• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

"مایوس کن حالات میں امید کا دامن کبھی نہ چھوٹے"

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
بسم الله الرحمن الرحيم


"مایوس کن حالات میں امید کا دامن کبھی نہ چھوٹے"


فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبد اللہ بن عبد الرحمن بعیجان حفظہ اللہ نے 08-ربیع الثانی- 1438 کا خطبہ جمعہ مسجد نبوی میں بعنوان "مایوس کن حالات میں امید کا دامن کبھی نہ چھوٹے" ارشاد فرمایا :،

جس میں انہوں نے کہا کہ زندگی میں اتار چڑھاؤ اللہ تعالی کا قانون ہے اور ہر حالت میں مطمئن رہنا ، اللہ تعالی سے خیر کی امید رکھنا؛ اللہ اور اس کے رسول کی ہمارے لیے تربیت ہے، اس تربیت پر انہوں نے موسی، ہارون ، یوسف علیہم السلام اور سیدنا محمد ﷺ سے آیات اور احادیث کی روشنی میں دلائل بھی دئیے، اسی طرح انہوں نے جنگ بدر اور احزاب کے سنگین اور پر خطر حالات کے موقع پر قرآن مجید اور رسول اللہ ﷺ کا یہی منہج عیاں کیا کہ مسلمانوں نے ہمیشہ نوید اور امید کا دامن تھام کر رکھنا ہے، چنانچہ مایوسی اور نا امیدی کا اسیر بن جانا مسلمانوں کا نہیں بلکہ منافقوں اور غیروں کا طریقہ ہے، اور آخر میں بتلایا کہ مؤمن دکھ یا سکھ کو اجر و ثواب میں کیسے بدلتا ہے اور کب اللہ تعالی مسلمانوں کی مدد فرماتا ہے۔

پہلا خطبہ :

تمام تعریفیں اللہ کیلیے ہیں وہی جہانوں کا پروردگار ، مومنوں کا مدد گار اور متقی لوگوں کی حمایت کرنے والا ہے، بندوں پر اسی کا تسلط ہے اور وہی حکمت والا اور خبر رکھنے والا ہے، خوشی ہو یا غمی، بد حالی ہو یا خوشحالی، عافیت ہو یا وقتِ آزمائش ہم اسی کی حمد بیان کرتے ہیں ، دنیا اور آخرت میں اسی کی حمد بیان ہوتی ہے ، وہی فیصلے کرتا ہے اور اسی کی جانب تمہیں لوٹایا جائے گا، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں ، اس کا کوئی شریک نہیں، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں محمد اللہ بندے اور اس کے رسول ہیں ، اللہ تعالی نے آپ کو ہدایت اور دینِ حق دے کر مبعوث فرمایا؛ تا کہ دینِ اسلام کو تمام ادیان پر غالب کر دے چاہے مشرکوں کو یہ بات ناگوار گزرے، اللہ تعالی آپ پر، آپ کی آل، صحابہ کرام اور روزِ قیامت تک ان کی اتباع کرنے والوں پر رحمتیں اور ڈھیروں سلامتی نازل فرمائے۔

حمد و صلاۃ کے بعد:

اللہ کے بندو! اللہ سے ڈرو اور اسی کی اطاعت کرو، اللہ تعالی کی طرف سے کشادگی سے نا امید مت ہونا اور نہ ہی رحمتِ الہی سے مایوس ہونا؛

{إِنَّهُ لَا يَيْأَسُ مِنْ رَوْحِ اللَّهِ إِلَّا الْقَوْمُ الْكَافِرُونَ}

کیونکہ اللہ کی رحمت سے ناامید تو کافر لوگ ہی ہوا کرتے ہیں [يوسف: 87]

مسلمانو!

