• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ما مصدریہ ظرفیہ اور غیر ظرفیہ میں فرق کرنے کا ذریعہ

شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
50
ری ایکشن اسکور
95
پوائنٹ
64
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

فاضل بھائیوں سے سوال یہ ہے کہ ’ما‘ مصدریہ ظرفیہ اور غیر ظرفیہ میں فرق کس طرح کیا جاسکتا ہے یعنی کیسے پتا چلے گا کہ یہ ’ما مصدریہ‘ ظرفیت پر دلالت کر رہا اور یہ نہیں؟
سورت مزمل کی اس آیت میں ’ما‘ کی دلالت کیا ہے؟
واصبر علي ما يقولون واهجرهم هجرا جميلا

جزاكم الله خيرا!
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

فاضل بھائیوں سے سوال یہ ہے کہ ’ما‘ مصدریہ ظرفیہ اور غیر ظرفیہ میں فرق کس طرح کیا جاسکتا ہے یعنی کیسے پتا چلے گا کہ یہ ’ما مصدریہ‘ ظرفیت پر دلالت کر رہا اور یہ نہیں؟
سورت مزمل کی اس آیت میں ’ما‘ کی دلالت کیا ہے؟
واصبر علي ما يقولون واهجرهم هجرا جميلا

جزاكم الله خيرا!
آیت کریمہ کے اعراب حسب ذیل ہیں :
(وَاصْبِرْ عَلى ما يَقُولُونَ وَاهْجُرْهُمْ هَجْراً جَمِيلًا) عطف على ما تقدم واصبر فعل أمر وفاعله مستتر تقديره هو وعلى ما متعلقان باصبر
وجملة يقولون صلة ما واهجرهم عطف على اصبر وهجرا مفعول مطلق وجميلا نعت
(إعراب القرآن وبيانه)
--------------------------------------------
الجدول في إعراب القرآن الكريم
- (الواو) عاطفة (ما) حرف مصدريّ «2» ، (هجرا) مفعول مطلق منصوب..
والمصدر المؤوّل (ما يقولون) في محلّ جرّ ب (على) متعلّق ب (اصبر) .
وجملة: «اصبر ... » لا محلّ لها معطوفة على جملة اذكر.
وجملة: «يقولون ... » لا محلّ لها صلة الموصول الحرفيّ (ما) .
وجملة: «اهجرهم ... » لا محلّ لها معطوفة على جملة اصبر.
------------------------------------------
(2) أو اسم موصول في محلّ جرّ والعائد محذوف والجملة صلته.
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
(وَاصْبِرْ عَلى ما يَقُولُونَ وَاهْجُرْهُمْ هَجْراً جَمِيلًا) عطف على ما تقدم واصبر فعل أمر وفاعله مستتر تقديره هو وعلى ما متعلقان باصبر
جزاک اللہ خیرا تقدیرہ انت کی جگہ غلطی سے جلدی میں تقدیرہ ھو لکھا گیا

