• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ماہ صفر اور نحوست و بد شگونی کی حقیقت

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
263
پوائنٹ
142
ماہ صفر اور نحوست و بد شگونی کی حقیقت



حافظ اکبر علی اختر علی سلفی حفظہ اللہ

الحمد للہ وحدہ والصلاۃ والسلام علی من لا نبی بعد ہ، اما بعد :
ماہِ صفر اسلامی سال کا دوسرا مہینہ ہے ، اس ماہ کی فضیلت کی بابت میرے علم کے مطابق کوئی حدیث مروی نہیں ہے اور نہ ہی کوئی ایسی بات مروی ہے جس کی وجہ سے اس مہینے کو بے برکت اور برا سمجھا جائے اور کوئی حلال و پر مسرت کام کو انجام دینے سے رکا جائےیا روکا جائے۔ واللہ اعلم.
ژ وجہِ تسمیہ :
امام علی بن محمد علم الدین السخا وی رحمہ اللہ (المتوفی :643ھ) فرماتے ہیں:
”سُمِّيَ بِذَلِكَ لِخُلُوِّ بُيُوتِهِمْ مِنْهُ حِينَ يَخْرُجُونَ لِلْقِتَالِ وَالْأَسْفَارِ، يُقَالُ : ”صَفِرَ الْمَكَانُ“: إِذَا خَلَا“ ”اہل عرب (اس ماہ میں) اپنے گھروں سے جنگ و جدال اور سفروں کے لئے نکل جاتے تھے اور ان کے گھر خالی ہوجاتے تھے ، اسی لئے اس ماہ کو صفر کے نام سے موسوم کیا گیا۔ جب کوئی جگہ خالی ہوجائے تو کہا جاتا ہے :”صَفِرَ الْمَكَانُ“۔(تفسير ابن کثیر بتحقیق عبد الرزاق المہدی :3/347)

ماہ صفر سے متعلق عرب جاہلیت کا عقیدہ :
اس ماہ کے تعلق سے عرب جاہلیت کے یہاں دو غلط باتیں پائی جاتی تھیں۔
(1) اس ماہ کو وہ آگے پیچھے کر دیا کرتے تھے اور اعلان کروایا کرتے تھے کہ اس سال صفر کا مہینہ پہلے اور محرم کا مہینہ اس کے بعد ہوگا ۔ ان کے اس عمل کی تردید کرتے ہوئے اور اسے کفر قرار دیتے ہوئے اللہ تعالی نے فرمایا :
” إِنَّمَا النَّسِیءُ زِیَادَۃٌ فِی الْکُفْرِ“
”مہینوں کو آگے پیچھے کردینا ،کفر میں زیادتی ہے “۔(سورۃ التوبۃ : 37)
(2) اس مہینے کو منحوس سمجھتے تھے۔
جس کی تردید کرتے ہوئے اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا :
وَلَا طِیرَۃَ وَ لَا صَفَرَ ”کوئی بد شگونی نہیں ہے اور نہ ہی صفر کا مہینہ منحوس ہے “۔ (صحیح البخاری:5757 و سنن ابی داؤد بتحقیق الالبانی:3911)
معلوم ہوا کہ ماہ صفر کو منحوس سمجھنا دور ِجاہلیت کے عرب کا عقیدہ تھا۔ نیز دیکھیں : (سنن ابی داؤد :3915و لطائف المعارف لابن رجب،ص:74)

کیا کسی مسلمان کا ماہِ صفر وغیرہ کو منحوس سمجھنا اور اس سے بد شگونی لیناجائزہے ؟
بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ موجودہ دورکے بہت سے مسلمان ماہ صفر کو منحوس سمجھتے ہیں اور اس سے بد شگونی لیتے ہیں اور اس کی وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ یہ مہینہ رحمتوں اور برکتوں سے خالی ہوتا ہے ۔
راقم کہتا کہ یہ قول فاسد ہے کیونکہ ماہ صفر ہی وہ مہینہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت کے دروازوں کو کھول کر اللہ کے رسول ﷺ اور تمام مسلمانوں کو” فتحِ خیبر“ سے نوازا تھا۔ دیکھیں : ( تجلیات نبوت : ص: 363-379ودیگر کتب سیر)

