا بنا ہے جس کا مطلب بھی بیزاری اور نفرت ہے۔ قرآن مجید اور حدیث میں یہ لفظ انھیں معنوں میں متعدد جگہوں پر آیا ہے۔ چنانچہ قرآن مجید کی یہ آیت:
بَرَآءَ ۃٌ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ اِلٰی الَّذِیْنَ عَاہَدْتُّمْ مِّنْ الْمُشْرِکِیْنَo (توبۃ: ۱)
’’بیزاری کا حکم اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف سے ان مشرکوں کو جن کے ساتھ تمہارا معاہدہ تھا۔‘‘
سورہ توبہ کی پہلی آیت ہے اور اس سورہ کے ساتھ بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم اس لیے نہیں تحریر کیا جاتا اور نہ پڑھا جاتا ہے کہ اس میں مشرکین سے بیزاری کا اظہار ہے اور اس کی ابتدا لفظ برأت سے ہوتی ہے۔ اسی طرح حدیث میں لفظ برأت کا مطلب ملاحظہ کیجیے:
ثم اردف النبی ﷺ بعلی ابی طالب فامرہ ان یوذن ببرائۃ۔
(صحیح بخاری، کتاب الصلاۃ، باب ما یستر من العورۃ ۶۲۹/۱، رقم الحدیث ۳۶۹، وکتاب التفسیر باب وأذان من اﷲ ورسولہ الی الناس ۴۰۵/۸، رقم الحدیث ۴۶۵۶)
’’پھر رسول اﷲ ﷺ نے علی بن ابی طالب کو بھیجا اور انھیں حکم دیا کہ وہ بے زاری کا اعلان کردیں۔‘‘
بخاری شریف میں یہ حدیث بڑی تفصیل سے موجود ہے بہرحال لفظ برأت قرآن مجید و حدیث میں بہت جگہوں پر آیا ہے اور ہر جگہ اس کا معنی بیزاری اور نفرت کا ہے۔ قرآن مجید کی آیات اور احادیث سے یہ بات یقینی طور پر ثابت ہوتی ہے کہ برأت اور تبرا ہم معنی ہیں لہٰذا یہ دونوں لفظ بیزاری کا معنی دیتے ہیں اور شب برأت کا معنی ہیں ’’شب تبرا‘‘ یعنی بیزاری کی رات اور یہ بات قطعی طور پر ثابت ہے کہ اس شب میں رافضی اپنے فرضی اور غائب امام کی پیدائش کی خوشی مناتے ہیں۔ صحابہ کرام اور تمام مسلمانوں سے بیزاری کا اظہار کرتے ہیں۔ یہ بھی ذہن نشین رہے کہ پانچویں صدی ہجری کی ابتدا تک حدیث و تفسیر کی جتنی بھی کتابیں لکھی گئیں اور اس سلسلہ کی جتنی روایات ان کتابوں میں نقل کی گئیں، ان میں کسی روایت میں لیلۃ البرأت کا لفظ قطعاً نہیں پایا جاتا بلکہ ہر روایت میں آپ کو یہ لفظ ملیں گے ’’اذا کانت لیلۃ النصف من شعبان‘‘ یعنی جب نصف شعبان کی رات ہو یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ اس کا یہ نام پانچویں صدی کے آخر میں رکھا گیا اور یہ نام رکھنے والے صوفیاء ہیں۔
(تذکرۃ الموضوعات، از علامہ طاہر بن علی الحنفی پٹنی، متوفی ۹۸۶ھ)
شیعہ روایت کے مطابق ان کے گیارہویں امام حسن عسکری کے لڑکے امام غائب ہیں جو انتہائی کم عمری میں سنیوں کے خوف کی وجہ سے سرنامی غار میں پوشیدہ ہوگئے۔۱ جاتے جاتے امام غائب قرآن کا اصل نسخہ (جو کہ قرآن سے کافی ضخیم اور مختلف ہے) حضرت علی رضی اﷲ عنہ کی تلوار، حضرت موسیٰ علیہ السلام کا عصا، حضرت سلیمان علیہ السلام کی انگوٹھی اور ایک بڑا صندوق جس میں تمام انبیاء کرام کی نشانیاں تھیں، اپنے ساتھ لے کر چلے گئے۔ ان کے اس طرح چھپ جانے کی وجہ سے ان کو امام غائب کہا جاتا ہے۔ جب دنیا میں ایک وقت میں تین سو تیرہ اصلی شیعہ موجود ہوں گے تب امام غائب تمام چیزیں لے کر دنیا میں آئیں گے۔ اور ان کا اپنا اصلی قرآن رائج کرکے دنیا کے تمام سنیوں کا خاتمہ کردیں گے۔ ماضی میں ہوئے شیعوں پر ظلم و ستم کا بدلہ لیں گے اور شیعوں کے ساتھ ناانصافی کا خاتمہ کریں گے۔ یعنی شیعوں کے مطابق ہر طرف عدل وانصاف کا دور دورہ ہوگا۔ اس بنا پر شیعوں کا یہ عقیدہ بھی ہے کہ یہی امام غائب اصل میں امام مہدی علیہ السلام ہیں۔ جن کے بارے میں رسول اﷲ ﷺ نے صحیح احادیث کے ذریعہ خبر دی چونکہ امام غائب کے غار سے نکلنے کا کوئی وقت شیعہ روایات سے ثابت نہیں۔ الا یہ کہ دنیا میں تین سو تیرہ سچے شیعہ موجود ہوں اس لیے ۱۵؍ شعبان کی رات کو جہاں ایک طرف شیعہ امام غائب کی پیدائش کی خوشی میں حلوہ مانڈے پکاتے کھاتے ہیں، چراغاں کرتے ہیں، وہیں دوسری طرف شیعہ ۱۵؍ شعبان کی رات کو غاروں میں دریاؤں اور کنوؤں پر جاکر اپنے امام کے نام کی پرچیاں ڈالتے ہیں اور ان سے درخواست کرتے ہیں کہ ہم سنیوں کے دل بہت تنگ آچکے ہیں۔ للّٰہ اب تو آپ تشریف لائیے اور ان ملحدین (شیعہ خود کو مومن کہتے ہیں۔ اپنے علاوہ کو عام طور پر ملحد کہتے ہیں اور اگر تقیہ مقصود ہو تو مسلمان کہتے ہیں) سے ہمیں نجات دلائیے۔ شب برأت کی یہ حقیقت عام طور پر مسلمانوں سے پوشیدہ ہے اور اگر بتائی جائے تو عام ذہن قبول نہیں کرتا۔ اگر شب برأت کو شیعہ رات کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔
ایک شبہ کا ازالہ
قرآن مجید میں ہے:
اِنَّـآ اَنْزَلْنٰـہُ فِیْ لَیْلَۃٍ مُّبٰـرَکَۃٍ اِنَّا کُنَّا مُنْذِرِیْنَo فِیْہَا یُفْرَقُ کُلُّ اَمْرٍ حَکِیْمٍo (الدخان: ۴-۳)
’’ہم نے اس قرآن کو مبارک رات میں اتارا ہے ہم لوگوں کو ڈرانے والے ہیں اسی مبارک رات میں ہر محکم معاملہ طے پاتا ہے۔‘‘
جمہور کا قول یہ ہے کہ مذکورہ مبارک رات سے مراد شب قدر ہے جمہور علماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ قرآن مجید ماہ مبارک میں نازل ہوا ہے اور لیلۃ القدر اسی ماہ رمضان کی ایک رات ہے کسی دوسرے مہینہ میں لیلۃ القدر نہیں ہوسکتی۔
علامہ شوکانی اپنی تفسیر فتح القدیر میں تحریر فرماتے ہیں:
لیلۃ المبارکۃ سے مراد شب قدر ہے اس سے مراد پندرہ شعبان کی رات نہیں اس لیے کہ سورہ دخان والی آیت میں اگرچہ اس رات کو مجمل و مبہم رکھا مگر سورہ بقرہ کی آیت میں اس رات کو واضح کردیا ہے کہ یہ رات رمضان کے مہینہ میں ہوتی ہے۔ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے:
شَہْرُ رَمْضَانَ الَّذِیْ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْآنَo
’’رمضان کا مہینہ ایک بابرکت مہینہ ہے جس میں قرآن مجید نازل کیا گیا۔‘‘
پھر اس کو سورہ قدر میں مزید واضح کردیا گیا ہے:
اِنَّـآ اَنْزَلْنٰـہُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِo (القدر: ۱)