امتحانات اور آزمائشیں دنیا میں نظامِ الہی کا حصہ ہیں ، اللہ تعالی نے زندگی اور موت کی تخلیق ہی تمہیں آزمانے کیلیے کی ہے۔

بلکہ یہ حق و باطل کی ان بن کیلیے حکمتِ الہی کا تقاضا بھی ہیں؛ اور وہ حکمت یہ ہے کہ سچے اور جھوٹے لوگوں میں تفریق ہو سکے،

{أَحَسِبَ النَّاسُ أَنْ يُتْرَكُوا أَنْ يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ (2) وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَلَيَعْلَمَنَّ اللَّهُ الَّذِينَ صَدَقُوا وَلَيَعْلَمَنَّ الْكَاذِبِينَ}

کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ بس اتنا کہنے پر چھوڑ دیے جائیں گے کہ "ہم ایمان لائے ہیں" اور ان کو آزمایا نہیں جائے گا [2] حالانکہ ہم ان سے پہلے لوگوں کی آزمائش کر چکے ہیں۔ اللہ ہر صورت ان لوگوں کو جان لے گا جنہوں نے سچ کہا اور ان لوگوں کو بھی ہر صورت جان لے گا جو جھوٹے ہیں۔ [العنكبوت: 2، 3]

آزمائشیں ایمان و یقین کی گہرائی اور پختگی پرکھتی ہیں اور مومنوں کی صفوں میں گھسے ہوئے غیروں کا صفایا کرتی ہیں،

{مَا كَانَ اللَّهُ لِيَذَرَ الْمُؤْمِنِينَ عَلَى مَا أَنْتُمْ عَلَيْهِ حَتَّى يَمِيزَ الْخَبِيثَ مِنَ الطَّيِّبِ}

اللہ تعالی مومنوں کو ان کی حالت پر نہیں چھوڑے گا جب تک کہ وہ پاک اور نا پاک کو الگ الگ نہ کر دے [آل عمران: 179]

جن کے نصیب میں ہدایت لکھ دی گئی ہو تربیتی منہج کے ذریعے اللہ تعالی انہیں بچا لیتا ہے ، چنانچہ وہ خوابِ غفلت سے بیدار ہو کر اپنے پروردگار کی جانب متوجہ ہو جاتے ہیں اور دین کی جانب رجوع کرتے ہیں۔

اللہ کے بندو!

امتحانات اور آزمائشوں کے بھنور بسا اوقات حالات انتہا درجے تک بھی بگڑ جاتے ہیں اور مصیبتیں بڑھ جاتی ہیں، ظلم کے بادل چھٹنے میں اتنی تاخیر ہو جاتی ہے کہ بد گمانیاں، مایوسی اور نا امیدی دل میں گھر کر جاتی ہیں،

{أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَأْتِكُمْ مَثَلُ الَّذِينَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ مَسَّتْهُمُ الْبَأْسَاءُ وَالضَّرَّاءُ وَزُلْزِلُوا حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ مَتَى نَصْرُ اللَّهِ}

کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ یونہی جنت میں داخل ہو جاؤ گے جبکہ تمہیں ابھی وہ مصائب پیش ہی نہیں آئیں جو تم سے پہلے ایمان لانے والوں کو پیش آئیں تھی۔ ان پر اس قدر سختیاں اور مصیبتیں آئیں کہ انہیں ہلا کر رکھ دیا۔ تا آنکہ خود رسول اور ان کے ساتھ ایمان لانے والے سب پکار اٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی ؟ [البقرة: 214]

ایسے حالات میں اللہ تعالی کی جانب رجوع اور اللہ تعالی کے بارے میں حسن ظن از بس ضروری ہو جاتا ہے؛ کیونکہ اسی کے پاس تمام تنگیوں سے نکلنے کا راستہ اور ہر پریشانی کا علاج ہے، اللہ تعالی اپنے بندوں کے حسن ظن کے مطابق ہی ان سے معاملہ فرماتا ہے، لہذا اللہ تعالی کے بارے میں حسن ظن رکھنے والا کبھی نامراد نہیں ہوتا۔

مسلم اقوام:

پریشانی کے وقت دلوں میں اطمینان ، نوید اور امید اجاگر کرنا قرآنی اور نبوی منہج ہے، جیسے کہ:

اللہ تعالی نے موسی اور ہارون علیہما السلام کو فرعون کی جارحیت کے وقت فرمایا:

{لَا تَخَافَا إِنَّنِي مَعَكُمَا أَسْمَعُ وَأَرَى}

تم دونوں ڈرو مت ، میں تم دونوں کے ساتھ ہوں سب کچھ دیکھ رہا ہوں اور سن رہا ہوں۔[طہ: 46]

اسی طرح یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائی کو پریشانی لاحق ہونے کے بعد فرمایا:

{إِنِّي أَنَا أَخُوكَ فَلَا تَبْتَئِسْ}

بیشک میں تمہارا بھائی ہی ہوں، لہذا اب پریشان نہیں ہونا۔[يوسف: 69]

ایسے ہی جنابِ شعیب نے جب موسی علیہ السلام کو قتل کرنے کی سازش کی گئی اور آپ علیہ السلام خوف زدہ ہو کر خطرات بھانپتے ہوئے شہر سے چلے گئے اس وقت کہا تھا:

{لَا تَخَفْ نَجَوْتَ مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ}

اب ڈرو مت، تم ظالموں کی قوم سے نجات پا چکے ہو۔ [القصص: 25]

اور اسی طرح ہمارے نبی محمد ﷺ نے اپنے یارِ غار ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے غار میں کہا تھا:

(ابو بکر! تم ایسے دو کے بارے میں کیا سمجھتے ہو جن کے ساتھ تیسرا اللہ ہے!؟

{لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا}

غم نہ کھاؤ، بیشک اللہ ہمارے ساتھ ہے۔[التوبہ: 40])

اسی طرح غزوہ بدر میں مسلمانوں کی تعداد تین سو دس سے کچھ اوپر تھی، جبکہ مشرکین کی تعداد ان سے تین گنا زیادہ ! مکمل اسلامی لشکر خوف زدہ تھا ؛ کیونکہ ان کی جنگ کیلیے تیاری تھی اور نہ ہی تعداد اور استعداد مکمل تھی، اوپر سے دشمن کئی گنا زیادہ طاقتور اور مضبوط ، ان کی تعداد اور استعداد بھی بھر پور تھیں، ایسے سخت حالات میں قرآنی آیات نازل اس لیے ہوتی ہیں کہ مسلمانوں کے دلوں میں اطمینان اور امید کی کرن روشن ہو جائے، آیاتِ قرآنی مسلمانوں کی ڈھارس باندھیں، حوصلے بلند کر دیں نیز انہیں دشمن کا سامنا کرنے کیلیے تیار کریں، اللہ تعالی کا یہ فرمان سنیں : اس میں رسول اللہ ﷺ کو مخاطب کیا گیا:

{إِذْ يُرِيكَهُمُ اللَّهُ فِي مَنَامِكَ قَلِيلًا وَلَوْ أَرَاكَهُمْ كَثِيرًا لَفَشِلْتُمْ وَلَتَنَازَعْتُمْ فِي الْأَمْرِ وَلَكِنَّ اللَّهَ سَلَّمَ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ (43) وَإِذْ يُرِيكُمُوهُمْ إِذِ الْتَقَيْتُمْ فِي أَعْيُنِكُمْ قَلِيلًا وَيُقَلِّلُكُمْ فِي أَعْيُنِهِمْ لِيَقْضِيَ اللَّهُ أَمْرًا كَانَ مَفْعُولًا وَإِلَى اللَّهِ تُرْجَعُ الْأُمُورُ }

جب اللہ آپ کو خواب میں انہیں تھوڑے دکھا رہا تھا اور اگر وہ آپ کو دکھاتا کہ وہ زیادہ ہیں تو تم ضرور ہمت ہار جاتے اور آپس میں جھگڑ پڑتے اور لیکن اللہ نے سلامتی میں رکھا، بیشک وہ سینے کی باتوں کو خوب جاننے والا ہے۔[43] اور جس وقت تم ایک دوسرے کے مد مقابل ہوئے تو وہ تمہاری آنکھوں میں انہیں تھوڑے دکھاتا تھا اور تم کو ان کی آنکھوں میں معمولی دکھاتا تھا تاکہ اللہ اس کام کو پورا کر دے جو کیا جانے والا تھا اور سب معاملات اللہ ہی کی طرف لوٹائے جاتے ہیں [الأنفال: 43، 44]

سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : "انہیں ہماری نظروں میں اتنا کم کر کے دکھایا گیا کہ میں نے اپنے ساتھ کھڑے شخص سے کہہ دیا:
تمہیں وہ ستر کے لگ بھگ لگتے ہیں!؟
اس نے کہا: مجھے وہ ایک سو لگتے ہیں۔
ابن مسعود کہتے ہیں: ہم نے ایک آدمی کو قیدی بنا لیا ، تو ہم نے اس سے پوچھا: تمہاری کتنی تعداد تھی؟ تو اس نے کہا: ایک ہزار"