اس پر مزید یہ کہ ان کے دامن میں اپنے قول کو ثابت کرنے کے لئے کوئی ” صحیح“ اور ” معقول“ دلیل نہیں ہے ۔
دوسری وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ اس ماہ کے اخیر میں رحمت کائنات ﷺ بیمار ہوئے تھے۔ تو اس کی بابت عرض ہے کہ یہ ماہ صفر کے منحوس ہونے کی دلیل نہیں ہے کیونکہ آپﷺ کا مزاج ماہ صفر کی وجہ سے نہیں بگڑا تھا بلکہ وہ اللہ کی مرضی تھی اور آپ اگر اس ماہ میں بیمار نہ ہوتے تو کسی اور ماہ میں بیمار ہوتے اور وہ آپ کی وفات کا سبب بنتا اور اگر ماہ صفر میں آپ کا بیمار ہونا ما ہ صفر کی نحوست کی دلیل ہوسکتی ہے تو ماہ ربیع الاول بھی بدرجۂ اولیٰ منحوس قرار پائے گا کیونکہ آپ ﷺ کی وفات اسی ماہ میں واقع ہوئی اور یہ کسی مسلمان کا بھی عقیدہ نہیں ہے کہ ماہ ربیع الاول منحوس مہینہ ہے اور جب ماہ ربیع الاول رسول اللہ ﷺ کی وفات کی وجہ سے منحوس نہیں تو پھر ماہ صفر رسول اللہ ﷺ کے بیمار ہونے کی وجہ سے کیونکر منحوس قرار پائے گا ؟

بعض حضرات اس ماہ میں شادی یا کوئی خوشی کا کام نہیں کرتے ہیں اور وجہ یہ بتلاتے ہیں کہ اس ماہ میں حسن بن علی رضی اللہ عنہما کا انتقال ہوا تھا ۔
اس کی بابت عرض ہے کہ یہ فکر بھی باطل ہے اور اسلام میں اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا سے ماہ صفر ۷ ؁ھ میں شادی کی تھی اور یہ وہی مہینہ ہے جس میں 15یا 16یا 18 صحابہ کرام شہید ہوئے تھے۔
دیکھیں : ( تجلیات نبوت :ص: 374-379ودیگر کتب سیر)

اوربہت سارے مسلمان ماہ صفر سے نہیں بلکہ انسان یا بلی وغیرہ کو منحوس سمجھتے ہیں اور اس سے بد شگونی لیتے ہیںمثلاً: ایک انسان، جب اُس کاکوئی کام خراب ہوجاتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ اِس کام کو ہاتھ میں لینے سے پہلے میں نے فلاں کا چہرہ دیکھا تھا ، وہ منحوس ہے ، یہ اُسی کی وجہ سے ہوا ہے۔
اِسی طرح اگر بلی کسی بدشگونی لینے والے کے سامنے سے گزر جائے تو وہ سمجھتا ہے کہ بس! جس کام کے لئے جارہا تھا اب وہ کام نہیں ہوگا کیونکہ بلی نے راستہ کاٹ دیا ہے ،اس وجہ سے وہ اپنے کام کو انجام دینے سے رک جاتا ہے ۔
محترم قارئین !کوئی مصیبت آنے پر کسی دوسرے کو منحوس قرار دینا، یہ مسلمان کا کام نہیں ہے بلکہ کافروں کا کام ہے جیساکہ فرعون کی قوم کی بابت اللہ تعالی فرماتا ہے :
”وَإِنْ تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ يَّطَّيَّرُوا بِمُوسَى وَمَنْ مَعَهُ“ ”جب ان کو کوئی برائی پہنچتی تو وہ موسی علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کو منحوس قرار دیتے“۔ (سورۃ الاعراف :131)
اور کسی چیز سے بد شگونی لیتے ہوئے اپنے کام کو انجام نہ دینا ، شرک ہے جیساکہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے ۔ دیکھیں :(عمل الیوم واللیلۃ لابن السنی بتحقیق الہلالی :1/344، ح:293، شیخ سلیم حفظہ اللہ نے اِس کی سند کو حسن کہا ہے)

اور یہ بات بھی جان لیں کہ کسی چیز سے بدشگونی لینا ،گویا اس چیز کو نافع وضار تصور کرنا ہے جبکہ نافع اور ضار فقط اللہ تعالیٰ ہےجیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
”وَاعْلَمْ أَنَّ الأُمَّۃَ لَوِ اجْتَمَعَتْ عَلَی أَنْ یَنْفَعُوکَ بِشَیْءٍ لَمْ یَنْفَعُوکَ إِلَّا بِشَیْءٍ قَدْ کَتَبَہُ اللہُ لَکَ، وَلَوِ اجْتَمَعُوا عَلَی أَنْ یَضُرُّوکَ بِشَیْءٍ لَمْ یَضُرُّوکَ إِلَّا بِشَیْءٍ قَدْ کَتَبَہُ اللہُ عَلَیْکَ“ ”جان لو ! اگر پوری امت جمع ہوکر تمہیں کچھ نفع پہنچانا چاہے تو نہیں پہنچا سکتی سوائے اس کے جو اللہ نے تمہارے حق میں لکھ دیا ہے اور اگر پوری امت جمع ہوکر تمہیں کچھ نقصان پہنچانا چاہے تو نہیں پہنچا سکتی سوائے اس کے جو اللہ نے تمہارے حق میں لکھ دیا ہے“۔(سنن الترمذی بتحقیق الالبانی :2516 ، اس حدیث کو امام ترمذی اور علامہ البانی رحمہما اللہ نے صحیح کہا ہے)
اور اللہ کے اِس فرمان کو بھی یا د رکھیں : ”مَا أَصَابَ مِنْ مُصِيبَةٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللہِ“ ”کوئی بھی مصیبت اللہ کی اجازت کے بغیر نہیں پہنچ سکتی ہے“۔(سورۃ التغابن : 11)
بدشگونی لینے کا انجام:
ایک مسلمان کے شایان شان یہ ہے کہ وہ اچھا شگون لے کیونکہ رسول اللہ ﷺ اچھا شگون لیتے تھے اور اسے پسند فرماتے تھے۔ (صحیح البخاری :5756و 2731)