’’ہم نے اس قرآن کو شب قدر میں نازل کیا۔‘‘
ان واضح دلائل کے ہوتے ہوئے اختلاف اور اشتباہ باقی نہیں رہ جاتا کہ لیلۃ القدر سے مراد پندرہ شعبان کی رات ہے، پندرہ شعبان کا روزہ اور رات کی عبادت کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں۔
ماہ شعبان کا روزہ
ماہ شعبان بڑی عظمت والا ہے اور اس کی فضیلت بزرگی اس لیے مسلم ہے کہ یہ ماہ رمضان کے مقدس و متبرک مہینہ کے لیے گویا بطور تمہید ہے۔ اس لیے کہ اﷲ تعالیٰ کے رسول ﷺ اس مہینہ میں کثرت سے روزہ رکھا کرتے تھے۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں:
ما رأیت النبی ﷺ فی شہر اکثر صیاما منہ فی شعبان کان یصومہ الا قلیلاً بل کان یصومہ کلہ۔ (صحیح بخاری کتاب الصوم باب صوم شعبان ۲۶۷/۴، صحیح مسلم کتاب الصوم باب صیام النبیﷺ فی غیر رمضان ۲۹۳/۴، سنن أبی داؤد کتاب الصوم، باب کیف یصوم النبیﷺ ۲/ ۳۲۴)
’’میں نے نبی ﷺ کو کسی ماہ میں شعبان سے زیادہ روزہ رکھتے نہیں دیکھا اس ماہ میں چند دنوں کے علاوہ بقیہ دنوں میں روزہ رکھتے بلکہ پورے شعبان کا روزہ رکھتے۔‘‘
امام ترمذی رحمہٗ اﷲ نے اس حدیث کے بارے میں ابن مبارک کا کلام نقل کیا ہے کہ کلام عرب میں ماہ کے اکثر حصہ کا اطلاق پورے مہینہ پر بھی کیا جاتا ہے تو حدیث کا معنی یہ ہے کہ رسول اﷲ ﷺ اس ماہ کے اکثر دنوں کا نفلی روزہ رکھتے تھے۔
(سنن الترمذی مع التحفۃ ۳/ ۳۶۱)
عن أم سلمۃ قالت ما رأیت النبیﷺ یصوم شہرین متتابعین الا شعبان ورمضان۔ (سنن ترمذی مع التحفۃ کتاب الصوم باب ماجاء فی وصال شعبان بر مضان ۳۶۰/۳، رقم الحدیث ۷۳۳)
’’امّ سلمیٰ رضی اﷲ عنہ فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اﷲ ﷺ کو سوائے شعبان اور رمضان کے دو متواتر مہینوں کا روزہ رکھتے نہیں دیکھا۔‘‘
رسول اﷲ ﷺ شعبان کے چاند کو بڑی توجہ سے دیکھتے اور فرمایا کرتے تھے:
احصوا ہلال شعبان لرمضان․ (ترمذی بحوالۂ مشکوٰۃ المصابیح محقق ۶۱۶/۱، رقم الحدیث ۱۹۷۵، سنن الترمذی مع التحفۃ أبواب الصیام باب ماجاء فی احصاء ہلال شعبان لرمضان ۳/ ۲۹۹، رقم الحدیث ۶۸۲)
’’شعبان کے چاند اور تاریخوں کا حساب رکھو تاکہ رمضان کے چاند اور تاریخوں میں گڑبڑ نہ ہو۔‘‘
لیکن واضح رہے کہ ہمارے لیے حکم صرف نصف شعبان تک روزہ رکھنے کا ہے نصف شعبان کے بعد ہمارے لیے روزہ رکھنا منع ہے، چنانچہ ارشاد نبوی ﷺ ہے:
اذا انتصف شعبان فلا تصوموا۔ (سنن أبی داؤد کتاب الصوم باب کراہیۃ ذلک ۳۰۱/۲، سنن الترمذی کتاب الصوم باب ماجاء فی کراہیۃ الصوم فی النصف الباقی من شعبان ۳۶۲/۳، رقم الحدیث ۷۳۵)
’’جب شعبان آدھا گزر جائے تو روزہ مت رکھو۔‘‘
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ پندرہ شعبان تک یعنی پہلی شعبان سے پندرہ شعبان تک جتنے چاہے روزے رکھ سکتے ہیں اور پندرہ شعبان کے بعد روزہ مت رکھو۔ مقصد اس کا یہ تھا کہ شعبان اور رمضان دونوں مہینوں کے متواتر روزے اکثر لوگوں کے لیے مشکل ہیں، اس لیے ان کو چاہیے کہ نصف شعبان کے بعد روزہ نہ رکھیں۔