ہمیں قرآن مجید میں یہی منہج ایک دوسرے اسلوب میں بھی اسی غزوے کے اندر نظر آتا ہے، اس سے مسلمانوں کے دلوں میں امید کی کرن روشن ہوتی ہے اور ان کیلیے فتح و نصرت کی تاکید اور وعدہ پختہ ہوتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

{وَإِذْ يَعِدُكُمُ اللَّهُ إِحْدَى الطَّائِفَتَيْنِ أَنَّهَا لَكُمْ وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذَاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ وَيُرِيدُ اللَّهُ أَنْ يُحِقَّ الْحَقَّ بِكَلِمَاتِهِ وَيَقْطَعَ دَابِرَ الْكَافِرِينَ (7) لِيُحِقَّ الْحَقَّ وَيُبْطِلَ الْبَاطِلَ وَلَوْ كَرِهَ الْمُجْرِمُونَ}

اور جب اللہ نے تم سے وعدہ کیا تھا کہ دونوں گروہوں میں سے ایک تمہارا ہوگا اور تم یہ چاہتے تھے کہ غیر مسلح گروہ تمہارے ہاتھ لگ جائے جبکہ اللہ یہ چاہتا تھا کہ اپنے ارشادات سے حق کو حق کر دکھائے اور کافروں کی جڑ کاٹ کر رکھ دے [7] تاکہ اللہ حق کو حق کر دکھائے اور باطل کو مٹا دے۔ خواہ یہ بات مجرموں کو ناگوار گزرے۔[الأنفال: 7، 8]

اللہ کے بندو!

رسول اللہ ﷺ بھی اسی قرآنی منہج کے مطابق تربیت کرتے تھے، چنانچہ جب بھی مسلمانوں کو کوئی پریشانی یا دکھ پہنچتا ، یا خطرات منڈلانے لگتے، یا قلق اور مایوسی پھیلتی تو آپ ﷺ امید کی کرن روشن کرتے ، دلوں میں اللہ تعالی پر مکمل اعتماد اور بھروسا جا گزین کرتے تھے۔

جیسے کہ دشمنانِ اسلام رسول اللہ ﷺ کے خلاف دس ہزار اتحادی جنگجوؤں کے ساتھ غزوہ خندق میں امڈے تو اس وقت مسلمانوں کے حالات بہت پتلے تھے، دلوں پر خوف نے اتنے پکے ڈیرے لگا لیے تھے کہ کوئی قضائے حاجت کیلیے بھی باہر نہیں نکلتا تھا۔ فاقہ کشی کا یہ عالم تھا کہ پیٹ پر پتھر بندھ گئے، کئی کئی دنوں تک کھانے کیلیے چیز تو کیا چکھنے کیلیے کچھ نہیں ملتا تھا۔ اوپر سے سردی بھی جوبن اور انتہا کی تھی۔ مزید برآں غداری، خیانت اور منافقت نے بھی اپنی عادت کے مطابق مسلمانوں کی کمر میں چھرا گھونپنے کا موقع غنیمت جانا، قرآن کریم نے مسلمانوں کی حالت بیان کرتے ہوئے فرمایا:

{إِذْ جَاءُوكُمْ مِنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ وَإِذْ زَاغَتِ الْأَبْصَارُ وَبَلَغَتِ الْقُلُوبُ الْحَنَاجِرَ وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا (10) هُنَالِكَ ابْتُلِيَ الْمُؤْمِنُونَ وَزُلْزِلُوا زِلْزَالًا شَدِيدًا}

جب وہ تمہارے اوپر اور نیچے سے چڑھ آئے تھے اور جب آنکھیں پھر گئی تھیں اور کلیجے منہ کو آنے لگے تھے اور تم اللہ تعالی کے متعلق طرح طرح کے گمان کرنے لگے تھے[10] اس موقع پر مومنوں کی آزمائش کی گئی اور وہ بری طرح ہلا دیئے گئے۔ [الأحزاب: 10، 11]