لیکن اگر کوئی بدشگونی لیتا ہے تو وہ شرک کا مرتکب ہوگاجیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”اَلطِّیَرۃُ شِرْکٌ ” بدشگونی شرک ہے “۔ (ابوداؤد بتحقیق الالبانی : 3910 ، اس حدیث کو امام ترمذی اور علامہ البانی وغیرہ نے صحیح قرار دیا ہے)

بدشگونی نہ لینے کا عظیم فائدہ:
ایک طویل حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام سے کہا :
” مجھ سے کہا گیا :دیکھو! میں نے ایک بہت بڑی جماعت دیکھی جس نے آسمانوں کا کنارہ ڈھانپ لیا تھا۔ پھر مجھ سے کہا گیا : ادھر دیکھو، ادھر دیکھو، میں نے دیکھا کہ بہت سی جماعتیں ہیں جو تمام افق کو گھیرے ہوئے تھیں۔ کہا گیا کہ یہ آپ کی امت ہے اور اس میں سے ستر ہزار وہ لوگ ہوں گے جو بغیر حساب کے جنت میں داخل کئے جائیں گے۔ پھر نبی کریم ﷺ نے اس کی وضاحت نہیں کی کہ یہ ستر ہزار کون لوگ ہوں گے۔ تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپس میں اس کے متعلق کچھ باتیں کیں۔ جب نبی کریم ﷺ کو یہ باتیں پہنچیں ؟ تو آپ نے فرمایا: ”هُمُ الَّذِينَ لاَ يَتَطَيَّرُونَ، وَلاَ يَسْتَرْقُونَ، وَلاَ يَكْتَوُونَ، وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ“ ”یہ وہ لوگ ہوں گے جو نہ بدشگونی لیتے ہیں،نہ دم کرواتے ہیں اور نہ ہی داغ کر علاج کرتے ہیںبلکہ اپنے رب پر ہی بھروسہ کرتے ہیں“۔(صحیح البخاری : 5752 وغیرہ)
اس حدیث سے بدشگونی نہ لینے کا ایک عظیم فائدہ معلوم ہوتا ہے لیکن افسوس! اپنے معاشرے میں تھوڑی تھوڑی بات پر بد شگونی لینے والے بہت لوگ ہیں، بطور خاص جب بیماری لگ جانے کا معاملہ ہو۔ اللہ ایسے لوگوں کو ہدایت دے۔ آمین۔

اگر کسی چیز کی وجہ سے دل میں بدشگونی پیدا ہو تو۔۔..:
ایک انسان بدشگونی نہیں لینا چاہتاہے لیکن کسی چیز کی وجہ سے اس کے دل میں بدشگونی پیدا ہوجاتی ہے تو ایسے شخص کو چاہئے کہ وہ اس بدشگونی کی طرف دھیان نہ دے اور اس کی وجہ سے اپنے کام کو عملی جامہ پہنانے سے نہ رکے جیسا کہ رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : ” ذَاکَ شَیْءٌ یَجِدُہُ أَحَدُکُمْ فِی نَفْسِہِ، فَلَا یَصُدَّنَّکُمْ “ ”بد شگونی ایک ایسی چیز ہے جس کو تم میں سے بعض لوگ اپنے نفس میں محسوس کرتے ہیں لیکن بد شگونی تم کو (کسی کام کو انجام دینے سے ) نہ روکے“۔(صحیح مسلم :537)
بلکہ بلا جھجھک اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنے کام کو کر گزرئے اور جو کچھ اس کے دل میں ہوگا وہ اللہ پر توکل کی وجہ سے اللہ اس کو ختم کردے گا ۔
رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا: ” وَمَا مِنَّا إِلَّا، وَلَكِنَّ اللہَ يُذْهِبُهُ بِالتَّوَكُّلِ“ ” اور ہم میں سے ہر کسی کو کوئی نہ کوئی وہم ہو ہی جاتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ توکل کی وجہ سے اسے ختم کردیتا ہے“۔ (سنن ابی بوداؤد بتحقیق الالبانی :3910، اس حدیث کو امام ترمذی اور علامہ البانی رحمہما اللہ نے صحیح قرار دیا ہے)
لیکن یاد رہے کہ اگر کوئی بدشگونی کی وجہ سے اپنے کام کو انجام نہ دے ،تو ” شرک “ کا مرتکب ہوگا اور اس کا کفارہ یہ ہے کہ وہ یہ دعاپڑھے۔
”اللَّہُمَّ لَا طَیْرَ إِلَّا طَیْرُکَ، وَلَا خَیْرَ إِلَّا خَیْرُکَ، وَلَا إِلَہَ غَیْرُکَ“