فاضل بھائیوں سے سوال یہ ہے کہ ’ما‘ مصدریہ ظرفیہ اور غیر ظرفیہ میں فرق کس طرح کیا جاسکتا ہے یعنی کیسے پتا چلے گا کہ یہ ’ما مصدریہ‘ ظرفیت پر دلالت کر رہا اور یہ نہیں؟
محترم بھائی اگرچہ ہمارے فاضل بھائی ٓپکو زیادہ بہتر گائیڈ کر سکتے ہیں مگر میں اس بارے اپنی رائے دے دیتا ہوں کوئی فاضل بھائی اصلاح کر دے گا
ما موصولہ ہو یا ما مصدریہ ہو اسنے اپنے مابعد سے ملکر پیچھے جملہ کا ایک جز بننا ہوتا ہے اب ما موصولہ تو اسم ہوتا ہے جواپنے صلہ کے ساتھ ملکر جملہ کا جزو بن سکتا ہے چاہے خبر بنے یا مفعول یا کچھ اور- لیکن ما مصدریہ کو زیادہ تر حرف مصدر سمجھا جاتا ہے اور اسکا کام صرف ما بعد فعل کے اندر زمانہ نکال کر اسکو مصدر کی تاویل میں کر دینا ہوتا ہے جس سے ما بعد فعل چونکہ مصدر کی تاویل میں یعنی اسم ہو جاتا ہے اسلئے وہ پھر ما موصولہ کی طرح جملہ کا جزو بن سکتا ہے اسکو سمجھنے کے لئے انگلش کی مثال لیتے ہیں
اردو اور انگلش میں فعل دو چیزوں پر مشتمل ہوتا ہے یعنی مصدری معنی(حدث) اور زمانہ البتہ عربی میں فعل میں ایک تیسری چیز بھی شامل ہوتی ہے اب جب آپ انگلش میں کسی فعل کے شروع میں to لگا دیں تو وہ اس فعل میں سے زمانہ کو نکال لیتا ہے پس باقی مصدری معنی رہ جاتا ہے پس to go کا معنی جانا بن جاتا ہے اور جانا مصدر یعنی اسم ہے اسکو انگلش میں جملہ کہا جاتا ہے یعنی غیر محدود جملہ یعنی وہ کسی ایک زمانہ ماضی حال مستقبل میں محدود نہیں رہتا بلکہ اسکو دوام حاصل
ہو جاتا ہے اب اس infinite جملہ کو آپ ما موصولہ کی طرح جملہ کا کوئی سا بھی جز بنا سکتے ہیں
اس کو سمجھنے کے بعد اب آتے ہیں ما مصدریہ ظرفیہ اور غیر ظرفیہ کی طرف
اس میں یاد رکھیں کہ ما کے بعد جو فعل ہے اگر وہ مدت کے معنی میں آ رہا ہو تو پھر ما مصدریہ ظرفیہ بن جائے گا اور اگر ایسا نہ ہو تو وہ ما مصدریہ غیر ظرفیہ بن جائے گا اسکو سمجھانے کے لئے بھی میں انگلش کی ایک مثال لیتا ہوں کہ انگلش میں کسی فعل کو مصدر کے معنی میں کرنے کے لئے جس طرح to کا استعمال ہوتا ہے اسی طرح کبھی ایک جملہ یا کلاز کو مین جملہ سے لنک کرنے کے لئے بھی کچھ الفاظ استعمال ہوتے ہیں جیسے when, what وغیرہ یہ conjunction کہلاتے ہیں اور یہ اپنے ما بعد سے ملکر جملے کا جز بنتے ہیں پس آپ خود دیکھ سکتے ہیں جو when کے بعد آئے گا وہ ما قبل کا ظرف ہی بن سکتا ہے کیونکہ اسکا ترجمہ 'جب' ہے جو مدت کو ظاہر کرتا ہے مگر دوسرا لفظ مدت کو ظاہر نہیں کرتا
I will come when you call
میں آوں گا جس وقت تم بلاو
یعنی یہاں conjunction چونکہ when تھا جو ظرفیہ ہوتا ہے اس نے ما بعد کو ظرف بنا دیا

I agree what you said
میں متفق ہو جو تم نے کہا
یہاں conjunction چونکہ what تھا جو ظرفیہ نہیں ہے پس اسنے ما بعد کو ظرف کی بجائے مفعول بنا دیا
لیکن عربی میں علیحدہ علیحدہ الفاظ کی بجائے ما سے دونوں معنی لئے جاتے ہیں اور ہم نے خود دیکھنا ہوتا ہے کہ ما اپنے مابعد فعل سے ملکر مدت کو ظاہر کر رہا ہے یا پھر غیر مدت کو ظاہر کر رہا ہے پس جب ما مصدریہ کا ما بعد فعل مدت کو ظاہر کر رہا ہو تو ما مصدریہ ظرفیہ ہو گا ورنہ نہیں
مثلا ما دمت حیا میں ما کے بعد والا فعل دام مدت کو ظاہر کر رہا ہے پس ما ظرفیہ ہو گا
اسی طرح کلما اضاء لھم مشوا فیہ
جبکہ غیر ظرفیہ میں ودو ما عنتم وغیرہ شامل ہوں گے