پندرہ شعبان کا روزہ
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہٗ اﷲ فرماتے ہیں:
لکن الذی علیہ کثیر من اہل العلم او اکثرہم من اصحابنا وغیرہم علیٰ تفضیلہا وعلیہ یدل نص احمد لتعدد الاحادیث الواردۃ فیہا وما یصدق ذلک من الآثار السلفیۃ وقد روی بعض فضائلہا فی المسانید والسنن وان کان قد وضع فیہا اشیاء آخر فاما صوم یوم النصف مفردا فلا اصل لہ بل افرادہ مکروہ وکذلک اتخاذہ موسما تصنع فیہ الاطعمۃ و تظہر فیہ الزینۃ وہو من المواسم المحدثۃ المبتدعۃ التی لا اصل لہ۔ (اقتضاء الصراط المستقیم لابن تیمیہ، ص۳۰۲، مطبعۃ الحکومۃ المکرمۃ ۱۳۸۹ھـ)
’’البتہ بیشتر اہل علم اور ہمارے اکثر اصحاب وغیرہ کا نقطہ نظر یہ ہے کہ پندرہویں شعبان کی فضیلت ہے۔ امام احمد سے مروی قول سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے، کیوں کہ اس سلسلے میں منقول احادیث بہت سی ہیں اور سلف کے آثار بھی ہیں، مسانید اور سنن میں اس کے بعض فضائل بھی بیان کیے گئے ہیں۔ ہاں ان میں بہت موضوعات میں موجود ہیں، البتہ صرف پندرہویں شعبان کا روزہ رکھنے کی روایت بے اصل ہے، بلکہ محض اس دن کا روزہ رکھنا مکروہ ہے۔ اسی طرح اس دن کو ایسے تہوار کے طور پر منانا کہ جس میں خاص کھانے تیار کیے جائیں اور زیب و زینت کا اظہار کیا جائے تو یہ ان بدعات میں سے ہے جن کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔‘‘
پندرہ شعبان کا روزہ کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے، چنانچہ محدث سمش الحق ڈیانوی شارح سنن ابوداؤد فرماتے ہیں:
’’الحاصل ماہ شعبان کا مہینہ عظمت و بزرگی کا مہینہ ہے اور اس میں روزہ رکھنا مسنون ہے، مگر روزہ کے لیے کوئی تاریخ دن معین و مقرر کرنا بالخصوص پندرہ شعبان کا روزہ احادیث سے ثابت نہیں، بلکہ تیرہ، چودہ اور پندرہ تاریخوں میں جن کو ایام بیض کہتے ہیں ان میں روزہ رکھے اور چاہے تو اس میں اضافہ کرے، کیونکہ اس ماہ میں کثرت صیام ثابت ہے اور اس مہینہ میں پندرہ شعبان کی رات بالخصوص عظمت و بزرگی کی رات ہے۔ اس میں قیام لیل کسی ہیئت خاص کے بھی مسنون ہے اور موجب اجر و ثواب ہے۔‘‘
بعض علماء نے پندرہ شعبان کے روزہ کا ثبوت اس حدیث سے دیا ہے:
اما سمعت من سرر شعبان۔
اس کا جواب یہ ہے کہ ’’سرر‘‘ کا ترجمہ نصف شعبان صحیح نہیں ہے بلکہ اس سے مہینہ کا آخری دن مراد ہے امام بخاری رحمہٗ اﷲ نے باب باندھا ہے:
باب الصوم من آخر الشہر۔ (صحیح بخاری کتاب الصوم باب الصوم من آخر الشہر ۴/ ۲۸۸- ۲۸۹)
اس باب میں یہی حدیث سرر شعبان کا ذکر کیا ہے۔
علامہ محدث عبیداﷲ رحمانی مبارکپوری فرماتے ہیں:
الحاصل انہ لیس فی صوم یوم لیلۃ النصف من شعبان حدیث مرفوع صحیح أو حسن أو ضعیف خفیف الضعف ولا اثر قوی أو ضعیف۔