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”مَنْ أَرْجَعَتْہُ الطِّیَرَۃُ عَنْ حَاجَتِہِ، فَقَدْ أَشْرَکَ ، قَالُوا : وَمَا کَفَّارَۃُ ذَلِکَ یَا رَسُولَ اللہ؟ قَالَ یَقُولُ أَحَدُہُمُ : اللَّہُمَّ لَا طَیْرَ إِلَّا طَیْرُکَ، وَلَا خَیْرَ إِلَّا خَیْرُکَ، وَلَا إِلَہَ غَیْرُکَ “ ” ترجمہ : :
جس شخص کو بد شگونی اس کی حاجت ( کو پورا کرنے ) سے روک دے تو اس نے شرک کیا ۔ صحابہ کرام نے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ! اس کا کفارہ کیاہے ؟ تو آپ نے فرمایا : وہ یہ دعا پڑھ لے :” اے اللہ ! تیری بدشگونی (جو کہ تیرے ہی حکم سے ہوتی ہے ،اس)کے علاوہ کوئی بدشگونی نہیں ہے اور تیری بھلائی کے علاوہ کوئی بھلائی نہیں ہے اور تیرے علاوہ کوئی (سچا) معبود نہیں ہے“۔
(عمل الیوم واللیلۃ لابن السنی بتحقیق سلیم الہلالی :1/344،ح :293 والصحیحۃ للالبانی :3/53،ح: 1065و مسند احمد بتحقیق شعیب ورفقائہ : 11/623 ، ح:7045 ،
مذکورہ محققین نے اِس کی سند کو حسن قرار دیا ہے)
اخیر میں اللہ رب العالمین سے دعا ہے کہ ہم سب کو نحوست اور بد شگونی سے بچائے اور اچھے فال کی توفیق عطافرمائے ۔ آمین۔

Pdf کے لئے کلک کریں
https://drive.google.com/file/d/1Cy1jUjH3YsOZ9LqnElZxziLRGT50uMX0/view?usp=drivesdk
 
Last edited by a moderator:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791


محترمعمران الہی
محدث میگزین ،شمارہ ۳۵۳ ،۲۰۱۲


حقیقت خرافات میں کھو گئی !

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو ضلالت و جہالت سے مبرا اور دلائل و براہین سے آراستہ ہے، اسلام کے تمام احکام پایۂ تکمیل کو پہنچ چکے ہیں۔اور اس دین مبین میں خرافات وبدعات کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ اب کوئی نام نہاد عالم دین، مفتی یا محدث ایسا نہیں جو اس دین مبین اور صاف و شفاف چشمے میں بدعات و خرافات کا زہر ملائے لیکن افسوس ہے کہ شیطان اور اس کے پیروکاروں نے اس دین صافی کو ضلالت و جہالت سے خلط ملط کرنے اور خرافات سے داغ دار کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
دیگر مہینوں کی طرح ماہِ صفر میں بھی کچھ جاہلانہ رسومات ادا کی جاتی ہیں۔ صفر کا مہینہ اسلامی مہینوں کی لڑی کا دوسرا موتی ہے۔ اس مہینے کے بارے غلط باتوں کو ختم کرنے کے لیے اسے 'صفر المظفر' کہا جاتا ہے۔