ایسے حالات میں رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام کے دلوں میں امید کو جلا بخشی، ان کو مکمل اعتماد اور اطمینان دلایا، انہیں فتح و نصرت اور غلبے کے وعدے سنائے، انہیں واضح فتح کی خوشخبری بھی دی، آپ ﷺ نے انہیں انہی حالات میں روم، فارس اور یمن کے خزانے فتح ہونے کی خوشخبریاں سنائیں؛ جیسے کہ براء بن عازب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ:

"جس وقت رسول اللہ ﷺ نے ہمیں خندق کھودنے کا حکم دیا تو ہمارے سامنے خندق کے کچھ حصے میں ایک سخت چٹان آ گئی جس پر کسی کدال کا وار کار گر نہیں ہو رہا تھا، ہم نے اس کی شکایت رسول اللہ ﷺ سے کی، تو آپ ﷺ آئے اور خود کدال پکڑ کر: (بسم اللہ) کہا اور ایسی ضرب لگائی کہ چٹان کا ایک تہائی حصہ ٹوٹ گیا اور فرمایا: (اللہ اکبر، مجھے شام کی چابیاں دے دی گئیں، اور اللہ کی قسم! مجھے شام کے سرخ محلات نظر آ رہے ہیں) پھر آپ ﷺ نے ایک اور ضرب لگائی تو اس کا دوسرا تہائی حصہ ٹوٹ گیا اور فرمایا: (اللہ اکبر، مجھے فارس کی چابیاں دے دی گئیں، اور اللہ کی قسم میں مدائن کے سفید محلات دیکھ رہا ہوں) پھر آپ ﷺ نے تیسری ضرب لگاتے ہوئے (بسم اللہ) کہا ، جس پر بقیہ حصہ بھی ٹوٹ گیا اور فرمایا: (اللہ اکبر، مجھے یمن کی کنجیاں بھی دے دی گئیں، اور اللہ کی قسم میں صنعاء شہر کے دروازے اپنی اسی جگہ سے دیکھ رہا ہوں، اور مجھے جبریل نے بتلایا ہے کہ میری امت انہیں فتح کرے گی، اس لیے خوش ہو جاؤ)" تو رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کو مستقبل میں ہونے والی فتوحات کی پیشین گوئیاں دیں، حالانکہ وہ خندق میں محصور تھے سردی اور فاقہ کشی کا ان پر راج تھا!

جبکہ منافقین بزدلی، افواہیں اڑانے اور مسلمانوں کو رسوا کرنے کی ناکام کوشش میں لگے رہے، انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی ان خوشخبریوں کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا:

"وہ ہمیں قیصر و کسری کے خزانوں کا وعدہ دیتا ہے اور ہماری حالت یہ ہے کہ ہم قضائے حاجت کیلیے باہر نہیں نکل سکتے!

{مَا وَعَدَنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ إِلَّا غُرُورًا}

ہم سے اللہ اور اس کے رسول نے صرف دھوکے کا وعدہ ہی کیا ہے![الأحزاب: 12]"

جبکہ مومنوں کی حالت انتہائی پر اطمینان تھی اور وہ کہہ رہے تھے:

{هَذَا مَا وَعَدَنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَصَدَقَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَمَا زَادَهُمْ إِلَّا إِيمَانًا وَتَسْلِيمًا}

اور جب مومنوں نے ان لشکروں کو دیکھا تو کہنے لگے :"یہ تو وہی بات ہے جس کا اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے وعدہ کیا تھا" اس واقعہ نے ان کے ایمان اور فرمانبرداری کو مزید بڑھا دیا۔ [الأحزاب: 22]

اللہ تعالی میرے اور آپ کیلیے قرآن مجید کو بابرکت بنائے، مجھے اور آپ کو قرآنی آیات اور حکمت بھری نصیحتوں سے مستفید فرمائے، میں اسی پر اکتفا کرتا ہوں اور عظمت و جلال والے اللہ سے اپنے اور سب مسلمانوں کیلیے تمام گناہوں کی بخشش طلب کرتا ہوں، آپ بھی اسی سے بخشش طلب کرو، بیشک وہ بخشنے والا ہے اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔


دوسرا خطبہ :

تمام تعریفیں صرف اللہ ہی کیلیے ہیں ، اس نے اپنا وعدہ پورا کیا، اپنے بندے کی مدد فرمائی اور اکیلے ہی اتحادی افواج کو شکست سے دوچار کیا، درود و سلامتی ہوں محمد ﷺ پر جن کے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔

مسلم اقوام!