سورت مزمل کی اس آیت میں ’ما‘ کی دلالت کیا ہے؟
واصبر علي ما يقولون واهجرهم هجرا جميلا
جزاكم الله خيرا!
اس میں ما کو آپ مصدریہ غیر ظرفیہ بھی بنا سکتے ہیں البتہ یہ ما موصولہ ہے
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
فاضل بھائیوں نے بہترین وضاحت فرمائی ۔ میں بھی کچھ کہنا چاہوں گا کہ
عموما ایسی جگہوں پر ’’ ما ‘‘ کے اندر مصدریہ اور موصولہ دونوں طرح کی صلاحیت ہوتی ہے ۔ لہذا دونوں طرح ترکیب کی جاسکتی ہے ۔
البتہ جہاں ’’ ما ‘‘ کے بعد والا جملہ ایسا ہو کہ اس میں ’’ ضمیر غائب ‘‘ ظاہرا یا تقدیرا نہ ہو تو پھر ’’ ما ‘‘ کو موصولہ نہیں کہا جاسکتا ، کیونکہ ’’ صلہ ‘‘ کے اندر ایک ضمیر کا ہونا لازمی ہے جو موصول کی طرف لوٹے اور صلہ و موصول کا آپس میں ربط قائم رہے ۔ مثلا :
وضاقت علیہم الأرض بما رحبت
یہاں ’’ ما ‘‘ کو موصولہ نہیں بنا سکتے کیونکہ بعد والے جملے میں کوئی ایسی ضمیر نہیں نکالی جاسکتی جو اس کی طرف لوٹے ۔ واللہ اعلم ۔
 
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
50
ری ایکشن اسکور
95
پوائنٹ
64
جزاکم اللہ خیرا! اللہ آپ سب کے علم اور عمل میں اضافہ فرمائے۔ آمین

بھائیوں نے جو اوپر تفصیل بیان کی ہے اسکا علم مجھے تھا لیکن میں اصلا اسکا قرآن مجید کی بیان کردہ آیت پر اطباق نہیں کر پا رہا تھا اسی لیے سوال میں آیت کا بھی ذکر کیا۔

اصل مسئلہ یہ کہ ایک بھائ نے قرآن مجید کی اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے یہ کہا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کی طرف سے یہ حکم تھا کہ کفار جو بھی انکو اذیت دینے والی بات کہیں تو وہ اس پر صبر کریں۔ اور یہاں ’ما‘ کی دلالت مستقبل میں بھی لازم ہے یعنی جو وہ آپکی ہجو کرہے ہیں اس پر بھی اور جو مستقبل میں بھی کریں گے اس پر بھی آپ صبر کریں کیونکہ ’ما‘ کے بعد فعل مضارع حال اور مستقبل دونوں کو شامل ہے اور ’ما‘ عموم کا فائدہ دیتا ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ شاتم الرسول کو قتل کرنا قرآن سے ثابت نہیں۔

مجھے الحمد للہ اس موضوع سے متعلق دیگر دلائل کا علم ہے اسی طرح مفسرین کے معانی کا بھی لیکن میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ کیا ’لغوی‘ اعتبار سے جو بھائ نے دلیل دی ہے سورت مزمل کی آیت سے وہ درست ہے کہ نہیں؟