صفر کے متعلق قدیم خیالات
قبل از اسلام اہل جاہلیت ماہِ صفر کو منحوس خیال کرتے اور اس میں سفر کرنے کو برا سمجھتے تھے، اسی طرح دورِ جاہلیت میں ماہِ محرم میں جنگ و قتال کو حرام خیال کیا جاتا تھا اور یہ حرمت ِ قتال ماہ صفر تک برقرار رہتی لیکن جب صفر کا مہینا شروع ہو جاتا، جنگ و جدال دوبارہ شروع ہو جاتے لہٰذا یہ مہینہ منحوس سمجھا جاتا تھا۔ عرب کے لوگ ماہ صفر کے بارے عجیب عجیب خیالات رکھتے تھے۔
شیخ علیم الدین سخاوی نے اپنی کتاب 'المشهور في أسماء الأیام والشهور' میں لکھا ہے:
''صفر کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس مہینے میں عموماً اُن کے (اہل عرب) گھر خالی رہتے تھے اور وہ لڑائی بھڑائی اور سفر میں چل دیتے تھے، جب مکان خالی ہوجاتے تو عرب کہتے تھے: صَفَرَ المَکَانُ ''مکان خالی ہوگیا۔''
الغرض آج کے اس پڑھے لکھے معاشرے میں بھی عوام الناس ماہِ صفر کے بارے جہالت اور دین سے دوری کے سبب ایسے ایسے توہمات کا شکار ہیں جن کا دین اسلام سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ یہ اسی قدیم جاہلیت وجہالت کا نتیجہ ہے کہ متعدد صدیاں گزرنے کے باوجود آج بھی عوام الناس میں وہی زمانۂ جاہلیت جیسی خرافات موجود ہیں۔

صفر کے متعلق جدید خیالات
برصغیر کے مسلمانوں کا ایک طبقہ صفر کے مہینے کو منحوس سمجھتاہے۔ اس مہینے میں توہم پرست لوگ شادی کرنے کو نحوست کا باعث قرار دیتے ہیں۔ فی زمانہ لوگ اس مہینے سے بدشگونی لیتے ہیں اور اس کو خیر و برکت سے خالی سمجھا جاتا ہے۔ اس میں کسی کام مثلاً کاروبار وغیرہ کی ابتدا نہیں کرتے، لڑکیوں کو رخصت نہیں کرتے۔ اس قسم کے اور بھی کئی کام ہیں جنہیں کرنے سے پرہیز کرتے ہیں۔ ان لوگوں کا اعتقاد ہوتا ہے کہ ہر وہ کام جو اس مہینے میں شروع کیا جاتا ہے وہ منحوس یعنی خیر و برکت سے خالی ہوتا ہے۔

ماہ صفر کو منحوس سمجھنے کی تردید
اس مہینے کی بابت لوگوں میں مذکورہ رسومات و بدعات رواج پاچکی ہیں جن کی تردید نبی اکرمﷺنے اس حدیث میں فرمائی:
«لَا عَدْوٰی وَلَا طِیَرَةَ وَلَا هَامَّةَ وَلَا صَفَرَ»1
" (اللہ کی مشیت کے بغیر) کوئی بیماری متعدی نہیں اور نہ ہی بد شگونی لینا جائز ہے، نہ اُلو کی نحوست یا روح کی پکار اور نہ ماہِ صفر کی نحوست۔"
امام ابن قیم فرماتے ہیں:
''اس حدیث میں نفی اورنہی دونوں معانی صحیح ہوسکتے ہیں لیکن نفی کے معنی اپنے اندر زیادہ بلاغت رکھتے ہیں کیوں کہ نفی 'طیرہ'(نحوست) اور اس کی اثر انگیزی دونوں کا بطلان کرتی ہے، اس کے برعکس نہی صرف ممانعت دلالت کرتی ہے۔ اس حدیث سے ان تمام اُمور کا بطلان مقصود ہے جو اہل جاہلیت قبل از اسلام کیا کرتے تھے۔''2
ابن رجب فرماتے ہیں کہ
''اس حدیث میں ماہِ صفر کو منحوس سمجھنے سے منع کیا گیا ہے، ماہ صفر کو منحوس سمجھنا تطیّر(بدشگونی) کی اقسام میں سے ہے۔ اسی طرح مشرکین کا پورے مہینے میں سے بدھ کے دن کو منحوس خیال کرنا سب غلط ہیں۔''3
امام ابوداؤد محمد بن راشد سے نقل کرتے ہیں:
''اہل جاہلیت یعنی مشرکین ماہِ صفر کو منحوس سمجھتے تھے، لہٰذا اس 'لَا صَفَرَ' حدیث میں ان کے اس عقیدہ اور قول کی تردید کی گئی ہے۔''4
امام مالکفرماتے ہیں کہ ''اہل جاہلیت ماہِ صفر کو منحوس سمجھتے اور کہتے کہ یہ منحوس مہینہ ہے ۔ چنانچہ رسول اکرمﷺنے اُن کے اس نظریے کو باطل قرار دیا۔''5