یہ بات ذہن نشین کر لو کہ اللہ تعالی نے دینِ اسلام اور مسلمانوں کیلیے فتح لکھ دی ہے، اللہ تعالی نے مسلمانوں کی مدد کا وعدہ بھی کیا ہوا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

{كَتَبَ اللَّهُ لَأَغْلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِي إِنَّ اللَّهَ قَوِيٌّ عَزِيزٌ}

اللہ نے لکھ رکھا ہے کہ میں اور میرے رسول ہی غالب رہیں گے۔ بلاشبہ اللہ بڑا زور آور اور غالب ہے۔ [المجادلہ: 21]

اسی طرح فرمایا:

{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَنْصُرُوا اللَّهَ يَنْصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ}

اے لوگو ! اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں ثابت قدم رکھے گا۔ [محمد: 7]

لیکن اگر مسلمان ہی دین کے غلبے سے دستبردار ہو جائیں تو اللہ تعالی اپنے دین کو غالب فرمائے گا اور ایسی قوم لائے گا جو یہ فریضہ سر انجام دے گی، فرمانِ باری تعالی ہے:

{وَلَيَنْصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ}

اور اللہ ایسے لوگوں کی ضرور مدد کرتا ہے جو اس (کے دین) کی مدد کرتے ہیں۔ یقیناً اللہ بڑا طاقتور اور سب پر غالب ہے۔ [الحج: 40]

ایک اور مقام پر فرمایا:

{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَنْ يَرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكَافِرِينَ يُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا يَخَافُونَ لَوْمَةَ لَائِمٍ}

اے ایمان والو ! اگر تم میں سے کوئی اپنے دین سے پھرتا ہے تو عنقریب اللہ ایسے لوگ لے آئے گا جن سے اللہ محبت رکھتا ہو اور وہ اللہ سے محبت رکھتے ہوں، مومنوں کے حق میں نرم دل اور کافروں کے حق میں سخت ہوں، اللہ کی راہ میں جہاد کریں اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے خوفزدہ نہ ہوں [المائدة: 54]

اسباب کتنے ہی ناپید ہوں اور حالات کتنے ہی بگڑ جائیں مسلمان پھر بھی دائمی خیر میں ہی رہیں گے؛ کیونکہ :

{وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ}

انجام کار مومنوں کے حق میں ہی ہو گا۔[الأعراف: 128]

رسول اللہ ﷺ سے صحیح ثابت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: (مومن کا معاملہ بہت ہی تعجب خیز ہے؛ کیونکہ مومن کیلیے تمام معاملات خیر کا باعث ہوتے ہیں، اور یہ صرف مومن کا ہی خاصہ ہے، اس طرح کہ: اگر اسے خوشی ملے تو شکر کرتا ہے ، تو یہ اس کیلیے خیر [ثواب]کا باعث بن جاتی ہے اور اگر اسے تکلیف پہنچے تو صبر کرتا ہے، تو یہ بھی اس کیلیے خیر [ثواب] کا باعث بن جاتی ہے)

اس لیے اپنے بارے میں اللہ سے ڈرو، امت میں مایوسی اور افواہیں پھیلانے سے بچو؛ کیونکہ یہ بھی حربی چالیں ہیں اور دشمن کی جانب سے مسلمانوں میں مایوسی پھیلانے کی تدبیر ہے۔

اس لیے نوید اور امید کا دامن نہ چھوڑو، اللہ تعالی پر مکمل بھروسا رکھو، تم ہی غالب رہو گے،

{وَلَقَدْ سَبَقَتْ كَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِينَ (171) إِنَّهُمْ لَهُمُ الْمَنْصُورُونَ (172) وَإِنَّ جُنْدَنَا لَهُمُ الْغَالِبُونَ}

اور بلاشبہ یقیناً ہمارے بھیجے ہوئے بندوں کے لیے ہماری بات پہلے طے ہو چکی[171]کہ یقیناً انہی کی مدد کی جائے گی [172] اور ہمارا لشکر ہی غالب آئے گا۔ [الصافات: 171 - 173]