جزاکم اللہ خیرا!
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
البتہ جہاں ’’ ما ‘‘ کے بعد والا جملہ ایسا ہو کہ اس میں ’’ ضمیر غائب ‘‘ ظاہرا یا تقدیرا نہ ہو تو پھر ’’ ما ‘‘ کو موصولہ نہیں کہا جاسکتا ، کیونکہ ’’ صلہ ‘‘ کے اندر ایک ضمیر کا ہونا لازمی ہے جو موصول کی طرف لوٹے اور صلہ و موصول کا آپس میں ربط قائم رہے ۔ مثلا :
وضاقت علیہم الأرض بما رحبت
یہاں ’’ ما ‘‘ کو موصولہ نہیں بنا سکتے کیونکہ بعد والے جملے میں کوئی ایسی ضمیر نہیں نکالی جاسکتی جو اس کی طرف لوٹے ۔ واللہ اعلم ۔
جزاک اللہ خیرا اسکا الٹ اگر دیکھا جائے تو وہ بھی درست ہو گا کہ
البتہ جہاں ’’ ما ‘‘ کے بعد والا جملہ ایسا ہو کہ اس میں ’’ ضمیر غائب ‘‘ ظاہرا یا تقدیرا ہو تو پھر ’’ ما ‘‘ کو صرف موصولہ کہا جاسکتا
اسکی وجہ یہ ہے کہ ما مصدریہ حرف ہوتا ہے جسکی طرف ضمیر نہیں لوٹ سکتی
دوسری طرف کبھی ما موصولہ کی عائد ضمیر حذف بھی ہوتی ہے جیسے بئری ذو طویت و ذو حفرت کا شعر ہے

ویسے اوپر بتائی گئی آیت میں اگر ضمیر کا حذف بھی مانا جائے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ مقدر کیسے کی جائے گی کیونکہ اوپر ذو طویت کی تقدیر تو آپ ذو طویتہ کرتے ہیں جس میں ہ کی ضمیر بیری کو راجح ہے مگر واصبر علی ما یقولون میں محذوف نکالنے کی صورت میں جملہ کی تقدیر کیا ہو گی
اس تقدیر میں ضمیر ظاہرا تو نہیں نکال سکتے کیا تقدیرا نکالیں گے
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
ویسے اوپر بتائی گئی آیت میں اگر ضمیر کا حذف بھی مانا جائے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ مقدر کیسے کی جائے گی کیونکہ اوپر ذو طویت کی تقدیر تو آپ ذو طویتہ کرتے ہیں جس میں ہ کی ضمیر بیری کو راجح ہے مگر واصبر علی ما یقولون میں محذوف نکالنے کی صورت میں جملہ کی تقدیر کیا ہو گی
اس تقدیر میں ضمیر ظاہرا تو نہیں نکال سکتے کیا تقدیرا نکالیں گے
جی ما کو موصولہ قرار دینے کی صورت میں تقدیر عبارت یوں ہوگی :
واصبر على ما يقولونه
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
اس تقدیر میں ضمیر ظاہرا تو نہیں نکال سکتے کیا تقدیرا نکالیں گے
جی ما کو موصولہ قرار دینے کی صورت میں تقدیر عبارت یوں ہوگی :
واصبر على ما يقولونه
جی میرے ذہن میں بھی ہی تقدیر تھی مگر میرے ذہن میں اسکا اشکال یہ تھا کہ ہ سے یہاں مراد قول ہے اور قول مفعول مطلق ہے نہ کہ مفعول بہ
ویسے اب یاد آ گیا ہے کہ مفعول مطلق اس وقت ہو گا جب ضمیر کی صورت میں نہ ہو جزاک اللہ خیرا
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
اصل مسئلہ یہ کہ ایک بھائ نے قرآن مجید کی اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے یہ کہا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کی طرف سے یہ حکم تھا کہ کفار جو بھی انکو اذیت دینے والی بات کہیں تو وہ اس پر صبر کریں۔ اور یہاں ’ما‘ کی دلالت مستقبل میں بھی لازم ہے یعنی جو وہ آپکی ہجو کرہے ہیں اس پر بھی اور جو مستقبل میں بھی کریں گے اس پر بھی آپ صبر کریں کیونکہ ’ما‘ کے بعد فعل مضارع حال اور مستقبل دونوں کو شامل ہے اور ’ما‘ عموم کا فائدہ دیتا ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ شاتم الرسول کو قتل کرنا قرآن سے ثابت نہیں۔