(مرعاۃ المفاتیح ۴/ ۳۴۴)
’’پندرہ شعبان کے بارے میں کوئی مرفوع حدیث صحیح یا حسن یا ایسی ضعیف روایت جس کا ضعف معمولی ہو مروی نہیں ہے اور نہ کوئی اثر قوی یا ضعیف ہی موجود ہے۔‘‘
پندرہ شعبان کی شب میں قبرستان جانا
پندرہ شعبان کی رات میں قبرستان جانے والی حدیث سخت ضعیف ہے۔ آپ ﷺ کا پندرہ شعبان کو بقیع قبرستان جانے اور حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کا آپ ﷺ کی تلاش میں قبرستان جانے کا واقعہ بڑی شد ومد کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے، کیونکہ صرف یہی حدیث فضائل شب نصف شعبان کے متعلق کتب ستہ میں ترمذی اور سنن ابن ماجہ میں پائی جاتی ہے۔
اس روایت کو بیان کرنے والے کبھی بھی اس روایت کے متعلق امام ترمذی کا وہ قول نقل نہیں کرتے ہیں جو انھوں نے درج کیا ہے اگر امام ترمذی کا قول بیان کردیا جائے تو البقیع کے اس واقعہ کی پوری عمارت زمین بوس ہوجائے۔
امام ترمذی المتوفی ۲۷۹ھ نے یہ واقعہ عائشہ رضی اﷲ عنہا سے اس طرح نقل کیا ہے ایک شب میں نے رسول اﷲ ﷺ کو موجود نہیں پایا۔ میں آپ ﷺ کی تلاش میں نکلی سو آپ ﷺ بقیع میں تھے تو فرمایا: کیا تمھیں اندیشہ تھا کہ اﷲ اور اس کا رسول تجھ پر ظلم کرے گا۔ میں نے کہا: یا رسول اﷲ! میں نے جانا آپ ﷺ اپنی کسی بیوی کے پاس تشریف لے گئے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اﷲ تعالیٰ اترتا ہے پندرہ شعبان کی رات میں آسمان دنیا کی طرف، اپنے بندوں کو بخشتا ہے قبیلہ بنی کلب کی بکریوں کے بالوں کے عدد سے زیادہ۔
(سنن ترمذی ابواب الصوم باب ماجاء فی لیلۃ النصف من شعبان ۳/ ۳۶۴، رقم الحدیث ۷۳۶)
اس روایت کی سندی حیثیت خود امام ترمذی نے اس طرح تحریر فرمائی ہے:
میں نے محمد بن اسمٰعیل (امام بخاری) سے سنا وہ اس حدیث کو ضعیف کہتے تھے اور کہتے تھے کہ یحییٰ بن کثیر روایت کررہے ہیں عروہ سے یحییٰ بن کثیر کو سماع نہیں ہے یحییٰ بن کثیر سے یہ روایت دو جگہ سے منقطع ہے اور منقطع روایت محدثین کے نزدیک ناقابل قبول ہے اور جو روایت دو جگہ سے منقطع ہو اسے محدثین کی اصطلاح میں معضل کہتے ہیں۔ جو انتہائی شدید قسم کی ضعیف بلکہ منکر و مردود ہوتی ہے اس لیے حافظ بدر الدین عینی ابن دحیہ اور ابن العربی مالکی نے اسے موضوع قرار دیا ہے۔
اس روایت سے یہ استدلال کرنا کہ پندرہ شعبان کی شب میں قبرستان جانے کا اہتمام سنت اور کار ثواب ہے، درست نہیں۔ رسول اﷲ ﷺ اکثر رات کو قبرستان جایا کرتے تھے اور اس کی ترغیب بھی دیتے تھے، لیکن اس عمل کو پندرہ شعبان کے ساتھ مخصوص کرنا صحیح نہیں ہے۔ اگر پندرہ شعبان کو قبرستان جانے کی اس قدر فضیلت ہوتی تو رسول اﷲ ﷺ خاموشی سے اس طرح بستر سے اٹھ کر نہ جاتے، صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین کو اس کی خبر دیتے جب کہ روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کو بھی مطلع نہیں کیا۔