ماہ و سال، شب و روز اور وقت کے ایک ایک لمحے کا خالق اللہ ربّ العزت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کسی دن، مہینے یا گھڑی کو منحوس قرار نہیں دیا۔ در حقیقت ایسے توہمانہ خیالات غیر مسلم اقوام اور قبل از اسلام مشرکین کے ذریعے مسلمانوں میں داخل ہوئے ہیں۔ مثلاً ہندوٴں کے ہاں شادی کرنے سے پہلے دن اور وقت متعین کرنے کے لیے پنڈتوں سے پوچھا جاتا ہے۔ وہ اگر رات ساڑھے بارہ بجے کا وقت مقرر کردے تو اُسی وقت شادی کی جاتی ہے، اس سے آگے پیچھے شادی کرنا بدفالی سمجھا جاتاہے ۔ آج یہی فاسد خیالات مسلم اقوام میں دَر آئے ہیں، اس لیے صفر کی خصوصاً ابتدائی تاریخوں کو جو منحوس سمجھا جاتا ہے تو یہ سب جہالت کی باتیں ہیں، دین اسلام کے روشن صفحات ایسے توہمات سے پاک ہیں۔ کسی وقت کو منحوس سمجھنے کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں بلکہ کسی دن یا کسی مہینہ کو منحوس کہنا درحقیقت اللہ ربّ العزت کے بنائے ہوئے زمانہ میں، جو شب وروز پر مشتمل ہے، نقص اور عیب لگانے کے مترادف ہے اور اس چیز سے نبی نے ان الفاظ میں روک دیا ہے:
«قَالَ الله تَعَالىٰ: یُؤْذِیْنِي ابْنُ آدَمَ یَسُبُّ الدَّهر وَأنَا الدَّهْرُ، بَیِدِيَ الْأمْرُ، أُقَلِّبُ اللَّیْلَ وَالنَّهَارَ»6
''اللہ تعالیٰ نے فرمایا:آدم کا بیٹا مجھے تکلیف دیتا ہے۔ وہ وقت (دن، مہینے، سال) کو گالی دینا ہے حالاں کہ وقت (زمانہ) میں ہوں، بادشاہت میرے ہاتھ میں ہے، میں ہی دن اور رات کو بدلتا ہوں۔''
معلوم یہ ہوا کہ دن رات اللہ تعالیٰ کے پیدا کردہ ہیں، کسی کو عیب دار ٹھہرانا خالق و مالک کی کاری گری میں در حقیقت عیب نکالنا ہے۔

نحوست کی نفی کرنے والے، بغیر حساب جنت میں
1. اللہ تعالیٰ پر توکل کرنے والے لوگوں کے بارے میں رسولِ اکرمﷺنے فرمایا:
'' مجھے میری اُمت کے بارے میں بتایا گیا کہ یہ آپ کی اُمت ہے، ان میں ستر ہزار ایسے ہیں جو پہلے جنت میں جائیں گے، ان پر کوئی حساب اور عذاب نہیں ہوگا۔نبی اکرمﷺنے فرمایا: میں نے پوچھا کہ یہ کس وجہ سے بغیر حساب اور عذاب کے جنت میں جائیں گے؟ تو جبریل نے جواب دیا: «کَانُوْا لَا یَکْتَوُوْنَ وَلَا یَسَتَرَقُوْنَ وَلَا یَتَطَیَّرُوْنَ وَعَلىٰ رَبِّهِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ»7

"(ان کی صفت یہ ہے کہ) وہ اپنے جسم کو داغتے نہیں، نہ ہی دم کرواتے ہیں، نہ کسی چیز کو منحوس سمجھتے اور وہ اپنے ربّ پر توکل کرتے تھے۔''
مندرجہ بالا حادیث میں بلا حساب جنت میں جانے والے لوگوں کے اوصاف کا ذکر ہے، ان میں ایک خوبی یہ ہے کہ وہ کسی چیز کو منحوس نہیں سمجھتے اور ان میں توکل کا مادہ بدرجہ اتم موجود ہے۔
2. نبی کریم ﷺ کا فرمانِ اقدس ہے: «الطِّیَرَةُ ِشركٌ، الطِّیَرَةُ شِرْكٌ»8

''کسی چیز کو منحوس خیال کرنا شرک ہے، کسی چیز کو منحوس خیال کرنا شرک ہے۔
3. قرآن میں ہے:﴿ما أَصابَ مِن مُصيبَةٍ فِى الأَر‌ضِ وَلا فى أَنفُسِكُم إِلّا فى كِتـٰبٍ مِن قَبلِ أَن نَبرَ‌أَها .... ٢٢ ﴾ ....سورة الحديد

" کوئی مصیبت نہ زمین پر پہنچتی ہے اور نہ تمہاری جانوں پر مگر وہ ایک کتاب میں ہے، اس سے پہلے کہ ہم اسے پیدا کریں۔"
4۔ اسی طرح ایک حدیث میں رسول اللہﷺنے توکل کے بارے فرمایا:
«وَاعْلَمْ اَنَّ الْأمَّةَ اجْتَمَعَتْ عَلىٰ أَن یَّنْفَعُوْكَ بِشَيْءٍ لَمْ یَنْفَعُوْكَ إِلاَّ بِشَيْءٍ قَدْ کَتَبَهُ اللهُ لَكَ وَإنِ اجْتَمَعُوْكَ عَلىٰ أَن یَّضُرُّوكَ بِشَيْءٍ لَمْ یَضُرُّوكَ إِلاَّ بِشَيْءٍ قَدْ کَتَبَهُ اللهُ عَلَیْكَ»

" جان لو! اگر لوگ اس بات پر جمع ہوجائیں کہ وہ تمھیں کچھ فائدہ پہنچائیں تو وہ کچھ فائدہ نہیں پہنچا سکتے، مگر وہی جو اللہ نے تمہاری تقدیر میں لکھ دیا ہے اور اگر لوگ اس بات پر جمع ہو جائیں کہ وہ تمھیں کچھ نقصان پہنچائیں تو وہ تمھیں کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتے مگر وہی جو اللہ نے تم پر لکھ دیا ہے۔''
بدشگونی شرکِ اصغر ہے!
بدشگونی یعنی کسی چیز کو منحوس خیال کرنا شریعت میں سختی سے ممنوع ہے۔ چنانچہ سیدنا عبداللہ بن مسعود سے مروی ہے کہ رسول اکرمﷺنے فرمایا:
«اَلطِّیَرَةُ شِرْكٌ ، اَلطِّیَرَةُ شِرْكٌ، اَلطِّیَرَةُ شِرْكٌ»9

" بدشگونی لینا شرک ہے، بدشگونی لینا شرک ہے، بدشگونی لینا شرک ہے۔"
جامع ترمذی کے شارح مولانا عبدالرحمٰن مبارک پوری فرماتے ہیں:
آپ کا فرمان'بدشگونی شرک ہے' یعنی لوگوں کا یہ عقیدہ تھا کہ بدشگونی (کسی چیز کو منحوس سمجھنا) نفع لاتی ہے یا نقصان دور کرتی ہے تو جب اُنھوں نے اسی اعتقاد کے مطابق عمل کیا تو گویا اُنھوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرکِ خفی کا ارتکاب کیا اور کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص یہ عقیدہ رکھے کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی اور چیز بھی نفع یا نقصان کی مالک ہے تو اسنے شرکِ اکبر کا ارتکاب کیا۔''10
نبی کریمﷺنے دوسری جگہ فرمایا:
«مَنْ رَدَّتْهُ الطِّیَرَةُ عَنْ حَاجَتِه فَقَدْ أَشْرَكَ»11

" جو شخص بدشگونی کے ڈر کی وجہ سے اپنے کسی کام سے رک گیا یقیناً اس نے شرک (اصغر) کا ارتکاب کیا۔"
لہٰذا ماہِ صفر کو منحوس خیال کرنا، نحوست کی وجہ سے اس مہینے میں شادیاں کرنے سے رکے رہنا، اس میں مٹی کے برتن ضائع کردینا، ماہ صفر کے آخری بدھ یعنی چہار شنبہ کو جلوس نکالنا اور بڑی بڑی محفلیں منعقد کرکے خاص قسم کے کھانے اور حلوے تقسیم کرنا اور چُوری کی رسم ادا کرنا وغیرہ ان احادیث کے مطابق مردود اور شرکیہ عمل ہے جس سے ہر صورت میں اجتناب ضروری ہے۔
آخری بدھ کی خرافات

بعض حضرات و خواتین صفر المظفر کے آخری بدھ کو تعطیل(چھٹی) کرکے کاروبار اور دکانیں بند کردیتے ہیں اور عید کی طرح خوشیاں مناتے ہیں اور سیر سپاٹے کے لیے گھروں سے نکل جاتے ہیں جس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ جناب نبی اکرمﷺاس آخری بدھ میں صحت یاب ہوئے تھے اور سیر و تفریح کے لیے باہر تشریف لے گئے تھے حالانکہ اس دعوی کی اصل نہ حدیث میں ہے اور نہ ہی تاریخ کی کتابوں میں موجود ہے۔ لہٰذا یہ ساری بدعات لغو اور دین حنیف میں اضافہ ہیں، شریعت میں ان کا کوئی جواز نہیں۔ اسی بات کو واضح کرتے ہوئے علامہ رشید احمد گنگوہی حنفی رقم طراز ہیں:
''آخری چہار شنبہ کی کوئی اصل نہیں بلکہ اس دن جناب رسول اللہﷺ کو شدتِ مرض واقع ہوئی تھی۔ یہودیوں نے خوشی منائی تھی، وہ اب جاہل ہندوٴں میں رائج ہوگئی ہے۔ ''12
فاضل بریلوی احمد رضا خان چہار شنبہ کے بارے لکھتے ہیں:
''آخری چہار شنبہ کی کوئی اصل نہیں، نہ اس دن صحت یابی حضور کا کوئی ثبوت بلکہ مرضِ اقدس جس میں وفاتِ مبارک ہوئی اسکی ابتدا اسی دن سے بتائی جاتی ہے۔''13
صفر المظفر اور تیرہ تیزی