مجھے الحمد للہ اس موضوع سے متعلق دیگر دلائل کا علم ہے اسی طرح مفسرین کے معانی کا بھی لیکن میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ کیا ’لغوی‘ اعتبار سے جو بھائ نے دلیل دی ہے سورت مزمل کی آیت سے وہ درست ہے کہ نہیں؟

جزاکم اللہ خیرا!
یہ استدلال درست نہیں اسکی وجہ یہ ہے کہ ما کو مصدریہ بھی لیں تو وہ بات ثابت نہیں ہوتی جو وہ کرنا چاہ رہے ہیں
اسکی وجہ یہ ہے کہ قرآن میں اکثر حکم آئے ہیں جن میں زمانہ کی قید نہیں یعنی ایسا لگتا ہے کہ ہمیشہ کے لئے ہی ہیں مگر بعد میں انکو ختم کر دیا گیا
مثلا قرآن میں ہے کہ الم تر الی الذین قیل لھم کفوا ایدیکم واقیموا الصلوۃ واتوالزکوۃ
اب یہاں حکم ہے کہ اپنے ہاتھ روکے رکھو تو اتنی آیت سے کیا کوئی یہ کہ سکتا ہے کہ یہ حکم چند دنوں کے لئے تھا بلکہ اس میں کفوا امر کا صیغہ ہے اور باقی قرآن کے اوامر کی طرح ہمیشگی پر ہی دلالت کرتا ہے مگر اسی آیت کے آگے اللہ فرماتا ہے کہ
فلما کتب علیھم القتال اذا فریق منھم یخشون الناس کخشیۃ اللہ
کہ بعد میں اللہ نے اس حکم کو جو ہمیشہ کے لئے تھا اسکو اللہ نے بدل کر قتال کا حکم نازل کر دیا تو یہ قرآن کے خلاف معاملہ نہیں کہ اگر کوئی حکم ہمیں ہمیشہ کے لئے ہی نظر آ رہا ہو تو آگے جا کر اللہ تعالی اسکو تبدیل نہیں کر سکتا
پس شروع میں اللہ تعالی نے اگر صبر کرنے کا دوام کے صیغہ سے کہا تو بعد میں اگر آپ کو قرآن و سنت سے اسکا نسخ نہ ملے تو پھر تو آپ حق بجانب ہو سکتے ہو ورنہ یہ اصول آپ نے کہاں سے نکال لیا
اسکی مثال ہم آپ کو ایک چوکیدار سے دیتے ہیں فیکٹری کا مالک یہ سمجھتا ہے کہ ابھی ہم نے اس علاقے میں اثر و رسوخ حاصل نہیں کیا ایک دن سامنے والے جان بوجھ کر لڑائی نکالنے لگ گئے تو اس مالک نے چوکیدار کو کہا کہ
سامنے والوں نے آج مجھے گالیاں دیں کوئی بات نہیں وہ بعد میں بھی اگر مجھے گالیاں دیں تم نے انکا کبھی بھی جواب نہیں دینا اور کبھی بھی ان سے لڑائی نہیں کرنی
اب چند دن بعد جب مالک کا اس علاقہ میں اثر و رسوخ بڑھ جاتا ہے تو پھر جب سامنے والا گالی دیتا ہے تو مالک اس چوکیدار کو کہتا ہے کہ اس کو پھینٹی لگاؤ
وہ عقلمند چوکیدار کہتا ہے کہ مالک جی آپ نے پہلے جو مجھے حکم دیا تھا اس میں الفاظ "کبھی بھی" استعمال کیے تھے اور "کبھی بھی" سے مراد ہوتی ہے کہ اس حکم میں ہمیشگی اور دوام ہے پس میں انکو کبھی بھی پھینٹی نہیں لگاوں گا تو ہمیں اس عقل مند چوکیدار کو داد دینی چاہئے یا نوکری سے ہی نکال دینا چاہئے
 
Top