پندرہ شعبان کی شب میں تخصیص کے ساتھ قبرستان جانے کا ثبوت دور نبوی ﷺ میں کہیں نہیں ملتا۔ اس کے بعد دور صحابہ میں بھی کسی ایک صحابی سے اس کا اہتمام ثابت نہیں، نہ ہی کسی تابعی اور ائمہ اربعہ سے اس کا ثبوت ملتا ہے۔
زیارت قبور کی اجازت احادیث میں ملتی ہے اور اس کا مقصد بھی بیان کردیا گیا ہے کہ اس سے موت یاد آتی ہے اور عبرت حاصل کی جاتی ہے، مگر دیکھنے میں یہ آرہا ہے کہ پندرہ شعبان کی رات میں قبرستان کی طرف نوجوان لڑکیاں اور عورتیں، مرد اور بوڑھے بچوں کے قافلے نکل پڑتے ہیں اور خاص کر نوجوان لڑکیاں اور عورتیں اس طرح بے پردگی اور عریاں نکلتی ہیں کہ دل و نگاہ کی عفت تار تار ہوجاتی ہے، تقویٰ پانی کی طرح بہہ جاتا ہے، اس رات قبرستان میں خوب چراغاں اور روشنی کی جاتی ہے اور ایک میلے کا سا منظر نظر آتا ہے۔ ایسے بھیڑ بھاڑ اور شور و غل کے ماحول میں کوئی کس طرح موت کو یاد کرکے عبرت حاصل کرسکتا ہے۔
چراغاں کرنا مجوسی سازش
جشن عید میلاد النبی، پندرہ شعبان اور رمضان کے موقع پر چراغاں کرنا بدعت ہے۔ یہ مجوسیوں کا طریقہ ہے۔ مولانا عبدالسلام ندوی رحمہٗ اﷲ اپنے ایک مطبوعہ مضمون بدعت میں تغیر مذہبی کے سبب اختلاط مذاہب کے ذیل میں بحوالہ حجۃ اﷲ البالغہ لکھتے ہیں:
’’مولود کے موقع پر یا رمضان کے زمانے میں چراغاں اب تقریباً ایک مذہبی شعار ہوگیا ہے، لیکن درحقیقت اس کا دقیق سبب یہ ہے کہ اس قسم کی روشنی کی ابتدا برامکہ کے زمانہ میں ہوئی۔ اس زمانہ میں شعبان کی پندرہ شب کو ایک مبتدعانہ نماز پڑھی جاتی تھی اور اس کے لیے نہایت اہتمام کیا جاتا تھا۔ برامکہ پہلے مجوسی مذہب رکھتے تھے اور آگ مجوس کا معبود ہے۔ اس طرح انھوں نے قدیم مذہب کی محبت میں آگ کو روشنی اور چراغاں کی صورت میں اسلام کا بھی ایک شعار قرار دے دیا۔‘‘
(رسالہ الندوہ، جلد ۸، شمارہ ۱۱، ص۸، بابت ماہ نومبر ۱۹۱۱ء)
شیخ ابن العربی فرماتے ہیں:
’’مسجدوں میں خوشبو کی دھونی رکھنے کو سب سے پہلے یحییٰ بن خالد برمکی نے رواج دیا جو خلیفہ وقت کے وزیر و درباری تھے، اس سے ان کا مقصد مجوسیت کا احیاء تھا۔‘‘
(المنکرات، ص۷۶)
بعض مورخین نے لکھا ہے:
’’برمکیوں نے ہارون رشید کو مشورہ دیا تھا کہ کعبہ شریف میں خوشبو والی انگیٹھی رکھی جائے۔ مقصد صرف یہ تھا کہ مسلمان اپنی عظیم عبادت گاہوں میں آگ رکھنے سے مانوس ہوں اور اسے رواج دیں اور اس طرح رفتہ رفتہ مجوسیت کا غلبہ ہوجائے۔ ہارون رشید کو جب ان کی سازش کا احساس ہوا تو انھوں نے برمکیوں کا قلع قمع کردیا۔‘‘
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ مسجدوں میں آگ روشن کرنا اور چراغاں کرنا سلف صالحین کا طریقہ نہ تھا، نہ وہ مسجدوں کو مزین کرتے تھے۔ یہ سب باتیں طریقۂ سلف کے خلاف ہیں اور اسی طرح پندرہ شعبان کو آتش بازی و پٹاخہ کرنا بھی غلط ہے۔
پٹاخہ پھلجھڑوں سے جیسے پُر ہے دیوالی
شب برات میں پوری ہے اس کی نقالی