مغربی دنیا تیرہ (۱۳) کے عدد کو منحوس سمجھتی ہے، یہی فاسد خیالات مسلم قوم میں در آئے ہیں، اس لیے صفر کی خصوصاً ابتدائی تیرہ تاریخوں کو منحوس گمان کیا جاتا ہے۔ ان ابتدائی تیرہ دنوں کو تیرہ تیزہ کا نام دیا جاتا ہے، ان کی نحوست کو زائل کرنے کے لیے مختلف عملیات کیے جاتے ہیں حالانکہ یہ سب جہالت کی باتیں ہیں۔ دین اسلام کے سنہری اوراق ایسے توہمات سے پاک ہیں اور ان دنوں میں سے کسی دن کو منحوس سمجھ کر شادی سے رک جانے کی بھی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ ان تیرہ دنوں میں کثرت سے بلاوٴں، آفتوں اور مصائب کا نزول ہوتا ہے۔
مولانا اشرف علی تھانوی 'بہشتی زیور' میں لکھتے ہیں:
''صفر کو تیرہ تیزی کہتے ہیں اور اس مہینے کو نامبارک جانتے ہیں اور بعض جگہ تیرہویں تاریخ کو کچھ گھونگنیاں وغیرہ پکا کر تقسیم کرتے ہیں کہ اس کی نحوست سے حفاظت رہے، یہ سارے اعتقاد شرع کے خلاف اور گناہ ہیں، توبہ کرو۔"14
علامہ وحید الزمان رقم طراز ہیں:
''افسوس کہ اب تک ہندوستان کے مسلمان ایسے واہی خیالات میں مبتلا ہیں کسی تاریخ کو منحوس کہتے ہیں، کسی دن کو نامبارک جانتے ہیں، تیرہ تیزی کے صدقے نحوست کو دفع کرنے کے لیے نکالتے ہیں، اسلام میں ان باتوں کی کوئی اصل نہیں، سب دن اللہ کے ہیں اور جو اُس نے تقدیر میں لکھ دیا ہے وہ ضرور ہونے والا ہے، نجومی اور پنڈت سب جھوٹے ہیں۔''15
صفر المظفر کے چند واقعات

واقعات سن ہجری سن عیسوی
غزوہٴ ابواء،ودان ۲ھ اگست ۶۲۳ء
واقعہ رجیع ۴ھ جولائی ۶۲۵ء
واقعہ بئر معونہ ۴ھ جولائی ۶۲۵ء
سیدنا خالد بن ولید، عمرو بن عاص اور
عثمان بن طلحہ کا قبولِ اسلام ۸ھ جون ۶۲۹ء
سریہ سیدنا قطبہ بن عامر ۸ھ مئی ۶۳۰ء
وفد بنو عزرہ کا قبول اسلام ۹ھ مئی ۶۳۰ء
لشکرِسیدنا اُسامہ بن زید کی تیاری ۱۱ھ مئی ۶۳۲ء
فتح مدائن ۱۶ھ مارچ ۶۳۷ء
ولادتِ امام ابو القاسم سلمان بن احمد طبرانی ۲۶۰ھ دسمبر ۸۷۳ھ
ولادتِ امام ابو حفص بن شاہین ۲۹۷ھ اکتوبر ۹۰۹ء
پہلی جنگِ عظیم کا خاتمہ ۱۳۳۷ھ نومبر ۱۹۱۸ء
قراردادِ پاکستان ۱۳۵۹ھ مارچ ۱۹۴۰ء
بھارتی وزیراعظم اندراگاندھی کا قتل ۱۴۰۵ھ اکتوبر ۱۹۸۴ء
یومِ تکبیر، پاکستان کا ایٹمی تجربہ ۱۴۱۹ھ مئی ۱۹۹۸ء
حوالہ جات

1صحیح بخاری:۵۷۰۷

2قرة عیون الموحدین: ۲؍۳۸۴

3ایضًا

4ایضًا

5لطائف المعارف: ص۱۴۷

6سنن ابوداود:5274

7صحیح بخاری:6175

8مسند احمد: 4؍410

9سننابوداوٴد:۳۹۱۰

10ج5؍ص197

11مسند احمد: ۲؍۲۲۰

12تالیفات رشیدیہ: ۱۵۴

13احکام شریعت: ۲؍۱۸۹

14بہشتی زیور، چھٹا حصہ: ۵۹

15لغات الحدیث: ۲؍۶۰۵
 
Top