باطل قوتوں کے تسلط سے دھوکا مت کھانا، یقیناً اللہ تعالی اپنے دین کو غالب کر کے رہے گا، چاہے کافروں کو ناگوار گزرے۔

یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ عطا فرما، یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ عطا فرما، یا اللہ! شرک اور مشرکوں کو ذلیل فرما اور اپنے موحد بندوں کی مدد فرما، یا اللہ! اس ملک کو اور دیگر تمام اسلامی ممالک کو امن و امان کا گہوارہ بنا۔

یا اللہ! ہمارے ملکوں میں امن عطا فرما ، یا اللہ! ہمارے ملکوں میں امن عطا فرما ، یا اللہ! ہمارے ملکوں میں امن عطا فرما اور ہمارے حکمرانوں اور ملکی قیادت کی اصلاح فرما۔

یا اللہ! ہمارے حکمران کو خصوصی توفیق سے نواز، ان کی خصوصی مدد فرما، ان کے ذریعے اپنا دین غالب فرما، یا اللہ! انہیں اور ان کے دونوں نائبوں کو اسلام اور مسلمانوں کے لیے بہتر فیصلے کرنے کی توفیق عطا فرما، ملک و قوم کے حق میں بہتر فیصلے کرنے کی توفیق عطا فرما، یا رب العالمین!

یا اللہ! سرحدوں پر پہرہ دینے والے ہمارے فوجیوں کی مدد فرما، یا اللہ! ان کے نشانے درست فرما، ان کے عزائم مضبوط فرما، اور ظالموں کے خلاف ان کی خصوصی مدد فرما، یا رب العالمین!

یا اللہ! مسلمانوں کے حالات درست فرما، یا اللہ! پوری دنیا میں مسلمانوں کے حالات درست فرما، یا اللہ! پوری دنیا میں مسلمانوں کے حالات درست فرما، یا اللہ! شام میں ہمارے بھائیوں کی مدد فرما، یا اللہ! ان کی مشکلیں آسان فرما، یا اللہ! ان کی مشکلیں آسان فرما، یا اللہ! ان کی مشکلیں آسان فرما، نقصانات کا خاتمہ فرما، ان کے معاملات سنوار دے، جلد از جلد ظلم و استبداد چھٹ دے، جلد از جلد ظلم و استبداد چھٹ دے، جلد از جلد ظلم و استبداد چھٹ دے، اور ان میں اتحاد پیدا فرما، یا رب العالمین!

یا اللہ! دہشت زدگی کو ان کیلیے امن میں بدل دے، مغلوبیت کو فتح میں بدل دے، کمزوری کو قوت میں بدل دے۔

یا اللہ! ان کی جانوں کی حفاظت فرما، یا اللہ! ان کی جانوں کی حفاظت فرما، اور ان کی پردہ پوشی فرما، یا رب العالمین!

یا اللہ! ظالموں پر اپنی پکڑ نازل فرما، یا اللہ! ظالموں پر اپنی پکڑ نازل فرما، یا اللہ! ظالموں پر ایسی پکڑ نازل فرما جیسے غالب اور طاقتور پکڑتا ہے، یا قوی! یا عزیز! یا فعال لما ترید!

یا اللہ! دلوں کو پھیرنے والے ہمارے دلوں کو اپنے دین پر ثابت قدم کر دے، یا اللہ! دلوں کو پھیرنے والے ہمارے دلوں کو اپنی اطاعت پر ثابت قدم کر دے، یا ارحم الراحمین!

اللہ کے بندو!

اللہ تعالی نے تمہیں اپنے نبی پر درود و سلام پڑھنے کا حکم دیتے ہوئے اللہ تعالی نے فرمایا:

{إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا}

اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود و سلام بھیجا کرو۔ [الأحزاب: 56]

اَللَّهُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ عَلَى نَبِيِّنَا مُحَمَّدٍ.

یا اللہ! ہدایت یافتہ خلفائے راشدین : ابو بکر ، عمر، عثمان، علی اور بقیہ تمام صحابہ سے راضی ہو جا؛ یا اللہ !اپنے رحم و کرم کے صدقے ہم سے بھی راضی ہو جا، یا ارحم الراحمین!

 
Top