میں اس تماشے میں کرتا ہوں تین شر کا شمار
ضیاع مال، ضیاع عمل، ضیاع وقار
پندرہ شعبان کا حلوہ
حلوہ کے تعلق سے جو یہ روایت بیان کی جاتی ہے کہ رسول اﷲ ﷺ کا دندان مبارک شہیدہوگیا تھا، اس لیے آپ کو حلوہ کھلایا گیا۔ ہم لوگ بھی اسی خوشی میں ایسا کرتے ہیں۔ یہ روایت جعلی اور من گھڑت ہے۔ احادیث کے ذخیرہ میں اس کا کہیں ثبوت نہیں ملتا ہے۔ اگر یہ بات تسلیم کرلی جائے کہ آپ کے دندان مبارک کی شہادت کی وجہ سے حلوہ پکایا جاتا ہے تو آپ کا دندان مبارک ماہ شوال غزوۂ احد میں شہید ہوا تھا، نہ کہ پندرہ شعبان کو اور ماہ شوال میں کوئی حلوہ نہیں پکاتا۔ حلوہ پکانے اور کھانے سے بھلا کسی کو کب انکار ہوسکتا ہے۔ حلوہ فرحت بخش اور مقوی چیز ہے۔ اﷲ تعالیٰ توفیق دے تو ہر روز کھانا چاہیے، لیکن شب برأت کو مخصوص عمل سمجھ کر حلوہ پکانا اور اہتمام کرنا کسی طرح درست نہیں ہے۔ حلوہ پکانے کے لیے کوئی مخصوص دن یا تاریخ کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ سچ ہے:
کسی کو زخم لگے کھائے دوسرا حلوہ یہودیوں کی طرح یہ ہے من اور سلویٰ
روحوں کا عقیدہ
بعض مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ پندرہ شعبان کی رات میں ہمارے بزرگوں اور گھر کے مردہ لوگوں کی روحیں آتی ہیں اور رات بھر گھروں میں شب باشی کرکے صبح کے وقت عالم ارواح کی طرف رخت سفر باندھتی ہیں، اس لیے ہم ان کی روحوں کا استقبال کرنے کے لیے گھروں کو سنوارتے، روشنیوں سے سجاتے اور ان لوگوں کا پسندیدہ کھانا جو ان کو زندگی میں پسند رہی ہوں، اہتمام کرتے ہیں اور ایسا ہم ان کو ایصال ثواب کے لیے کرتے ہیں تو یہ مشرکانہ عقیدہ ہے۔ واضح رہے کہ کبھی بھی مومنین یا کافروں کی روحیں دنیا میں واپس نہیں آتیں مومنین کی روحیں علییّن اور کافروں کی روحیں سجّین میں رہتی ہیں۔ مومنین کی روحیں جنت کے عیش و آرام کو چھوڑ کر یہاں کیوں آنے لگیں اور جہنمیوں کو جہنم سے چھٹکارا کہاں۔ چناں چہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَمِنْ وَّرَآئِہِمْ بَرْزَخٌ اِلٰی یَوْمِ یُبْعَثُوْنَo (المومنون: ۱۰۰)
’’مرنے کے بعد وہ ایسے عالم برزخ میں ہیں کہ وہ قیامت تک دنیا میں پلٹ کر نہیں آسکتے۔‘‘
کھانا کھلاکر ایصال ثواب کرنے کا ثبوت کتاب و سنت میں موجود نہیں ہے، بلکہ یہ کافرانہ عقیدہ ہے کہ مرنے پر بارہ برہمن کھلاتے، حلوہ پوری پکاکر کووں کو کھلاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم پُرکھوں کو کھلاتے ہیں۔
روح ملانے کا ختم
بعض مسلمانوں میں یہ غیر اسلامی عقیدہ بھی پایا جاتا ہے کہ جو شخص شب برأت سے پہلے مرجاتا ہے اس کی روح روحوں میں نہیں ملتی بلکہ آوارہ بھٹکتی رہتی ہے۔ پھر جب شب برأت آتی ہے تو روح کو روحوں میں ملانے کا ختم دلایا جاتا ہے، عمدہ قسم کے کھانے، میوے پھل وغیرہ مجلس میں رکھ کر امام مسجد ختم پڑھتے ہیں۔ اور روحوں کو روحوں میں ملا دیتے ہیں اور کھانے، میوے، پھل وغیرہ اور قیمتی کپڑے اٹھا کر گھر لے جاتے ہیں۔ میت کے گھر والے شکر ادا کرتے ہیں کہ ان کے مرنے والے رشتہ دار کی روح روحوں میں شامل ہوگئی اور اگر نہ ہوتی تو اس کی بددعا سے گھر والوں پر تباہی آتی۔ سچ ہے:
ع یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود
روح ملانے کا ایک دلچسپ واقعہ
ایک گاؤں میں روح کو روحوں میں ملانے کا ختم دلایا گیا۔ واقعہ یہ ہے کہ اس گاؤں میں ایک زمین دار چودھری فوت ہوگیا۔ جب ۱۵؍ شعبان کی رات آئی تو بڑی دھوم دھام سے چودھری صاحب کی اولاد نے روح ملانے کے ختم کا اہتمام کیا۔ قیمتی کپڑوں کے دس بارہ جوڑے، پاپوش کے بھی اتنے، انواع و اقسام کے کھانے، بہت قیمتی برتن وغیرہ ختم میں رکھے گئے اور برادری اکٹھی ہوئی۔ میاں صاحب نے ختم کہنا شروع کیا جب ہاتھ اٹھا کر دعا مانگی تو ہاتھوں کو منہ پر پھیرنے کے بجائے انھیں یوں ہی چھوڑ دیا۔ اور ایک لمبی سانس لے کر کہا آہ! روح روحوں میں ملنا نہیں چاہتی۔ یہ سن کر چودھری صاحب کے سب گھر والے گھبرا گئے اور کہنے لگے کہ اب کیا ہوگا؟ اگر روح روحوں میں نہ ملی تو ہم پر کوئی وبال ضرور آئے گا۔ میاں جی جس طرح ہوسکے روح کو روحوں سے ملادو۔ میاں جی نے پھر بہت کچھ پڑھا اور ہاتھ اٹھا کر منہ پر نہ پھیرے، یونہی چھوڑ دیا۔ روح روحوں میں نہیں ملنا چاہتی، میاں صاحب نے کہا۔ سب گھر والے پریشان ہوگئے اور رو رو کر کہنے لگے کہ میاں جی اﷲ کے واسطے روح ملانے کی کوشش کرو۔ پھر میاں جی نے کچھ پڑھا اور آسمان کی طرف دیکھا اور کہا چودھری صاحب کی روح کہتی ہے کہ اس کے ختم میں جب تک اعلیٰ نسل اور صحت مند بھینس لاکر نہ رکھو گے میں روحوں میں نہیں ملوں گی۔ گھر والے میاں صاحب کی فرمائش کے مطابق ایک صحت مند نوجوان اچھی نسل کی دودھ دینے والی بھینس کھول کر لے آئے اور اسے ختم کی دوسری چیزوں میں شامل کردیا۔ اس بار میاں جی نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھایا اور جلد ہی خوشی سے منہ پھیر کر کہا: مبارک ہو، روح روحوں میں مل گئی ہے۔ گھر والے بہت خوش ہوئے اور ختم کی سب چیزیں اٹھاکر مع بھینس میاں صاحب کے گھر چھوڑ آئے۔ قرآن مجید نے سچ کہا ہے:
یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنَوُآ اِنَّ کَثِیْرًا مِّنَ الْاَحْبَارِ وَالرُّہْبَانِ لَیَاکُلُوْنَ اَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَیَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِo (التوبۃ: ۳۴)
’’اے ایمان والو! یقینا بہت سے علماء اور مشائخ لوگوں کے مال باطل طریقہ پر کھا جاتے ہیں اور اﷲ کے راستے سے روکتے ہیں۔‘‘
عیسائیت کی پاپائیت، ہندوؤں کی برہمنیت اور مسلمانوں کی ملائیت تینوں کا ایک ہی مزاج ہے۔ سچ ہے:
یہی شیخ حرم ہے جو چراکر بیچ کھاتا ہے
کلیمِ بوذر و دلقِ اویس و چادرِ زہرا
ربط مضمون
٭٭٭
Last edited by a moderator: